Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اوریگان

MORE BYمحمد حامد سراج

    مدقوق چہرہ لیے علی احمد میرے سامنے بیٹھا ہولے ہولے کھانس رہا تھا۔ اس کی کہنیاں میز پر ٹکی تھیں۔ چہرہ بنجر ہاتھوں میں دھرا تھا اور ہڈیوں کے پیالے میں دو خشک آنکھیں رکھی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیوں کی شکل میں چھوٹی چھوٹی قبریں اگ آئی تھیں۔ ان میں اس کا ماضی مدفون تھا۔ صعوبت اور عسرت کے جانگسل مراحل کا استعارہ میرے سامنے تھا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ پپڑیوں کے گورستان میں مدفون یادوں کا پتہ لگاتا۔ ابھی وہ میرے سامنے ہڈیوں کے پیالے میں دو آنکھیں رکھے زندہ تھا۔

    سالمیہ کے ساحلی ہوٹل میں ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے سمندر میں جھلملاتی روشنیاں دیکھ رہے تھے۔ بائیں ہاتھ کی میز پر تین لبنانی لڑکیاں ماحول میں اپنی ہنسی کے کنکر پھینک رہی تھیں۔ ان کی کھنک سے خاموش فضا میں پل بھر کو پھلجھڑیاں چھوٹتیں اور وہ پھر اپنے سامنے رکھے مشروبات sip کرنے لگتیں۔ باوردی فلپائنی پستہ قد لڑکیاں میزوں پر انواع واقسام کے کھانے اور مشروبات چن رہی تھیں۔ ان کی شرٹ کی داہنی جیب پر پہچان کے لیے ان کے ناموں کی چھوٹی چھوٹی تختیاں آویزاں تھیں۔ اس طرح انہیں پکارنے میں آسانی رہتی تھی۔ ملگجے اندھیرے میں موسیقی کے دھیمے سر تھے۔ ماحول پرکیف اور سرور آگیں تھا۔ علی احمد ہر رنگ سے لاتعلق کہیں اور کھویا ہوا تھا۔ اس کی بے نور آنکھوں میں کئی کہانیاں پنہاں تھیں۔ ملائم مسکراہٹ کا میک اپ کیے فلپائنی لڑکی ہمارے سامنے کھانا چن گئی۔ وہ آہستہ آہستہ کھانا کھاتا رہا اور دھیرے دھیرے اندھیرے میں گھلتا رہا۔

    علی احمد! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آخری بار جب ہم کویت سٹی کی سوق الوطنیہ میں ملے تھے تو تم سرسبزوشاداب تھے۔۔۔ بولو گے بھی یا۔۔۔؟

    کیا بولوں۔۔۔؟ میرے چہرے پر تمہیں کوئی تحریر نظر نہیں آ رہی۔۔۔؟

    چہرے سے کرب کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے۔۔۔ تحریریں کہیں نیچے گہرے پانیوں میں رہتی ہیں۔۔۔ اور ہر انسان تیراک نہیں ہوتا۔

    ٹھیک کہتے ہو تم۔ بس یار۔۔۔ اجڑ گئے۔۔۔ عتیقہ کو مراق اور دق نے گھیر لیا۔

    کیسے۔۔۔؟

    اس کیسے کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ دیکھ اس کی یادیں میرے ہونٹوں میں مدفون ہیں۔ میں ہر وقت ہونٹوں کے مرقد پر دعا کے چراغ روشن رکھتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم شعلہ سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ چھوڑ، ان باتوں کو۔۔۔ آ کھانا کھائیں۔ میری کہانی بھی انہیں جیسی ہے جو ڈالر اور دینار کے لیے اپنی دھرتی چھوڑ آئے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں۔

    علی احمد، میں تمہیں کرید نہیں رہا۔ مجھے تمہاری کتھا نہیں سننی۔ میں تمہاری کھنڈر آنکھیں اور ویران چہرہ دیکھ کر پریشان ہو رہا ہوں۔ سڑک پار کرتے ہوئے مجھے تمہیں پہچاننے میں تھوڑی دیر لگی۔ میں ایک دفعہ اسی سڑک سے گزر رہا تھا کہ مجھے شاہد مل گیا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ وہ ایک نجی ادارے سے اپنی پانچ دن کی تنخواہ لینے آیا ہوا تھا۔ وہ بیروزگار اور بھوکا تھا۔ بھوک اور بیروزگاری نے اس کے خواب ریزہ ریزہ کر دیے تھے۔ اس نے کہا تھا، پانچ دن کی تنخواہ سے پیٹ بھر کے روٹی کھائےگا۔ اسی میز پر وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ سوزن serve کرتی رہی۔۔۔ آج تم میرے سامنے ہو۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے، کل میں کسی کے سامنے بیٹھا اپنی بپتا۔۔۔؟

    نہیں، ایسے نہیں ہوگا۔ میں بیروزگار ہوں نہ کہیں میرے اندر بھوک ہے۔ میرے اندر ایسے عذاب ہیں جنہیں میں نے خود کاشت کیا ہے۔ میں جس دن اپنی دھرتی چھوڑ کر کویت پہنچا، میرے من میں صرف خواب تھے۔ میری سوچ تھی کہ پیسہ کما کر خواب خریدے جا سکتے ہیں۔ میرے اندر خوابوں کا میلہ لگا تھا۔ ان میں ایک خواب میں نے الگ سجا رکھا تھا۔ وہ تھا خوبصورت بیوی اور اپنے گھر کا خواب۔ گریجوایٹ ہونے کے باوجود میں نے کویتی سنگاپوری کمپنی میں ایک واٹر ٹینکر ڈرائیور کی ڈیوٹی اس لیے سنبھالی کہ تنخواہ معقول تھی اور over time زیادہ تھا۔ ہر مہینے دینار گن کر جب انہیں پاکستانی کرنسی سے multiply کرتا تو میرے سارے خوابوں میں رنگ بھر جاتے۔ وہ آسٹریلوی پرندوں کی طرح میرے من کی دنیا میں چہچہاتے۔ ہر مہینے نئے پرندے میرے اندر بسیرا کرتے۔ میں رقم پس انداز کرکے پاکستان گھر بنانے کی بجائے یہیں اپنا کاروبار settle کرنے کا سوچنے لگا۔ جوں جوں دیناروں کے رنگین پرندے پنجرے میں زیادہ ہونے لگے، میں باہر کی دنیا کو بھولنے لگا۔ دھرتی کی حسرت اور رشتہ داروں کے چہرے مدھم پڑتے گئے۔ یہی زندگی تھی جو تم دیکھ رہے ہو۔ جسے دیکھنے کا خواب وہ ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔ جنہوں نے اس چٹیل صحرا کو نہیں دیکھا۔ میں نے ذہن سے اپنی دھرتی کو صاف کر دیا اور اس کی جگہ وہ خواب سجا لیے جو میرے نہیں تھے۔ میں یہیں کا ہو رہا۔ ماں کا اصرار تھا، وطن لوٹ کر شادی کر لوں۔ میرا سرے سے لَوٹنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ میں مکڑی کے جالے میں پھنس چکا تھا۔ ماں نے ایک لڑکی پسند کر کے مجھے خط لکھا۔ لڑکی انگریزی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری ہولڈر اور ایم۔ فل تھی۔ ماں نے وہ تمام تعریفیں جو کسی بھی ضرورت رشتہ کے اشتہار میں ہوتی ہیں، مجھے لکھ بھیجیں۔ نکاح فون پر ہوا۔ اور ایک دن سرخ گٹھڑی رات گیارہ بجے والی فلائٹ سے پہنچ گئی۔ میں نے چند خاندانوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ سمندر کنارے SAS Hotel میں تقریب ہوئی اور میں اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا۔ وہ میرے ان خوابوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی جو میں نے برسوں سے الگ کر رکھے تھے۔ Wedding Night میں سب سے اہم بات جو میں نے کہی وہ یہ تھی کہ تم کبھی پاکستان نہیں جاؤگی۔ اس کی خاموشی کو حق مہر کی طرح میں نے رضامندی سمجھا۔ دوسرے روز اسے پورے کویت کی سیر کرائی۔ جہراء سے لے کر مینا السعود تک اسے گھمایا۔ وہ خوش تھی لیکن ایک بات میں محسوس کر رہا تھا کہ لمبی چوڑی کاریں، عظیم الشان مارکیٹوں میں چکا چوند روشنیاں دیکھ کر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ خاموش تھی، میں یہی سمجھا، نئی آئی ہے آہستہ آہستہ مانوس ہو جائےگی۔ زندگی نئی ڈگر پر چل نکلی۔ میں اسے ماہانہ اخراجات کے لیے ایک معقول رقم دیتا تا کہ وہ ہر وقت مجھ سے مانگنے کی کوفت سے بچی رہے۔ اسے مطالعہ کا بے پناہ شوق تھا۔ ایک دن اس نے مجھ سے پچاس دینار مانگے۔ میرے ذہن کے calculator نے فوراً کرنسی multiply کی۔ چونک کر پوچھا، اتنی رقم۔۔۔؟ کہنے لگی، کتابیں لینی ہیں۔ میں نے رقم اسے دے دی۔ اگلے روز وہ اردو، انگریزی کے ناول اور نفسیات پر چند کتابیں لے آئی۔ سوچا گھر میں اکیلے پن سے اسے اکتاہٹ ہوتی ہوگی۔ چلو اس طرح دل لگا رہےگا۔

    میں نے اتنی رقم پس انداز کر لی تھی کہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکوں۔ انہی دنوں ایک مصری کے اشتراک سے میں بجلی کی دکان کھولنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ عتیقہ سے مشورہ کیا تو اس نے کہا، ’’کاروبار اچھی بات ہے، لیکن پہلے پاکستان میں اپنا گھر بنا لیا جائے‘‘۔ میں پاکستان لوٹنا نہیں چاہتا تھا۔ عتیقہ کی بات کو میں نے کارنر میں رکھ دیا اور دکان کھول لی۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ قیمتی پردے، کارپٹ، ڈیکوریشن نفیس اور عمدہ، ہر کمرے میں ایئر کنڈیشنر، مہنگی کراکری، دنیا جہان کی نعمتیں اور سہولتیں موجود تھیں۔ عتیقہ کی موجودگی سے گھر میں ایک خوش کن مہک اور خوشبو تھی۔ وہ کھانے کمال کے بناتی تھی۔ سلیقہ اس پر بس تھا۔ لیکن اس کی کم گوئی مجھے کھلتی تھی۔

    پہلے بیٹے کی پیدائش پر اس نے مجھ سے پاکستان جانے کی اجازت مانگی۔ میں نے درشتگی سے کہا، یہ طے ہے کہ تم پاکستان کبھی نہیں جاؤگی۔ اس نے چپ سادھ لی۔ میں اپنی دنیا میں کھویا رہا، پیسہ کمانے کی لت مجھے ہیروئن کے طرح لگ گئی۔ میرے معمولات میں رات دیر سے گھر آنا بھی شامل تھا۔ شروع شروع میں وہ پوچھ لیا کرتی تھی، پھر اس نے پوچھنا بھی چھوڑ دیا۔ وہ زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزارتی۔ ایک روز میں رات گئے لوٹا تو وہ مطالعہ کر رہی تھی۔ میں سونے کے لیے لیٹنے لگا تو اس نے کہا، مجھے آپ سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔ میں تھکن سے چور تھا۔ اسے صبح تک ٹالنا چاہا، لیکن وہ چائے بنا لائی۔ میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ اس کا اصرار تھا کہ میں جاگتا رہوں۔۔۔ کہنے لگی۔

    علی احمد۔۔۔ آپ مجھے اس رنگین پنجرے میں قید کرنے کے لیے پاکستان سے لائے تھے۔ شرائط میں تو کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ عمر بھر مقید رہنا ہوگا۔ میں Realize کرتی ہوں کہ خاوند کا گھر عورت کی آخری پناہ گاہ ہے لیکن یہ زمین ہماری نہیں ہے۔۔۔ یہ بنجر ہے، ہم یہاں کاشت نہیں ہو سکتے۔ ضروری نہیں کہ پیوند کاری بار آور ہو۔ تم نے کبھی میری بنجر اور اجاڑ روح کے دالانوں میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ نہیں کی۔۔۔! مجھے ماں یاد آتی ہے۔۔۔ بہن بھائی۔۔۔ ابو۔۔۔ تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ میں روز مینار پاکستان جاتی ہوں۔۔۔ شالامار باغ اور مقبرہ جہانگیر کی سیر کرتی ہوں، راوی کے پل سے گزرتی بھینسیں مجھے کچل دیتی ہیں۔ میرا قیمہ ہو جاتا ہے۔ بوٹی بوٹی ہوجاتی ہوں۔ میں ساری رات کی کچلی صبح پھر سلامت ہوتی ہوں۔ میں عذابِ مسلسل میں گرفتار ہوں۔ تم مجھے آزاد نہیں کر سکتے؟

    پہلی بار میں نے دیکھا کہ وہ روبھی سکتی ہے۔ مجھے اس کا رونا اور بولنا اچھا لگا۔ لیکن میں نے اسے پاکستان جانے کی اجازت نہ دی۔ ایک دن کہنے لگی، ’’مجھے اس حکیم سے ملنا ہے جو ہندوستان سے آیا ہے۔ ‘‘

    اس ملک میں کوئی حکیم نہیں۔

    منوج کی بیوی سیتا آئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی کہ ایک کویتی علاج کے سلسلے میں ہندوستان گیا تھا۔ وہ شفایاب ہو کر لوٹا تو اس نے حکومت سے اجازت لے کر حکیم کو مطب کھلوا دیاہے۔

    لیکن تمہیں اس سے کیا لینا۔؟

    ایک جڑی بوٹی۔

    جڑی بوٹی کا نام مجھے بتاؤ، میں لا دوں گا۔

    نہیں۔ تم نہیں لا سکو گے۔ تمہیں اتنی فرصت ہی کہاں ہے۔ ویسے بھی معمولی سی جڑی بوٹی ہے، مل ہی جائےگی۔۔۔ ماں روز گھر میں اس سے چٹنی بنایا کرتی تھی۔ ہمارے صحن میں ریحان کے کتنے ہی پودے تھے۔ میں ننھی ننھی پتیاں توڑ کے لاتی، انہیں دھو کر دوری میں ڈالتی، کوٹتی۔۔۔ تھوڑا اناردانہ، ایک مرچ اور پودینہ۔

    میں قہقہہ مار کے ہنسا۔۔۔ یہ تمہاری چٹنی میں ریحان ہی کیوں۔۔۔؟ پودینہ اور اناردانہ کیوں نہیں؟

    علی احمد۔۔۔ تم نہیں سمجھو گے۔ تمہاری حسیات منجمد ہو گئی ہیں۔ میرے آنے سے تمہارے حصے کے خواب پورے ہو گئے لیکن میرے خواب۔۔۔؟

    میں انہیں کہاں تلاش کروں۔۔۔؟

    دو سال کی تو بات تھی۔ میں ڈاکٹریٹ کر لیتی۔ ماں نے دولت دیکھ کر مجھے جہنم میں دھکیل دیا۔

    یہ جہنم ہے۔۔۔؟

    تو اور کیا ہے۔۔۔؟ چھوٹی سی خواہش کی ہے کہ ریحان لا دو۔۔۔ تم طنز کر رہے ہو۔ تمہاری تنگ کھوپڑی میں مرجھایا ہوا دماغ یہ سوال بھی کرے گا کہ ڈاکٹریٹ اور چٹنی کا کیا Combination ہے۔۔۔؟ تمہیں پاکستان سے نفرت ہے اور یہ سرزمین تمہاری نہیں۔ تم فضا میں معلق ہو۔ علی احمد، میں نے گھر کا خواب ضرور دیکھا تھا، لیکن ایسے گھر کا نہیں جس میں روبوٹ رہتے ہوں۔۔۔ تم ایک مشین ہو، صرف مشین۔ میں پاکستان جاؤں گی۔۔۔ ضرور جاؤں گی، تم مجھے روکنا چاہو گے، لیکن نہیں روک سکوگے۔

    میری کھوپڑی میں دماغ ابلنے لگا۔ پاکستان میں تمہارے پاس کیا تھا۔۔۔؟ دوکمروں پر مشتمل ڈربہ جس میں تم اپنے آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ کڑکتی رہتی تھیں۔۔۔ ایسا گھر۔۔۔ یہ سہولتیں، لمبی لمبی کاریں۔۔۔ تم شکر نہیں کرتیں۔

    علی احمد۔۔۔ میں نعمتوں کو نہیں ٹھکرا رہی۔۔۔ مجھے تم سے گلہ ہے تم نے مجھے وقت دیا؟ توجہ دی؟ گھر میں سہولیات ہیں، لیکن تم تو نہیں ہو۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ تم لوٹ آؤ، تو شاید پاکستان نہ لوٹنے کا غم کچھ کم ہو جائے۔ تم گھر نہیں رہتے، میرے دل میں نہیں رہتے، جانے کہاں رہتے ہو۔۔۔؟ مجھے کتاب کا سہارا نہ ہوتا تو جانے کب کی مر گئی ہوتی۔ تم نے مجھ سے میرے وطن کی خوشبو چھین لی ہے۔ یہ بھی تمہارا احسان ہے کہ مجھ سے کتاب نہیں چھینی۔ اپنی دھرتی کے وہ سارے شہر مجھے یاد آتے ہیں جن کی خوشبو میرے من میں بسی ہے۔ میری صحت دن بدن گر رہی ہے۔ مراق کے دورے زیادہ ہو رہے ہیں۔ دق نے الگ دق کر رکھا ہے۔ مجھے علاج کی نہیں تمہاری ضرورت ہے۔ تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ میں نے ریحان کے پتے اور بیج صرف اس لیے کہے تھے کہ ان میں میری ماں اور وطن کی خوشبو ہے۔۔۔ سبیتا بتا رہی تھی کہ اسے ہندی میں تلسی کہتے ہیں۔ تلسی آنگن میں محبت اور خوشبو کی علامت ہے۔ وہاں ہر آنگن اس سے مہکتا ہے۔ اس کی خوشبو سے بچے پروان چڑھتے ہیں۔۔۔ اس کا کوئی سا نام ہو۔۔۔ تلسی عورت ہے۔۔۔ اور عورت تلسی۔۔۔ یہ وفا کی علامت ہے۔

    تمہارا بھی تو یہ گھر ہے۔

    نہیں، یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میرا گھر وہیں تھا جہاں ماں کی مٹھاس اور بابا کی چھاؤں تھی۔ وہاں میرے آنگن میں تلسی کے کتنے ننھے ننھے سے پودے تھے۔۔۔ علی احمد، مجھے لگتا ہے میں بھی تلسی ہوں، تم نے مجھے پاکستان سے اکھاڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مجھے یہ مٹی راس نہیں آئی۔ میں مرجھا گئی ہوں۔ مجھے میری جڑوں سمیت لوٹا دو، شاید میں جی اٹھوں۔

    پاگل عورت۔۔۔ سو جا، بہت رات ہو گئی۔ صبح کام پر جانا ہے۔

    نیند نہیں آ رہی۔

    Sleeping Pills لے لو۔

    نہیں۔ اس سے بہتر ہے میں مطالعہ کرکے سو جاؤں۔

    انہی کتابوں نے تیرا دماغ خراب کیا ہے..... تم ہوائی قلعوں میں رہنے لگی ہو، حقیقی زندگی تمہیں چھو کر نہیں گزری۔ بس کرو، اب چار بچے ہو گئے ہیں۔ انہیں سنبھالو، ان کا مستقبل سنوارو۔

    عتیقہ کی ہنسی زہر آلود تھی۔ یہ چار بچے تمہارے ہیں نہ میرے۔۔۔ یہ میری دھرتی کے پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان ہیں۔ میں نے ان کی ذہنی پرورش کر دی ہے۔ یہ اپنی ماں کی گود میں چلے جائیں گے۔ انہیں جانے سے نہ روکنا، یہ غلطی تمہیں بہت مہنگی پڑےگی۔

    میں اپنے بچوں کا مستقبل کسی صورت تباہ نہیں ہونے دوں گا، وہاں کیا رکھا ہے؟ میرا پارہ چڑھ رہا تھا۔

    رات گزر گئی۔۔۔ دن گزر گئے۔۔۔ بیماری زور پکڑتی گئی۔ عتیقہ ہسپتال داخل تھی۔ مجھے منوج نے فون کیا کہ ہسپتال جلدی پہنچو۔ ایمبولینس دیکھ کر میں چکرا گیا۔ منوج نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ زمین گھوم رہی تھی۔ میرا بڑا بیٹا بوٹ کی ٹو سے زمین کرید رہا تھا۔

    ابو، امی کی Dead Body پاکستان جائےگی۔

    میرے حواس جواب دے گئے۔ مجھے تو اپنی دھرتی کا نام تک بھول گیا تھا۔ میں کسی کو بھی نہ روک سکا۔ عتیقہ نے کہا تھا، نا۔۔۔ میں پاکستان ضرور جاؤں گی، تم مجھے روکنا چاہو گے، لیکن نہیں روک سکوگے۔

    اس کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں تنہا رہ گیا ہوں۔ گھر مجھے کاٹنے لگا۔ پورے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ لگتا تھا، کسی نے پورے وجود میں سوئیاں بھر دی ہیں۔

    قہوے کے چھوٹے چھوٹے فنجان ہمارے سامنے رکھے تھے۔ ہڈیوں کے پیالے میں آنکھیں جانے کس کی تلاش میں بے چین تھیں۔۔۔ علی احمد نے مجھے کہا، رات میرے ساتھ گزارو، مجھے تنہائی سے ڈر لگتا ہے۔

    جب ہم ہوٹل سے نکلے، فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ گھر پہنچنے پر وہ سیدھا کچن میں گیا اور عربی قہوہ بنا لایا۔ دیوان خانے میں ایک شوکیس میں صرف کتابیں سجی تھیں۔۔۔ علی احمد نے کہا۔

    آؤ، میں تمہیں ایک چیز دکھاؤں۔۔۔ عتیقہ پاکستان چلی گئی، میں اسے نہ روک سکا۔ وہ خود تو چلی گئی، لیکن اپنی خوشبو اور کتابیں چھوڑ گئی۔۔۔ وہ کہا کرتی تھی، خوشبو، کتاب اور پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ انہیں کہیں بھی جانا ہو، ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کاش میں بھی خوشبو، کتاب یا پرندہ ہوتی اور اپنے دیس لوٹ جاتی۔

    ایک دن مجھے اس کی کتابیں دیکھنے کا خیال آیا۔ ایک سرسراہٹ سی ہوئی، شاید میرے نام کوئی تحریر چھوڑ گئی ہو۔ میں نے ایک کتاب اٹھائی، ورق الٹا۔۔۔ اس کے نام کے ساتھ ORIGAN لکھا تھا۔ مجھے اس لفظ کے معنی معلوم نہ تھے۔ میں نے دو تین اور کتابوں کے ورق الٹے، اس کے نام کے ساتھ یہی لفظ لکھا تھا۔ میں نے ایک ایک کرکے ساری کتابوں کے ورق الٹے۔۔۔ ہر کتاب میں ایک جیسی خوشبو تھی۔۔۔ اگلے روز میں حکیم کے پاس گیا۔

    آؤ۔۔۔ برآمدے میں چلیں۔۔۔ علی احمد نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔۔۔ برآمدے میں بے شمار گملے رکھے تھے۔ ان میں ننھے ننھے پودے کھِلے تھے۔ گملوں میں چھوٹی چھوٹی آویزاں تختیوں پر لکھا تھا:

    ORIGAN

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے