پچھتاوا
دھوپ سے فٹ پاتھ تیز گرم ہو گیا تھا، اسی دھوپ میں ایک کمزور اونچا اور کریہہ صورت آدمی، کھاڑی کے اس پار سے بھوانی مندر کی طرف تیز تیز چلا جا رہا تھا، اس کی چال میں تھکن تھی اور وہ پاؤں گھیسٹ کر چل رہا تھا چلتے چلتے وہ ایک جگہ رک گیا، ماتھے کے پسینے کو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے پونچھا۔ ’’کھاڑی کا پانی بڑھنے لگا ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور اپنی رفتار تیز کر دی۔ یکایک اس کی توجہ بھوانی مندر کے آس پاس بڑھتے ہوئے کالے کالے بادلوں نے اپنی طرف کھینچ لی۔
بارش سے بچنے کے لئے اس نے ادھر ادھر دیکھا دیوی کے مندر کے سامنے والی دھرم شالہ مناسب جگہ ہوگی، اس نے سوچا اور اس جانب مڑ گیا۔
’’کھڑی دھوپ میں بارش‘‘ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، وہ بڑبڑایا۔ بارش شروع ہو گئی۔ وہ دوڑنے لگا لیکن وہ اکیلا ہی نہیں دوڑ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے دھرم شالہ کی طرف دوڑنے والوں میں ایک سنیاسی اور ایک نوجوان عورت بھی تھی دونوں کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ سنیاسی مندر سے اچھی طرح واقف تھا جبکہ عورت اس علاقے کے لئے نئی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
تینوں ایک ساتھ دھرم شالہ میں پہنچے، یکایک بارش تیز ہو گئی، بجلیاں کڑکنے لگیں۔ سنیاسی بولا، ’’کھڑی دھوپ میں برسات، میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘ اس کمزور آدمی نے بیٹھے ہی بٹوہ کھولا۔ سوکھا پتہ نکالا، گول لپیٹ کر اس میں تمباکو بھرا اور بیڑی بناکر پینے لگا۔
باہر بادل زور سے گرجا۔ جوان عورت ڈر کر سنیاسی سے لپٹ گئی۔
’’مہاراج! شاید میرے اور میرے شوہر کے پچھلے جنم کے پاپ کے کارن یہ منحوس واقعہ ہمیں پیش آیا۔ میں آپ کے ساتھ اپے شوہر کو رہا کروانے کی کوشش میں لگی ہوں کہ یہ بارش نے رکاوٹ ڈال دی۔ شاید قدرت بھی میرے خلاف ہے۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔
سنیاسی بولا، ’’بیٹا! ایسا مت کہو، اگر میرے آنے سے تمہارے شوہر کو رہائی مل سکتی ہے تومیں اس طوفانی بارش میں بھی چندرسین مہاراج سے التجا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’نہیں مہاراج، ایسی طوفانی بارش میں باہر نکل کر میرے گناہوں میں اضافہ مت کیجئے‘‘ یہ میرے پچھلے جنم کے گناہوں کا پھل ہے کہ میں اپنے شوہر کی پھانسی کے وقت وہاں موجود نہیں رہ سکتی۔‘‘ رندھی ہوئی آواز میں وہ بولی۔
سنیاسی بولا، ’’بیٹاتم تو دھرم جانتی ہو، پچھلے جنم کے کرموں کا پھل تو سب کو بھوگنا پڑتا ہے۔ اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔‘‘ بے رحم مجرم سوریہ گپت پھانسی کی سزا کے باوجود جیل سے بھاگ نکلتا ہے اور صرف اسے پناہ دینے کے جرم میں تمہارے شوہر کو پھانسی کی سزا ہو جاتی ہے۔‘‘
’’فیصلہ کرنے والوں نے جو بھی فیصلہ کیا لیکن مجھے یقین ہے کہ تم یاتمہارے شوہر نے سورگیہ گپت کے بھاگنے میں مدد نہیں کی ہے، سوریہ گپت کا گناہ کرنے کے باوجود بھاگ نکلنا اور کرم بھوشن کو بلاوجہ موت کی سزا ملنے کا مطلب یہ ہے کہ سوریہ گپت نے پچھلے جنم میں ضرور کچھ اچھے کام کئے ہوں گے جس کی وجہ سے وہ بچ نکلا۔‘‘
’’بیٹا! تم نے درخواست کی ہے کہ میں منتر پڑھ کر تمہارے شوہر کی رہائی کے لئے قدرت سے مدد چاہوں، میں عبادت گذار ہوں اور مجھے تمہاری بات ماننی ہی پڑےگی، عبادت کی ریاضت سے حاصل کی ہوئی قدرتی طاقت تمہارے شوہر کے پچھلے جنم کے گناہوں کو نہیں مٹا سکےگی، لیکن پھر بھی تمہاری خواہش پر میں تمہارے شوہر کی تکلیف اور مصیبت دور کرنے کے لئے چندرسین مہاراج کے پاس ضرور جاؤں گا۔‘‘
سنیاسی باہر نکلنے ہی والا تھا کہ بادل دوبارہ گرجے، دھرم شالہ کے احاطے میں بجلی چمکی۔ سنیاسی اور نوجوان عورت کی بات چیت سن کر تمباکو پینے والا دبلا پتلا آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ’’ان مقدس سادھو مہاراج کو بارش میں مت جانے دو، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب ایک برے آدمی کے کرموں کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’شوہر پرست، وفادار عورت اور قابل احترام سادھو مہاراج کے مقدس الفاظ سے مجھے پچھتاوا ہو رہا ہے میں نے دور دیس جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے، میں ہی گنہگار، ذلیل اور تمہارے شوہر کے بے وجہ موت کے منہ میں دھکیلنے والا سوریہ گپت ہوں۔‘‘
اس نے عورت کے پیر چھولئے۔
باہر آسمان صاف تھا، سورج پہلے کی طرح روشن تھا اور بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.