Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پانی کا رنگ

ترنم ریاض

پانی کا رنگ

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    ’’یہ بے مثال ذہانت اور یہ ملکوتی حسن۔ ان دو چیزوں کا اتنا حسین امتزاج میں نے آج تک نہیں دیکھا۔‘‘ نوجوان دانشور نے اس کی آنکھوں میں بغور دیکھ کر کہا، ’’تم خود بھی ناواقف ہوگی اپنی خوبیوں سے۔ کتنا تیز ہے تمہارا Wit جانتی ہو؟ میری تحریروں کو ایک جہاں نے سراہا۔ مگر کسی خاتون نے اس انداز سے انہیں سمجھا ہی نہیں۔ یہ تمہارا لباس، یہ رنگوں کا انتخا ب، یہ شانے، یہ ہاتھ۔۔۔ تم۔۔۔ تم سب سے مختلف ہو۔ کتنی اچھی ہو تم۔ کتنی اچھی طبیعت کی مالک۔‘‘

    اور وہ مبہوت ہوکر سن رہی تھی۔ اس کی شخصیت کے سحر میں کھوئی ہوئی، ساتھ ہی حیران بھی تھی کہ آج وہ موضوع بدل کیوں نہیں رہا۔ آج سے پہلے اس نے اتنی دیر کبھی اس کی خوبصورتی کی باتیں نہیں کی تھیں۔ دو ایک جملے ضمناً کہہ کر وہ ضرور کوئی اور بات کرنے لگ جاتا تھا اور یہ ہی بات اسے پسند تھی کہ وہ ہر دوسرے شخص کی طرح اس کے حسن کے قصیدے نہیں گاتا۔ وہ حسین تو بلاشبہ بے انتہا تھی مگر اس میں دوسری کچھ خوبیاں بھی تھیں جو خود اسے اپنے حسن سے کہیں زیادہ عزیز تھیں۔

    وہ ایک نہایت محنتی اور ذہین لڑکی تھی۔ اکثر ذہین لوگ محنت کم کرتے ہیں مگر اس میں دونوں ہی باتیں برابر تھیں۔ اسے اپنی ذہانت پر فخر تھا مگر وہ اتنا حسین ہرگز نہ ہونا چاہتی تھی۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنی خوبصورتی کو اپنی ذہانت کے مقابلے میں کئی درجے کم کردیتی۔ اسے اس بات پر ہمیشہ چوٹ پہنچتی کہ لوگ اس کی محنت اور ذہانت کو بھول جاتے ہیں اور صرف اس کا حسین ہونا یاد رکھتے ہیں۔ وہ ایک انسان بھی تو ہے۔ ایک مقبول صحافی، ایک محنتی قلم کار۔ جب جب اس کا کوئی مضمون چھپتا تو مداحوں کے خطوط اور ای میلز کے ڈھیر لگ جاتے۔ ٹیلیفون بار بار بجتا۔ لو گ اس کی تحریر کو فراخ دلی سے سراہتے۔ مگر ذاتی طو رپر وہ جس کسی سے ملی، وہ اس کے بے پناہ حسن کے آگے گونگا بھی ہوگیا اور بہرا بھی۔ اپنی سب خوبیوں سے گھٹ کر وہ صرف ایک حسین لڑکی ہوجاتی۔ اور دیکھنے والا نہ اس کے فن کا قدردان رہتا نہ اس کی ذہانت کا قائل۔ اس کا اپنا وجود اس کی روح کا دشمن بن جاتا۔ اس کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا۔ اس کی سنجیدہ شخصیت کا رعب مخاطب کی حوصلہ شکنی کرتا اور پھر ہارے ہوئے عاشق اسے یکلخت نہ صرف Reject کردیتے بلکہ اس کے مخالف بھی بن جاتے۔

    اس نے خود کو ہمیشہ اپنے اصولوں کے قلعے میں سنبھال کر رکھا اور زندگی کی کئی بہاریں تنہا گزاردیں اور شاید زندگی اہلیت کے قدردان کے انتظار میں ایسے ہی گزرتی رہتی، اگر وہ اس محفل میں نہ آئی ہوتی اور یونہی بھیڑ میں اکیلی اکیلی ہوتی، اگر کوئی اس کا تعارف اس سے نہ کرواتا جس کی وہ مداح تھی۔ جس کی ہر تخلیق میں وہ ڈوب جاتی تھی۔ جس کی ہر تحریر حقیقت کی ایسی سادہ عکاس تھی کہ پیچیدگی کہیں نظر نہ آتی اور پھر بھی ذہن ہر جملے کو سوچنے پر مجبور ہوجاتا اور دماغ کے دریچے وا ہونے لگتے۔ کچھ اس طرح کہ دنیا کا ایک نیا مفہوم سمجھ میں آتا۔

    وہ تھا ایسی جادوئی طاقت رکھنے والا قلم کار۔ وہ اسے اس دور کا سب سے بڑا دانشور مانتی تھی۔ سب سے بڑا ادیب سمجھتی تھی۔ مگر اس کی کتابوں کی جلد پر چھپی اس کی تصویر کو اس نے کبھی قابل غور نہ سمجھایا ادھر اس کا دھیان ہی نہ گیا کہ اس میں ایسی کوئی بات تھی بھی نہیں۔ تنگ سی پیشانی۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔ چپٹی سی ناک۔ ناترا شیدہ داڑھی۔ ہر تخلیق کے ساتھ اس کی وہی ایک تصویر چھپا کرتی تھی۔ مگر آج اسے سامنے سے د یکھا تو۔۔۔ اپنی تخلیقات کی طرح ہی خوبصورت تھا وہ۔۔۔

    شعوری طور پر اس کی سنجیدہ شخصیت نے خود اپنے آپ سے بھی کبھی ذکر نہ کیا تھا۔ مگر آج۔۔۔ اس نے۔۔۔ سمجھ لیا کہ یہ ہی وہ سراپا ہے جسے اس نے سامنے دیکھنا چاہا تھا۔۔۔ ہمیشہ۔ وہ دراز قد تھا۔ شانے چوڑے تھے۔ ناک کچھ بڑی تو تھی مگر بیٹھی ہوئی نہ تھی اور ناک کی جسامت کو داڑھی نے تناسب دے دیا تھا۔ پیشانی چوڑی تھی مگر ٹیڑھی مانگ نکالنے کی وجہ سے اس کے آدھے ماتھے پر بال بکھرے سے رہتے تھے جو سامنے سے بہت اچھے لگتے تھے۔ آنکھیں چھوٹی نہیں تھیں بلکہ اس کے مسکرانے کاانداز ایسا تھا کہ اس وقت آنکھیں کچھ سکڑ جاتی تھیں اور آنکھوں کے گرد شا ید لکھنے پڑھنے سے ہلکے سرمئی ہالے سے تھے۔ آنکھوں میں گہرائی کے ساتھ ساتھ چمک بھی تھی اور کچھ ہلکی ہلکی شرارت بھی، جیسے اس کی تحریر میں ہوا کرتی تھی، سنجیدگی کے ساتھ ساتھ اک ذرا سی مزاحیہ یا طنزیہ چبھن بھی۔ چہرے سے ذہانت ٹپکتی تھی اور تاثرات سے متانت اور خود اعتمادی۔

    اس فہمیدہ اور بردبار چہرے کے ساتھ ہلکے سرمئی ہالوں میں گھری دو چمکتی ہوئی مگر کچھ کچھ شریر آنکھیں کچھ زیادہ میل نہ کھاتی تھیں مگر جس اپنائیت سے وہ اسے ’’ہیلو‘‘ کہتے ہوئے مسکرایا تھا، اس وقت اس کی ان آنکھوں نے بھی اپنائیت اوڑھ لی تھی جیسے کوئی رشتہ کوئی شناسائی پہلے سے ہو۔ شاید انہوں نے اسے کہیں پڑھا ہوگا۔ وہ سوچنے لگی۔۔۔ اور جواب میں وہ بھی مسکرادی اور۔۔۔ اسے۔۔۔ خیال آیا کہ وہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس کے ماتھے پر بکھرے بکھرے بالوں کو ایک طر ف سنواردے اور مٹھی بند کرکے اس لمس کو محفوظ کرلے۔ وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھتی جارہی تھی۔ فرشتوں کے اس معصوم حسن کی محویت دیکھ کر وہ بھی اسے دیکھ رہا تھا مگر اس کے چہرے کے تاثرات میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ فوراً ہی وہ بھی جیسے ہوش میں آگئی اور رسمی علیک سلیک کے بعد دوسری طرف چلی گئی۔

    پھر کچھ دن بعد اس نے جب اسے فون کرکے اپنی نئی کتاب کے اجرا میں بلایا تو وہ نہیں گئی۔ اسے اس کمزوری سے ڈرلگتا تھا جو اس کی موجودگی میں اسے اپنے اندر محسوس ہوتی تھی۔ اس کے بعد بھی وہ اسے کبھی نہ کبھی ٹیلی فون کرتا اور اس کے کام، اس کے پروفیشن کے بارے میں بات کرتا۔ کبھی گفتگو طویل ہوجاتی۔ وہ دنیا بھر کی باتیں کرتا مگر اس کے حسن کی کبھی تعریف نہ کرتا۔ اور یہ بات وہ اتنا زیادہ پسند کرتی کہ اسے اپنے اندر خوشیوں کے چشمے پھوٹتے ہوئے محسوس ہوتے۔

    جب وہ اس سے ملی تو وہ اسے اور بھی زیادہ اچھا لگا۔ سادہ سا، اپنے آپ سے بے خبرسا۔ اس کے حسن سے لاتعلق سا۔ اب اسے اپنے کمزور ہوجانے کا ڈر نہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ خود کو اس کی قربت میں مسرور بھی پاتی اور محفوظ بھی۔ وہ پہلا انسان تھا جس نے اسے حسن کے پیکر کے آگے بھی کچھ سمجھا تھا۔ اس کی تحریر کے ان پہلوؤں کی اسی انداز میں تعریف کی تھی جس انداز میں اس نے محسوس کرکے اسے لکھا تھا۔ تعریف کا جملہ جب بھی استعمال کیا، اس کے دماغ کے لیے کیا۔ اس کے بعد کے ایک آدھ جملے نے اس کے حسن کے کسی پہلو کو چھولیا ہوتو چھولیا ہو۔ یونہی جیسے موسم کا ذکر کیا جاتا ہے یا کسی کتاب کے سرورق کی بات کی جاتی ہے۔ سادہ سے، غیر اہم سے انداز میں۔

    کبھی اچانک کہہ د یتا، ’’تمہارا کل والا مضمون د یکھا، بھئی واہ! یقین نہیں آتا کہ اس چھوٹے سے سر میں اتنا بڑا دماغ ہے۔‘‘ وہ اس کا سر ہاتھ سے پکڑ کر ہلاتا۔۔۔ دوستانہ انداز میں۔ پھر اچانک اسے دیکھ کر کہہ دیتا، ’’ارے تم تو سفید لباس میں کہانیوں کی پری معلوم ہوتی ہو۔‘‘ بالکل یونہی۔ بغیر کسی تاثر کے۔ اور وہ چپ چاپ اس کی باتوں کو بغور سنتی ہوئی اسے ٹکر ٹکر تاکا کرتی، اپنی چوٹی سے کھیلتی ہوئی اور کبھی کبھی بات کرتے ہوئے اچانک رک کر وہ اس کی آنکھوں کو بغور دیکھتا پھر خود ہی ہنس پڑتا۔ پھر کچھ سوچ کر کہتا، ’’تمہاری آنکھوں سے کتنی قابلیت کتنی ذہانت ٹپکتی ہے۔ ویسے تمہاری آنکھیں ہیں بھی بہت خوبصورت۔‘‘ اس انداز سے جیسے اس کی اطلاع کے لیے عرض کیا جارہا ہو۔ اور وہ مسکرادیتی۔

    پھر وہ کچھ سوچتا اور کچھ اور کہتا، ’’اگر تم اس سے بھی زیادہ حسین ہوتیں۔۔۔ خیر وہ تو ممکن نہ تھا۔ ہاں اگر ہوتیں بھی تو بھی میرا تم سے کوئی رابطہ رکھنا ہرگز ممکن نہ تھا، اگر تم اتنی قابل جرنلسٹ نہ ہوتیں، اتنی محنتی لڑکی نہ ہوتیں۔ یہ تمہاری ناک ایسی تیکھی ہے کہ دل میں چبھ جاتی ہے۔ اچھا یہ بتاؤ آج کل تمہارے لکھنے کی رفتار کچھ کم نہیں ہوگئی۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے۔ لکھونا۔ خوب جی لگاکر۔ بہت بڑی رائٹر بن جاؤ۔ اس سے بھی اچھی۔‘‘ وہ اس کی ناک پکڑ کر ہلادیتا۔ وہ کھلکھلاکر ہنس دیتی۔ پھر ایک دم خاموش ہوکر کچھ سوچتی پھر مسکراتی۔۔۔ کتنی اپنائیت تھی اس کے گفتگو میں۔

    اس کی گھٹاؤں سی زلفوں کے تو بہت دیوانے تھے مگر اس کے سر کی کسی نے تعریف نہیں کی تھی۔ اس کی کشمیری بادام ایسی لمبی لمبی آنکھوں میں ڈوبنے کو ایک زمانہ تیار تھا مگر ان آنکھوں سے کسی کو قابلیت جھلکتی ہوئی نظر نہیں آتی تھی اور یہ جو کتنے ہی لوگوں کی Inspiration تھا اس کا کتنا خیال کرتا تھا۔ اس کی ا یک بات کے جواب میں کتنی باتیں سمجھاتا۔ سو طرح سے بیان کرتا۔ بولتے بولتے کہیں دور چلاجاتا۔ اپنے حاصل کیے ہوئے علم کے سمندر میں ڈوب کر لفظوں کے موتی بکھیرتا اور اس کی روح میں خوشیوں کی تتلیاں رقص کرنے لگتیں کہ وہ اس کے علم کے کسی تار کو سوال کے مضراب سے بس ذرا سا چھیڑ دیتی اور وہ پورے ساز کی طرح بج اٹھتا۔ وہ اس کی ذہانت کی عاشق تھی۔ اس کی شخصیت کی پرستار تھی، اس کی تحریر کی دیوانی تھی، اس کے بارے میں سوچا کرتی تھی اور وہ بھی اس سے ملاقات کو ترجیح دیتا مگر اپنا کوئی ضروری کام اس کی خاطر چھوڑتا نہیں تھا۔

    لیکن وہ اپنے کام سے انصاف نہیں کرپارہی تھی کہ وہ اس کے حواس پر مدہوش کن مہک کی طرح چھایا رہتا تھا۔ اور وہ تھا کہ اپنی تحریر کو برابر وقت د یتا۔ سمینار بلاتا، کانفرنسیں اٹینڈ کرتا، میٹنگیں کرتا، ملاقات کرتا تو سوچ سمجھ کر، وقت کا صحیح استعمال کرکے، وقت گنواکر نہیں۔ وہی بات کرتا جو وہ پسند کرتی۔ عالم تھا علم کو ضائع نہیں کرتا تھا۔ کسی مصرف میں لاتا تھا۔ اور وہ خود کو اس کا سمجھنے لگتی تھی۔ مگر پھر بھی اس نے اپنے ان محسوسات میں اسے رازدارنہ بنایا تھا۔ کہیں کہیں سے وہ اب بھی محتاط تھی۔ شاید یہ عورت کی وہ چھٹی حس تھی جو ازل سے مرد کی طاقت کے سامنے ڈھال بن کر اسے محفوظ رکھتی ہے یا اس کا اپنے حسن کے تئیں مستقل خوف۔

    کبھی کبھی وہ اچانک خاموش ہوجاتا اور پھر اچانک یہ کہہ دیتا کہ یہ دوری اب اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اس کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ وہ خاموش خاموش سناکرتی۔ قریب ہونے سے وہ کیا کہنا چاہتا ہے کہ عمر بھر ساتھ رہنے کی بات تو کبھی نہیں کی اس نے۔ یا شاید اسی طرح کہنا چاہتا ہو۔

    اور پھر ایک دن وہ کہیں دور پکنک پر گئے جہاں ان کے علاوہ پانی، پیڑ، پھول اور تتلیاں تھیں۔ اس دن دانشور نے اور کوئی بات نہ کی۔ وہ اس کے سراپے کو بادلوں اور پھولوں سے تشبیہ د یتا رہا مگر وہ جانتی تھی کہ یہ ذکر تو جانے کیسے ایسے ہی ہمیشہ کی طرح ضمناً چھڑگیا اور ابھی موضوع بدل جائے گا۔ مگر موضوع نہیں بدلا اور وہ بولتا گیا، ’’یہ ذہانت اور یہ ملکوتی حسن، ان دوچیزوں کا اتنا حسین امتزاج میں نے آج تک نہیں دیکھا۔‘‘ وہ کچھ سمجھتی کچھ نہ سمجھتی خاموش دیکھتی اسے، عجیب سے تاثرات کے ساتھ۔ ’’ہمارے خیالات، جذبات، سوچیں سب ایک سی ہوگئی ہیں۔ ہم کیوں الگ ہیں۔ ہمیں اور الگ نہیں رہنا چاہیے۔۔۔‘‘

    وہ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کرتا۔ اور وہاں اسے اس کی دو بھولی آنکھوں کے درمیان ابروؤں کے بیچ کھنچی ہوئی ایک لکیر نظر آتی، جیسے وہ کچھ سمجھ نہ پارہی ہو یا جیسے ابھی اس نے پوری بات نہ سنی ہو۔ وہ کچھ اور کہتا۔ رک کر سمجھانے کے انداز میں، ’’تمہارا کیا خیال ہے۔ میں ٹھیک کہتا ہوں نا؟‘‘ وہ اس کا چہرہ بغور دیکھتا۔ وہاں ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی۔ مگر آنکھوں میں پوری بات سننے کا تجسس ہوتا جیسے وہ خاموش چہرہ بول رہا ہو، ’تو پھر میرے گھر والوں سے مجھ کو مانگ لیجیے نا۔ مگر لب نہیں ہلتے اور وہ پھر کہتا، اس کے چہرے کے سامنے اپنا چہرہ لے جاکر، اس کی آنکھوں سے اپنی آ نکھوں تک ایک سلسلہ سا باندھ کر، ’’تم سے تمہارا وجود مانگ رہا ہوں۔۔۔ مجھے سمجھ رہی ہونا۔۔۔ تم سے زیادہ مجھے کون سمجھے گا۔‘‘

    یہ وجود ہمارے درمیان میں فصیل بن گئے ہیں۔ آؤ ان فصیلوں کو گرادیں کہ اس نکتے پر آکے ہماری سوچیں ہمیں بانٹے دے رہی ہیں۔ یہ خیمہ بندی کیوں۔‘‘ وہ کچھ دیر رکا تھا۔۔۔ اور وہ۔۔۔ خاموش دیکھ رہی تھی اسے۔ چہرے پر یقین اور بے یقین کے بیچ لکھا ہوا تذبذب بھرا سوالیہ نشان لیے۔ وہ پھر کہنے لگا، ’’کہو!ہمارے بیچ چاہتوں کا، قربتوں کا رشتہ ہے پھر یہ تکلفات کیوں۔۔۔؟‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔ وہ مجروح نگاہوں سے اسے کچھ لمحے تک د یکھتی رہی پھر اس نے نظر پھیرلی۔

    اس کی ساکت نظریں دور آسمان پر ایک منظر میں الجھ گئیں جہاں اچانک گرجتے، شور مچاتے، گھنے مٹیالے بادلوں کا ریلا ہری ہری چمکتی ہوئی پہاڑیوں کی چوٹیوں کو اپنے اندھیارے کالے دھوئیں میں غائب کرنے جھکا آرہاتھا۔ اور پانی کے کنارے ایک چٹان پر نیلے، فیروزی اور عنابی پروں والا خوب صورت نیل کنٹھ بے خبر مچھلیوں کی گھات میں اپنی لمبی شکاری چونچ ایسے بند کیے بیٹھا تھا جیسے کبھی اسے کھولتا ہی نہ ہو۔ دانشور نے اسے بغور دیکھتے ہوئے ایک دوسراانداز اپنایا کہ وہ اس کے بارے میں سب جانتا تھا۔ اس نے اپنی کوئی بات اس سے چھپائی نہ تھی۔ وہ اس کے خیالات و احساسات سے واقف تھا۔ اس کی اصول پرستی کو بھی جا نتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اس کے بارے میں کس طرح کے جذبات رکھتی ہے۔ وہ اپنے دانشورانہ انداز میں گفتگو کرنے لگا۔

    ’’یہ بت بنی کیا سوچ رہی ہو۔ اس قدر خامو ش کیوں ہو۔ شاید تم سے کوئی نفسیاتی پیچیدگی وابستہ ہے، جس نے تمہیں اسی طرح زندگی کے لطیف پہلوؤں سے ناآشنا رکھا ہے۔ تم نے ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے گرد یہ خول کیوں بن رکھا ہے۔ اس میں تمہارا دم گھٹ جائے گا ایک دن۔ غیر اہم چیزوں کو اتنی اہمیت تو مت دو۔ میں نے اکثر تمہارے چہرے پر بے حد محتاط تاثرات دیکھے ہیں۔ ناقابل رسائی جیسے، ناممکن جیسے۔ تم انسان ہو۔ خود پر یہ جبر کیوں؟ چھوڑدو ان جھوٹے الیوژنز (Illusions) کو۔ بی اے پریکٹیکل گڈ گرل، دلوں کو جسموں سے یوں علیحدہ نہ سوچو۔ اس وجود کی ہی وجہ سے ہی ہم ملے۔‘‘

    وہ کہہ رہا تھا۔ جانے پھر اس نے اور کیا کیا کہا۔ مگر وہ کب سن رہی تھی۔ وہ تو پانی کو د یکھ رہی تھی۔ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ شاید یہ ہی کہ اگر پانی کا کوئی رنگ ہوتا تو وہ کبھی اپنا رنگ نہ بدلتا۔ نیلے آسمان تلے نیلا نہ ہوجاتا اور ہریالی کے درمیان ہرانہ نظر آتا۔ اور کبھی اچانک سب رنگ جھاڑ کر اس بغیر نام کے رنگ میں نہ لوٹ آتا۔ مگر یہ ہی تو اس کی شناخت ہے کہ بہتا تو ہر رنگ سمیٹ لیتا اور ٹھہرتا تو اصلی شکل میں ابھرآتا۔ اور دانشور کہہ رہا تھا، ’’تمہاری سمجھ میں زندگی کا ایک نیا مفہوم آئے گا۔ تمہارے خیالات کی پرواز کو نئی وسعتیں ملیں گی۔‘‘ وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ اسے اپنی گردن تھکی تھکی محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنی ٹھڈی اپنے گھٹنے پر ٹکادی۔ آنسو کا ایک قطرہ اس کے پاؤں پر گرا، لڑھکا اور مٹی میں جذب ہوگیا۔

    دفعتاً اس کے اندر کی بیدار عورت کو خیال آیا کہ اس وقت اسے کسی نہایت ضروری کام کا یاد آنا نہایت ضروری ہے۔ اس نے دوسری آنکھ کی پلک پر اٹکے ہوئے آنسو کو چپکے سے بہہ جانے دیا اور بھیگی آنکھوں کو موند کر ان کی نمی کو کہیں اندر جذب کرکے دانشور کی طرف یہ کہنے کے لیے مڑی کہ اس کو کوئی ضروری کام یاد آگیا ہے مگر وہ اس سے بھی پہلے کھڑا ہوچکا تھا اور اپنے بالوں میں کنگھا کر رہا تھا۔ اس کا سامنا ہوتے ہی بولا، ’’یاد ہی نہ رہا آج میری ایک ضروری میٹنگ تھی۔ ابھی آدھے گھنٹے میں شروع ہونے والی ہے۔ چانس لے لیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے پہنچ جاؤں۔ راستے میں تمہیں بھی Drop کرتا چلوں گا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے