نظربند
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
میں بالکل تنہا خاموش پڑا رہتا ہوں۔ سامنے کوئی نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی میرے اندر سے چیخ ابھرتی رہتی ہے۔
پھریہ ہوتا ہے۔
کوئی میری دکھتی رگوں پر اپنی انگلیاں دھر دیتا ہے۔ میں بلبلانے لگتا ہوں اور تبھی میرے زخموں پر نمک پاشی شروع ہو جاتی ہے اور میرا پورا وجود کراہوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پھر مجھے ہنسی کی مدھم آواز سنائی پڑتی ہے۔
وہ کون ہے۔۔۔؟
کہاں سے آیا ہے۔۔۔؟
مجھ سے اس کا کیا رشتہ ہے۔۔۔؟
میں یہ سب جاننا چاہتا ہوں اور اس جاننے کی چاہت میں اس کا کوئی سرا جیسے ہی میرے ہاتھ آتا ہے، میں اس کے سہارے آگے بڑھ جاتا ہوں۔ راستہ سنسان، سرنگ جیسا محسوس ہوتا ہے۔ اندھیرے کی دبیز چادر ماحول پر مسلط ہے۔
آنکھ دیکھنے سے معذور۔۔۔
پاؤں چلنے پر قادر نہیں۔۔۔
میں ٹھٹک پڑتا ہوں۔ وہی مدھم ہنسی پھر سنائی دیتی ہے:
’’تم یہاں بھی ہو۔۔۔؟‘‘
’’میں کہاں نہیں ہوں؟‘‘
اس کا جواب مجھے پریشان کر دیتا ہے۔ تبھی وہ دریافت کرتا ہے:
’’آگے کیوں نہیں بڑھتے۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نظر نہیں آتا بھائی۔۔۔‘‘
’’یہاں تمہاری بصارت کام نہیں آئےگی۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’بصارت کی بجائے بصیرت سے کام لو۔‘‘
’’کیسے۔۔۔؟‘‘
’’بصارت سے محروم ہوکر۔‘‘
’’کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ جب تم بصارت سے محروم ہوکر اندھے ہو جاؤگے تو بصیرت کا نور اندر سے امڈنے لگےگا، پھر تمھیں سب نظر آئےگا، سب کچھ، تمھیں وہ بھی نظر آئےگا جو آنکھ والے دیکھ نہیں پاتے۔‘‘
’’یہ تم عجیب سی باتیں کر رہے ہو۔ اس کا حقیقت سے کیا واسطہ؟‘‘
’’واسطہ۔۔۔؟ ارے بھائی حقیقت ہی تو بیان کر رہا ہوں۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر چکرا ہی رہا تھا کہ اس نے پوچھا:
’’تم نے اندھے کو اندھیرے میں چلتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ وہ بہت آسانی سے راستہ طے کر لیتا ہے۔‘‘
’’اور تم اندھیرے میں کیوں نہیں چل پا رہے ہو۔۔۔؟‘‘
’’کیوں کہ کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘
’’بس یہی فرق ہے، آنکھ والے میں اور اندھے میں۔ اندھا اس لیے چل رہا ہے کہ اسے راستہ نظر آ رہا ہے اور آنکھ والا اس لیے نہیں چل پا رہا ہے کہ اسے راستہ نظر ہی نہیں آتا۔‘‘
’’لگتا تو ایسا ہی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔ سچائی تمہارے سامنے ہے، اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بصارت کا چکر چھوڑو بصیرت سے کام لو اور آسانی سے راستہ طے کرو۔‘‘
’’وہ کس طرح۔۔۔؟‘‘
’’بس اندھے بن جاؤ۔ راستے کا سارا راز تم پر منکشف ہو جائےگا۔‘‘
اندھیرا بہت دبیز تھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اندھیرے کی چادر اور کثیف ہو گئی۔ میں نے گھبراکر آنکھیں کھول دیں۔
پھر وہی اندھیرا۔۔۔ آگے جیسے سرنگ۔۔۔ لمبی۔۔۔ تاریک۔۔۔ لوٹنا بھی مشکل۔۔۔ اور آگے بڑھنا بھی مشکل۔
وہی مدھم ہنسی پھر سنائی پڑی، جیسے کوئی کسی کا مذاق اڑا رہا ہو۔
’’تم نے تو عجیب مصیبت میں ڈال دیا ہے۔‘‘
’’مصیبت نہیں، میں نے نجات کی صورت دکھائی ہے۔‘‘
’’یہ کیسی صورت ہے، جہاں آنکھ والے آنکھ بند کرکے چلنے پر مجبور کیے جائیں؟‘‘
اس بار ہنسی کی آواز قدرے تیز تھی جو اچانک قہقہہ میں تبدیل ہو گئی۔
’’تم میری مجبوریوں پر کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘
’’یہ ہنسی نہیں، میرے ماتم کرنے کی ادا ہے۔‘‘
’’پھر تم کسی کی ہنسی کس طرح اڑاتے ہو؟‘‘
’’جس طرح تم ماتم کرتے ہو۔‘‘
’’اس طرح پہیلیاں بجھاکر تم مجھے پاگل کر دوگے۔‘‘
’’نہیں یار۔۔۔‘‘ انداز ہمدردی بھرا تھا۔
’’تم سنجیدگی سے غور کرو۔ میں تمہارا ہمدرد ہوں، اس لیے تمھیں صحیح راستے پر ڈال رہا ہوں۔‘‘
’’وہ راستہ کیسے درست ہو سکتا ہے جہاں آنکھ بند کرکے چلنا پڑے؟‘‘
میری پریشانی اپنی جگہ برقرار تھی۔
چاروں طرف خاموشی مسلط تھی۔ کہیں کوئی آواز نہیں۔ اچانک اس نے سوال کیا:
’’یہ ملک کس کے سہارے چل رہا ہے؟‘‘
’’یہاں کے لیڈروں کے سہارے۔‘‘
’’کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’جب چل رہا ہے تو ٹھیک ہی چل رہا ہوگا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم نے ان کی آنکھوں پر غور کیا ہے؟‘‘
’’اس میں غور کرنے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ بند تھیں یا کھلی ہوئیں؟‘‘
’’ارے کھلی تھیں بھائی۔ بند ہو تو یہ دیش کیسے چلے؟‘‘
’’یہی تو تمہارا بھرم ہے بھائی۔۔۔‘‘
’’بھئی میں اپنی آنکھوں سے جو دیکھتا ہوں وہی کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’لیکن ہر دیکھا سچ نہیں ہوتا۔۔۔ ہر سنا۔۔۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’رشوت خوروں کا کیس سنا؟ کس طرح لوگوں نے اپنے آپ کو بیچ دیا۔‘‘
’’نئی بات نہیں۔۔۔ کہ یہ تو معمول بن چکا ہے اب تو لوگ دیش کو بیچنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔‘‘
’’اور جس نے سارے ملک میں ایک ساتھ سارے گنیش جی سے دودھ پلوا دیا وہ آدمی ایک تاریک کوٹھری میں ایک بوند پانی کو ترستا رہا۔۔۔‘‘
’’ہاں تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’جہاں عوام کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں وہاں دو چار کروڑ روپے اس طرح پھیکے ہوئے ملے جس طرح گھروں میں ردی پھیکی جاتی ہے۔‘‘
’’یہ تو دیش کی ترقی ہوگی نا۔۔۔ خوش حالی کی ادبھوت مثال۔۔۔‘‘
’’ہاں ترقی کی انتہا تو یہ ہوئی کہ بڑے بڑے سانڈ اسکوٹر پر ڈھو لیے گئے۔۔۔‘‘
’’یہ سٹیلائٹ کا دور ہے۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہواکہ انھیں سانڈوں کی سینگوں پر تین لاکھ سے زائد کے کڑوا تیل کی ما لش کی گئی؟‘‘
’’یہ تو جانوروں سے ہمارا اَتھاہ پریم درشاتا ہے۔‘‘
’’اور جب جانوروں کا چارہ بھی آدمی کھانے لگے۔۔۔؟‘‘ اس نے گولی کی طرح سوال داغا۔
’’یہ تو جانوروں سے ہماری محبت کی معراج ہے کہ ہم اس جیسا ہی کھانے لگیں۔‘‘
’’سچ کہتے ہو تم۔۔۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اس طرح ہم دیش کو کہاں لے جارہے ہیں؟‘‘
’’ترقی کی اس دنیا میں جہاں رام راج قائم ہوگا اور جہاں بکری شیر ہی نہیں بلکہ آدمی اور جانور دونوں ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔‘‘ میں نے دلیل دی۔
تھوڑی دیر تک پھر خاموشی مسلط رہی پھر ایسی آواز سنائی دی کہ اس پر کبھی رونے کا گمان ہو رہا تھا کبھی ہنسنے کا۔۔۔ میں چونکا۔
’’یہ آواز کیسی ہے بھائی۔۔۔؟‘‘
’’جب بھی قلبی سکون ملتا ہے تو میں ایسی ہی آوازیں نکالتا ہوں۔‘‘
’’کیسا سکون مل گیا تمھیں۔‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’اب تم راہ راست پر آ رہے ہو۔ اب تمہاری بصارت سے زیادہ بصیرت کام کر رہی ہے۔
’’وہ کیسے۔۔۔؟‘‘
’’وہ اس طرح کہ اب تم کھلی آنکھوں سے زیادہ، بند آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ کیوں کہ اب تم وہ دیکھنے لگے ہو جسے عام نگاہ نہیں دیکھ پاتی۔‘‘
’’لیکن مجھے تو ایسا محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ جو جیسا ہے مجھے ویساہی دکھ رہا ہے۔‘‘
’’اور یہ لیڈر جن کی تم پوجا کر رہے ہو، انھیں رام اور کرشن کا اوتار بتا رہے ہو، وہ دراصل وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔‘‘
’’یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کہ وہ دراصل وہ نہیں ہیں جو ایک سادھارن آنکھ دیکھ رہی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ آنکھیں بند کر لینے پر اسی طرح اندر ہی اندر نظر آنے لگتا ہے اور ایک سادھارن منش ایک اوتار دکھائی دینے لگتا ہے۔‘‘
’’لیکن میری آنکھیں تو اب بھی کھلی ہیں اور یہ سب میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
میری بات سن کر اس نے اطمینان کی سانس لی پھر بولا:
’’اب تمھیں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب تم کھلی آنکھ سے بھی وہی دیکھ سکتے ہو جو میں تمھیں بند آنکھوں سے دکھوانا چاہتا تھا۔‘‘
’’سچ۔۔۔؟‘‘
’’یقین نہ آئے تو آنکھیں بند کرکے دیکھ لو۔‘‘ اس نے پورے یقین سے کہا۔
میں نے آنکھیں بند کرلیں۔
اندھیرا بہت دبیز تھا۔
اندھیرا بہت کثیف تھا۔۔۔
تھوڑی دیر تک میں اسی طرح آنکھیں بند کرتا اور کھولتا رہا۔۔۔ کھولتا اور بند کرتا رہا۔
اچانک اندر ہی اندر ایک جھماکا ہوا۔۔۔ ایسا محسوس ہوا جیسے چاروں طرف روشنی ہی روشنی بکھر گئی۔
اب میں آنکھیں بند کرکے جیسا محسوس کر رہا تھا، ویسا ہی کھلی آنکھوں سے بھی کررہا تھا۔ اندر باہر ایک ہوتے ہی وہ اندھیری سرنگ میرے لیے ایک روشن شاہراہ ہو گئی۔
اب میں کبھی آنکھیں کھول کر اور کبھی آنکھیں بند کرکے نہیں بڑھ رہا تھا بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے آنکھیں اندر کی جانب اتر گئی ہوں۔۔۔
میں جیسے ہی تیز چلنے لگا پھر وہی ہنسی سنائی پڑی۔
’’اب کیوں ہنس رہے ہو بھائی۔۔۔؟‘‘
’’ہنس نہیں رہا ہوں بلکہ ماتم کر رہا ہوں۔‘‘
’’آخر کیوں۔۔۔؟ اب تو وہ ہوا جو تم چاہتے تھے۔ دیکھو نہ اب آنکھیں بند کرکے بھی میں وہی دیکھ رہا ہوں جو آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں۔‘‘
’’ہاں اسی لیے تو ماتم کر رہا ہوں۔۔۔ کیوں کہ اب تمہارا باطن ظاہر ہو گیا ہے اور ظاہر باطن ہو گیا ہے۔ اب نہ بصیرت کا چکر ہے نہ بصارت کا۔ بصارت اور بصیرت کی درمیانی لکیر غائب ہو چکی ہے۔ اب تم وہی دیکھوگے جو دیکھنا چاہوگے۔‘‘
’’اور جو نہ دیکھنا چاہوں وہ؟‘‘
’’وہ اب تمھیں نظر نہیں آئےگا۔۔۔‘‘
اب ہنسنے اور رونے کی ملی جلی آوازیں اس طرح آ رہی تھیں کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ یہ ماتم کرنے کی صدا ہے یا۔۔۔!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.