کم کم بہت آرام سے ہے
میری دلاری دادی ماں
کئی ہفتوں بعد آج جب میں کابل واپس پہنچی تو ڈاک ملی۔ گھر سے آپ کے علاوہ بھی کئی چھٹیاں آئی ہیں۔ ماتاجی اور بھیا کی، اومادیدی اور ششمتا کی۔ پر سب سے پیارا پتر آپ کا ہے جس میں آپ نے اتنے دنوں سے چٹھی نہ لکھنے پر مجھے کونے میں منہ دے کر کھڑا کردینے، کان مروڑنے اور مرغا بنادینے کی دھمکیاں دی ہیں۔ آپ کی یہ ساری ڈانٹ پھٹکار پڑھ کر مجھے لگا جیسے میں چھوٹی سی ہوگئی ہو ں اور آپ کی گود میں چڑھی بیٹھی ہوں۔ آپ اپنی جھولا کرسی میں ہل رہی ہیں اور آپ کے ساتھ میں بھی جھول رہی ہوں۔
آپ مجھے کہانیاں سنارہی ہیں۔ برابر میں رکھی ہوئی تپائی پر سفید چینی کا بڑا سا پیالہ دھرا ہے جس کا کنارا آپ کی آب رواں کی ساڑی کے کناری جیسا نیلا ہے۔ پیالے میں سے آپ اخروٹ، کشمش یا بادام کا دانہ اٹھاکر میرے منہ میں رکھ دیتی ہیں، میں شرارت سے آپ کی انگلیاں دانتوں میں دبالیتی ہوں۔ آپ مجھے گھورتی ہیں اور پھر مجھے اپنے بیتے جنموں کی کہانیاں سنانے لگتی ہیں، جب آپ ہنس تھیں اور اڑتی ہوئی کیلاش کی چوٹی پر جااتری تھیں، جب آپ مچھلی تھیں اور گنگا، جمنا، سرسوتی اور ساردا میں تیرتی پھرتی تھیں، جب آپ ہزار پتوں والا کنول تھیں اور آپ کی سندرتا دیکھنے اور آپ کی سگندھ سے مست ہونے کے لیے راجے مہاراجے آتے تھے۔
اور ایک تو بالکل سچ مچ کا قصہ تھا۔ آپ کے بچپن کی کہانی جو کابل کے بنجارے رحمت کی تھی، پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر آپ ڈر گئیں تھیں اور سمجھی تھیں کہ اس کی جھولی میں چھوٹے چھوٹے بچے بھرے ہوے ہیں، پھر آپ کی اس سے دوستی ہوگئی تھی۔ وہ آپ کی باتیں سنتا اور آپ کا چھوٹا سا آنچل بادام، کشمش اور اخروٹ سے بھردیتا۔ ایک دن اس نے آپ سے کہا تھا کہ اس کی چھوٹی سی جھولی میں بڑا سا ہاتھی ہے۔ آپ نے بتایا تھا کہ جس دن رحمت بابا آٹھ برس کی جیل کاٹ کر آیا اسی دن آپ کے پھیرے ہونے والے تھے، وہ کسی دوسرے بنجارے سے آپ کے لیے میوہ مانگ کر لایا تھا اور آپ کو وہی میوہ دان کرکے چلاگیا تھا۔ اس کا قصہ جب آپ نے مجھے پہلی بار سنایا اور آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے تب میں نے جانا تھا کہ بڑے بھی بچوں کی طرح روسکتے ہیں۔
آپ نے بتایا تھا کہ رحمت بابا کی بھی آپ برابر کی ایک بیٹی تھی جو کابل میں رہتی تھی۔ اس کے پاس اس کی تصویر اتروانے کے لیے پیسے نہ تھے یا شاید اس زمانے میں فوٹو گرافر کابل میں نہ پائے جاتے ہوں، تو اس نے اپنی بیٹی کے ہاتھ کا رنگین چھاپا ایک کاغذ پر لے لیا تھا اور اس کاغذ کو سینے سے لگائے پھرتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے پتاجی میری تصویر اپنے والٹ میں رکھتے تھے۔ آپ کے پتاجی اور میرے بڑے ناناجی نے رحمت بابا کو کابل جانے اور بیٹی سے ملنے کے لیے کچھ رقم بھی دی تھی جس پر بڑی نانی جی بہت ناراض ہوئی تھیں۔ آپ نے بتایا تھا کہ اس کے بعد پھر وہ کبھی نہیں آیا۔
ان دنوں جب درد سے چیختے ہوئے، خون میں ڈوبے ہوئے گھائل یا دم توڑتے ہوئے لوگ میرے پاس لائے جاتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ اب سے ستر برس پہلے اگر آپ نے رحمت بابا کی جھولی کے بادام اور پستے نہ کھائے ہوتے، اگر میرے بڑے ناناجی نے اس کی کہانی نہ لکھی ہوتی تو کیا میں یہاں کابل یا قندھار میں، ہرات یا ہلمند میں ہوتی؟ شاید نہیں بلکہ یقیناً نہیں۔
پچھلے اکتوبر کے وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب کابل پر امریکی ہوائی جہازوں نے بم گرانے شروع کیے تھے اور ٹیلی وژن پر وہ بمباری دکھائی جانے لگی تھی۔ آپ نے اپنی جھولا کرسی برآمدے سے اٹھواکر لاؤنج میں رکھوالی تھی اور سارا وقت ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی رہتیں۔ ماتا جی، سشمتا، بھیا سب ہی ناراض ہوتے کہ آخر آپ کیوں اپنی آنکھوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ یہ تو میں تھی جو اصل بات جانتی تھی، آپ کی دوستی تو بس مجھ سے رہی ہے یا شاید میں نے ہوش سنبھالتے ہی آپ کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا اور کسی کو آپ کے قریب پھٹکنے نہیں دیا تھا۔ ظالم جاگیرداروں کی طرح میں نے ہمیشہ آپ سے پریم کا لگان پائی پائی کرکے وصول کیا۔ کوئی آپ کو اس طرح جانتا ہی نہیں جیسے میں جانتی ہوں۔
ساٹھ برس سے بھی پہلے بڑے ناناجی نے رحمت کابلی والا کا جو قصہ لکھا تھا، دنیا والے اس کہانی کے عاشق ہیں۔ پر ہمارے گھر میں آپ کے اور میرے سوا کوئی اس کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ کہانی آپ کو اس لیے یاد رہی کہ آپ اس کی ہیروئن تھیں اور مجھے اس لیے کہ میں نے ان گنی مرتبہ آپ کی گود میں بیٹھ کر وہ قصہ سنا ہے۔
امریکی بمباری کے خلاف کول کٹا، شما کیجیے گا، مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ کلکتہ، بمبئی اور مدراس کے نئے نام سن کر آپ کو غصہ آجاتا ہے، ہاں تو جب کلکتہ کی سڑکوں پر لاکھ لوگوں کا جلوس نکلا تو میں بھی اس میں گئی تھی، ٹیلی وژن پر میری ایک جھلک دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئی تھیں اور جلوس میں نہ جانے پر آپ نے بھیا اور سشمتا کو طعنے دیے تھے۔ پھر جب ریلیف ورک کے لیے کابل کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی طرف سے ڈاکٹروں کی مانگ آئی اور میں نے والنٹیر کیا تو یہ صرف آپ تھیں جنہوں نے مجھے آشیرواد دی، ورنہ گھر میں تو سب ہی ناراض ہوئے تھے۔ ماتاجی کا غصے سے برا حال تھا، ’’بھلا چلتا ہوا ہسپتال چھوڑ کر یوں موت کے کنویں میں کود جانا کس وید، کس گیتا میں آیا ہے؟‘’ اور آپ کی خوشی دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’تمہاری دادی ماں تو سٹھیاگئی ہیں لیکن تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس مارا ماری میں جارہی ہو؟‘‘
مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے دادی ماں کہ بڑے ناناجی کی اور آپ کی طرح میری ماتاجی آدرش وادی نہیں ہیں۔ وہ ایک پریکٹیکل بزنس وومن ہیں، نہ ہوتیں تو پتا جی کے چلے جانے کے بعد ان کا اتنا بڑا بزنس کیسے سنبھالتیں۔ میں آپ پر اور بڑے ناناجی پر گئی ہوں، تب ہی جاگتی آنکھوں سپنے دیکھتی ہوں۔
لیجیے دادی ماں، میں تو چٹھی لکھنے کی بجائے کتاب لکھنے بیٹھ گئی۔ شاید ایسا ہے کہ میں نے یہاں آکر اتنے دنوں میں آپ کے نام کوئی چٹھی نہیں بھیجی تو اب اس کی کمی پوری کر رہی ہوں۔
میں جانتی ہوں کہ کابل آپ کو بن دیکھے ہی اچھا لگتاہے۔ آپ نے مجھے بتایا ہے کہ بچپن میں آپ نے رحمت بابا کی بیٹی کو اپنی ان دیکھی گوئیاں بنالیا تھا۔ خیالوں میں اس کی گڑیا سے اپنے گڈے کا بیاہ رچاتی تھیں۔ گڈا آپ کا اور گڑیا اس کی، سوگڑیا بیاہ کر کابل سے کلکتہ چلی آتی تھی۔ بڑے ناناجی کہانیاں لکھتے تھے اور آپ ان کی اکلوتی چہیتی بیٹی تھیں، آپ نے اگراپنا اکیلا جیون کہانیوں سے بہلایا تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ لیکن بڑی نانی جی نے جب آپ سے یہ باتیں سنی تھیں تو ناراض ہوگئی تھیں۔ بھلا ہندو گڈے مسلمان گڑیا کا بیاہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پھیرے ہوں گے یا نکاح؟ بڑے ناناجی نے یہ بات سنی تھی تو بہت خفا ہوئے تھے، ’’تم عورتوں کو فساد پھیلانے کے سوا بھی کچھ آتا ہے؟ کم سے کم گڈے گڑیا کو تو دین دھرم کے چکر میں مت ڈالو۔‘‘ انہوں نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا تھا اور بڑی نانی جی بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی تھیں۔ آپ نے یہ بات مجھے ہنس ہنس کر سنائی تھی، ’’پتاجی کا دل بہت بڑا تھا، اس میں ایشور اللہ، ہند ومسلمان سب رہتے تھے۔‘‘ آپ نے بڑے ناناجی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا اور جب میں نے میڈیکل کالج میں پہلی مرتبہ Heart Dissection کیا تو اس میں بے اختیار اللہ ایشور، ہندومسلمان کو ڈھونڈا تھا لیکن وہاں تو صرف مسلز، وینز اور آرٹریز تھیں۔
میں جب کابل کے لیے چلی ہوں تو آپ پرارتھنا کرنے برلامندر گئیں، پھر آپ ناخدا مسجد بھی ہو آئیں۔ گھر میں جب ڈرائیور نے یہ بتایا تو سب حیران ہوگئے تھے، ’’یہ مسجد جانے کی کیا تک تھی؟‘‘ ماتاجی نے جھنجھلاکر کہا تھا۔ ’’ارے مجھے خیال سوجھا کہ یہ مسلمانوں کے ملک جارہی ہے تو اس کی رکھشا کے لیے مسجد ہو آؤں۔ اللہ سے کہہ آؤں کہ میری پوتی کا دھیان رکھیو۔‘‘ ماتاجی کا چہرہ آپ کی اس بات کو سن کر لال ہوگیا تھا اور آپ نے بہت سادگی سے پوچھا تھا، ’’لو بہو، اس میں کیا برائی ہے۔ میرے پتاجی تو باؤل فقیروں کی منڈلی گھربلاتے تھے۔ جھوم جھوم کر ان کے بھگتی گیت سنتے تھے، دان پن کرتے تھے۔‘‘ آپ کی یہ بات سن کر ماتاجی تیز قدموں سے چلتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھیں اور میں سب کی نظروں میں چور بن گئی تھی جس کی وجہ سے یہ ساری تناتنی ہوئی تھی۔
میری محبت میں آپ مندر گئیں، مسجد گئیں، حالانکہ خود تو آپ کچھ ناستک سی ہیں، صبح شام دیوی دیوتاؤں سے آپ کا جھگڑا چلتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ بڑے ناناجی بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ تب ہی تو میرے ساتھ بھی خاصی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ میری سکھیاں شاید اسی لیے مجھے گڑبڑ جھالا کما ری کہتی ہیں۔ آپ نے ایشور اور اللہ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ پر بات کرکے بہت اطمینان سے مجھے کابل بھیج دیا، شاید ایک مرتبہ بھی آپ خواب میں اس شہر کو دیکھ لیتیں تو مجھے کبھی نہ آنے دیتیں۔ یہاں ہرگھر کی دیوار پر موت کا سایہ ہے، ہر گلی اور ہر بازار میں خون کی لکیریں ہیں۔ رحمت بابا تو جانے کب کا رخصت ہوا، اس کی بیٹی بھی اب کہیں نہیں رہی ہوگی۔ اس کی اولادیں جانے سوویت سینکوں کی گولی سے چھلنی ہوئیں یا امریکی بمباری سے یا شاید فاقے سے مرگئی ہوں۔ یہاں ہر طرف تباہی کا راج ہے، اس ملک کا ہر شہر کھنڈر ہے۔ میں گھر سے چلی ہوں تو آپ نے میرے ہاتھوں کو پیار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ان سے سارے گھاؤ سی دینا۔‘‘ لیکن دادی ماں یہاں میں گھاؤ سیتے سیتے تھک گئی پر گھائل ختم نہیں ہوتے۔
میں نے ان مہینوں میں آپ کو یا کسی کو بھی کوئی چٹھی نہیں بھیجی تو اس لیے کہ ہمیں تو نوالہ کھانے اور نیند لینے کی فرصت نہیں تھی۔ ہندوستانی، جرمن اور جاپانی ڈاکٹروں کی ہماری ٹیم شہر شہر پھرتی رہی ہے۔ ہم صبح سے شام تک اور رات کو جنریٹروں کی روشنی میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے بدن سے کلسٹربم کے ٹکڑے اور ریزے چنتے رہے، بارودی سرنگوں سے اڑجانے والے ہاتھوں اور پیروں کے گھاؤ سیتے رہے۔ خون کی بُو میرے اندر بس گئی ہے۔ پہلے پہل میرا جی چاہا کہ اس بُو سے چھٹکارے کے لیے اپنے ہاتھوں اور کپڑوں پر خوشبو کی آدھی شیشی انڈیل لوں لیکن پھر مجھے شرم آئی۔ جنہیں مہینوں اور برسوں سے ایک وقت بھی پیٹ بھر پر کھانا نہ ملتا ہو، جن کے نتھنوں میں صرف خون اور بارود کی بُو ہو، ان کے بیچ رہتے ہوئے صاف پانی سے گندے ہاتھ دھونا بھی نوابی ٹھاٹھ لگتا ہے۔
ایک سمے تھا دادی ماں کہ بامیان اور بلخ تک ہمارے اشوک اور کنشک کا راج تھا لیکن دھرتی پر کب کسی ایک راجا کا راج رہا ہے۔ عرب آئے، ترک آئے، چنگیز خان کی فوجیں آئیں، اس نے اپنے پوتے کو بامیان فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن وہ لڑکا لڑائی میں کام آیا۔ چہیتے پوتے کی موت چنگیز خان کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھی کہ اس نے بامیان کی وادی میں کسی ایک جان دار کو جیتا نہ چھوڑنے کی سوگندھ کھائی۔ سو کوئی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا جیتا نہ چھوڑا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ماؤں کے پیٹ چیر کر ان کے بچے نکالے گئے اور ٹکڑے کردیے گئے۔ بامیان کی گلیوں میں پھرنے والے کتے، بلیاں زندہ نہیں چھوڑے گئے اور اس کی ہواؤں میں اڑنے والے پرندے بھی تیروں سے چھید دیے گئے۔
ہم بامیان گئے تو کچھ دیر کے لیے وہاں گئے جہاں پہاڑی کی اونچی اونچی چٹانوں کو تراش کر مہاتما بدھ کی مورتیاں بنائی گئی تھیں۔ چنگیز خان نے پوتے کے انتقام میں بامیان کا کوئی جاندار جیتا نہیں چھوڑا تھا۔ طالبان نے اپنا غصہ پتھر کی مورتیوں پر نکالا۔ میں نے ایک جاپانی ڈاکٹر کی آنکھو ں میں آنسو دیکھے لیکن میری آنکھوں میں نمی بھی نہیں آئی۔ آپ خود سوچیں دادی ماں کہ جنہوں نے اپنے جیتے جاگتے لوگ، اپنی پوری نسل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردی، ان سے اس بات کی کیا شکایت کہ انہوں نے مہاتما بدھ کی وہ مورتیاں ڈائنامائٹ سے، توپ کے گولوں سے کیوں اڑادیں۔
چنگیز خان اور اس جیسے دوسرے بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کا غصہ ان شہروں پر اترتا تھا جو ان کے راستے میں آتے تھے اور ان کی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھاتے تھے لیکن دادی ماں امریکہ کا غصہ تو قندھار سے قندوز اور خوست سے قلعۂ جنگی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لڑاکا ہوائی جہاز تورا بورا اور طالقان پر بمباری کرتے ہیں۔ یہاں کی دھرتی میں بارودی سرنگیں یوں بوئی گئی ہیں جیسے کسی کھیت میں بیج چھڑک دیے جاتے ہیں۔ موت کے بیج۔ بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب ہی ان کا نوالہ بنتے رہتے ہیں۔ جن کے ٹکڑے اڑگئے، لوگ انہیں خوش نصیب سمجھتے ہیں، ورنہ یہاں کسی کا ایک ہاتھ نہیں اور کوئی دونوں ہاتھ کھوبیٹھا ہے، کسی کی ٹانگیں نہیں رہیں۔ میں نے وہ بھی دیکھے جن کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر غائب ہیں۔ یوں جانیں کہ جیتا جاگتا انسان گوشت کا ایسا لوتھڑا بن گیا ہے جسے بھوک لگتی ہے، جو سوچ سکتا ہے اور لمحہ لمحہ اپنے ہونے کا دکھ بھوگتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مجھے برسات سے کیسا عشق تھا، جہاں چھینٹا پڑا اور میں باؤلی ہوئی۔ ماتاجی سے کیسی جھڑکیاں سنتی تھی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ بارش کے ساتھ میں بھی ندی نالوں میں، دریا میں چل نکلوں۔ ہاتھ پاؤں مٹی میں سنے ہوئے، کپڑوں سے پانی ٹپکتا ہوا۔ آپ ساڑی کا پلو اڑسے ہوئے میرے پیچھے آواز دیتی پھرتیں، ’’اری کُم کُم، چل اندر چل، اشنان کرکے کپڑے بدل، بیمار پڑجائے گی۔‘‘ ساتھ ہی آپ ہنستی جاتیں، بڑبڑاتی جاتیں، ’’اس گھر میں بس ایک کُم کُم ہے جس کا دھرتی سے سچا ناتا ہے، ورنہ میرے گھر کے سارے بچے ولایتی ہوگئے، کھڑکیو ں سے جھانک کر مینہ کا برستا ہوا جھالا دیکھ لیتے ہیں۔ رسوئیا نے دال بھری کچوریاں تل دیں تو انہیں میز پر بیٹھ کر کھالیا، لو بھیا برسات کے مزے لوٹ لیے۔ ارے بچے بھلا کہیں ایسے ہوتے ہیں۔‘‘
ہم دونوں جب پانی میں بھیگتے ہوئے، چھپ چھپ کرتے اندر آتے اور چمکتی ہوئی ٹائلوں والا فرش ہمارے ہر قدم سے گندا ہوتا تو ماتاجی چپ چاپ ہمیں دیکھتی رہتیں۔ آپ ان کی ساسوماں تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود بڑی ٹھکرائن تھیں۔ بڑے ناناجی دکانیں، مکان، باغ، بغیچے اپنے دیہانت سے پہلے سب آپ کے نام لگا گئے تھے۔ بھلا کس کی مجال تھی کہ آپ سے کچھ کہتا۔ ماتاجی آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں، اس لیے شامت رگھودا کی آتی جنہیں وہ چیخ چیخ کر فرش صاف کرنے کا حکم دیتیں۔ ایسے میں آپ چپکے سے میرے کان میں کہتیں، ’’دیکھ کُم کُم دیکھ، تیری ماں کے کان سے دھواں نکل رہا ہے۔‘‘ میں ٹھی ٹھی کرکے ہنستی اور نیچی آواز میں فائر بریگیڈ بلانے کا مشورہ دیتی۔ تب آپ میرا کان مروڑتیں، ’’منہ بند رکھ، تیری ماں نے سن لیا تو تجھے کھانا نہیں ملے گا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا دادی ماں آپ اور میں ٹالی گنج کلب چلیں گے۔‘‘
’’ٹالی گنج کلب چلیں گے۔۔۔‘‘ آپ میری نقل اتارتیں، پھر دھیمی آواز میں ڈانٹتیں، ’’اور وہاں جاکر تین دن کا کھانا تو آدھے گھنٹے میں ٹھونس لے گی، پھر پیٹ پکڑے پھرے گی۔ اس کے بعد ڈاکٹر بنرجی کو بلاؤ، ہسپتال لے کر بھاگو۔ نابابا تو بھوکی ہی بھلی۔‘‘
’’آپ تو دادی ماں بالکل کنجوس ماڑواڑی ہیں۔ ارے تھوڑا سا پستہ بادام دے دیں گی تو کال نہیں پڑجائے گا۔‘‘ میں ٹھنکتی، پھر مجھے کاجو یاد آجاتے، بھنے ہوئے خستہ نمکین کاجو، بالکل سنہرے رنگ کے۔ لیجیے یہ سب کچھ یاد کرتے ہوئے اس وقت بھی میرے منہ میں پانی آگیا ہے۔ ’’ہائے دادی ماں۔ مجھے کاجو کی بھوک لگی ہے۔ آپ کی الماری میں شیشے کا مرتبان بھرا ہوا ہے۔‘‘ میری آنکھیں جگنو کی طرح چمکنے لگتیں۔ آپ پہلے مجھے گھورتیں، پھر میری پیٹھ پر ایک ہلکا سا دھموکا جڑتیں، ’’میری الماری میں کیا ہے، تجھے کیسے معلوم؟ بڑی شرلک ہومز بنی پھرتی ہے۔‘‘
’’مجھے سب معلوم ہے آپ میری دادی ماں ہیں، تو پھر مجھے کیسے معلوم نہیں ہوگا۔‘‘ میں تیز لہجے میں کہتی۔
لیجیے دادی ماں، میں بھی جانے کہاں سے کہاں نکل گئی۔ شاید گھر مجھے بہت یاد آرہا ہے، آپ کی مسہری پر اوندھے لیٹنے کواور آپ سے بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اتنے دنوں بعد آپ سے باتیں کرنے بیٹھی ہوں تو برسات کے پرنالے کی طرح باتیں شراٹے سے بہتی چلی جارہی ہیں۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ جب میں یہاں آئی تو مجھے برسات سے ڈرلگنے لگا۔ یہاں کے بچے برسات میں نہانہیں سکتے، کاغذ کی ناؤبناکر بہتے پانی میں چلانہیں سکتے، اس لیے کہ برسات کا تیز پانی بارودی سرنگوں کی جگہ بدل دیتا ہے۔ وہ جگہ جو پہلے محفوظ تھی، وہاں بارود بچھ جاتی ہے۔
آپ نے مجھے بنگال کی بھک مری کے کیسے بھیانک قصے سنائے ہیں، ایسی بھک مری کہ جب ماؤں نے دونوالے بھات کے لیے اپنے بچے بیچ دیے تھے۔ بڑے ناناجی کے صندوق کے سامان کو دھوپ دکھاتے ہوئے ایک بار آپ نے اس کال سے مرنے والوں کی تصویریں مجھے دکھائی تھیں۔ فٹ پاتھ پر مرتے ہوے بچوں، عورتوں اور مردوں کی تصویریں۔ یوں جیسے شمشان گھاٹ میں مردے انتم سنسکار کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں۔ یہاں بھی دادی ماں بھوک کا راج ہے۔ میں نے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے ایسے ہزاروں بچے اور عورتیں دیکھیں جنہوں نے سینکڑوں میل کا سفر کیا اور پھر ریلیف کیمپوں سے چند میل کے فاصلے پر گرگئیں، ان میں چند قدم چلنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ بچے اپنی حیران آنکھوں اور عورتیں اپنے پھٹے ہوئے چکٹ نیلے برقعوں کی جالیوں سے نیلے آسمان کو تکتی تھیں۔ اس انتظار میں کہ موت آئے اور اپنے ساتھ بھوک، بیماری اور تھکن سے نجات کانسخہ لائے۔ یہاں عورتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ کو لکھنے بیٹھوں تو جس کاغذ پر لکھوں گی وہ جل جائے گا۔
آپ کو یاد ہوگا جگن ناتھ یاترا کے لیے کیسی تیاریاں ہوتی تھیں۔ آپ میرے لیے لکڑی کاچھوٹا سا رتھ منگواتیں، ساتھ میں جگن ناتھ جی کی، ان کے بڑے بھیا بلرام کی اور چھوٹی بہن سبھدرا کی مورتیاں آتیں۔ آپ سوئی دھاگہ لے کر ان مورتیوں کے لیے چھوٹے چھوٹے ریشمی کپڑے سیتیں، پھر ان پر گوٹے کناری کی ٹنکائی ہوتی۔ رتھ یاترا والے دن منہ اندھیرے باغ سے پھول توڑے جاتے، ہم دونوں اسے مل کر سجاتے اور جب میں نئے کپڑے پہن کر اپنا رتھ لے کر نکلتی تو اڑوس پڑوس کے بچوں کے رتھوں میں میرے رتھ کی شان ہی نرالی ہوتی۔ شوراتری اور دیپاولی پر مٹی کے دیے آتے، میڈیکل اسٹور سے برف کی طرح سفید روئی کا پیکٹ منگایا جاتا، اس روئی سے آپ ان دیوں کے لیے بتی بٹتیں، گاؤں سے آیا ہوا اصلی گھی ان دیوں میں پڑتا، پھر رات آتی تو میرے دیوں کی برات جگمگ کرتی۔ دیوالی، دسہرے پر آپ چاؤ سے میرے لیے شکر کے کھلونے منگاتیں۔ گھوڑے، ہاتھی، رنگ رنگ کی ترکاریاں، منہ میں رکھو تو بتاشے کی طرح گھل جائیں۔ اب تک ان کا مزہ میری زبان پر ہے۔ میں لندن، پیرس، زیورچ گھوم آئی، ان سب جگہوں کی بڑھیا چاکلیٹ کھاچکی لیکن آپ کے کھلائے ہوئے شکر کے کھلونوں کے سامنے سب کا مزہ پھیکا رہا ہے۔
میں نے جب کئی طالبان لڑکوں کی مرہم پٹی کی، کچھ کا آپریشن کیا تو انہیں غور سے د یکھتی رہی۔ جن کے سروں پر بچپن میں کسی گھر کی چھت نہ ہو، جنہیں اپنی گود میں بٹھاکر کلیجے سے لگانے والیاں اور لگانے والے نہ ہوں، جن کے دانتوں نے رس گلہ اور لڈو کھاتے ہوئے شرارت سے کسی ماں، نانی دادی کی انگلیوں پر کاٹا نہ ہو، جنہیں کسی نے چپکے سے مٹھی بھر بادام اور کشمش نہ د یے ہوں، جنہیں کسی دادی یا نانی نے کہانیاں نہ سنائی ہوں، جن کے لیے کسی ماں نے کچوریاں نہ تلی ہوں اور ملیدہ نہ بنایا ہو، وہ بڑے ہوکر تو پھر دوسروں کا گلا ہی گھونٹتے پھریں گے۔ ان کے من میں مٹھاس اور دلوں میں دکھ سمجھنے کا احساس کیسے پیدا ہوگا۔ دنیا طالبان کو برا بھلا کہتی ہے، میں بھی یہاں آئی تو ان کے لیے میرے دل میں غصہ اور نفرت تھی لیکن یہاں رہ کر وہ میری سمجھ میں آگئے۔ کسی غریب اور بنجر ملک کے بچوں سے جب ان کا بچپن چھن جائے، جنہیں بڑی بہنوں نے انگلی تھام کر سہج سہج چلایا نہ ہو، ان سے آنکھ مچولی نہ کھیلی ہو، پھر وہاں طالبان ہی اٹھتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں عورتوں کے نام سے۔
ان دنوں میں جہاں جی رہی ہوں، وہ امریکہ کا وارتھیڑ ہے۔ چنگیز خان کا لشکر بامیان کا زن بچہ کولہو پلواکر آگے بڑھ گیا تھا لیکن آج کے چنگیز کہیں نہیں جاتے، وہ ڈریکولا کی طرح قوموں کی گردن میں اپنے دانت اتار دیتے ہیں اور خون چوستے رہتے ہیں۔ اپنے ہوائی جہازوں سے موت اور مکھن کی ٹکیاں، بسکٹ کے پیکٹ اور بارودی سرنگیں ایک ساتھ پھینکتے ہیں۔
ایک بار بڑے ناناجی کے صندوق کا سامان، ان کی ڈائریاں، ان کے خط پتر اور تصویریں جب آپ دھوپ دکھاکر واپس رکھ رہی تھیں تو آپ نے مجھے وہ میلا سا کاغذ دکھایا تھا جو آپ کے بیاہ کے دن رحمت بابا کی جھولی سے گرگیا تھا۔ بڑے ناناجی نے وہ سنبھال کر رکھ لیا تھا کہ رحمت اگر کبھی آیا تو اسے دے دیں گے، لیکن وہ پھر کبھی نہیں آیا اور اس کی بیٹی کے چھوٹے سے ہاتھ کا رنگین چھاپا آج بھی بڑے ناناجی کے صندوق میں رکھا ہوا ہے۔
کابل کی گلیوں میں دادی ماں مجھے آپ کے بچپن کا ہیرو تو کیا ملتا، اس کی بیٹی، اس کی نواسیاں اور پوتیاں بھی نہیں ملیں۔ ملتیں بھی تو کیسے کہ وہ سب گھر کی کال کوٹھریوں میں خاک ہوگئیں۔ اس کی کسی پر پوتی، کسی پر نواسی کی شاید ہتھیلیاں بھی نہ ہوں جن کے رنگین چھاپے ان کے چاہنے والے باپ اپنے کلیجے سے لگاکر پھریں۔ میں نے ان لڑکیو ں کی کلائیوں کے گھاؤ سیے ہیں، جن کی ہتھیلیاں نہیں رہیں، جواب کبھی عید پر مہندی نہیں لگائیں گی، چوڑیاں نہیں پہنیں گی۔ میری سہیلی رضیہ تو آپ کو اب تک کینیڈا سے کارڈ بھیجتی رہتی ہے۔ ہر عید شب برات پر مہندی لگوانے کے لیے وہ آپ کے پاس دوڑی آتی تھی۔ ’’دادی ماں جیسی مہندی آپ نے ہولی پر کُم کُم کے لگائی تھی، ویسی ہی مجھے بھی لگانا۔‘‘ وہ فرمائش کرتی۔
’’اری باؤلی ہوئی ہے، مجھے بھلا خاک یاد ہے کیسے پھول بوٹے بنائے تھے، بس اب چپکی بیٹھی رہ اور ہاتھ مت ہلائیو۔‘‘ آپ اسے ڈانٹتیں اور سوئی کی نوک سے اس کی گلابی ہتھیلی پر یوں پھول بوٹے بناتی جاتیں جیسے ریشم سے کڑھائی کر رہی ہوں۔ یہاں ہزاروں لڑکیاں ایسی ہیں جن کی ہتھیلیوں کے لیے اب کبھی عید اور شب برات نہیں آئے گی۔
آپ نے مجھے سنایا تھا کہ پلاسی میں سراج الدولہ بہادر جب کمپنی بہادر کی فوجوں سے ہار گئے اور بنگال پر کمپنی کا راج ہوا تو انگریزوں نے ڈھاکہ کی ململ بننے والے بنکروں کے انگوٹھے کٹوادیے تھے۔ یہ سناتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے آپ کے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ تب آپ نے بتایا تھا کہ ڈھاکہ کی ململ کا تھان انگوٹھی کے چھلے میں سے گزر جاتا تھا۔ ہمارے بنکروں کی کاریگری کے سامنے مانچسٹر کی ملوں میں تیار ہونے والے کپڑے کا چراغ نہیں جلتاتھا۔ سو انہوں نے ہمارے بنکروں کے انگوٹھے اڑادیے۔
یہاں جب میں بارودی سرنگوں سے اڑی ہوئی ہتھیلیاں دیکھتی ہوں، ان کے گھاؤ سیتی ہوں تو چھپ چھپ کر روتی ہوں۔ ہم نے تو انگریزوں کو اپنے دیس سے نکال دیا تھا، اب دوبارہ سے ان کے بھائی بند ہمارے آس پڑوس میں کہاں سے آبیٹھے؟ ہمارے انگوٹھوں، ہتھیلیوں، پیروں اور سروں کی بھینٹ کب تک ان کی چوکھٹ پر چڑھتی رہے گی؟
کالنگا کے میدان میں جیتے ہوئے اشوک نے جب لاکھ سپاہیوں کی لاشیں دیکھیں تو اس کا دل دنیا سے اٹھ گیا تھا۔ اس روز اس نے صرف اپنی تلوار نہیں توڑی تھی، اس دن کے بعد ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے اس کے راج پاٹ میں ہر سپاہی کی تلوار کوزنگ لگتا رہاتھا۔ آج کے یہ راجے مہاراجے رام جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو اپنے قبضے میں کرتے جاتے ہیں اور پھر بھی دھرتی پر پھیلتے جانے کی بھوک کسی طرح نہیں مٹتی؟ یہ قوموں کو، نسلوں کو کھاتے ہیں اور پھر اگلے ملک کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ کوروکشیتر کا ایک نیا میدان، ایک نیا وار تھیڑ سجاتے ہیں۔
میں نے دادی ماں لاشوں کے ڈھیر دیکھے، وہ کھیلتے ہوئے بچے جنہیں ہوائی جہازوں سے ہونے والی گولیوں کی بوچھاڑ نے سلادیا تھا، و ہ عورتیں جو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگی تھیں اور جن کے برقعے اور بدن ایک ساتھ چھلنی ہوئے تھے۔ میں نے ان دلہنوں اور دولہاؤں کے بدن سے گولیاں نکالی ہیں جن کی براتوں کو دہشت گردوں کا ٹولا کہہ کر ان پر گولیاں برسائی گئیں، بم مارے گئے۔
پھر دادی ماں ایک رات مجھ پر عجیب گزری۔ ہم بامیان اور شبرغان سے ہوتے ہوئے دشت لیلیٰ میں کیمپ کر رہے تھے جہاں ٹیلی وژن چینلوں کے اور اخباروں کے لوگوں کی ڈار اتری ہوئی تھی۔ طالبان کی ان Mass Graves کی خبروں اور تصویروں کی تلاش میں جنہیں کنٹینروں میں مزار شریف سے شبرغان لایا گیا اور وہ سب دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے تو انہیں خندقیں کھودکر دشتِ لیلیٰ میں دفن کردیا گیا۔ برسوں پہلے جب طالبان نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا اور پھر اسے چھپانے کے لیے Mass Graves میں دفن کیا، اب وقت ان کے لیے لٹو کی طرح گھوم گیا ہے، تو ان کا بستر بھی دشت لیلیٰ کی خندقوں میں لگا۔
دشت لیلیٰ کو یوں سمجھیں دادی ماں جیسے ہمارے راجپوتانے کے ریتیلے میدانوں کی کوئی چھوٹی سی آبادی۔ کچے گھروں کی اس بستی پر بھی بمباری ہوئی تھی۔ سو لوگوں کے پاس نہ کھانے کو، نہ سر چھپانے کو۔ ہم ا یک دن کے لیے وہاں کچھ زخمیوں کی دیکھ ریکھ کے لیے رکے تھے۔ شام ہوئی اور کام ختم ہوا تو میں تھکن سے نڈھال اپنے خیمے میں پہنچی اور بستر پر لیٹتے ہی سوگئی۔ اچانک کسی آواز سے میری آنکھ کھلی تو خیمے میں اندھیرا تھا۔ یوں لگا جیسے کوئی جانور خیمے کو اپنے ناخنوں سے کھرچ رہا ہو۔ میں کچھ سوچے سمجھے بغیر ہڑبڑاکر اپنے خیمے سے باہر آگئی۔ آسمان پر ماگھ کا سبزی مائل نیلا چاند، زمین پر دشت لیلی کی ریت، کچھ فاصلے پر Mass Graves اور میری نگاہوں کے سامنے میرے خیمے سے ٹیک لگائے ہوئے ریت پر ایک لڑکا۔ قمیص پر خون کے سوکھے اور تازہ دھبے، آنکھوں میں وحشت اور خوف، سارے بدن سے کانپتا ہوا۔ وہ کسی امریکی گولی کا شکار ہوا تھا اور اب گرتاپڑتا، چھپتا چھپاتا ہمارے کیمپ تک پہنچا تھا۔ جانے کب زخمی ہوا تھا۔ یہ سوچ کر ہی میرے اعصاب تن گئے کہ شاید اب بھی وہ ہتھیار بند ہو۔ پہلا خیال مجھے کسی گارڈ کو آواز د ینے کا آیا لیکن پھر دادی ماں ایسی انہونی ہوئی کہ اسے لکھتے ہوئے اس وقت بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں۔ آن کی آن میں اس لڑکے کا چہرہ کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اس نے پیروں کے پاس پڑی ہوئی جھولی سے کچھ نکالا اور میری طرف بڑھایا۔ میں نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا، اس میں بادام، کشمش اور اخروٹ تھے۔ وہ آپ کو آواز دے رہا تھا۔ میں نے گھبراکر اس کے چہرے پر نظر کی، ایشور کی قسم ماگھ کے چاند کی روشنی میں وہاں رحمت بابا تھا، اس کی قمیض پر خون کے دھبے تھے، بڑے ناناجی نے لکھا تھا کہ وہ ماگھ کے مہینے میں گھر لوٹ جاتا تھا۔
میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ کے بچپن کو، بڑے ناناجی کی کہانی کو میں گرفتار کیسے کراتی؟ میں اسے اپنے خیمے میں لے آئی۔ دادی ماں اس رات میں نے موت کو اپنی آ نکھوں سے د یکھا، اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ اس رات میں نے جانا کہ گولی دوست کی ہنسلی میں لگی ہو یا دشمن کی پسلی میں، اسے نکالنا میرا مقدر ہے۔ اس رات اس لڑکے کا گھاؤ سیتے ہوئے میں نہ اس کی سن سکی، نہ اپنی کہہ سکی۔ اس لیے دادی ماں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے تھے۔ اس وقت مجھے آپ کا خیال آتا رہا اور ان لوگوں کے قصے یاد آتے رہے جو آپ نے سنائے تھے۔ ٹیپو، سراج الدولہ، بابو کنور سنگھ، لکشمی بائی، حضرت محل۔۔۔
اس رات جب پوپھٹنے والی تھی، میں نے اسے ایک تھیلے میں کچھ دوائیں، کھانے کے ڈبے اور کمبل دیا اور جانے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے دیکھتا رہا، پھر لڑکھڑاتا ہوا اٹھا، وہ تھیلا اور کمبل کندھے پر ڈال رہا تھا کہ مجھے کچھ خیال آیا، میں نے سرہانے پڑے ہوئے پرس سے کچھ پیسے نکالے، اس نے سرہلاکر لینے سے انکار کیا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے دادی ماں نوٹ اس کے ہاتھ میں رکھ کر مٹھی بند کردی۔ وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتا رہا، پھر اس نے وہی ہاتھ پیشانی تک لے جاکر مجھے سلام کیا، تھیلا اور کمبل کندھے پر ڈالا اور خیمے سے نکل گیا، میں اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کہرے اور چاندنی کے غبار میں لپٹا ہوا تنہاوجود۔
چند قدم چل کر وہ پلٹا اور میری طرف دیکھا۔ وہ ہارے ہوئے قبیلے کی آنکھیں تھیں۔ پھر ان سب آنکھوں نے میری طرف سے منہ پھیر لیا اور چلتی چلی گئیں۔ تنہائی اور تاریخ کی اندھی گپھاؤں کی طرف۔ ترائی کے جنگلوں اور دشتِ لیلی میں پھیلی ہوئی گم نام قبروں کی طرف۔ اس لمحے وقت مجھ پر سے سن سن کرتا گزر گیا۔ میری عمر پر لگا کر اڑ گئی۔ اب میں ہزار برس کی ہوں۔۔۔ شاید دو ہزار برس کی۔ آپ خوش نصیب ہیں دادی ماں کہ آپ نے تاریخ سے ہار جانے والوں کا قصہ پڑھا ہے، ان کی آنکھوں میں اترا ہوا تنہائی کا زہر نہیں دیکھا۔
رحمت کابلی والا آپ کے بچپن کی سندر سہانی یاد تھا لیکن اس رات وہ آپ کی کُم کُم کو درد کادوشالہ اوڑھا گیا۔ اچھا ہوا کہ بڑے ناناجی گزرگئے۔ وہ اس زمانے میں ہوتے تو پرتاب سنگھ اور کنچن مالا کی کہانی لکھنے کی بجائے دھرتی کے گھاؤ لکھتے، ان کھوئی ہوئی ہتھیلیوں کا قصہ لکھتے جن پر اب کبھی مہندی نہیں لگے گی۔
یہاں کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا ہے، جنریٹر سے ہونے والی گرمی کے باوجود میرے اندر ٹھنڈک سی پھیل رہی ہے۔ اور کیا لکھوں؟ سب کچھ تو میں نے آپ کو لکھ دیا ہے۔ ماتاجی کو یا گھر میں کسی اور کو کچھ مت بتائیے گا۔ یہی کہیے گا کہ کابل میں کُم کُم بہت آرام سے ہے۔
آپ کی کُم کُم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.