پچھتاوا
کہانی کی کہانی
یہ افسانہ انسانی وجود کی بقا کے اسباب و علل پر مبنی ہے۔ مادھو پیدائش سے پہلے کوکھ میں ہی اپنی ماں کی دکھ بھری باتیں سن لیتا ہے، اس لیے وہ پیدا نہیں ہونا چاہتا۔ نو مہینے مکمل ہونے کے بعد عین وقت پر وہ پیدا ہونے سے انکار کرنے لگتا ہے۔ بہت سمجھانے بجھانے پر آمادہ ہوتا ہے۔ لیکن جوان ہونے کے بعد بیزاری کے عالم میں ساری دولت دان کر کے جنگل کی طرف نکل پڑتا ہے جہاں اسے زار و قطار روتی ہوئی ایک عورت ملتی ہے جس سے اس کے محبوب نے بے وفائی کی ہے۔ مادھو اس سے ہمدردی کرتا ہے لیکن موہ مایا میں پھنسنے کے خوف سے اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن کسی پل اسے سکون نہیں ملتا۔ مہاراج کے مشورے پر پھر اسے تلاش کرنے نکلتا ہے۔ گویا زندگی کا یہی مقصد ہے۔
مادھو پیدا ہوکر بہت پچھتایا، مگر پچھتانے سے کیا ہوتا تھا، پیدا تو وہ ہوچکا تھا، اصل میں وہ ماں کے بھرّے میں آگیا، عجیب بات ہے کہ ماں ہی کی باتوں سے اس کے اندر یہ بات بیٹھ گئی کہ آدمی کو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیئے اور ماں ہی کی باتوں میں آکر وہ پیدا ہونے پہ رضا مند ہوگیا، اسی پچھتاوے میں جب وہ اپنے سارے اگلے پچھلے کو کرید رہا تھا، دھیرے دھیرے کر کے اس پر یہ بات کھلی کہ بس وہ سوال کر کے پھنس گیا۔ ساری خرابی اس سوال سے پیدا ہوئی، مگر سوال اس نے ایسا کون سا بھاری کیا تھا، اتنا ہی تو پوچھا تھا کہ ماں تو دن رات کڑھتی کیوں رہتی ہے، ماں نے دکھی ہوکر کہا کہ، ’’میرے لال تو تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ہے، ماں کے پیٹ میں نچنت بیٹھا ہے۔ جب خیر سے میں تجھے جنوں گی اور تو آنکھیں کھول کر اس دنیا کو دیکھے گا، پھر تجھے پتہ چلے گا کہ یاں پہ کتنے دکھڑے بکھیڑے ہیں۔‘‘
’’دکھڑے بکھیڑے جا ئیں بھاڑ میں، ماں، تو سکھی رہا کر۔‘‘
’’لال، مجھ دکھیا کے بھاگ میں تو دکھ لکھے ہیں۔‘‘
’’اور سکھ؟‘‘
’’سکھ۔‘‘ رکمنی نے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’سکھ یہاں کہاں ہے۔‘‘ وہ یہ بات سن کر بہت بےکل ہوا، ’’ماں، تو یہ کہا کہہ رہی ہے۔‘‘
’’سکھ کیا دنیا میں ناپید ہے، آخر کہیں تو ہوگا۔‘‘
’’میرے لال، سکھ ماں کی کوکھ تک ہے، آگے دکھ ہی دکھ ہے۔‘‘
’’ماں، پھر لوگ پیدا کیوں ہوئے چلے جا رہے ہیں، پہلے پیدا ہوجاتے ہیں پھر اپنی جان کو روتے ہیں۔‘‘
’’پھر پیدا ہونے اور جینے میں کیا فائدہ ہے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں، گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔‘‘
مادھو ماں کی باتیں سن کر دبدا میں پڑ گیا، ایک سوال نے اسے آپکڑا کہ پیدا ہوا جائے یا نہ ہوا جائے، بہت ادھیڑ بن کے بعد آخر اس نے ایک فیصلہ کر لیا، سوچا کہ چلو اچھا ہوا، ماں کے پیٹ ہی میں اصلی بات کا پتہ چل گیا، ابھی تو تیر کمان میں ہے، میں پیدا ہی نہیں ہوتا، گھاٹے کا سودا میں کیوں کروں۔ رکمنی بھولی عورت تھی، اسے پتہ چلا کہ اس کی کوکھ میں کیا گل کھلا ہے اور ہونے والا کیا سوچ رہا ہے، آسوں مرادوں کے ساتھ اس نے نو مہینے پورے کئے اور بچہ جننے کے لئے تیار ہوئی، مگر بچہ نے تنت وقت پہ پیدا ہونے سے انکار کر دیا، رکمنی تو پیٹ پکڑ کے بیٹھ گئی کہ یہ کیا ہوا۔ اس بات کا تو اسے گمان بھی نہیں تھا، ہوش ذرا ٹھکانے آئے تو بولی، ’’میرے لال، یہ تیرے جی میں کیا سمائی ہے۔ یہ تو انہونی بات ہے، جو بالک پیٹ میں آگیا اسے پیدا بھی ہونا ہوتا ہے، ماں کی کوکھ تو بالک کو بس نو مہینے تک سنبھالتی ہے، میں نے نو مہینے پورے کرلئے، سو میرے للاّ جی اب تم باہر آؤ، آنکھیں کھولو اور دنیا کو دیکھو۔‘‘
’’نہیں ماں، میں اس اندھیر نگری میں جہاں دکھ ہی دکھ ہے آنکھیں نہیں کھولوں گا، چاہے میری ساری عمر تیری کوکھ میں پڑے پڑے بیت جائے۔‘‘ رکمنی نے بہت سمجھایا بجھایا، مگر بالک اپنی ہٹ پہ آگیا تھا، کوکھ میں دھرنا دے کے بیٹھ گیا۔ جب بہت دن بیت گئے اور رکمنی اتنی بھاری ہوگئی کہ اٹھنا بیٹھنا اس کے لئے دوبھر ہوگیا تو پھر اس نے پتی سے رو رو کے کہا، ’’بچّے کا بوجھ مجھے لے بیٹھے گا۔‘‘ گنپت پتنی کی تکلیف دیکھ کر بےکل ہوگیا، کہا کہ، ’’وید جی سے جا کے کہتا ہوں وہ کوئی دارو کریں گے۔‘‘
’’وید جی کی دارو کیا کام دے گی جب بالک ہونے پہ راضی نہیں ہے۔‘‘ گنپت کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی، چکرا کر پتنی کو دیکھنے لگا۔ رکمنی نے کہا، ’’سوامی اسے سمجھاؤ۔‘‘
’’کسے سمجھاؤں؟‘‘
’’اپنے بالک کو۔‘‘
’’بالک کو؟ وہ تو پیٹ میں ہے۔‘‘
’’یہی تو اسے سمجھانا ہے کہ پیٹ میں بہت رہ لیا اب باہر نکلے۔‘‘
’’اری کچھ تیری مت ماری گئی ہے، کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔‘‘
’’سوامی میں تمہیں کیسے سمجھاؤں، تمہارا بالک پیدا ہونے کے لئے تیار نہیں ہے، نرالا بالک ہے، پیٹ میں دھرنا دے کے بیٹھ گیا ہے، پیدا ہونے سے انکار کرتا ہے۔‘‘
گنپت بہت چکرایا، پہلے تو اس نے یہ بات ماننے سے ہی انکار کر دیا مگر جب رکمنی نے مادھو کی باتیں سنائیں تو سوچ میں پڑ گیا، اس نے ویدوں پرانوں کو بہت چھانا تھا، دھیرے دھیرے کرکے بات اس کی سمجھ میں آگئی، سوچ کر بولا، ’’ہے تو یہ انوکھی بات، پر سوچو تو اتنی انوکھی بھی نہیں، گاندنی نے بھی اسی پرکار پیدا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ رکمنی نے چکرا کر پوچھا، ’’گاندنی کون تھے؟‘‘
’’گاندنی ورشنی کے پتر سٹپھلک کی پتری تھی، ماں کےپیٹ میں اڑ کے بیٹھ گئی، مہینے چڑھے، پھر برس چڑھا، پھر دوسرا برس چڑھا، پھر تیسرا برس آن لگا۔ پتری تھی کہ پیٹ میں پھرتی تھی، پیدا نہیں ہوتی تھی، کہتی تھی کہ مجھے پیدا ہونا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا، پیدا ہوئی یا نہیں۔‘‘
’’پیدا کیسے نہ ہوتی، پیدا تو ہونا ہی پڑتا ہے، جو بچہ پیٹ میں آگیا وہ بھاگ کے کہاں جائے گا، پیدا ہووے ہی ہووے، پر اس نے ستایا بہت، پیدا ہونے کے لئے شرطیں رکھنی شروع کر دیں۔‘‘
’’وہ کیا شرطیں تھیں؟‘‘
’’شرط بس ایک تھی، اسی پہ اڑی ہوئی تھی، پتا نے کہا پتری زیادہ پیر مت پھیلا، یہ تیری ماتا کی کوکھ ہے، وشنو جی کا وشال پیٹ نہیں ہے، میرا کہا مان اور پیدا ہوجا، وہ بولی، ایک شرط پہ جنموں گی، پوچھا وہ کیا شرط ہے، کہا، میں روز ایک گیّا برہمنوں کو دان دیا کروں گی۔ یہ شرط پوری کرنے کا وچن دو تو پھر میں جنموں گی، پتا نے کہا، چل تیرا کہا مان لیا، اب دیر مت کر، پیدا ہوجا، بس وہ ترنت ہی پیدا ہوگئی، اور پیدا ہوتے ہی گھر میں بندھی ہوئی گئیں دان دینی شروع کر دیں۔‘‘
رکمنی نے کہا، ’’اپنے مادھو سے بھی پوچھ لو کہ اس کی کیا شرط ہے، جو شرط رکھے مان لو، مجھ سے اب اسے سہا نہیں جاتا۔‘‘ گنپت نے بیٹے کو پکارا، ’’پتر، یہ ماں کا پیٹ ہے، تمھارے باپ کا گھر نہیں ہے، بہت ہوچکی اب پیدا ہوجاؤ، خود بھی جیو، ماں کو بھی جینے دو۔‘‘ مادھو نے کوکھ میں لیٹے لیٹے پکار کے کہا، ’’پتا جی، پیدا ہوکے میں کیا لوں گا، پیدا ہونے کا فائدہ کیا ہے، جیون میں تو دکھ ہی دکھ ہے۔‘‘ گنپت بیٹے کے اس جواب پر اپنا سا منہ لے کررہ گیا، رکمنی سے بولا، ’’اری بھاگوں بھری، تیرے پوت کے تو گومڑلال والے لچھن ہیں۔‘‘ رکمنی نے پوچھا، ’’سوامی گومڑ لال کون تھا، اور اس کے کیا لچھن تھے۔‘‘
’’گومڑ لال پراچین کال میں ایک ودھوان کا پتر تھا، وہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ باپ سے ودیا میں برابری کرنے لگا، باپ جو بات کہتا، یہ اس سے جرح کرنے لگتا۔ ایک دن باپ کو تاؤ آگیا کہ میں اتنا بڑا ودھوان اور یہ ڈیڑھ بالشت کا چھوکرا کہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہے اور مجھ سے بحث کرتا ہے، اسی تاؤ میں پتنی کی کوکھ پہ لات ماری، لات سیدھی بالک کے سر پہ پڑی، چوٹ سے اس کے سر میں گومڑ پڑ گیا، اسی سے وہ گومڑ لال کہلانے لگا۔‘‘
’’پر وہ پیدا تو ہوگیا تھا نا؟‘‘
’’پیدا تو وہ اپنے سمے سے پہلے ہی ہوگیا اور ایسا پیدا ہوا کہ ویدوں کا ورنن کرتا پیٹ سے نکلا، باپ کہیں جیتا ہوتا تو اس کی ودّیا کے سامنے پانی بھرتا، پر اس کا تو پہلے ہی دیہانت ہوچکا تھا، ہوا یوں کہ وہ راج دربار کے چاتر ودھوانوں کے چکر میں آگیا اور ان سے مات کھا گیا، یہ ہار اسے کھا گئی۔ ندی میں جاکے ڈوب مرا، گومڑ جب سیانا ہوا تو ماں نے اسے بتایا کہ تیرے پتا کے ساتھ کیا ہوا، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سیدھا راج دربار میں جا دھمکا، للکارا کہ میں ان چاتر ودھوانوں سے بحث کروں گا جو میرے پتا کی موت کا کارن بنے ہیں۔ راجہ نے کہا کہ بالک ہاتھیوں سے گنّے مت کھا، تو ابھی کچی دھات ہے، میرے دربار کے رتن اپنے ہنر میں منجھے ہوئے ہیں، پر گومڑ لال ایک ایک پانی کرنے پہ تلا ہوا تھا، ایک ایک پانی کرکے مانا، راج دربار کے ودھوانوں نے ناک رگڑی اور ہار مان لی۔‘‘
رکمنی یہ کہانی سن کر بولی کہ، ’’پتا کا اس نے اپمان کیا، پر پیدا تو ہو گیا، تمھارا لاڈلا تو پیدا ہونے کے لئے تیار نہیں، ارے اسے کسی پرکار پیدا ہونے پہ راضی تو کرو۔‘‘
’’بھاگو بھری، میں اسے کیسے راضی کروں، اس نے ایسا سوال کر ڈالا جس کا جواب میرے پاس تو ہے نہیں، پوچھتا ہے کہ پیدا ہونے کا کیا فائدہ ہے، بھلا میں اس کا کیا جواب دوں، اس کا جواب تو رشیوں منیوں کے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا میں اس کرم جلے کی بات کا جواب دیتی ہوں۔‘‘ جل بھن کر بولی، اور پھر اپنی کوکھ والے سے مخاطب ہوئی، ’’بالک بتا تونے اپنے باپ سے کیا پوچھا تھا۔‘‘
’’ماں! میں نے باپ سے یہ پوچھا تھا کہ پیدا ہونے کا آخر فائدہ کیا ہے؟‘‘
’’مورکھ میں تجھے بتاتی ہوں کہ پیدا ہونے کا کیا فائدہ ہے، فائدہ یہ ہے کہ میرا پنڈ تجھ سے چھوٹ جائے گا اور میرے پیٹ کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘ اس بات پہ مادھو جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، کچھ بن نہ پڑا کہ ماں کی بات کا کیا جواب دے، بس پیدا ہوگیا، مگر عجب ہوا، ادھر اس نے آنکھ کھولی ادھر ماں کی آنکھ بند ہوگئی، جیسے وہ اسے جننے ہی کے لئے جینے کا کشٹ کھینچ رہی تھی۔ گنپت کو رکمنی سے بڑا لگاؤ تھا، وہ دنیا سے سدھار گئی تو وہ بھی ڈھیتا چلا گیا، دنوں میں وہ بھی چٹ پٹ ہوگیا، مادھو دنیا میں اکیلا رہ گیا، تھا تو بالک پر سیانوں سے زیادہ سیانا تھا، ماں باپ کی موت پر اس نے جتنا شوک کیا اس سے زیادہ سوچ بچار کیا، رہ رہ کر سوچتا کہ اس کے جنم لینے کے ساتھ ہی ماتا پتا دونوں بیکنٹھ لد گئے۔ آخر کیوں، اس نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ جانا کہ وہ دونوں اسی کے کارن دنیا سے سدھارے، نہ وہ دنیا میں آتا نہ وہ دونوں دنیا سے جاتے، ایک جیو آیا اور دو جیو چلے گئے۔
اور جیو بھی کیسے، گنپت اور رکمنی جیسے کہ دونوں ہیرا تھے، اور میں؟ میں تو ان کے سامنے روڑا ہوں اور اب ان کے بنا تو بالکل ہی گلی کا روڑا بن جاؤں گا۔ ماں نے سچ ہی کہا تھا اس کا جیون گھاٹے کا سودا ہے، اور وہ پچھتایا کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا۔ اگر میں ماں کی بات کا اثر نہ لیتا اور پیدا نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا، پیدا نہ ہو نے کا اچھا بھلا فیصلہ کر کے ماں کے بھرّے میں آگیا اور خواہ مخواہ پیدا ہوگیا۔
کہتے ہیں کہ کیسا ہی گھاؤ ہو وقت اسے بھر دیتا ہے، مگر یہ کیسا گھاؤ تھا کہ جتنا وقت گزرتا جاتا تھا اتنا گہرا ہوتا جاتا تھا، اس کا یہ حال دیکھ کر کنبہ کے لوگ ایک دن اکھٹے ہوکر اس کے پاس آئے اور سمجھانے لگے کہ، ’’ماتا پتا کسی کے بھی سدا نہیں رہتے اور آنا جانا تو اس دنیا میں لگا ہی رہتا ہے۔ اب اس گھٹنا کو بہت دن بیت گئے ہیں اور تم سیانے ہوگئے ہو، گھر میں داتا کا دیا سب کچھ ہے، تمہارا پتا دھن دولت چھوڑ کے دنیا سے گیا ہے، بیاہ کرو اور گھر آباد کرو۔‘‘ وہ بولا، ’’میں خود دکھی ہوں، گھر میں کسی دوسرے جیو کو لاکر کیوں دکھی کروں۔‘‘
’’ارے بھاگوان، تو کیسی باتیں کرتا ہے، آنے والی آئے گی تو جی اور سا ہوگا اور دکھ بٹ جائے گا۔‘‘ اور کنبہ کے ایک بڑے نے یہ کہا کہ، ’’لالہ، دکھ اس اسار سنسار میں اتنا ہے کہ کوئی اکیلی جان اسے سہار نہیں سکتی، اسی کارن پیدا کرنے والے نے جیو کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے، دوسرے کی سنگت میں دکھ بٹ جاتا ہے۔‘‘ مادھو نے کنبہ والوں کی باتیں سنیں مگر ذرا جوٹس سے مس ہوا ہو۔ آخر میں اس نے یہی کہا کہ، ’’میں خود اپنے لئے بوجھ ہوں، میں اس بوجھ کو اتارنے کو پھر رہا ہوں ہوں، بیاہ کر کے ایک اور بوجھ سر لے لوں، نہ با با نہ۔‘‘
کنبہ والوں کو یہ ٹکا سا جواب دے کر اس نے چلتا کیا، پھر سوچا کہ باپ کا چھوڑا ہوا روپیہ پیسہ، ڈھور ڈ نگر، کھیت مکان یہ بھی تو سب بوجھ ہی ہے، یہ کھڑاگ آخر کس لئے، بس اس نے ترت پھرت سب کچھ برہمنوں کو دان دے دیا، گایوں کو پن کردیا، جیسے یہ سب کچھ خاک تھا کہ اس سے دامن جھاڑا، اور اٹھ کھڑا ہوا۔ باپ کی چھوڑی ساری دھن دولت دان پن کرنے کے بعد مادھو نے سوچا کہ بس ایک جنم بھار رہ گیا ہے، اسے بھی اتاردوں تو بالکل ہلکا ہوجاؤں گا مگر کیسے اتاروں۔
اس چکر میں وہ نگر سے نکل کھڑا ہوا، کتنے دنوں تک نگر نگر اور ڈگر ڈگر مارا مارا پھرتا رہا، پھرتا پھراتا ایک جنگل بیابان میں جا نکلا، دور دور تک آدمی نہ آدم زاد، پر تھوڑی دیر میں ایک بھرے پیڑ پر نظریں جم گئیں، اس کی چھاؤں میں اک ہری بھری ناری بیٹھی دھاروں دھار رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر من میں کن من کن من ہونے لگی، پر فوراً ہی سنبھل گیا، سوچا کہ یہ تو میں ناری جال میں پھنسنے لگا ہوں، اس سے کنی کاٹی اور قدم مارتا آگے نکل گیا، بہت آگے نکل آیا تو پھر ٹھٹکا، اس بن میں جہاں دور دور تک آدمی کا پتہ نہیں ہے یہ ناری کیسے آئی اور کیوں رو رہی ہے۔ ضرور اس پہ کوئی بپتا پڑی ہے، اس سے پوچھ تو لینا چاہئےکہ تجھ پہ کیا مصیبت پڑی ہے کہ یہاں اکیلی بیٹھی ٹسر ٹسر رو رہی ہے، اگر میں اس کی کوئی مدد کر سکتا ہوں تو کرنی چاہئے۔ آخر آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے، سو وہ جس تیزی سے کنی کاٹ کر آیا تھا اسی تیزی سے پلٹا، جاکر ناری سے پوچھا، ’’اے ناری تو کون ہے، آدمی کی بچی ہے یا کوئی اپسرا ہے، اس نرجن بن میں تو کیا کر رہی ہے اور کیوں یوں بلک بلک کر رورہی ہے۔‘‘
ناری نے سر اٹھا کر دیکھا، روتے روتے تھم گئی جیسے اسے دیکھ کر اس کی ڈھارس بندھ گئی ہو، آنسو پونچھے اور بولی، ’’تھی تو میں اپسرا ہی مگر اپنے پھوٹے بھاگوں سے اب ناری بن کر کشٹ کھینچ رہی ہوں۔‘‘
’’یہ کس کارن ہوا؟‘‘
’’ہوا یو ں کہ اس بن میں ایک رشی تپ کر رہا تھا، اندر دیوتا اس کاتپ دیکھ کر وسوسے میں پڑ گئے، اپسراؤں کو بلا کر کہا کہ یہ رشی بہت بڑھ چلا ہے، تپ کے زور پر دیوتا بننے کے جتن کر رہا ہے، کون اپسرا ہے جو اسے رجھا کر اس کے تپ میں بھنگ ڈالے، میں نے اپنے گھمنڈ میں کہا کہ میں جاتی ہوں۔ وہ بھاؤ بتاؤں گی کہ رشی جی ساری تپ بھول جائیں گے، سو میں سندر ناری بن کر اٹھلاتی بھاؤ بتاتی جوبن دکھاتی اس کے سامنے آئی، رشی نے میرے کھیل کو تاڑ لیا، لال پیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور سراپ دیا کہ اب تو اسی روپ میں رہے گی اور اسی بن میں خاک پھانکتی پھرے گی۔ میرے تو ہوش اڑ گئے، رشی کے چرنوں میں پڑ گئی، روئی گڑ گڑائی کہ رشی جی چوک ہوگئی، شما کردو، رشی مہاراج تھوڑے نرم پڑے اور بولے کہ اب تو میں سراپ دے چکا، واپس نہیں لے سکتا۔ ہاں یہ کر سکتا ہوں کہ سزا لمبی نہ کھنچے، سوسن کہ اس بن میں جب کوئی جوان آئے گا اور تو اس سے ملے گی تو پھر تیرا اپسرا والا روپ آئے گا اور تو اس بن کی قید سے چھٹکارا پائے گی۔‘‘
مادھو نے اس کی یہ بپتا سنی تو اس کا دل پسیج گیا، پھر حیران ہوکر پوچھا، ’’ ناری تجھے کتنے دن ہوگئے یہ سزا بھگتے۔‘‘ ٹھنڈا سانس بھر کر بولی، ’’مت پوچھ کہ کتنے برسوں سے یہ کشٹ کھینچ رہی ہوں، لگتا ہے کہ شتابدی بیت گئی۔‘‘
’’اس دن سے ادھر کوئی جوان آیا ہی نہیں؟‘‘
’’جوان یہاں کہاں دکھائی دیتا ہے۔‘‘
اس نے پھر ٹھنڈا سانس بھرا، ’’سفید سن ایسی جٹائیں بڑھاتے بڈھے پھونس رشی یاں پہ آتے ہیں، سمادھی لگا کر آنکھیں موند کر ایسے بیٹھتے ہیں کہ پھر آنکھ ہی نہیں کھولتے، پر خیر اب تو آگیا ہے۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے اس کے من میں کامنا کنمنائی اور من سے نکل کر آنکھوں میں جھلملائی، ایسی نظروں سے مادھو کو دیکھا کہ اس کا جی ڈول گیا۔ پر مادھو نے خو د کو سنبھال لیا، ’’سندری، میں تو خود اپنے کئے کی سزا کاٹ رہا ہوں۔‘‘
’’تونے کیا کیا تھا؟‘‘
’’میں نے بس اتنا کیا کہ پیدا ہوگیا اور اب جینے کا دکھ سہ رہا ہوں۔‘‘ اس پر وہ ناری کھلکھلا کر ہنسی، بولی، ’’مجھ سے مل، سکھی ہوجائے گا۔‘‘ وہ ایک بار پھر ڈول گیا، مگر پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور جی کڑا کرکے کہا، ’’ایک چوک کرچکا ہوں دوسری چوک نہیں کروں گا۔‘‘
’’ارے مان بھی جا۔‘‘ اس نے لجا کر کہا، ’’تیرے بھی دکھ دور ہوجائیں گے۔‘‘
’’میری بھی ناری جنم سے مکتی ہوجائے گی۔‘‘ مادھو پھر پھسلنے لگا تھا، مگر جلدی ہی اپنے آپ کو تھام لیا، دل میں کہا کہ رشی جی تو بچ کر نکل گیا، پر میں یہاں ٹکا رہا تو پھنس جاؤں گا، خیر اسی میں ہے کہ یاں سے بھاگ نکلو، دل میں یہ ٹھان کر اس نے ناری کی بات کا جواب یوں دیا کہ کان پکڑے، کہا کہ ’’نا با با‘‘ اور چل کھڑا ہوا۔ ناری کی آنکھوں میں جو آشا کی کرن جگمگائی تھی وہ ترنت کے ترنت بجھ گئی۔ یاس بھری نظروں اسے دیکھا۔ بولی، ’’تو کیسا مرد ہے، ایک ناری کو نراشا کے اندھکار میں چھوڑ کے جا رہا ہے۔‘‘ مادھو بولا، ’’جو خود اندھیرے میں بھٹک رہا ہو وہ کسی دوسرے کو اندھیرے سے کیا نکالے گا۔‘‘ اور آگے بڑھ گیا۔ ناری پیچھے سے پکاری، ’’دیکھ پچھتائے گا۔‘‘
مادھو نے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور آگے بڑھتا چلا گیا، دور نکل کر اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ کس طرح ناری جنجال میں پھنسنے سے وہ بال بال بچا ہے۔ مادھو چلتا رہا، دھول مٹی میں کنکریوں پتھروں پر چلتے چلتے اس کے تلوے چھل گئے، آخر ایک دن ایک سادھو کے درشن ہوئے، مادھو نے ڈنڈوت کیا اور اس کے چرنوں میں بیٹھ گیا، سادھو نے آنکھ بھر کر اسے دیکھا پوچھا، ’’بچہ تجھے کیا دکھ ہے؟‘‘
’’سادھو مہاراج، مجھ سے اک چوک ہوگئی۔‘‘
’’بچہ کیا چوک ہو گئی تجھ سے؟‘‘
’’میں پیدا ہوگیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’اس کا اپائے کیا ہے؟‘‘
’’اپائے۔‘‘ سادھو ٹھنڈی سانس بھر کر بولا، ’’بچّہ اسی چنتا میں تو میں بیاکل پھرتا ہوں، کتنے تیرتھ کئے، کتنا بنوں میں مارا مارا پھرا، کتنا دھیان کیا، پرپتہ نہ چلا کہ اس جیون روگ کا اپائے کیا ہے۔‘‘
’’مہاراج میں تو اسی یاترا پہ نکلا ہوں، اگر آپ نہیں بتاتے تو کسی ایسے کا پتہ بتائیے جو اس کھوج میں میری مدد کرے۔‘‘ سادھو سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا، ’’سو میر و پربت پر ایک رشی با س کرتا ہے کتنی شتابدیوں سے اپنی سمادھی پہ آنکھیں موندے بیٹھا ہے، وہاں تک جانے کی ساہس ہو تو جا اور اس گیانی کے چرن چھو، وہی تجھے کچھ بتائے تو بتائے۔‘‘ مادھو نے سومیر و پربت پہ جانے کا بیڑا اٹھایا اور چل پڑا، نہ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات، جاڑا، گرمی، برسات، کسی رت کو نہ گردانا، بس چلتا رہا، مرتا گرتا ٹھوکریں کھاتا آخر اس اونچے پربت پہ پہنچ ہی گیا۔ دیکھا کہ ایک گپھا میں ایک بوڑھا آنکھیں موندے بیٹھا ہے، بالکل پھونس کہ پھونک مارے سے اڑ جائے، جٹائیں سفید برف سمان، وہ ہاتھ جوڑ کر سرنیوڑھا کر کھڑا ہوگیا، دیر بعد بوڑھے نے آنکھیں کھولیں۔ مادھو کو غور سے دیکھا، ’’بچّہ تو کون ہے، یا ں کیا لینے آیا ہے۔‘‘
’’دکھی ہوں، دارو کے کھوج میں آیا ہوں۔‘‘
’’کیا دکھ ہے تجھے؟‘‘
’’جیون دکھ۔‘‘
’’جیون تیرے لئے دکھ کس کارن بنا؟‘‘
’’اک چوک ہوگئی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’سوچا تھا کہ پیدا نہیں ہوں گا، پر ماتا پتا کے کارن پیدا ہونا پڑ گیا۔‘‘
’’مورکھ پیدا تو ہونا پڑتا ہے۔‘‘
’’اور اس سے جو دکھ پیدا ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ سہنا پڑتا ہے۔‘‘
’’پر رشی مہاراج اس کا کوئی اپائے بھی تو ہوگا۔‘‘
’’مارا مارا مت پھر، بیٹھ جا۔‘‘
وہ بیٹھ گیا اور بولا، ’’رشی مہاراج میں بیٹھ گیا۔‘‘
’’آنکھیں بند کرلے۔‘‘
اس نے آنکھیں بند کر لیں اور بولا، ’’رشی مہاراج میں نے آنکھیں بند کر لیں۔‘‘
’’کان بند کرلے۔‘‘
اس نے کان بند کرلئے اور کہا، ’’رشی مہاراج میں نے کان بھی بند کر لئے۔‘‘
’’چپ ہوجا۔‘‘ وہ چپ ہوگیا، بالکل چپ، دن گزرتے گئے اور وہ چپ بیٹھا رہا، بالکل گم سم، جانے کتنے دن، کتنے برس، اسے لگا کہ صدیاں بیت گئیں، آخر آنکھ کھولی اور بولا، ’’مہاراج اب تو بہت سمے بیت گیا۔‘‘
’’سمے؟‘‘ رشی نے آنکھیں کھولیں اور حیرت سے مادھو کو دیکھا، ’’مورکھ تو ابھی تک سمے کے چکر سے نہیں نکلا؟‘‘
’’نکلنے لگا تھا کہ اس نے ستانا شروع کر دیا۔‘‘
’’کس نے ؟‘‘
’’ناری نے۔‘‘
’’کون تھی وہ؟‘‘
اس نے وہ ساری کہانی سنائی اور کہا، ’’جب اس نے آخری بار میری طرف دیکھا تھا تو اس کی نظروں میں کتنی نراشا تھی، ان نظروں کو میں نہیں بھول پا رہا۔‘‘ رشی نے غصے سے اسے دیکھا، ’’مورکھ جیون بھار کیا تھوڑا تھا کہ ایک اور بوجھ تونے اپنے دم کے ساتھ لگا لیا، جا پہلے اس بوجھ کو اتار، اور پھر آ۔‘‘
’’بوجھ کو اتاروں، پر کیسے؟‘‘
’’اسی ناری کے پاس جا، ہلکا ہوکے آ۔‘‘
وہ بہت سٹپٹایا، ’’مہاراج سمے بہت بیت گیا ہے اور میں برف سے ڈھکے اس پربت پہ بیٹھے بیٹھے سیل چکا ہوں۔‘‘
’’پر چنگاری تو تیرے اندر اب تک سلگ رہی ہے۔‘‘
وہ رو پڑا، ’’یہی تو مشکل ہے، یہ کیسے بجھے۔‘‘
’’وہ ہی بجھائے گی، جا یاں سے، بجھ جائے تو آ جائیو۔‘‘
کتنی بے دلی سے اٹھا، مگر جب چلنے لگا تو پکے ارادے کے ساتھ بولا، ’’بس گیا اور آیا۔‘‘
جس راستے آیا تھا اسی راستے واپس چلا۔ چلتے ہوئے اسے اچھے برے خیالوں نے آگھیرا، اگر یہی بات تھی تو میں نے اسے انکار کیوں کیا، اچھا ہوتا کہ اسی گھڑی اسے بھگتا دیتا، وہ بھی سکھی ہوجاتی، مجھے بھی کامنا سے مکتی مل جاتی، یہ کشٹ کہ اب کھینچ رہا ہوں کیوں کھینچنا پڑتا۔ ہاں بالکل، اچھا ہی ہوتا، اس نے کتنا سمجھایا، رجھایا پر میں ہی۔۔۔ اس کی ایک ایک بات ایک ایک ادا اسے یادآئی اور بےکل کرتی چلی گئی۔ اس کے قدم تیزی سے اٹھنے لگے، قدموں میں جیسے بجلی بھر گئی ہو، چل کیا رہا تھا دوڑ رہا تھا۔
جب اس بن میں پہنچا تو دل بلیّوں اچھلنے لگا، بھلا وہ کون سا برکش تھا جس کی چھاؤوں میں وہ براجتی تھی، جس کی شاخیں ہری بھری اور چھاؤں گھنی دیکھی اسی پر گمان ہوا کہ یہاں تھی وہ، پر وہ تو اب یاں پہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایک ایک پیڑ تلے دیکھا، کہیں نہیں تھی، ہے رام وہ کہاں الوپ ہوگئی۔ کیا مجھے دیکھ کے چھپ گئی ہے، اری سندری کیوں جوگی کو تڑپاتی ہے، کس بے کلی کے ساتھ ایک ایک کنج میں جھانکا۔ پورا بن چھان مارا، کہاں گئی سندری، زمین کھا گئی یا آسمان چاٹ گیا، اور بن جو اسے ہرا بھرا دکھائی دے رہا تھا، اجاڑ لگنے لگا، جیسے ایک دم سے پت جھڑ لگ گئی ہو۔
بہت دوڑ دھوپ کے بعد ایک اجڑے پت جھڑ کے مارے پیڑ تلے ایک جوگی دکھائی دیا کہ انگ پہ بھبھوت ملے دھونی رمائے بیٹھا تھا، چلو کوئی آدمی آدم زاد نظر تو آیا، سوچا کہ شاید اس سے کھوئے نگینہ کا کھوج ملے، جاکر اس کے پیر چھوئے۔ جوگی نے اس کا حال دیکھ کر ترس کھایا۔ کہاکہ، ’’بچہ تو بہت چلا ہے، بیٹھ جا۔‘‘ وہ بیٹھ گیا۔
’’اس اجاڑ بن میں کس کارن مارا مارا پھرتا ہے۔‘‘
’’جوگی جی یاں پہ ایک ناری تھی، یہیں کہیں ایک پیڑ تلے براجی ہوئی تھی، اب آیا ہوں تو وہ مل نہیں رہی، کچھ اس کا پتہ ہو تو بتاؤ۔‘‘
’’وہ ناری کون تھی اور تو کون ہے؟‘‘
جواب میں اس نے اپنی ساری رام کہانی سنا ڈالی، جوگی نے ساری کہانی سنی، پھر افسوس کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’جس یاتری کے رستے میں ناری آنکلے اور آکر نکل جائے پھر اسے بہت ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت پچھتانا پڑتا ہے۔‘‘
’’جوگی جی پھر میں کیا کروں۔‘‘
’’اسے ڈھونڈ۔‘‘
’’بہت ڈھونڈھا۔‘‘
’’اور ڈھونڈ۔‘‘
’’کتنا تو ڈھونڈ لیا، کب تک ڈھونڈوں۔‘‘
’’مورکھ ڈھونڈ نے والے یہ نہیں پوچھا کرتے، بس ڈھونڈتے رہتے ہیں۔‘‘
مادھو یہ سن کر ترنت اٹھ کھڑا ہوا اور آگے چل پڑا، ایک ایک پیڑ تلے جھانکنا اور آگےبڑھ جانا، اسی میں کتنی دور نکل گیا، سو میر و پربت اب بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ آگے بڑھتاہی چلا جا رہا تھا، چلتے چلتے پاؤں چھل ہوگئے، سوج گئے پر وہ چلتا گیا۔ کبھی اسے یوں لگتا کہ وہ صدیوں سے چل رہا ہے، بھٹکتا پھر رہا ہے، تب تھوڑا ٹھٹکتا اور سوچتا کہ اس یاترا کا کوئی انت بھی ہے یا نہیں اور پھر چل پڑتا، مگر انت کہاں، رستہ تو الجھتا لمبا ہوتا ہی چلا جا رہا تھا، اور جتنا لمبا ہوتا گیا اتنا ہی اس کا پچھتاوا بڑھتا چلا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.