نصف شب کا چاند
وہ لگ بھگ چالیس سال کی خوبرو عورت تھی۔ رنگت سانولی مگر چہرے کے نقش انتہائی پرکشش تھے اسے ہمارے محلے میں رہائش اختیار کیئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا۔ میں نے جب سے اسے اپنےکیواڑھ کی اوٹ سے دیکھا میرے دل میں اسے چاہنے کی حسرت بڑھتی گئی۔
وہ گھر کا سودا سلف لینے کے لیئے جیسے ہی باہر نکلتی میری نظریں اسے دور تک جاتا دیکھتیں اور جب تلک وہ واپس گھر نا آجاتی میری بی ینی ختم نا ہوتی۔
قدیم عمارتوں سے زرا پرے ہٹ کر شہر کے دور دراز علاقے میں فوجی بیرکس کا ایک رہائشی سلسلہ تھا۔ جہاں تقسیم سے پہلے برطانوی فوجی اور سرکاری اہلکاروں نے اپنی رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ برطانوی راج میں قائم پختہ زرد اینٹوں اور لال کھپریلوں کی چھت والے بیرکس اتنا وقت گزرجانے کے باوجود خستہ حالت میں نہیں تھے۔ چھتیں مکمل اور بیرکس میں بجلی پانی کا انتظام بہتر تھا۔ میری رہائش بھی انھی بیرکس میں سے ایک میں تھی۔
شہر سے دور دراز ہونے کے باعث بیشتر اچھے خاندان اب اس محلے سے نکل کر شہر کے پوش علاقوں میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ جبکہ خالی بیرکس میں اب وضع وضع کے کرائے دار آباد تھے۔ اسی لیے مقامی ماحول، ثقافت زبان اور رہن سہن پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا۔
اس نے دو کمرے والے چھوٹے بیرک کو کرائے پر لیا تھا جو اسکی ضرورت کے لیئے کافی تھا۔
سامراجی دور کی کالونی اندھیرا پھیلتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتی تھی۔ کالونی کے چاروں گرد برقی تاروں اور کھن مبوں کا ایک مضبوط نظام تھا مگر کھنم بوں پر لگے بلب بجلی کے اداروں کی نااہلی کے باعث برسوں سے روشن نہیں ہوئے تھے۔ یوں تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اوباش لڑکوں نے غیر اخلاقی سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں۔
اسکا بیرک نمبر سک سٹی نائ ن تھا جو میرے بیرک سیونٹی کے بالکل سامنے تھا۔ لہذا تمام چہل پہل واضح دیکھی جا سکتی تھی۔ میں نے اس سے کبھی بات نہیں کی تھی مگر اس کا سراپا تصور میں ہی مجسم کرتا رہتا تھا۔ کیا کرتا عمر ہی کچھ ایسی تھی۔۔۔
نجانے کہاں سے آئی تھی۔ کیا ذات تھی۔ اکیلی کیوں تھی یہ سب سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے مگر مجھ میں اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔
میں اکثر راتوں کو جب نصف شب کا چاند سیاہ بادلوں کی اووٹ میں چلاجاتا تھا کئی سائے دیکھتا جو دیوار پھاند کر میرے برابر والے بیرک میں سحر ہونے تک قیام کرتے اور م نہہ اندھیرے باہر نکل کر کہیں غائب ہو جاتے۔
اب وہ صبح صبح سفید لباس پہن کر کام پر نکل جاتی اور شام ہوتے ہی گھر واپس آ جاتی تھی۔ وقت اور مصروفیت بدلنے کے ساتھ ساتھ رات کے سائے معدوم ہوتے گئے اور انکے مقام بھی شائد تبدیل ہو گئے تھے۔
ایک دن اس نے چھٹی کرلی شائد طبعی ت کی نا سازی کے باعث۔ دوپہر کی اداس فضا بالکل خاموش تھی۔ کالونی کے اکثر بیرکس خالی ہو چکے تھے جنکی تہنائی سنسناتی ہوا میں بڑی ہولناک دکھائی دیتی تھی۔ تیز ہوا سے لکڑی کے کیواڑھوں پر لٹکی چھوٹی آہنی زنجیریں دروازوں سے ٹکرا ٹکرا کر عجیب شور برپا کرتیں اور پھر فضا اچانک خاموشی کی ردا اوڑھ لیتی البتہ کبھی کبھی چیلوں کی چیخیں سُنائی دیتی تھیں۔ ہوا خالی بیرکس میں سے ہو ہو ہو کا شور کرتی باہر نکلتی۔
پام کے درختوں پر جھولتی پٹختی کہیں دور نکل جاتی۔ پھر خاموشی کو چیرتی ہوئی پوری قوت کے ساتھ بیرکس کی دیواروں اور درختوں پر سر پٹختی گزر جاتی۔
کئی دنوں سے میں اسے دیکھ نا سکا تھا جسکا ملال مجھے بہت تھا اسے نا دیکھ سکنے کی وجہ سے میرے دل پر عجیب سا بوجھ تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ دوپہر کی دھوپ میں اُڑنے والی تیز ہوا کا شور میرے دماغ میں گھس کر چنگھاڑ رہا ہے۔ میں بیقراری کے عالم میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں چٹخانے لگا۔ تھوڑی دیر اس ہیجانی کیفیت میں رہنے کے بعد میں نے مصمم ارادہ کیا کہ آج رات میں اس سے بات کرکے رہونگا۔ پھر اس کیفیت سے نکلنے کے بعد میں نے قہوہ بنایا۔ کتاب کا سرسری مطالعہ کیا اور کمرہ بند کرکے سو گیا۔
دوپہر کے سائے شام میں ڈھلے اور شام رات کی تاریکی میں ڈھل چکی تھی۔ رات کے دو بج رہے تھے اور میری نیند پوری ہو چکی تھی۔ نصف شب کا چاند بیرکس کے سرخ کھپریلوں، زرد اینٹوں اور وسیع صحن اور پام کے درختوں پر اتر چکا تھا۔ ہوا کی سنسناہٹ اور رفتار میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی تھی وہ اسی قوت سے چل رہی تھی جیسے دن میں چل رہی تھی۔
لمحے بھر میں دیوار پھاند کر اسکے صحن میں موجود تھا۔ آخرکار آپ آہی گئے وہ برآمدے میں دیوار کے ساتھ موجود کچن کی اووٹ سے باہر نکل کر میرے سامنے موجود تھی۔ وہ جاگ رہی تھی شائد دن میں سو جانے کے بعد اسکی بھی نیند پوری ہو چکی تھی۔
میں نے اسے اپنے اتنے قریب سے آج دیکھا تھا۔ نصف شب کے چاند کی روشنی میں اسکا چہرہ میرے سامنے تھا۔ اسکے خوبصورت نقوش اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
میرا نام انور ہے اور یہ گستاخی آج مجھ سے سرزد ہو گئی ہے۔ لفظ گستاخی پر اسکی مسکراہٹ میرے لیئے کسی طنز سے کم نہیں تھی۔
شائد تم میرے بارے میں جاننے کے خواہشمند ہو اس نے میرے تجسس بھرے چہرے کو دیکھتے ہوئے مجھ سے کہا۔۔۔ مجھ سے زیادہ تو دوسروں کو معلوم ہے میں تو صرف اتنا جانتی ہوں۔ کہ جو کچھ میں سوچتی تھی ایک خواب تھا، میرا نام سپنا ہے۔ میں سولہ یا سترہ برس کی تھی جب میں نے بڑے نامساعد حالات میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی مگر غربت ہمارے دیس اور اس دیس کے لوگوں کی شائد تقدیر بن چکی تھی۔ ایسی غربت جسکا خورشید غروب ہی نہیں ہوتا۔ سال ہا سال تمتماتا رہتا ہے کسی آسیب کی طرح کسی خطرناک بیماری کی طرح۔
ہم چار بہنیں تھیں میں سب سے بڑی اور مجھ سے تین چھوٹی۔ پھر ایک دن میرے سوتیلے باپ نے ایک خوش لباس آدمی کے ساتھ مجھے یہ کہ کر رخصت کر دیا کہ ت مھ اری اس کے ساتھ شادی ہوگی مگر ان کی خواہش ہے کہ شادی سے پہلے تم ان کے ساتھ دبئی میں شاپنگ کر لو۔
اس رات میرا جسم بری طرح مسل ہل گیا۔ وہ شراب کے نشے میں دھت میری آبروریزی کرتا رہا۔ اسی رات ہوٹل کی بالکونی سے جھانکتے ہوئے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں پچاس ہزار ٹکا میں فروخت کر دی گئی ہوں۔ ہماری اگلی منزل ڈھاکہ سے کلکتہ تھی۔ پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے ہم مڈل ایسٹ پہنچ چکے تھے۔ دبئی تک پہنچتے پہنچتے میں تین دفعہ فروخت ہوئی۔ انسانی اسمگلنگ کے اس بھیانک واقعہ میں میرے من میں اکثر آیا کہ میں ڈوب مروں اپنا گلا گھونٹ لوں، یا پھر زہر کھا کے مر جاؤں۔۔۔ کیونکہ مجھے جسم فروشی کے لیئے جگہ جگہ بھیجا جاتا۔ میں پندرہ سالوں تک اس گھناونے کاروبار میں انکا ساتھ دیتی رہی۔ پھر ایک رحمدل انسان کو مجھ پر ترس آیا تو اس نے بھاری رقم دیکر مجھے ان سے آزاد کراکر پاکستان بھیج دیا۔ پاکستان میں اپنی خواہش پرآئی تھی میں بنگلادیش نہیں جانا چاہتی تھی۔ میرے والدین مرچکے تھے اور تینوں بہنیں اپنے اپنے گھروں کو جا چکی تھیں۔ یہاں آکر میں نے ایک اسپتال میں نرسنگ کی تربیت لی اور بطور نرس میں خدمات انجام دے رہی ہوں۔
اسی اثنا تیز ہوا کے جھونکے سے چھت کے چند سوکھے اور گرد سے اٹے تنکے دھمک کے مارے نیچے گر پڑے ۔ جس کے ساتھ اسکی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ سرحدوں کے اس پار مختلف موسموں کی طرح متغیر دکھائی دی۔ اضطراب اسکی کیفیت سے جھلک رہا تھا۔ وہ مجھے اس کیفیت میں گزری زیست کے گرم اور سرد لہروں کا رواں سیلابی ریلہ دکھائی دی۔
نصف شب کا چاند اب ڈھلنا شروع ہو چکا تھا سپیدہ سحر طلوع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔ میں نے گزرے ایام کی راتوں میں کچھ سایوں کا ذکر کیا تو وہ صحن میں پڑے سوکھے پتوں پر چلنے لگی جنکی کڑکڑاہٹ سے عجیب ماحول بن رہا تھا۔ پھر وہ میری طرف مڑی تم بھی تو یہ ہی چاہتے ہونا مجھ سے وہ پھر بولی مرد فطرتا عیاش ہوتا ہے کسی بھی جگہ کا ہی کیوں نا ہو۔ اسے بس عورت چاہئے۔ باآسانی تاکہ وہ اپنی حیوانیت نکال سکے۔ انور میں مرد شناس ہوں ایک نظر میں مرد کو پہچان لیتی ہوں کہ اسکے دل میں کیا ہے۔ یہ کہتے ہی اس نے اپنی ساڑھی اتار پھینکی۔۔۔ ہوا کا شور بلند ہوا۔ اس کے کالے سیاہ بال فضا میں لہرانے لگے اسکی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ اس کے سانس بےترتیب تھے۔ میں مبہوت اسے ایک ٹک دیکھے چلے جا رہا تھا۔ نصف شب کے ڈھلتے چاند میں اس کا تانبے جیسا چمکتا جسم دیکھنے کی مجھ میں تاب نا تھی۔ میں نے سختی سے اس سے کہا کہ اپنی ساڑھی واپس پہنو۔۔۔ مگر اس نے میری نا مانی اور کہا کہ تمام مردنظروں کے ننگے ہوتے ہیں تم بھی ان میں سے ایک ہو۔۔۔ یہ سن کر میں بے حد پریشان ہو گیا میں نے اس سے کہا کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں۔
اس نے بڑے اداس لہجے میں مجھ سے کہا تم اگر سچے اچھے ہوتے تو دن کے اجالے میں دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوتے۔ رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر نہیں۔۔۔ پو پھٹ چکی تھی اور ہوا ساکت ہوئی تو خاموشی نے فضا اور انسانی ماحول کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.