پنکھی
وہ پانچ تھے کل ملاکر۔ اے کے سینتالیس اسالٹ بندوقوں سے لیس۔ شام کے چار بجے تھے جب وہ قصبے سے ذرا سا دور، چودھریوں کے پولٹری فارم پر آئے۔ چودھری بہت بڑے آدمی تھے۔ اپنے علاقے میں وہ ساہوکار کے نام سے مشہور تھے۔ خاندانی ساہوکار۔ سو سال ہوئے جب ان کے بزرگ کسی بڑے شہر سے آکر اس قصبے میں بس گئے تھے۔ آدمی بہت شریف تھے۔ آہستہ آہستہ سارا گاؤں ہی ان کا اپنا بن گیا۔ اثر و رسوخ کی وجہ سے بھی اور زمین جائیداد کی وجہ سے بھی۔ یہ امرتسر کا ضلع تھا۔ پاکستان کی سرحد یہاں سے تھوڑی دور ہی رہ جاتی ہے۔ سامنے لاہور تھا۔ ایک طرف قصور۔ ہندوستان تو سارا مشرق کی طرف رہ جاتا تھا۔
ستمبر شروع کے دن تھے۔ شام کے ساڑھے چار بجے بھی دھوپ کافی تیکھی تھی۔ امس بھی تھی آج کچھ۔ تھوڑی ہوا ہوتی تو دھوپ کی چبھن کچھ کم ہوجاتی۔
چودھریوں کا خاندان تو کافی بڑا تھا لیکن آج کل پریوار کے مکھیے صرف دو بھائی ہی تھے۔ بڑے کا نام تھا سردول سنگھ اور چھوٹا تھا منموہن سنگھ۔ پھر ان کے بیٹے تھے، پوتے تھے۔ بڑا بھائی ستر برس کا تھا اور چھوٹا پچاس پچپن کا۔ بظاہر دیکھنے میں وہ بھائی ہی نہیں بلکہ باپ بیٹے بھی جان پڑتے تھے۔ بڑا بھائی تو ویسے ہی باپ جیسا ہوتا ہے۔ لیکن وہ تو جیسے تھا ہی باپ۔ ماں باپ بچپن میں ہی سورگباس ہوگئے تھے۔ چھوٹا منموہن تب تین یا چار برس کا تھا۔ بڑے بھائی نے بیٹوں کی طرح منموہن کو پالا پوسا تھا۔ اس نے منموہن کو پالا پوسا ہی نہیں تھا، بلکہ کبھی کسی بات کے لیے منع بھی نہیں کیا تھا۔ جتنا چاہے خرچ کرے، جو چاہے شوق پورے کرے۔ اور شوق اس کے کیا تھے۔ آئے گئے کی سیوا کرنا۔
وہ شاعر تھا پنجابی کا۔ تھوڑا بہت تصویریں وغیرہ بنانے کا بھی شوق تھا۔ اس لیے شاعر اور کلاکار ہی اس کے پاس زیادہ آتے تھے۔ اس نے اپنے قصبے میں ساہتیہ سبھا بھی بنائی اور کلاکاروں کو اکٹھا کیا۔ کبھی کبھی وہ جلسے اور اجتماع بھی کرتا۔ سیکڑوں شاعر اور ادیب اس کے پاس آتے اور اس کے گھر ٹھہرتے۔ گھر بھی بہت بڑا تھا۔ سیڑھیاں، چوبارے، بھول بھلیاں، کمرے۔ امرتسر میں ساہوکاروں کے ایسے گھر ہوتے تھے، پہلے والے امرتسر میں، آج کے امرتسر نے ایسے گھروں کو تج دیا ہے۔ ان کی جگہ اب شہر کے باہر کوٹھیاں بنانے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ اگر آج بھی کوئی امرتسر میں ایسے گھروں میں رہتا ہے تو وہ صرف اس لیے کہ یہ گھر ابھی قائم ہیں۔ اس لیے ان میں رہتا ہے۔ ان گھروں کے مٹ جانے پر ان میں کوئی نہیں رہے گا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ شہروں کی شکل بدل جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی پرانا پن کہیں نہ کہیں قائم رہتا ہی ہے۔
جب بہت سے ادیب اس گھر میں آئے ہوئے ہوتے تو کئی بار ادھر اُدھر جاتے ہوئے وہ اس کی بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے۔ کدھر سے آئے ہیں کدھر جارہے ہیں۔ یہ ہم کدھر نکل آئے۔ ایسے موقعوں پر امرتسری طرز پر بنی یہ حویلی انہیں حیران کردیتی۔ اتنی ہی حیران کرتی اس گھر کی خاطرداری۔
پانچوں میں سے دو بندوق دھاری پولٹری فارم کے باہر گیٹ پر گھڑے ہوگئے، اور تین اندر چلے گئے۔ گیٹ کے سامنے سڑک تھی، جس پر لوگ ہمیشہ آتے جاتے رہتے تھے۔ سوگز کے فاصلے پر سی آر پی ایف کی چوکی تھی۔ لیکن یہ مصروف سڑک اور سی آر پی ایف کی چوکی ان کے لیے جیسے تھی ہی نہیں۔ حکومت یہاں کہنے کو تو پنجاب یا بھارت سرکار کی تھی لیکن راج دراصل ان گمراہ اور بے مہار نوجوانوں کا تھا جو اے کے سینتالیس ہاتھوں میں پکڑے لوٹ مار کرتے اور بے گناہوں کے خون سے دھرتی کو لال رنگ سے رنگتے پھرتے تھے۔ عام چلتی ہوئی سڑکیں اور سی آر پی ایف کی چوکیاں ان کے سامنے بے بس تھیں۔ ’’ہم کالی گائے ہیں تمہاری۔ ہمیں کچھ نہ کہنا۔ جدھر مرضی گھومو پھرو۔ ساری دھرتی تمہاری ہے۔ تم مالک ہو۔ ہم نوکر۔‘‘
چودھریوں کا آدھا پریوار فارم پر ہی رہا کرتا تھا۔ سردول سنگھ کا بیٹا اور بہو پوتا اور دوسرے بچے۔ فارم کے اندر کوٹھی بنی ہوئی تھی۔ اس میں اوپر بھی رہائش تھی۔ دومنزل کوٹھی تھی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، صوفے فرج وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ ٹیلیفون بھی لگا تھا۔ گھر پر بھی ٹیلیفون تھا اور فارم پر بھی۔ پیسے والے تھے، اس لیے قصبے میں اچھی شہر جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔ چندی گڑھ نئی طرز کا بڑا ہی خوبصورت شہر ہے۔ ان کے لیے یہی چندی گڑھ تھا۔
اے کے سینتالیس لیے ہوئے جب تین نوجوان اندر آتے ہوئے دکھائی دیے تو پولٹری فارم والے سارے سہم سے گئے۔ یہ تو اچھے آثار نہیں ہیں۔ سردول سنگھ کا پندرہ سولہ سال کا پوتا، جو بڑا ہی خوبصورت ہے، ان کو دیکھتے ہی فوراً چھت پر چلا گیا اور ساتھ ہی اس کی ماں بھی پیچھے پیچھے بھاگتی ہوئی گئی۔ انہیں ہوش نہیں تھا کہ کب وہ سیڑھیاں چڑھے اور کب انہوں نے چوبارے میں پہنچ کر اندر سے کنڈی لگالی۔ یہ سب کچھ بجلی کی سی تیزی سے ہوگیا تھا۔
کنڈی انہوں نے ابھی جالی والے دروازے کی ہی لگائی تھی۔ دوسرا لکڑی کادروازہ ابھی وہ بند کرنا ہی چاہتے تھے کہ تین میں سے دو بندوق دھاری ان کے پیچھے پیچھے اوپر آگئے اور جالی والا دروازہ کھینچ کر اس کی کنڈی توڑ دی۔ کنڈی کی بھلا کیا مجال تھی کہ ان لوگوں کے سامنے نہ ٹوٹتی جن کے سامنے ساری سرکار ہی ٹوٹی پڑی تھی۔ چاہے وہ پنجاب کی تھی چاہے بھارت ورش کی۔ یہ کنڈی تو ان کے ضرورت سے زیادہ بڑھے ہوئے حوصلوں نے توڑی تھی، نہیں تو کسی کی کنڈیاں کہیں ایسے ٹوٹ سکتی ہیں۔
ماں اپنے بیٹے کو اپنی بانہوں میں سمیٹے اپنے سینے سے لگائے کھڑی تھی۔ اس وقت وہ اس معصوم بھیڑکی طرح لگ رہی تھی جس کا ننھا معصوم چھیلا بھیڑیوں میں گھر گیا ہو۔ اگر وہ گولیاں ماریں گے تو اپنے بیٹے سے پہلے وہ گولیاں کھائے گی۔ لیکن وہ گولیاں مارنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے بیٹے کو اغوا کرنے کے لیے آئے تھے۔ ساہوکاروں کالڑکا تھا۔ خوبصورت اور الہڑ عمر، ان کے لیے وہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی تھی۔ اس وقت وہ اس مرغی کو ہی حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔ گولیاں تو بعد کی بات تھی۔ اور وہ مرغی انڈا دینے سے انکار کرے تب۔
’’لڑکا ہمارے حوالے کر۔‘‘
’’نہیں۔ میں لڑکا نہیں دوں گی۔ چاہے مجھے مارڈالو۔‘‘
’’اگر ہم ماریں گے تو پہلے اسے ماریں گے اور تیرے سامنے ماریں گے اور پھر تجھے ماریں گے۔ اس لیے اگر تم خیر چاہتی ہو، اسے ہمارے ساتھ بھیج دے۔ ہم اسی کے لیے آئے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں اسے نہیں دوں گی۔‘‘
’’تیری ایسی کی تیسی۔ حرامزادی۔ کتیا۔‘‘ اور انہوں نے اس کے بازوؤں سے لڑکے کو چھین کر اپنی طرف کرلیا اورپھر ان میں سے ایک بولا، ’’میری طرف دیکھ۔ پہچانتی ہے مجھے؟ اگر نہیں تو اب پہچان لو۔ میرا نام دھرم سنگھ ہے۔ اس کا نام صاحب سنگھ۔ ہم اسے لیے جارہے ہیں۔ نوبجے رات کو، شمال کی طرف جو پلیا ہے، وہاں پر کوئی آکر ملے اور ہم سے بات کرے۔ پھر ہم چھوڑیں گے اسے، نہیں تو مار دیں گے، تب تک ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔ اس سلسلے میں بے فکر رہنا۔‘‘
اور وہ لڑکے کو ساتھ لے کر چلے گئے۔
فارم میں چھ نوکر تھے۔ لیکن چھ کے چھ کو ایک بندوق دھاری نے ایک طرح سے باندھ رکھا تھا۔ اے کے سینتالیس کے سامنے سب کی بولتی بند ہوگئی تھی۔
بیس بائیس کی عمروں کے تھے وہ سب، بلکہ اس سے کم بھی تھے۔ دھرم سنگھ بیس اکیس کے بیچ کاہوگا اور صاحب سنگھ مشکل سے اٹھارہ برس کا ہی لگ رہاتھا۔
’’ان کے اصل نام اور تھے۔ یہ نام تو انہوں نے امرت پان کرنے کے بعد رکھے تھے۔ دھرم سنگھ، صاحب سنگھ۔۔۔ یہ گوروگوبند سنگھ کے پانچ پیاروں والے نام ہیں۔ دھرم سنگھ، صاحب سنگھ، حکم سنگھ، دیا سنگھ اور ہمت سنگھ۔ ان ناموں میں سے دیا سنگھ کا نام وہ نہ رکھنا چاہتے ہوں۔ باقی سارے نام ان پر مناسب لگتے تھے۔
ڈری اور گھبرائی ہوئی سردول سنگھ کی بہو نے اپنے گھر فون کیا اور ان سب کو فوراً پولٹری فارم آنے کے لیے کہا۔ فارم اور گھر میں مشکل سے دوفرلانگ بھر کا ہی فاصلہ تھا۔ آٹھ دس منٹوں میں ہی سارے وہاں پہنچ گئے۔ منموہن سنگھ، سردول سنگھ دونوں کی بیویاں اور سارا پریوار۔ اب وہ رات کو نوبجے پلیا پر پہنچنے کے لیے صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ کون جائے کیسے جائے۔ کس کو ساتھ لے کر جائے؟ شیروں کے غار میں جانے والی بات تھی۔ جسے بھی جانا تھا، اس کے واپس آنے کی تو امید ہی کوئی نہیں تھی۔ سرپر کفن باندھ کر جانے والی بات تھی۔
ان کے ساتھ ہی بچتر سنگھ نہنگ کا پولٹری فارم تھا۔ معمولی سا کام تھا۔ بہت تھوڑے ہرڈ تھے۔ بچتر سنگھ نے جب چودھریوں کے فارم پر کچھ ہلچل دیکھی تو جیسے کچھ ہوا دیکھ، پتہ کرنے کے لے آگیا۔
’’کیوں بھائی، کیا بات ہے؟‘‘
منموہن اور سردول سنگھ نے اسے ساری بات بتائی۔ پتہ تو اسے سب تھا ہی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا جیسے اسے ابھی ابھی ہی ساری بات کا پتہ چلا ہو۔ ’’اچھا! یوں ہوا؟‘‘ کنور پال کو لے گئے؟ بڑے حرامی ہیں سالے؟ سالوں نے سکھ پنتھ کو پوری طرح بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ ذرا بھی عزت نہیں رہنے دی۔ انہوں نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رکھا۔ پہلے سالے ہندوؤں کو ہی لوٹتے اور مارتے تھے۔ اب حرامی سکھوں کو بھی لوٹنے مارنے لگ گئے ہیں۔ ان کا بھلا کہاں ہوگا؟
بچترسنگھ نہنگ پہلے پوست کے ڈوڈے اور افیم کی اسمگلنگ کیا کرتا تھا۔ اب اس نے نہنگوں والالباس پہن لیا تھا۔ یہ چولا گوروگوبند سنگھ کی بخشش سے ملاہے۔ اس پوِتر چولے میں سب کچھ چھپ جاتا ہے۔
بچتر سنگھ نے ان دنوں ایک اور کام شروع کردیا تھا۔ اب وہ دہشت پسندوں کے پاس کھاتے پیتے لوگوں کی مخبری کیا کرتا تھا۔ کون کتنے پیسے دے سکتا ہے اور کس کے کس بیٹے کو کب اغوا کیا جاسکتا ہے۔ جو رقم ہاتھ لگتی تھی، اس میں بچترسنگھ کا بھی کچھ حصہ ہوا کرتا تھا۔ نوٹوں کی ایک گڈی کھلے دل سے اس کی طرف پھینکی جاتی۔ لے بھئی بچترسنگھ اپنا کمیشن لے۔ بچترسنگھ کی مالی حالت کافی اچھی ہو رہی تھی۔
بچتر سنگھ نہنگ صرف مخبری ہی نہیں کرتاتھا بلکہ بعد میں بیچ بچولابن کر سودا بھی کرواتا تھا۔ جس کا لڑکا اغوا ہوتا تھا، وہ اس حقیقت سے واقف ہوتاتھا کہ اس کی کیا حیثیت ہے۔ جب بھی کوئی اغوا ہوتا تھا اسے پتہ لگ جاتا تھا۔ اسی کے منصوبے کے مطابق ہی تو اغوا کیا جاتا تھا اور وہ ہمدردی کے لیے اس کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ لوگوں کو بھی اس موقع پر بچترسنگھ کی سخت ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ حالانکہ ان کو یہ بھی پتہ ہوتا تھا کہ اس میں بچترسنگھ کا بھی ہاتھ ہے۔
پلیا پر نو بجے منموہن سنگھ جانا چاہتا تھا کہ لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ ابھی نہنگ ہی جائے گا۔ نہنگ نے ہی کہاتھا کہ ان کا جانا ٹھیک نہیں۔
پلیا وہاں سے نزدیک ہی تھی۔ لگ بھگ ایک کلومیٹر۔ بچتر سنگھ پلیا پر نو بجے پہنچ گیا تھا لیکن نوبجے کا گیاوہ گیارہ بجے واپس لوٹا۔ اس کے پاس ایک چٹھی تھی جو لڑکا اغوا کرنے والوں نے اسے لکھ کر دی تھی۔ انہوں نے لڑکے کے عوض ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا۔ ایک لاکھ دو اور لڑکا واپس لے جاؤ۔ کل دوپہر باہر بجے اسی پلیا پر آؤ، لڑکا صحیح سلامت ہے۔ اگر تم بتائے ہوئے وقت پر نہیں آؤگے تو لڑکا نہیں ملے گا۔ اس کے بعد وہ لڑکے کو گولی ماردیں گے۔ چٹھی کے نیچے صرف ’’ببرخالصہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ نام نہیں تھا کسی کا۔
چٹھی پر لڑکے نے بھی تھوڑے سے لفظ لکھے تھے، ’’لاکھ روپیہ لے کر آؤ۔ تبھی یہ لوگ مجھے چھوڑیں گے نہیں تو مار دیں گے۔ ویسے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کہتے ہیں کہ تو بھی ماں باپ کو چٹھی لکھ۔‘‘
لڑکے کو انہوں نے ایک گاؤں کی بیٹھک میں رکھا تھا، جو پلیا سے تھوڑی دور پر تھی۔ بچترسنگھ نہنگ پہلے پلیا پر گیا تھا اور پھر وہاں سے بیٹھک پر۔ اسی لیے وہ نو بجے کا گیا گیا گیارہ بجے لوٹا تھا۔ سودا طے کرنے میں کچھ دیر لگ گئی تھی۔ وہ تین لاکھ کہتے تھے، بچترسنگھ نے کہا تھا کہ ایک لاکھ بہت ہے۔ اسے سب کا پتہ ہے کہ کس کی کیا حیثیت ہے اور کون کتنا دے سکتا ہے۔ تین لاکھ دینے والے بھی اس نے ان کو بتائے تھے اور تین لاکھ دلائے بھی تھے۔ لیکن یہ پڑوس کامعاملہ تھا، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ رعایت کروانی چاہتا تھا۔ یوں یہ ساہوکار تین لاکھ دے سکتے تھے لیکن وہ ایسا چاہتا نہیں تھاکیوں کہ ان سے اس کاپرانا واسطہ تھا۔
اگلے دن ٹھیک وقت پر منموہن اور سردول سنگھ، بچتر سنگھ نہنگ کے ساتھ پلیا کی طرف چل دیے۔ منموہن سنگھ دلیر تھا۔ سردول سنگھ کمزور سا، من سے بھی اور جسم سے بھی۔ لیکن آدمی جب موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہو اور زندگی کی نسبت موت زیادہ قریب ہو تو ایسے موقعوں پر اکثر دلیر بھی ہوجاتا ہے۔
منموہن اور سردول سنگھ نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ اس سانحے میں نہنگ کا پورا ہاتھ ہے اور اس وقت وہ جھوٹ موٹ کا ہمدرد بنا ہوا ہے، اس لیے ان کے دل میں غصہ بھی تھا۔ اتنے تعلقات اور پھر پڑوسی اور ان کے ساتھ یہ سلوک؟ ایک گھر تو کہتے ہیں ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ سردول سنگھ بچتر سنگھ کے ساتھ گلا شکوہ کرتا جھگڑ سا پڑا اور وہ دونوں چلتے چلتے ایک جگہ رک گئے۔ سردول سنگھ کہہ رہا تھا کہ اسے ان کے ساتھ ہی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نہنگ صفائی دے رہا تھا۔ اسی دوران منموہن سنگھ ان سے آگے نکل کر پلیا پر پہنچ گیا۔
پلیا کے نزدیک ادھر اُدھر اونچے اونچے سرکنڈے تھے۔ منموہن وہاں پہنچا تو فوراً ہی سرکنڈوں میں سے ایک نوجوان باہر آیا۔
’’سنگھا! تم کون ہو؟‘‘ نوجوان نے للکارا۔
’’جس کا تم انتظار کر رہے ہو سنگھا۔‘‘ اس وقت منموہن تھوڑا سا مسکرا بھی رہا تھا۔
گھر سے چلتے وقت منموہن نے سردول سنگھ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا، ویر جی! گھبرانا نہیں، سمجھ لو کہ ہم وہاں لڑکا لینے نہیں گولیاں کھانے جارہے ہیں، انہیں گولیاں مارنے کے علاوہ اور کوئی بات آتی ہی نہیں۔ نہ وہ بچے کو دیکھتے ہیں، نہ عورت کو نہ بوڑھے کو۔ اس وقت آپ ستر سال کے ہوچکے ہیں۔ پچاس پچپن کا میں بھی ہوں، ہم نے اس سنسار کا کافی مزا لے لیا ہے۔ ہاں لڑکا بچ جائے۔ اس نے ابھی اس سنسار کاکچھ نہیں دیکھا۔ لڑکے کو بچانا ہے۔ ہم چاہے مر ہی جائیں۔ سو۔۔۔ گھبرانا نہیں ہے۔ بالکل گھبرانا نہیں۔ بلکہ ہم انہیں چمکتی آنکھوں سے ملیں۔ جیسے ہم ان سے نیچے نہیں، اونچے ہوں۔‘‘
منموہن کا جواب سن کر، ’’میں سنگھاوہی ہوں جس کا تمہیں انتظار ہے۔‘‘ اس لڑکے نے کہا، ’’آؤ پھر کچے راستے کی طرف سے آجاؤ۔‘‘
سڑک چھوڑ کر وہ تقریباً بیس قدم کچے راستے پر آگئے۔ وہ کچے راستے پر آئے ہی تھے کہ ایک اور نوجوان جھاڑیوں سے نکل کر باہر آگیا۔ اب وہ دو ہوگئے تھے۔ پہلا تقریباً بیس سال کا تھا اور دوسرا اس سے چھوٹا تھا۔ اس کی عمر مشکل سے اٹھارہ سال کے قریب ہوگی۔
پہلے نوجوان نے منموہن کی طرف اشارہ کرکے دوسرے نوجوان سے کہا، ’’تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ اس نے کہا، ’’نہیں۔‘‘
منموہن ہنستے ہوئے بولا، ’’تم تو مجھے نہیں پہچانتے، میں تمہیں پہچانتا ہوں۔‘‘ وہ پہچانتا نہیں تھا۔ ایسے ہی کہہ دیا تھا، یوں ہی مذاق میں۔ اس کے اس طرح کہنے میں ایک طنز بھی تھا جو انہیں سمجھ نہیں آیا تھا۔ طنز کے بھیدوں کا رشتہ نازک دلوں سے ہوتا ہے۔ موٹی عقل کے لوگوں کو طنز چھونہیں پاتے۔ اس کے بعد منموہن نے کہا تھا، ’’تم ہمارے ہی لڑکے بالے ہو۔ کہیں باہر سے نہیں آئے۔‘‘
نیچے منڈیر پر اے کے سینتالیس ایک طرف زمین پر ہی پڑی تھی۔ انہوں نے وہ بندوق اٹھائی اور کندھے پر رکھ لی، ’’آؤ ہم ایک طرف باغ میں چل کر بیٹھیں سائے میں۔ وہیں بات کریں گے۔‘‘
ساتھ ہی ناشپاتیوں کا باغ تھا۔ ناشپاتی کے ایک پودے کے نیچے وہ تینوں بیٹھ گئے۔ ان سے تھوری ہی دور باغ میں، باغ کے مزدور کام کر رہے تھے۔ وہ ایسے ہی چپ چاپ اپنا کام کرتے رہے، جیسے ان کو اس سلسلے میں کچھ بھی پتہ نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس قسم کی باتیں یہاں روز ہوتی رہتی ہیں۔ نیا تو کچھ تھا نہیں۔
ان میں سے ایک لڑکا بات شروع کرنے لگا۔ منموہن سنگھ بولا، ’’میرے ساتھ دو آدمی اور بھی پیچھے آرہے ہیں۔ ان کو آلینے دو۔‘‘
’’کون کون ہیں؟‘‘
’’ایک تو آپ کا ہی جتھے دار ہے بچترسنگھ نہنگ، دوسرا میرا بھائی ہے بڑا۔‘‘
’’پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’چلو اب بتادیا۔ وہ کافی پیچھے آرہے تھے۔‘‘
’’اچھا، بلالو ان کو۔‘‘
وہ پلیا پر آپہنچے تھے۔ منموہن نے باغ سے باہر آکر ان کو اشارہ کیا۔ وہ بھی باغ میں پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ ان میں سے بڑے کانام دھرم سنگھ تھا۔ چھوٹے کا صاحب سنگھ۔
دھرم سنگھ بولا، ’’آپ کے پاس پیسے بہت ہیں۔ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ لڑکاآپ کا بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ابھی تک بال بھی بیکا نہیں کیا۔ دیکھنا چاہو تو دیکھ لو۔‘‘
’’تم لوگ دھرم کو ماننے و الے آدمی ہو۔‘‘ منموہن سنگھ نے کہا۔ جو کہہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے۔ تم جھوٹ نہیں بولتے، لڑکا ٹھیک ہی ہوگا۔ جو بات کرنی ہے، اب وہ بات کرو ہمارے ساتھ۔‘‘
’’وہ بات رات کے وقت ہم نے آپ کو بتاہی دی تھی۔ ایک لاکھ روپے دو۔‘‘
’’سنگھ صاحب! یہ ہماری حیثیت سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ بات منموہن ہی کر رہا تھا۔
’’اگر کم کرنے کو کہوگے تو ہم دس ہزار اور بڑھادیں گے، جتنی بار کہوگے، اتنی بار دس ہزار بڑھتے جائیں گے۔‘‘
بچترسنگھ بولا، ’’سنگھو! یہ میرے پڑوسی ہیں۔ آپ نے اور لوگوں سے اتنے پیسے وصول کیے ہیں، میں نے دخل نہیں دیا ہے۔ انہیں اتنی چوٹ نہ مارو۔‘‘
’’اگر ان سے اتنی ہمدردی ہے تو ان کی جگہ تو دے دے۔‘‘
’’کیوں میں کیوں دے دوں۔ میرے پاس خزانے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
’’پھر تم بولتے کیوں ہو بیچ میں۔ ان سے کہہ چپ کرکے لاکھ روپے رکھ دیں۔‘‘
بچتر سنگھ کو کچھ غصہ سا آگیا، ’’شرم کرو۔ اوے شرم کرو۔ سارا قصبہ لوٹ لیا۔ مجھے تو یہیں پر رہنا ہے۔ مجھے یہاں رہنے لائق چھوڑوگے یا نہیں۔‘‘
’’جتھے دار زبان بند رکھ، بھونکے جارہا ہے فالتو سا۔ انہوں نے تو ہمارے ہاتھ سے مرناہی ہے، کہیں تم بھی نہ مرجانا۔‘‘
حالت بہت نازک تھی، بیشک جتھے دار ان کااپنا ہی آدمی تھا۔ لیکن ان کا اپنا کون تھا۔ ان کا تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا تھا۔ وہ ہر کسی کے دشمن تھے، اور اپنے آپ کے بھی۔
بڑے ہی تحمل سے منموہن سنگھ بولا، ’’دیکھو سنگھ صاحب! ہم تین لوگ آپ کے بلانے پر یہاں آئے ہیں۔ ہماری بھی کوئی تہذیب ہے۔ گوروؤں نے بھی ہمیں ایک تہذیب بخشی ہے، شائستگی اور مٹھاس، رحم اور معاف کرنے کاجذبہ اور صبر سنتوش۔ پریم اور پیار کے تو انہوں نے بڑے گن گائے ہیں۔ کیا ہماری تہذیب میں گھر آئے آدمی سے ایسے بولاجاتا ہے؟ نہیں۔ گھر آئے آدمی کی تو بڑی عزت کی جاتی ہے۔ بہتریہ ہے کہ ہم کوئی کام کی بات کریں اور بات کو آگے چلائیں۔ ایسی کڑوی کسیلی باتیں کیوں کریں؟
’’ہم نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ تم پیسے لے کر آؤ۔ ہم کل آپ کالڑکا واپس دے دیں گے۔‘‘
’’یہ مجھے منظور نہیں۔‘‘ منموہن سنگھ دلیری سے بے خوف ہوکر بولا، ’’میں بیوپاری آدمی ہوں۔ جب ہم نقد سوداکر رہے ہیں تو پھر آج اور کل کے کیا معنی؟ ایک ہاتھ سے پیسے لو۔ ایک ہاتھ سے لڑکا دو۔ میں نے تمہیں کچھ پیسے کم کرنے کے لیے کہا، تم گرم ہوگئے۔ دیکھو، اس وقت ہم دونوں ہی بیوپاری ہیں۔ تمہیں لاکھ چاہئیں۔ ہمیں ہمارا لڑکا۔ سودے بازی تو ہوگی ہی۔ اس لیے تم لوگ بات کروبڑے ہی ٹھنڈے دل سے۔‘‘
ان میں سے چھوٹی عمر کاصاحب سنگھ بولا، ’’ٹھیک اے یار۔ ٹھیک ہے۔ بات کو ختم کرو۔‘‘
’’ایک لاکھ روپیہ ضروری نہیں کہ ہر وقت اپنے پاس تیار ہی رکھا ہو۔ چاہے کوئی کتنا ہی امیر ہو۔‘‘ منموہن سنگھ کہہ رہاتھا۔ پچاس ہزار ابھی پندرہ منٹ میں آجائے گا، باقی ہم دودن ٹھہر کے دے دیں گے۔‘‘
’’دودن۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ لڑکا تبھی لے لینا۔‘‘
’’نہیں یار۔ گھر میں تو کسی نے کچھ کھایا ہے نہ پیا ہے، کل شام سے۔‘‘
’’ہمیں کیسے پتہ لگے گاکہ باقی تم دے بھی دو گے۔ ضمانتی کون ہوگا؟‘‘
’’ضمانتی، تمہارا یہ جتھے دار بچتر سنگھ بیٹھا ہے۔‘‘
’’کیوں جتھے دار لیتے ہو ذمہ داری؟‘‘
’’ہاں جی! میں ذمے دار ہاں۔ باقی رقم آپ کو دو دن میں دے دی جائے گی۔ کل، پرسوں، چوتھ کو مل جائے گی۔‘‘
منموہن سنگھ ایک لاکھ بھی دے سکتا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر رقم توڑ کر دینا چاہتا تھا کہ یہ احساس ہو کہ ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ ان کا کیا جاتا ہے؟ کل کو اور پیسے مانگ لیں۔
’’اچھا پھر سائیکل لو اور پچاس ہزار لے آؤ۔ ہم لڑکا لے کے آتے ہیں۔‘‘
دس بیس منٹوں میں ہی وہ دس دس ہزار کی پانچ گڈیاں لے کر باغ میں واپس آگئے۔ باغ میں بہتی ہوئی پانی کی نالی کے اوپر چارپائی بچھاکر بیٹھے تھے وہ۔ دھرم سنگھ اور صاحب سنگھ۔ اے کے سینتالیس پاس ہی چارپائی پر رکھی تھی۔ منموہن سنگھ نے پانچوں گڈیاں چارپائی پر رکھتے ہوئے کہا، ’’دیکھو سردار دھرم سنگھ پچاس ہزار روپیہ تمہاری چارپائی پر پڑا ہے لیکن اسے ہاتھ تم تب لگانا جب تم ہمارالڑکا میرے ہاتھ میں دے دو۔ تم بھی پکے دھرمی سنگھ ہو۔ میں بھی دھرمی سنگھ ہوں۔ ہمارا ایک ہی دھرم ہے۔ ایک ہی اپنا گورو۔ اس لیے ہمارا برتاؤ صحیح رہے اور اپنی بات پر پکے رہیں۔
بات بڑی معمولی تھی۔ بڑا چھوٹے سے بولا، دھرم سنگھ صاحب سنگھ سے، ’’جا اوے تو سائیکل لے جا اور ابھی لڑکے کو لے آ۔ جلد آنا۔ بھاگ کے۔‘‘
صاحب سنگھ چلا گیا۔
یہاں تھوڑی دوری پر آموں کاایک باغ تھا۔ اس طرح وہاں بھی کچھ آدمی آئے بیٹھے تھے جن کے لڑکے کا اغوا انہوں نے پیسے کے لیے کیا تھا۔ وہ بھی انتظار کر رہے تھے۔ دھرم سنگھ نے اس کے ساتھ ہی بچتر سنگھ کو حکم دیا، ’’جتھے دار تو آموں کے باغ کی طرف جا اور جو آدمی وہاں بیٹھے ہیں، ان سے کہہ کہ وہ ابھی رکیں۔ ان کو بھی بلاتے ہیں۔ پہلے ان کا بھگتان کرلیں۔ چلانہ جائے کوئی وہاں سے۔ نہیں تو ہمیں کوئی اور ہنگامہ کرنا پڑے گا۔ جاکے ان کو روک۔‘‘
جتھے دار چلا گیا۔
منموہن سنگھ، دھرم سنگھ کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا تھا۔ سردول سنگھ ان سے ذرا ہٹ کر زمین پر ہی بیٹھا تھا۔ پچاس ہزار روپیہ اور اے کے سینتالیس ننگی چارپائی پر ان کے بیچ رکھے تھے۔ بچتر سنگھ اور صاحب سنگھ دونوں وہاں سے جاچکے تھے۔ اب یہ دو بھائی تھے اور دھرم سنگھ اکیلاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ دھرم سنگھ سردول سنگھ کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا، ’’یہ بوڑھا کیوں بیٹھا ہے یہاں؟ پیسے تم نے دینے ہیں اور لڑکا تم نے لینا ہے۔ اس کا یہاں کیا کام ہے؟ چلتاکر اس کنجر کو۔ چل اوے بوڑھے۔ دفع ہو۔ کیسے چوڑا ہوکر بیٹھا ہے۔ جیسے پاٹھ سن رہا ہو۔ چل یہاں سے۔ دوڑ جا۔‘‘
سردول سنگھ اٹھا اور باغ سے باہر چلاگیا۔ منموہن نے بھی کہا تھاکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں، آپ چلو بھائی صاحب۔
اب یہاں باغ میں صرف منموہن سنگھ اور دھرم سنگھ ہی رہ گئے تھے۔ بڑی ہی نرمی سے منموہن سنگھ بولا، ’’دھرم سنگھ!اب یہاں ہم دونوں ہی ہیں۔ تیسرا آدمی کوئی نہیں۔ اس لیے میں تیرے ساتھ ایک بات کرنی چاہتا ہوں۔ تم لوگ دھرم کے سچے پیروکار ہو، آپ ان پیسوں کوکسی ٹھیک کام میں لگانا۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو ہم ان پیسوں کااستعمال غلط کام کے لیے کر رہے ہیں؟‘‘
’’یہی کہنا چاہتا ہوں میں۔ تم لوگ جس راہ پر آگے بڑھ رہے ہو، اس کے بارے میں کچھ پتہ بھی ہے، وہ کس طرف جاتاہے؟‘‘
دھرم سنگھ غراکر بولا، ’’تو ہمیں مورکھ سمجھتا ہے؟‘‘
’’نہیں، میں تم لوگوں کو مورکھ بالکل نہیں سمجھتا۔ نہ ہی میں نے آپ کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ چاہے کوئی بھی لہر ہو، وہ عوام سے جڑے بغیر زندہ نہیں رہ پاتی اور لوگوں سے وہ جڑتی ہے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے سے۔ تم جو کر رہے ہو، کیا اس میں لوگوں کی بھلائی ہے؟ غصہ نہیں کرنا، ٹھنڈے دل سے سوچنا۔ تم لوگوں کے بچے اغوا کرکے ان سے پیسے لیتے ہو۔ کیا وہ تمہارے ساتھ جڑیں گے؟ آپ لوگوں کو کامیابی کیسے حاصل ہوگی؟ پہلے تم ہندوؤں سے ہی یہ سلوک کر رہے تھے۔ اب آپ لوگوں نے سکھوں سے بھی وہی شروع کردیا ہے۔ آپ لوگ سکھ، میں بھی سکھ، لیکن جو نفرت آپ نے اپنے لیے میرے دل میں بھردی ہے، کیا وہ میرے دل سے کبھی ختم ہوسکے گی؟ تم لوگ اپنے دوست نہیں، اپنے دشمن پیدا کر رہے ہو۔
وہ بچہ جسے آپ نے بندوق کی نوک پراغوا کیا ہے، سکھ دھرم کے نام پر، کیا وہ ساری عمر کبھی سکھ دھرم کو اچھا سمجھے گا۔ گورو کی بانی تم بھی پڑھتے ہو، میں بھی پڑھتا ہوں۔ گورو گرنتھ میں مجھے کوئی ایک بھی ایسی سطر بتادو جو بے گناہوں کاقتل کرنے کے لیے اکساتی ہو۔ سکھ دھرم تو کمزور اور دکھیوں کی حفاظت کرتاہے۔ رحم کی تعلیم دیتا ہے۔ جو لوگ تمہارے سامنے منتیں کرتے ہیں، تم لوگ انہیں بھی نہیں بخشتے۔ یہ سکھ دھرم کا حکم نہیں۔ دھرم سنگھ میرے پاس سکھ دھرم کے تعلق سے اچھی اچھی کتابیں ہیں۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ کتابیں پڑھنے کے لیے دے سکتا ہوں۔
سکھ کے بارے میں کہا گیا ہے، ’’خالصہ کا من نیچا، عقل اونچی۔‘‘ وہ کتابیں پڑھو تو آپ کا من نیچا اور عقل اونچی ہوجائے گی۔ غصہ نہیں کرنا۔ اس وقت تم اس اصول کے بالکل الٹ جارہے ہو۔ خیر۔ میں کہنانہیں چاہتا، چلو کہہ ہی دیتا ہوں۔ کیونکہ ہم دوست ہیں اس وقت۔ اب کوئی جھگڑا نہیں رہا۔ آپ کو لاکھ روپیہ مل جانا ہے اور ہمیں ہمارا لڑکا۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اب آپ کا من اونچااور عقل نیچی ہوگئی ہے۔ دھرم سنگھ سوچو! اپنے آپ کا تجزیہ کرو، تم دھرم کو ماننے والے آدمی ہو۔‘‘
دھرم سنگھ کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ تھوڑا رک کر بولا، ’’ان باتوں کاجواب آپ کو ہمارا پی اے دے گا۔‘‘
منموہن سنگھ ہنسا، ’’دھرم سنگھ اصل میں تم کہنا یہ چاہتے ہو کہ ان باتوں کا جواب ہمارا سینئرموسٹ دے گا۔ ہمارا بڑا نیتا۔ لیکن کہا تم نے پی اے ہے۔ پیاے تو میرے ویر، اپنے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اپنے ماتحت۔۔۔‘‘
’’چلو۔ ایسے ہی ہوگا۔‘‘ دھرم سنگھ نے آہستہ سے کہا۔
منموہن سنگھ نے تھوڑا سابات کارخ بدلااور تھوڑی سی ہنسی اور طنز سے بولا، ’’دھرم سنگھ یارا۔ آپ پر تو پیسے برس رہے ہیں بارش کی طرح۔ آپ کو تو بھوک لگتی نہیں۔ میں تو صبح کاآیا بھوکا پیاسا بیٹھا ہوں۔ اب دو بجنے لگے ہیں اور وہ بھی ناشپاتیوں کے باغ میں۔ یار دوناشپاتیاں تو لا۔ کچھ بھوک مٹائیں۔‘‘
’’ناشپاتیاں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’لو ابھی آتی ہیں۔‘‘
دھرم سنگھ اٹھا اور ناشپاتیاں لینے کے لیے چلا گیا۔ اچھی اچھی ناشپاتیاں۔ پچاس ہزار روپے کی گڈیاں اور اے کے سینتالیس پیچھے چارپائی پر ہی پڑی رہ گئیں۔ ان کے بارے میں اس کے دل میں ذرا بھی فکر نہیں تھی۔ کون تھا جو ان کو وہاں ہاتھ بھی لگاسکتا تھا۔ جان کی سب کو ضرورت تھی۔
بہت بڑھیا ناشپاتیاں آئیں۔ کشمیر کے بگّوگوشوں کو مات کرتی ہوئی ناشپاتیاں، دونوں ناشپاتیاں کھانے لگے۔ ناشپاتیاں کھاتے کھاتے منموہن سنگھ نے بات کا رخ پھر اسی طرف موڑ لیا۔ لاکھ روپیہ تو دینا ہی پڑا ہے۔ باتیں تو کرلیں دو۔
’’دھرم سنگھ!میں نے اپنی زندگی آدھے سے زیادہ جی لی ہے۔ ہمارے گھر میں بندوقیں بھی ہوتی ہیں۔ میرا نشانہ بھی کبھی غلط نہیں ہوا کبھی۔ ساراعلاقہ اس بات کو جانتا ہے۔ اگر مجھے اپنے راستے اور منزل کے سلسلے میں کچھ سمجھا سکو کہ اس سے دیش اور قوم کا یہ بھلا ہے تو میں ابھی، اسی پل لڑکے کو گھر بجھواکر آپ کے ساتھ مل جاؤں گا۔ اور آگے ہوکر لڑوں گا۔ مجھے کچھ سمجھاؤ تو سہی۔‘‘
’’تمہیں میرا امتحان لینا ہے؟‘‘
’’دیکھ دھرم، برا نہ منا۔ میں دلیل سے بات کر رہاہوں، تم دلیل سے جواب دو۔‘‘
’’یہ باتیں چھوڑو، ان کاکوئی مطلب نہیں۔‘‘ دھرم سنگھ نے دوسری طرف آنکھیں پھیر لیں۔
صاحب سنگھ بیٹھک کی طرف سے خالی واپس آگیا تھا۔ سردول سنگھ وہاں سے چل کر گھر نہیں گیا تھا۔ وہیں پلیا پر بیٹھ گیا تھا۔ لڑکا اس نے راستہ میں خود ہی لے لیا تھا۔ منموہن سنگھ کو یہ بات ٹھیک نہیں لگی، ’’یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ پیسے میں دے رہا ہوں لڑکا مجھے ہی ملنا چاہیے تھا۔‘‘
’’یار۔ بوڑھے نے لے لیا۔ پلیا پر بیٹھا تھا۔ کہنے لگا، مجھے ہی دے دو۔‘‘
’’جا۔ اس سے لے کے آ۔‘‘ دھرم سنگھ نے حکم دیا، ’’روک اس سور کو جاکر۔‘‘
پلیا پر اس وقت کوئی اسکوٹر آگیا تھا اور قصبے کی طرف جارہاتھا۔ سردول سنگھ اور لڑکا دونوں اس کے پیچھے بیٹھ گئے تھے۔ صاحب سنگھ نے بتایا کہ وہ دونوں وہاں سے جاچکے ہیں۔ وہ تو اب سکوٹر پر گھر بھی پہنچ گئے ہوں گے۔‘‘
اغواکیا ہوا لڑکا تو رہا کیاجاچکا تھا۔ منموہن سنگھ اے کے سینتالیس والوں کے پاس ہی تھا۔ کہیں وہ اب اسی کو نہ رکھ لیں اور لاکھ اور مانگ لیں۔ ان کا کیا جاتا ہے۔ یہی کہہ دینا ہے کہ ایک لاکھ اور دو، نہیں تو۔۔۔‘‘
اس نے بڑے تحمل اور شائستگی سے کہا، ’’اچھا پھر دھرم سنگھ جی، مجھے اب اجازت ہے؟‘‘
’’ہاں۔ تم جاؤ۔ باقی رقم آجائے۔ کہے ہوئے وعدے کے مطابق۔‘‘
’’ہر حالت میں آئے گی جی۔ ہے کسی میں طاقت جو آپ کی رقم روک لے۔‘‘
’’ایک بات اور سن۔‘‘ دھرم سنگھ کہہ رہا تھا، ’’افسر سارے واقف ہیں تیرے۔ پولیس والے بھی اور دوسرے افسر بھی۔ اگر کسی کو بتاؤگے تو سمجھ لینا۔۔۔‘‘
’’دھرم سنگھ بات سن! پولیس کویا افسروں کو بتانے کی مجھے ضرورت نہیں، میں نہیں بتاؤں گا۔ لیکن میرے دوست متر ہیں۔ رشتے دار، بھائی بند، ان کو میں یہ سب کیسے نہیں بتاؤں گا۔ آپ لڑکا لے آئے، بعد میں ہم نے سارے رشتہ داروں کو پیغام بھیجے۔ امرتسر، ترن تارن، جہاں کہیں بھی وہ تھے۔ رات رات میں سب لوگ ہمارے پاس پہنچ گئے تھے۔ ساتھ روپے بھی لے کرآئے تھے۔ کہیں ہمارے پاس نہ ہوں۔۔۔ نہیں بھی ہوتے کئی بار۔ اب تو دھرم سنگھ خود ہی بتا، ان رشتہ داروں کو میں کون سی بات نہیں بتاؤں گا۔ دوستوں کو، یاروں کو؟ ان کو سب کچھ بتاؤں گا۔ ہاں پولیس کواور افسروں کو کوئی بات نہیں بتاؤں گا۔ یہ یقین دلاتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے پولیس اور افسران کو کچھ نہ بتانا۔‘‘
منموہن سنگھ وہاں سے اٹھ کر گھر واپس آگیا۔
پچاس ہزار کی دوسری قسط انہوں نے گاؤں کی اسی بیٹھک میں دینی تھی جہاں اس لڑکے کو رکھا گیا تھا۔ وہ اس کام کے لیے عام طور پر جگہیں بدلتے رہتے تھے۔ سی آر پی ایف والے بیشک انہیں زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے اور بہت بار وہ ان کو دیکھ کر دوسری طرف دھیان کرلیتے تھے لیکن پھر بھی ان کو بچاؤ کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا تھا۔ ایسا سمجھوتہ سا تھا کچھ۔ ہم ہوں تو تم نہ آؤ، تم ہوگے تو ہم نہیں۔ یا دن ہمارا، رات تمہاری۔ تم دن میں نہ آنا، رات کو ہم نہیں آئیں گے۔
طے شدہ دن منموہن سنگھ پچاس ہزار روپیہ لے کر بیٹھک پر پہنچ گیا۔ بچترسنگھ نہنگ وہاں پہلے سے بیٹھا تھا۔ سوگز کے فاصلے پر گاؤں کا گوردوارہ تھا۔ اس وقت وہ سارے اے کے سینتالیس اسالٹاں والے ’’دھرمی سنگھ‘‘ گوردوارے میں تھے۔ گوردوارے میں ان کو پیغام بھیج دیا گیا۔ وہ بیٹھک میں پہنچ گئے۔ دھرم سنگھ، صاحب سنگھ اور باقی دوسرے بھی۔ سات آٹھ لوگ تھے وہ۔
بیٹھک والے سارے ہی منموہن سنگھ کو جانتے تھے اور منموہن سنگھ ان کو۔ روز شہر آتے ہوئے وہ انہیں ملتے رہتے تھے۔ وہ ان کے مزارعے بھی تھے۔
بارہ ایک کاوقت تھا۔ بھادوں کامہینہ اور دھوپ بڑی تیکھی تھی۔ منموہن سنگھ کے آتے ہی ان کے لیے دھریک کے پیڑ کے نیچے چارپائیاں بچھادی گئیں اور پانی کے گلاس اور سرہانے بھی دے دیے گئے تھے۔ منموہن سنگھ نے پانی پیا اور گرمی اور اُمس محسوس کرتے ہوئے بولا، ’’گرمی ہے۔ اگر کوئی پنکھی مل جاتی۔۔۔‘‘
’’لو جی۔ پنکھی بھی آئے گی۔‘‘ بیٹھک کی مالکن بولی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو پنکھیاں لے آئی، ’’لے ویراپنکھیاں لے۔‘‘
پنکھیاں بہت خوبصورت تھیں۔ ایک لال ایک پیلی۔ ان پر ہاتھ کی کڑھائی کاکام تھا۔ گھنگھرو گوٹا، کناری اور جھالریں لگی ہوئیں۔ ایسی ہی پنکھیوں کے بارے میں گیت کہے گئے تھے شاید، ’’لے دے مجھے مخمل کی پنکھی گھنگھروؤں والی۔‘‘ منموہن سنگھ نے پنکھیوں کو دیکھا تو بڑا ہی حیران ہوکر سب سے کہا،
’’آج ہمارے گھروں میں پرانا پنجاب نہیں رہا۔ خاص کر شہر کے گھروں میں فرج ہیں، صوفے ہیں، بجلیوں کے پنکھے ہیں۔ گھر میں روٹی مانگتے ہیں تو بیوی کہتی ہے، سبزی فرج میں سے نکال کر گرم کردیتی ہوں۔ آپ دو روٹیاں تندور سے لگواکر لے آؤ، سامنے تندور ہے۔ یہ ہیں ہم آج کل۔ سو آج کل اپنی پنکھیاں بھی کہاں رہ گئیں ہیں۔ یہ تو آج عجوبے کی چیز بن گئی ہیں۔‘‘
’’محنت بہت ہوتی ہے جی ان پر گھروں میں۔ بوڑھی عورتیں بناتی رہتی ہیں۔‘‘
’’بھئی چاہے کچھ بھی ہو۔‘‘ منموہن سنگھ بولا، ’’ان میں سے ایک پنکھی تو میں ضرور لے جاؤں گا۔ پنکھی ہے کوئی یہ۔ لاکھ لاکھ کی پنکھی ہے۔‘‘
یہ سن کر دھرم سنگھ فراخ دلی سے بولا، ’’دونوں لے جاؤ چاہے۔۔۔ ایک کا کیا لینا ہے۔۔۔‘‘
’’نہیں یار دھرم سنگھ۔‘‘ منموہن سنگھ نے رمزیہ طنز سے کہا، ’’قیمت میں نے ایک کی دی ہے۔ ایک لاکھ روپیہ۔ دو میں کیسے لے جاؤں۔ ایک پر ہی حق ہے میرا۔‘‘
بیٹھک میں ہلکی سی ہنسی بکھر گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.