Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نرتکی

مونا شہزاد

نرتکی

مونا شہزاد

MORE BYمونا شہزاد

    اس نے آئینے میں تیار ہوکر اپنا جائزہ لیا، وہ اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر ٹھٹھک گیا، بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا، یہ عکس تو اجنبی تھا، یہ تو وہ مہر نیاز خان نہیں تھا، جس کی وجاہت کا ہر طرف شہرہ تھا۔ یہ چہرہ جھریوں زدہ، تو کسی اور کا تھا، اس نے اپنے چہرے پر بے تابی سے ہاتھ پھیرا، نہیں! نہیں! یہ چہرہ اسی کا تھا صرف ماہ و سال کی مسافت اس کے چہرے پر اپنے نقوش چھوڑ گئے تھے۔ اس نے بے تابی سے سوچا۔

    ‘’وہ مجھے پہچان لےگی؟ اب تو میں خود کو پہچان نہیں پاتا۔’’

    اس نے ٹائی کی ناٹ صحیح کی اور سوچا: ’‘نور یاسمین کیسی دکھتی ہو گئی؟‘‘

    کیا ماہ و سال اس پری وش پر بھی اثر انداز ہوئے ہونگے؟

    اس نے اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ صاف کیا، اس نے دوبارہ سے ٹائی کھول کر ذرا شوخ رنگ کی ٹائی منتخب کی، پھر اس نے اپنے بوٹ ایک دفعہ پھر پالش کئے، آج تو اس کا دل بغاوت پر آمادہ تھا، اس کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ اس کے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا اور اس کا پوتا علی آندھی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا، اس کی غیرمعمولی تیاری پر سیٹی بجا کر بولا:

    Buddy ! are you going on date?

    مہر نیاز خان کا دل اچھل کر اس کے حلق میں آ گیا، اس نے بظاہر سختی سے کہا:

    ‘’علی میں تمھارا دادا ہوں، دوست نہیں۔‘‘

    علی نے اس کے ہاتھ پر پیار سے رسٹ واچ باندھتے ہوئے کہا:

    ‘’ویسے یار! تم میرے دوست ہی ہو چاہے تسلیم کرو یا نہ کرو، ویسے میری ایک فرمائش ہے اب نئی دادی لے ہی آو۔’’

    مہر نیاز خان نے اپنی واکنگ سٹک پکڑی اور علی

    کی کمر پر مار کر کہا:

    ‘’اپنی پڑھائی پر توجہ دو، میری فکر مت کرو۔’’

    علی نے ہنس کر کہا:

    ‘’ددو ایک منٹ’’

    مہر نیاز خان کے قدم جم گئے، اس کے دل کا چور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہیں علی نے اس کا میسنجر تو چیک نہیں کر لیا۔

    مگر علی نے پرفیوم کی بوتل اٹھائی اور ڈھیر سارا پرفیوم اس پر چھڑک کر، اسے آنکھ ماری اور بولا:

    Buddy! Have fun.

    مہر نیاز خان آہستہ آہستہ چلتا باہر آ گیا۔ اس نے دیکھا، اوائل دسمبر کے دن تھے، ایسے ہی تو سرد دن تھے جب اس کی زندگی میں بہاروں کی ملکہ، نور یاسمین آئی تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے قرطاس ماضی کھل گئی۔ اسے ایسے لگا جیسے وقت کا پہیہ گھوم گیا ہو، وہ ماضی کے دریچے میں کھڑا تھا اور اس کا ماضی باہیں پھیلائے اس کا سواگت کر رہا تھا۔

    اس کو وہ شبنم صفت، ماہ وش، نور یاسمین یاد آ گئی۔ نور یاسمین کو دیکھ کر راہ چلتے مسافر اپنا راستہ بھول جاتے تھے۔ وہ سراپا غزل تھی، وہ سرو قامت، خوش گلو حسینہ تھی۔ اس زمانے میں یونیورسٹی میں گنی چنی لڑکیاں ہی پڑھنے آتی تھیں، جن میں سے ایک نور یاسمین بھی تھی۔ اس کی بھنورا کٹیلی آنکھوں، لچکدار شاخ گل جیسے بدن، چاندی سی رنگت، نقرئی ہنسی اور برجستہ پن نے پوری یونیورسٹی میں آگ لگا دی تھی، تمام لڑکے اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مرئے جا رہے تھے، مگر مہر نیاز خان تو وہ تھا، جس کی وجاہت و زہانت پر لڑکیاں فدا ہوتی تھین ایسی میں اس کی توجہ کا مرکز مہر نیاز خان بنا۔ وہ سردیوں کی اکیلی سی ایک شام تھی، موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان ہو چکا تھا، آج یونیورسٹی میں سب کلاسز کا آخری دن تھا، یونیورسٹی کی کلاسز ختم ہو چکی تھیں، زیادہ تر طلبا و طالبات گھر جا چکے تھے۔ سورج آج بھی جلدی چہرہ چھپانے کے چکر میں بادل اوڑھ چکا تھا، سرد ہوا سوکھے، زرد پتوں کو اڑاتی پھر رہی تھی۔

    مہر نیاز خان لائبریری کے پاس سے گزرا تو اسے دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز آئی، ساتھ ساتھ گھٹی گھٹی چیخوں کی آواز تھی، اسے اندازہ ہوا کہ جو کوئی بھی لائبریری میں بند ہے وہ خوف سے ہذیانی کیفیت کا شکار ہے، اسے پتا تھا کہ لائبریری کے چھوٹے کمرے میں پڑھتے طلبا کو مین لائبریری میں ہونے والی سرگرمیوں کا پتا نہیں چلتا، ضرور کوئی غلطی سے لاک ہو گیا ہے۔ لائبریری میں مقید شخص بہت وحشت کا شکار تھا، اس نے بےاختیار ہی جیب سے لائبریری کی چابی نکالی، وہ اسٹنٹ کے طور پر لائبریرین کی مدد کرتا تھا، جس کے باعث اس کے پاس لائبریری کی اضافی چابی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور ہوا کا ایک جھونکا آندھی، طوفان کی طرح باہر نکلا اور بہار بن کر اس پر چھا گیا، وہ ایک سرو قامت لڑکی تھی، گویا ایک پھولوں کی ڈال تھی جو لپک کر اس کے گلے لگ گئی۔ یہ ’’نور یاسمین’‘ سے اس کا پہلا تعارف تھا۔ نور یاسمین بہت خوفزدہ تھی، اس کا جسم اس کی ہچکیوں سے کانپ رہا تھا، اس کے چہرے پر آنسوؤں کی طغیانی تھی، اس نے مہر نیاز کو اس زور سے پکڑ رکھا تھا، جیسے ڈوبتا یوا مسافر آخری تنکے کو تھامتا ہے۔ مہر نیاز نے اسے اپنے سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس سے علیحدہ ہونے پر تیار نہیں تھی۔ اس نے اپنا چہرہ مہر نیاز خان کے سینے میں چھپا لیا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں، اس کا سانس اٹک اٹک کر آ رہا تھا، اس کی ناگفتہ حالت دیکھ کر مجبورا مہر نیاز خان نے اس کو اپنی پناہوں میں لے لیا، پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا، مہر نیاز کو لگا لمحے، صدیوں پر محیط ہو گئے ہوں، بس اس دنیا میں سب کچھ ساکت تھا، ایک ہی حقیقت تھی اور وہ مہر نیاز کی بانہوں میں بیحال ہورہی تھی۔ مہر نیاز کو دفعتا اپنے آپ سے پہلی دفعہ خوف محسوس ہوا، یاسمین کے بالوں، سراپے سے آنے والی خوشبو اس کو مدہوش کر رہی تھی، اس کے جسم کا گداز اس کی گرفت سخت کروا رہا تھا۔ مہر نیاز خان کا سارا زور اس کے بازووں میں منتقل ہو گیا، اس کے رگ وپے میں بجلی سی دوڑنے لگی، عین اسی لمحے نور یاسمین کو بھی احساس ہوا کہ وہ کسی غیر شخص کی باہوں میں قید کھڑی ہے۔ اس نے فورا مہر نیاز کا کالر چھوڑا اور کسمسا کر پیچھے ہونے کی کوشش کی، مہر نیاز نے بھی شرمندہ ہوکر اس کے وجود کے گرد حمائل باہیں کھول دیں۔ نور یاسمین نے شرما کر نظریں اٹھا کر پہلی دفعہ مہر نیاز خان کی طرف دیکھا اور مدہم لہجے میں بولی:

    ‘’میں لائبریری کے اندر چھوٹے کمرے میں بیٹھی نوٹس بنا رہ تھی، مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ لائبریرین کب لائبریری لاک کرکے چلی گئی، اگر آپ نہ آتے تو پندرہ دن بعد میری لاش ملتی۔’’

    مہر نیاز خان نے آہستہ سے کہا:

    ‘’اللہ تعالی کی رضا سے ایسا نہیں ہوا۔ شکر ہے کہ میں آج جلد گھر نہیں چلا گیا تھا۔’’

    نور یاسمین کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا، مہر نیاز خان نے لائبریری کے اندر سے نور یاسمین کی چیزیں اکٹھی کیں، نور یاسمین ایسی ڈری ہوئی تھی کہ دوبارہ لائبریری میں قدم دھرنے پر تیار نہیں تھی۔ پھر مہر نیاز خان نے وکٹوریہ روک کر یاسمین کو اس میں سوار کروایا۔

    یاسمین اس کا شکریہ ادا کر کے چلی گئی، مگر اس کا دل مضطرب بھی ساتھ لے گئی۔ آنے والے دنوں میں مہر نیاز خان اور یاسمین ایک دوسرے کے قریب آتے گئے، مہر نیاز خان کو پتا چلا کہ نور یاسمین بھی ایم اے اردو کر رہی تھی، فرق صرف یہ تھا کہ اس کا پہلا سال تھا، جب کہ مہر نیاز خان کا فائنل سال تھا۔ ان کے شوق، ان کے زوق ملتے جلتے تھے، ایک دن یونیورسٹی میں محفل مشاعرہ تھی، شام کو مہر نیاز خان جب وہاں پہنچا تو اسے شعراء کے نام دیکھ کر بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ نور یاسمین کا نام بھی شاعرہ کے طور پر شامل تھا، اس نے دل ہی دل میں داد دی اور سوچا:

    ‘’محترمہ کافی دلچسپ شخصیت کی حامل ہیں، یہاں تو مرد شاعر بھی ڈر ڈر کر کلام لکھتے ہیں یہ عورت زات ہو کر یہ شغف فرماتی ہیں۔’’

    وہ شدت سے نور یاسمین کی باری کا انتظار کر رہا تھا، آخر کار محفل میں شمعدان نور یاسمین کے سامنے رکھا گیا۔ کچھ لڑکوں نے آوازیں کسنے کی کوشش کی مگر یاسمین کی میٹھی آواز ہال میں پھیلی اور خاموشی چھا گئی۔ نور یاسمین نے شائستہ لہجے میں آداب کیا اور بولی:

    آج کی نظم اس ناری کے نام، جو اپنے محبوب کے انتظار میں سب کچھ تیاگ بیٹھی ہے یہاں تک کے اب اس کا انتظار بھی ختم ہو گیا ہے اسی مناسبت سے اس نظم کا عنوان ہے’‘اسے کہنا کہ’‘ پھر وہ گویا ہوئی۔

    اسے کہنا کہ لوٹ جائے وہ

    کہ رگ جاں اب کہن زدہ سی ہے

    خوابوں کے پنچھی سبھی اڑ چکے ہیں

    اب بےرنگ ہوچکی ہیں یہ آنکھیں میری

    در انتظار پر قفل ہیں پڑے

    ہر سو بس اب خامشی کی آہٹ ہے

    ہال میں ایک عالم سکوت تھا، ساحرہ نے حاضرین محفل کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ جب نور یاسمین نے نظم کے اختتام پر شخریہ کہا تو پورا ہال داد و تحسین سے زندہ ہو گیا۔

    مہر نیاز خان کی نگاہیں اب ہر وقت نور یاسمین کو ڈھونڈتی رہتیں، جس روز وہ یونیورسٹی نہ آتی، مہر نیاز خان کی جان پر بن آتی۔ اس کی متاع آرزو اب یاسمین ہی تھی۔

    پھر ایسی بھی شام آئی جب ایک ریسٹورانٹ کے ایک خوبصورت گوشے میں بیٹھے ہوئے مہر نیاز خان نے نور یاسمین کو محبت سے تکا، آج اس کی فرمائش پر اس نے ہلکے نیلے رنگ کی پوشاک زیب تن کی تھی، اس کی پوشاک اور آنچل پر لگی مکیش یوں جھلملا رہی تھی، جیسے آسمان کے بےشمار تابندہ ستارے، مہر نیاز خان نے اپنے دل کو ڈپٹا اور مسکرا کر بولا:

    نور میں نے بھی تخیل کا سفر شروع کر دیا ہے، سناؤں اپنی ایک کاوش۔ اس کا نام ہے ’‘ع کا سفر’’ یاد رہے یہی وہ ’‘ع’’ہے جو عشق کی معراج ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں نور یاسمین کی جھیل جیسی آنکھوں پر ٹکائیں اور ہولے ہولے گنگنانے لگا، اس کی انگلیاں میز پر تھاپ دے کر اس کی آواز کا سنگت دے رہی تھیں۔

    یہ جو تیرا ربط ہے

    یہی تو میرا ضبط ہے

    یہ جو تیرا رقص ہے

    یہی تو میرا وجد ہے

    یہ جو تیرا رنگ ہے

    یہی تو میرا روپ ہے

    یہ جو تیرا عکس ہے

    یہی تو میرا خیال ہے

    یہ جو ’‘تو’‘ میں ہے

    یہی تو ’‘میں’‘ تو ہے

    یہ جو تیری دهمال ہے

    یہی تو میرا کمال ہے

    یہ جو تیرا جمال ہے

    میرا ہی تو دهیان ہے

    بس ہر حال میں باقی

    اک تیرا ہی خیال ہے

    اب اس سے آگے کیا لکهوں

    بس عشق کو سلام ہے۔

    اس نے دیکھا نور یاسمین کا چہرہ متغیر تھا وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی:

    ‘’مہر نیاز خان ’‘عشق’‘ کا دعوی مت کرو، تم اس وادی خار زار میں دو قدم بھی چل نہیں پاؤگے، یہ عشق کی آگ ہے تمھارے تن من کو خاکستر کر دےگی، تمھیں فقیر بننے کی تمنا نہیں ہے، تم داس نہیں ہو بلکہ دیوتا بننے کی چاہ رکھتے ہو۔’’

    مہر نیاز خان کو یہ بات اس کی جذباتیت کا بیان لگی، اپنے آپ کو سچا عاشق ثابت کرنے کے لئے اس نے جھٹ جیب سے اپنی مرحومہ والدہ کی پکھراج کی انگوٹھی نکال کر میز پر نور یاسمین کے سامنے رکھی اور بلا تامل اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے، شادی کی درخواست کی اس نے مسکرا کر کہا:

    ‘’دیکھو! میں عاشق صادق ہوں اسی لئے تو تمھارے ساتھ عمر بھر گزارنے کا خواہش مند ہوں، یہ میری مرحومہ والدہ کی پکھراج کی انگوٹھی ہے جو میری دادی نے میری والدہ کو پہنائی تھی، اب اگر تم اقرار کرو تو میں ابا جی کو لے کر تمھاری امی سے ملنے آوں اور ان کے در پر اپنی درخواست فرزندی پیش کروں۔’’

    اس کا خیال تھا کہ نور یاسمین شرم سے بیہر بوٹی بن گئی ہوگی مگر یہ کیانور یاسمین نے نظریں اٹھائیں، تو اس کی ساحر آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس نے ہولے سے کہا:

    ‘’میں ایک نرتکی ہوں، میری ماں بھی ایک نرتکی تھی۔ میں لوگوں کو اپنا رقص، اپنی کلاء بیچتی ہوں، مگر جسم کا سودا نہیں کرتی۔ کیا اب بھی مجھے اپنانے کی ہمت رکھتے ہو؟’’

    مہر نیاز خان ایک دم پتھر کا ہو گیا، وہ جانتا تھا اس کے بابا نجیب الطرفین ہیں وہ کبھی بھی ایک نرتکی کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنائیں گے، اس کا دل پارہ پارہ ہو گیا۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہیٹ سر پر رکھا اور تھکے تھکے قدموں سے باہر کی جانب چل پڑا، نور یاسمین کی آواز اس کے عقب سے آئی:

    ‘’مہر نیاز خان اپنی خاندانی نشانی لیتے جاو۔’’

    مہر نیاز خان نے جھکی ہوئی آنکھوں سے انگوٹھی اٹھا کر جیب میں رکھی۔

    مہر نیاز خان یک دم پتھر کا ہو گیا، اس کا دل پارہ پارہ ہو گیا۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہیٹ سر پر رکھا اور تیز تیز قدموں سے ریسٹورانٹ سے باہر کی جانب چل پڑا، اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ سماج سے بغاوت کر سکتا۔ وہ ریسٹورانٹ سے اس تیزی سے نکلا جیسے اسے اندیشہ ہو کہ اگر اس نے غلطی سے بھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو وہ کہیں نرتکی کے پریم کے اثر سے پتھر کا نہ ہو جائے۔ وہ جانتا تھا آج وہ سب کچھ ہار چکا تھا۔ اس کا جسم اس کے ساتھ تھا مگر روح تو شاید نرتکی کے پاس ہی رہ گئی تھی۔

    سال پر سال گزرتے گئے، اس کی شادی اس کی تایا زاد سے ہو گئی، اس کا چار بچے تھے، وہ نوکری اور گھر میں الجھا رہا، اگر کبھی نور یاسمین کی یاد آتی تو سر جھٹک دیتا۔ اس کے بالوں میں چاندی کے تار آ گئے، چہرے پر جھریوں کا نقاب آ گیا، بچے بڑے ہو کر اپنے اہل و عیال میں مصروف ہو گئے۔ کچھ سال پہلے اس کی بیوی گزر گئی اب تو اس کی بیوی کو گزرے ہوئے بھی زمانے ہو گئے تھے۔ اس کے پوتے نے اس کی تنہائی دیکھ کر اسے زبردستی فیس بک کا اکاونٹ بنا دیا تاکہ اس کا فارغ وقت اچھا گزرے، نہ جانے کیسے اس کے اندر دبی خواہش کی چنگاری جاگ اٹھی، اس نے نور یاسمین نرتکی کو ڈھونڈا، وہ مل گئی، اس نے میسنجر پر اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، نور یاسمین نے تامل کے بعد آج شام اس سےمال روڈ پر اولڈ کافی ہاوس میں ملنے کی حامی بھر لی، آج اسی چکر میں وہ ارمانوں سے تیار ہوا، وہ خوشبووں میں بسا مال روڈ پیدل چلتا پہنچا، آج اس کے قدم زمین پر نہیں پڑھ رہے تھے۔ اس کا دل ایک ثانیے کے لیے رک سا گیا۔ جب اس نے سامنے سے نور یاسمین کو آتے دیکھا، اس نے سیاہ سکرٹ پہنا ہوا تھا، اس کے چہرے کی دلکشی ماہ و سال نے دھندلا دی تھی۔ مہر نیاز خان نے قدم بڑھائے، اب وہ ایک دوسرے کے مقابل تھے، اچانک مہر نیاز خان کو سامنے سے اپنی منجھلی بیٹی، داماد اور نواسہ، نواسی آتے نظر آئے، اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، اس کی چوری پکڑی گئی تھی، اس کے منہ سے نکلا:

    ‘’میری بیٹی، داماد آ رہے ہیں’‘۔

    نور یاسمین اس کی نظروں میں تبدیلی دیکھ چکی تھی، وہ آہستہ سے بولی:۔

    ‘’میں نرتکی! کل بھی اچھوت تھی، آج بھی اچھوت ہوں، واپس اپنی کاغذی دنیا میں لوٹ جاو، مہر نیاز خان! تمھاری دنیا میں میری کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب میرے دروازے پر دستک مت دینا۔ یہ دروازہ تمھارے لئے نہیں ہے۔ ’’مہر نیاز خان مضحمل قدموں سے پلٹ گیا، نرتکی بھی دور ہوتی جا رہی تھی۔ شام کا اندھیرا ملجگا سا پھیل گیا تھا، نرتکی کا سایہ سامنے دیوار پر رقص گریہ کر رہا تھا۔ مہر نیاز خان کا سایہ اپنی خود ساختہ مجبوریوں کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا، محبت کی نیلامی دیکھ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے