نروان
یہ اس دن کا ذکر ہے جب راون کا پتلا جلایا جاتا ہے۔
آج دنیا کی ہوس، بدی اور ناانصافی کو آگ لگائی جانے والی تھی۔ عورتوں اور مردوں کی آوازوں میں ابھی سے روح کی بالیدگی کااحساس شامل ہو چکا تھا، جیسے آج ان کی آتما کو نروان ملنے والا ہو۔
راون کا نام اسی لیے تو زندہ رکھا گیا ہے کہ لوگ برائی کو برائی کہنا نہ بھولیں۔
آج تیوہار کے دن بارش اس پرانی محبوبہ کی طرح برداشت کی جا رہی تھی، جس نے نازنخروں کی انتہا کر دی ہو۔ بادل ناامیدی کے خیال بن کر بڑھے چلے آ رہے تھے اور سیکڑوں نگاہیں ان سے لوٹ جانے کی التجا کر رہی تھیں۔ گاؤں کے میلے میں بارش کا آنا تو یوں ہی ہے جیسے رام چندر مہاراج اور سیتادیوی کے بیچ میں راون کی ہوس۔
بہت دیر تک سندرم کی کویتائیں پڑھتے پڑھتے اوب گیا تو کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔
دور پہاڑیوں کے نیچے والے دیول کی طرف لوگوں نے ابھی سے آنا جانا شروع کر دیا تھا اور یہاں سے وہاں تک آج کوئی نئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ وہی جگہ جگہ کیچڑ میں لوٹتے ہوئے سور، کتے اور مرغیاں، غلاظت کے ڈھیر، گھروں کے اندر سے ساس بہوؤں، دیورانیوں، جٹھانیوں کی چخ چخ، جو تیج تیوہار کے دن زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کچے پکے مکانوں سے پرے، پگڈنڈیوں کو چھوڑکر ترکاریوں کے کھیت اور پھر ان سب کو چاروں طرف سے گھیرنے والی پہاڑیاں، جو دور سے کسی مصور کے کینوس پر بنی ہوئی سینری کی طرح ذرا سی دکھائی دیتی ہیں لیکن جتنے ان کے قریب پہنچتے جائیے، انسان کی خواہش کی طرح بڑھتی جاتی ہیں۔ پہاڑیوں کے اوپر جاتے وقت بےشمار پتھروں کو رنگ کر ان پر گیندے کے پھول اور چراغ رکھ دیے گئے ہیں۔ یہ پتھر تھوڑے دنوں میں ایک دیول بن جائیں گے، کیوں کہ ان سے بے شمار کہانیاں اور روایتیں وابستہ ہیں۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے گاؤں والوں کی تعداد، پرانی روایتیں اس سختی سے اوپر نیچے جمتی گئی ہیں کہ اب وہ ہمیں پہاڑیاں معلوم ہوتی ہیں۔
مگر ان غیردل چسپ چیزوں کو دیکھنے کے لیے بھی میں دن میں کئی کئی بار کھڑ کی میں آتا ہوں۔ میرا کھڑکی میں کھڑا ہونا ایک غیراختیار ی فعل ہے۔
شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے پختہ مکان کے سامنے رتنما کا کچا گھر ہے۔
رتنما کون ہے؟ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں دنیا کے سب ہی مشہور رومانی شاعروں کا کلام آپ کو سنانے بیٹھ جاؤں گا، جو آپ خود ہی اپنی محبوبہ کی شان میں قصیدے لکھنے کے لیے پڑھ چکے ہیں۔ تو بس۔۔۔ رتمنا ایک لڑکی ہے۔
ابھی میلے جانے میں دیر تھی اور سامنے والے باڑے میں لپائیں جھپائیں تیاریاں ہو رہی تھیں۔ بچے نئے اور دھلے کپڑے پہن کر اپنا بوجھ سنبھالنے نہ پارہے تھے۔ آج خلاف عادت کپڑے پہن کر وہ بےحد خوش اور بےحد گھبرائے ہوئے تھے، اس بیل کی طرح جس کی ناک میں ابھی ابھی نکیل ڈالی گئی ہو۔ آج تو ان مردوں نے بھی کپڑے بدلے تھے جن کی زندگی کمر پر بندھے ہوئے ایک کپڑے کے ٹکڑے میں گزر چکی تھی۔ وہ اس پرانے دیول کی طرح لگ رہے تھے جس پر بے ڈھنگے پن سے چونا پھیرا گیا ہو۔ بار بار وہ کھیلتے ہوئے بچوں کو اٹھاکر سینے سے لگاتے، آس پڑوس کی عورتوں سے ہنسی مذاق کرتے اور خواہ مخواہ اپنے دھلے کپڑوں سے گرد کے وہ ذرے جھٹکنے لگتے جو نظر نہیں آ رہے تھے۔
البتہ عورتیں آج ہر دن سے زیادہ سنجیدہ بننے کی کوشش کر رہی تھیں، جیسے یہ بناؤ سنگار کوئی خاص بات نہ ہو، جیسے وہ آج میلے میں دھکے کھانے اور نئے کپڑے پہننے پر ذرا بھی خوش نہیں ہونا چاہتیں بلکہ پیسے زیادہ خرچ ہونے اور کام بڑھ جانے سے بیزار ہیں۔ بار بار وہ کنواری لڑکیوں کو ٹوکتیں کہ اتنی سج دھج کی کیا ضرورت ہے مگر لڑکیوں نے حسب عادت ان کی ایک نہ مانی۔ وہ سب سنگار میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتی تھیں۔
البتہ ایک بات ساری عورتوں میں مشترک تھی کہ انہوں نے جوڑوں میں گیندے کے زرد پھول لگائے تھے اور پاؤں میں ہلدی ملی تھی۔ اس پیلے رنگ نے آج کچھ اجالا سا پھیلا دیا تھا۔ ہر جوڑے کے پھول نگاہوں سے ہٹنے کے بعد بھی فضا میں ایک زرد سا دھبہ چھوڑ جاتے۔ پھر وہ دھبہ آہستہ آہستہ پھیل کرآسمان پر بادل کی طرح چھا جاتا، پھر آنکھیں نیم وا کرکے دیکھیے تو کچھ اداسی کی بارش سی نظر آتی۔ دل کے اندر بھی گھٹائیں امنڈ رہی تھیں۔ میں نے سوچا یہ بادل ایسے گہرے تو نہیں، چھٹ ہی جائیں گے اور دل پر اولوں کی طرح گرنے والی افسردگی کو جھٹک کر میں اندر جانے ہی والا تھا کہ اچانک بجلی چمکی۔
نہیں، یہ بجلی نہیں چمکی تھی۔ موسم ہنسا تھا۔ موسم نہیں ہنسا۔۔۔ رتنما مسکرائی تھی۔
اتنے اچانک طور پر، خلاف توقع، جب کہ میں نوکری کے ساتھ ساتھ رتنما کی مسکراہٹ سے بھی مایوس ہو چکا تھا۔
اس نے اپنی مسکراہٹ کی ٹارچ میری آنکھوں پر پھینکی اور اپنا منھ شمال کی جانب موڑ لیا مگر اس سے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ اس سے تو وہ مسرت ہوئی جو ’’تاج محل‘‘ کی کسی نئے زاویے سے لی ہوئی تصویر دیکھ کر ہوتی ہے۔
آپ یقین جانیے۔ ایک سال سے میں رتنما کا چہرہ صرف سامنے سے دیکھتا رہا ہوں۔ جھکی ہوئی گردن، ناک کی پرچھائیں لمبی ہوکر پیشانی کے ابھار کو چھوتی ہوئی سیاہ بالوں کے پہاڑوں کو چھوتی ہوئی ایک سفید جھیل کی مانند لہراتی ہوئی مانگ، اس کی آنکھیں اپنے ہاتھوں کی سلائیوں پر ہوتیں اور وہ دن بھر نگاہ اٹھائے بغیر ایک پہلو سے بیٹھی رہتی۔
مگر آج وہ خلاف عادت سیاہ کمرے میں ایک دم طلوع ہوئی۔ اس کے ہونٹ ابھی تک سورگ کے دروازوں کی طرح وا تھے اور اس نے بڑی فراخ دلی سے مسکراہٹ کی شوخ رقاصاؤں کو گالوں کی وادیوں پر ناچنے دیا۔
شاید آج وہ بھی ہنسی کا صدقہ دے کر اپنے حسن کو ہوس کی نگاہوں سے پاک رکھنا چاہتی تھی۔
پھر اس کی پلکیں میری طرف اٹھیں، یوں جیسے کسی بہت بڑے مندر کے دروازے ہریجنوں کے لیے کھل گئے ہوں۔
میں اس قابل کب ہوں! میں نے ایک مالا کی طرح سوچا۔ نہ جانے کیوں رتنما کے چہرے پر بھرپور نگاہ ڈالنے سے پہلے مجھے بدری ناتھ کا پرجلال مندر یاد آتا ہے۔ خانۂ کعبہ کی جالیاں یاد آتی ہیں۔ اس عبادت گاہ میں چھایا ہوا جلال و جمال دیکھ کر کبھی میں وہاں کی سیڑھیاں طے نہیں کر پاتا۔
اچھوتوں نے کوئی ایسا پاپ کیا ہے کہ اب کسی دیول کے دروازے ان پر نہیں کھلیں گے۔ جب ان کے ناپاک پاؤں کسی پاک دھرتی کو چھوتے ہیں تو بھگوان اس جگہ سے منھ موڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے اور بھگوان کے درمیان گناہوں کی دیوار کھڑی ہے اور پربھو جو آوارہ خیالات کی چاپ بھی سن لیتے ہیں، ہریجنوں کی پکار کیوں نہیں سنتے۔ ضرور یہ ان کی نیت کا کھوٹ ہے۔
جب میں رتنما کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اپنی روح میں چھپا ہوا مالا نظر آتا ہے۔ خیر ہوئی جو ماں کو اس بات کا پتہ نہیں ہے، ورنہ یوں میرے دھرم کو کھوٹا کرنے والی رتنما کبھی ہمارے گھر نہ آپاتی۔ لیکن میرے شہر کے دوستوں نے اس روحانی قسم کے عشق کا حال سنا تو بڑا مذاق اڑایا۔ وہ لوگ محبت کی چنگاری کو گیلے اپلوں میں سلگانے کی بجائے پٹرول ڈال کر بھڑکانے کے عادی تھے۔ ان کے خیال میں یہ محبت نہیں تھی بلکہ میں جلدی جلدی روحانیت کی طرف مائل ہو رہا ہوں بلکہ انہوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ دو چار سال کے بعد وہ سب اس دیول میں اپنے عشق کی کامرانیاں مانگنے آیا کریں گے، جہاں میں پوجا پاٹ کے کاروبار کی دوکان لگا دوں گا۔
مگر آج میں نے سچ مچ اپنے آس پاس کسی روحانی قوت کو سرسراتے دیکھا۔ آج جب بھگوان دنیا سے برائیوں کا خاتمہ کرنے والے تھے، ضرور انہوں نے میرے گونگے ارمانوں کی سسکیاں بھی سن لی تھیں۔
یہ سب میں نے ایک لمحے میں سوچا۔ پھر دوسرے لمحے اداسی کے بادل بہت نیچے جھک آئے۔ میلے کی طرف جانے والوں کی چیخ پکار بڑھ گئی۔
تب میں نے بھی اداس ہوکر چاروں طرف دیکھا۔ وہ فاصلہ ناپا جو میرے اور رتنما کے درمیان سات سمندروں کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ دراصل جب انسان کا دل بےچین ہوتا ہے، تب ہی مفلس کے خیال کی طرح اس کی نگاہیں چاروں طرف دوڑتی ہیں۔
دسہرے کی دھوم اب درت پر پہنچ گئی تھی۔ فقیروں کی وہ ریل پیل مچی جیسے غلاظت پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ دروازوں پر آم کے تازہ پتے لہرا رہے تھے۔ ان پتوں کے نیچے بارش کے قطروں کی چمک دار جھالر سی بن گئی تھی۔ تھوڑی دیر رکنے کے بعد لرزتے ہوئے قطرے ایک چمکتی لکیر چھوڑ کر گر پڑتے۔ لڑکیوں نے آنگنوں میں گوبر کا چھڑکاؤ کرکے جو چونے سے بیل بوٹے بنائے تھے، وہ کبھی کے پانی میں بہہ چکے تھے۔
آج سب ہی عورتوں نے نہا کے گیلے بال کھلے چھوڑ دیے تھے۔ وہ اپنے جسموں کو دھو چکی تھیں اور اب روحوں کی صفائی کرنے کے لیے پوجا کے تھال لیے تالاب پر جانے والی تھیں۔
سنا ہے آج کالی کے دیول میں شہر سے سادھوؤں کی ایک ٹولی آئی ہے۔ ان کے پاس نہ جانے کون کون سی دیوی دیوتاؤں کی نشانیاں تھیں۔ ایسے تیر بہ ہدف منتر تھے کہ وہ عورتوں کو بڑی بڑی مرادوں کی گارنٹی دے رہے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا پاپ معاف کروانے کا ذمہ لے رہے تھے۔ دیول کی پچھلی عمارت میں وہ صرف ایک دن کے لیے ٹھہرے تھے۔
شہر والوں نے یا تو اپنی ساری مرادیں پالی تھیں یا ان کے سینے آرزوؤں سے خالی تھے، جو سادھو ہمارے گاؤں آ گئے۔
گاؤں میں یہ خبر دھوپ کی طرح پھیل گئی تھی۔ لوگوں نے جانے کب کب کی کرم خوردہ خواہشوں کو جگایا تھا۔ بہت سے چھوٹے بڑے گناہ انہیں بے چین کر رہے تھے۔
ہمارے گھر کے اندر بھی برتنوں، مرغیوں اور میری بہنوں کا ملا جلا شور مچا تھا۔ دالان میں پوجا کے تھال سجائے جارہے تھے۔ ماں جلدی جلدی صندل، کچے کھوپرے اور سیندور رکھ رہی تھی۔ صدقے کے لیے پانچ رنگ کے چاول ابال رہی تھی۔ میری بہنوں نے اپنی سب ہی خوب صورت ساریاں نکال کے باہر ڈال دی ہیں اور ان کا سنگار پٹار ختم ہی نہیں ہو چکتا۔ دسہرہ تو اصل میں لڑکیوں کا تیوہار ہوتا ہے۔ لڑکیاں ہفتوں پہلے سے سیتا جی کی پاکبازی سراہنے لگتی ہیں۔ گھر گھر راس لیلا رچائی جاتی ہے۔ بھارت ناٹیم کی مدرائیں تیز تیز ہو جاتی ہیں۔ پھولوں اور چراغوں کو بیچ میں رکھے جب لڑکیوں کے گروپ ناچتے ہیں تو وہ سیتا کے دکھ، رام کا بن باس اور راون کے ناپاک ارادے بھول جاتی ہیں۔ انہیں ارجن اور چترانگدا کی محبت یاد آتی ہے۔ کبھی برج کا بنسری والا ان کی سدھ بدھ کھو دیتا ہے اور وہ سچ مچ آدھی رات کا چاند دیکھنے کے لیے کسی درخت کے سائے میں کھو جاتی ہیں۔
میری بہنوں نے آج لڑ لڑ کے نئی چوڑیاں پہنی ہیں۔ جوڑے میں گیندے کی بینی لگائی ہے۔ پاؤں میں ہلدی ملی ہے اور نئی کلف لگی ساریاں باندھی ہیں جو کڑک مرغی کی طرح پھولی ہوئی ہیں اور چلتے وقت ہواؤں سے ٹکراکے فوں فوں کر رہی ہیں۔ آج پانچ دن سے گھر گھر ناچنے میں وہ اتنی مدہوش رہیں کہ میرے کمرے کی صفائی تک نہ کی، یہ بات یاد دلاتے ہوئے میں نے اپنی چھوٹی بہن دنتا لکشمی سے کہا، ’’تیری سہیلی رتنما تو آج بھی اتنے میلے کپڑے پہنے ہے کہ جی متلا جائے۔‘‘
یہ سن کر دنتا دلی مسرت سے ہنس پڑی، یوں میری طرف دیکھا جیسے میری سب خطائیں بخش دی ہوں۔
’’اس کی گائے جو مر گئی، وہ بے چاری تو اب کی ناچوں میں بھی شریک نہیں ہوئی۔‘‘دنتا نے لاپروائی سے پانی کے عکس میں اپنا بٹو درست کرتے ہوئے کہا اور اپنے اوپر ایک ناقدانہ نگاہ ڈالی۔
گائے اور ناچ کا کیا تعلق! گائے مر جائے تو کیا تیوہار نہیں منائے جاتے۔ مسرت کا چاند ڈوب جاتا ہے!
ابھی نائنا کو مرے ہوئے بھی تو زیادہ دن نہیں ہوئے مگر ہم سب بھول بھال گئے۔ خیر نائنا کی بات چھوڑیے۔
اگر وہ ہر روز صبح گیتا کاپاٹ کرنے کے بعد بلاناغہ ماں کو نہ مارا کرتے، کسانوں سے رقم وصول کرکے زمین پر گاڑنے سے پہلے کبھی ہم لوگوں کو ایک پیسے کا سیتا پھل خرید دیتے، تو کون ان کی موت پر نہ روتا!
مگر یہاں تو ان کی مٹی میں ملتے ہی وہ خوشیاں باہر نکل آئیں جو انہوں نے گاڑدی تھیں۔
’’اب اتنے روپے کا کیا ہوگا؟‘‘ ماں کا چہرہ بھی روپیہ دیکھ کر یوں ہی فق ہو گیا تھا جیسے رتنما کی ماں بیوہ ہونے کے بعد سکتے میں آ گئی تھی۔ پھر روپے کی بدہضمی کی وجہ سے میں دن بھر بستر پر لیٹا رتنما کے تصور سے جی بہلائے جاتا۔
جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو عشق کی وسعت کائنات کو سمیٹ لیتی ہے۔
ہم اپنے پیاروں کی موت پر رونے کی بجائے اس وسیلے پر روتے ہیں جو ہم سے چھن جاتا ہے۔ خواہ سامنے گائے کی لاش ہو یا ماں کی۔
’’بلکہ رتنما کے لیے تو وہ ماں سے بڑھ کے تھی۔‘‘ ماں نے رتنما کو پرسہ دینے کے بعد گھر آکے کہا تھا۔
’’اسی گائے کے دم سے تو سارے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اب محلے والے بھی قرض دیے جائیں تو کس بھروسے پر!‘‘
جب گائے تھک کر اپنا سینگ بدلتی ہے تو بھونچال آ جاتا ہے۔ اور جب گائے تھک کر گر جائے تو۔۔۔ تو۔۔۔
میں نے گھبراکر رتنما کا گھر دیکھا۔ وہاں ابھی تک دسہرہ نہیں پہنچا تھا۔
ایک سفید بلی دروازے میں بیٹھی جیبھ سے اپنے پنجے چاٹ رہی تھی۔ کبھی کبھی آنکھیں کھولے بغیر نتھنے پھڑکا کر محلے میں بسی ہوئی کھانوں کی خوشبوئیں سونگھنے لگتی۔
اب باجے والوں نے زور زور سے دھبڑا بجانا شروع کیا۔ سنکھ کی آواز سنتے ہی کئی عورتیں بے خود ہونے لگیں۔ مدہوش شرابیوں کی طرح اٹھیں اور بال جھٹک کر ناچنے لگیں۔ کئی محلے کے مرد پانی میں نیم کے پتے ڈال کر ان کا خمار اتار رہے تھے مگر آج کسی عورت نے گود پھیلاکر ان سے آوارہ شوہر کی محبت، بچے اور دولت نہ مانگی۔ ایک بھی کنواری اپنے چہرے پر تمناؤں کے چراغ جلاکر ان سے التجا کرنے نہ آئی۔
یہ عورتیں اصل میں دیول کی دیوداسیاں تھیں اور کسی مرد سے محبت کرنے کے جرم میں دیول سے نکال دی گئی تھیں۔ اب پوجا پاٹ کے دن وہ پھر گیان میں ڈوب جاتیں اور ایسے وقت سب ہی لوگ اپنی عرضیاں لے کران کے پاس تھے لیکن آج سادھوؤں کی شہرت نے ان کی اہمیت کم کر دی تھی۔ صرف چند سڑی بسی بوڑھیاں اپنی عادت کے موافق چیخ چیخ کر ان سے خیر و برکت کی التجا کرتی رہیں۔
تالاب میں چھوڑنے کے لیے پوجا کے تھال لیے عورتیں اب نکل نکل کر باڑے میں جمع ہونے لگیں۔ فضا میں اجالا سا پھیل گیا۔ رنگ برنگی ساریاں اور طرح طرح کی صورتیں گڈمڈ ہوئی جا رہی تھیں، یوں جیسے ٹوکرا بھرے رنگین پھول کسی نے باڑے میں پھینک دیے ہوں۔ ان کے سیاہ بالوں میں بوندوں کے لاکھوں موتی چمک رہے تھے اور پوجا کے تھال میں رکھے ہوئے جلتے چراغ گناہ کا اعتراف کرنے والے مجرم کی طرح کانپنے لگے۔ لڑکیوں کی قطاریں علیحدہ کھڑی ایک دوسرے پر تنقید کر رہی تھیں۔ حسن کی یہ افراط اس کی قدر کھوئے دے رہی تھی۔ رات دن نظر آنے والی یہ صورتیں مجھے آج تک کبھی اتنی پیاری نہ لگی تھیں۔ آج رتنما کی ہنسی نے دنیا کی خوبصورتی میں کتنا اضافہ کر دیا تھا!
میں نے بھی جلدی جلدی میلے میں جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شہر کی نمائش دیکھنے کے باوجود مجھے اپنے گاؤں کے میلے کی دھوم دھام بہت پسند ہے۔ میلے میں جاتے وقت میں اتنا ہی خوش ہوتا ہوں جتنے گاؤں کے دوسرے بچے۔ یہاں گائیں، بھینسیں اور مٹی کے برتن بکتے ہیں۔ چاول کے پاپڑ، سوکھی ہوئی تلی مچھلی اور بکری کے آنتوں کا چاکنہ کھاکے سیندھی پی جاتی ہے اور گاؤں کی سب سے حسین لڑکی کے قریب کھڑے ہوکر ’’برہ کتھا‘‘ سنی جاتی ہے۔
میں نے طے کر لیا تھا کہ آج یار دوستوں سے تو علیحدہ رہناہی اچھا ہے۔ بہنوں کا ساتھ ٹھیک رہےگا، کیوں کہ ان کے پاس گاؤں کی ہر لڑکی ضرور آتی رہےگی۔ میں اپنی پینٹ پر ہاتھوں سے استری کر رہا تھا کہ رتنما کی آواز ساری دنیا کو دہلا گئی۔
’’آجاؤ راج لکشمی!‘‘
’’آؤ آؤ۔‘‘ دنتا نے کہا۔
آؤ آؤ۔ میں نے چلانا چاہا۔ کبھی چیونٹی کے گھر نرائن بھی پوچھ کر آتے ہیں۔ کبھی بسنت کا تیوہار بھی آنے کی اجازت مانگتا ہے! کبھی سورج نے لوگوں کے کواڑ کھٹکھٹائے ہیں۔
اب دروازے تک کسی کو نہیں جانے دیا جائےگا۔ میں نے طے کیا۔ زمین کے وہ حصے ابھر کے علیحدہ ہو گئے تھے، جہاں رتنما پاؤں رکھتی ہوئی اندر گئی تھی۔ معلوم نہیں لوگ آج ہی دیوالی بھی کیوں نہیں منا رہے ہیں! کیا بس ایک ہی سیتا رام کے گھر آئے تو دیپاولی ہوگی!
رتنما وہی روز والے کپڑے پہنے تھی۔ بال بکھرائے ہوئے، پھٹی ہوئی ساری کے اندر سے باہر نکلا ہوا جوڑا۔
آج گاؤں میں شاید کوئی اتنا خوش قسمت پھول نہیں تھا جو رتنما کے جوڑے کی زینت بنتا۔
اندر سے اس کی دھیمی دھیمی آواز آ رہی تھی۔ اس نے دنتا لکشمی کا جوڑا پھر سے باندھا تھا اور راج لکشمی کو زیور پہنائے تھے اور تعجب سے پوچھ رہی تھی، ’’آج تو شاید گڑ کے چاول پکائے جاتے ہیں! جب نائنا زندہ تھے تو ماں بی پکایا کرتی تھی۔‘‘
میں شیو کرنے سے رک گیا۔ کمرے تک جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ تو چھوئی موئی کا پودا تھی۔ میری نگاہوں کی حرارت سے بھی سکڑ کے بھاگ جاتی۔
گڑ کے چاول تو آج گھر میں پکے ہیں۔ راج اپنی سہیلی کی تواضع کرونا۔ مگر حسب عادت یہ بات میں راج سے نہ کہہ سکا۔ لڑکیوں کے بیچ میں بولنے والا میں کون! پھر رتنما کو تو ماں یوں بھی کچھ اچھا نہ سمجھتی تھی۔ وہ تو ہماری رعیت تھی۔ یہ جو سامنے کچے گھر ہیں، یہ جاگیردار کی ملکیت میں جانے سے پہلے کبھی ہمارے دادا پردادا کے تھے۔ اسی لیے باڑے والے ہمیں اب بھی وہ اعزاز دیتے ہیں جو مالکوں کے لیے واجب ہے۔
بات یہ ہے کہ ہمارے گاؤں والوں کے ذہن بہت اچھے ہیں۔ وہ ہر ایک کی اچھی اور بری بات صدیوں تک سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ وہ رتنما کے باپ کو بھی نہیں بھولے، جو اپنی لنگڑی ٹانگ کا بہانہ کرکے کماتا ہی نہ تھا اور لوگوں کے کھیتوں میں سے ترکاریاں چرایا کرتا تھا۔ پھر ایک بار وہ ماٹ کا ساگ چراکر لا رہا تھا کہ اس کو پتلونے دیکھ لیا۔ صبح اسے دیول میں بلایا گیا اور جب ایسی ذلیل حرکتوں پر اسے برادری باہر کر دیا گیا تو وہ سندرم پیٹھ کے تالاب میں ڈوب مرا۔
اب اس کی بیوی اوپلے تھوپتی اور گائے کا دودھ بیچتی تھی۔ رتنما دن بھر کروشیا چلائی جاتی۔ لاکھوں پھندوں کا جال ڈالتی، جس میں اس کی قسمت کا موتی کبھی نہ پھنستا۔ اس محنت اور احساس کمتری نے اس کے ہونٹوں پر سے مسکراہٹ کارنگ پونچھ دیا تھا۔ اس کے چہرے پر مر جھائی ہوئی کلیاں لرزتی رہتیں، جو احساس کمتری کی ہواؤں، مفلسی کی دھوپ اور لوگوں کی حقارت کے طوفان نے کھلنے نہ دی تھیں۔
مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے رتنما کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں اس کے باپ کی لاش ہر وقت رکھی رہتی ہے۔
’’رتنما تو آج میلہ دیکھنے بھی نہ جائے گی؟‘‘دنتا لکشمی نے اس پر ترس کھانے کے انداز میں پوچھا مگر اس کاجواب سنائی نہیں دیا۔ شاید اس نے سر ہلاکر انکار کر دیا تھا۔
’’اور تو آج سادھوؤں سے کوئی مراد مانگنے بھی نہ جائے گی!‘‘راج لکشمی نے گھبراکر پوچھا۔ میں نے اپنے کان دیوار سے اڑا دیے۔
’’میری تو آج ایک ہی آرزو ہے راجو، کہیں سے ایک روپیہ مل جائے۔ بس۔‘‘ اس کی آواز کہیں پانی کی تہوں سے ابھر رہی تھی۔
مگر راج اور دنتا نے یہ بات کسی طرح نہ مانی۔ وہ دبی دبی آوازوں میں جانے کیا سرگوشیاں کرکے رتنما کو اڑا رہی تھیں۔ ایک بار تو مجھے شبہ ہوا کہ شاید اب وہ مسکرا پڑی ہو۔
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ماں کی پٹاری کھول کے ایک روپے والا نیانوٹ نکالا اور جلدی سے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دیا۔ میرا دل بند ہوا جا رہا تھا۔ جیسے اس روپے پر رتنما کی نگاہ نہ پڑی تو میں زندگی بھر رتنما کو نہ پا سکوں گا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ہنومان جی کی تصویر سے التجا کی کہ آج وہ پھر دو محبت کرنے والے دلوں کے درمیان آنے والی لنکا کو ڈھا دیں۔
’’چنما (خالہ) کوئی کام ہو تو میں کر دوں!‘‘اس نے جانے سے پہلے چولھے کے پاس رک کر ماں سے پوچھا۔
’’تو اپنی بیمار ماں کے پاس بیٹھ، یہ کام تو ہو ہی جائےگا۔‘‘ ماں تیج تیوہار کے دن ایسے مفت خوروں سے چڑ جاتی تھی۔
دان ہی دینا ہے تو دیول کے فقیروں کو دو۔ یوں چپکے چپکے دیں تو بھگوان کو بھی نظر نہیں آئےگا۔
’’ٹھہرو۔‘‘میں نے اسے دہلیز پر روک لیا، ’’جاؤ تو کواڑ بند کرتی جانا۔‘‘
پھر میں اس طالب علم کی طرح اٹھا جو اپنے امتحان کا نتیجہ دیکھنے والا ہو اور کامیاب رہا۔
میلے سے واپس ہوتے وقت تھکن کے مارے برا حال تھا۔ آج میلے کی وہ پچھلی رونق جانے کہاں چھپی بیٹھی تھی۔ میرے اوپر کئی گدھوں کا بوجھ لدا ہوا تھا۔ چوڑیاں، کنگھیاں، کاٹھ کے کھلونے اور پنی کے زیور اور چھلنی اور مٹی کی ہانڈیاں اور کاغذ کی بینیاں۔ پھر میں نے سب کی نگاہ بچاکر موتیوں کی ایک مالا بھی خریدی تھی، جومیرے دل کے قریب والی جیب میں بری طرح دھڑک رہی تھی۔ کوئی میرے طرف اشارہ بھی کرتا تو میں چونک جاتا تھا۔ پاؤں میں کسی نے چکی کے پاٹ باندھ دیے تھے۔ ہجوم میں دھکے کھاتا ہوا جانے میں کتنی بار رتنما کے گھر پہنچ چکا تھا مگر اس نے کسی طرح مالا نہ پہنی۔ وہ بار بار ایک ہی بات کہتی، ’’میرے باپ کی لاش دیکھو۔ میرے باپ کی لاش۔‘‘
’’ہٹاؤ بھی۔‘‘ میں بیزار ہو جاتا۔ اب اس لاش کو آگ کیوں نہیں لگا دیتیں!
’’گاؤں والے جو راضی نہیں۔‘‘وہ خوف زدہ لہجے میں کہتی اور میں مایوس ہوکر پھر میلے میں لوٹ آتا۔ کبھی دنتا کے لیے مٹی کے مراری کا بھاؤ چکا رہا ہوں، کبھی راج کی قسمت کا حال دیکھنے کے لیے لاٹری میں ایک پیسہ ڈالتا۔
رتنما۔ رتنما۔ راج لکشمی کی چیخ پر میں اچھل پڑا۔ رتنما واقعی ہمارے پاس آرہی تھی۔ ساتھ میں اس کی خالہ تھی اور وہ دونوں ہاتھ جوڑے سب کو ڈنڈم کر رہی تھیں۔ آج سارے گاؤں سے دھتکارا ہوا غم رتنما کے چہرے پر سمٹ آیا تھا۔ اب بھی اس کے کپڑے وہی تھے۔ داہنے گال پر ایک سیاہ دھبہ پڑ گیا تھا۔ شاید وہ چولھے کے پاس سے اٹھ کر چلی آئی تھی۔ یہ دھبہ کتنا برا لگ رہا تھا۔ مجھے بےچینی ہونے لگی، کوئی اس کے گال سے یہ دھبہ پونچھ کیوں نہیں دیتا! دنتا تو بالکل قریب کھڑی ہے۔ اونہہ۔ میں تھکا جا رہا تھا۔
’’تو کپڑے بدل کے کیوں نہیں آئی؟‘‘
’’میلے میں کیا کیادیکھا؟‘‘
’’ذرا یہ دیکھ میں نے کتنی چیزیں خریدی ہیں!‘‘ لڑکیاں اسے پاکر یوں خوش ہو رہی تھیں جیسے برسوں کے بعد ملی ہوں۔ رتنمانے پہلے اپنی سکھیوں کی چمکتی ہوئی ساریاں دیکھیں۔ میلے میں خریدی ہوئی چیزیں اور پھر ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ میری پینٹ پر ڈالی۔ اس کی آنکھوں کا رنگ یتیم بچوں کا سا تھا۔ وہ رنگ جو تیوہار کے شور اور اپنی مفلسی کے احساس سے مل کر بنتا ہے۔
آج دوسری بار اس نے مجھے نگاہوں سے مخاطب کیا تھا۔ میں آتش بازی کے انار کی طرح فضا میں پگھلا جا رہا تھا۔
سنو سنو۔ میں ہاتھ پھیلاکر برہ کتھا سنانے والوں کی طرح چلا چلا کر سب کو پکارنا چاہتا ہوں۔
اور پھر اس کے بعد کہنے والوں نے کہا ہے اور سننے والوں نے سنا ہے کہ دیوی نے دوسری بار اس مرد کی جانب مسکرا کے دیکھا جس سے سورگ کے دروازے اس مر د پر حلال ہو گئے۔ اور پھر آکاش وانی ہوئی۔ آکاش وانی۔
بار بار میرا ہاتھ دل والی جیب پر جا رہا تھا۔ میں جانے کون سے آسمان پر اڑنے لگا جہاں سے دنتا ہاتھ پکڑ کے کھینچ لائی۔
’’ذرا دیول تک پھر چلیں گے۔ رتنما وہاں جانا چاہتی ہے۔‘‘
میں نے سوچا۔ یہ ٹھیک ہے۔ آج ہم دونوں ایک ساتھ سادھوؤں سے اپنی مراد مانگیں گے۔ آج تو پاک روحوں کے بیچ میں آنے والے راون کو جلایا جا چکا ہے!
پہلے دیول میں پھر وہی سودے بازی شروع ہوئی تو سیڑھیوں پر فقیروں نے اپنے جسموں اور روحوں کے گھاؤ دکھا دکھاکر مجھ سے ایک آنہ جھٹک لیا۔
’’یہاں کھڑے ہوکر دیوی کو پرنام کرو۔‘‘ ایک سادھو نے سلامی کا ایک ایک آنہ لے لیا۔
’’یہ وشنو کا استھان ہے۔ یہاں کھڑے ہوکر وہ مہربانیاں بانٹتا ہے۔‘‘
دنتا اور راج نے جلدی جلدی وہاں رکھی ہوئی ایک مٹی کی ٹھلیا میں چار چار آنے ڈالے۔ رتنما پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی لیکن میں نے آگے بڑھ کر اپنے اور اس کے لیے بھی چار چار آنے کی مہربانیاں خرید لیں۔
اب ایک اور سادھو نے آگے بڑھ کر ہماری راہ نمائی کی۔ اب یہاں آؤ۔ یہ شیو دیوتا ہیں، ان کے سامنے کھڑے ہوکر جو پاپ چاہو معاف کرا لو، جو چاہو مانگ لو۔ سادھو یوں فراخ دلی سے کہہ رہا تھا، جیسے آچاریہ ونووا بھاوے کسانوں میں مفت زمین بانٹنے کا اعلان کر رہے ہوں۔ سامنے شیو کے ایک تانڈو ناچ کا دھندلا سا فوٹو تھا، جس میں شیو لاشوں کے اوپر ناچ رہا تھا۔ یعنی شیو تخلیق کا دیوتا ہے اور دنیا کے خاتمے پر اس کے علاوہ کچھ نہیں رہےگا۔
نیچے ایک سادھو آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔ کئی عود دانوں میں سے نہ جانے کون سی سلگتی ہوئی خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ حواس بھی بھاپ بن کر اڑے جا رہے تھے۔ جسم دھواں دھواں ہوکر روح سے جھڑ رہا تھا۔ یوں لگتا جیسے بھگوان کی وہ نظر نہ آنے والی ہستی ساری کائنات پر چھائی جا رہی ہے۔ جیسے ہم سو چکے ہیں، جیسے کوئی بہت ہی پراسرار خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہاں فیس ایک روپیہ تھی۔ دنتا اور راج دونوں اب آگے بڑھتے ہوئے جھجکیں مگر رتنما سادھو کی پوری بات سنے بغیر آگے بڑھ چکی تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھ سے وہی روپے والا نوٹ طاق میں یوں رکھا جیسے کوئی بن بیاہی ماں اپنے نوازائیدہ بچے کو پھینک رہی ہو۔ پھر وہ ضبط کے باوجود رو پڑی۔
’’مجھے معاف کرو۔ میں نے چوری کی ہے۔ میں نے۔‘‘وہ اپنی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
مجھے رتنما پر پہلی بار غصہ آیا۔ جی چاہا سب کے سامنے رتنما کو پکڑ کے کھینچ لوں۔ اس سے کہوں یہ روپیہ میں نے تمہیں دیا ہے لیکن مجھ سے پہلے ایک لمبا تڑنگا سادھو آگے بڑھ چکا تھا۔ اس نے غور سے رتنما کو دیکھا اور اس کی گردن پکڑ کے اپنے قریب کر لیا، ’’تو بہت بڑا پاپ معاف کرانے آئی ہے؟‘‘ اس کی نگاہیں رتنما کے جسم کے چیر کو اس کی روح ٹٹول رہی تھیں۔
’’تو اِدھر آ۔ آتما کا نروان یہاں نہیں ملےگا۔‘‘
رتنما ڈر کے مارے تھر تھر کانپنے لگی۔ اس نے بڑے غور سے سادھو کی خوفناک صورت دیکھی، پھر اپنے آس پاس کھڑے ہوئے تماشہ بینوں کو دیکھا۔ مجھے اس وقت پھر رتنما کی آنکھوں میں اس کے باپ کی لاش تیرتی نظر آئی۔ پھر وہ سادھو رتنما کو لے کر دیول کے پیچھے پھیلے ہوئے اندھیرے جنگل میں ڈوب گیا۔
ہمارے قریب لوگوں کا ہجوم تھا۔ دیول کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ کبھی کبھی بکریوں یا مرغیوں کو قربان کرتے وقت ان کی چیخیں بلند ہو جاتیں۔ جیسے کوئی عورت کراہ رہی ہو۔ مرادیں مانگنے والوں اور روحیں پاک کرانے والوں کی قطار اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ طاق کے نیچے دھونی رمائے ہوئے سادھو بڑی بیزاری سے آنکھیں کھول کر عورتوں پر ایک نگاہ ڈالتا اور پھر کسی ایک کو اشارے سے اپنے قریب بلا لیتا۔
اس کے پاس رکھی ہوئی مٹی کی ٹھلیا اب بھر چکی تھی۔ شاید اب دیول کا پجاری بھی سادھوؤں کے رعب و جلال سے مرعوب ہو چکا تھا۔ ورنہ آج مندر میں وہ ہر ایک سے یہ شکایت کر چکا تھا کہ شہر کے یہ سادھو اس کی نگاہوں میں جچے نہیں اور یوں پیسے لے کر دیول میں کاروبار کرنا کون سی عبادت ہے!
ایک اور جوان سادھو، جس نے اپنے خوب صورت جسم پر گیرو ملنے سے پہلے غالباً تیل کی مالش کی ہوگی، بار بار دھونی کا برتن لے کر عورتوں پر جھکتا اور زور زور سے تلگو میں کہتا جا رہا تھا، ’’پہلے اپنے جسموں کو دھو۔ اپنی آنکھوں کو ہوس کے نظاروں سے پاک کرو۔ اپنے منھ کو لگا ہوا جھوٹ اور غیبت کا مزہ تھوک دو۔ پھر بھگوان تمہاری آتما کو پاک کر دیں گے۔‘‘
بعض وقت کسی عورت کا اڑتا ہوا پلو چراغوں کی لو سے بچانے کے لیے اسے نجات کی راہ بتاتے بتاتے رکنا بھی پڑتا۔
’’ہمارے پاپوں نے دھرتی کو گندہ کر دیا ہے، اسی لیے بھگوان ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہم نے پاپ کیا ہے۔ ہم پاپی ہیں۔‘‘
سادھو رتنما کو لے کر کہاں گیا ہے! میں نے گھبراکر دور تک اندھیرے میں انہیں دیکھنے کی کوشش کی۔ میرے دل میں شک یوں جمع ہو رہے تھے جیسے ذرا سی کوٹھری میں قیدیوں کا ہجوم۔
کوئی اس کے ساتھ چلا جاتا۔ رتنما کی خالہ بھی پریشان ہونے لگی۔
ہری اوم۔ ہری اوم۔ شانتی شانتی۔
اسی جوان سادھو نے مجھے شک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دھونی کا برتن میرے منھ کے قریب کر دیا۔
’’اپنے دل کو وہم سے پاک کرو ماں۔‘‘اس نے رتنما کی خالہ سے کہا، ’’یہ بھگوان کا گھر ہے۔‘‘
پھر تو شاید ہم دونوں نے اپنے دل میں ندامت محسو س کی۔ اس پر اسرار فضا کے احساس سے مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ اپنے گناہوں کی ندامت کا احساس جاگ پڑا۔ جیسے میرا جسم غائب ہو چکا ہے صرف میرے پاپ سب کو نظر آ رہے ہیں اور سادھو میری روح کے کھوٹ پر طنز کر رہا ہے۔
ایک گھنٹہ گزر گیا۔ ہم سب اپنے دلوں سے وہموں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
شیو کا فوٹو بڑھنے لگا۔ اس کے ناچ کی تال تیز ہو رہی تھی۔ نیچے لاشوں کا انبار بڑھ رہا ہے۔ یوں جیسے ساری کائنات ختم ہو رہی ہے۔ شیو اب دنیا کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہو۔
پھر ایک دم دور تک بھگائے ہوئے وہموں نے پلٹ کر مجھ پر حملہ کر دیا اور میں بے قابو ہوکر اندھیرے میں آگے بڑھنے لگا۔ میرے پیچھے سہمی ہوئی سی عورتیں بھی لپکیں۔
مگر سادھو خود ہی رتنما کی باہیں پکڑے اسے گھسیٹتا ہوا لا رہا تھا۔
رتنما کے بال کھل گئے تھے۔ ساری جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی اور وہ پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے میں اس کے تمتماتے ہوئے سرخ گال کو دیکھا، جہاں اب سیاہ دھبہ مٹ چکا تھا۔
رام۔ رام۔ سادھو نے دونوں ہاتھ جوڑ کے آنکھیں بند کرتے ہوئے گردن آسمان کی طرف ا ٹھالی۔
’’یہ دیوی بڑی الھڑ ہے۔ یہ بھگوان کے درشن سے ڈر گئی۔‘‘
پھر نہ جانے وہ کیا پڑھتا ہوا ہجوم میں گھس کر عورتوں کو اند ربلانے لگا۔
رتنما۔ رتنما۔ میں نے جھک کر بےسدھ رتنما کو اپنی باہوں میں سنبھالا۔ اس وقت مجھے یاد ہی نہ رہا کہ اس مندر میں قدم رکھنے سے بھگوان روٹھ جائیں گے۔ ان کے کعبے کی جالیوں کو چھونے کا شرف مجھے کبھی نہیں ملےگا۔ رتنما کی خالہ بھی گھبرا گئی۔ دنتا اور راجو نے جلدی جلدی اس کی ساری ٹھیک کی۔ منھ پر بکھرے بال ہٹائے اور اسے جھنجھوڑنے لگیں۔ رتنما۔ رتنما۔
’’اب میں گھر نہیں جاؤں گی۔‘‘اس کی گردن میرے کاندھے پر سے ڈھلکنے لگی۔
’’مجھے نروان مل گیا ہے۔‘‘
شاید آپ بھول گئے ہوں!
یہ اس دن کی بات ہے، جب ہوس اور بدی کے پتلے کو آگ لگا دی گئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.