اوٹ پٹانگ کہانیاں
(قدیم و جدید)
لقدکان فی قصصھم عبرۃ لاولی الباب
(شک نہیں کہ ان قصوں میں عقل والوں کے لیے بڑی عبرت ہے)
دیباچہ
لکھ قلم پہلے حمداس رب کی
امابعد! واضح ہوکہ پرانے زمانے میں بچوں کواورنئے زمانے میں نوجوانوں کو کہانیاں کہنے، سننے، پڑھنے بلکہ لکھنے کابڑا شوق ہوتاہے۔ اس واسطے فقیر نے اس مضمون میں ایسی ایسی کہانیاں جمع کی ہیں کہ کہانی کی کہانی ہے اور نصیحت کی نصیحت تاکہ پرانے زمانے کے بچے جو اب بوڑھے ہوچکے ہیں، اپنا بچپن یادکریں اورنئے زمانے کے نوجوان اپنے بڑھاپے سے آگاہ رہیں۔ جہاں تک کہانی کے بارے میں فقیرکاتعلق ہے، کہانی ہردورمیں اپنے آپ کونئے قالب میں دہراتی ہے۔ صرف عنوانات، ماحول اورکردار بدلتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ ذیل کے مضمون سے بہ آسانی ہوجائے گا۔ کہنے کو یہ کہانیاں اوٹ پٹانگ کہانیاں ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاوی الباب(ترجمہ۔ شک نہیں کہ ان قصوں میں عقل والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔)
فقیرمصنف ابراہیم جلیس مرحوم
حکایت نمبر۱
ایک گدھااورایک بن مانس دونوں آپس میں بیٹھے ہوئے خدا کی ناشکری کررہے تھے۔ گدھے کویہ شکایت تھی کہ ہائے میرے سینگ نہیں ہیں اوربن مانس اس سے ناخوش تھا کہ افسوس میں دم سے محروم ہوں۔ چھھوندر یہ باتیں سن کربولی، چپ رہوکمبختو! کفرمت بکو۔ مجھ کودیکھو۔ سینگ اور دم کے علاوہ میری توآنکھیں بھی نہیں ہیں۔
حاصل۔ خدانے ہم کوجس حال میں رکھاہے قابل شکر ہے۔ حریص خوش نہیں رہ سکتا۔
حکایت نمبرایضاً
پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کے تین اراکین بیٹھے ایک دن خدا کی ناشکری کررہے تھے۔ ایک سیاسی جماعت کے رکن کویہ شکایت تھی کہ
ہائے میرے سرپرکوئی سینگ (لیڈرشپ) نہیں ہے۔
دوسری سیاسی جماعت کا رکن اس سے ناخوش تھا کہ افسوس میں دم (پیچھے چلنے والے عوام) سے محروم ہوں۔
تیسری سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ نے یہ سن کر کہا، چپ رہوکمبختو! کفرمت بکو۔ مجھ کودیکھو کہ میں سینگ اوردم کے علاوہ آنکھوں سے بھی محروم ہوں۔
حاصل۔ مسلم لیگ نے ہمیں جس حال میں رکھا ہے قابل شکرہے۔ مسلم لیگ کے تحت کوئی انسان خوش نہیں رہ سکتا۔
حکایت نمبر ۲
ایک مچھرجاڑے کے دنوں میں بھوک کے مارے نیم جاں ہوکر شہد کی مکھیوں کے پاس بھیک مانگنے گیا اوربہت عاجزی کے ساتھ عرض کیاکہ میرے کھانے اور رہنے کا بندوبست کردو تومیں تمہارے بچوں کوگانا اورموسیقی کی تعلیم دوں، اس واسطے کہ مجھ کوفن موسیقی میں کمال حاصل ہے۔
شہدکی مکھی کے باپ نے جوا ب دیا کہ ہمارے بچوں کومعاف رکھیے۔ ہم ان کو اپنا ہی ہنرسکھائیں گے۔ ہمارے بچے گاناسیکھ کرایسی کون سی کمائی کرلیں گے جبکہ آپ جیسا کامل فن بھیک مانگتا پھرتاہے۔
حاصل۔ وہ ہنر جس سے روزی کمائی جائے، ہزارگانوں سے بہترہے۔
حکایت نمبرایضاً
ایک پاکستانی ادیب مفلسی سے نیم جاں ہوکرایک سرمایہ دارکے پاس گیا اوربہت خودداری کے ساتھ عرض کیا کہ میرے کھانے اوررہنے کا بندوبست کردوتو اس کے عوض میں تمہارے بچوں کوترقی پسندافسانے اورنظمیں لکھناسکھاؤں گا، اس واسطے کہ مجھ کوعلم وفن میں کمال حاصل ہے۔
سرمایہ دار نے جواب دیا، ’’ہمارے بچوں کوتومعاف رکھئے۔ ہم ان کو اپناہنریعنی بلیک مارکیٹنگ ہی سکھائیں گے۔ بچے افسانہ نگار اورشاعربن کرایسی کون سی کمائی کرلیں گے جبکہ آپ جیسا عالم اورکامل فن بھیک مانگتا پھرتاہے۔
حاصل۔ پاکستان کوعلمی وفنی اداروں سے زیادہ چوربازار کی ضرورت ہے۔
حکایت نمبر۳
ایک پیرمرداوراس کا بیٹادونوں سفر میں تھے اورایک ٹٹو بھی ساتھ میں تھا۔ ٹٹوپر اوڑھنابچھونا لادے دونوں باپ بیٹے پیدل چلتے گئے۔ لوگوں نے دیکھا اورکہا، دیکھو یہ دونوں کیسے احمق ہیں۔ ٹٹوکورکھتے ہوئے خودتکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ سن کر پیر مردٹٹو پر سوارہوگیا۔ تب لوگوں نے کہا، دیکھو اس بے رحم باپ کو۔ آپ تو مزے سے ٹٹو پر سوار ہے اوربیٹا پاؤں پاؤں پیچھے گھسٹتاچلاآتاہے۔ تب مردٹٹو پرسے اترپڑااوربیٹے کوسوارکرادیا۔ پھربھی لوگوں نے کہا، دیکھو بے ادب اولاد کو۔ بڈھا باپ توپاؤں پاؤں اورخودبے حیاہٹاکٹا جوان سوار۔ تب بڈھا ٹٹوپرآگے سوار ہوا اوربیٹے کوپیچھے بٹھالیا۔ تب بھی لوگوں نے کہاکہ معلوم ہوتاہے ٹٹومانگے کاہے۔ اسباب کے علاوہ دوآدمی لدلیے۔ ان کوکچھ ترس نہیں آتا۔
حاصل۔ تمام دنیا کوخوش کرنا محال ہے۔
حکایت نمبرایضاً
ایک وزیراورایک سرمایہ دار دونوں سفر کررہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک ’’عوام‘‘ بھی تھا جس کووہ ہانکے لیے جارہے تھے۔ غیرملکی سرمایہ دار حکومتوں نے انہیں دیکھا اورکہا، دیکھو، یہ دونوں کیسے احمق ہیں۔ عوام کورکھتے ہوئے خودتکلیف اٹھارہے ہیں۔
یہ سن کر وزیرعوام پرسوار ہولیا۔ تب لوگوں نے کہا، دیکھوبے رحم وزیرکو۔ آپ تومزے سے عوام پرسوار ہے اور سرمایہ دار جس کی وجہ سے اس کی وزارت قائم ہے، پاؤں پاؤں گھسٹ رہاہے۔ تب وزیرعوام پرسے اترا اورسرمایہ دار کو سوارکرادیا، پھربھی غیرملکی سرمایہ دار حکومتوں نے کہا، دیکھو اس بے ادب سرمایہ دار کوجووزیر اسے سرمایہ، الاٹمنٹ، لائسنس، پرمٹ وغیرہ دلاتاہے، وہ توپاؤ ں پاؤں ہے اورخودبے حیاہٹاکٹا عوام پرسوارہے۔
تب وزیرعوام پرآگے سوار ہوااورسرمایہ دار کوپیچھے بٹھالیا۔ تب عوام بے چارا بوجھ سے تلملاکرچیخا، یہ کیا انصاف ہے۔ تم دونوں مجھ پرلد گئے ہو۔ کیاتمہیں مجھ پرکوئی ترس نہیں آتا۔
حاصل۔ ہرجمہوری حکومت بشمول پاکستان تعمیری نکتہ چینی کودعوت دیتی ہے اورتخریبی نکتہ چینی کوجیل میں بند کرتی ہے یا اس پرسوار ہوجاتی ہے۔
حکایت نمبر۴
ایک بھیڑیے کے گلے میں اتفا ق سے ہڈی اٹک گئی۔ ہرچندکھانسا اوربہتیری ابکائیاں لیں مگر ہڈی نہ نکلی۔ مجبورہوکر سارس کے پاس گیا اورکہا یار، ہم تم دونوں ایک جنگل میں رہتے ہیں، اس وقت حق ہمسایہ ادا کرو۔ میرے حلق میں ہڈی اٹک گئی ہے اورجان پر بنی ہے۔ مہربانی کرکے اپنی لمبی گردن سے ذرا اس کونکال دو۔ اوریہ کام میں تم سے مفت بھی نہیں چاہتا۔ جوتم کہوگے سودوں گا۔ سارس راضی ہوگیااوربھیڑیے کے حلق میں اپنی لمبی گردن ڈال کرہڈی کوکھٹ سے باہرنکال دیا۔
چندروزبعد بھیڑیاگورخرشکارکرکے لایا اوردریاکے کنارے بیٹھ کرکھانے لگا۔ سارس نے دیکھا اور بڑی خوشامد سے پاس جاکرکہا کہ آج میں بھوکاہوں۔ گوشت کا ایک ٹکرا مجھے دو۔ بھیڑیے نے تامل کیا۔ سارس نے دبی زبان سے ہڈی کونکالنا یاد دلایا تو بھیڑیے نے کہا، ’’اے احمق یہ انعام کیاکم تھا کہ تومیرے حلق سے گردن صحیح سلامت نکال کرلے گیا۔‘‘
حاصل۔ ظالم اورموذی آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس سے بہتری کی امیدرکھنا نادانی ہے۔ دنیا کے لوگ احسان کوجلدی بھول جاتے ہیں۔
حکایت نمبرایضاً
ایک مسلم لیگی امیدوار عام انتخابات میں کھڑا ہوگیا۔ ہرچند کوشش کی، بہتیراروپیہ خرچ کیا مگرکامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تومجبوراً وہ عوام کے پاس گیا اور گڑگڑاتے ہوئے بولا، یار اب تک میں نے جوتم پرظلم کیا ہے، تم سے جوبے رخی برتی ہے اس کوآخری بارمعاف کردو۔ آئندہ کبھی ایسا نہ ہوگا۔ میری جان پربنی ہے۔ انتخاب کا ٹکٹ حلق میں اٹک گیاہے۔ مہربانی کرکے تم مجھے ان انتخابات میں کامیاب کرادو۔ یہ کا م میں تم سے مفت بھی نہیں چاہتا۔ وزیر بنتے ہی تم جوکچھ مانگوگے وہ دو ں گا۔
عوام راضی ہوگیااوراتنے ووٹ دیے کہ مسلم لیگی امیدوار کامیاب بھی ہوا اوروزیربھی بنا۔ اس کے بعد عوام وزیرکے پاس پہنچا اوربولا، اب حسب وعدہ ہمیں مکان بنوادیجئے۔ روزگار دلائیے۔ کچھ نقدرقم دیجئے وغیرہ۔
وزیرنے تامل کیاتوعوام نے دبی زبان سے اس کوانتخابات میں کامیاب کرانے کاواقعہ یاددلایا تو وزیر کو بڑا غصہ آیااور اس نے پولیس کوبلواکرعوام کوجیل بھیج دیا۔
حاصل۔ مسلم لیگی وزیرخوداستعفی نہیں دیتے بلکہ انہیں ڈسمس کرناپڑتاہے۔
حکایت نمبر ۵
ایک کوا اخروٹ کوچونچ سے توڑرہاتھا مگراخروٹ پرکچھ اثر نہیں ہوتاتھا۔ گلہری نے دیکھا اورکوے سے کہا، کیو ں اتنی زحمت اٹھاتاہے۔ میں تجھے آسان تدبیربتاؤں۔ اخروٹ بڑی دورہوامیں لے جا کرکسی بڑی چٹان پرپٹخ دے۔ گرنے کے صدمے سے وہ پاش پا ش ہوجائے گا۔ کوے نے ایسا ہی کیا لیکن نیچے اترکردیکھتاہے کہ واقعی میں اخروٹ توپاش پاش ہوگیا مگرمغز گلہری لے کرچلی گئی، صرف چھلکے چھوڑگئی ہے۔
حاصل۔ خود غر ض آدمی جوصلاح دیتاہے اس میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور سوچ لیتاہے۔
حکایت نمبر ایضاً
ایک ایشیائی ملک میں سخت قحط پڑا۔ وہاں کے قحط زدہ باشندوں کوغذائی امداد دینے کے لیے امریکہ کا ایک زرعی مشن اس ایشیائی ملک میں پہنچا۔ زرعی مشن کے اراکین نے ایک کھیت میں ایشیائی کسا ن کودیکھا کہ وہ پرانی وضع کے ہل سے زمین کی کاشت کررہا ہے۔ امریکی زرعی مشن کے اراکین نے ایشیائی کسان سے کہا، کیوں اتنی تکلیف اٹھاتاہے۔ میں تجھے آسان ترکیب بتاؤں۔ یہ لے ٹریکٹر اور چلا اسے کھیت میں۔ اتنے میں ہم یہاں ٹیوب ویل کھودتے ہیں۔
ایشیائی کسان خوش ہوا۔ فصل بھر ٹریکٹر چلاتارہا۔ جب فصل کاٹنے کا وقت آیا تو اس نے دیکھاکہ اناج ساراغائب ہے، صرف ٹریکٹر باقی رہ گیاہے۔
حاصل۔ امریکہ ایشیائی قوموں کو جومدد دیتاہے، اس میں اپناکچھ نہ کچھ فائدہ ضرور سوچ لیتاہے۔
حکایت نمبر۶
ایک شیر ایک بیل کے پیچھے دوڑا۔ بیل بدحواسی کی حالت میں ایک گڈریے کے گھرگھسنے لگا۔ گڈریے کی بکری نے بیل کوروکا۔ بیل نے کہا، توبڑی بے رحم ہے۔ میں جان بچانے کوتیرے پاس پناہ لینے آیاہوں اورتوروکتی ہے۔ بکری نے کہا، رحم کروں تو اپنی جان پرآفت لاؤں، اوراگر اپنے تئیں بچاؤں تو بے رحم کہلاؤں۔
حاصل۔ ہم کولوگوں کی رعایت کرنی چاہئے لیکن ایسی نہیں کہ اپنا نقصان کریں۔ اول خویش بعدہ درویش۔
حکایت نمبرایضاً
تحریک ختم نبوت کے ہنگاموں کے سلسلے میں جب پاکستان میں پکڑدھکڑ شروع ہوئی تو اس وقت ایک پولیس کا سپاہی ایک داڑھی والے کے پیچھے دوڑا۔ داڑھی والا بدحواسی کے عالم میں مونچھوں والے کے گھرمیں گھسنے لگا۔ مونچھوں والے نے اسے روکا تواسے داڑھی والے نے کہا، توبڑا بے رحم ہے۔ کافربھی معلوم ہوتاہے۔ میں جان اور ڈاڑھی بچانے تیرے پاس پناہ لینے آیاہوں اور تو روکتا ہے۔ لعنت ہے تجھ پر۔
مونچھوں والے نے کہا، میاں یہ تو ہوہی رہاہے۔ کرتا ہے داڑھی والاپکڑا جاتا ہے مونچھوں والا۔ اگر رحم کروں تواپنی جان پرآفت لاؤں اور اپنے تئیں بچاؤں توکافر کہلاؤں۔ یہ بھی خوب رہی ماشاء اللہ کیا تم نے نہیں سناکہ سکھرمیں مارشل لا لگا ہواہے۔
حاصل۔ ہم کوپولیس کے نرغے سے بچنے والے سیاسی معززین کوپناہ دینی چاہئے لیکن اس وقت نہیں جب کہ ملک میں مارشل لا لگاہواہو۔
حکایت نمبر۷
ایک بلی نے شیرنی پرطعنہ کسا کہ تومیری برابری کیاکرے گی۔ میں ایک جھول میں دس بچے دیتی ہوں اور توصرف ایک۔ شیرنی نے جواب دیا، ہاں! مگر میرا بچہ بڑ ا ہوکر شیرہوتاہے۔
حاصل۔ ایک لائق بیٹا اچھا اوردس نالائق کچھ نہیں۔
حکایت نمبرایضاً
ایک غریب عورت نے شہر کے میئر کی بیوی پر طعنہ کسا، اری تومیری برابری کیاکرے گی۔ بڑی آئی میئر کی بیوی۔ میں دس سال میں دس بچے قوم کودیتی ہوں اورتودس سال میں صرف ایک۔ توکیاقوم کی خدمت کرتی ہے؟ میئرکی بیوی نے کہا، تیرے دس رونی صورت بچوں سے میراایک بچہ اچھا ہے۔ وہ بڑا ہوکر میئربنتاہے۔ غریب کی بیوی نے کہا، میئربننے سے کیاہوا۔ قوم کی خدمت کہاں ہوئی؟ میئرکی بیوی نے کہا، میں کیوں قوم کی خدمت کروں جبکہ قوم میری خدمت کرتی ہے؟
غریب کی بیوی لاجواب ہوگئی اور بولی، بہن توسچ کہتی ہے۔
حاصل۔ (لاحاصل) غریب کی بیوی یہ کہہ کر دھاڑیں مارمار کر رونے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.