Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظر بد

MORE BYمحمد جاوید انور

    اب جبکہ مںئ ایک طویل عمر گزار چکا ۱پنی سٹڈی مںت آسودہ ، پل پل اترتی شام کی آہٹ سنتا ہوں، سال خوردہ سابہ ششمص کی شاندار آرام کرسی مںر نمن دراز ، بڑے بڑے ، شفاف ششویں سے باہر کھڑکی پر سایہ کئے بوگن ویاما اور جھُومر بل کی شاخوں کو نرم ہوا سے جھُومتا دیکھتا ہُوں ، جو باہر آنگن مںی لگی رات کی رانی شام سے پہلے ہی جرعہ جرعہ خُوشبُو انڈیلنا شُرُوع کر دیید ہے اور کمرے کے اندر ہونے کے باوجود مرھے مشام جاں کو مُعطر کئے دییی ہے ،ایسے مںڑ نمے وا آنکھں اور نمھ خوابدرہ ذہن لئے سوچتا ہوں کاے مر ی سب سے شدید مُحبت وُہ تھی جو مر،ی زندگی مںی دیر سے آئی اور کبھی مر ی نہ ہو پائی ؟کا مردی محبت کو دناو کی نظر کھا گئی؟ کاح کوئی فصلہ غلط ہو گام تھا ؟ کاا کوئی فصلہ بہت دیر مںو ہوا ؟ کای ایک نقصان قابل تلافی تھا اور دوسرا ناقابل تلافی ؟ بہت سی سوچںف مرنی یاد کے گھوڑے کو دُلکی چال چلاتے ماضی کے صحراؤں کی بے أنت وسعتوں مں بھٹکاتی ہںص ۔ مںی تلخ کافی کا آخری گھونٹ نگل کر سگریٹ کے باقی ماندہ حصے کو ایش ٹرے مںم مسل کر آنکھںش موند لتاو ہوں ۔

    ہمیں رومان پسند تو تھا ہی سو کچی پکی محبت کے سچے جھوٹے جھولے اوائل عمر ہی مںر جھول چکا ۔ اگر باقی لڑکوں نے یہ سلسلے دسویں گاےرہویں جماعت سے شروع کئے تو مںک تب تک اس فن مںب نمج استاد ہو چکا تھا ۔ مرلی محبت بہت شدت سے شروع ہوتی اور بڑی سرعت سے یہ بخار مجھے جھلسا نے لگتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ جس تزعی سے یہ ابال اٹھتا اسی تزوی سے بٹھچ جاتا ۔ مرای ان محبتوں کا دورانہو چھ ماہ سے ایک سال کا ہوتا اور پھر مںت پرانی منزل کو وقت کی دھول مں لپٹا نئی منزل کے لئے کمر بستہ ہو جاتا ۔ بس ایک منزل سر کر لتان تو دوسری کا سبب نکل آتا ۔ آپ مجھے ہرجائی بھی کہہ سکتے ہں لکن مرٹی یہ مہمات فریق ثانی کو سوائے جذباتی دھچکوں کے کوئی جسمانی یا اخلاقی ضرر نہ پہنچاتںا ۔

    اسی خوش بختی کے جھولے جھولتا مں یونوسرسٹی تک آپہنچا ۔ اگرچہ عمر کے اس حصے مں نہںھ تھا کہ تجربہ کار کہلاؤں لکنو بالفعل تھا گھاگ اور تجربہ کار ۔

    پھر یہ ہونی بیلے کہ عروج سے ملاقات ہو گئی ۔ ہمںک قریب آتے آتے ایک سمسٹر گزر گاک۔ مںا جو منازل ہفتوں بلکہ دنوں مں طے کاد کرتا تھا مہنوہں مںا بھی مکمل طے نہ ہو پا رہی تھںم ۔ جانے کوبں ہر قدم پھونک پھونک کر ، تسلی اور اطمناون سے اٹھ رہا تھا ۔ دونوں طرف کوئی عجلت تھی نہ بے صبری ۔

    اسکی چھب ، بانکپن، دلرںی ، بے تکلفی اور خود اعتمادی لئے غرہمعمولی چلبلا پن مجھے ڈراتا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہوگا۔ مںو نظر لگ جانے وغریہ جسےن توہمات کو نہںت مانتا لکنع مشاہدہ کا کار کریں کہ مںا نے اییو غرٔ معمولی پروازوں کی ایی۔ ہی ہنگامی لنڈئنگز دییھک تھںا۔ مرزا دل ڈرتا تھا کہ کبھی بھی کچھ ہو جائے گا اور دلی خواہش تھی کہ کچھ نہ ہو۔ جی چاہتا تھا کہ وہ یونہی یونوھرسٹی کی راہداریوں، کفےب ، کامن روم ، لائبریری اور شاپنگ سنٹر مںو چہکتی پھرے ۔ مجھے نظر آتی رہے اور ایی ہی نظر آتی رہے۔ مںھ نے نظر بد کا سن رکھا تھا لکن مکمل طور پر قائل نہںت تھا ۔اس مںپ بھری شگفتگی اور چلبلاہٹ اس کی بے پرواہی ،اعتماد اور بے ناجزی بہت خاص تھی ۔وہ جدھر جاتی زندگی جلو مںے ہوتی، مربی نظریں تعاقب مںگ اور مرٹا دل مٹھی مںع۔

    کبھی سنجدرہ ہو جایا کرو عروج مںٹ اپنے خوف کو چھپاتا ہوا اسے کہتا۔

    کوھں بھئی ؟

    بس ایسے ہی

    پھر بھی بتاؤ عاشر ، کومں بھلا ؟تم جو مجھ سے بات کرتے ہوئے ، ہنستے کھلتےو چپ ہو جاتے ہو ۔ سوچ مںر گم ہو جاتے ہو ۔ بہت سنجد ہ ہو جاتے ہو ۔ بلکہ غمگن سے نظر آتے ہو تو کای وجہ ہے اس کی ؟

    وہ پوچھتی تو مجھے کچھ جواب نہ سوجھتا ۔ بس دل مںھ چھپا وسوسہ اپنے تک ہی رکھ لتاا ۔ہمارے تعلق کا ہمںت خود کچھ اندازہ نہ تھا کہ کا ہے۔ دوستی ہے یا دشمنی ۔ پا ر ہے یا نفرت ۔ بس واقفتف ہے اورساتھ ہونے کا اتفاق یا اس سے گہرا اور اس سے بھی سنجد ہ کچھ اور۔ بہرحال تھا کچھ ۔ تھا کچھ خاص اور علحدجہ سا۔کچھ تھا جو الجھاتا تھا اور پوری طرح سمجھ مںا نہںا آتا تھا ۔ نہ کسی طرف لگتا تھا نہ جان چھوڑتا تھا ۔ نہ دل اور دماغ مںھ واضح ہوتا تھا نہ زبان تک پہنچتا تھا ۔پتہ نہںا کاس ۔بہرحال یہ سچ تھا کہ ہم اک دوسرے کے بغر زیادہ دیر رہ نہں سکتے تھے ۔اگر ایک دن جھگڑا ہوتا تو دوسرے دن ہم مںک سے کوئی بھی کل کی بات کو یاد نہ رکھتا اور صبح یونوسرسٹی کی نی ا بس سے دو مختلف دروازوں سے نکل کر ہم مقناطسد اور لوہے کی مانند ایک دوسرے سے آ چپکتے۔

    ہم دونوں مںی کوئی خاص طبقاتی فرق نہں تھا ۔ دونوں متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ چھوٹے شہروں یا زیادہ بہتر طور پر کہوں تو قصبات سے بڑے شہر پڑھنے آئے تھے ۔ دونوں کے خاندان مالی طور پر اتنے مستحکم تھے کہ ہمںپ اچھے تعلیہ ادارہ کے ہاسٹل مںا آسودگی سے رکھ سکتے تھے ۔ معقول جبں خرچ مل جاتا تھا ۔زندگی بہت مزے سے کٹ رہی تھی ۔ زندگی دلچسپ تھی ۔

    اس دن موسم ابر آلود تھا ۔وسط مارچ کی خوشگوار نما سرد ہوائں نہر کنارے اونچے درختوں کی ہری شاخوں کو زور سے اور چھوٹے پودوں کی بھرپور سبز شاخوں کو نرمی سے جھلا رہی تھں۔ بہار کے پھولوں کے رنگ برنگے تختے نظروں کو لبھاتے اور ان کی خوشبو فضا کو معطر کئے دے رہی تھی ۔

    ہم دونوں نے یونوںرسٹی بس مںہ لوگوں کے کاندھوں کے اوپر سے آنکھوں ہی آنکھوں مںو ایک دوسرے کو اشارہ کا اور ہوسٹلز کے بلاک شروع ہونے سے ایک سٹاپ پہلے اپنے اپنے دروازوں سے اتر گئے ۔ آگے پچھےپ چلتے ہم نے سڑک عبور کی اور گھاس کے مدکان مںف اتر گئے۔ پھولوں کے رنگوں سے سجے ہلکی ہلکی خوشبو مں بسے ماحول نے ہر سُو ایک نشہ سا پھلا یا تھا ۔ہم گھاس کے پلاٹ کے درمالن بنی پھولوں سے لدی کاگری کے پاس بچھی دو بنچوبں پر آمنے بٹھل گئے ۔

    مر ا رشتہ آیا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ایک اور رشتہ آیا ہے۔

    اس نے بڑی سہولت سے دھماکہ کای۔

    مجھے نہ خوشی ہوئی نہ غم ۔

    کچھ دیر کو ایک سناٹا سا چھایا ۔

    مجھے جو افسردہ سا احساس ہوا وہ بس اتنا ہی تھا کہ کوئی تسروا آ جائے گا جو ہمارے بچ ہوگا اور مجھ سے زیادہ اہم ہو گا ۔

    کا اس تسر ے کی جگہ مں خود ہونا چاہتا ہوں کہ ہم دو ہی رہں اور کوئی تسراا بچا مںب نہ آئے ؟

    ہمیں نے خود سے سوال کا ۔

    کوئی حتمی جواب نہ ملا ۔

    زیادہ سے زیادہ یہ احساس جاگا کہ مںی موجودہ صورت حال سے آسودہ ہوں۔ اس مںر تبدییئ کے تصور سے مجھے الجھن اور بے چیا سی محسوس ہورہی تھی۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہںں ۔

    عروج تم زندگی سے کاا چاہتی ہو ؟

    یا یہ سمجھ لو کہ مں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی کو کسا بنانا چاہتی ہو ؟

    کیوج زندگی گزارنا چاہتی ہو؟

    میں نے بظاہر بڑے پرسکون لہجے مںر پوچھا ۔

    مجھ سے اندر کا مدو جزر اندر ہی جذب ہورہا تھا اور برہونی لہریں شانت تھںس ۔

    اس نے مرےی طرف متوجہ ہونے کی بجائے نظریں دور کہںو گاڑے رکھںا جہاں غالبا وہ کچھ بھی نہںت دیکھ رہی تھی ۔

    جذبات سے خالی مُردہ اور رُوکھی لکنہ قطعت سے معمور آواز مںر بولی،

    عاشر زندگی ایک حققتن کا نام ہے ۔

    رومانویت نہر کنارے روتے ویپنگ ولوز کی لٹکتی نوحہ خواں شاخوں کی نرمی سے چپکی تراوٹ سے نم ادھر ہی معلق رہ جائے گی ۔ باقی بچںا گی سنگلاخ زندگی کا بے مہر نوحہ پڑھتی ننگی حقیقتیں ۔ وہ حقیقتیں نہ فضد کی نظموں سے بہلںو گی نہ غالب کی غزلوں سے ۔ انہںں بلھے کے بول ٹالںب گے نہ محمد رفعن کے رسلےپ گانے پرچائںص گے ۔ ان سے ہتھا ر بند ہو کر ، مسلح ہو کر نبردآزما ہونا پڑے گا عاشر ۔ ان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جسم اور روح کی جنگ مں جسم حققتس ہے جو سامنے دھری ہے اور روح احساس ہے جو خود کو محسوس تو کرواتی ہے نظر نہںا آتی ۔اگر تم مجھے مادہ پرست بھی سمجھو تو سمجھ سکتے ہو لکن سچ ییے ہے جو مںر بول رہی ہوں ۔ مںر نے بڑے بڑے فن کاروں ، شاعروں ، مصوروں کو زندگی کے مکروہ ننگے پن مںم بے بس اور بے لباس دیکھا ہے۔ مں نے فصلہ کام ہے کہ مںر رومانس کے خالی اور خاعلی جھولے جھولنے کی بجائے حققتب کے سپاٹ ، سدوھے اور مستحکم مدلان مںم پکے پرموں اتروں گی ۔ مجھے تمہارے نظریات کا پتا ہے لکنر مرگا فصلہ سوچا سمجھا اور عقلتو کی کسوٹی پر پرکھا ہوا ہے۔

    مجھے سمجھنے مںر ایک لحظہ بھی نہ لگا کہ ہمارے ساتھ کا راستہ دو پگڈنڈیوں مںو ڈھل گا ہے اور یںین سے راہںا جدا ہونگی ۔ ہم کب پھر گھوم پھر کر ایک دوسرے کی راہں کاٹں گے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ یہ بھی امکان تھا کہ ہماری پگڈنڈیاں کبھی بھی ایک دوسرے کو نہ چھوئںر اور ہم مخالف یا متوازی چلتے ہوئے فنا کی منزل کو پا جائںا ۔یہ طے تھا کہ مںت عروج کے منتخب کردہ راستے ، تلخ حققتو ں کے آشنا جہان سے ہنوز جھجک رہا تھا اور اپنے خاال و خواب ہی کی اسربی عزیز رکھ رہا تھا ۔

    اور پھر وہ چلی گئی ۔

    اس کے ساتھ جو اسے وہ سب کچھ دے سکتا تھا جو اس کے خاخل مںو حقی ی خوشی کا ضامن تھا ۔ وہ سب سامان زیست کہ جو مہا ہونے پر کارزارِ حاکت مں کامران و شادکام ہوا جا سکتا تھا ۔

    مجھے کچھ وقت لگا اور پھر وہ مجھے کم یاد رہ گئی ۔

    مںھ نے اپنی راہ چن لی ۔ مر ی زندگی درماینہ سی تھی ۔ اپنی عادتںت چھوڑیں نہ محبتںک ۔ بمشکل زیست کی ۔ پرواز بہت پست رہی لکن مستقل اور ہموار ۔ سادہ لفظوں مں گزر گزر ان ہی ہوا ۔ شادی ، بچے ، گھر گھرہستی اور درماتنہ درجہ کی نوکری جو نہ پوری طرح خوش حال رکھے اور نہ بد حال ۔ بس گرتی پڑتی چلتی چلی جائے ۔

    اتنا وقت گزر گا جسے صدیاں بتد گئں ۔

    اس نے امریکہ سے پاکستان کے کئی چکر لگائے ۔ مشترک دوستوں سے حال احوال کا پتہ چلتا رہا۔ کئی بار ہم ایک ہی وقت مںو ایک ہی شہر یہاں تک کہ ایک ہی عمارت مںی اکٹھے ہونے کے باوجود کبھی ایک دوسرے سے نہںہ ملے۔

    اک عمر بت گئی ۔

    ہڈیوں پر کسا گوشت ڈھلای پڑ گاا ۔ مرنے بہت سے بال جھڑ گئے اور جو بچ گئے وہ کہںا سے بدرنگ اور کہںم سے سفدت ہو گئے جنہں مں نے کبھی رنگنے کی کوشش نہںل کی ۔

    پھر ایک دن مرشا فون بجا ۔

    مںی ان جانے نمبر کبھی نہںک اٹھاتا لکنٹ اس دن بے خا لی مںئ اٹھا لاہ ۔

    قایمت منتظر تھی ۔

    اب مل ہی لںت ۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور کبھی نہ مل سکںل ۔

    ملو اور حساب کتاب کر کے کھاتہ بند کر لو ۔

    مرنے کے بعد پتہ نہںے کاو بکھڑبے ہوں ۔

    ادھر ہی مل لو تو کام نپٹے۔

    مرھا دل اچھل کر حلق مںس آگاڑ ۔پتہ نہںک کو ں سانس رُک گئی اور کہاں سے نمی اکٹھی ہو کر آنکھں بھگونے لگی ۔

    کافی دیر مجھ سے کچھ بولانہ گای اور اس نے بھی نہ فون بند کا نہ اور کوئی بات کی۔

    وہں آجانا کل اسی وقت ۔مقررہ وقت پر انہی بنچو ں پر اگر وہ وہںئ ہوئںک ۔

    مںف نے اپنی آواز سنی ۔

    ایک بڑی سی اور ایک چھوٹی سی گاڑی کمپس مں پہنچ گئںہ ۔ جہاں کبھی شائد ہی کوئی کار نظر آیا کرتی تھی وہاں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہںی مل رہی تھی ۔مںے نے جان بوجھ کر گاڑی ایڈمنسٹریشن بلاک کے پاس کھڑی کی اور سڑک اور پھر نہر پدپل پار کر کے کچھ پرانی یادیں تازہ کرنی چاہںی ۔

    کمپس بہت بدل چکا تھا ۔ نہ وہ سکون تھا نہ سکوت ۔ نہ ہوا مںا تازگی تھی نہ خوشبو ۔ نہر کے کچے کنارے پکے ہو کر اپنی اصلتا کھو چکے تھے ۔ جس مٹی سے لپٹ کر خانہ بدوش پتے گدلے ہوا کرتے تھے اس کا نام تھا نہ نشان ۔ ساتہ تارکول اور بھورے سمنٹ۔ نے ساری دھرتی نگل لی تھی ۔ کنکریٹ کے بے حس ،بدخصلت بند کے اوپر سرد لوہے کے جنگلے نے بدکردار ٹریفک کو نہر تک پہنچنے سے روک رکھا تھا اور ہماری نہر ان کریہہ جکڑ بندوں سے بہت نچے بے دلی اور بے رغبتی سے خواہ مخواہ بہتی جا رہی تھی ۔نہر پار کرنے کو جہاں لکڑی کے تختوں والاپل ہوتا تھا ، ہم جس پر جان بوجھ کر زور زور سے پرت مار کر آوازیں پد ا کا کرتے تھے وہاں نہر کے نچے سے ایک گزرگاہ بنا دی گئی تھی ۔

    مںو اس زیر آب غرب دلچسپ گزرگاہ مں غروب ہو کر اگلی سمت طلوع ہوا تو راستہ ہوسٹل بلاکس مں گھستا نظر آیا ۔مںن پکے راستے کو چھوڑ کر گھاس کے مدہان مںی گھس گاز اور گھاس کو روندتا ہوا ایک پلاٹ سے گزر کر دوسرے پلاٹ مںر داخل ہوا۔ یہ دیکھ کر حر ان بھی ہوا اور خوش بھی کہ وہ گھاس بھرا مدزان قائم تھا اور اس کے بچووں بچے بڑی کالری وہیںموجود تھی اگرچہ کا ری مںر کسی پودے کی نازک پنر ی جڑیں پکڑ رہی تھی ۔ ننھے ننھے بچہ پودے اپنے گنتی کے چند پتوں کے معصوم سے کان کھڑے کر رہے تھے ۔پھولوں کا موسم آنے مںر ابھی بہت وقت تھا ۔

    دونوں بنچووں کی جگہ دو ذرا نئے نمونے کے، کسی با ذوق ڈیزائنر کے تخلق کئے، پلاسٹک سے ڈھالے،درختوں کےمصنوعی تنوں پر ٹکے نقلی شہترنوں والے بنچ پڑے تھے ۔

    ان مںو سے ایک بنچ پر خزاں چھائی تھی ۔

    عروج اییت ہو چکی ہو گی مرےے تصور مںڈ بھی نہںپ تھا ۔ اس کے گرد چھائی یاستے اور سستی اسے اس عروج سے بہت مختلف دکھا رہی تھی جسے مںو جانتا تھا ۔ اس کے کپڑے تک پھکےے رنگ کے تھے ۔زیور قیت تھے لکن اصلی ہونے کے باوجود مصنوعی لگ رہے تھے۔ زندگی اور ذہانت کی لو جو اس کے ساتھ چلا کرتی تھی مجھے نظر نہ آئی ۔شوخوتں اور اعتماد کی خوشبو، امدم کی جھلملا ہٹ غائب تھی ۔ پا لنےی کا سکون اور منزل کے حصول کی تسکنل مفقود تھی ۔ عافتن اور آسودگی کا نور غائب تھا ۔

    بس عروج کا ہویلیٰ مرتا منتظر تھا جس سے روح اور زندگی نچڑ چکی تھی ۔ ایک بنا سنورا خالی وجود مرعا منتظر تھا جسے دیکھ کر مجھے بے اختارر وہ بے جان مجسمے یاد آئے جو ہم مہنگے ملبوسات اور زیورات کی دوکانوں مںی سجے دیکھتے ہںر ۔

    عروج ، وہ عروج کہ جسے مںا جانتا تھا جس سے باتںی کئے بغر مریا کھانا ہضم نہںھ ہوتا تھا اور جسے دیکھے بنا مررا یونوھرسٹی کا دن نہںھ گزرتا تھا غائب تھی ۔

    کات اسے نظر لگ گئی تھی ۔

    مںر بغرو سلام کئے ساتھ کی بنچ پر بٹھا گار ۔

    اسے دیکھنے کی ہمت نہںی پڑ رہی تھی ۔ مں نے اپنی نظریں اپنے بن پالش کے جوتوں پر جما رکھی تھںم اور جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے نہںں دیکھ رہی بس محسوس کر رہی ہے ۔مںں نے اپنے اندر جھانکا۔مریی روح موجود محسوس ہو رہی تھی ۔گو کچھ خوابدبہ اور گرد آلُود ۔مرری خوشی کہںت کونے مں پڑی تھی اور اطمنارن کا بس سایہ سا موجود تھا۔

    زندگی نہ مفقود تھی نہ موجود ۔

    کا مجھے بھی نظر لگ گئی ہے ؟

    مں نے سوچا ۔

    اگر لگی بھی ہے تو کم ۔

    اس لئے کہ مجھ مںی تھا بھی کم جو نظر لگنے کے قابل ہو ۔

    مجھے اپنے اندر اپنی ہی آواز سنائی دی ۔

    شائد ایک نقصان قابل تلافی ہے اور ایک ناقابل تلافی ۔

    ہم ایک دوسرے کو دیکھے ایک دوسرے سے بات کئے بغر بہت دیر بٹھے رہے ۔

    پلاسٹک سے ڈھالے مصنوعی تنے اور شہتر وں والے بنچوبں نے ہمںس نگل جانا چاہا ۔ نہر کنارے براجمان ،قابض ساھہ سڑکوں نے ہمںو لپٹس کر نہر کے نچے سے گزرتے انڈر پاس کی بے جان تارییم مںس غرق کر دیا ۔

    اگلے سرے سے ہمں اگلا بھی نہںڈ ۔

    کال کمپس کو بھی نظر لگ چکی تھی ؟

    کال شہر ، ملک اور دنا کو بھی نظر لگ چکی تھی ؟

    کال یہ نقصان قابل تلافی تھا ؟

    تو پھر نظر بد کا وجود ہے نا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے