’’کم بختو، بےشرمو! ٹھہرو، ابھی خبر لیتا ہوں‘‘ اِدّا میاں نے گھسیٹ کر ایک کھپرے کا ٹکڑا پھینکا اور بڑبڑانے لگے، ’’یہ آوا کا آوا ہی بگڑا ہے۔ زمانے میں غیرت تو رہ نہیں گئی ہے۔ یا اللہ۔‘‘
پاس بیٹھی ہوئی دس برس کی پوتی نے لقمہ دیا، ’’مجھ سے بھی چلنے کو کہہ رہی تھیں، میں نے کہا دادا جی بگڑیں گے تو ہنسنے لگیں۔‘‘
’’تف ہے!‘‘ ادا میاں زور سے دھاڑے۔
یہ روز کا دستور تھا۔ ادا میاں روز لڑکیوں پر دھاڑتے اور وہ ایک پر ایک گرتی ہوئی بھاگتیں۔ چار سال سے آٹھ نو سال تک کے بچوں کی یہ ٹولی ادا میاں کا نام سن کر کانپتی تھی اور ان سے بچ بچ کر چلتی تھی مگر ادا میاں سے بچ نکلنا آسان نہ تھا۔ کہیں نہ کہیں سامنا ہو ہی جاتا۔ آنکھ مچولی، اونچا نیچا اور کوڑا کھیلتے وقت، مکان کے پچھواڑے بیر توڑتے وقت یا سب کی نظریں بچا کے سامنے کھیت سے مٹر کی چھیمیاں توڑتے وقت! ادا میاں انھیں دیکھتے اور ان کا غصہ ابل پڑتا۔ لعنت ہے ایسی بےراہ روی پر! لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے جھلانے اور بگڑنے کے علاوہ۔۔۔ جس پر یہ لڑکیاں کھسر پھسر ہنسا کرتیں۔
ادا میاں کی یہ خاص مزاجی تشکیل زمیندارانہ ماحول کی برکت تھی۔ ہٹ دھرمی اور ضد کو جہاں وضع داری کا خوبصورت نام حاصل ہے۔ زمیندار چھوٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کو اپنا مزاج بڑا رکھنا پڑتا ہے۔ جائیداد انکم برڈ میں پھنسی ہو، مکان کا ایک حصہ ہر سال برسات کی نذر ہو جائے لیکن خود ساختہ خاندانی وقار کا تحفظ ضروری۔ نئے سال کے شگون میں رعایا کو اکٹھا کرنا، دو دو چار چار روپئے لے کر انھیں دو دو چار چار چاول کے لڈو دینا، ڈیرے دار طوائف نہ سہی، دیہاتی رنڈیوں کی ہی اچھل کود کرانا، حاکم پرگنہ، تحصیل دار، تھانہ دار کو حضور حضور کہہ کر اور ان کو دعوتیں دینا اور سال میں کم از کم دوبار کلکٹر صاحب کے یہاں تحفہ دینا! زمیندار کی زندگی کا دوسرا اہم فرض ’تو بڑی کہ میں میں بڑی‘ کی جنگ جیتنا تھا۔
اگر میر ظہور علی نے شاطرانہ چالوں سے تعلقہ میں اپنی شہرت بڑھالی ہے، تو ان کے مقابلے میں گھوروا چمار کو کھڑا کرا دینا ہوگا۔ کم بخت کے دماغ کی خرابی کا یہی علاج ہے! گھوروا چمار ’’سلام صاحب!‘‘ کہنے کو تو سرکار سے بڑے ادب سے کہتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ سرکار کاٹھ کے الو ہیں اور واجد علی کا رندہ اور ان کے پیادوں کا حکم ماننے میں ہی فائدہ ہے۔ اسی لیے تو بیگار کے وقت چاہے وہ بڑی بکھری جانے کے بجائے بھاگ کر کبیل داری میں چلا جائے لیکن واجد علی اگر آدھی رات کو بھی آواز دیں، تو وہ خواب میں بھی ’’آئی گئے مالک‘‘ کی ہونکاری بھرےگا۔
ادا میاں نے زمیندار گھرانے میں جنم لیا تھا۔ لیکن ان کا اپنا گھر ان کے والد میر دلاور حسین کی وضع داری کی نذر ہو گیا۔ ادا میاں کی پرورش ان کے والد کے جگری دوست میر نواب حسین نے کی تھی اور یہیں انھوں نے زندگی کی پچاس بہاریں دیکھی تھیں۔ تمام نشیب و فراز! میر نجابت حسین عرف نجن میاں سے ادا میاں ہونے کی داستان خود اپنے میں ایک داستان ہے۔ یہیں ادا میاں نے زمیندارنہ زندگی کی مخصوص برکتیں بھی حاصل کی تھیں۔ اپنی بات پر اڑنا، دوسرو ں کو حقیر سمجھنا، دشمن کو زیر کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا حرکت کرنا۔ عیاشی اور نشہ!
جب تک میر نواب حسین زندہ رہے، ادا میاں ان کے گھر کے ایک فرد سمجھے جاتے تھے لیکن میر نواب حسین کی موت کے بعد ان کے لونڈی زادہ بیٹے میر کرامت حسین نے گدی سنبھالی تو ان کی ماں کے نطفہ سے آیا ہوا گدی پن بھی ابھرا اور شریفانہ اور رئیسانہ رکھ رکھاؤ میں کمی ہونے لگی۔ ادا میاں کی مراعات میں بھی تخفیف ہوئی۔ ادا میاں ایک کم ذات سے اور امید بھی کیا کر سکتے تھے۔ میر نواب حسین کی زندگی میں انھیں مشیر خاص کی حیثیت حاصل تھی۔ جب رفتہ رفتہ وہ ختم ہو گئی بلکہ انھیں مصاحبوں کا درجہ ملنے لگا تو وہ اس تحقیر کو برداشت نہ کر سکے۔ باپ نے عزت دی تھی اور بیٹے نے ذلت!
اس کے بعد ادا میاں اپنے گھر چلے آئے۔ گھر میں باقی ہی کیا رہ گیا تھا۔ گری پڑی دیواریں کسی طرح ٹھیک کرائیں لیکن حالات نے ان کے دل پر جو گھاؤ دیے تھے، وہ کسی طرح نہ بھر سکتے تھے۔ کاش، پہلے بھی کبھی انھوں نے کچھ اپنا بنانے کو سوچا ہوتا۔
گاؤں کے ماحول پر ادا میاں کے اپنے گھر چلے آنے کا کوئی اثر نہ تھا۔ سب اپنے اپنے حال میں گرفتار ہوں تو دوسرے کی فکر کون کرے! ہاں کچھ ’فارغ البال‘ لوگ وقت گزاری کے لیے ان کے پاس بھی آجاتے۔ ادا میاں روزانہ شام کو خود اپنے ہاتھوں سے حقہ تازہ کرتے۔ دور سا تمباکو کی چلم بھر کر حقہ کی نے ہاتھ میں لیتے تو گزشتہ دنوں کی یاد ان کوبہت پریشان کرتی۔ کبھی کوئی رنگین تصویر ابھرتی اور کبھی کوئی سیاہ۔ ادا میاں کو دونوں سے برابر کی دلچسپی تھی لیکن وہ دیر تک اس کشمکش کو برداشت نہ کر سکتے اور جلد از جلد ان کچوکوں سے بچنے کے لیے کسی موضوع پر گفتگو کرنے لگتے۔
سیاسی موضوع پر ان کی رائے حرف آخر تھی! لیکن ان کی جھلاہٹ سے بھرپور باتوں کی تاب کون لا سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ الگ ہوتے گئے۔ اب ادا میاں اکثر اکانت میں اپنے سرپھرے پن پر خود بھی افسوس کرتے لیکن وہ کریں کیا! زمانہ روز بروز بدلتا ہی رہتا ہے۔ کہاں تک اپنے کو بدلیں۔ میر نواب حسین کے دربار والے ان کی تجدد پسندی سے پریشان تھے اور آج کے نوجوان ان کی دقیانوسی اور جھلاہٹ پسند طبیعت سے عاجز ہیں۔ واقعی زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے! اسی لیے تو ادّا میاں نے سب سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا۔ لیکن کیا کریں ناخون سے گوشت بھی تو جدا نہیں کرتے بنتا۔ نبّن کی شادی میں وہ کیوں کر نہ آتے۔۔۔ دنیا کیا کہےگی؟ نبن کی ماں ان کی حقیقی بہن تھیں اور یہاں ملاواں آکر ان کی جان عذاب میں تھی۔ لڑکیاں گھر سے باہر گھومتی رہتی ہیں۔ منع کریں تو برا، نہ منع کریں تو برا! اور نئی عمر کے ہونہاروں میں بےراہ روی الگ ہے۔ ادا میاں کو آلۂ تفریح بنانا چاہتے ہیں۔
اسی وقت کی بات دیکھئے کہ ادا میاں کی ’تف ہے! کی پھنکار جب ان کے کان میں پہنچی، یہ پوری پلٹن ان کی طرف دوڑ پڑی۔ بنے نے بڑھ کر پوچھا، ’’خیرت تو ہے ادا میاں؟‘‘
ادا میاں کو بنے کی صورت سے نفرت تھی، بگڑکے بولے،
’’ایسی بےہودگی اپنے باپ سراج علی کو دکھایا کرو۔ تم ایسے لوگوں کے منہ میں نہیں لگتا!‘‘
بنے اپنے باپ کا نام سنتے ہی سکتے میں آ گیا۔ اللہ بچائے ابا میاں کے غصے سے، لیکن اس کے بقیہ ساتھی جھلا اٹھے۔ ابراہیم نے کہا، ’’ادا میاں! معاف کیجئےگا۔ ہنگامہ تو آپ کھڑا کرتے ہیں۔ آپ نے چھوٹی چھوٹی بچیوں کا باہر نکلنا بیٹھنا دوبھر کردیاہے۔ حالانکہ ان سے عمر میں بڑی اپنی پوتی کو گود میں دبائے گھومتے پھرتے ہیں۔‘‘
اس نے شیریں کی طرف اشارہ کیا۔
ادا میاں نے شیریں کے حوالے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، ’’تم لوگ تو ہو بے شرم! تم کو کیا معلوم کہ شریعت نے کتنی عمر میں لڑکیوں پر پردہ واجب کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں۔۔۔‘‘
’’اپنے زمانے کی بات رہنے دیجئے۔‘‘ جاوید نے لقمہ دیا، ’’آپ کا زمانہ تھا بھی کب۔۔۔ وہ تو میر نواب حسین کا زمانہ تھا!‘‘
مجن کو اس طرح کی گفتگو سے ہمیشہ بہت تکلیف ہوتی تھی۔ ادا میاں کو اس طرح آلہ تفریح بنایا جانا اور انھیں مجبور سمجھ کر ان کا مذاق اڑانا اسے انتہائی ناگوار گزرتا۔ ادا میاں آخر اس کے ماموں بھی تو تھے۔ اس نے بات ٹالنے کے خیال سے کہا، ’’ادا میاں، آپ کو ضلع دار صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘
’’ضلع دار صاحب کی ایسی کی تیسی۔۔۔‘‘ ادا میاں زور سے چیخے لیکن دوسرے ہی لمحے تیزی سے ضلع دار صاحب کی طرف روانہ ہو گئے۔
گزشتہ چند برسوں سے ادا میاں پر خاموشی کا دورہ اکثر پڑا کرتا تھا، جب وہ چپ سادھ کر چارپائی پر پڑے رہتے اور کسی سے کوئی بات نہ کرتے۔ شوروغل، بے راہ روی کسی سے ان کو غرض نہ ہوتی۔ آج بھی ایسا ہی تھا۔ پچھلے دو دنوں سے انھوں نے کسی سے کوئی بات نہ کی تھی۔ لڑکیاں آزادی سے ادھر ادھر آ جا رہی تھیں، لیکن وہ مخاطب بھی نہ ہوتے تھے۔ خاموشی سے اپنی چارپائی پر پڑے تھے۔ کبھی آنکھیں کھولتے تو آسمان کی طرف نظریں گاڑ دیتے ورنہ آنکھیں بند رکھتے۔ یہاں لوگوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ان کی چارپائی سے تھوڑی دور پر خوش گپیاں زوروں پر تھیں۔ احمد علی کانگریس کے ہم نوا تھے۔ ان کے والد نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کانگریس کا ہی دامن تھاما تھا۔ ان کے گھر والے ان کی زندگی میں ان کے مخالف رہے لیکن اب مرنے کے بعد ان کی طرف سے انتہائی خوش عقیدہ تھے۔ ادا میاں کو ان لوگوں کی ظاہر داری سے دلی نفرت تھی،
زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کے
آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے
ادا میاں مسکرائے، زندگی بڑی پرفریب ہوتی ہے! میر نواب حسین جب یہ شعر پڑھتے تو انھیں عجیب سا لگتا ہے، بھلا ان کی زندگی میں جتنی خوشامد ملی ہوئی، اس سے بڑھ کر مرنے کے بعد کیا حاصل ہو سکےگی۔ لیکن احمد علی کے باپ کے سلسلہ میں تو بات صحیح ہی تھی۔ ویسے ان کو کانگریس سے کبھی ہمدردی نہ تھی۔ انھوں نے برابر ان لوگوں کو ان منافقانہ باتوں پر پھٹکارا تھا۔ احمد علی کی تقریر جاری تھی،
’’میں پہلے بھی کہتا تھا، اب بھی کہتا ہوں کہ پاکستان سے نہ کوئی فائدہ تھا، نہ ہے۔ مسلم لیگ کی سازش میں شریک ہوکر مسلمانوں نے جو نقصان اٹھایا ہے، اس کی تلافی ممکن نہیں۔۔۔‘‘
ادا میاں نے سوچا کے آمدی کے پیرشدی۔۔۔ باپ رہے پھدکی بیٹا تیر انداز! ادا میاں بےساختہ ہنس پڑے لیکن پھر خیال آیا، اس بات میں کچھ سچائی ضرور ہے۔ مسلم لیگ کے زور و شور کے زمانے میں سبھی رئیس، تعلق دار اس کے ساتھ ہو گئے تھے۔ انھیں اپنے زمانے کا الیکشن یاد آیا۔ آج کے ٹکیا چوٹے کیا کھاکر الیکشن کریں گے۔ چپ چپاتے جائیے اور خاموشی سے ووٹ دے کر چلے آئیے اور ہر امیدوار سے جھوٹ بولیے کہ تمھیں کو ووٹ دے آئے ہیں اور ہمارے زمانے کا الیکشن۔۔۔ وہ الیکشن کی ہما ہمی، صبح ہی سے لاریوں کے ذریعہ کسانوں، مزدوروں اور دوسرے رعایا کو ڈھوکر اکٹھا کیا جاتا۔ سب کو رسی کے ایک گھیرے میں کھڑا کرتے۔ پھر وہاں سے ہانک کر پولنگ اسٹیشن لایا جاتا اور ووٹ لکھوا دیا جاتا۔
انھوں نے یاد کیا، انھیں دنوں احمد علی کے باپ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔۔۔ یا۔۔۔ بلکہ نئے نئے کافر ہوئے تھے۔ ویسے بھی میر نواب حسین کی مخالفت کفر ہی تھی! بھلا میر صاحب مرحوم کو یہ بات ناگوار کیوں نہ گزرتی۔ ان کے حلقہ اثر اور ان کے خاندان والوں میں ہی مخالفت ہو؟ ایسا بھی کیا خون سفید ہو جائے۔ اسی الیکشن کے سلسلے میں ادا میاں کو ایک رنگین واقعہ بھی یاد آیا۔ جھیا چمائن واجد علی کارندہ سے کسی طرح ٹھنک رہی تھی کہ اس کے شوہر کو الیکشن پر نہ لے جائیں کیونکہ اس دن انھیں بہت سا کھپرا پاتھنا تھا اور واجد علی بچارے جھیا کی بات نہیں ٹال سکے تھے۔ وہ بچاری بھی تو ان کی بات نہ ٹالتی تھی۔
ادا میاں دیر تک سوچتے رہے، ایک کے بعد ایک بات ذہن میں آتی رہی۔ ہر تصویر سامنے آکر تیزی سے گزر جاتی، ویسے ہی جیسے اس دن مجن کے اصرار پر انھوں نے بائیسکوپ دیکھا تھا جس میں اسی طرح ایک کے بعد ایک سین بدل رہے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہندوستان کی آزادی، فرقہ وارانہ فسادات اور مہاتما گاندھی کے قتل کے مناظر بھی بڑی تیزی سے گزرے۔ ادا میاں نے گھبراکر آنکھیں کھول دیں۔ آنکھ بند کرنے پر یہ سین کچھ زیادہ واضح ہو جاتے۔ آزادی کے بعد ادا میاں کو خوشی ہوئی تھی، حالانکہ میر نواب حسین کی موت کے بعد ان کے گھرانے کے برتاؤ سے وہ بہت دل شکستہ تھے، لیکن انھوں نے اصرار کر کے میر کرامت حسین سے روشنی کا انتظام کرایا تھا۔
ملک بھر میں ایک لمحہ کے لیے روشنی ہی روشنی ہوئی تھی پھر بھیانک اندھیرا چھا گیا۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ بچے اور عورتیں بھی ہلاک کی گئیں۔ ادا میاں کو انھیں دنوں مسلم لیگ کے قیام کا جواز سمجھ میں آیا تھا۔ لیکن یہ احساس ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ ادا میاں نے گھبراکر آنکھیں جھپکائیں۔ یہاں محفل اپنے شباب پر تھی۔ بحث نے نہ جانے کیا کیا منزلیں طے کر لی تھیں۔ چین کی جنگ بندی کے بعد اب پاکستان کی جنگ بندی موضوع بنی ہوئی تھی۔ احمد علی کی آواز پھر ان کے کانوں میں آئی، شاید ہندو مسلم رشتے کی بات کہہ رہے تھے۔ زاہد حسین نے اسی بات کے دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا۔
’’حوالدار عبد الحمید کا نام بار بار لینا اور بقیہ لوگوں کو نظر انداز کر دینا انتہائی خطرناک بات ہے۔ یہی جذبہ ہندو اور مسلمانوں کی علاحدہ پسندی کے پیچھے بھی کارفرما تھا۔‘‘
حسین نے تائید کی، ’’مسلم فرقہ پرستوں نے ایک بار قوم و ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور اب ہندو فرقہ پرستی اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوکر ابھر رہی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو آلہ کار بنانا بہت برے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔‘‘
زاہد حسین نے کہا، ’’فرقہ پرستی جہاں بھی ہو، اس کی مذمت ہونی چاہیے لیکن مسلم فرقہ پرستوں نے ہی ملک و قوم کو نقصان پہنچایا ہے، یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ ہندو فرقہ پرستی ہی کی تحریک نے مسلم فرقہ پرستی کو جنم دیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کامیابی مسلم فرقہ پرستی کو ملی اور انھوں نے ملک کا بٹوارا کر لیا۔‘‘
ادا میاں کو گفتگو کا یہ انداز بہت برا لگتا تھا۔ ایسا بقراط بن کر ایسی عالمانہ زبان میں گفتگو کر رہے ہیں، جیسے سب مسئلے یہی حل کر دیں گے۔ لاحول ولا۔۔۔ لیکن انھوں نے اپنے کو سنبھالا۔ پھر پتہ نہیں کیوں خود بھی اس بحث میں کود پڑے اور اپنی چپ توڑ کر بول بھی پڑے، ’’بھئی! تم لوگ اس وقت لونڈے تھے۔ یہ سب میرا کاتا بنا ہوا ہے۔ یہ عیسائی فرقہ پرستی کا نتیجہ ہے۔۔۔‘‘
حسین نے بات کاٹی، ’’عیسائی فرقہ پرستی۔۔۔ کیا معنی؟‘‘
ادا میاں نے کہا، ’’ارے بھائی میرا مطلب انگریزوں سے ہے۔ انھیں کا سب کیا کرایا ہے۔‘‘
احمد علی نے ٹوکا، ’’عیسائی فرقہ پرستی کی بات اس وقت آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی تھی ادا میاں! جب انگریزوں کے نمائندہ موافقت میں آپ اور آپ کے میر نواب حسین دن رات لگے رہتے تھے۔۔۔‘‘
یہ چوٹ بہت گہری تھی جس پر ادا میاں کو برس پڑنا چاہئے تھا لیکن ان کا لہجہ معلوم نہیں کیوں نرم ہی رہا۔
’’اب بات کو کہنے سے کیا فائدہ!‘‘ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولے، ’’میر نواب حسین میں جہاں ہزاروں خوبیاں تھیں وہاں روپیہ اور عورت ان کی دو کمزوریاں تھیں، جن کو سبھی جانتے ہیں۔ اسی الیکشن میں راجہ جگومل نے ان کو دونوں ہی چیزیں مہیا کر دی تھیں۔‘‘
کوئی دوسرا وقت ہوتا تو لوگ ان سے اس رنگین واقعہ کی تفصیل چھیڑ چھیڑ کر پوچھتے لیکن اس وقت تو ہر ایک مرد میدان سیاست تھا۔ حسین نے ادا میاں کی تائید کے ساتھ کہنا شروع کیا، ’’ادا میاں کا خیال درست نہ سہی لیکن بالکل غلط نہیں ہے۔ اگر آپ آج کے پس منظر میں انگریزوں اور ان کے ساتھیوں کا رول دیکھیں تو بھی بات صاف ہو جاتی ہے۔ ابھی پاکستان کے حملے کے وقت بھی ان کا رویہ بالکل ظاہر ہو گیا ہے۔ حملہ آوروں کو حملہ آور نہ کہہ کر الٹے ہم سے جنگ بندی کا مطالبہ—‘‘
ادا میاں نے کہا، ’’سب خدا کی شان ہے، قدرت بھی ہماری ناسمجھی سے شاکی ہے اور اس کا عتاب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سال پانی نہ برسنے کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟‘‘
’’پانی برسے یا نہ برسے، ہم کو کیا لینا دینا ہے۔ پیٹ تو امریکی غلہ ہی بھرےگا۔ ہماری دعا تو یہ ہے کہ پرمیشور امریکہ میں پانی برسائیں تاکہ وہ ہمارے لیے بھی غلہ پیدا کر سکے۔‘‘ راجہ سنگھ نے کہا۔
بات ادا میاں کے دل کو لگتی تھی، کھل اٹھے، ‘‘ واہ بھئی راجہ سنگھ بالکل سچ کہا!‘‘
لڑکوں کی محفل میں ’’واہ بھئی راجہ سنگھ بالکل سچ کہا‘‘ کی آواز پہنچی تو وہ لوگ ادا میاں کی خدمت میں حاضری کے لیے پہنچے لیکن ادا میاں ان لوگوں کی صورت دیکھ کر بگڑ اٹھے، ’’تم لوگ اپنے ہم عمروں میں کیوں نہیں بیٹھتے۔ آخر میرے پاس کیوں آئے ہو۔ ہمارے زمانے میں تو۔۔۔‘‘
جاوید نے بات کاٹی، ’’لیکن ادّا میاں وہ تو میر نواب حسین کا زمانہ تھا۔‘‘ اور ادا میاں نے ناراض ہونے کے بجائے غور سے سوچنا شروع کیا۔۔۔ واقعی ان کا خود کوئی زمانہ نہیں ہے۔ وہ زمانہ میر نواب حسین کا تھا اور یہ زمانہ جاوید اور ان کے ہم عمروں کا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.