Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نماز قصر

محمد حامد سراج

نماز قصر

محمد حامد سراج

MORE BYمحمد حامد سراج

    ڈھولک کی تھاپ پر لڑکیاں رخصتی کا گیت گا رہی تھیں۔۔۔!

    کِناں جمیاں تے کناں لے جانڑیاں

    (کس گھر جنم لیا اور کون ہمیشہ کے لیے لے جائےگا)

    میں لڑکیوں کے جھرمٹ میں گیت کے بول سن کر ایک لمحے کو اداس ہوئی اور کسی بہانے کمرے سے نکل کر باہر صحن میں آ گئی۔ آسمان تاروں سے جگمگا رہا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ فضا میں جھینگر کی آواز ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیوار ودر کو غور سے دیکھا۔ اینٹوں کی درزوں سے میرا بچپن نکل آیا۔ میں صحن میں سٹاپو کھیلنے لگی۔ کھیلنے کے بعد نل سے پانی کی بالٹی بھر لائی۔ ماں کے ساتھ چولہے میں لکڑیاں رکھنے میں ہاتھ بٹایا۔ توے پر روٹی ڈالی اور گرم گرم روٹی با با کے سامنے لا رکھی۔

    ’’بابا۔۔۔ سالن میں مرچیں تیز تو نہیں ہو گئیں۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں بیٹا۔۔۔‘‘

    ’’با با۔۔۔ ٹھہریں میں دودھ لا دیتی ہوںآپ تو ایسے ہی کہہ دیتے ہیں کہ مرچیں نہیں ہیں۔ ‘‘

    میں نے بابا کے سامنے سے پلیٹ اٹھا لی اور دودھ کا گلاس رکھ دیا۔

    بچپن اینٹ کی درزوں کا رستہ بھول گیا۔

    میں بچپن کا ہاتھ تھام کے رو دی۔۔۔ کیا میں اس گھر سے ہمیشہ کے لیے جا رہی ہوں۔ یہ درخت، منڈیر پر بیٹھا کوا، برآمدے میں چڑیوں کا گھونسلہ، ماں، بھائی بہن، نل سے گرتا تازہ پانی، توے پر سے اترتی گرم روٹی، بابا کا سالن، سہیلیاں، سٹاپو، گڑیاں پٹولے سب کے سب چھوڑ جاؤں گی۔۔۔؟وہ آزادی جو مجھے اس گھر میں تھی کیا اسے کھو دوں گی۔۔۔؟ماں باپ سے لڑنا جھگڑنا، محبت اور ضد، اپنی بات منوا لینے کا مان، کیا یہ سب دیوار کے اس پار جس گھر میں جا رہی ہوں وہاں نہیں ہوگا۔

    اینٹ کی درزوں سے جھانکتا بچپن میرے وجود سے لپٹ گیا۔ میں ایک لمحے میں وہ تمام لمحے کھنگال آئی جو میری زندگی کا حاصل تھے۔ بیمار ہونا، میری بیماری میں بابا اور ماں کا بےچین ہونا، ہر موسم میں میری ہر ضرورت کا خیال رکھنا، بابا کا پنسل تراش کے دینا، سکول کی کاپیوں پر خاکی رنک کے کور چڑھانا، کتابوں کی جلد بندی سے یونیفارم اور سکول کے بستے کے رنگ میرے من میں رنگ بھرنے لگے۔

    میں نے کچے صحن کی مٹی کو ہاتھ سے چھوا اور چوم لیا۔

    یہ میرے بابا کا گھر ہے۔ اسے کون چھین سکتا ہے مجھ سے۔۔۔؟ میں اسے مکمل اپنے اندر تعمیر کر لوں گی۔ سسرال میں کون روک سکے گا مجھے۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مَیں بابا کے گھر کود جایا کروں گی۔

    اندر ڈھولک کی تھاپ پر گیت کے بول اٹھاتی لڑکیوں کے قہقہے مجھے سنائی دیے، بچپن چپکے سے اینٹوں کی درزوں میں چھپ گیا۔ میں کمرے میں آ گئی۔

    شادی کی تیاریاں جوبن پر تھیں۔ کپڑے سجائے اور دکھائے جا رہے تھے۔ زیور، رنگ برنگی چوڑیاں، میک اپ کا سامان، رشتہ دار، باتیں قہقہے، سہیلیاں، کھانے، چائے، رنگ ونور کی برسات تھی۔

    رخصتی کے روز سورج قریباً نو گھنٹے کا سفر طے کر کے میرے گھر کی دیواروں پر اداسی کے قلم سے ہجر کے نقش و نگار بنا رہا تھا۔ کار ریورس کر کے لگا دی گئی تھی۔ پاؤں کے نیچے سے سرکتی زمین پر پاؤں دھرتی میں کار تک پہنچی۔ ماں کی آنکھیں سرخ تھیں۔ بابا جو سنبل کے درخت کی آدھی چھاؤں میں کھڑا تھا، اس کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ چکا تھا۔

    میرا بچپن گھر کی دیواروں سے اتر کرمیرے ساتھ کار میں بیٹھنا بھول گیا۔

    کار جب بستی کا آخری موڑ مڑی تو منظر دھندلا گئے۔

    بابا جو سنبل کے درخت کی آدھی چھاؤں میں کھڑا تھا۔۔۔ اس نے دھندلی آنکھوں سے دیوار و در کو دیکھا۔

    گھر ایک دم خالی ہو گیا۔۔۔ بنجر، اداس، بکھرا، اجڑا سا۔

    گھر کی روح کار میں بیٹھ کر گھر سے رختِ سفر باندھ گئی۔

    تیسرے روز کی بات ہے۔

    گھر میں چہل پہل تھی، رونق، رنگ ونور کی برسات۔

    میں گھر آئی تھی۔

    عصر کے وقت میں نے کھنکتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

    ’’بابا۔ اب یہاں اس گھر میں مَیں مکمل نماز ادا کروں گی یا نمازِ قصریعنی سفر کی نماز۔؟‘‘

    ’’بیٹا۔۔۔ یہ گھر اب تمہارا نہیں ہے تم نمازِ قصر ادا کروگی۔‘‘

    دیواروں کی درزوں میں میرا بچپن رونے لگا۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے