نسلیں
یہ آدمی کچھ ہی دن پہلے اِس پارک میں آیا تھا۔ پھٹی پرانی شرٹ کے ساتھ میلا چکٹ پاجامہ اور پاجامے کوکپڑے کی ایک دھجی سے باندھا ہوا تھا۔ داڑھی اور سر کے بال جھاڑ جھنکاڑ تھے۔ اس کے پاس ایک بوری نما بڑا سا تھیلا تھا۔ میں یہ تو نہیں جانتا، تھیلے میں کیا تھا مگر یہ وہ تھیلا نہیں تھا، جو کچرا چننے والے اُٹھائے پھرتے ہیں۔ ایسے تھیلے پاگلوں کے پاس ہوتے ہیں کہ اُنھیں راہ میں جو شے پڑی ملے، اٹھا کر تھیلے میں ٹھونس لیتے ہیں۔
ان دنوں میں ایف ایٹ سیکڑ میں ایک دوست کے ساتھ رہتا تھا اور شدید سردی کے دن تھے۔ رہائش سے چند قدم کے فاصلے پر ہی یہ پارک تھی۔ مَیں وہاں چہل قدمی کے لیے نہیں جاتا تھا۔ مجھے ان سرکاری افسروں اور کلرکوں سے ہمیشہ چڑ رہی ہے، جو اپنی موٹی تازی بیویوں کے ساتھ صبح شام بد ہیئت پیٹوں کی چربی پگھلانے چلے آتے ہیں اور پارکوں کی نتھری ہوا کو بدبو دار بنا کر دفتروں میں جا بیٹھتے ہیں۔ ان سے دور رہنے کے لیے میں رات آٹھ بجے کے بعد نکلتا اور اُن جگہوں پر چہل قدمی کرتا، جو ایسے لوگوں سے خالی ہوتی ہیں لیکن پچھلے چھ سات دن بخار میں رہنے کے سبب کمزوری ہو گئی تھی، اس لیے دور جانے کی بجائے اسی پارک میں آ جاتا۔ یہ شخص اکثر وہیں پایا جاتا مگر حیرت کی بات یہ کہ کسی کے پاس نہ جاتا، لوگوں سے دور دور بیٹھتا اور ذرا فاصلے پر رہتا۔ میں اس کے نزدیک جاتا تو فوراً آگے بڑھ جاتا۔ اس کے پاوں میں کوئی جوتا نہیں تھا، نہ میرا خیال ہے، کبھی اس نے اس کی پروا کی ہوگی۔
ایک دفعہ میں قریب کی مارکیٹ میں گیا تو وہاں ایک ہوٹل کے باہر اپنا تھیلا چوتڑوں کے نیچے رکھ کر بیٹھا روٹی کا ٹکڑا کھا رہا تھا، مگر جیسے ہی میں پہنچا، اٹھ کر چل دیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا، گویا میں اس کے چیٹھروں کا غلیظ تھیلا اٹھا کر بھاگ جاؤں گا۔ اب مجھے ضد ہو گئی کہ ہر حالت میں اسے پکڑوں گا۔ یہ سوچ کربے دھڑک اُس کے پیچھے لگ گیا اور پارک کی دوسری نکڑ پر جا لیا۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا، کچھ لوگ پارک میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔ بچے ادھر ادھر جھولوں سے لپٹے ہوئے تھے۔ اِس سے پہلے کہ وہ اپنا تھیلا اُٹھا کر پھر بھاگتا، میں فوراً اس پر بیٹھ گیا۔ میرے اس عمل پر اسے ایک جھٹکا سا لگا اور دیدے پھاڑ کر دیکھنے لگا، جیسے کوئی ڈرا ہوا ہو۔ مَیں نے خیال کیا، اس کے دل میں کوئی چور یا راز ہے، عام آدمی کو اس طرح ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے پوچھا۔
میرے سوال کو اس نے گویا سنا ہی نہیں تھا اور ٹک ٹک مجھے دیکھتا رہا۔ کچھ لمحے خموشی کے بعد میں نے پھر پوچھا، کیا نام ہے تمھارا؟ بتاتے کیوں نہیں؟ وہ پھر بھی نہیں بولا اور میرے نیچے سے تھیلا کھینچنے لگا لیکن اِس بار میں ضد پر آیا ہوا تھا، اس کا ہاتھ پرے جھٹک کر تھیلے پر مزید وزن ڈال دیا اور کرخت لہجے سے پوچھا، بتاتے کیوں نہیں، کون ہو؟ اس تھیلے میں کیا ہے؟ نہیں بتاؤ گے تو میں تمھیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔ اب وہ گھبرا گیا اور بولا، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
یہاں کیا کر رہے ہو؟
میرے اس سوال پر وہ پھر چپ رہا اور ڈرے ڈرے دیکھنے لگا۔ اِتنے میں دو تین بچے کھیلتے ہوئے قریب آ گئے اور ہماری طرف بھاگنے لگے۔ ایک تو اُس آدمی کی حالت پاگلوں کی سی تھی، اس پر میرا اپنا حلیہ بھی جسمانی کمزوری کے سبب، اسی جیسا لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا، بچے ہم دونوں کو ایک ہی طبقے سے نہ سمجھ لیں اس لیے فوراً وہاں سے اٹھا اور دوسری طرف چل دیا۔ میرے اٹھنے سے اس کے چہرے پر سکون آ گیا۔ وہ چند لمحے وہیں بیٹھا رہا۔ مَیں جاتے ہوئے کن اَکھیوں سے اُسے دیکھتا رہا۔
جب میں اس سے کافی دور ہو گیا تو اس نے جلدی سے تھیلا اٹھایا اور پارک سے باہر کی طرف چل دیا۔ پھر یہ شخص مجھے یہاں نظر نہیں آیا۔ آٹھ دس روز گزر گئے، ایک دن شام کو کسی کا فون آیا کہ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے پوچھا، آپ کون ہیں اور کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ اس نے بتایا، میرا نام قیوم ہے، آپ کے کچھ افسانے پڑھے ہیں، اچھے لگے ہیں، اس لیے چاہتا ہوں، آپ سے مل بھی لوں۔ سنا ہے، آپ اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں، برا نہ لگے تو پتا اور وقت بتا دیں، مَیں آجاتا ہوں۔ کہنے کو تو میں اسلام آباد میں رہ رہا تھا لیکن یہ بات صرف مجھے ہی معلوم تھی کہ کس مصیبت میں گزر ہو رہی تھی۔ سراسر دوستوں کے سہارے پرتھا اور نہیں چاہتا تھا، ان پر مزید بوجھ ڈالوں۔ میں نے جواب دیا، قیوم صاحب! آپ یہ دونوں چیزیں مجھے بتادیں، مَیں خود آپ کی طرف آ جاتا ہوں۔ اس نے کہا، تکلف نہ سمجھیں تو ای سیون کی تین نمبر سٹریٹ کے مکان ۳۴ میں آ جائیں۔
یہ جگہ ایف ایٹ تھری سے زیادہ دور نہیں تھی۔ مَیں شام کو پیدل ہی وہاں پہنچ گیا۔ جیسا کہ میری توقع تھی، اس نے ادب اور میرے افسانوں پر سیر حاصل گفتگو کے ساتھ کافی تواضع بھی کی۔ رات دس بجے تک وہیں بیٹھا رہا۔ اٹھنے لگا تو اُس نے گاڑی کے ذریعے چھوڑنے کا اصرار کیا لیکن میں نہیں مانا اور پیدل ہی چل پڑا، مجبور ہو کر وضعدارانہ تھوڑی دور ساتھ چلا اور گلی کی نکڑ پر پہنچ کر میں نے رخصت لی۔
میں گرین بیلٹ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ کہر بھی زیادہ نہیں تھی مگر سردی بہت کڑاکے کی تھی اور ہر طرف سناٹا تھا۔ مجھے یہ موسم بہت رومانوی سا لگا۔ مَیں کبھی چیڑ کے درختوں کے درمیان چلنے لگتا، جہاں سے چاند کی اساطیری روشنی چھن چھن کر درختوں میں اتر رہی تھی اور کبھی فٹ پاتھ پر ہو لیتا۔ کچھ ہی فاصلے پر، جہاں ای ایٹ کے علاقے کے آغاز کے ساتھ ہی ائر فورس کے رہائشی مکان ہیں اور چنار کے درختوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، مَیں سڑک کو ایک طرف رکھ کر چناروں کے درمیان ہی چلنے لگا، کہ یہ منظر بہت ہی انمول تھا، ہر طرف زرد پتوں کا سونا بکھرا ہوا تھا۔ میں ان چناروں کے درمیان تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ ایک ٹین کا بنا ہوا ویران سا کیبن کھڑا نظر آیا۔ اس طرح کے ٹوٹے پھوٹے کیبن اسلام آباد میں اکثر نظر آ جاتے ہیں، جو کبھی سیکورٹی کے لیے استعمال ہو تے رہے، سیکورٹی ہٹا ئی گئی تو بیکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور انہیں اٹھانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس کیبن کا دروازہ اکھڑ چکا تھا، چھت باقی تھی، وہ بھی شاید بارش میں ٹپکتی ہو۔ مَیں اُسے نظر انداز کر کے نکل جاتا مگر میرے غور کرنے پر لگا کہ کیبن کے اندر کو ئی شخص بوسیدہ کمبل اور پھٹی پرانی چادریں اوڑھے لیٹا ہوا ہے اور خراٹے لے رہا ہے۔ میں کچھ لمحے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا، اچانک میری نظر ایک بوری پر پڑ گئی، جو اگرچہ اس نے سر کے نیچے رکھی تھی لیکن اب سر کے نیچے سے نکل کر ایک طرف لڑھک گئی تھی۔ یہ تو وہی شخص اور اُس کا تھیلا تھا۔ مَیں نے دبے پاؤں آگے بڑھ کر آہستہ سے تھیلا اٹھا لیا اور تھوڑی دُور جا کر اسے الٹ دیا۔ اس میں پرانے چیتھڑے، ٹوٹے ہوئے جوتے، ایک بڑا سا مومی کاغذ، جو شاید بارش سے بچنے کے لیے تھا۔ ان کے علاوہ ایک کاغذوں کا جزاور بہت سی کچی پکی پنسلیں بھی تھیں۔ میں نے باقی چیزیں تھیلے میں ٹھونس کر کاغذ بغل میں دابے اور مکان پر آ گیا۔ مجھے تجسس تھا، آخر دیکھوں تو اس میں لکھا کیا ہے؟ میں نے تسلی سے بستر میں لیٹ کر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ عبارت نہایت الجھی اور خراب تھی لیکن میں پڑھنے میں ڈٹا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد تحریر سمجھ میں آنے لگی۔
میں اس کو اتنا گندا اور منحوس بنا دوں گا کہ وہ بدبو اور گندگی وہاں پڑھی گئی تمام دعاؤں کے ساتھ لپٹ کر خدا کے پاس جائےگی اور خدا ان دعاؤں کو دور ہی سے رد کر دےگا اور انہیں اپنی بارگاہ میں داخل نہیں ہونے دےگا۔ خدا تو اسے پہلے بھی پسند نہیں کرتا اور اٹھا اٹھا کے دھویں والی آگ میں پھینکتا ہے۔ یہ دھواں خبیث شے ہے، ناک، منہ، سینہ اور دل، ہر شے میں بھر جاتا ہے۔ ہمارے اپنے گھر میں بھی بھر گیا تھا اور سارے مر گئے تھے۔ مگر یہ دھواں اللہ نے نہیں، اِسی خبیث نے بھرا تھا۔ اب میری سب سے بڑی کوشش ہے کہ مَیں ایسا کام کر جاؤں کہ اللہ اس جگہ کو بھی کالے اور سرخ دھویں سے بھرتا رہے، جس کی وجہ سے اس کی سانس اسی طرح بند ہو جیسے دوسروں کی ہوئی تھی، ہمارے سارے گھر کی ہوئی تھی۔ لیکن مَیں جانتا ہوں میری ماں کی طرح آدھے سے زیادہ لوگ پاگل ہیں، میری ماں بھی اس کے حق میں دعا کرتی تھی، وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ہمارے خون کو ناپاک کر رہا ہے اور نسل کو ختم کر رہا ہے۔ ہمارے بہت نیک لوگ، انجانے میں اس ناپاک کے حق میں دعا کر دیتے ہیں۔ مجھے خطرہ ہے، کہیں خدا ان کی دعا قبول ہی نہ کر لے اس لیے میں نے تہیہ کیا ہے، جب تک زندہ ہوں، مَیں یہ بد بو پھیلاتا رہوں گا۔
اسی طرح کی بہت سی واہی کاغذ پر جگہ جگہ درج تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، یہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ پتا نہیں کون سی بد بو تھی اور کس جگہ تھی؟ بار بار دُھواں کہاں سے آ جاتا تھا اور یہ کالا اور سرخ دھواں کیا تھا؟ کس نے پھیلایا تھا؟ نہ کسی کا نام، نہ کوئی نشان۔ آگے چل کر بار بار ایک ہی تحریر کا اعادہ کیا گیا تھا۔
آج میں نے وہاں جی بھر کے گند پھینکا اور بہت زیادہ پھینکا۔ میرا جی خوش ہو گیا۔ میرا خیال ہے، میرا خدا بھی خوش ہوا ہوگا۔ اگر نہ بھی ہوا تو کوئی بات نہیں۔ وہ کون سا ہر ایک پر خوش رہتا ہے، مجھے تو ایسے لگتا ہے خدا سب کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک کرتا ہے۔ اسے اچھے برے کی پہچان ہی نہیں، اس کے فرشتے رشوت لے کر بِک چکے ہیں، رشوت تو ہر جگہ چلتی ہے۔ اسی لیے اچھے اعمال بروں کے حصے میں آتے ہیں اور کالے عمل چھوں کے پلڑے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا بھی ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ ہر چیز خراب ہو گئی ہے لیکن کوئی بات نہیں، میں بھی ہار ماننے والا نہیں۔ لگا ہوا ہوں اپنے کام میں۔ مجھے یقین ہے، اگر میں اس کام میں چھٹی نہ کروں تو ایک دن کامیاب ہو ہی جاؤں گا۔ اسے پتا چل ہی جائےگا کہ یہ میرا عمل نیک اور مفید ہے، پھروہ کی جزا ضرور دےگا اور مجھ پر خوش ہوگا، چاہے اس کے فرشتوں نے کتنی بھی رشوت کیوں نہ کھا لی ہو۔ میرے پاس دھواں تو نہیں ہے لیکن جو کچھ کر رہا ہوں، وہ دھویں سے کم بھی نہیں۔ ایک دن اللہ کہےگا کہ اس کو سزا دینے میں میں نے اس کی مدد کی اور اس کی بخشش میں پڑھی گئی دعاؤں کو قریب نہیں آنے دیا۔ کل کی طرح آج پھر مجھے بہت سکون ملا۔
ایک اور جگہ پر لکھا تھا۔
آج میں نے وہاں دو بار پلیدی ماری۔ اس طرح میری صحت بھی اچھی رہتی ہے اور کام بھی اچھا ہو جاتا ہے۔ یہ کام اور بھی اچھا ہوگا، بس میری طبیعت ٹھیک رہے تو دیکھنا مَیں کتنا شاندار کام کرتا ہوں۔ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں، ہاہاہاہا، حالانکہ اس ملک کی ساری عوام پاگل ہے مگر اپنے آپ کو عقل والے سمجھتی ہے، سب عقل کے کانے لنگڑے، لولے اور اندھے ہیں۔ انھوں نے میرا ساتھ نہ دیا تو ایک دن سب مریں گے۔ ایک وقت ایسا آئےگا کہ سب ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخباروں والے میرے پاس آئیں گے اور میری چیزیں سونے میں تول کر لے جائیں گے۔ میں وہ سارے پیسے ان میں بانٹ دوں گا، جو مجھے نہیں جانتے لیکن میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔
مجھے شبہ ہوا، یہ شخص پاگل نہیں تو خبطی ضرور ہے۔ ایک تو تمام تحریریں بےربط تھیں، گرائمر اور جملوں کی ساخت بھی خراب تھی، اس پر دعوہ یہ کہ سونے میں تولی جائیں گی لیکن اس سے ملنے کا تجسس بڑھ گیا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا، کل اسے ضرور جا پکڑوں گا اور اگلوا کے رہوں گا کہ وہ در اصل کون ہے؟ دوسرے دن فجر کے وقت ہی وہاں جا پہنچا مگر وہ موجود نہیں تھا۔ اس کا تھیلا بھی غائب تھا۔ مَیں اس کے لیے شک میں مبتلا ہو گیا یعنی یہ کوئی جاسوس ہے، جس کی تحریریں در اصل کوڈ ورڈ تھیں۔ رات میں اس کے کاغذات چرا لایا تھا، اس لیے وہاں سے بھاگ گیا تھا لیکن میرے یہاں بےوقت آنے سے اتنا ہوا کہ صبح کی فضا اور موسم انتہائی اچھا لگا۔ کبھی بچپن میں اماں جان اِس وقت نماز کے لیے اٹھایا کرتی تھی۔ ویران اور صاٖف ستھری سڑک، جس پر کوئی آدم نظر نہ آتا تھا، چہچہاتے پرندے، خوبصورت درخت، جن پر کہر کے گزرتے ہوئے غبار تھے۔ یہ سڑک سیدھی اِس شہر کی سب سے بڑی مسجد کی طرف جاتی تھی، جس کے شمال کی جانب پہاڑ اور جنوب کی طرف پورا شہر آباد ہے۔ اسی مسجد کے پہلو میں ایک قبر بھی ہے۔ یہ قبر اس جرنیل کی ہے جو گیارہ سال ملک کا صدر رہ کر ایک حادثے میں مارا گیا تھا۔ مجھے نہ تو اِس مسجد سے کچھ لینا تھا اور نہ قبر سے سروکار تھا، بس موسم اور منظر کی خوبصورتی کو دل میں اتارنے کے لیے اس طرف کو چل دیا۔ کافی دیر اِس علاقے میں گھومتا رہا، جب تھک گیا تو سورج نکلنے کے ساتھ ہی واپس آ گیا۔ اس کے بعد میرا معمول بن گیا۔ مَیں فجر کی اذان کے وقت چہل قدمی کے لیے اسی طرف جانے لگا۔ اس دوران میں نے وہ تحریریں دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی، جس میں مجھے دو نئی چیزیں نظر آئیں۔
بھائی حبیب اللہ، میں نے تجھے کئی دفعہ سمجھایا تھا مگر تونے میری ایک نہیں مانی۔ دیکھا، صغرا اور اماں کا کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ ایک ٹرین کے نیچے آکر مر گئی۔ دوسری پاگل ہوکر۔ لوگ تو مجھے بھی پاگل کہتے ہیں لیکن میں ان پر ہنستا ہوں۔
یہ جانتے ہی نہیں، ان کے ساتھ اور میرے ساتھ کیا ہو گیا۔ میں نے تجھے کہا نہیں تھا ایسا نہ کرنا؟ ورنہ سب برباد ہوں گے، اب دیکھ لے، جاوید بھی تیرے قدم پر چلا اور وہاں مارا گیا، جو ہمارا وطن نہیں تھا۔ وہ علاقہ تو ہماری پچھلی کئی پشتوں نے نہیں دیکھا تھا، نہ وہ لوگ ہمیں جانتے تھے، نہ ہم انھیں جانتے ہیں۔
مروانے والے کئی آج بھی زندہ ہیں تیری طرح اس نے بھی میری ایک نہیں سنی اور ابھی تک مجھے نہیں پتا وہ کہاں مارا گیا، یا زندہ؟ اب تو فکر نہ کر، یہ سارے بدلے لے رہا ہوں، جس نے ہمارے سارے نطفے ضائع کر دیے۔
ان تحریروں کے پڑھنے کے بعد میں نے اسے پھر ڈھونڈنا چاہا لیکن وہ نہیں ملا۔ بالآخر میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ خوف زدہ ہو کر شہر چھوڑ چکا ہے لیکن میرا اندازہ غلط تھا۔ ایک دن عصر کے وقت انتہائی شدید سردی میں ایف سیون تھری کے ایک ڈھابے پر میرا اس کا سامنا ہو گیا۔ اُس دن کہر تو بالکل نہیں تھی لیکن ہلکی بارش اور تیز سرد ہوا جسم میں سوراخ کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر تھوڑا سا ٹھٹھکا لیکن بھاگا نہیں، یا آج اس میں سکت ہی نہیں تھی۔ پاؤں میں جوتے بد ستور نہیں تھے۔ ایک بوسیدہ اور جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی دیسی اون کی چادر اوڑھے تھا۔ ہاتھ میں تھیلا بھی نہیں تھا۔ ٹوٹی چارپائی کے پاس کچی اور گیلی زمین پر بیٹھا چائے بنانے والے کی طرف لالچی نظر وں سے دیکھ رہا تھا۔ پاؤں سردی سے اکڑے ہوئے تھے، جنہیں ایک ہاتھ سے دبا رہا تھا اور سردی سے کانپ رہا تھا۔ مجھے اس کی حالت پر رحم آیا۔ مَیں ایک خالی چارپائی پر بیٹھ گیا اور ہوٹل کے مالک کو دو چائے بنانے کا آڈر دیا۔ اس کے بعد اس شخص کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اس نے تھوڑی دیر میری طرف غور سے دیکھا، پھر اٹھ کر میرے پاس آ گیا لیکن چارپائی پر بیٹھنے کی بجائے نیچے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے دوبارہ چارپائی پر بیٹھنے کو نہیں کہا۔ وہ قریب آیا تو مجھے اس کے جسم سے سخت بد بو آئی یا یہ میرا وہم تھا، کیونکہ پہلے ملا تھا تو اس سے ایسی بدبو نہیں آئی تھی۔ شاید اُس وقت میں نے اُس کی تحریریں نہیں پڑھی تھیں، جن میں بار بار گند اور بدبو کے لفظ آتے تھے۔ چائے آئی تو ایک کپ اُٹھا کر اُسے دیا اور گفتگو کا آغاز بھی کر دیا۔
دیکھیں نہ تو میرا پولیس سے تعلق ہے، نہ میں جانتا ہوں، آپ کون ہیں؟ اس لیے کچھ اپنے بارے میں بتا دوگے تو برا فرق نہیں پڑےگا۔
میرے لہجے میں شاید ملائمت تھی یا چائے کا اثر، جسے وہ سردی کی شدت میں مزے سے پی رہا تھا، بالآخر بول پڑا، کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟
اپنا نام بتا دیں؟
وہ بغیر کسی توقف کے بولا، میرا نام مجید ہے۔ یہ نام میرے دادا نے رکھا تھا۔
کس شہر کے ہو؟
مرید کے، کا رہنے والا ہوں۔
تمھارا کوئی رشتے دار نہیں ہے؟ اس سردی میں خوامخواہ مر رہے ہو۔ اپنے گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟
اب نہ کوئی میرا رشتے دار ہے اور نہ کوئی گھر بار، اس نے بے پرواہی سے جواب دیا۔
یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے بغیر وقفے کے پوچھا،
کام کر رہا ہوں۔
لیکن میں نے جتنی بار بھی تمھیں دیکھا ہے، اسی کسمپرسی اور مفلسی میں۔ کام کرتے ہو تو اس کا معاوضہ کہاں خرچ کرتے ہو؟
کچھ کام معاوضے کے بغیر کیے جاتے ہیں، وہ پھر مختصراً بولا،
تو پھر کیوں کرتے ہو؟
سکون کے لیے۔
بھائی کیا کرتا تھا؟
میرے اس سوال پر اس نے مجھے غور سے دیکھا پھر فوراً ہی چائے کا خالی کپ رکھ کر چل دیا حالانکہ بارش اور تیز ہوا مسلسل چل رہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد میں اس میں دلچسپی کھو بیٹھا تھا، چنانچہ اسے آسانی سے جانے دیا بلکہ اس کی بے وجہ کی بے نیازی اور جسم سے اٹھتی ہوئی بد بو کے سبب مجھے اس سے نفرت سی ہو گئی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ جاتے ہی اس کے بےکار مسودے گندی نالی میں پھینک دوں گا۔ ان باتوں کے علاوہِ، مرید کے، کے نام نے بھی مجھ پر کچھ اچھا اثر نہیں ڈالا تھا۔
الغرض اب کے میں نے اس پر لعنت بھیجی اور اپنے دھندوں میں لگ گیا۔ بعد میں ایک دو دفعہ اسے دیکھا لیکن خود اس سے پرے گزر گیا۔ اِس واقعے کو دو ہفتے گزر گئے۔ میری سیر اور چہل قدمی کا سلسلہ جاری رہا۔ معمول کے مطابق میں فجر سے آدھا گھنٹہ پہلے اٹھتا، ایف ایٹ سے نکل کر شاہرہ فیصل پر آ جاتا، پھر ٹہلتا ٹہلتا فیصل مسجد کے سامنے جا نکلتا۔ وہاں سے بائیں پہلو کو مڑکر پیچھے پہاڑوں کی طرف ہو لیتا۔ پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر، وہاں رکے بغیر اُسی راستے واپس آ جاتا۔ مکان پر پہنچتا تو سورج نکل رہا ہوتا۔ اس دوران نہ مَیں نے کبھی وہاں نماز پڑھی، نہ مسجد کے پہلو میں قبر کی طرف جانے کی کوشش کی، جسے دیکھنے کے لیے لوگ شوق سے بھی چلے آتے ہیں، پھر فاتحہ بھی پڑھ ڈالتے ہیں۔
ایک دن جب میں گزر رہا تھا تو قبر کی طرف سے ہلکا سا شور سنائی دیا، جیسے کوئی چیخیں، مار رہا ہو۔ ابھی تک فجر کی اذان نہیں ہوئی تھی اور اندھیرا کافی تھا۔ مَیں تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹھکا پھر آگے چل دیا لیکن شور شدید ہو رہا تھا۔ قبر پر موجود ایک بلب کی کہر زدہ روشنی سے پانچ سات لوگ بھی نظر آ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میرے قدم بےاختیار اس طرف اٹھ گئے۔ قریب پہنچا تو عجیب منظر تھا۔ شدید سردی کے عالم میں گیلی گھاس پر ایک شخص ننگا الٹا لیٹا ہوا تھا، جس کی پیٹھ پر ایک پولیس والا بید مار رہا تھا۔ ایک اور پولیس والے نے اس کی گردن اور بازؤوں کو بڑی قوت سے اپنی ٹانگوں کے شکنجے میں جکڑا تھا، ایک دوسرے شخص نے اس کی دونوں ٹانگیں پکڑ رکھی تھیں۔ ایک پولیس افسر بھی تھا، وہ کھڑا انہیں زور سے مارنے کا حکم دے رہا تھا۔ میں نے اُس شخص کو پہچان لیا، یہ وہی خبطی تھا۔ اِس منظر کو دیکھنے کے لیے کافی لوگ جمع ہو سکتے تھے مگر شدید سردی اور رات کی وجہ سے پانچ سات لوگ ہی ایسے تھے جنہیں یہ تماشا دیکھنا نصیب ہوا تھا۔
قبر کے پہلو میں اسے الٹا اور ننگا لٹا کر پولیس والے بید مار رہے تھے اور جواباً گالیوں اور چیخوں ایک طوفان اٹھ رہا تھا۔ چند لمحے محظوظ ہونے کے بعد مجھ میں اس کے لیے ہمدردی پیدا ہونے لگی۔ مَیں نے پولیس افسر سے کہا، بھائی کیا مسئلہ ہے، اسے کیوں مار رہے ہو؟
پولیس افسر نے غصے کی کیفیت سے میری طرف دیکھ کر کہا، بھائی! جائیں اپنا کام کریں یا جا کر نماز پڑھیں، میرا سر نہ کھائیں۔
میں نے بھی اسی خشونت سے جواب دیا، ٹھیک ہے، سر نہیں کھاتا لیکن اس شخص کے مر جانے کی صور ت میں مجھے اپنے خلاف ایک گواہ سمجھ لیں۔
کیا مطلب ہے آپ کا؟ پولیس افسر بولا،
مطلب کا آپ کو نہیں پتا؟ میں نے کہا، اس سردی میں اسے بُری طرح ننگا کر کے مارنے سے، کیا یہ بچےگا؟
بیہ خبیث نہیں مرےگا، آپ بالکل فکر نہ کریں۔ اس حرامزادے نے وہ کام کیا ہے کہ آپ کے فرشتے بھی نہیں سوچ سکتے۔
کیا کیا ہے؟ میں نے بےچینی سے پوچھا۔
اِس نے قبر کی بےحرمتی کی ہے، پولیس افسر بولا اور یہ کام پچھلے کئی دنوں سے کر رہا ہے لیکن آج پکڑا گیا۔ ہمیں توقع ہی نہیں تھی کہ کوئی شخص ایسے بھی کر سکتا ہے۔
اب میرا دماغ ان تحریروں کی طرف پلٹا، جنہیں مَیں پڑھ کر اور ناکارہ سمجھ کر پھینک چکا تھا۔ اچھا، تو یہ یہاں آ کر گند پھیلاتا تھا۔ میں دل ہی دل میں ہنسا، پھر سنجیدہ ہو کر پولیس افسر سے کہا، جناب اگر اس نے قبر کی بےحرمتی کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں اسے مار ہی دیا جائے۔
میاں آپ کون ہیں، جو مجھ سے تفتیش کرنے لگے؟ اس نے اب مجھے گھور کر پوچھا۔
میں ایک ٹی وی چینل میں کام کر تا ہوں اور یہاں روز چہل قدمی کرنے آتا ہوں۔
ٹی وی میں کام کرنے والی بات میں نے جھوٹ کہی تھی لیکن اُس کا اثر بہت ہوا۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو فوراً پٹائی سے روک دیا، جس کی وجہ سے شور بھی کم ہو گیا۔ اب اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور قبر کے قبے کے پاس لے جاکر اس کی طرف اشارہ کر کے بولا، یہ دیکھ رہے ہیں آپ؟ اس غلیظ آدمی نے کیا کیا ہے؟
میں نے تمام قبے پر نظر ڈالی لیکن نہ تو وہاں کوئی گند تھا اور نہ کسی قسم کی بد بو آ رہی تھی البتہ قبہ اور قبے کی اردگرد کی جگہ کافی میلی تھی۔
مجھے توکچھ نظر نہیں آ رہا، میں نے اکتا کر کہا۔
جناب پتا نہیں آپ کی آنکھیں ہیں یا ماتھے پر کینچے ٹکائے ہیں۔ مجھے تو اِس کنجر کی حرکت کو بتاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے، انسپکڑ نے اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ حرامزادہ اس قبر کے قبے کے عین اوپر بیٹھ کر مشت زنی کرتا ہے اور اپنے ناپاک نطفے کا پانی قبے پر پھینک دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، اس گھٹیا ترین اور قبیح فعل پر اِس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ مجھے پندرہ سال پولیس نوکری میں ہو گئے، آج تک ایسے شیطان سے واسطہ نہیں پڑا۔ اتنی حرامی سوچ تو شیطان کو بھی نہیں آئی ہوگی۔
میں کیا بتاتا؟ مَیں نے مڑکر اس آدمی کی طرف دیکھا، جو مار کھانے کے بعد کافی مضمحل ہو چکا تھا اور آنکھیں نیچے کیے بیٹھا تھا۔ اتنے میں مسجد سے اذان کی صدا گونج اٹھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.