نیا پل
تنگ گلیوں اور غلیظ کمروں میں گھٹن بڑھنے لگی اور حبس سے دم گھٹنے لگا تو لوگوں نے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے۔ پہلے اوورکوٹ اترا، پھر کوٹ، سوئیٹر اور جرسی کی باری آئی اور آہستہ آہستہ جانگئیے نے پتلون کی جگہ لے لی۔ تب سارے شہر میں میں اکیلا رہ گیا۔ شہر والے کپڑے اتار رہے تھے اورمیں کپڑے پہن رہا تھا۔ جس رفتار سے وہ کپڑے اتار رہے تھے، میرے بدن پر کپڑوں کے انبار اسی رفتار سے بڑھ رہے تھے۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں ان کپڑوں کے ڈھیر میں بھی ننگا ہوں۔ پہلے میں ننگا ہوکر بھی ننگا نہیں کہلا سکتا۔ کہ میں لاؤکوایہ کی عذاب زدہ نسل سے ہوں۔
میں جب سوچتا ہوں لوگ کتنے عجیب ہیں، تو مجھے وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب میں نے کپڑوں کے تنگ حصار سے گھبراکر اسے توڑ دیا تھا اور روح کا ازلی و ابدی ننگا جسم لیے بازاروں میں گھومنے لگا تھا تو لوگوں نے یکایک اپنے خاکی جسموں کے کرب کے گرد مخملی اور سوتی سراب کی دیواریں چن لی تھیں۔ اتنی گہری دیواریں کہ میں ان میں جھانکنا بھی چاہتا تو وہ نظر نہیں آ سکتے تھے۔
کتنے عجیب ہیں یہ لوگ!
میں نے بھی تو اپنے جسم کے گرد کپڑوں کے کرب کی دیواریں چن لی ہیں۔ اونچی اونچی تنگ دیواریں۔ جیسے یہ دیواریں کسی گہرے کنوئیں کی دیواریں ہیں جس میں مجھے ایلپس کے مقدس پہاڑ سے آگ چرانے کے جرم میں الٹا لٹکا دیا گیا ہے اور میں روح کا ازلی و ابدی ننگا پن کپڑوں میں چھپائے آج بھی ٹوٹے ہوئے پل کی دیواروں کو یاد کرتا ہوں۔ جن کا اب نشان بھی نہیں۔ بوڑھے پل کی گود سے نیا پل جنم لے چکا ہے۔ اب راستے میں کوئی پل صراط نہیں۔ نیا پل ہے، جس پر سے اب میں روزانہ کئی بار گزرتا ہوں۔
مٹی کا ٹوٹا ہوا پل۔ میں اور امجد کئی راتیں ساتھ گزار چکے ہیں۔ رات جب دن کے ننگاپن کو چھپانے کے لیے اپنے پر پھیلا دیتی ہے تو مجھے اس کی بھیانک خیزیوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ لیکن رات تو مامتا سے بھرے گداز بازوؤں کی طرح ہمیشہ مجھے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی اور میں امجد کا ہاتھ تھامے ہولے ہولے پل کی طرف چل دیتا۔ پل کی طرف جسے بوڑھا پل کہہ کر اس پر سے بھاری ٹریفک کو روک دیا گیا ہے۔ بوڑھا پل جس کے سینے سے سینکڑوں ہزاروں، لاکھوں بھاری پہئیے گزرے تھے۔ بوڑھے پل پر سے بھاری ٹریفک کو روک دیا گیا۔ رات ہولے ہولے گہری ہوتی جاتی۔ ستارے چمک چمک کر بجھنے لگتے تو میں امجد سے کہتا۔
’’میں چلوں؟‘‘
’’نہیں۔ کچھ دیر اور ٹھہرو۔ جانا تو ہے ہی‘‘۔
’’بہت دیر ہو گئی‘‘۔
’’دیر کب نہیں ہوئی‘‘۔
تو میں ازلی بےبسی سے امجد کی طرف دیکھتا۔ جو دور لئی کے زخموں سے رستی ہوئی پیپ کو گھورتا رہتا۔ رات کی اندھی گہرائیوں میں لئی کے زخم اور زیادہ گہرے ہو جاتے۔ جب اس کا درد جاگ اٹھتا تو رات تیزتیز قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگتی۔ لیکن میں امجد اور بوڑھا پل ایک دوسرے کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوتے۔ تینوں جانتے تھے تنہائی کے زخم کتنے گہرے ہوتے ہیں۔
میں پل کی ریلنگ سے اتر کر پل کے چہرے پر پڑی جھریوں کو دیکھتا تو مجھے یوں لگتا جیسے پل دن کی روشنی کی نسبت اندھیروں میں کچھ زیادہ ہی بوڑھا ہو گیا ہو۔
’’ضرور جاؤگے؟‘‘
امجد ہمیشہ کی مانند پوچھتا۔
’’ہاں اٹھ جانے دو۔ بہت دیر ہو گئی ہے‘‘۔
’’کیا کروگے جاکر۔ دروازہ کھل جائےگا‘‘۔
’’دروازہ۔۔‘‘
میں بے بس ہو جاتا۔
’’بیٹھ جاؤ۔ بوڑھے پل کی یہ ریلنگ تمہارے اونچے مکان کی دہلیز سے بہتر ہے‘‘۔
میں واپس ریلنگ پر بیٹھ جاتا۔ دکھوں کے میلے میں ایک نئے دکھ کا اضافہ ہو جاتا اور جب نئے دکھ کا وجود ختم ہو جاتا، تو میں سوچنے لگتا، گھر جاکر کیا کروں گا۔ دروازہ کون کھولےگا۔ دو بج چکے ہیں۔ تین گھنٹے بعد صبح ہو جائےگی اور پھر رات ختم ہو جائےگی۔ لیکن میں سوچتا رات کب ختم ہوتی ہے۔ رات کے زہریلے سائے جلتی ہلتی دھوپ میں اور بھی لمبے ہو جاتے ہیں۔
’’میں افسانہ لکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
میں چونک کر امجد کے دھندلائے چہرے کی طرف دیکھتا جہاں زندگی کی بھیانک پرچھائیاں رقص کرتی نظر آتیں۔
’’بھو، بھو، بھو‘‘۔
بڑے پریس کے برآمدے میں بیٹھا ہوا کتا اچانک بھونکنے لگتا۔
’’در حرامی۔۔۔۔‘‘
قریب ہی کوئی گہری نیند سے جاگ کر کتے کو گالی دیتا اور کتا آواز سن کر خاموش ہو جاتا اور چاروں طرف پھر وہی چپ چھا جاتی۔
’’افسانہ۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔ میں افسانہ لکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’پلاٹ مل گیا ہے‘‘۔
’’پلاٹ۔۔۔!‘‘
’’راحت ملی تھی‘‘۔
’’راحت۔۔ ہاں آج آئی تھی۔ اسے افسانہ چاہیے تھا‘‘۔
میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے زمین کے اس ٹکڑے کی طرح لگا جہاں آکر روشنی کی آخری کرن بھی دم توڑ دیتی ہے جو روشنی اور تاریکی کا سنگم بن کر رہ جاتی ہے اور پھر وہ راحت بھی کتنی عجیب تھی جو سنگ مرمر کی طرح امجد کو اپنے اندر جذب نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ لمحے لمحے کی طرح اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرتی جا رہی تھی۔
’’امجد‘‘۔
’’ہوں‘‘۔
’’کل سے یہ پل ٹوٹنا شروع ہو جائےگا‘‘۔
’’اچھا‘‘۔
اس کے لہجے میں کرب تھا۔
’’ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
’’ہم‘‘۔
’’ہم‘‘۔
’’ہم‘‘۔ امجد نے پل کی طرف دیکھا اور پھر میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ ہم کہاں جائیں گے۔ کہیں بھی نہیں۔ پل کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے وجود کو توڑنا شروع کر دیں گے۔ پرانے وجود کو لاکھوں برس پرانے وجود کو، بوڑھے وجود کو، جسے ابھی تک بھاری ٹریفک کے لیے بند نہیں کیا گیا۔ کرب کا بھاری ٹریفک اب بھی وجود کے انگ انگ پر بھاری وزنی پہیوں سے گزر رہا ہے۔ ہم اپنے وجود سے کرب کے بھاری ٹریفک کو نہیں روک سکتے۔ کرب کا بھاری ٹریفک نہیں رک سکتا۔
ہمارا بوڑھا وجود کرب کی بھاری ٹریفک کی مکروہ گڑگڑاہٹ اب بھی سن رہا ہے۔ سنتا رہا ہے، سنتا رہےگا۔ وجود ریشہ ریشہ ہو چکا ہے۔ لیکن بھاری ٹریفک کو کون روکےگا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ پھر خود ہی کہنے لگا، ’’ہم سیڑھیوں والے پل پرچلے جائیں گے اور بوڑھے پل کی جگہ نئے پل کر سراسیس کو دیکھیں گے۔ پھر ایک روز نیا پل پرانا پل بن جائےگا۔ اس پر سے بھاری ٹریفک کو روک دیا جائےگا۔ لیکن ہمارا وجود، بوڑھا، پرانا وجود۔۔۔ بھاری ٹریفک‘‘۔
یک بیک موسم خراب ہو گیا۔ تیز ہوا نے اپنا رخ زمین کی طرف کرکے ساری بستی کو اپنی زد میں لینا شروع کر دیا۔ پھر تیز ہوا نے خوفناک شکل اختیار کر لی۔ اونچی نیچی پختہ عمارتیں اور گھاس پوس کی جھونپڑیاں، تیز ہوا کا نشانہ بننے لگیں۔ تیز ہوا زرد دھول کا ایک طوفان ساتھ لائی۔ ساری بستی دھول میں گم ہو گئی۔ ہر شے کا اپناوجود ختم ہو گیا۔ لوگوں کے چہرے مٹی میں اٹ کر اپنی ہیئیت کھو چکے تھے۔ انکے چہرے سیاہی اور زردی کی دوہری لیپ سے مکروہ ہو گئے تھے۔
دوسری صبح جب سورج اپنی نرم گداز کرنوں سے آبادی کو اپنی بانہوں میں لینے لگا تو لوگوں نے دیکھا، تنگ مکانوں کی دیواریں اپنی جگہ سے غائب تھیں۔ دیواریں ہوا اڑاکر لے گئی تھی اور چھتیں زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہوکر رہ گئی تھیں۔ غلیظ کمروں کی چھتیں بارش سے بیٹھ گئیں تھیں۔ خالی خالی دیواریں تھیں جن کے اندر بیٹھ کر دور دور تک پھیلی خلا سے پرے (رنگ بدلتے) آسمان کو آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ لوگوں کے چہروں کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی۔ تیز بارش انکی آنکھوں سے پانی بہاکر لے گئی تھی۔ اب لوگ چٹے دیدے نچاتے ہوئے ایک دوسرے کو طنزیہ نظروں سے گھور رہے تھے۔ ایک دوسرے کو چٹے دیدے والاکہہ کر پکار رہے تھے کہ اب تک کسی نے آئینہ نہیں دیکھا تھا۔
تیز بارش اور آندھی پل کی ریلنگ اور سڑک کو اڑا کر لے گئی اب وہاں پلررہ گئے تھے۔ اداس اور ویران پلر۔ جیسے ابھی ابھی مقدس مسیح وزنی صلیب اٹھا کر لائے ہیں اور پلاتوس کے حکم سے انہیں گڑوا دیا گیا ہے کہ ان پر خدا کی روح دوسروں میں منتقل کرنے والا اور اس کے ساتھی لٹکائے جائیں گے۔ پھر ایک روز آخری پلر بھی جس کی جڑیں سینکڑوں سال سے زمین کے سینے میں پیوست تھیں شمس تبریز کی کھال کی طرح نوچ کر دور پھینک دیا گیا، تو میں اور امجد درد بھری نظروں سے ٹوٹے ہوئے پل کو دیکھتے ہوئے سیڑھیوں والے پل کی طرف چل دیئے اور دونو ں پل کی اونچی ریلنگ پر کہنیاں ٹیک کر اپنے اپنے خیالوں میں گم ہو گئے۔
اچانک ایک انجن چھک چھک کرتا پل کے نیچے سے گزرا، ایک لمحے کے لیے انجن کا کثیف دھواں مرغولے کھاتا ہوا فضا میں اٹھا اور پھر بکھر گیا۔ میں نے امجد کی طرف دیکھا اور امجد مجھے انجن کی طرح لگنے لگا۔ اس انجن کی طرح جس کے پیچھے بےشمار بوگیاں بندھی ہوں اور وہ کرب سے چیختا چلاتا تیزی سے بھاگے جا رہا ہو۔
میں شٹنگ کرتے ہوئے انجن کو دیکھنے لگا جو متوازی خط کی دور تک پھیلی پٹڑی پر دوڑتا چلا گیا۔ جیسے اس کی کوئی منزل نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کوئی بوگی اس کا دامن پکڑتی اور پھر اچانک ایک جھٹکے سے اسے چھڑا کر تیزی سے اکیلی بھاگنے لگتی اور کچھ ہی دیر بعد بہت سی بوگیوں میں مل کر اپنا وجود کھو دیتی یا کسی اکیلے ویران پلیٹ فارم پر جا کھڑی ہوتی جہاں سالوں تک اسے کوئی نہیں پوچھتا تھا۔
میں نے سوچا اگر یہ آپس میں ٹکرا جائیں۔۔۔
’’امجد۔۔۔ یہ آپس میں ٹکرا جائیں تو۔۔۔‘‘
’’ایک زور دار دھماکا ہوگا۔۔۔ اور پھر۔۔۔پھر۔۔۔ خدا جانے کیا ہو‘‘۔
’’یہ بوگیاں انجن کا ہاتھ پکڑکر چھوڑ دیتی ہیں۔ ہیں نا امجد‘‘۔
’’بےچارے انجن۔۔۔‘‘
’’بےچاری بوگیاں۔۔۔‘‘
’’شاید۔۔۔‘‘
’’راحت ملی تھی‘‘۔
’’آج آئی تھی‘‘۔
’’افسانہ لینے‘‘۔
’’اسے افسانہ چاہیے تھا‘‘۔
’’پلاٹ مل گیا‘‘۔
’’پلاٹ تو ہے ہی۔ کلائمکس۔۔۔‘‘
’’تم راحت کے لیے کب تک افسانے لکھتے رہوگے‘‘۔
’’کب تک‘‘۔
’’ہاں، کب تک۔ تم اسے خط کیوں نہیں لکھتے‘‘۔
’’خط۔۔۔ ہاں مجھے خط لکھنا چاہیے‘‘۔
پھر کئی دن رات کی سیاہیوں میں ڈوب گئے۔ پرانے پل کی جگہ نیا پل جنم لیتا رہا۔ ایک روز میں جب پل پر پہنچا، امجد پل کی ریلنگ پر کہنیاں ٹیکے دور اسٹیشن کی بتیوں کو گھور رہا تھا۔ جلتی بجھتی بتیاں چاروں اور پھیلے اندھیرے کے سینے میں شگاف ڈالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آج بتیوں کی روشنی بھی ڈوبتی محسوس ہو رہی تھی جیسے اندھیرے کا سیلاب کچھ ہی لمحوں کے بعد روشنیوں کوہمیشہ کے لیے نگل لےگا۔ اندھیرے میں ڈوبا ہوا پل اداس اداس نظروں سے اپنے ساتھیوں کو بٹ بٹ دیکھ رہا تھا۔ چاروں اور پھیلی پٹڑیوں پر ہمیشہ کی صورت انجن ایک بوگی کا ہاتھ پکڑے تیزی سے پٹریاں بدل رہا تھا۔
’’راحت آئی تھی‘‘۔
میں نے ہمیشہ کی طرح سوال کیا۔
’’نہیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
میں حیران رہ گیا۔
’’خط لکھا تھا؟ جواب آیا؟‘‘
میں نے جلدی سے دونوں سوال کر دیئے۔
’’ہاں‘‘۔
میں نے امجد کی طرف دیکھا، وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کی نظریں دور شنٹگ کرتے ہوئے انجن پر جا پڑیں۔
’’جواب‘‘۔
وہ بڑبڑایا۔
اسی لمحے بوگی نے انجن سے ہاتھ چھڑا لیا اور تیزی سے انجن کی مخالف سمت دوڑنے لگی۔ انجن چند لمحے وہاں رکا اور پھر آہستہ آہستہ واپس لوٹنے لگا۔
’’آؤ چلیں‘‘۔
امجد نے کہا اور ہم آہستہ آہستہ پل سے اترنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.