پیپر ویٹ
کہانی کی کہانی
یہ کہانی حسن کی جادوگری کی کہانی ہے۔ فرحت کا شوہر چھبیس برس کی عمر میں بنک کا منیجر ہو جاتا ہے، وہ خوشی خوشی گھر آتا ہے لیکن اپنی خوبصورت ترین بیوی فرحت کو کھڑکی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر اس کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ اسے کھڑکی پر بیٹھنے پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ سامنے رہنے والے کالج کے طلبا اس کی بیوی کو تاکتے رہتے ہیں۔ فرحت کہتی ہے کہ اگر کوئی دیکھتا ہے تو دیکھنے دو۔ وہ اس قدر معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ اپنے شوہر کے اعتراض کی تہہ میں چھپے ہوئے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں پاتی۔ شوہر احساس کمتری کا شکار ہو کر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، بیوی کے نام الواعی چٹھی لکھ کر رکھ دیتا ہے اور صبح ہی صبح نوکر سے تانگہ منگوا کر سامان رکھوا دیتا ہے۔ بیوی پر الوداعی نظر ڈالنے جاتا ہے تو بیوی کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ ہاتھ بڑھا کر اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ باہر سے نوکر کی آواز آتی ہے کہ تانگہ میں سامان رکھ دیا گیا ہے، فرحت کہتی ہے سامان اتار کر اوپر لے آؤ اور اس کا شوہر کچھ نہیں بولتا ہے۔
وہ کتنا خوش تھا۔ آخر چھبیس برس کی عمر بھی کیا ہوتی ہے۔ اسے ترقی دے کر اب بنک کا منیجر بنا دیا گیا تھا۔ آہا! اس کی مسرت کا بھلا کیا ٹھکانہ تھا۔ وہ دفتر سے گھر اڑ کر پہنچا۔ جب وہ مدن مینشنز کے صحن میں داخل ہوا تو دفعتاً اس کے لبوں کی مسرت معدوم ہو گئی۔ اس کی بیوی آج پھر ڈرائنگ روم کی کھڑکی کھولے عین اس کے سامنے کاؤچ پر بیٹھی تھی۔۔۔
اس نے فرحت کو بار بار منع کیا تھا کہ اس طرح کھڑکی کھول کر نہ بیٹھا کرے۔ سامنے کے فلیٹ پر غالباً کالج کے چند طلبا رہتے تھے، جو اکثر تاک جھانک کرتے رہتے تھے۔ فرحت کی عمر بہ مشکل بیس برس کی ہوگی۔ کاشمیری ماں کی بیٹی تھی۔ کون تھا جو اسے بے پردہ اپنے سامنے پائے اور پھر دل مسوس کر نہ رہ جائے اور طلبا بظاہر بڑے شریف بنتے تھے۔ کبھی کوئی بدتمیزی نہ کرتے تھے۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ ضرور تاک جھانک کرتے ہیں۔ اگر وہ صحن میں گوالے سے بھی باتیں کرتے تو اسے یہی شبہ ہوتا کہ فرحت کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور اگر فرحت کو سمجھاتا تو وہ کہتی، دیکھ لیں گے تو میرا کیا بگاڑ لیں گے۔ کیا میں اندر دم گھونٹ کر مر جاؤں اور جب بہت خفا ہوتا تو کہتی اچھا آئندہ نہیں بیٹھوں گی۔۔۔ لیکن وعدوں کے باوجود آج پھر وہاں بیٹھی تھی۔
وہ بھاری قدموں سے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ اس کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ راستے میں وہ سوچتا رہا کہ آخر اس کا کیا علاج ہو۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے دستک دی۔ اندر سے شہد میں ڈوبی ہوئی آواز آئی، ’’چلے آئیے دروازہ کھلا ہے۔‘‘ اس کے کانوں میں بیوی کی شیریں آواز گونج رہی تھی اور وہ اس مٹھاس سے زبردست لطف اندوز ہو گیا۔ چنانچہ جب اس نے اندر قدم رکھا تو بیوی پر ایک دم برس پڑنے کا خیال بھی کمزور پڑ گیا۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ بیوی کی اس حرکت کو اور زیادہ عرصے تک برداشت کرنے پر رضامند تھا۔ آج دو ٹوک فیصلہ کر دینا چاہتا تھا۔
اس نے ہیٹ اتارا اور بےپروائی سے گھما کر کرسی پر پھینک دیا۔ پھر ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے اس نے خشمگیں نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا لیکن وہ ڈبل روٹی کے ٹکڑے کاٹنے میں مشغول تھی۔ اس وقت فضا ایسی تھی کہ اگر وہ پینترا بدل کر ہنسنے کھیلنے لگتا تو بھی کچھ حرج نہ تھا۔ آج خوشی کا موقع بھی تھا۔ لیکن وہ اس بات پر تلا ہوا تھا۔ اب اس معاملے میں زیادہ ڈھیل نہ دےگا۔
وہ منہ پھیر کر دوسری کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور پتلون کے دونوں سروں کو پکڑکر اوپر کی طرف کھینچا۔ اس کی کمر پتلی تھی اور چوتڑوں کا ابھار بھی برائے نام ہی تھا، نیچے کو ڈھلک ڈھلک جاتی تھی۔ پھر وہ الٹ پلٹ کر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ اس کے ہاتھ بھی چھوٹے چھوٹے ہلکے پھلکے سے تھے۔ انگلیاں پتلی اور نازک۔ ایک تو اس میں یہ بڑی کمی تھی کہ اس کے تیور مردانہ نہیں تھے۔ نہ اس کی آواز بھاری اور بارعب تھی۔ چنانچہ خواہ وہ کس قدر بھی غضب کی حالت میں ہو، دیکھنے والے پرخاک رعب نہ پڑتا تھا۔
کھڑکی کے سامنے کھڑا کھڑا وہ انگلیاں چٹخاتا رہا۔ ایک مرتبہ پھر اس نے ابرو پر بل ڈال کر بیوی کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ بچوں کے سے انہماک کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھی۔ یہ بھی ایک بڑی بھاری دقت تھی۔ آخر وہ بچہ ہی تو تھی۔ اسے اشاروں اور کنایوں سے کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔ وہ بے وقوف نہ تھی۔ بس اس کے مزاج میں بچوں کی سی سادگی تھی۔ اگر کوئی بات کہو تو وہ نہایت بھول پن سے کوئی سوال پوچھتی۔ اس کا جواب دو تو پھر کوئی اور سیدھا سادا سوال پوچھ بیٹھتی۔ اب وہ محض لڑکی نہ تھی۔ شادی ہوئے لگ بھگ ایک سال ہو چکا تھا۔ لیکن اسے اس بات کی بھی کچھ خبر نہ تھی کہ مرد کن بھوکی نظروں سے خوبصورت عورتوں کو دیکھتے ہیں۔ اسے اگر یہ بات سمجھائیے تو بس ایک ہی جواب دیتی۔۔۔ دیکھتے ہیں تو دیکھنے دیجیے۔۔۔
اس نےجب دیکھا کہ فرحت کا دھیان اس کی طرف نہیں ہے تو اس نے منہ پھیر لیا اور سوچنے لگا کہ اب گفتگو کا آغاز کیوں کر کرے۔ اگر وہ اس کی طرف دیکھ لیتی تو اسے معلوم ہو جاتا کہ وہ خفا ہے۔ اب وہ سمجھ رہی ہے کہ شوہر کپڑے بدل رہا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، توں توں خفا ہونے کا امکان کم ہوتا جا رہا تھا۔ در اصل جھگڑا فوراً شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ اس طرح سوچ سوچ کر خفا ہونے میں کوئی اثر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نے مزید تاخیر کو مناسب نہ سمجھتے ہوئے بیوی کی طرف پیٹھ پھیر لی اور کہا، ’’فرحت۔۔۔!‘‘ پھر وہ اپنی آواز کی نوعیت پر غور کرنے لگا کہ واقعی اس سے اس کی دلی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔ لیکن وہ کچھ فیصلہ نہ کر سکا۔
’’جی۔۔۔‘‘ فرحت کی آواز سے یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ اسے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا ہے۔ اب اس نے فیصلہ کیا کہ اسے نہایت ڈرامیٹک انداز میں گھوم کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینی چاہئیں اور اسے دیر ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن جلدی کے یہ معنی بھی نہیں کہ اس کے چہرے سے غیظ و غضب کے آثار ہی مفقود ہوں۔ اس سوچ بچار میں کچھ دیر بھی ہوگئی۔ وہ گھوما تو چہرے سے جذبات کا اظہار تو بالکل صحیح طور پر ہو رہا تھا لیکن افراتفری میں اسے وہ جوشیلے الفاظ بھول گئے جو اسے اس موقع پر کہنے چاہیے تھے۔ دوچار لمحوں تک تو وہ چپ چاپ بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ملائے رہا۔ لیکن الفاظ نہ ملنے کے سبب وہ چہرے کے جذبات کی شدت کو قائم نہ رکھ سکا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسے کچھ نہ کچھ کہنا چاہیے۔
’’فرحت آج تم پھر کھڑکی میں بیٹھی ہو؟‘‘ یہ سن کر فرحت نے بڑے طفلانہ انداز سے دانتوں تلے زبان کو دبایا اور کھڑکی سے ذرا ہٹ کر دوسری کرسی پر جا بیٹھی۔ وہ سوچنے لگا کہ فرحت کہیں موٹی تو نہیں ہو رہی۔ اسے پتلی عورت پسند نہیں تھی۔ وہ ذرا گدرائے ہوئے جسم والی عورت کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ اس وقت فرحت کا جسم آئیڈیل جسم تھا۔ لیکن اب اسے اور زیادہ موٹا ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج اس کے ہاتھ اور پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ صبح اس نے اس بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اس کے جسم کی رنگت پر مہندی کا رنگ خوب کھلتا تھا۔۔۔ خاوند کو چپ چاپ گھورتے ہوئے دیکھ کر فرحت نے کہا، ’’اب تو میں کھڑکی سے ہٹ گئی ہوں۔‘‘
اسے دفعتاً یاد آیا کہ اسے خفا ہونا چاہیے اور اس جھگڑے کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر دینا چاہیے لیکن کس قدر مشکل آن پڑی تھی۔ فرحت کو غلطی کا احساس تک نہیں، تو پھر اسے اس حرکت سے باز کیوں کر رکھا جائے۔ آج کل کی لڑکیاں ساتوں آسمانوں کی خبر رکھتی ہیں۔ ایک فرحت تھی کہ بس لڑکپن کیا بچپن چھوڑتی ہی نہ تھی۔ صورت دیکھو، باتیں سنو، حرکات و سکنات کا مطالعہ کرو۔ کیا مجال جو گہرے سوچ بچار کی ہوا تک لگی ہو۔ ابھی تک جیلی اور کریم کھانے کا شوق ہے۔ بندر بندریا کا تماشہ دیکھتی ہے۔ اگر کہیں کوئی بدھو شوہر مل گیا ہوتا تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا۔
پھر اس نے سوچا یہ نئی روشنی کا زمانہ ہے۔ مجھے اپنی بیوی کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تبھی اسے سیدھے راستے پر لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک گہری بحث کے لیے مستعد ہو کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’دیکھو فرحت! اب میرے کہنے سے تم ہٹ گئی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ تم وہاں بیٹھتی ہی کیوں ہو؟‘‘ فرحت نے اپنے ناخنوں کی سرخی کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں تو یونہی بیٹھ جاتی ہوں۔ اندر روشنی کم ہوتی ہے۔ ادھر روشنی بھی خوب ہے، کھڑکی کھول دینے سے ہوا بھی آتی رہتی ہے۔۔۔‘‘
’’تم ہوا کا بہانہ گڑھتی ہو ہمیشہ۔۔۔‘‘ پھر اس نے سوچا یہ لفظ ’بہانہ‘ درست نہیں یہاں پر۔ اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ مجھے فرحت کے چال چلن پر شبہ ہے حالانکہ خواہ کچھ بھی ہو فرحت کے کیریکٹر پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ بار بار اس بات کو دہراتی ہو۔ میں کہتا ہوں کہ غیروں کو دیکھنے کا بہانہ مل جاتا ہے اور وہ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں۔۔۔‘‘ پھر اس نے سوچا کہ فرحت کہے گی کہ اگر دیکھتے ہیں تو میرا کیا بگاڑ لیں گے۔ ’’دیکھونا! دنیا کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی۔۔۔ اب یہ ناخنوں کا دیکھنا بند کرو۔۔۔ جو میں کہتا ہوں وہ بھی سن لیا کرو غور سے۔۔۔‘‘
’’میں تو سن چکی اتنی بار۔۔۔‘‘
اس بار اسے بڑا طیش آیا، ’’اگر سنا ہوتا تو عمل نہ کرتیں۔۔۔‘‘
’’اور میں جو بات کہہ رہا تھا۔ تم نے بیچ ہی میں کاٹ دی۔۔۔‘‘
’’میں نے کب کاٹی بات۔ آپ خود ہی چپ ہو گئے۔ میں سمجھی بات ختم ہو گئی۔‘‘ وہ تھک کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ انگلیوں سے کنپٹیاں دبانے لگا۔
’’کیا سر میں درد ہے؟‘‘ فرحت نے پریشان ہوکر پوچھا۔ اس نےنفی میں سر ہلا دیا۔
’’تو چائے منگواؤں۔‘‘
’’نہیں میں چائے نہیں پیوں گا۔‘‘
’’واہ کیسے نہیں پئیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں ہاتھ پیٹھ پیچھے کیے وہ مٹک مٹک کر آگے بڑھی۔ اس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ اب بڑا نازک وقت آ رہا تھا۔ عنقریب فرحت اس کو گدگدائےگی۔ گلے میں باہیں ڈال کر لٹک جائےگی لیکن وہ اپنی سنجیدگی قائم رکھنا چاہتا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس انداز سے جیسے اس نے اس کی طرف دیکھا ہی نہ ہو، رکھائی سے بولا، ’’اچھا جلدی سے منگوا لو۔ مجھے بہت ضروری کام سے باہر جانا ہے۔‘‘
نوکر چائے لے آیا۔ چائے پیتے وقت اس نے سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ دل ہی دل میں وہ سوچتا رہا کہ فرحت کو کیوں کر سمجھائے۔ چائے کے خاتمے پر اس نے تولیے سے منہ پونچھتے ہوئے فرحت کی طرف گہری نظروں سے دیکھا، ’’فرحت! حقیقت یہ ہے کہ تم اپنی حرکتوں سے مجھے بہت دکھ پہنچاتی ہو۔ میں نے تمہیں پیار سے سمجھایا۔ خفا ہوا۔ لعنت ملامت بھی کی لیکن نہ معلوم تم کس مٹی کی بنی ہوئی ہو۔۔۔‘‘ اتنے میں نوکر نے اطلاع دی کہ رشیدہ کی باجی ملنے آئی ہیں۔۔۔ یہ سن کر فرحت کے چہرے پر مسرت کی لہر سی دوڑ گئی۔ اس کی صورت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دل میں خدا کی ازحد شکرگزار تھی۔۔۔ اس سے پیچھا چھڑا کر وہ زنانے میں چلی گئی۔
فرحت کا اس انداز سے رخصت ہونا اسے بالکل پسند نہ آیا۔ وہ فلسفیانہ انداز میں غور کرنے لگا کہ شادی شدہ انسان کی مسرت کا دارومدار زیادہ تر اس کی بیوی پر ہوتا تھا۔ وہ بھی کیسے سنہرے دن تھے جب وہ کنوارا تھا۔ اسی فلیٹ میں وہ اکیلا رہتا تھا۔ یاردوست جمع ہوتے تھے۔ فرصت کا ہر لمحہ عیش و نشاط میں گزرتا تھا۔ رنج و فکر کو قریب پھٹکنے نہ دیتے تھے۔ اس وقت خوش رہنا قطعاً اپنے بس میں تھا۔ اب بیوی سے پالا پڑا تھا۔ وہ البیلے دوست بھی رخصت ہوئے اور بیوی گھر کی رانی بن بیٹھیں۔ رات کو گھر آنے میں ذرا دیر ہو جائے تو جواب طلب کرتیں۔ روٹھ جاتیں بلکہ ٹھنکنے لگتیں۔۔۔ اب اس کا خوش رہنا بیوی کے ہاتھ میں تھا او ربیوی کو اس بات کا احساس تک نہ تھا۔ وہ بیوی سے مار پیٹ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جب کبھی انتہائی غیظ کی حالت میں مارنے پر تل بھی جاتا تو پھر سوچنے لگتا کہ بیوی کے جسم کے کس حصے پر چپت مارے۔۔۔ اور وہ کوئی فیصلہ نہ کر پاتا۔۔۔
اس کی کتنی خواہش تھی کہ فرحت سے اس کے تعلقات اچھے رہیں۔ لیکن اس نے تو گویا اسے نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی۔ اف کس بے اعتنائی سے اٹھ کر چلی گئی حرام زادی۔۔۔ رشیدہ کی آپا جی کو ملنے کے لیے۔ اسے اپنے آپ پر رحم آنے لگا۔ وہ کس قدر بے بس تھا۔ آج کی شام بیکار جانے پر اس کا دل بالکل ہی ٹوٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ منیجر بن جانے کی خوشی میں فرحت کو جیکب والوں کے ہاں کی جیلی اور کریم کھلاؤں اور وہ کس قدر خوش ہوگی اور چٹوری بلی کی طرح انگلیاں تک چاٹنے سے باز نہ رہے گی۔۔۔ لیکن کمبخت نے خود ہی کام بگاڑ دیا۔ آپس میں محبت اور اشتراک سے رہنے کا جس قدر شدید جذبہ اس کے اپنے دل میں تھا، اگر فرحت کے دل میں اس جذبے کی شدت اس کی نسبت دسواں حصہ بھی ہو تو بھی آپس میں تعلقات بہت مضبوط ہو سکتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ یوں سمجھنے والی نہیں! اگر کل کو وہ مر جائے تو کمبخت کو اس کی قدر معلوم ہو۔
اپنے مرنے کے خیال سے اسے کچھ سکون محسوس ہوا۔ وہ تصور میں فرحت کے خوبصورت چہرے پر پھیلے ہوئے بالوں، اس کی سرخ ناک اور دلدوز چیخوں کے تصور سے اس کے دل کی ڈھارس بندھی۔۔۔ اور پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ وہ میز پر ٹائم پیس کے قریب کھڑے ہوئے تانبے کے بارہ سنگھے کو ہاتھ میں اٹھا کر دیکھنے لگا۔۔۔
فرحت رشیدہ کی آپا سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ اپنے شوہر کی دلی کیفیت سے بے خبر کیسے مزے مزے سے گپ اڑانے میں مصروف تھی۔۔۔ پھر دفعتاً ایک خیال اس کے ذہن میں بجلی کی چمک کی طرح کوند گیا۔۔۔ وہ گھر سے چلا جائےگا نامعلوم جگہ کو۔۔۔ پھر واپس نہیں آئےگا۔۔۔ موت کی نسبت یہ خیال اچھا تھا۔ مرنا مشکل تھا اور یہ آسان بھی تھا اور نتائج تقریباً موت کے برابر ہی حاصل ہو سکتے تھے۔ اس نے سوچا کہ کل صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے۔۔۔ بلکہ ساڑھے چار بجے والی گاڑی پر وہ سوار ہو جائےگا اور کبھی واپس نہیں آئےگا۔ صبح کے وقت جب وہ جاگےگی تو ادھر ادھر بھاگی بھاگی پھرےگی۔ نوکر سے پوچھے گی۔ تار دلوائےگی۔ پاگلوں کی مانند حرکتیں کرےگی۔ اس وقت وہ خود نہ معلوم کس جگہ پہنچا ہوگا۔
یہ خیال صحیح تھا۔ رشیدہ کی آپا بھی رات کے ساڑھے نوبجے تک بیٹھی رہی بلکہ فرحت نے جان بوجھ کر بٹھائے رکھا ہوگا۔۔۔ یہ سوچ کر اسے اور بھی غصہ آیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد فرحت نے کھانے کے لیے کہلوا بھیجا۔ اس نے انکار کر دیا۔ پھر معلوم ہوا کہ اس نے اکیلے ہی کھانا کھا لیا ہے۔ اس پر اسے غصہ تو بہت آیا لیکن خیر کوئی ہرج نہیں۔ اب وہ اس سے سب باتوں کا انتقام لےگا۔ پھر نوکر کی زبانی معلوم ہوا کہ فرحت سونے کی تیاری کر رہی ہے اور اسے کہلوا بھیجا ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ کام کر رہا ہوں۔
اب اس نے سوچا کہ جانے کی تیاری ابھی سے کر لینی چاہیے۔ اس نے نوکر بھیج کر اندر سے اپنا سوٹ کیس منگوایا۔۔۔ نوکر سوٹ کیس لے آیا تو اس نے پوچھا کہ بی بی نے کچھ کہا تو نہیں۔ نوکر بولا کچھ نہیں کہا۔ اس نے سوٹ کیس تیار کر لیا۔ بسترباندھ دیا اور نوکر کو ہدایت کردی کہ صبح جلدی ہی اٹھنا ہوگا اور تانگہ لانا ہوگا۔ اس کے بعد اس نے تین بجے کا الارم لگا دیا۔ نوکر چلا گیا۔ سب طرف سکون ہو گیا۔ چھوٹے فریم میں اس کی بیوی کی تصویر رکھی تھی۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے الوداعی چٹھی لکھنے کی ٹھانی۔ کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ گیا۔
’’جان سے پیاری فرحت۔۔۔‘‘ یہ ٹھیک نہیں صرف ’’ڈیر فرحت‘‘ کافی ہوگا۔ بلکہ محض فرحت لکھ دیا جائے تو اور اچھا ہوگا۔ پھر اس نے ایک دردناک سا مضمون بنایا۔ میں تم سے تنگ آکر جا رہا ہوں اور ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں۔ مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اب میں نہیں مل سکتا۔ دیکھو۔ شوہر کو خوش نہ رکھنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔۔۔ وغیرہ۔ چٹھی لکھ کر اس نے میز پر اس انداز سے رکھ دی کہ اس پر فوراً نظر پڑ سکے۔ رات اسی طرح صوفے پر سوتے جاگتے کاٹی۔ گھڑی کا الارم بجتے ہی اس نے نوکر کو جگایا، جو منہ دھوکر کپڑے پہننے لگا۔ نوکر سے کہا کہ تانگہ لے آؤ اور سامان رکھ دو۔
پھر اس نے کمرے پر الوداعی نظر ڈالی۔۔۔۔ چند لمحوں تک ادھر ادھر گھومتا رہا۔ پھر سونے کے کمرے کے قریب سے گزرا تو اس نے دروازے کو یونہی تھوڑا سا دھکا دیا کہ دیکھیں دروازہ کھلا ہے یا نہیں۔ دروازہ کھلا تھا۔ اس کے معنی ہیں کہ اس کی بیوی اس کا انتظار کرتی رہی تھی۔ اس نے اندر کی طرف جھانکا۔ بڑی کھڑکی کے قریب اس کی بیوی سوئی پڑی تھی۔ اس نے سوچا کہ آخری بار بیوی کو دیکھ لیا جائے۔ اس کی بیوی بس بچہ ہی تھی۔ سوتے میں رضائی ادھر ادھر کھسک جاتی لیکن اس کی نیند ایسی گہری تھی کہ اسے کچھ خبر تک نہ ہوتی۔ چنانچہ اب پھر رضائی کھسک گئی تھی۔
قریب پہنچا تو کھڑکی کے شیشوں میں سے آنے والی چاندنی میں اس کی بیوی بہت حسین نظر آ رہی تھی۔ شاعروں کے قول کے مطابق اس کے ہونٹ کھلے تھے۔ ان میں سے دانت موتیوں کی لڑی کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ بند آنکھیں جیسے دو پیسوں سے ڈھکی ہوئی ہوں۔ گریبان کے بٹن بھی کھلے تھے اور قمیض بھی ادھر ادھر کھنچ گئی تھی اور۔۔۔
اس نے رضائی کے دونوں کونے پکڑ کر اوپر کو کھینچے۔ ہر رات اسے اس طرح کرنا پڑتا تھا۔۔۔ ایسا نہ ہو بیچاری صبح سردی سے اکڑ جائے۔ رضائی اوپر کھینچ کر اس نے اس کے سرے فرحت کے پہلوؤں میں دبائے۔ تاکہ جسم ہر طرف سے ڈھکا رہے۔۔۔ پھر وہ جانے کے لیے مڑا۔۔۔ میں جا رہا ہوں پیاری فرحت میری جان سے عزیز۔۔۔ اس نے سوچا کہ جانے سے پہلے اس کی پیشانی کا ہلکا سا بوسہ لے لے۔ اسے اس بات کی خبر تک نہ ہوگی۔۔۔
اور وہ اوور کوٹ کو سمیٹ کر آہستہ سے نیچے کو جھکا۔۔۔ فرحت کی نیند کی ماتی آنکھیں نیم وا ہوئیں۔ اس نے خاوند کو دیکھا تو ہونٹوں پر موہوم سا تبسم کھل اٹھا۔ شوہر ٹھٹکا۔ فرحت نے نیند ہی میں انگڑائی کے لیے بازو اٹھائے اور ملائمت سے لپٹ کر لطافت سے اپنی طرف کھینچا۔۔۔ اور وہ باوجود انکار کے کھنچ گیا۔۔۔ فرحت نے اسے جوتوں سمیت رضائی میں چھپا لیا۔
نوکر کی آواز آئی، ’’جی سامان تانگے میں رکھ دیا ہے۔۔۔‘‘ فرحت نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہہ دیا، ’’سامان اتار کر اوپر لے آؤ۔۔۔‘‘ اور وہ کچھ نہیں بولا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.