پگلی
بال سر کے منڈے ہوئے، وہ سڑکوں پر دن رات آوارہ گھوما کرتی کبھی کبھی اس پر دیوانگی کے شدید دورے پڑتے، اور وہ راہگیروں کی پتھروں سے اس بری طرح خبر لیتی کہ راستہ بند ہو جاتا۔
اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی لیکن وہ بھوک اور بیماری کے باعث کسی طرح نو سال کی بچی سے زیادہ نہ دکھائی دیتی۔ احمد نگر میں اسے آئے ابھی دو تین مہینے ہوئے تھے، بچے اسے چڑاتے، کبھی کبھی پتھر مار کر زخمی کر دیتے۔ چوٹ کھا کر وہ سیدھی تیلی کھوٹ پر شکور باورچی کی دوکان پر آتی یہ پہلوان باورچی اس کی خدمت کرتا۔ اسے کھانے کو دیتا، اسے کپڑے بدلوا دیتا اور وہ اکثر رات کو اسی کی دوکان کے پٹھوں پر پڑ رہتی۔ وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتی مگر شکور پہلوان باورچی کا کہنا مان لیتی۔ احمد نگر کےتمام لوگ شکور کی اس خداترسی کے مداح تھے۔ اس طرح ایک سال گزر گیا۔ بسم اللہ پگلی احمد نگر میں گھومتی رہی اور سارااحمد نگر اس سے واقف ہو گیا۔ بعض ہندو محلوں میں عورتیں اسے دیوی کا اوتار سمجھنے لگیں۔ بعض خوش عقیدہ اسے خدا رسیدہ اور مجذوب کا درجہ دے کر اس کی عظمت کرنے لگے اور اس سے ڈرنے لگے، بعض گھروں میں بچوں کو ’’بسم اللہ‘‘ کے نام سے ڈرایا جانے لگا۔ اس کی صورت بھی ڈراؤنی تھی اور اس کی باتیں بچوں کو زیادہ ڈرا دیتی تھیں۔
اور اب کچھ دن کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ وہ شکور باورچی پہلوان کو جب دیکھتی تو اس پر دیوانگی کا شدید دورہ پڑ جاتا، وہ اسے پتھر مارتی۔ سخت مضطرب ہو جاتی اور خدا جانے کیا کیا بکتی اور جب تک شکور اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جاتا وہ سکون پذیر نہ ہوتی۔ اس تبدیلی کاسبب کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔رفتہ رفتہ لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ ’’بسم اللہ‘‘ نے جوانی میں قدم رکھ دیا ہے۔ اس کا جسم سڈول اور وزنی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس کے گال بھرنے لگے ہیں، اس کی آنکھوں میں وہ حلقے باقی نہیں رہے، جو ڈیڑھ سال پہلے نظر آتے تھے۔ کچھ منچلے کبھی کبھی گناہگار نگاہ بھی ڈل کر یہ جائزہ لیتے کہ کیا۔’’بسم اللہ۔‘‘ ایک عورت کہی جا سکتی ہے۔ چھ مہینے اور اسی عالم میں گزرے۔ ان چھ مہینوں میں بسم اللہ کا جسم و جثہ اور دیوانگی ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں۔ ان چھ مہینوں میں باورچی کے ہمسایہ دوکانداروں کا تجربہ یہ بھی تھا کہ بسم اللہ باورچی کی بند دوکان کے سامنے پہنچتے ہی دیوانگی کے دورے سے بے قابو ہو کر اینٹ، پتھر کی بارش کر دیتی۔ کوئی اس تبدیلی کو نہ سمجھا لیکن وہ دیویاں جنہوں نے پگلی کو دیوی کا اوتار مان لیا تھا۔ تاڑ گئی تھیں کہ بسم اللہ ماں بننے والی ہے۔
چند مہینے بسم اللہ غائب رہی اور شکور بھی احمد نگر میں نہ دکھائی دیا۔ لیکن ایک دن وہ پھر نظر آئی اور اس کے بازؤوں میں ایک خوبصورت ننہا سا بچہ بھی تھا۔
شکور کی دکان کے سامنے پہنچ کر وہ بند دوکان کے پہٹوں پر بیٹھ گئی۔ اس میں دیوانگی کے آثار بالکل دکھائی نہ دیتے تھے۔ وہ کمزور نظر آتی تھی لیکن اس کی نگاہوں سے ایک قسم کی آسودگی، ایک مطمئن کن جذبہ ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور چند بچے اس کے آس پاس کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ برابر کی دوکان سے ایک بوڑھےسے تنبولی نے پوچھا۔
’’بسم اللہ یہ کس کا بچہ ہے؟‘‘
’’شکور کا‘‘ بسم اللہ نے جواب دیا، اس کے لہجے میں مکمل فرزانگی موجود تھی۔
’’شکور کا۔‘‘ حیرت سے تمباکو فروش نے پوچھا۔
’’وہ باپ ہے اس کا۔‘‘ بسم اللہ نے پورے اطمینانی لیجئے میں جواب دیا۔
’’کہاں گیا شکور؟‘‘
’’مر گیا ڈوب گر۔‘‘
’’مر گیا!!‘‘ سب کی زبان سے نکلا
’’ہاں! وہ کہتا تھا کہ میں اسے بچے کا باپ نہ کہوں۔‘‘
’’پھر؟‘‘ بے صبری سے سب نے پوچھا۔
’’میں نہ مانی اور پرسوں اس نے کنویں میں ڈوب کر جان دیدی۔‘‘
سننے والے حیرت میں آ کر خاموش سوچنے لگے۔ بسم اللہ نے تنبولی سے چار آنے مانگے۔ پاؤ بھر دودھ لے کر پیا۔ اتنے میں ایک سپاہی آیا اور بسم اللہ کو پولس اسٹیشن لے گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.