ننگا بادشاہ
بیوی کسی مرد کے ساتھ بھاگ گئی تو چھوٹے میاں اپنا شہر اور خاندان چھوڑ کر ہمارے شہر چلے آئے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ یہ خبر عام تھی، خبر پردار ہو یا بےپر بہرحال ہمارے کانوں تک آ گئی۔ ان کی شخصیت رنگارنگ اور دلچسپ ہونے کے مختلف پہلوؤں کی معلومات ان سے تعلق ہموار ہونے کی بنیاد پر ہمیں ظاہر ہوئی۔ ان سے تعلقات ہونا اور قائم رہنا ٹیڑھی کھیر سے کم نہیں۔یہ ہماری قوت برداشت کا کرشمہ تھا۔ چھوٹے میاں پچاس کے قریب تھے پھر بھی ’’چھوٹے میاں‘‘ تھے۔ شاید قدوقامت کی مناسبت سے، ممکن ہے کہ بچپن میں والدین ان کو پیار سے چھوٹے میاں کہتے ہوں یا لوگوں نے ان کو یہ نام دیا ہو اور وہ اسی نام سے مشہور ہو گئے ہوں، خدا جانے ’’چھوٹے میاں‘‘ سے متعلق حقیقت کیا تھی؟
لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ رہنے والے کس دیار کے ہیں۔ ان کے متعلقین کہاں اور کتنے ہیں۔ چھوٹے میاں نے نہ کبھی خود اس طرح کا ذکر کیا اور نہ ہی ان سے پوچھنے کی کسی کو ہمت ہوئی۔ کچھ باتیں ایسی ضرور تھیں کہ جن کی بنا پر علاقہ کا ہر چھوٹا بڑا ان میں دلچسپی لیتا۔ سنجیدہ افراد بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے۔
تقریباً بیس پچیس برسوں سے چھوٹے میاں علاقے میں دیکھے جا رہے تھے۔ محلہ کے تراہے پر، میرے گھر کے قریب ان کی دوکان تھی۔ تھوڑے فاصلے پر گلی میں انھوں نے ایک کوٹھری کرایہ پہ لے رکھی تھی جس میں وہ رہتے تھے۔ محلہ کی دوکانداری اچھی خاصی چلتی۔ یہ ان کی اکیلی ذات کے لیے کافی سے زیادہ تھا۔ چھوٹے بڑے، لڑکے لڑکیاں و خواتین دوکان پر آتے اور بڑے مزے سے وہ اپنا سودا فروخت کرتے۔ خصوصاً جب صنف مخالف کا کوئی فرد خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اُن کی دوکان پر آتا تو ان کی باچھیں کھل جاتیں اور مزاج بڑا خوشگوار دکھائی دینے لگتا حالانکہ وہ تھے بڑے تنک مزاج۔ آئے دن ان سے جھگڑے ہوتے رہنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔
شامت اعمال، کسی نے قدوقامت سے دھوکا کھایا تو اس کا حشر برا دیکھنے میں آیا ۔ چھوٹے میاں وہ دھوبی پاٹ مارتے کہ مخالف چاروں خانے چت نظر آتا۔ عموماً لوگ ان سے تکرار دور ہی سے کرتے۔ محلہ کے لڑکے آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑتے کہ اُن کی ذات سے محلہ میں تفریح کا موضوع ہمیشہ بنا رہتا۔
دوکان میں ایک جانب چھوٹے میاں بیٹھتے۔ باہری کو نے پر شطرنج کی بساط بچھی رہتی۔ نیچے ایک جانب دو ایک اسٹول اور ایک بینچ پڑی ہوتی۔ چھوٹے میاں کی نشست دوکان میں اس طرح رہتی کہ وہ سودا بھی فروخت کرتے، ساتھ ہی بسا ط کی جانب متوجہ رہتے اور بہ وقت ضرورت خود بھی کھیل سکتے۔
میرے گھر کے سامنے، سڑک کے دوسری جانب چھوٹے میاں کی دوکان تھی، میں شطرنج کا شوقین تھا، ایام تعطیل میں، جب بھی وطن جاتا، ان کی محفل میں ضرور شریک ہوتا۔ گھر سے نکلا، دیکھا بساط جمی ہے۔ جاکر کھڑا ہو گیا یا بیٹھ گیا ۔لیکن شطرنج کھیلنے میں شریک نہ ہوتا۔ اس بات کی انھیں شکایت تھی۔
’’ارے بھئی سعید صاحب! ذرا ہم غریبوں کا بھی خیال رکھا کیجئے۔‘‘
’’کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ میں تو بزرگ مانتا ہوں آپ کو اور علاقہ کا مکھیا سمجھتاہوں۔‘‘
یہ سن کروہ خوش ہو جاتے۔ ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہونے کے لیے بس اتنا ہی کہنا کافی تھا۔
چھوٹے میاں کے گرد دوچار افراد ہمیشہ بنے رہتے۔ شطرنج کھیلتے ہوئے یا پھر راز و نیاز کی بات چیت کرتے ہوئے۔ بات کرنے کا یہ ان کا اپنا طریقہ تھا۔ اسی طرح وہ بات کرتے لیکن بات کرنے کا یہ انداز عموماً لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ لوگ شطرنج میں مصروف ہوتے تو ان کی گفتگو مختصر رہتی۔ اگر شطرنج کے کھلاڑی نہ ہوتے اور دوکان میں صرف گاہکوں کی آمدورفت ہوتی تو وہ تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔ ان کی فیاضی کے وصف سے فیض اٹھانے والی صرف عورتیں اور لڑکیاں ہوتیں۔ اکثر و بیشتر سودا بھی دے دیا کرتے اور پیسوں کا سوال بھی نہ کرتے۔ مردوں کو ایک پائی کا بھی ادھار دینے کے روادار نہ ہوتے۔ ’خاموش امداد‘ جب بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتی وہ کچھ کرنے کے لیے بےچین ہو جاتے۔ بند مٹھی کی طرح چھپاکر کرتے کہ آنکھیں بےزبان نہیں ہوتیں۔ ان کی فراخ دلی ہمیشہ سر چڑھ کر بولتی کیوں کہ لڑکیاں ذکر خیر میں چھوٹے میاں کو صدا یاد رکھتیں، جن کی معرفت غالباً وہ کسی ضرورت مند گھرانے کی مدد کرتے تھے۔
قومی اصلاح کا جنون چھوٹے میاں کے سر پر سوار رہتا۔ جذبۂ اتحاد اور تنظیم ان کا موضوع خاص ہوتا۔ بےحد جذباتی انداز میں اظہار خیال کرتے۔ ان کے اپنے نظریات تھے۔ عملی روپ دینے کو بےچین رہتے۔ ہم لوگ دل میں مرعوب ہوتے اور ان کی قدر بھی کرتے۔ ان کی تنک مزاجی کو بھی کردار کا ایک اچھا پہلو سمجھتے۔ سوچتے کہ صاف ستھرے لوگ عام طور سے کھرے ہوتے ہیں۔ جو لوگ بااخلاق ہوتے ہیں ان کی دوہری شخصیت ہوتی ہے۔ اخلاق کے پردے میں کیسی کیسی اخلاق سوز حرکتیں ہیں اس سے تو توبہ ہی بھلی۔
چھوٹے میاں کو قوم کا بڑا غم تھا۔ مٹتی ہوئی قدروں کے لیے وہ آبدیدہ ہو جاتے۔ اخلاقی گراوٹ انہیں روحانی کرب میں مبتلا رکھتی۔ نوجوانوں کو اکثر وہ اپنے گرد جمع کرتے اور اپنے مخصوص لب ولہجہ میں خطاب کرتے۔ عام طور پر کشتی اور ورزش کی تلقین کرتے۔ لنگوٹ کا پکا رہنے پر زور دیتے۔ اکثر مختلف مسائل پیدا کرتے اور پھر اپنے تجربات کی روشنی میں ان کا تجزیہ بھی کرتے۔ چونکہ وہ جہاندیدہ انسان تھے، لہجہ میں بڑا یقین ہوتا۔ ہربات یقینی اور حتمی ہوتی۔
’’معاملہ کو سمجھنا ہویا کسی شخصیت کا متالیہ (شخصیت کا مطالعہ) کرنا ہو توعریاں کرکے دیکھئے۔‘‘ اکثر فرماتے جیسے دوربین سے جھانک رہے ہوں۔ سمجھنے کے لیے ’عریاں‘ دیکھنے کی بات ان کے ہاں کافی اہم تھی۔ اس پر خاصا زور دیتے۔
معتقدین ان کی مفکرانہ باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ حاسدین جلتے، مذاق اڑاتے لیکن دورہی دورسے۔ قریب آکر بات کرنے کی جرأت کسی کو نہ ہوتی۔ ان کے دھوبی پاٹ سے سبھی گھبراتے اور میں لفظ ’عریاں‘ کا شطرنج کے ’ننگے بادشاہ‘ سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا۔ شطرنج کے کھیل میں عموماً ان کی حیثیت مشاہد کی سی رہتی۔ کھیلتے کم دیکھتے زیادہ۔ میں کئی بار اس بات کو محسوس کر چکا تھا کہ کھیل میں کسی فریق کا بادشاہ اگر ننگا ہو جاتا تو چھوٹے میں خاصے محظوظ ہوتے اور فوراً فریق مخالف کی حمایت پر اتر آتے۔ ننگے بادشاہ کو امکانی عجلت سے گھیر کر مات دینے کی کوشش کرتے لیکن ایسا جب ہی ہوتا جبکہ باد شاہ ننگا ہوتا ورنہ وہ بھی کمزور فریق کو ہی مشورہ دیتے اور چالیں بتاتے۔
چھوٹے میاں کو اپنے پاس بیٹھنے والوں پر بڑا اعتماد تھا۔ دوکان چھوڑ کر اکثر اپنی کوٹھری میں چلے جاتے۔ ان کی غیر موجودگی میں معتقدین یا شطرنج کے کھلاڑی گاہکوں کو سامان دیا کرتے۔ معتقدین میں ارشاد صاحب نمایاں تھے۔ نوجوان تھے، خاصے پڑھے لکھے تھے۔ بڑے لطیف پیرائے میں وہ چھوٹے میاں کے سامنے عالمی مسائل رکھتے اور ان کا حل طلب کرتے۔ جوابات سنجیدگی سے سنتے، غور وفکر کرتے اور پھر اسی سنجیدگی سے کچھ باتوں کی مزید وضاحت چاہتے۔ چھوٹے میاں اپنی منطق و استدلال سے ارشاد صاحب کو مطمئن کرنے کی امکانی کوشش کرتے۔
ایک دن چھوٹے میاں دوکان پر موجود نہ تھے۔ ایک گاہک نے کوئی ضروری جنس طلب کی جو دوکان پر ختم ہوچکی تھی۔ ارشاد صاحب موجود تھے۔ انھوں نے سوچا کہ چھوٹے میاں کو بتا دیں کہ مطلوبہ سامان اپنے ساتھ کوٹھری سے لیتے آئیں کیوں کہ کوٹھری میں دوکان کا زائد سامان رہتا تھا۔ ارشادصاحب واپس آئے تو میں نے کوئی غیرمعمولی بات محسوس کی۔ ان کا چہرہ متفکر تھا، عجیب تذبذب کے عالم میں وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے گھر چلے آئے۔ سکون پذیر ہونے کے بعد یوں گویا ہوئے۔
’’سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا بتاؤں؟‘‘
میں نے ان کی متغیر کیفیت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’خیریت ہے۔‘‘
’’ہاں!؟‘‘
’’پھر‘‘
’’پھرکیا‘‘؟
’’ارشاد صاحب کیا بات ہوئی، مجھے تو بتائیں‘‘۔
ارشاد کچھ جھجکتے، جھینپتے ہوئے مسکرائے۔۔۔ بڑے ہی محتاط انداز میں سنبھل سنبھل کر بولنے لگے۔
’’یار!۔۔۔ چھوٹے میاں ’علم الاجسام‘ کے’’ باب عریاں ‘‘میں غرق تھے مجھے دیکھ کر وہ چونک گئے۔۔‘‘
میں یہ سوچ کر حیرت زدہ تھا کہ چھوٹے میاں کے قول و فعل میں کس قدر ہم آہنگی تھی اِس کے باوجود وہ لنگوٹ کے پکے تھے!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.