Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پہلا پیار

بلند اقبال

پہلا پیار

بلند اقبال

MORE BYبلند اقبال

    کہتے ہیں جس دن پہلی بار رحیم داد کو ماسٹر شریف نے چمکار کر گود میں بٹھایا تھا اسی دن رحیم داد سات سے سترہ سال کا ہو گیا تھا، اسی رات اس کے خواب میں ایک ساتھ بہت سے اژدھے اسے ڈسنے چلے آئے تھے۔ ہر اژدھا لمحے بھر میں ماسٹر شریف کی شکل جیسابن جاتا تھا۔۔۔ وہی بجھتے دیوں جیسی آنکھوں پر موٹے موٹے شیشے کی عینک، وہی بےہنگم سی ناک کے نیچے بالوں کے سفید کالے گچھے، وہی دودن کی بڑھی شیو میں چھپے ہوئے پتلے پتلے جھری جیسے گال اوروہی ماسٹر شریف کے بدن کی گندی بِساند جو رحیم داد کی سات سالہ معصوم روح کو زندگی بھر کے لیے متلا گئی تھی۔۔۔ سات سے سترہ سال تک رحیم داد ہر رات ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہوں سے ڈسا جاتا رہا، ہر رات اس سے لپٹے ہوئے سانپ اس کے بدن میں چھید کرتے رہے، وہ اس کے بدن میں اس طرح رینگتے رہے جیسے وہ اس کا بدن نہیں بلکہ ان سانپوں کا بِل ہے، وہ اس کے بدن سے اس طرح اگلتے رہے جیسے وہ اسی کے خون میں پل رہے تھے۔۔۔ ماسٹر شریف تو دوسال بعد اسکول چھوڑ گئے مگر رحیم داد کی روح کو عمر بھر ڈسنے کے لیے رینگتے سانپ چھوڑ گئے۔

    کچھ سالوں کے لیے تو رحیم داد کی ہر ایک رات جیسے عذاب بن گئی تھی مگر پھر رفتہ رفتہ ایک عجیب سی تبدیلی آنے لگی ۔رحیم داد کو لگنے لگا جیسے اس کے بدن پر لپٹے سانپ اس کے لیے راحت کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔۔۔ وہ جو اس کو ڈستے ہیں تو اس کا سارا بدن بجائے سانپوں کے زہر سے نیلا ہونے کے کسی نئی نویلی دلہن کے رخساروں کی سر خی کی طرح شرم سے لال ہو جاتا ہے۔۔۔ وہ جو کسی رات اس کے بدن کو چھید کر اس میں نہ رینگتے تو ساری رات اس کی کروٹیں لیتے گزر جاتی اور اگلے روز اسے لگتا جیسے اس کے سر کے نیچے دھڑ کی جگہ سانپوں کا خالی بل لگا ہوا ہے جو اپنے مکینوں کے بغیر اداس ہے، ایسے میں تمام دن اس کا دل بھاری بھاری رہتا اور تنہائی میں خوب ہی رونے کو چاہتا۔ اسی طرح ایک دن رحیم داد سات سے سترہ برس کا ہو گیا اور پھر پہلی بار۔۔۔ اس کے خواب ٹوٹنے لگے۔

    اس لڑکی کا نام زہرہ تھا۔۔۔ ڈری ڈری نینوں والی، سانولے تیکھے سے نقوش والی اور سر و جیسے قد والی زہرہ۔۔۔ جس کے ساتھ پہلی بار خالو نظام الدین کی بیٹی کی شادی میں رحیم داد کی نظریں چار ہوئیں اورپھر دوسری بار آپا نصیبن کے بچے کی روزہ کشائی میں بھی وہ نظر آئی۔ پہلی بار تو زہرہ نے رحیم داد کوسرسری نظروں سے دیکھ کر نظر انداز کر دیا تھا مگر دوسری باراس کا دل رحیم داد کی نظروں کے متواتر تیروں سے گھا ئل ہوتا چلا گیا اور جب رحیم داد نے اسے اپنے اور اس کے گھر کے بیچ ریلوے جنکشن پر ملنے کے لیے کہا تو کچھ دیر ہچکچانے کے بعد وہ ملنے کو راضی ہو گئی۔

    اس شام ریلوے جنکشن پر ڈوبتے دل اور کانپتے بدن کے ساتھ زہر ہ اپنے چھوٹے بھائی کی انگلی تھامے لکڑی کی بینچ پر بیٹھی سہمی سہمی نظروں سے رحیم داد کو تک رہی تھی۔رحیم داد بوجھل نگاہوں سے کبھی زہرہ کو دیکھتا تو کبھی ریلوے جنکشن پر پڑی آ ڑی ترچھی ریل کی پٹریوں کو دیکھتا تھا۔۔۔ دونوں کی نظریں لمحے بھر کے لیے ٹکراتی اور پھر کسی ان دیکھی ٹرین پر سوار ہوکر ان آڑی ترچھی پٹریوں پر بےتہاشہ دوڑنے لگتی۔۔۔ زہرہ پہلے پیار کے نشے میں چُور پسینے سے شرابور تھی، دل حلق میں دھڑک رہا تھا اور کان کی جلتی ہوئی روؤں سے رخسار دہک رہے تھے۔ رحیم داد بوجھل قدموں اور نیم مردہ بدن کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پر زہرہ کا ہاتھ تھامے اپنی منزل کی تلاش میں دوڑ رہا تھا۔۔۔ مگر ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہے ہر اسٹیشن پر اسکے پہلے پیار کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔۔۔ آ ہستہ آہستہ راستے کی مسافت بڑھتی چلی گئی، رحیم داد کی سا نسیں ٹوٹنے لگیں، اس کے بوجھل قدم اس کا چھوڑنے لگے، نیم مردہ بدن کی روئیں کانپنے لگیں، گردن کی نسیں پھولنے لگیں اور اس سے پہلے کہ اس کے سترہ سال تک پلنے والے سارے خوا ب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتے۔

    رحیم داد نے زہرہ کے چھوٹے بھائی کو چمکار کر گود میں بیٹھا لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے