پگلی
پاک محلہ کوئی عام محلہ تھوڑی تھا، پاکیزہ اور حسبی نسبی لوگوں کی رہائش گاہ تھا، سارے محلہ میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار گھر تھا، بیشتر گھروں پر خیرو برکت کے لیے قرآنی آیات لکھی نظر آتیں، محلے کی ایک نکڑ پر سبز گنبدوں اور اونچے میناروں والی مسجد واقع تھی، جس میں سے پانچ وقت اذان کی صدائیں گونجتیں، نمازیوں کی بھرمار ہوتی۔ بیچ کے اوقات میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، سفید ٹوپیاں پہنے مولوی صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم لیتے اور لہک لہک کر سیپارہ پڑھتے، بڑی ہی روح افزا قسم کی فضا ہوتی۔ ربیع الاول اور رمضان المبارک کے مہینوں میں تو یہاں کی رونقیں ہی کچھ اور ہوتیں، پوری مسجد بقع نور بنی ہوتی، نعت خوانی کے مقابلے ہوتے، رمضان المبارک میں نماز تراویح کا خاص اہتمام ہوتا۔ محلے کی دوسری نکڑ پر حاجی ظہیر صاحب کی کوٹھی تھی، جو محلے میں سب سے بڑی اور نمایاں تھی، پورے گھر پر سفید ماربل لگا ہوا تھا، گھر کے ماتھے پر ‘‘ماشاءاللہ’‘ بھی لکھا ہوا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے ایک نور کی چادر تنی ہوئی ہو۔ ویسے تو پورے محلے کی فضا بہت جاں فزا تھی مگر اس محلے میں صرف ایک بدصورتی کا وجود تھا جس نے سالہا سال سے محلے کی خوبصورتی اور پاکیزہ فضا کو گرہن لگایا ہوا تھا، اہل محلہ کا سکون لوٹا ہوا تھا، وہ کوئی قوی مرد نہیں بلکہ ایک کمزور عورت تھی جس کو سب ‘‘پگلی’‘ کہہ کر بلاتے تھے، پگلی کا اصل نام کیا تھا؟ یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔
سالوں پہلے اہل محلہ پر جو افتاد ٹوٹی تھی اور پگلی کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعہ کے پیش نظر تمام اہلیان محلہ نے فیصلہ کیا تھا کہ پگلی کو رہائش کے لیے ایک کمرہ دے دیا جائے تاکہ وہ غیر اخلاقی واقعہ دوبارہ اس پاکیزہ محلے میں درپیش نہ ہو، حاجی ظہیر صاحب کی کوٹھی چونکہ محلے میں سب سے بڑی اور پرشکوہ تھی، اس لیے قرہ فال ان کے نام نکلا اور محلے والوں کی درخواست پر انھوں نے پگلی کو ازراہ ہمدردی اپنے سرونٹ کوارٹر کے ایک کمرے میں رہنے کی اجازت دے دی۔ مولوی صاحب نے بھی ان کے اس جذبہ خدمت کو بہت سراہا اور باور کروایا کہ اب اہلیان محلہ سکون کا سانس لے سکیں گے۔ اللہ تعالی کا عذاب اب اہل محلہ پر نہیں آئےگا۔ تمام اہل محلہ نے مولوی صاحب کا یہ بیان سن کر ‘‘سبحان اللہ‘‘ اور ‘‘جزاک اللہ‘‘ کی صدائیں بلند کیں۔ آخرکار ‘‘تجوری’‘ کو گھر جو نصیب ہو رہا تھا۔ اب سب مردوں کی پاکیزگی محفوظ و مامون تھی۔
محلے کی بڑی بوڑھیاں بتاتی تھیں کہ پگلی جب اس محلے میں آئی تھی تو ان دنوں تقسیم ہند نئی نئی ہوئی تھی، پگلی محض بیس برس کی کچی کلی تھی، روپ رنگ ایسا کے حوریں بھی شرما جائیں، اس کی شربتی آنکھیں دن میں بھی خوابیدہ محسوس ہوتیں، اس کی لچکیلی کمر ناگن کو مات دیتی، اس کا بھرا، بھرا جسم امبی کے اس درخت کی یاد دلاتا جس پر نیا نیا آم کا بورا لگا ہوتا، وہ شاید ‘‘مہاجر‘‘ تھی، وہ کئی روز کھلے آسمان تلے سوتی رہی، شاید شروع میں پگلی، پگلی نہیں تھی، مگر کھلے آسمان تلے ٹوٹنے والی آفت نے اسے ‘‘پگلی’‘ بنا دیا۔ سیانے کہتے تھے کسی نے پگلی کے خزانے کی تجوری کو کھلا پایا تو نقب لگا گیا، دن بدن پگلی کا رنگ زرد پڑتا گیا اور اس کے پیٹ کا حجم بڑھتا گیا۔ جب کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پگلی کسی ہندو یا سکھ کا ‘‘پاپ’‘ اپنے پیٹ میں پال رہی تھی ۔اس کی حالت پر مولوی صاحب کی نظر پڑتی تو توبہ استغفار کرتے، قرب قیامت ہونے کی وعید سناتے اور اسے جہنم کا ایندھن قرار دیتے، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انھیں تکتی رہتی اور وہ گلی سے تیزی سے گزر جاتے۔ محلے کی عورتوں کو بھی پگلی سے زیادہ اپنے ‘‘شوہروں’‘ اور ‘‘بیٹوں‘‘ کی پروا تھی، ساری عورتیں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتیں کہ یہ پگلی نامی ’‘بلا‘‘ ان کے شوہروں اور جوان بھائی بیٹوں کے ‘‘ایمان‘‘ کا امتحان بن کر ان کے محلے میں بس گئی تھی۔ کئی بار اسے جانوروں کی طرح ہنکارا گیا، مگر وہ پلٹ کر پھر واپس اسی محلے میں پائی جاتی۔ آخر کار نو مہینے بھی گزر گئے، کسی نے بھی ‘‘پگلی پلید’‘ کو گھر میں گھسنے نہ دیا، ایک اندھیری سرد رات میں پگلی نے اکیلے تخلیق کے مرحلے سے گزر کر کچرا کنڈی پر ایک بچے کو جنم دیا، بچہ مرا ہوا پیدا ہوا تھا یا شاید ساری رات دسمبر کی سردی کے باعث ٹھٹھر کر مر گیا تھا۔ یہ راز تو راز ہی رہا۔ پگلی کے فارغ ہونے کے بعد محلے بھر کے مردوں کی پاکبازی کا سوال اٹھ کھڑا ہوا، مولوی صاحب نے بھی ہر نماز کے بعد عذاب الہی کی یاد دلانی شروع کر دی، محلے بھر کی بیگمات بھی ‘‘پگلی‘‘ نامی اس عذاب سے جان چھڑوانے کے لیے بے تاب تھیں، محلے سے کئی بار نکالے جانے کے باوجود وہ اگلے روز پھر آدھمکتی، اسے مارپیٹ کر، لالچ دے کر، ڈرا دھمکا کر سب حر بےآزما کر دیکھ لیے گئے مگر پگلی ٹس سے مس نہ ہوئی، آخرکار محلے والوں کے زور دینے پر حاجی ظہیر صاحب نے پگلی کو اپنے گھر میں سرونٹ کوارٹر کا ایک کمرہ الاٹ کر ہی دیا۔
پگلی سارا دن محلے بھر میں گھومتی اور محلے کی خواتین اس کی بھری جوانی اور کومل رنگ روپ دیکھ دیکھ کر ہولتی رہتیں، کم شکل خواتین تو اپنے مردوں پر کڑی نظر رکھتیں بلکہ دل ہی دل میں پگلی کے مرنے کی دعائیں کرتیں۔ ایک روز آپا رضیہ نے کپڑے دھوتے دھوتے پگلی کو مدد کروانے کا حکم دیا اور اس روز محلے کی عورتوں پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ پگلی تو ہر فن مولا ہے۔ کھانا پکائے تو ہاتھ چاٹتے رہ جائیں، کپڑے دھوئے تو ایسا لگتا تھا جیسے ساری حوروں کی پاکیزگی ان کپڑوں میں سمٹ آئی ہو، برتن دھوتی تو برتن لشکارے مارنے لگتے، اچار بناتی تو بڑی بوڑھیوں سے لے کر لڑکیوں بالیوں تک کے منہ میں پانی آ جاتا۔ اب محلے بھر کی بیگمات کو پگلی کی ‘‘نگرانی’‘ کا اچھا حل سوجھا، وہ اس سے دن بھر خوب کام کرواتیں، بدلے میں بچا کھچا کھانا یا کبھی ایک آدھا بد رنگا جوڑا اسے تھما دیتیں، اچھی غذا اور خوبصورت جوڑے دے کر بھلا وہ پگلی کا رنگ روپ مزید چمکا دیتیں؟ نہیں یہ غلطی تو وہ کبھی نہیں کر سکتی تھیں، ہھر ابھی تو یہ عقدہ بھی نہیں کھلا تھا کہ پگلی کا پیٹ پچھلی دفعہ کون بھاری کر گیا تھا، محلے کی عورتوں نے فیصلہ کیا اب وہ پگلی کا استحصال نہیں ہونے دینگی اور پگلی کے بستر پر کسی پاکباز کی پاکبازی بکھرنے نہیں دینگی۔ لہذا محلے کی ساری عورتوں نے ایکا کر لیا، انھوں نے پکاتی یہ کیا کہ وہ پگلی کا سایہ اب کبھی اپنے ‘‘پاکباز مردوں’‘ پر نہیں پڑھنے دینگی، اب پگلی دن بھر سر جھکا کر کام کرتی جاتی اور مردوں کی نظروں سے دور، بیگمات کی عملداری میں رہتی۔ساری بیگمات کا خیال تھا کہ پگلی گونگی ہے کیونکہ پگلی کو بولتے تو کبھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ پگلی کی رات کی چوکیداری کی زمہ داری اماں ہاجرہ کے ذمے لگائی گئی، جو ظہیر صاحب کی پرانی نوکرانی تھی، وہی پگلی کے ساتھ والے کمرے میں مقیم تھی۔ محلے بھر کی عورتیں ہر ماہ ایک خاص رقم اماں ہاجرہ کے ہاتھ میں رکھتیں اور پگلی کی فکر سے آزاد ہو جاتیں۔ یونہی دن ماہ و سال میں بدلتے رہے، پگلی کے سر میں چاندی کے بال چمکنے لگے، روپ کا سونا پگھل گیا تھا۔ محلے کے آتش جوان اب بوڑھے تھے اور بچے بالے جوان ہو گئے تھے۔ یہی شاید وقت کا چلن ہے۔ سب کی قسمتیں بدلیں، کتنے لوگ مر گئے، کتنے بچے نئے پیدا ہو گئے مگر پگلی محلے بھر کی خدمت گار کی خدمت گار ہی رہی اور بس پگلی کی پگلی ہی رہی۔
آج حاجی ظہیر صاحب کے بیٹے کی تقریب مہندی تھی، ہورا محلہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ عورتیں زرق برق کپڑے پہنے، زیورات پہنے محفل کی شان بڑھارہی تھیں۔ آج حاجی ظہیر صاحب کی بیگم نے پگلی کو بھی زندگی میں پہلی بار نیا روپہلا جوڑا لے کر دیا تھا، آخرکار شادی کا سارا کام پگلی نے ہی تو سنبھالا ہوا تھا۔ لڑکیوں بالیوں نے انڈین گانے لگا لیے، ظہیر صاحب کی جواں سال بیٹی بانو نے ٹھمک ٹھمک کر ‘‘میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیوں’‘ پر ناچنا شروع کر دیا۔ لڑکے بھی محفل میں بیٹھے اس کے رقص سے محظوظ ہو رہے تھے۔ کچھ لڑکوں نے شرارت میں اس پر اٹھ کر نوٹ وارنے شروع کر دیئے۔ اچانک پگلی اٹھی اور چلائی:
‘‘خدا کے واسطے اب تو بس کر دو۔ کب تک پہچان کے بغیر جیوگے؟ کیا اس ’‘پہچان‘‘ کے واسطے یہ ملک حاصل کیا تھا؟’‘
پوری محفل پر سکتہ طاری ہو گیا، آج سالوں کے بعد پتا چلا کہ پگلی گونگی نہیں تھی، بلکہ بولنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی اور پگلی بالکل بھی پاگل نہیں تھی۔ پگلی کی آنکھوں سے آنسو سیل رواں کی طرح بہہ رہے تھے۔
وہ بولی: اس دھرتی ’‘پاکستان‘‘ کے لئے میرے چار شیر ویر میری آنکھوں کے آگے کٹے، میری بے جی اور باو جی کے ٹکڑے میرے سامنے ہوئے، میری بھابھیوں نے میرے سامنے کنوئیں میں چھلانگیں لگا دیں۔ میں بھی ان کے پیچھے کودنے والی تھی کہ ہریجندر سنگھ نے مجھے کھینچ لیا، میری عزت پر اس نے ہاتھ ڈالنا چاہا تو میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا:
‘‘تجھے تیرے واہگورو کا واسطہ میری عزت پر داغ نہ لگا۔’‘
وہ سکھ ہمارے لئے جو ‘‘کافر’‘ ہے رک گیا، اس نے واہگورو جی کا واسطہ سن لیا، میں اس کی نگرانی میں سرحد پار کرکے پاکستان آئی۔ راستے میں اتنی لٹی عصمتیں، اتنی کٹی لاشیں دیکھیں کہ شمار بھول گئی۔ میں پاکستان پہنچی تو پتھر کی مورت بنی، جابجا ’‘پاک استھان’‘ ڈھونڈ رہی تھی کہ تقدیر مجھے اس محلے میں لے آئی، اس محلہ کا نام ‘‘پاک محلہ‘‘ سنا تو مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے اب یہیں بس جانا چاہیے یہاں مجھے اس پاک جگہ، پاک لوگوں کے درمیان کسی سے کوئی اندیشہ نہیں ہوگا، میں اس یقین سے یہاں آکر بس گئی، کہ کوئی مسلمان مجھے اپنا کر مجھے میری پہچان، میری شناخت مجھے دے دےگا، مگر میرا خواب تو دیوانے کی بڑ نکلا مجھے تو یہاں سب ‘‘پلید’‘ اور ‘‘ملیچھ’‘ ہی ملے۔میں اس یقین سے کھلے آسمان تلے سوئی کہ یہ پاکستان ہے جو مسلمانوں کا دیس ہے، یہاں مسلمان، مسلمان کو نہیں لوٹےگا، مگر اس رات اسی محلے کے ایک اونچے شملے والے ’‘پاک‘‘ شخص نے مجھے کھلے آسمان تلے لوٹ لیا۔ میں نے سسک کر اس کو ’‘مسلمان’‘ ہونے کا واسطہ دیا، اللہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیا مگر اسے لاج نہیں آئی، میں نے اسے اس کی ماں بہنوں، بیٹیوں کا واسطہ دیا ا مگر اس کے بڑھتے قدم نہیں رکے اس نے میری بے بسی کا سودا کر لیا۔ پوری محفل میں سکوت طاری تھا۔آج پگلی نے ان ’‘شریف’‘ لوگوں کو ان کی ‘‘اصل‘‘ ذات سے ’‘پہچان‘‘ جو کرا دی تھی۔ ہر شخص اپنی پہچان سے شرمندہ نظر آ رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.