اس کی زندگی کا راستہ جنگل کی جانب جاتا ہے لوگ زندہ رہنے کے لئے جنگل چھوڑ شہر کی طرف واپس ہوتے ہیں۔ شہر کے روشنیوں میں ڈوبنے سے پہلے وہ ایک میلی سی پوٹلی میں دو روٹی، ایک پیاز کی گانٹھ، نمک کی ڈلی اور دوہری مرچ باندھ لیتا۔ اناج کی پھٹکن ایک کاغذ کی پڑیا میں باندھ کر پوٹلی کو لاٹھی کے ایک سمت اور دوسری سمت جال باندھ کر چل دینا یہ اس کا روز کا معمول ہے۔ زندگی کا یہ مختصر سفر جو گھر اور جنگل کے درمیان ہے اتنا طویل ہے کہ قدموں میں سمیٹنا اتنا مشکل ہو گیا ہے جیسے چھلنی سے پانی بھرنے کی کوشش۔ مگر پھر بھی زندگی آہستہ آہستہ پیروں تلے نکلی جا رہی ہے۔ ایک عرصہ گزر گیا اس تگ و دو میں۔ سر پہ دھوپ چھاؤں کا غلبہ جب کہ عمر پینتالیس کے لپیٹ میں ہوگی جوانی درمیان سے اس طرح غائب ہو گئی جیسے سراب۔ کل کا بچہ دھیرے دھیرے اتنا بڑا ہو گیا ہے جو سوالات کرنے لگا ہے۔ اگر اس کی زبان خاموش ہو تو آنکھیں پوچھتی ہیں۔ ’’روٹی پیٹ بھر ملنے کے بجائے گنتیوں میں کیوں ملتی ہیں؟‘‘۔۔۔ وہ بھی پانی اور نمک کے ساتھ نگلنے میں بھی بے مزہ کیوں نہیں ہوتیں؟۔ گایوں کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع اس لئے نہیں کہ بڑے آدمیوں کی طرح وقت ہی نہیں ملتا!۔۔۔ اور بچپن ہے کہاں؟ پیدا پوتے ہی جوانی میں قدم ایسی جوانی جو بڑھاپے سے بھر پور ’’سنو جی اب منّا۔ ۔۔منّا نہیں رہا ہے۔۔۔اور تم بھی کچھ جھک سے گئے ہو‘‘رام دئی کی اطلاع۔
’’تم سے کس نے کہا۔۔۔میں ٹوٹا ہوں، نہ جھکا ہوں ‘‘ اس لئے سہارے کی مجھے کیا ضرورت؟‘‘۔۔۔ ابھی تو کھیلنے، کودنے کے دن ہیں‘‘
’’کھیلے گا، کودے گا تو بگڑ جائے گا۔ اسے معلوم ہو جائے گا کہ نمک اور پانی کے ساتھ روٹی نگلی جاتی ہے، کھائی نہیں جاتی‘‘ رام دئی نے کہا۔
ایک لمحہ کے لئے اس کے اوپر سکوت طاری ہو گیا اور سوچ میں ڈوب گیا تھوڑی دیر کے بعد’’ہوں‘‘ جیسے گہرے اور اتھلے کنویں سے آواز آئی ہو۔ ’’منّا کل سے میرے ساتھ چلے گا تاکہ اسے پتہ چلے پرندے کیسے پکڑے جاتے ہیں؟ آخر وہ منّا نہیں رہا۔۔۔ اور میں بھی واقعی جھک گیا ہوں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ میریے ٹوٹنے سے پہلے وہ زندگی پر اپنی پکڑ مضبوط کر لے‘‘ اس نے کچھ اس طرح کہا جیسے جیون کا بہت بڑا گیانی ہو۔
سرخی مائل شام جب سرمئی فام ہو گئی حسب معمول وہ گھر واپس ہوا۔ جدید طرز کی عمارتوں کے بیچ، کچی دیواروں پر رکھا اس کا جھونپڑا ہنستے ہوئے گلاب چہرہ پر غلیظ دانتوںکی مانند تھا۔ اس نے اپنا جال اور لاٹھی کو’’ان داتا‘‘ کی طرح بڑی احتیاط اور اہتمام کے ساتھ رکھ کر کوئی فلمی گیت گنگنا نے لگا جیسے کوئی پجاری پتھر کے دیوتائوں پر دودھ چڑھاتے سمے کوئی دھارمک گیت گنگناتا ہے۔ اس نے چراغ کی بتی درست کی جو تیل کم ہونے کی وجہ سے بجھی بجھی سی تھی۔
’’کیا بات ہے بڑے خوش ہو‘‘رام دئی نے کہا جو وہاں آگئی ہے۔
’’خوشی تو بڑی ہر جائی ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
’’آج کیا کوئی خاص بات ہے؟‘‘ رام دئی نے گفتگو کا سلسلہ پکڑا۔
’’آج نمک کے بجائے چٹنی سے روٹی کھائیں گے اور میتھی کی بھاجی پکا لینا روپیہ کلو ہے‘‘
’’مگر جال تمہارا کمزور ہو گیا ہے اسے بدل کیوں نہیں لیتے؟‘‘
’’اب تو نیا جال منّا خرید ے گا۔۔۔ ہمارا تو وقت کٹ گیا‘‘
’’تمہیں یاد ہے ہمارا وقت کٹنے سے پہلے شروع کب ہوا تھا؟‘‘ رام دئی نے پوچھا۔
’’جب وقت کٹ جاتا ہے تو شروع کون یاد رکھتا ہے۔ بس اتنا یاد ہے کل بھی شہر میں ہمارا چھپر تھا اور آج بھی۔ اب اس میں یاد رکھنے اور بھولنے کے لئے ہے کیا؟۔۔۔ کل بھی ان عمارتوں میں رہنے والوں کا یہ منہ چڑاتا تھا آج بھی۔ ۔۔ اور ان کے رہنے والے مکین آج بھی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہیں اور اتنی بھیڑ میں کل بھی ہم اکیلے تھے آج بھی۔ ۔۔ کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا ہے اس وقت آمدنی کم تھی اس لئے چٹنی کھائی اب مہنگائی زیادہ ہے اس لئے چٹنی کھا رہے ہیں۔‘‘
’’یہ کچا گھر میرے لئے محل ہے اس لئے کہ تم میرے ساتھ ہو۔ چٹنی روٹی میں اس لئے مزہ ہے کہ اس میں عزت کی مٹھاس ہے۔ یہ جدید عمارتیں شداد کی بنائی ہوئی جنت تو ہو سکتی ہے لیکن گھر نہیں‘‘
’’وہ ہنسا۔۔۔ اس قدر زور سے ہنسا کہ ہنسنے میں آنکھیں بھیگ گئیں۔ ’’اری رام دئی تو بہت سمجھدار ہو گئی ہے۔جب باپ کے گھر سے آئی تھی تو اپنے دنوں کا حساب نہیں لگا پاتی تھی۔تاریخ، مہینہ تو مجھ ہی سے پوچھتی تھی۔اب تو عمر اور سال کا حساب بھی لگا لیتی ہے چڑیوں کو بھی گن لیتی ہے اور روپیوں کا بھی گھٹا جو ڑ کر لیتی ہے۔کہاں سے آئی یہ عقل تجھ میں۔‘‘
’’اب منّا بڑا ہو گیا ہے۔آخر میں نے اسے جنم دیا ہے۔تو بھلا اچھا برا نہیں سمجھوں گی‘‘ رام دئی نے اپنے آنسوؤں کے موتیوں کو اپنی انگلیوں میں اس طرح سمینٹ لئے جیسے بچی کھچی پونجی ضائع ہونے سے بچارہی ہو اور قریب ڈیوٹ میں رکھے ٹمٹما ئے چراغ کو بجھا دیا۔
اس نے جیسے ہی رام دئی کے چہرے پر آنکھیں جما ئیں تو اس کی بلوریں آنکھوں میں الجھ گئیں۔ صبح کے ظہور سے پہلے خواب آور ستاروں کے درمیان ایک ستارہ جاگتی آنکھوں سے کائنات کو گھوم گھوم کر دیکھ رہا تھا۔وہ جاگ گیا۔رام دئی جو رات کی تھکن آنکھوں میں لئے سو رہی تھی۔ اس نے آوازدی۔اس کے پائوں کو جھنجھوڑ ا وہ چونک کر اٹھی ترنت ہی اس نے ’’منّا۔۔۔ منّا‘‘ کی آواز لگا ئی ’’دیکھ اٹھ جا۔۔۔ دیکھ تیرے ابا جا رہے ہیں۔ ‘‘ منّا بھی ہڑبڑا کر اٹھ گیا جیسے خواب حیات سے چونک گیا ہو۔اس نے کلی کی اور آنکھوں پر پانی چھپکایا شاید جاگتی آنکھوں کے ساتھ راہِ زندگی پر پہلا قدم رکھے گا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ پہلا قدم مضبوط ہوا تو زندگی اور انسان کی اس جنگ میں زندگی کی شکست یقینی ہے چوں کہ زندگی کتنی بھی سنگین اور بے رحم ہو مگر جھونپڑوں کے رہنے والوں سے ہمیشہ سہمی سہمی سی رہتی ہے۔
دونوں بستی چھوڑ، جنگل کی جانب چلنے لگے۔وہ آگے آگے اور منّا پیچھے پیچھے۔ ’’ارے منّا جلدی چل ورنہ بہت پیچھے رہ جائے گا۔ وقت قابو میں نہیں آئے گا ایک منہ زور بے لگام گھوڑا ہے جس پر سوار ہو کر ٹانگوں کی پکڑ مضبوط کر ورنہ ٹھوکر کھا جائے گا۔‘‘ منّا نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا۔ آہستہ آہستہ وہ اور منّا نگر کی سرحد عبور کر چکے ہیں سینکڑوں جانے انجانے شہر کی سرحد میں داخل ہو رہے ہیں۔
’’ہم لوگ الٹا چل رہے ہیں‘‘ اچانک منّا سوچ کر بولا۔
’’ہاں منّا ہم جیسے لوگ الٹا جیون جیتے ہیں جسے سیدھا کرتے کرتے مر جاتے ہیں‘‘
منّا خاموش ہو گیا، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اپنے باپ کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتا رہا۔چلتا رہا۔آخر وہ مقام آگیا جس کے لئے دونوں نے شہر تقریبا پانچ کلو میٹر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک جنگل۔ سنسان جنگل۔ اس سناٹے کو پرندوں کی چہچہاہٹ تو ڑ رہی تھی۔ چاروں طرف، درخت پیڑ پودے سبز مخملی چنری اوڑھے صف باندھے جیسے خدا کی عبادت میں مصروف ہوں۔
اس نے لاٹھی اور پوٹلی اتاری اور زمین پر کپڑا بچھا تے ہوئے کہا ’’منّا دانا بکھیر‘‘
تھوڑی دیر میں۔۔۔ دانے پر چڑیاں ٹوٹ پڑیں
’’منّا جال پھینک‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
منّا نے ان سنی کر دی۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا ہے اور ایک رنگ جا رہا ہے مگر منّا نے اس کے چہرے کے رنگوں کو نظر انداز کر دیا۔ اس نے زور سے کہا ’’منّا جال پھینک‘‘ آواز سن کر منّا چونک گیا۔ اور چڑیاں دانہ چھوڑ کر اڑ گئیں اور قریب ہی نیم کے پیڑ پر زور زور سے چہچہانے لگیں۔
’’منّا تو نے جال کیوں نہیں پھینکا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’چڑیا دانہ چگ رہی تھیں۔۔۔ میں نے سوچا پیٹ بھر جانے دو‘‘
’’اگر یہ سب دانہ چگ لیتیں۔۔۔ تو اگلے جھنڈ کو دانہ پھر پھینکنا پڑتا‘‘ اس نے کہا۔
منّا چپ چاپ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا۔ چڑیاں دانہ پر پھر اتر آئیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتامنّا نے فوراً ان پر جال پھینک دیا۔ سب چڑیاں جال میں پھنس گئیں مانو تیر نشانے پر لگا ہو۔ اس نے منّا کی کمر ٹھونک دی ’’شاباش۔شاباش آخر کار تو میرا بیٹا ہے۔ یہ دھندا ہمارے پرکھوں کا ہے۔۔۔ بیٹا میں نے اپنے باپ سے سیکھا اور ایک دن میں سیکھا تھا۔ تو تو مجھ سے بھی زیادہ تیز نکلا ایک ہی جھٹکے میں سیکھ گیا۔ اب مجھے چنتا کچھ نہیں ہے۔ میں تھک سا گیا ہوں۔ میرے بعد تو ہی کرے گا‘‘ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔
پنجرے میں چڑیاں بھر کر شہر کی جانب مسجد کلاں کی پشت پر بیٹھ گئے۔ فروخت کرکے باپ بیٹے گھر لوٹے رام دئی انہیں کا انتظار کر رہی تھی۔
’’آج تو تیرے بیٹے نے کمال کر دیا۔ دیکھ دال وال گھوٹ لیو‘‘ اس نے اپنا ڈنڈا اور پوٹلی اتارتے ہوئے پائجامہ میں اڑسے ہوئے پیسے اس کو دئے۔
زندگی معمول کے مطابق خط مستقیم پر سست رفتاری سے کھسکتی رہی۔ وہ اور منّا جنگل جاتے رہے۔ اور پرندے فروخت ہوتے رہے۔ دھندہ اسی طرح چلتا رہا۔ منّا کی صلاحیت اور محنت پر اس کا وشواش مضبوط ہوتا رہا۔ شاید خدا کو بھی یہ یقین ہو گیا ہے کہ منّا اپنے باپ کا مکمل وارث ہو گیا۔ منّا نے اپنے باپ کا دھندا اپنے ہاتھ میں سنبھال لیا ہے مگر پھر بھی وہ منّا کے ساتھ اپنے باپ کے بتائے ہوئے راستہ پر روز جنگل کی جانب جاتا رہا کیوںکہ منّا پھر منّا ہے کہیں غچا نہ کھا جائے، دھندہ کسی کا سگانہیں ہوتا کب مندا ہو جائے، کسی کو پتہ نہیں۔ محنت اگر انسان کی لونڈی ہے تو قسمت کی لکیروں کے جال میں پھنسا انسان ایک غلام کی طرح ہے۔
معمول کے مطابق وہ منّا کے ساتھ جنگل چل دیا۔ بدن بخار سے جل رہا ہے چلنے پھرنے میں نقاہت ہے مگر پدرانہ شفقت اور حسب عادت، کمزوری ہونے کے باوجود بڑی محنت اور دقت کیساتھ وہ چل رہا ہے۔ قدم بوجھل ہو رہے ہیں۔ رفتار سست ہے وہ منّا کے قدم سے قدم ملاتا ہے’’منّا آہستہ چل‘‘ اس نے کہا۔
’’بابادیر ہو جائے گی، سورج پھیل گیا تو پرندے نہ ملیں گے، ویسے بھی اب جنگل میں پرندے کم ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔ اور اپنی تیز رفتاری کو کم رفتاری میں بدل کر اپنے باپ کی کمرمیں ہاتھ ڈال لیا اور درمیانی چال چلنے لگا۔ جب دونوں جنگل پہونچے چاروں طرف دھوپ پھیل چکی ہے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ دور کہیں سے آتی ہوئی سنائی دے رہی ہے۔ منّا نے کپڑا بچھا دیا اور دانہ بکھیرا۔ دونوں پیڑ کی آڑ میں چھپ گئے مگر ایک بھی چڑیا دانہ پر نہ ٹو ٹیا۔ بیٹھے بیٹھے کافی دیر ہو گئی۔ منّا کو جمائیاں آنے لگیں اور اس کے اوپر تھکن غالب ہونے لگی، چہرے پر اکتاہٹ ہونے لگی۔ اس نے ایک گندی سی گالی دی۔ اور کہا’’داریوں کے پیٹ بھرے ہیں۔‘‘
منّا خاموشی سے اپنے والد کو دیکھتا رہا اور سوچنے لگا دادا نے بھی پرندے پکڑے۔ میرا باپ بھی پرندے پکڑتا رہا اور اب میں بھی پرندے نہ ہوئے قارون کا خزانہ ہو گئے جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لیں گے۔ اس نے فیصلہ کیا ’’یا تو میں پیشہ بدلوں گا یا جنگل‘‘ اس نے اپنے باپ کے چہرے کو دیکھا اس کی آنکھیں سرخ ہیں۔ بخار کی شدت سے آنکھوں کے حلقے گہرے اور سیاہ ہو رہے ہیں۔۔۔ اچانک باپ کی نظر اپنی جگہ سے دور جا پہنچی۔ ایک ڈھو ر پر پرندوں کا جھنڈ نظر آیا۔ اس نے بیٹے کو اشارہ کیا‘‘ روزانہ چھوٹے چھوٹے پرندے پکڑتے ہیں، جن کے دام بھی کم ملتے ہیں۔ کیوں نا بڑے بڑے پرندے پکڑنا شروع کر دیں۔ان کی قیمت بھی زیادہ ملے گی۔ اور پھر اس جنگل میں چھوٹے چھوٹے پرندے اب کم بھی ہوتے جا رہے ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے دشت کائنات سے ناپیدہو گئے ہوں۔جا وہاں ڈھو رکے پاس جال ڈال دے‘‘
منّا کے یہ بات سمجھ میں آگئی چونکہ اس کے علاوہ وہ سوچ بھی کیا سکتا ہے۔۔۔؟ گھر کا خرچ، دوا، دارو۔۔۔ ادھر سورج سر پہ چڑھ آیا ہے۔ سہ پہر مسجد کی پشت پر پہنچناہے ورنہ گاہک دی گئے کب ملتے ہیں؟ وہ بھاگا بھاگا گیا اور جال ڈال دیا۔ دو بڑے بڑے پرند پھنس گئے۔ اس نے دونوں کی ٹانگوں کو رسی سے باندھا۔دونوں بہت خوش تھے کہ آج سے ہماری زندگی بدلے گی۔ جیون سے متعلق یہ نیا فیصلہ چراغ میں روشنی بڑھانے کے لئے کافی ہے۔پوری پوری تگ و دو کے ساتھ وہ مسجد کی پشت پر سہ پہر تک آگئے۔جمعرات ہونے کے سبب بھیڑ بھی زیادہ ہے چونکہ پرند بازوں کی آج ہی کے دن کا روباری چھٹی ہوتی ہے۔ ان کے دل میں ایک بے نام خوشی کا احساس جاگ رہا ہے۔ سوچتے ہیں آج ہمارے پاس بڑے پرندے ہیں جو دیگر پرند پکڑنے والوں کے پاس نہیں ہیں۔ دام بھی اچھے ملیں گے۔ بڑے اطمنان اور اعتماد کیساتھ دونوں نے پرندوں کو زمین پر کھڑا کر دیا اور آتے جاتے گاہکوں کو حسرت بھر ی نظروں سے دیکھنے لگے۔ مگر گاہکوں کی طنزیہ مسکراہت اور تلوار کی مانند چلتی ہوئی نظریں جگر کے پار ہو رہی ہیں جیسے ان کی محنت کی قیمت ادا کر رہے ہوں۔۔ ۔ آہستہ آہستہ وقت کھسکتا رہا۔ سورج دور مغرب میں ڈوبتا رہا اس نے چہار جوانب نظر دوڑائی پرند پکڑنے والوں کی بھیڑ ختم ہو رہی ہے۔۔۔پرند بازوں کی چلت پھرت بھی کم ہو رہی ہے۔اچانک اس کے پاؤں کانپنے لگے۔ ایک ہی لمحہ میں اس کے اندر بجلی جیسی سرعت اور کڑک پیدا ہوئی اس نے فٹ ہاتھ پر پڑی ریت ان پرندوں کے اوپر جلدی جلدی ڈالنا شروع کر دیا۔ پرند بار بار ریت سے بھر جاتا، بار بار پروں کو جھاڑ دیتا۔ وہ ریت پھینکتا رہا۔ اور وہ جھاڑتا رہا۔
’’بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو‘‘ منّا کے سوال کو ان سنا کرتے ہوئے وہ اس مسلسل عمل میں مصروف رہا۔ اس کے اوپر ہذیانی سی کیفیت طاری ہو گئی۔وہ مٹی ڈالتا رہا۔ ’’لعنت ایسے بڑے ہونے پر جو دوسروں کے کام نہ آئے۔ میں نے اس پر خاک ڈالی۔ میں نے اس پر خاک ڈالی۔لعنت خاک۔ لعنت خاک کی آوازیں۔اس کے گلے میں گھٹنے لگیں۔ وہ زمین پر گر گیا۔۔۔ منّااس کے پاس لپکا۔ پاؤں سیدھے کئے اور اس کے اوپر جھک گیا۔۔۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ منّا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔میرا باپ۔۔۔ میرا۔۔۔ بابا۔۔۔ میرابابا۔۔۔ کی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔۔۔ روتے روتے آنسو خشک ہو گئے۔ جیسے زندگی کی طرح وہ بھی ہر جائی ہوں۔ اس نے سوچا آنسو بھی انہیں کا ساتھ دیتے ہیں جو پیٹ بھرے ہوں۔۔۔ اس نے اپنے باپ کی جیبوں کو ٹٹولا۔۔۔ بڑی جستجو کے بعد ایک اٹھنی کا سکہ نکلا وہ وہاں سے اٹھا اور قریب دوکان سے چنے لئے۔ کھائے پانی پیا۔۔۔ تازہ دم ہو کر لاش کو گھورنے لگا۔۔۔
بابا کی آنکھیں گدھوں پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ گدھ اس کے سینے پر ایسے کھڑے تھے جیسے ڈھور پر ہوں۔ اس منظر کو دیکھ کر اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔۔ اس کی آواز روندھ گئی۔ دو رکہیں آسمان پر پرندے چہچہانے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔
سبز درخت۔۔۔ نیلا آسمان۔۔۔ اور سرخ منظر سیاہی میں ڈوبتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.