پتھر کا شہزادہ
آئیے۔۔۔ آئیے میڈم جی۔۔۔ چھوٹے بابا!
آپ نے پورے شہر کی سیر کر لی! مگر اس میوزیم کو دیکھے بغیر کینڈا واپس مت جائیے۔
شام ہو گئی ہے؟ اجی میڈم! شام تو روز ہی ہوا کرتی ہے۔ روز مشرق بڑی بھاگ دوڑ کر کے سورج کو دنیا کی طرف گھسیٹ کر لاتا ہے اور روز مغرب اسے اندھیرے میں ڈبو دیتا ہے۔ ہاہاہا۔ آپ بے فکر رہیے۔ رات ہونے سے پہلے آپ اپنے ٹھکانے پر ضرور پہنچ جائیں گی۔
اس میوزیم میں دنیا کے ہر کونے سے نایاب چیزیں اکٹھی کی گئی ہیں۔
یہ لیجیے، یہ اس میوزیم کی گائیڈ بک ہے اور یہ البم ہے۔ میں اس کی قیمت نہیں لو ں گا۔
آپ میرے بغیر اس میوزیم کو نہیں دیکھ سکیں گی میڈم۔ آپ کو ایک گائیڈ کی ضرورت ہے۔
ابھی آپ میوزیم کے اندر قدم مت رکھیے۔
وہ آپ کو سامنے بادشاہ کا دربار خاص نظر آ رہا ہے؟
آپ یہاں کھڑے ہو کر تالی بجائیے۔
پورے محل میں آواز گونج اٹھتی تھی، ’’کوئی فریادی آیا ہے؟‘‘
بادشاہ سلامت گھبرا کے اٹھ جاتے تھے۔
مگر جھٹ پٹ سارے مصاحب ان کے آس پاس کھڑے ہو کر انہیں یقین دلاتے تھے۔ یہ تو جھونکا ہوا کا تھا۔ بھلا ان کے راج میں کسی کو فریاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب ملاحظہ فرمائیے۔
یہ ایک نایاب گھڑی ہے۔ ایک صدی ہو گئی۔ ہر گھنٹے پر گھڑی کے اندر سے ایک غلام نکل کر ڈرم پر ضرب لگا کر محل کے اندر سونے والوں کو جگانا چاہتا ہے۔
مگر ابھی تک بچارے کی آواز محل والوں تک نہیں پہنچ سکی۔
ذرا ٹھہرئیے۔ ابھی اندر مت جائیے۔ پہلے دروازے پر رکھے ہوئے ان حبشی غلاموں کے اسٹیچو تو دیکھ لیجیے۔
آپ کا بیٹا ٹھیک کہہ رہا ہے میڈم! ان غلاموں کی آنکھیں نکال دی جاتی تھی اور انھیں مردانگی سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ کیوں کہ وہ بیگمات کے حرم سرا کی حفاظت کرتے تھے۔
یہ دیکھیے۔ محل کے دروازے پر کتنی شاندار توپیں رکھی ہوئی ہیں۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چھوٹے میاں۔۔۔
اگلے وقتوں میں جب راجہ کسی ملک پر چڑھائی کرتے تھے تو وہاں کے عوام کو سنگسار کیا جاتا تھا۔ پھر تلواروں سے مارنے لگے۔ پھر بندوقوں سے اور اب تو عوام کے سر پر ایٹم بم کا سوئچ دبایا جاتا ہے۔ ہاہاہا۔
آئیے۔ اب میوزیم کے اندر چلتے ہیں۔
یہ شہنشاہ بابر کے جوتے ہیں۔۔۔ ان ہی جوتوں کو پہن کر وہ ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ آج بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونے والے ان جوتوں میں پانوں ضرور ڈالتے ہیں۔
یہ وہ تاج ہے جو شہنشاہ جہانگیر نے انار کلی کے لیے بنوایا تھا۔ بعد میں انارکلی کا سر اس میں سے غائب کر دیا گیا۔
اب آپ یہ دیکھیے۔۔۔ یہ شہنشاہ اکبر کی تلوار کی میان ہے۔۔۔ جی نہیں بادشاہوں کی میان میں تلوار کبھی نہیں رہی۔ وہ تو صرف میان ہی سے ڈراتے تھے۔
یہ ایک شہنشاہ کی خواب گاہ ہے۔ سونے کا چھپر کھٹ۔۔۔ سونے کی جالیاں۔ خواب گاہ کے سامنے سات کنواریاں سر جھکائے کھڑی ہیں۔
کون جانے۔ آج کس کے نصیب جاگیں گے۔۔۔؟
یہ ایک بھکاری کا اسٹیچو ہے۔ اسے بھی ضرور کسی بادشاہ نے ہی بنوایا ہوگا۔ دونوں ہاتھ پھیلائے وہ بھیک مانگ رہا ہے۔
اس کے بارے میں صحیح طور پر میں بھی نہیں بتاسکتا کہ یہ کونسا زمانہ تھا، جب کسی بادشاہ نے اپنے آگے کسی ہاتھ پھیلانے والے کو نہ پاکر، یہ اسٹیچو بنوایا ہوگا!
یہ میرزا غالب کی ٹوپی ہے۔۔۔ ہاں، اس کا سائز بہت بڑا ہے۔۔۔ بہت سے شاعروں نے اسے پہننے کی کوشش کی۔ مگر انکا منہ چھپ گیا۔ ہاہاہا۔ پہلے میرزا غالب کا قلمی دیوان بھی اس میوزیم میں تھا۔ سنا ہے کچھ ضرورت مند ادیبوں نے اس کو نیلام کر دیا۔
اب آپ اس گیلری میں آئیے۔
یہاں دنیا بھر کی نایاب پینٹنگس کا کلکشن ہے میڈم!
یہ دیکھیے۔۔۔ ایک شاعر دربار میں بادشاہ کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا ہے۔ اس شاعر کا منہ موتیوں سے بند کر دیا جاتا تھا۔
اس زمانے میں ایوارڈ دینے کا یہی طریقہ تھا میڈم جی۔
یہ ایک اور شہنشاہ کا دربار ہے۔
سارے نورتن سر جھکائے آنکھیں بند کیے کھڑے ہیں۔
جی۔۔۔؟ آپ کے بیٹے پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ پارلیمنٹ ہاؤ ز ہے۔ ہاہاہا۔
سنا ہے ان درباروں میں آنے والوں کا اگر قد اونچا ہوتا تھا تو ان کا سر کاٹ کر چھوٹا کر دیتے تھے۔
یہ دنیا کی نایاب کتابوں کے مین اسکرپٹس ہیں۔۔۔ ان میں کیا لکھا ہے۔۔۔؟ یہ تو شاید ابھی کھول کر دیکھا گیا ہے۔
آپ پہلے یہ پینٹنگ دیکھ لیجیے میڈم! سقراط کو سچ بولنے کے جرم میں زہر کا پیالہ پلایا جا رہا ہے۔ ہاں چھوٹے بابو!۔ سچ بولنا آج کی طرح اس وقت بھی جرم تھا۔
یہ ایک اور بھی پنٹنگ ہے۔ نافرمانی کر نے والے کو سنگسار کیا جارہا ہے۔ چھوٹے میاں۔۔۔! پرانے زمانے میں انہیں پتھروں سے مارتے تھے۔ پھر تلواروں سے مارنے لگے۔۔۔ پھر بندوقوں سے نافرمانی کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اب ان کے سروں پر ایٹم بم رکھ دیا گیا ہے۔
جی ہاں۔ دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے نا۔
یہ مصر کا بازار ہے۔۔۔ نیم برہنہ حسینائیں۔ اپنے حسن اور جوانی کی جھلک دکھا کر امیروں اور شہزادوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔ نہیں چھوٹے بابو۔۔۔! یہ کناٹ پلیس نہیں ہے۔
اس فریم کے اندر سونے کے حروف سے لکھا کسی شہنشاہ کا فرمان مبارک ہے۔ اس فرمان کی عبارت کا ترجمہ الگ رکھا گیا ہے۔
’’حرم سرا کی دو سو رانیوں کے منصب کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔‘‘
’’آزادی۔ تمام وزیروں کے لیے۔‘‘
’’خلعت اور انعام۔۔۔ تمام شہزادوں کے لیے۔‘‘
’’سزائیں اور جرمانے۔ سوچنے والے نوجوانوں کے لیے۔‘‘
باغی اور سرکش عوام کو جہنم رسید کرنے کے لیے ظل سبحانی نے اپنے ملک میں ہی ایک دوزخ تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ ملکہ عالم کے زیوارات ہیں۔۔۔
یہ شہزادے کا سونے کا پالنا ہے۔
یہ شہنشاہ کے ہیروں موتیوں سے آراستہ جوتے ہیں۔
اس سیکشن میں دنیا کے نایاب اسٹیچوز ہیں میڈم!
ان سنگ تراشوں نے بڑے بڑے مہاتماؤں اور دنیا کی مشہور ہستیوں کو کس خوبی سے پتھر میں ڈھال دیا ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیے بیگم صاحبہ۔۔۔
بہن جی۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ پتھر کو پیار عقیدت کے ہاتھوں سے ڈھالو تو بھگوان کا روپ دھار لیتا ہے اور ہوس بھرے ہاتھ ایک عورت کو پتھر بنا دیتے ہیں۔
یہ دیکھیے، یہ میرا بائی ہے۔ کہتے ہیں اس کے پتی نے اس کے ہاتھ سے اکتارہ چھین کر اس کے منہ سے گیت بھی چھین لیے تھے۔ آپ دیکھیے۔۔۔ اب وہ اس میوزیم میں پتھر کی عورت نظر آتی ہے۔
یہ دیکھیے، فرعون۔۔۔ راون۔۔۔ مسولینی۔۔۔ ہٹلر کے اسٹیچوز ہیں۔ دور سے دیکھیے تو ایسا لگےگا جیسے سچ مچ کا فرعون کھڑا اپنی خدائی کا اعلان کر رہا ہے۔
اس کے بعد یہ سب اور بادشاہوں اور ہمارے لیڈروں کی قطار شروع ہو جاتی ہے۔ ان کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا۔۔۔ یہ ہمارے آخری راہ نما ہیں۔۔۔ قریب آکر دیکھو چھوٹے بابا۔۔۔! وہ ہاتھ میں ایٹم بم اٹھائے اس سنسار کے خاتمے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ مگر ایک اڑچن آ گئی ہے۔۔۔
ساری دنیا ختم کردیں گے تو انھیں نوبل پرائز کون دےگا۔۔۔؟
اب سامنے دیکھیے۔
کتنا اونچا مہاتما بدھ کا مجسمہ ہے وہاں۔
آپ چاہیں کسی طرف جا کھڑے ہوں۔ بدھا کی نگاہیں آپ کا پیچھا کیے جائیں گی۔
میڈم جی۔۔۔! کچھ دیر یہاں رک جائیے۔
آنکھیں بند کر لیجیے اور غور سے سینے۔
بدھا آپ سے کہہ رہا ہے،
’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو، اسے سنا بھی کرو۔‘‘
یہ پینٹنگ یہاں پہلے نہیں تھی۔ شاید ابھی آئی ہے۔
یہ کسی آج کے مصور کی آخری پینٹنگ ہے۔ سنا ہے اس کی سب پینٹنگس جلا دی گئیں۔ اس کا ٹائیٹل ہے، ’’پتھر کا شہزادہ‘‘
سوری میڈم۔۔۔ یہ تو میں نہیں جانتا کہ مصور نے اس پینٹنگ کا یہ ٹائیٹل، کیوں رکھا ہے۔۔۔؟
شہزادے کو تو پیچھے پلٹ کر دیکھنے پر سزا ملتی تھی۔ مگر اس شہزادے کو شاید آگے دیکھنے کے جرم میں پتھر بنا دیا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.