مجھے عورتیں فتح کرنے کا شوق ہے۔
سب جانتے ہیں عورت اپنی ذات میں ایک مکمل دنیا ہوتی ہے لہٰذا پوری دنیا کی طرح پوری عورت کی فتح بے حد ضروری ہے۔ میں اپنی فتوحات کا احاطہ نصف سکندر اعظم کی طرح آدھی دنیا تک محدود نہیں رکھنا چاہتا تھا لہٰذا میری پہلی ترجیح وہ آدھی دنیا ہوتی جو سکندر اعظم کے لیے ہمیشہ غیر مفتوحہ رہی۔
بعض کمزور فرمانروا ایسا بھی کرتے ہیں کہ فتح کیے ہوئے دور دراز علاقے کسی دوسرے کی عملداری میں دے دیتے ہیں، یوں ایک کمزور قسم کا کنفیڈریشن تو بن جاتا ہے لیکن مرکز کی بالادستی، زیردستی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے اور اکثر علاقے موقع پاتے ہی آزادی کا اعلان کر دیتے ہیں۔
بسا اوقات ہتھیار ڈلوانے کے عمل سے ہی مجھے اتنی آسودگی مل جاتی کہ میں فتح کے بعد مفتوحہ علاقے کو تاراج کرنے سے گریز کرتا حالانکہ رعایا مغلوب ہوتے ہی اس خوش گمانی میں مبتلا ہو جاتی تھی کہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائےگی۔
عورتیں فتح کرنے کے اس شوق کی ابتدا عہد شباب میں ایک مفتوحہ مرد سے ملنے کے بعد ہوئی۔ وہ مرد ایک نوجوان تھا اور ان دنوں کسی پالتو وفادار کی طرح ایک لڑکی کے پیچھے دم ہلاتا پھر رہا تھا۔ میں اس کے قریب تو چلا جاتا تھا لیکن نزدیک نہیں کیونکہ اس کی نزدیکی مجھ پر بالکل ویسی ہی مفتوحانہ کیفیت طاری کر دیتی تھی جو قدیم رومن ایمپائر کے ان غلاموں پر ہمہ وقت طاری رہتی تھی جو اپنے جسم سے بھی ذہن کا کام لیتے تھے۔ صورت حال یہاں بھی ویسی ہی تھی ۔فرق تھا تو صرف اتنا کہ موڈرن غلام اپنی سزا خود تجویز کرتا تھا، غلط وقت پر فون کرنے کی سزا بہت دنوں تک رابطہ منقطع ہو جانے پر منتج ہوتی۔ زیادہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے آنسو نکل آنے پر لڑکی اس قدر ڈانٹ پھٹکار کرتی کہ عاشق مذکور عرصہ دراز تک ہنسنے کی ہمت نہ کر پاتا۔ خود سری کے اسی بے لگام نسائی رویے نے مجھے عورت کو سدھانے اور سدھارنے پر آمادہ کیا۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے لوگ کہتے ہیں دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہے، میں اسے صریحاً غلط کہتا ہوں۔ میرا خیال ہے ہر عورت میں سے ایک سے زیادہ عورتیں برآمد کی جا سکتی ہیں، عورت جلدی جلدی بنتے بگڑتے جذبوں کے زیر اثر جبلتاً، فطرتاً، طبعاً، ضرورتاً، مکرناً، فریباً، سرعتاً، آناً فاناً تبدیل ہو جاتی ہے سیما بیت کی گود میں پرورش پانے والی یہ مخلوق اپنی اکائی کے آگے دہائیاں لگانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔ حد ہے نام تک بدل لیتی ہے، بسا اوقات نئے نام کے ساتھ زیادہ دیر تک اسٹک نہیں کرپاتی تو اسے چینج کر لیتی ہے۔۔۔بحرالکاہل کے آگے کوئی اور بحرالکاہل نہیں ہے لیکن ایک عورت کے بعد کئی عورتیں ہوتی ہیں جو مرد کو کولمبس بننے پر مجبور کرتی رہتی ہیں چاہے وہ غلط جگہ پر ہی کیوں نہ اتر جائے۔
طویل تجربے سے ثابت ہوا کہ ایسی عورتیں جلد قابو میں آ جاتی ہیں جو شوہروں کے ’مزاج‘ اور اپنے ’آج‘ سے بہت تنگ ہوں۔ میرا خیال ہے پہلے پہل عورت کو ایک خام مال کے طور پر لینا چاہیے، چاہے مال کتنا ہی تیار کیوں نہ ہو۔ تجربے نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگر عورت کو کسی طرح یہ باور کرا دیا جائے کہ مرد کی بھی عصمت ہوتی ہے تو آنے والے دنوں میں اس کا برتاؤ بالکل مردوں جیسا ہو جاتا ہے۔
عورت شکست خوردگی کے عمل سے گزر رہی ہو تو خود سپردگی کی علامت واضح طور پر ایک ایک کرکے ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ زیر نگیں سب سے پہلے ان احتیاطی تدابیر کو روبہ عمل لاتی ہے جو عام حالت میں اسے زیب نہیں دیتیں۔ نظر ارادتاً ڈالتی ہے لیکن اچٹتی ہوئی، بیٹھے بیٹھے اچانک بال کھول دیتی ہے۔ جسے نارمل حرکت ہر گز نہیں کہا جا سکتا، دانتوں اور پیروں کی صفائی ستھرائی کا دورانیہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ دیگر اعضاء کی صفائی ثانوی بلکہ بےمعنوی ہو کر رہ جاتی ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں دانت دکھانے کے لیے نہیں کھانے کے لیے ہوتے ہیں اور پیر راہ گزر ہیں، سنگ میل نہیں۔
فربہ اندام عورت سب سے پہلے چھریرہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اور وقت ضائع کیے بغیر نازک اندام بننے کا جان جوکھوں کام اپنے ذمے لے لیتی ہے، اس کا بس نہیں چلتا کہ پہلی فرصت میں جسم سے تہہ بہ تہہ جڑے گوشت کے موٹے موٹے پترے قصائی کی طرح خود ہی اتارنا شروع کر دے اور مطلوبہ نتائج ایک ہی دن میں حاصل کر لے۔ وہ اتنی لمبی واک لینے لگتی ہے کہ اکثر خود کو بھی پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ بسیار خوری سے کلیتاً تائب ہو جاتی ہے اور محبوب کے سوا ہر میٹھا گناہ کبیرہ کی ذیل میں آ جاتا ہے۔ مریضہ پورے چاند کی رات، اٹھتی گھٹا، درد بھرا نغمہ اوردلکش منظر زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاتی۔ ایسے میں وہ اپنے آپ تک سے لاتعلقی کا اظہار کرنے لگتی ہے اور تمام رابطے توڑ کر صرف رابطۂ محبوب استوار کرنا چاہتی ہے لیکن چونکہ ممکن نہیں ہوتا، لہذا گریہ کرتی ہے۔
وہ ابتدائی ایام ہی میں محبوب کی تاریخ پیدائش معلوم کر لیتی ہے تاکہ اس کا سیارہ دریافت کر سکے۔ پھر فلکیات کی کتابوں کا بغور مطالعہ کرکے اپنی ذات کو محبوب کی ذات میں سمونے کی سعی پیہم میں لگ جاتی ہے۔ ستارے نہ ملنے کی صورت میں وہ سیاروں کو تو کیا چاند سورج تک کو جھٹلادیتی ہے کیو ں کہ اس کے اپنے اجرام فلکی تو کرۂ ارض پر آچکے ہوتے ہیں۔
ان کیفیات کی ترسیل سب تک براہ راست ہورہی ہوتی ہے۔ بےحد اونچا سننے والوں تک کو خطرے کی گھنٹیاں واضح طور پر سنائی دینے لگتی ہیں لیکن سب اغماز برتتے ہیں کیونکہ جذبہ صادق کے آگے ٹھہرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دل کی طاقت اور حماقت کا اندازہ محبت کرنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔ نوبت اکثر یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ متذکرہ اگر شادی شدہ ہے تو اس کا شوہر رفع شر کے خیال سے اسے خود محبوب کے گھر لے جاتا ہے اور پھر رات گئے دونوں نارمل ہو کر ہنسی خوشی گھر لوٹ آتے ہیں۔
مرد میں اس درجہ حدت ہوتی ہے کہ عورت بلا تاخیر پگھل جاتی ہے لیکن حکمت عملی یہ ہے کہ اس حدت کا اخراج نہیں، انعکاس ہونا چاہیے۔ مختلف عمر کی عورتوں کے نفسیاتی اور جسمانی کیفیتوں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے میں نے مختلف کلیے وضع کر رکھے تھے۔ ہر چند کہ یہ تجربہ چند ناخوشگوار اور تلخ واقعات سے گزرنے کے بعد حاصل ہوا لیکن اس کے بعد گویا روز مرہ ہو کر رہ گیا۔ اس کی مثال بعینہ موٹر کاروں کی اس سروس جیسی ہے جو بیرون ملک کی جاتی ہے۔ ایک طرف سے گرد مٹی، دھول میں اٹی ہوئی گاڑی داخل کی جاتی ہے۔ پہلے ہوا ماری جاتی ہے بعد ازاں ہلکے پانی کے ساتھ رگڑائی کا مرحلہ آتا ہے پھر صابن کا استعمال اور آخر میں پانی اتنے پریشر کے ساتھ مارا جاتا ہے کہ کونوں کھدروں تک کا میل باہر نکل آتا ہے۔
اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ ایک نئی زندگی میری زندگی میں داخل ہوگئی، لمحہ لمحہ پلک جھپکاتی ہوئی میری آنکھیں صرف ایک چہرے پر ٹہر گئیں۔ چہرہ ور چالیس برس کا چلہ کاٹ کر اپنے حجرے سے باہر آ چکی تھی اور مڑ کر کھلے ہوئے دروبام کو حیرت سے تک رہی تھی۔ طویل ریاضت کا پرسکون چہرہ اس انتشار اور ہلچل کو دبانے میں پوری طرح کامیاب نظر آتا تھا جو وہ گزرے ہوئے موسموں میں جھیل چکی تھی۔
اس سے ملاقات کا دورانیہ بس خزاں سے بہار تک تھا۔ لیکن یہی مختصر عرصہ میرا عرصۂ حیات تنگ کیے ہوئے تھا۔ اس کی طبیعت کے گمبھیر ٹھہراؤ کو دیکھتے ہوئے میرے پُرشور دریاؤں جیسے شوریدہ سرجذبوں میں جھیل کے پانیوں ایسا ٹہراؤ آتا جا رہا تھا۔ وہ دوسری عورتوں سے بےحد مختلف تھی، اتنی کہ اگر اسے اشرف المستورات کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ اس کے چہرے کے خدوخال کا ہر زاویہ عمیق سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا رہتا اور کسی صورت سطح آب پر آنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ نزدیک بیٹھے بیٹھے مجھ سے اچانک یوں لاتعلق ہوجاتی کہ مجھے اپنے ہونے پر شک گزرنے لگتا۔ میں نے محسوس کیا اس کے اندر ایک ایسا پراسرار ماحول پنپ رہا تھا جو ظاہر ہونے سے کتراتا رہتا تھا۔
مجھے خیال آیا پچھلے دو ہفتوں سے میں سخت ورزش کر رہا تھا۔ منہ اندھیرے اٹھ کر بلا ناغہ اتنی لمبی واک لے رہا تھا کہ لگتا خود کو بھی پیچھے چھوڑ جاؤں گا، انتہائی مجلسی ہوتے ہوئے بھی تنہائی پسند ہوتا جا رہا تھا۔ شام ہوتے ہی ہارٹ اٹیک سے کچھ دیر پہلے والی بےچینی میرے جسم کے روئیں روئیں میں رینگنے لگتی اور پیش نظر ہر چیز سے اتنا بیزار کر دیتی کہ جی مرنے کو چاہنے لگتا۔ پھر ایک رات گزرے دنوں کے بہت سارے نام نہاد رت جگوں کے بعد میں نے پورے چاند کو دیکھا تو انکشاف ہوا کہ رات تو صرف چاند کو تکنے والوں کے لیے بنائی گئی ہے۔
وہ دو موسموں کے درمیان ٹھہری ہوئی ایک باوقار شام تھی۔ وہ میرے سامنے بیٹھی ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اچانک وہ ہنسی۔ ہنسنے کا انداز بالکل میرے جیسے تھا، پھر اس نے ٹھوڑی پر انگلی رکھی، آنکھوں کو چہرے جتنا بڑا کیا اور مجھے لگاوٹ والے پیار سے تکنے لگی۔ دل پکڑ لینے والے خوف کی ایک تیز لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔
میں بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔
آنے والے کل کے خوف سے میں سہم گیا اور اس کے چہرے سے نظریں ہٹانا چاہیں لیکن پوری کوشش کے باوجود میں ایسا نہ کرسکا کیونکہ میری آنکھیں پلکیں جھپکانا بھول گئی تھیں۔
اور اس کے چہرے پر فتح مندی کا پھریرا پوری شان و شوکت سے لہرا رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.