نگوڑی
وہ بوڑھی عورت ایک ایک سے پوچھتی پھرتی تھی ’’بابو! مجسٹریٹ صاحب کا گھر کون سا ہے‘‘ مگر اس وسیع و عریض کالونی میں اس کی بات سننے والا کوئی نہ تھا۔ کشادہ لیکن شکستہ سڑک کے دونوں اطراف جدید ماڈل کے مکانات یہاں سے وہاں تک کھڑے تھے۔ ہر مکان کے گرد چہار دیواری تھی اور سامنے لوہے کا گیٹ لگا ہوا تھا۔ چہاردیواریاں اس قدر بلند تھیں کہ اندر کے مناظر آنکھوں سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام تھے۔ ہر مکان پر نیم پلیٹ بھی لگی تھی مگر اس ناخواندہ عورت کے لئے وہ نیم پلیٹ بھی بیکار تھی۔ دھوپ سر پر آ چکی تھی۔ بڑھیا کو پیاس لگنے لگی۔ اس نے آنکھوں کے اوپر ہتھیلی کا چھجا بناکر آس پاس نظر دوڑائی لیکن کہیں پر پانی کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی۔ سڑک بھی سنسان ہو چلی تھی۔ دور دور تک کسی قسم کی کوئی دکان بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مارچ کے مہینے کی دھول بھر ہوا اڑی اور بڑھیا کے بالوں میں بہت ساری گرد چھوڑ کر چکراتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اسی وقت ایک سائیکل سوار دور سے آتا دکھائی دیا۔ بڑھیا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکنا چاہا... دو ایک بار پکارا بھی...’بابو! بابو!! سننا ذرا، مگر وہ سائیکل سوار اس کی جانب سے بےنیازانہ اپنی دھن میں پیڈل مارتا ہوا آ گے نکل گیا۔ بڑھیا کچھ اور آ گے بڑھی اور پھر ایک مکان کے گیٹ کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھ گئی ۔چند لمحے گزرے تھے کہ اندر سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہاتھ میں جھولا لٹکائے باہر نکلا۔ بڑھیا اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور بڑی لجاجت کے ساتھ پوچھنے لگی۔
’’بابو! مجسٹریٹ صاحب کا مکان کون سا ہے؟‘‘وہ آدمی پہلے تو چونک کر اس کی جانب مڑا اور پھر پوچھ بیٹھا۔
’’کب سے ڈھونڈھ رہی ہو مائی؟‘
’’دیکھو نا بابو! صبح سے دو پہر ہو گئی، ابھی تک مجسٹریٹ صاحب کا مکان نہیں ملا ہے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’میں تو ایک مہینے سے بھٹک رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے مجسٹریٹ صاحب کا مکان نہیں ملا، تمہیں ایک دن میں کیسے مل جائےگا؟‘‘وہ بےچاری چند لمحوں تک تو اس جاتے ہوئے آدمی کو منھ پھاڑے دیکھتی رہی اور پھر مایوسانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے اسی چبوترے پر بیٹھ گئی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
’’پتہ نہیں آج نل کھلا یا نہیں اور اگر کھلا ہے تو بہو نے پانی بھرا یا نہیں۔ نہیں... اسے تو گھر کے کام سے فرصت ہی نہیں ملی ہوگی۔ سویرے سویرے سورج نکلنے کے ساتھ ہی وہ گھر سے نکل جاتی ہے ۔تین جگہوں کا چوکا برتن کرنے کے بعد بارہ بجے لوٹتی ہے۔ پھر کھانا بنانے بیٹھ جاتی ہے۔ بیٹا تو یہاں رہتا ہے نہیں۔ کبھی دلی چلا جاتا ہے کبھی کلکتہ۔ کبھی کبھار کچھ پیسے بھی بھیج دیتا ہے مگر اس سے گھر کا خرچ کیسے چلے۔بیٹا ایک بار ایک بار آسام چلا گیا تھا مگر وہاں بہاریوں کو مارنا شروع کیا تو لوٹ کر چلا آیا۔ایک بار پنجاب بھی گیا تھا۔ پتہ نہیں باہر جا کر کون سا کام کرتا ہے مگر جب جب لوٹ کر آ تا ہے کچھ اور دبلا دکھائی لگنے لگتا ہے۔ اس کے دونوں بچے دن بھر اِدھر اُدھر مارے پھرتے ہیں۔ بڑا دس سال کا ہے اور چھوٹا آٹھ سال کا۔ انہیں اسکول بھیجنے کی سکت تو ہے نہیں۔ سارا دن گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ پاس والے قبرستاں میں یا قریب کی کالونی کے آدھے ادھورے بنے مکانوں جوا کھیلتے رہتے ہیں۔ بھوک ستاتی ہے تو گھر چلے آ تے ہیں اور گھر کسے کہیں بھیا!مٹی کی دیواریں اور پھونس کا چھپر۔ یہ دیواریں جن میں جگہ جگہ چھید ہو گئے ہیں، سردی کو کیسے روک سکتی ہیں اور پھونس کا چھپر تو برسات بھر ٹپکتا ہی رہتا ہے۔ گرمی کا موسم بڑا اچھا ہے، جہاں تہاں سو رہے۔ نہ گرم کپڑوں کا جھنجھٹ نہ لحاف تو شک کی ضرورت۔ سردی تو بس امیروں کا موسم ہے۔ میرے گھر میں تو بس دو پھٹے پرانے کمبل ہیں۔ ایک میں بہو اپنے بچوں کو سمیٹ کر سو رہتی ہے اور دوسرے میں میں اپنی بیٹی اور نتتی سے لپٹ کر سو جاتی ہوں۔ داماد بھی ملا تو نکھٹو۔ کچھ کرتا دھرتا ہے نہیں۔ جو کماتا ہے جوئے اور شراب میں اڑا دیتا ہے۔ سو میری بیٹی اس سے لڑ جھگڑ کر میرے پاس آ گئی۔اب میں اپنی بیٹی سے دوسروں کے گھر کا چوکا برتن تو نہیں کروا سکتی نا! اور پھر گھر اور بچوں کو دیکھنے والا بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔ میں تو بابو اب کام کرنے کا لائق رہی نہیں۔دونوں گھٹنوں میں ہر وقت درد رہتا ہے۔ چلا پھرا نہیں جاتا اور نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔ میں نگوڑی بھلا گھر سے نکل کر اتّی دور کاہے کو آ تی۔ بچپن میں جب امّاں کسی بات پر مجھے نگوڑ ماری کہتی تھی تو میں کھی کھی کر کے ہنسنے لگتی۔ یہ بات اب سمجھ میں آئی کہ جس کو گوڑ نہیں ہوتا ہے وہی نگوڑا کہلاتا ہے۔ تو جب مجھ نگوڑی کو معلوم ہوا کہ منتری جی اپنے سمرتھکوں کے ساتھ ہو لی کھیلنے آ ئے ہوئے ہیں تو میں اپنی درخواست لے کر ان کے پاس گئی تھی۔ سرکار نے ودھوا پنشن جاری کر رکھا ہے اور وہ کیا کہتے ہیں وردھا پنشن بھی۔ میں تو بابا کیا بولوں کہ ودھوا بھی ہوں اور وردھا بھی۔ سوچا کہ پروفیسر صاحب سے ایک در خواست لکھوا کر منتری جی سے ملوں۔ گھر سے نکلنے لگی تو خیال آیا کہ کیا پتہ پروفیسر صاحب کے پاس کاغذ اور قلم ہونہ ہو، اس لئے میں یہ چیزیں بغل والے ببلو سے لے کر پروفیسر صاحب کے پاس گئی اور اتی ساری گھماؤ دار سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی۔ وہ بہت سارے لڑکے اور لڑکیوں کو پڑھا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے نا گواری کے ساتھ ہونٹ سکوڑے۔ مجھے خیال آ یا مجھے ان کو تنگ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر جب انھوں نے میرے آ نے کا سبب دریافت کیا تو اور میں نے ان سے درخواست لکھنے کی درخواست کی تو وہ کہنے لگے۔
’’ابھی تو میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ٹیوشن پڑھانے کے بعد میں کالج جاؤں گا۔ دو بجے لوٹوں گا۔ کھانا کھاؤں گا، پھر کچھ دیر آ رام کروں گا۔ شام کے پانچ بجے جب تھوڑی فرصت ملے گی تو تمھارا کام کر دوں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھر پڑھانے میں مشغول ہو گئے۔ میں وہاں سے ناکام و نامراد لوٹ آ ئی۔ گھر آ کر معلوم ہوا کہ منتری جی آج شام کو پٹنہ چلے جائیں گے۔میں نے تھوڑی کو کچھ سوچا، پھر خیال آ یا کہ کیوں نہ ببلو سے ہی درخواست لکھوا لوں۔ جیسا پروفیسر صاحب لکھتے ویسا ہی ببلو بھی لکھ سکتا ہے۔ میں پھر ببلو کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ ذرا ایک درخواست لکھ دو کہ میں ابھاگن بدھوا دانے دانے کو محتاج ہو رہی ہوں۔ شوہر کو مرے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ جب تک ہڈیوں میں طاقت تھی ادھر ادھر کام کر کے گزارا کرتی رہی۔ اب بدن میں سکت نہیں رہی۔ ایک بیٹا ہے مگر وہ روزی روٹی کی تلاش میں باہر گیا ہوا ہے۔ ایک بہو، دو پوتے، ایک بیٹی اور ایک نتنی کی پرورش کا ذمہ میرے سر ہے۔ میں نے جیسا کہ اوپر بتایا کہ خود بھی بیمار رہتی ہوں۔ دوا علاج کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ مائی باپ! سنا ہے کہ آپ کی حکومت غریبوں کا خاص خیال رکھتی ہے۔ اگر آپ اس دکھیاری بڑھیا کی عرض سن لیں تو بڑی مہر بانی ہو گی۔‘‘ میں بولتی گئی اور وہ لکھتا گیا۔ میں تو یہ نہیں پڑھ سکی کہ اس نے کیا لکھا لیکن مگر اتنا سمجھ گئی کہ میں نے جو کچھ کہا، اس نے وہی لکھا ہو گا ۔پھر میں درخواست لے کر منتری جی کے دروازے پر پہنچی ۔کتنا بڑا مکان بنا لیا ہے منتری جی نے۔ پہلے وہاں پر کھپریل کا مکان ہوا کرتا تھا۔ اللہ ان کی روزی میں اور برکت دے (آمین)۔ منتری جی کے عالیشان مکان کے آ گے نئی نئی چمچماتی ہو ئی گاڑیاں لگی تھیں اور یہ لمبی لمبی مونچھوں اور سرخ آ نکھوں والے بہت سارے لوگ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ کچھ جوان عورتیں بھی تھیں۔ اللہ جانے کاہے کے لئے آ ئی تھیں۔ میں نے آس پاس نظریں دوڑائیں تو شرفو رکشے والے پر نظر پڑی۔ میں نے اس سے کہا کہ ذری منتری جی سے ملنے کا اپائے تاؤ۔ انہیں یہ درخواست دینی ہے۔ شرفو ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’ارے اماں! ابھی تو دن کے بارہ ہی بجے ہیں۔ منتری جی ابھی سوئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ابھی تک سوئے ہو ئے ہیں۔‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’اور کیا...بھور چار بجے تک جاگتے جو ہیں۔‘‘
’’اچھا! چار بجے تک جگے رہتے ہیں؟‘‘میری حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر میں نے پوچھا۔
’’اچھا! یہ تو بتاؤ کہ چار بجے بھور تک جاگ کر وہ کیا کرتے ہیں۔ تہجد پڑھتے ہیں، یا تلاوت کرتے ہیں؟‘‘میری بات سن کر شرفو زور زور سے ہنسنے لگا۔ ہنستے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔پھر اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے بولا۔
’’اماں! تم بھی بالکل وہ ہو ۔ارے منتری جی سرکار چلاتے ہیں سرکار ۔اتا کام ہوتا ہے ان کے سر۔ پر سڑک بنواؤ،پانی بجلی کا انتظام کرو، بیروزگاروں کو کام دلواؤ اور پھر ہم جیسے لوگوں کی سنو۔ ملو گی تو دیکھو گی کہ جاگتے جاگتے آنکھوں کے نیچے کالے ڈورے آ گئے ہیں۔‘‘ میرا سر عقیدت کے مارے جھک گیا۔منتری جی کو ہم غریبوں کا کتنا خیال ہے۔ انہیں تو یوں میں نے کئی بار دیکھا ہے بلکہ سچ پوچھو تو ان کے بچپن سے دیکھتی آ رہی ہوں۔ میں تو برسوں ان کے گھر پر کام بھی کر چکی ہوں۔اب بھی ان کے درشن ہو ہی جاتے ہیں۔ووٹ مانگنے یا یا پرب تہوار کے موقع پر ہم غریبوں سے ملنے ملانے کے لئے پیدل ہی ہمارے محلے میں چلے آ تے ہیں مگر ان کے ساتھ اتنی ساری بھیڑ رہتی ہے کہ انہیں ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پا تی مگر ابھی تو مجھے ایک درخواست دینی تھی انہیں ،اور وہ بے چارے ابھی تک سرکاری کام کاج کی تھکن مٹانے میں لگے ہوئے تھے ۔شرفو کی وجہ سے مجھے کچھ ڈھارس ہو رہی تھی ۔اسی وقت دروازے پر ایک بانکا سجیلا نوجوان ، خوب اچھے کپڑے پہنے ،کان سے فون لگائے باہر نکلا ۔لوگوں میں ہلچل ہوئی اور بہت سارے لوگ بے اختیار اس کی جانب دوڑے۔شرفو نے بتایا کہ یہ منتری جی کا سکریٹری ہے۔ تم اپنی درخواست اس کے حوالے کر دو۔ پر میرا دل نہ مانا۔ کیا پتہ یہ درخواست اپنی جیب میں رکھ کر بھول جائے۔ میں اسے خود اپنے ہاتھوں سے منتری جی کے حوالے کروں گی۔ شرفو نے اپنی درخواست اس کے حوالے کر دی۔ سکریٹری پھر اندر چلا گیا اور شرفو مجھے ملامت بھری نظروں سے دیکھنے لگا مگر میں بھی دل پر جبر کئے بیٹھی رہی۔ پھر جب مسجد سے ظہر کے اذان کی آواز آئی تو ایک بار پھر دبا دبا شور اُبھرا ۔بھیڑ بےقابو ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ منتری جی بس اب آ نے ہی والے ہیں۔ میں نے شرفو کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ بابو جیسے بھی ہو منتری جی کے باہر نکلتے ہی مجھے ان سے ملوا دینا۔ شرفو بولا۔
’’اماں! دیکھتی ہو کتنی بھیڑ ہے؟ میں تو سوچ رہا ہوں کہ مجھے ان سے ملنے کا موقع ملےگا یا نہیں۔‘‘ حالانکہ شرفو چالیس پینتالیس سال کا ہو چکا ہے مگر میں نے اس ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے تو ہٹا کٹا نو جوان ہے۔ ذرا سی بھیڑ چیر کر منتری جی کے پاس نہیں جا سکتا؟‘‘ میری بات سن کر وہ سینہ تان کرکھڑا ہو گیا۔ اسی لمحے منتری جی مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے۔ منتری جی نے ہاتھ جوڑ کر سبھوں کا استقبال کیا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔شرفو کسی طرح بھیڑ سے گذرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑے پکڑے ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر ان سے کہنا شروع کیا۔
’’بیٹا! میں غریب دکھیاری ہوں۔ ذرا میری عرض بھی سن لو۔‘‘ پتہ نہیں انہوں نے میری بات دھیان سے سنی یا نہیں مگر وہی سکریٹری جو اور لوگوں کی درخواستیں جمع کر رہا تھا، اس نے میرے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتی کسی نے مجھے دھکا دیا اور میں لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گئی۔ بھیڑ سے الگ ہونے کے بعد شرفو نے مجھے سمجھایا۔
’’پریشان مت ہو اماں! سکریٹری تمہاری درخواست منتری جی کو دے دےگا اور وہ اس پر اپنے قلم سے حکم لکھ دیں گے اور سرکار سے تمہاری پنشن جاری ہو جائےگی۔ اب گھر چلو۔ شام کو آ کر اپنی درخواست واپس لے لینا۔‘‘ مجھے لگا کہ میں جیسے خالی ہاتھ آئی تھی ویسے ہی خالی ہاتھ لوٹ رہی ہوں۔ شرفو نے دلاسہ دیا۔
’’گھبراؤ نہیں۔ اچھا!شام کو جب میں اپنی درخواست لینے آؤں گا تو تمہاری بھی لے لوں گا۔‘‘
حسب وعدہ شرفو شام کو میری درخواست لے کر آ گیا۔ اس پر سرخ روشنائی سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ شاید یہ حکم جاری ہو گیا تھا کہ اس رانڈ بیوہ کی مدد کی جائے۔ پھر شرفو نے بتایا کہ کل بلاک آفس جانا۔وہاں بڑے صاحب سے اس پر آرڈر کروانا۔ میں پوچھ بیٹھی۔
’’کون سے بڑے صاحب؟‘‘
’’ارے مجسٹریٹ صاحب اور کون۔‘‘ شرفو نے جھنجھلا کر جواب دیا۔ پھر آگے کہنے لگا۔
’’اس کے بعد تمہارا کھاتا بینک میں کھلے گا اور تمہاری پنشن چالو ہو جائےگی۔‘‘
اس رات مجھے دیر تک نیند نہیں آئی۔ویسے بھی بڑھاپے میں نیند آ تی کہاں ہے۔ جیسے جیسے آدمی کی عمر بڑھتی جاتی ہے، ویسے ویسے اس کی چنتاؤں کی گٹھری بھی بھاری ہوتی جاتی ہے۔ ہر وقت کسی نہ کسی بات کی چنتا لگی ہی رہتی ہے۔ خیر کسی طرح سوتے جاگتے وہ رات کاٹی اور صبح سویرے بلاک جانے کو تیار ہو گئی۔ وہاں پہنچی تو سناٹا پسرا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابھی تو بہت سویرا ہے۔ آفس تو گیارہ بارہ بجے کے بعد ہی کھلےگا۔ پھر حاکم پتہ نہیں کس وقت آئیں۔ میں نے سوچا ،اب اتنی دور واپس جانا اور پھر آنا بہت مشکل ہے۔ میں کاغذ ہاتھ میں لئے وہیں پر بیٹھ رہی اور گھڑیاں گننے لگی۔ نہ معلوم کتنا سمے بیتا۔ میں تو بیٹھے بیٹھے کہیں اور پہنچ گئی۔ نہ جانے کون کون سے خیالات ذہن میں آ ئے اور یادوں کا جنگل گھنا ہوتا چلا گیا۔ اس گھنے جنگل کی نیم تاریکی میں یادوں کو پہچاننا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ پیڑ کے نیچے بیٹھے بیٹھے شاید میں اونگھ گئی تھی۔ اچانک کسی گاڑی کا ہارن بجا تو میں چونک کر اٹھ بیٹھی۔ دیکھا کہ لوگ باگ تیزی کے ساتھ ادھر ادھر آ جا رہے ہیں۔ میں لاٹھی کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر ایک ایک سے پوچھتی پھری کہ ’’حاکم آ گئے کیا؟‘‘ مگر ہر کوئی جیسے بہرا بنا بیٹھا تھا ۔کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب کافی دیر ہو گئی تو ایک شریف آدمی نے بتایا کہ صاحب آج چھٹی پر ہیں۔ میں تو بالکل سن ہو کر رہ گئی۔ صاحب کو بھی آج ہی چھٹی لینی تھی میں نے اٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے میر کہا ماننے سے انکار کر دیا۔ ہر طرف گہما گہمی تھی مگر میرے دل میں سناٹے کا راج تھا۔ آخر میں نے ہمت جٹائی اور لاٹھی کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس طرح کئی روز گذر گئے۔میں روز بلاک کا چکر لگاتی مگر حاکم سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک دن میں اسی پرانے پیڑ کے نیچے بیٹھی تھی کہ ایک جیپ آ کر رکی اور اس میں سے ایک صاحب اتر کر تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے آفس کے اندر چلے گئے۔ ایک دبا دبا شور ابھرا، مجسٹریٹ صاحب آ گئے، مجسٹریٹ صاحب آ گئے اور سبھی لوگ ان کے کمرے کی جانب لپکے۔میں بھی ان لوگوں کے ساتھ آ گے بڑھی مگر چپراسی نے مجھے روک دیا۔ میں نے اس سے بڑی منت کی کہ بس دو منٹ کے لئے صاحب سے ملوا دو مگر وہ کم بختی کا مارا پوچھنے لگا کہ کیا کام ہے؟ جب میں نے اسے بتایا کہ میں ودھوا پنشن جاری کرنے کے لئے منتری جی کی چٹھی لائی ہوں تو کہنے لگا، پہلے ودھوا ہونے کا سرٹیفیکیٹ لاؤ۔ اب ذرا میرا چونڈا دیکھو بابو! کیا میں شکل ہی سے ودھوا نہیں لگتی۔ پھر میں نے قسمیں کھا کھاکر اسے یقین دلایا کہ میں سچ مچ ودھوا ہوں تو منہہ جھونسا کہنے لگا کہ پہلے پانچ سو روپیوں کا انتظام کر کے لاؤ، تب صاحب سے ملنا۔ میں تو بابو دنگ رہ گئی۔ پانچ سو روپئے؟ اگر مجھ غریب کے پاس اتنے پیسے ہوتے تو کیا میں در در کی ٹھوکریں کھاتی؟ میں نے اس کی بڑی خوشامدیں کیں مگر وہ اللہ کا بندہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس دوران نہ جانے کتنے لوگ اندر گئے اور باہر آئے۔میں تھک ہار کر واپس چلی آ ئی۔
اسی طرح پھر کئی روز گذر گئے۔ آخر ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آ یا کہ کیوں نہ مجسٹریٹ صاحب کی بیگم سے مل کر ان سے اپنا دکھڑا بیان کروں۔ آخر کو عورت ہیں۔ عورت ویسے بھی رحم دل ہوتی ہے اور آج کل کے سارے مرد تو عورتوں ہی کی بات پر چلتے ہیں۔ اگر وہ صاحب سے میری سفارش کر دیں تو میرا کام بن جائےگا۔ میں نے شرفو سے ان کے گھر کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس بڑی کالونی میں جو میرے گھر سے کوئی ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے ،وہیں سارے بڑے لوگ رہتے ہیں۔ مجسٹریٹ صاحب بھی وہیں رہتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ بیٹا بڑی مہربانی ہوگی اگر تو مجھے اپنے رکشے پر بٹھا کر مجھے وہاں تک پہنچا دے۔ شرفو کہنے لگا۔
’’ابھی تو میں کالونی کے بچوں کو اسکول پہنچانے جا رہا ہوں نہیں تو میں خود تمہیں وہاں لے چلتا۔ تم ایسا کرو کہ پوچھتے پاچھتے چلی جاؤ۔مجسٹریٹ صاحب کا مکان مل جائےگا۔‘‘ اب میں لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے یہاں تک آ گئی ہوں اور سب سے پوچھتی پھرتی ہوں کہ بھیا! مجسٹریٹ صاحب کا مکان کون سا ہے مگر کوئی نہیں بتاتا۔ایک منچلا کہنے لگا۔
’’ارے بوا! کس مجسٹریٹ کو کھوجتی ہو؟ آج کل تو سبھی مجسٹریٹ ہیں۔اب دیکھو نا! جو خاموشی کے ساتھ امتحان میں نقل ہوتے دیکھتے رہتے ہیں، وہ بھی مجسٹریٹ کہلاتے ہیں اور جو الکشن میں چپ چاپ اپنی نظروں کے سامنے دھاندلی ہوتے دیکھتے رہتے ہیں، وہ بھی مجسٹریٹ ہوتے ہیں اور پھر جو دنگا کے دوران خاموش تماشائی کی طرح فسادیوں کو اتپات مچاتے دیکھتے رہتے ہیں، انہیں بھی مجسٹریٹ ہی کہتے ہیں۔‘‘ میں بڑھیا بکال کیا جانوں کہ کتنی طرح کے مجسٹریٹ ہوتے ہیں۔ ابھی میں ہکا بکا اس کا منہہ تک رہی تھی کہ ایک دوسرا آدمی میرے قریب آ کھڑا ہوا۔
’’کسے ڈھونڈتی ہو اماں؟‘‘
’’بیٹا سویرے سے کھوجتے کھوجتے تھک گئی ہوں ،کوئی نہیں بتاتا کہ مجسٹریٹ صاحب کا مکان کون سا ہے۔‘‘ اس نو جوان نے سر جھکا کر تھوڑی دیر کو کچھ سوچا اور یوں سر اٹھایا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’بس اگلے چوراہے سے تھوڑی دور آگے چلی جاؤ۔وہاں سڑک کے بیچوں بیچ جو مندر بنا ہوا ہے، اسی کی داہنی طرف مجسٹریٹ صاحب کا گھر ہے۔بڑا سا لال پھاٹک ہے۔ پھاٹک کے اندر بڑا سا برگد کا پیڑ ہے۔ بس سیدھی چلی جاؤ۔‘‘میں نگوڑی اس کے بتائے ہوئے پتے پر کسی طرح گھسٹتی گھسٹتی لال دروازے تک پہنچ گئی۔دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے تھپتھپایا تو اندر سے چوکیدار نے چھوٹی کھڑکی سے جھانک کر پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟‘‘ وہ مجھے شاید کوئی بھکارن سمجھ رہا تھا۔ میں نے آنچل میں بندھی ہوئی درخواست کو انگلیوں سے ٹٹولتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! تیرے بچے جیئیں... ذری کی ذری میم صاحب سے ملوا دو۔‘‘
’’کیا کام ہے ان سے؟‘‘ اس نے ڈپٹ کر پوچھا۔
’’کام تو اصل میں مجسٹریٹ صاحب سے ہے لیکن...‘‘
’’کون سے مجسٹریٹ صاحب سے؟‘‘
’’وہی جو ودھوا پنشن جاری کرتے ہیں۔‘‘
’’وہ تو سی۔ او۔ صاحب کرتے ہیں۔‘‘
’’میں کیا جانوں بھیا! وہ تو شرفو نے جو بتایا میں نے وہی سمجھا۔ اب یہی بتا دو کہ سی۔او صاحب کا مکان کون سا ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ اس نے بے رخی کے ساتھ جواب دیا اور کھٹاک سے کھڑکی بند کر دی۔
میں سویرے سے بھوکی پیاسی چلتے چلتے تھک کر چور ہو چکی تھی مگر دل میں جو آس کی کرن جگی تھی وہ مجھے روشنی دکھا رہی تھی۔اگر آج یہ کام نہ ہو سکا تو شاید کبھی نہ ہو۔ میں کانپتی ٹانگوں کو سمیٹ کر وہیں پر بیٹھ رہی...‘‘
دن بھر ادھر ادھر چکراتی ہوئی ہوا اب سبک خرام ہو چلی تھی۔ سورج اونچے مکانوں کے پیچھے جا کر نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ اچانک بڑھیا کو محسوس ہوا کہ فضاء پر ایک پر اسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ آس پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ اتنی دیر سے وہ کس سے باتیں کئے جا رہی تھی۔ اف توبہ!بُڑھاپے میں بڑبڑانے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔
دور مغربی کنارے پر آفتاب غروب ہو رہا تھا اور دو لرزیدہ ٹانگیں لاٹھی کے سہارے دھیرے دھیرے آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ دیکھتے دیکھتے چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا اور ایک سایہ اس تاریکی میں تحلیل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.