Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نصیر اور خدیجہ

راشدالخیری

نصیر اور خدیجہ

راشدالخیری

MORE BYراشدالخیری

    شاباش بھائی نصیر شاباش! چھوٹی بہن مرکے چھوٹی۔ بڑی بہن کو جیتے جی چھوڑا۔ غضب خدا کا تین تین چار چار مہینے گزر جائیں اور تم کو دو حروف لکھنے کی توفیق نہ ہو۔ حفیظ کے نکاح میں۔ وہ بھی چچی جان کی زبانی معلوم ہوا کہ ملتان کی بدلی ہو گئی۔ و ہ دن اور آ ج کا دن خیر صلاح کیسی یہ بھی خبر نہیں کہ لاہور میں ہو یا ملتان میں نصیر میاں! بہن بھائیوں کا رشتہ تو بڑی محبت کا ہوتا ہے۔ ایسی کون سی پانچ سات بہنیں بیٹھیں ہیں جو دل بھر گیا۔ دور کیوں جاﺅ بھائی سلیم ہی کو دیکھ لو ایک چھوڑ دو بہنیں ساتھ ہیں اور کس طرح؟ گھربار کی مختار۔ اندر باہر کی مالک سیاہ کریں، چاہے سفید۔ نہ بھائی کی اتنی مجال کہ دم مار سکے، نہ بھاﺅج کی اتنی طاقت کہ ہوں کر سکے۔ کسی کو دیکھ کر تو سیکھا کرو۔ ایک وہ بھائی بہنوں کو آنکھوں پر بٹھایا، بھانجا بھانجی کی شادیاں کیں۔ بھانجوں کو پڑھا لکھاکر نوکری کرایا۔ ایک تم بھائی ہو کس کا بھانجہ اور کیسی بہن۔ چاہے کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے۔ خدا کا شکر ہے، میں تو تمہاری روپیہ پیسہ کی بھوکی نہیں خالی محبت اور میٹھی زبان کی خواستگار ہوں۔ جو کہیں خدانخواستہ تمہارے در پر آکر پڑتی تو کتے کے ٹھیکرے میں پانی پلوا دیتے آخر میں بھی سنوں خطا قصور وجہ سبب۔ کچھ تو بتاﺅ ایسی لاپروائی بھی کس کام کی، اچھے سے غرض نہ بُرے سے مطلب۔ بہن کے تم نہیں بھائی کے تم نہیں۔ صادقہ مرتے مر گئی اور تمہاری صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ اما رہیں نہیں، ابا ادھر چلے گئے، میں اس قابل نہیں، بڑے بھائی اس لائق نہیں۔ اب تمہارا دلی میں کون بیٹھا ہے جس کو خط لکھو۔ تم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ایک سرے سے سب کو عاق کردوں۔ ابا کا حج کو جانا اور اونگتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ بہن اور بھائی ماموں اور ممانی سب کو بالائے طاق رکھا۔ چچا لاپرواہ چچی خطا وار۔ بھائی خود غرض، بہن گنہگار، غرض کنبے کا کنبہ اور خاندان کا خاندان چھوٹے اور بڑے، بڈھے اور جوان، مرد اور عورت، بوڑھا اور بچہ ایک بھی اچھا نہیں۔ محبت نہیں مروّت ہی سہی۔ بال بچوں کا ساتھ رکھنا گناہ نہیں ہے‘ دنیا جہان میں ہوتی آئی ہے مگر یہ اندھیرا کہیں نہیں دیکھا کہ الگ گھر کرتے ہی سب کو دھتا بتائی۔ اما کا مرنا ہماری تو مٹی پلید ہوئی مگر تم کو عید ہو گئی۔ شفقت محبت پہلے ہی رخصت ہوچکی تھی۔ جو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا۔ اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ الٰہی تمہارے بچوں کی ہزاری عمر ہو۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھواب سے دور اگلے برس ذرا ظہیر کو بخار ہو گیا تھا۔ کیسے گھبرائے گھبرائے پھرتے تھے۔ تم کو آٹھ برس کے بچے کی یہ کچھ مامتا تھی۔ امّا کو تمہاری کتنی ہوگی؟ نصیر میاں دنیا کے جھگڑے تو ہمیشہ ہی رہیں گے۔ بال بچے شادی بیاہ سب ہی کچھ ہوگا۔ اب امّاں تمہاری صورت دیکھنے نہیں آئیں گی۔

    صادقہ کے بچوں کو اماں اپنی زندگی تک کلیجہ سے لگائے رہیں، ان کا مرنا تماکہ تینوں کی مٹی ویران ہو گئی۔ پرسوں دونوں لڑکے بسم اللہ کا حصہ لے کر آئے تھے۔ میں باہر کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی رضائی ٹانک رہی تھی۔ چھوٹا آکر گلے سے لپٹ گیا۔ کچھ خون کا جوش تھا کہ اس کی صورت دیکھتے ہی میری طبیعت بھر آئی۔ غلاموں کی بھی حالت اچھی ہوگی جیسی ان بچوں کی تھی۔ پھٹا ہوا کرتہ ٹوٹی ہوئی جوتی، پاجامہ چکٹ، ٹوپی چوہا، بدن پہ سیروں میل، آنکھوں میں الغاروں چپڑان بچوں کو دیکھ کر مجھ کو وہ دن یاد آ گیا کہ جب تک دونوں کی الخالقین نہ آ گئیں۔ صادقہ رابعہ کی چوتھی میں نہ گئی۔ دیکھ لو تین چار ہی برس کے اندر اندر۔ کیا کیا ہو گیا۔ برا نہ ماننا تم قیامت تک بھی اپنے بچوں کو اس طرح نہ پالوگے جس طرح صادقہ اپنے بچوں کو پال گئی۔ خدا کی قسم بھری ہوئی عطر کی شییاں کھڑے کھڑے حمید نے غارت کی ہیں تقدیر کی خبر نہ تھی کہ صادقہ کی اولاد یوں برباد ہوگی۔ میں نے دیکھا نہیں مگر دادا جان ذکر کیا کرتے تھے کہ غدرسے پہلے اس مکان پر ہاتھی جھولتا تھا۔ آج جاکر دیکھو بے کنڈی کا ایک کواڑ چڑھا ہوا ہے او رچکنی مٹی کی ایک دیوار چنی ہوئی ہے۔ بڑے نواب کی آنکھ کا بند ہونا تھاکہ گھر بھر میں جھاڑو پھر گئی۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مسعود کے بیاہ میں صادقہ کی ساس کو گنگا جمنی پنکھے جھلے جا رہے تھے۔ لونڈیا اور مامائیں گوندنی کی طرح زیور میں لدی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا زمانہ پلٹا کہ آج پانی پینے کا کٹورہ بھی نہ رہا۔ مٹکے میں آٹا برکت، بقچی میں کپڑے اللہ کا نام۔ بدن میں طاقت نہیں، ہاتھ پاﺅں میں سکت نہیں۔ چلنے پھرنے سے مجبور، دیکھنے سے معذور آنکھیں تھیں تو ایک آدھ کرتہ دو ایک ٹوپیاں کرکرا لیتی تھیں۔ اب تو اتنی بھی نہیں پڑوس کا حق سمجھو خدا کا خوف جانو، ہاتھ پاﺅں کی خیرات کہو چچی جان تین روپیہ مہینہ دیتی ہیں۔ بس یہ کل کائنات ہے۔ اس میں کیا آپ کھائیں کیا بچوں کو کھلائیں۔ تین روپیہ چار دم، ایک لڑکی کا ساتھ، کیا کریں کیا نہ کریں۔ تین روپیہ مہینہ کا توسوکھا اناج چاہئے۔ جو جو کچھ لکھا تھا سب ہی کچھ کرچکیں۔ چکیاں پیسیں، سلائیاں کیں، ہاں اتنی بات رہ گئی کہ دَر دَرہاتھ نہیں پھیلایا۔

    صادقہ کے بچے کسی غیر کے بچے نہیں ہیں۔ مری ہوئی بہن کی نشانی ہیں۔ شاباش تمہاری ہمت پردیس میں بیٹھے راج کرو اور صادقہ کے بچے دو دو دانے کو محتاج ہوں۔ دلی میں آکر دیکھو شہر میں کیا نام بدنام ہو رہا ہے آخربرس میں دو برس میں اپنے ہاں کی نہیں سسرال کی شادیوں میں تو آﺅگے سب کو یاد ہے کہ اللہ رکھو لڑکی کا بیاہ سرپر آ رہا ہے یا یہ بھی وہیں کر لوگے؟ اپنے پرائے، کنبہ، محلہ، میل ملاپ، جان پہچان تمام دنیا جنم میں تھوک رہی ہے۔ کس کا منہ کیلوگے؟

    بڑے بھائی اس لائق ہوتے تو تم سے کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ بے چارے آپ ہی اپنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ نوکری چھوٹی، چوری ہوئی، مقدمہ ہارے۔ چار روپیہ مکان کے آ جاتے تھے۔ وہ بھی نہ رہے۔ اندر کا دالان ہوا ہو ہی رہا تھا ایک ہی چھینٹے میں اڑ اڑ کر آن پڑا۔ اس کے ساتھ ہی لمبی کوٹھری بھی بیٹھی گئی۔ اتنا بھی پاس نہیں کہ اینٹیں اور ملبہ تو ہٹوا دیں۔ چار سو روپیہ کے قرضدار بیٹھے ہیں۔

    ایک لے دے کر منجھلی خالہ رہ گئی ہیں۔ وہ اکیلی کیا کیا کریں۔ صادقہ کے بچوں کو پالیں، بڑی بہو کی ٹہل کریں، اپنے گھر کو دیکھیں، جس کا نہ کریں اسی سے بری، روپیہ پیسہ کے قابل نہیں، ہاتھ پاﺅں سے باہر نہیں، جس کے ہاں ضرورت دیکھتی ہیں آموجود ہوتی ہیں۔ کہنے کو جس کا جو جی چاہے کہہ لو۔ خلق کا حلق تھوڑی بند ہو سکتا ہے۔

    ماموں اور باپ میں فرق نہیں ہوتا۔ مگر سمجھو تو۔ نہ سمجھو تو بھانجا بھانجی تو خیر اپنی اولاد بھی غیر ہے۔ خدا گواہ ہے میری تواگر جان تک کام آ جائے تو دریغ نہیں۔ اپنے بچے کم اور صادقہ کے بچے زیادہ۔ مگر ذرا عقل سے کام لو، ساری دنیا میں بدنام ہوں، مَری ہوئی ہڈیاں اکھڑواﺅں، اما باوا کی ناک کٹواﺅں، دادی داد ا تک کو پنواﺅں، جب ان کے ساتھ رکھنے کا نام لوں۔ میں خود پرائے بس میں ہوں۔ شہر کا معاملہ سسرال کی بات، ساس نندوں کا ساتھ ہروقت کی جھک جھک، رات دن کی پِٹ پِٹ، کنبے بھر میں ذلیل ہو۔ عمر بھر کے لئے مٹی پلید کرنی، گھروں میں لڑائیاں ڈالنی، دلوں میں فرق ڈالنے کس خدا نے بتائے ہیں۔ اماجان تو پہلے ہی فرماتی ہیں کہ میکے کا بھرنا بھرتی ہے۔ بچوں کو رکھ لوں تو زندگی ہی دوبر ہو جائے۔ تم کو ماشاءاللہ اسّی روپیہ ملتے ہیں۔ دومیاں بیوی دو بچے کل چار دم۔ اسی روپیہ کیا کم ہیں۔ بُرا مانو یا بھلا، جس طرح ہو سکے صادقہ کے بچوں کو پانچ روپیہ مہینہ دو۔ یہ روپیہ رائیگاں نہیں جائےگا، یہاں نیک نام وہاں سرخرو۔ نصیر میاں حق داروں کا حق سمجھو اللہ برکت دے گا۔ پھلوگے پھولوگے، دنیا کی بہار دیکھو گے، روزگار میں ترقی ہوگی۔ ان بچوں کو غیر نہ سمجھو ظہیر اور حمید میں فرق نہیں ہے۔ بھائی بہن کی اولاد ایک ہوتی ہے۔ یہ بیچارے بھی کیا یاد کریں گے کہ کوئی ماموں تھا۔

    دلہن بیگم کو بہت بہت دعائ۔ بچوں کو پیار۔ اب تو ماشاءاللہ بچی پاﺅں پاﺅں چلتی ہوگی۔ اچھا خدا حافظ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے