سنتے ہو جون کی دوپہر میں ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ ایسے میں ایک ہلکی، نرم و نازک پگڈنڈی نے نسبتاً بڑی،موٹی مگر مضبوط پگڈنڈی کو ہلایا ہمار لاڈلا سڑک بنے کا چاہت ہے
ای کا بکت ہے؟
او موا کہت ہے کی او سہر جاکر بڑی سڑک بنے کا چاہت ہے نازک پگڈنڈی بولی۔
اری توسمجھایا کاہے ناہی اس بڑبک کو موٹی پگڈنڈی نے چلا کر کہا او جوسامنے ہے نا بڑی سڑک، کالی، بھدی، جندگی سے خالی۔۔۔۔ نری تارکول۔۔۔۔۔۔ تھو۔ ہم کا دیکھو، جندگی سے بھرپور۔ کہیں درخت سایہ کرے ہے، کہیں گھاس ہمیں تروتازہ رکھے ہے۔ سام میں جب ہم پر پھوار پڑت ہے تو کیسی سوندھی سوندھی کھوسبو آوت ہے ہم سے۔ بھلا او کالی سڑک دے سکت ہے ای سب؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی بات کو جوڑا ارے ہم نے تو او کے کھاتر سوچا ہوا ہے کی آموں کے باغیچے تک او جاوےگا اور او کے ساتھ مہکتی ہوئی چنبیلی کے باغیچے تک او کی مہرارو۔ کتنی خوبصورت لگےگی دونوں کی جوڑی موٹی پگڈنڈی نے آس سے کہا۔
او نا مانے ہے، تو کھودئی بات کرلے۔ میں تو سمجھا کر تھک گئی
خود سوچ، او جو سامنے بڑی سڑک جاوت ہے۔ کتنی تیج گاڑیاں چلت ہیں او پر زن کرکے۔ کوئی ڈھور ڈنگر، کوئی بچہ سامنے آجاوے تو بچنے کی کونو امید ہی ناہی ہے۔ ہمار طرف شانت۔ سکون سے آوت جاوت کری ہیں سب۔ ارے ہم پر کوئی بچہ بھی گر جاوے تو ہم اپنی دھول اور ماٹی کی مدد سے اْوکا چوٹ ناہی لگنے دیت ہیں۔ اگر کہیں خراش آ بھی جاوے تو ای ہی ماٹی او کا علاج بھی ہوئے۔ بھلا سڑک بن کر کونو ایسا کر سکت ہے کا؟
میں جانت ہوں مجھے کاہے بتاوے ہے ای ساری باتیں، پر توہار اولاد توہار جیسن ہی جدی ہے، او نہ مانے ہے۔ کہہ رہا تھا کی اگر اجاجت دوگے تو ہنسی خوسی چلا جاوں گا ورنہ لڑ کر۔ دوجی صورت میں واپسی کی امید نہ رکھیو نازک پگڈنڈی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اے دن دیکھے کی کھاترپال پوس کر بڑا کئے رہے اوکا ہم
بڑی پگڈنڈی نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا، بھلی لوگ، تو اوکا آخری بار دیکھ لے، سہر سے خبریں آوت ہیں، پیسہ آوے ہے مگر جانے والے لوٹ کر نہ آوے کبھ۔
کا بدفال بولت ہو۔ خدا نہ کرے نازک پگڈنڈی تڑپ کر بولی اور سسکنے لگی۔
بڑی پگڈنڈی دوسری طرف دیکھنے لگی پھر تھوڑی دیر بعد کہا بدفال نہیں، سچائی بتاوت ہوں۔ ایک عمر گجاری ہے اس نگری میں۔ اچھے،بھلے کی تمیج ہے۔ سہر میں جادوگرنیاں بسیرا کرے ہیں جو سب کو وش میں کرلیوے ہے ان سے چھٹکار ناہی ملت۔ او پلٹ کے نہ آوے کے دی بے۔‘‘
تو اتنا بدھی مان ہے تو اوکا سمجھات کاہے ناہی، مو سے کاہے بات کرے ہے
تیری ساید سن لیوے، میری تو بالکل ناہی سنے گا۔ یہاں سکون ہے، بھاگ دوڑ ناہی ہے۔ کبھی گھوڑے کی دلکی چال دیکھت ہیں، کبھی سرپٹ۔ کبھی بکریاں چرتی ہوئیں ادھر سے ادھر جاوت ہیں۔ میلے ٹھیلے ہوویں تو ایک الگ چہل پہل ہوت ہے۔ لڑکیاں درختوں میں جھولے ڈال گانے گاوت ہیں، اپنے محبوب کے ذکر پر گلنار ہوت ہیں۔ سہر میں ای سب کہاں ہوت ہے؟ ای ہاں جندگی سانس لیوے ہے، چلت ہے، محسوس ہوت ہے، سہر میں سرپٹ دوڑت ہے، کونو منجل ناہی بس دوڑے جات ہے سارے بڑی پگڈنڈی نے ٹھنڈی سانس لی اور پھر کہا، سہر میں کا دھرا ہے؟ بھاگم دوڑ۔ ایک دوجے سے آگے نکلنے کی اچچھا۔ اوہاں ہر سڑک بڑی ہوے کا چاہت ہے۔ یک رویہ سے دو رویہ۔ بڑی سڑک، اس سے بڑی سڑک۔ کبھو کسی چھوٹی سڑک نے، دوسری کا سہارا لے کر کھودئی کو بڑی سڑک بنائے لیا۔ کبھو کسی نے بڑی سڑک بنئی کی کھاتر دولت، تعلقات، شراب و شباب کے پل بنائے۔ اس دھوکے کو او ترقی کہت ہیں۔ جو اس رنگ میں رنگ گیا او دوبارہ کبھی بھلا مانس ناہی بن سکت۔ میرا دادا تو کہتا تھا کی سہر مرد کو بےغیرت اور بزدل بنا دیت ہے
نازک پگڈنڈی شاید سسکتے، سسکتے سو گئی تھی۔
نئی زندگی، نئے زمانوں میں سانس لینے کی خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ سمجھ، بوجھ بھی کھا لیتی ہے۔ پھر نہ سیانوں کی بات کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی رشتے ناتے زنجیر بن پاتے ہیں۔ ویسے بھی جانے والوں کو کون روک سکا ہے آج تک؟ ہر سڑک آگے بڑھنے کی جستجو میں ان پگڈنڈیوں کو بھول گئی جہاں سے اسنے آغاز کیا تھا، پہلا قدم اٹھایا تھا۔
سنت ہو۔۔۔ آج بادل سہر سے آیا ہے۔ تہار لاڈلے کی کھبر لئی کے نازک پگڈنڈی سب کام چھوڑ کر اس کی بات سننے لگی. موٹی پگڈنڈی دوبارہ بولی اوکا نوکری مل گئی۔
میری کھواہس تھی کہ اوکا نوکری ناہی ملے۔ تھک ہار کر واپس ہی آوےگا نازک پگڈنڈی کی آواز میں ایک آس تھی۔
جانت ہو نیک بخت۔۔۔ جب پیدا کرنے والوں کی اور اولاد کی خوسی الگ، الگ ہو جاویں تو دونوں کے غم ہی ملت ہے۔ اوکا کامیابی ملے کھوسی مل جاوے۔ ہمار کا ہے، آج ہیں کل ناہی بڑی پگڈنڈی کی آواز میں مایوسی تھی۔ نازک پگڈنڈی کو اداس دیکھ کر وہ لہجے میں بشاشت لا کر بولا، اری نیک بخت کھوس ہو۔ او سڑک بن گیا، ابھی کسی بڑی سڑک کو ایک فیکٹری سے ملاوت ہے بعد کو کھودئی بڑی سڑک بنےگا۔ بادل مل کر آوے ہے۔ او کہہ رہا تھا کہ سڑک کی دونوں طرف پیلے رنگ کی حد بندیاں ہیں۔ کہیں، کہیں بیچوں بیچ دھاری دھار لکیریں ہیں۔ پر تھوڑے فاصلے پر پودا ہے جو کل کو درخت بن جاوےگا۔ او نے پیسے بھی بھجوائے ہئیں۔ کہت ہے اماں، باوجی آپ دونوں بھی ایہاں آکر سڑک بن جاو آخری بات کہہ کر موٹی پگڈنڈی کی آواز بھرا گئی۔
او کا دیکھے آج پورے چھ چاند ہوئی گوے نازک پگڈنڈی بولی
اس کے بعد بھی نہ جانے کتنے چاند بیت گئے اور اس کی خبریں مفقود ہو گئیں۔ پھر انہوں نے بادل کو بھیجا اس کی خبر لانے کے لیے۔
کا بتاوت ہے بادل۔۔۔ نازک پگڈنڈی نے بےتابی سے پوچھا
دھیرج رکھو۔۔۔ دو گھڑی سانس لئین دو موٹی پگڈنڈی نے کہا۔ کافی دیر خاموشی رہی، نازک پگڈنڈی کو لگا کہ کئی جگ بہت گئے ہیں۔ وہ بار،بار اس کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھتی۔ موٹی پگڈنڈی نے گہری سانس لی، شاید جو کہنا چاہتا تھا وہ دل میں مربوط کرچکا تھا، اوکی حالت ٹھیک ناہی۔۔۔ ایکو ایک فیکٹری تھی سڑک پر اوکے قرجہ نہ چکانے کی وجہ سے بنک نے بند کرائی دیا، اوکی حیثیت ختم ہوئی گوی۔ ٹوٹ پھوٹ گئی۔
چھوٹی پگڈنڈی روتے ہوئے بولی،ہم تم کو کہے تھے نا کہ ہمار دل گھبرا رہا ہے۔ اس کو کہو کہ واپس آ جاوے۔ ایہاں سب کچھ تو ہے۔ بڑی پگڈنڈی نے جواب نہیں دیا۔
اگلے مہینے ان پر قیامت ٹوٹ گئی۔
اس دفعہ ہوا خبر لائی تھی۔
ایک ویشیا کو پل بنا کر وہ کسی دوسری بڑی سڑک سے مل گیا ہے۔
رات بہت طوفانی تھی۔ اتنا شدید طوفان بڑے بوڑھوں نے بھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ دو، تین دن پانی بہت ٹوٹ کے برسا جیسے رونے میں ان دونوں کا ساتھ دے رہا ہو۔ ہر طرف جل تھل تھا۔
ہفتے بعد پانی اترا تو وہاں کوئی پگڈنڈی نہیں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.