اف!! وہ ایک چہرہ لو دیتا ہوا چہرہ محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش، یہ چہرہ کیوں اس کے آگے آنے لگا تھا بار بار لگاتار کچھ پڑھتا ہوا، اس کے اندر کچھ کھوجتا ہوا یہ کہتا ہوا تم چاروں دشاؤں میں کیوں بھٹک رہی ہو، آؤ اس پانچویں سمت میں آؤ جو میرے اندر روشن ہے۔
رجنی چونکی ٹھٹھکی، سٹپٹائی، اس کو لگا وہ پل پرکھڑی ہے اور نیچے ایک ندی ہے پر شورسی، جوبہالے جائےگی، فنا کر دےگی لیکن کیا وہ اتنی آسانی سے ڈوب جائےگی، اس کے اندر ایک ننھا سا پودا تھا کسمساتا، پاؤں پسارنے کو تیار، ساری کھاد، ہوا پانی، غذا جذب کرنے کو بےقرار، بھگوان وہ پودا اگ کیوں نہیں آتا، ڈاکٹرس کہتے ہیں کہیں کچھ ہے ابھئے کے اندر کوئی کمی ہے بھلا وہ پودا اگے کسی طرح؟
’’مہاراج ہماری مراد پوری ہوگی نا‘‘۔ وہ اس کی ساس تھی، جس کے لہجے میں کچھ اس قدرالتجاتھی کہ رجنی کادل ڈوبنے لگا۔
وہ زندگی کو بھلا کس زاویے سے دیکھتی، سوچتی، سمجھتی، پرکھتی وہ اپنے اندرکے کرب وبلا، انتشار و اختلاف، بےمعنویت اور لایعنیت میں ڈوب سی گئی۔
’’اوشیہ ہری اوم‘‘ مہاراج زیرلب کچھ پڑھنے لگے، زعفرانی لباس پیشانی پر وبھوتی، گلے میں مالا، ’’اگلے اماوس کنیا کو ہمارے آشرم میں چھوڑ جانا‘‘۔ وہ بولے تورجنی کو لگا دفعتاً ہوا کا ایک زبردست جھونکا آیا ہو۔ ایک دھول سی اڑی ہواس کی آنکھوں میں کچھ کنکر سے چبھے تواسی نے فوراً اپنی آنکھیں بند کر لیں، اس کے سینے سے کئی دردناک چیخیں ابھریں، پشیمانی، بیچارگی کے گرم گرم آنسوؤں سے اس کا چہرہ بھیگنے لگا اور پھر اس نے سنا کہیں پاس آتی ہوئی بھجن کی آواز، سنگیت کی لئے بھگتوں کی جئے جئے کار، دفعتاً اس کو لگا چاروں دشائیں اس کے اندر سمٹ آئی ہوں اور پانچویں سمت، وہ سمت کہاں ہے؟ جس کی کھوج لئے وہ سدا جوگن بنی پھرتی رہی، ایک خلش سی ایک تپش سی سدا دل پہ حاوی، کوئی اضطراب کوئی بےچینی، وہ سوچتے ہوئے جانے کہاں کھو جاتی اور کھوئے ہوئے جانے کیا سوچنے لگتی، اس نے اپنا محاسبہ کیا بار بار لگاتار اپنی بےچینیوں کو سمجھنے کوشش کی، مگر سب بے سود اور ذہنی انتشار کے اس دور میں جب وہ ابھئے کی ہو گئی تو اس کو لگا جیسے وہ پانچویں سمت روشن ہو گئی ہے اور وہ بھی ابھئے کے اندر نور کی اس راہ پہ چلتے ہوئے، ابھئے کے وجودمیں مگن وہ کہیں کھوسی گئی، دل میں وہ آنکھوں میں وہ، رگ رگ میں، نس نس میں اتنا پیار، ایسا سمرپن، لیکن کہیں اندر، ایک ننھا سا پودا کسمساتا، پاؤں پسارنے کو تیار ساری کھاد، ہوا، پانی، غذا جذب کرنے کے بےقرار، وہ پودا اگ نہ سکا تو جیسے اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا اور پھر وہی خلش، وہی تپش، سدا دل پہ حاوی کوئی اضطراب، کوئی بےچینی، وہی کھوج وہی تلاش، وہ پانچویں سمت، وہ سمت کہاں ہے؟؟
پانچویں سمت کی تلاش میں چلتی ہوئی، ہر لمحہ بھٹکتی ہوئی، سوچتی ہوئی بکھرتی ہوئی اچانک وہ یہ کہاں آ گئی تھی؟ یہ آشرم، یہ حجرہ ، یہ فسوں ناک ماحول، یہ طلسماتی فضا، یہ خوشبوؤں کا آبشار اور وہ لو دیتا ہوا چہرہ محسوساتی مسکراہٹ، مقناطیسی کشش وہ شربتی آواز، وہ مدھ بھرالہجہ،۔ ’’آؤ اس پانچویں سمت میں آؤ، جومیر ے اندر روشن ہے، رجنی پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہونے لگی وہ تپش وہ حدت وہ گرم گرم حاوی ہوتی ہوئی سانسیں، وہ ریزہ ریزہ ہونے لگی، بکھرنے لگی کہ دفعتاً ہوا کا ایک زبردست جھونکا آیا کھڑکی کے پٹ کھلے، ایک دھول سی اڑی اور آنکھوں میں کچھ کنکر سے چبھے اور اس نے فوراً اپنی آنکھیں بند کر لیں اس کو لگا کہ وہ پل سے نیچے آ رہی ہے، ندی ندی میں گر رہی ہے جو پر شور سی ہے وہ بہالے جائےگی فنا کر دےگی، لیکن کیا وہ اتنی آسانی سے ڈوب جائےگی، اس نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں وہ لو دیتا ہوا چہرہ وہ تپش، وہ گرم گرم حاوی ہوتی ہوئی سانسیں، جانے کہاں سے اس کے اندر اتنی قوت آ گئی کہ اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مہاراج کے منہ پر دے مارا‘‘۔
’’یہ پاپ ہے‘‘ وہ زخمی شیرنی کی طرح دھاڑ اٹھی۔
’’نہیں دیوی‘‘ مہاراج پر جیسے کوئی اثر ہی نہ ہوا، وہی محسوساتی مسکراہٹ، وہی مقناطیسی کشش لئے بولے۔ ’’یہ پراچین کال سے چلی آ رہی پر تھا ہے جسے نیوگ کہتے ہیں، دھرم گرنتھوں میں اس کے کئی اداہرن ہیں‘‘۔
’’اپنی ہوس کو پرتھا کا نام دیتے ہو، شرم آنی چاہئے تمہیں‘‘۔ وہ اور غضبناک ہو گئی۔
’’سنتان کی پراپتی اسی صورت میں ممکن ہے دیوی‘‘ وہ دہکتا وجود پاس آنے لگا، اپنا حلقہ تنگ کرنے لگا۔
’’بکواس بند کرو، یہ اکسویں صدی ہے‘‘۔ وہ جھٹپٹانے لگی، اڑنے کو اپنے پر تولنے لگی۔
’’تم پڑھی لکھی ہو دیوی، مجھے پتہ ہے اس یگ میں اوشیہ اس پرتھا کا نام بدل گیا ہے، روپ بدل گیا ہے، مگر یہ سچ بالکل نہ بدلا کہ تم اپنے پتی سے سنتان پراپت نہیں کر سکتی اور کیا کہتے ہیں تم لوگ انگریزی میں اسے۔۔۔ ہاںDonor تمہیں ایک Donor کی ضرورت ہے‘‘ وہ بولے تو رجنی چونکی، ٹھٹھکی، سٹپٹائی ، اس کو لگا کہ وہ پ شور ندی میں گر چکی ہے، ڈوب رہی ہے، اس نے ابھرنے کی ایک آخری کوشش کی۔
’’وہ تو ایک مصنوعی طریقہ ہے لیکن تم تو ہوس کے پجاری ہو، مجھے کوئی سنتان نہیں چاہئے۔ سناتم نے وہ چینخی‘‘
’’مگر تمہارے پریوار کو تو وارث چاہئے۔ تمہاری ساس خود تمہیں ہمارے پاس لیکر آئی ہے‘‘۔ مہاراج نے پورے اطمینان سے کہا تو رجنی کو لگا جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا آیا ہو اور ساری کائنات زیرو زبر ہو گئی ہو، ساری عمارتیں، بلندیاں، آسمان چاند تارے سورج سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ بکھر گئے ہوں اور اس کے اندر کا وہ ننھا پودا کسمساتا پاؤں پسارنے کے تیار، ساری کھاد، ہوا، پانی، غذا جذب کرنے کو بےقرار وہ پودا اس زلزلے کی زدمیں یوں آیا کہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا، بکھر گیا وہ کہیں نہیں رہا۔ اف!! امیدوں کی ساری کلیاں ٹوٹ چکی تھیں، تمناؤں کے سبھی چراغ بجھ چکے تھے، نارسائی کے دکھوں کا نشتر کچھ اس قدر تیز تھاکہ وہ اس کے رگ و پے میں کہیں دورتک بہت گہرا اتر گیا، چاروں دشائیں چپ سی، خاموش سی رجنی کو لگا وہ ختم ہو چکی ہے مرچکی ہے، دفعتاً اس نے سنا کہیں دور سے آتی ہوئی بھجن کی آواز، سنگیت کی لے، بھکتوں کی جے جے کار، اس کو محسوس ہونے لگا جیسے وہ شکتی ہیے وہ دیوی ہے، جو پاپیوں کا ناش کرتی ہے اور وہ پانچویں سمت جس کی کھوج لئے وہ سداجوگن بنی پھرتی رہی تھی وہ آج خود اسی کے اندر روشن ہے!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.