Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پہچان کی جستجو

عذرا اصغر

پہچان کی جستجو

عذرا اصغر

MORE BYعذرا اصغر

    بند پلکیں الگ ہوئیں تو سورج کی سیدھی کرنیں پیوٹوں میں گھس آئیں۔ حیرانی سے میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی۔ کمرے پر سکوت طاری تھا تنہائی کے جان لیوا احساس سے بچنے کے لیے میں نے ریڈیو آن کردیا۔ شور سے کمرے کے درودیوار بجنے لگے اور ذہن کے تار جھنجھنا اٹھے۔

    ’’میں کون ہوں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

    ’’یہ میں کس صدی میں جی رہی ہوں۔‘‘

    ’’اور یہ دنیا کیا ہے؟‘‘

    ادلتے بدلتے دن رات۔۔۔ گھٹتے بڑھتے صبح و شام۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔ کیسے ہے اور کیوں بھلا۔۔۔ چمکتے دمکتے چاند ستارے۔۔۔ زمین و آسمان کی لامحدود وسعتیں۔۔۔ اڑتے بادل۔۔۔ امڈ امڈ کر آتی گھٹائیں۔۔۔ پانی کے برستے قطرے۔۔۔ ایک میں پیوست، جیسے مالا میں پروئے گئے موتی۔۔۔ کھلتے مہکتے۔۔۔ محض ایک دن کی زندگی پر مسکراتے رنگارنگ پھول۔۔۔ اپنی خوشبو لٹا کر فنا کی طرف پلٹ جانے والے۔۔۔ فنا۔۔۔؟ یا دائمی بقاء کی طرف گامزن۔۔۔ یہ کیسا فلسفہ حیات ہے۔۔۔ نا سمجھ میں آنے والا۔۔۔ گھبراکر میں باہر نکل آئی۔۔۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ میں کہیں کھو گئی ہوں۔ اپنی یوں یکایک گمشدگی پر میں حیرت زدہ رہ گئی۔ میں نے خود کو تلاش کرنا چاہا مگر بے سود۔۔۔ میں اپنی گمشدگی کا اعلان کرنا چاہتی تھی۔۔۔ چیخ چیخ کر دنیا کو بتادینا چاہتی تھی۔۔۔ لوگو!سنو میں گم ہوچکی ہوں۔۔۔ مجھے میری تلاش میں مدد دو۔۔۔ ٹھہرو! میرے اندر سے کسی نے پکارا۔۔۔ میں نے رک کر سوچا۔۔۔ پاگل خانے کی اونچی دیواریں میرے ارادے میں حائل ہوگئیں۔۔۔ مگر یہ دنیا تو پوری کی پوری پاگل خانہ ہے۔۔۔ پھر؟ تو کیا یہ سچ ہے کہ میں چرالی گئی ہوں۔۔۔؟ مگر چوری کی رپٹ درج کرانے پر رپٹ لکھانے والا خود مجرم ٹھہرتا ہے۔۔۔ اکثر یونہی دیکھنے میں آیا ہے۔

    مجھے یاد آیا۔۔۔ ایک دفعہ جب میرے باپ کے گھر چوری ہوئی تھی اور گھر کا سب قیمتی سامان رات کی تاریکی میں کوئی سمیٹ لے گیا تھا اور وہ قیمتی سامان تھا ہی کیا۔۔۔ پکانے ریندھنے کے برتن۔۔۔ پہننے اوڑھنے کے کپڑے اور بس۔۔۔ میرے باپ نے تھانے میں رپٹ درج کرائی اور خوش ہوا کہ اس کے برتنوں پر اس کا نام کندہ ہے اور چو ری کا سامان تلاش کرنے میں پولیس کو آسانی رہے گی۔ مگر ایک ہفتے تک تفتیشی افسروں کو کھلانے پلانے کے بعد بھی جب چوری برآمد نہ ہو سکی تو میری ماں بازار سے مٹی کی ہنڈیاں لے آئی کہ چور کے لیے مٹی بے مصرف تھی۔ آگ میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے اور مٹی آوے میں پک کر اپنا مول گرادیتی ہے مگر یہاں تو مسئلہ یہ تھا کہ پولیس کو قیمتی مشروبات پلانے کے لیے میرے پاس پیسہ نہیں تھا۔ اپنی تہی دستی پر میں خشک آنسو بہاکر رہ گئی۔۔۔ تلاش ابھی نامکمل تھی اور اپنی تلاش میں چلتے چلتے میرے پاؤں دکھنے لگے تھے۔

    کمرہ نمبر نو میں ابھی اجلاس جاری تھا۔ اسٹیج پر کھڑا ایک چھوٹے ناٹے قد کا آدمی آزادی نسواں پر دھواں دھار تقریر کر رہا تھا۔۔۔ میرے ذہن کے پردے پر ایک مدقوق چہرہ ابھرا۔۔۔ لعن طعن کا طوق گلے میں لٹکائے۔۔۔ جونکوں کی طرح اپنے جسم سے بچے چمٹائے۔۔۔ گود میں بچہ، پیٹ میں بچہ، رینگتا بچہ۔۔۔ سختیاں سہتا اور گالیاں سنتا وہ مدقوق چہرہ میرے ذہن کے افق پر پھیلتا چلا گیا۔ میرے کان بج اٹھے۔ ’’میرے میاں سوشلسٹ لیڈر ہیں۔‘‘ اس نے بچے کی ناک سے بہتی رینٹھ اپنے دوپٹے کے پلو میں سمیٹ کر مجھے بتایا۔

    ’’آزادی نسواں، ان کا خاص موضوع ہے۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے گال پر نیل کو سہلاکر کہا۔

    ’’یہ چوٹ؟‘‘

    ’’بڑے لوگوں کے کاموں میں مداخلت کانتیجہ۔۔۔‘‘ وہ بولی۔

    ’’میں تو اس کی بیوی ہوں نا۔۔۔‘‘

    وہ عورت بھی کہیں گم ہوچکی تھی اور اس کا ذہن اس کی کھوج سے ماورا ہوچکا تھا۔ یہاں اس خطے میں ہر عورت اپنی پہچان کھوچکی ہے اور اس پر اس کے باپ، دادا، بھائی اور شوہر کے نام کی مہر ثبت ہے۔۔۔ میرا سر چکراگیا۔

    چھوٹے ناٹے قد کا آدمی بدستور زور شور سے تقریر کرتا رہا۔ میں نے بے بسی سے نگاہیں اٹھائیں۔ ہر چہرہ یہاں اجنبی تھا اور جو چہرے میری پہچان کی گرفت میں آرہے تھے، انہوں نے اجنبیت کے موٹے نقاب اوڑھ رکھے تھے۔ گھبراکر میں باہر نکل آئی اور خود کو انسانوں کے بہتے سمندر میں چھوڑ دیا۔ چہروں کے سیلاب میں میں ایک تنکے کی مانند بہنے لگی۔ ہنستے مسکراتے چہرے۔۔۔ منہ لٹکائے بسورتے چہرے۔۔۔ عجلت اور جلد بازی سے گھبرائے ہوئے پریشان چہرے۔۔۔ پھر ایک بھولا بسرا چہرہ میرے سامنے آن لٹکا۔

    ’’استاد کا درجہ والدین کا سا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کس زمانے کی باتیں کرتی ہیں آپ؟‘‘ وہ ڈھٹائی کے ساتھ اطمینان سے بولا۔

    میں جب بچہ تھی اور تختی بغل میں مار کر پہلی بار مدرسے گئی تھی تو ماں نے کہا تھا، ’’بیٹا استاد کو باپ کی طرح تعظیم دینا۔ میں نے آج تک ویسا ہی سمجھا اور ویسے ہی کیا مگر تم۔۔۔ سوچو میں تمہاری استاد ہوں اور پھر تم سے بڑی۔۔۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔

    ’’بڑے مرد چھوٹی عورت سے بیاہ کرسکتے ہیں تو بڑی عورت چھوٹے مرد کو قبول کیوں نہیں کرسکتی بھلا۔۔۔؟‘‘ وہ بحث پر اترآیا۔

    ’’مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے میڈم۔‘‘

    ’’ہنھ محبت۔۔۔ محبت کس قدر فرسودہ لفظ ہے۔ میں نے محبت کے نام پر جسموں کا نیلام دیکھا ہے۔ روحوں کا سودا ہوتے سنا ہے۔ محبت۔۔۔ ایک مقدس جذبہ ہے۔ مگر جب تک یہ بتیس دانتوں تلے رہے۔ لبوں سے پھسلا اور یہ لفظ بکاؤ مال بنا۔۔۔ جذبے کے تقدس کو مجروح نہ کرو میرے پیارے شاگرد۔۔۔‘‘ اور پھر وہ چہرہ اداسیوں کے سمندر میں ڈ وبتا چلاگیا اور دوسرا چہرہ تن کر سامنے آگیا۔ مگر مسائل کی صلیب پر تو ہر چہرہ لٹکا تھا۔ میں نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور مڑا تڑا کاغذ اپنے دوسرے چہرے کی رو برو لے آئی۔

    ’’راحیلہ بی بی!سچ بتلاؤں۔ خط لکھنا بھی ایک تخلیقی عمل سمجھتا ہوں۔ آپ کے اوپر تلے تین چار خط ملتے ہیں۔ ہر خط کے پس منظر میں جذبات کی خوبصورت جھلکیاں ہیں۔ میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں اپنے جذبات کے آگے بند باندھنا پڑتے ہیں اور باہر سے آنے والے جذبات کے آگے فصیلیں کھڑی کرنا ہوتی ہیں۔ آپ کی زندگی شاید ایک چہار دیواری تک محدود ہے۔ ہم تعلقات کے سمندر میں موجود ہیں۔ دوستی کے نام پر، محبت کے عنوان سے، خلوص کے ناتے سے اتنے چرکے کھائے ہیں، اتنے رنگ روپ دیکھے ہیں کہ انہیں دہرانے کا بھی یارا نہیں۔ ستم ظریف لوگوں نے ہمیں ایک شجر سایہ دار جان رکھا ہے۔ لوگ سستاتے ہیں، وقت گزارتے ہیں اور آگے چل پڑتے ہیں۔۔۔ مجھے مہلت دیجیے۔ آپ کے خطوں کا تفصیل سے جواب لکھوں گا۔ مجھے آپ کے جذبے کا احترام ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ خدانخواستہ آپ کو دکھی کرنا مقصود نہیں تھا۔

    برسوں سے میری روایت یہی رہی ہے کہ میں تعلقات توڑنے میں کبھی پہل نہیں کرتا۔ زیادتی بھی سہ لیتا ہوں، ستم بھی جھیل لیتا ہوں۔ آپ خوش رہا کریں۔ اپنے مسائل کو سلجھائیں۔ کسی کے لیے ناحق آنسو بہاتی ہیں۔ یہ زندگی کا سرمایہ ہے۔ محبتوں کی امانت ہے۔ ہم ایسے لوگ شام کے تاروں کی طرح ہوتے ہیں۔ پل دو پل ابھرے، پھر ڈوب گئے۔ خدا آپ کو مستقل اور مستحکم خوشیاں دے۔۔۔ سائے تو سائے ہی ہوتے ہیں۔ دھواں تو بہرحال فضاؤں میں تحلیل ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسی آگ روشن کریں جو آپ کو عمر بھر کی حدت اور حرارت دے سکے۔ راکھ کریدنے سے بھلا کیا فائدہ؟ہاں! یہ سچ ہے کہ ہم اپنی خواہشوں کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہی خواہشات دکھی کرتی ہیں، یہی قتل کرتی ہیں۔ آپ تو کم از کم ان سے دامن بچالیں۔‘‘

    مڑے تڑے کاغذ کو مٹھی میں بھینچ کر میں نے پھر جیب میں اڑس لیا۔ پیروں کے چھالے پھوٹے تو تکلیف کی شدت میری سوکھی آنکھوں میں نمی لے آئی۔ اذیت کااحساس جاگا تو مجھے گھر یاد آیا۔ مگر گھر اور اس کی ویرانی میری اجڑی روح کو مزید ریزہ ریزہ کر گئی۔ سوچ نے اپنی منور کرنیں سمیٹیں اور وسعتوں میں کہیں جاپہنچا۔ مغرب میں شام کا روشن تارا جھلملانے لگا۔ مگر شام کے تاروں کا کیا ہے۔ ابھی ابھرے، ابھی ڈوبے۔ بس پل دو پل۔ میں اپنی گمشدگی پر ہراساں، گھر کے ایک کونے میں چھپی بیٹھی تھی اور شام کے تارے کے گرد ستاروں کا مدھم ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا۔ میں نے سانس روک لیا اور ساکت ہوکر اپنی ذات میں سمٹ کر اپنی کھوج کرنے لگی۔ شاید میں مل ہی جاؤں۔۔۔ شاید۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے