Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پی۔ بی۔ ایل 536

منیر احمد شیخ

پی۔ بی۔ ایل 536

منیر احمد شیخ

MORE BYمنیر احمد شیخ

    نیا شہر اجنبی لڑکی کی طرح اسے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ اجنبی لڑکی اور نیا شہر وہ جادونگری تھی جس میں راستہ بھولنا اسے بھلا لگتا تھا۔ راستہ بھولے اسے بہت مدت ہو رہی تھی۔ ناک کی سیدھ چلتی ہوئی سڑکوں اور گلیوں میں چل چل کے وہ تنگ آ گیا تھا۔ یہ بھی کیا مصیبت ہے کہ شہر کی تمام سڑکیں سیدھی اور ایک دوسرے کے متوازی دوڑتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر قدم پر منزل کی نشاندہی کا اعلان ہے اور وہ سڑکیں جوان متوازی سڑکوں کو قطع کرتی ہیں وہ بڑے سے قائمے زاوئیے بناتی ہیں۔کسی چوک میں کھڑے ہو جائیے اور راستوں کا آغاز اورانجام دیکھ لیجئے۔ وہ زندگی کی اس سیدھ سے بےحد اکتا گیا تھا۔ وہ بستی کہاں ہے جہاں آدمی راستہ بھول جایا کرتا تھا۔ راستہ بھولنے کے بعد اس کے اندر تحیر اور پھر تحیر میں سے دریافت کا عمل شروع ہوتا تھا۔ دریافت کے عمل میں اسے وہ انجانی اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں نصیب ہوتی تھیں جو سیدھے منزل کی طرف جاتے ہوئے راستوں میں کبھی نہیں ملتیں۔ سیدھی سڑک پر چلتے ہوئے آدمی پر اسے سکوٹر اور بس کا شبہ ہوتاکہ جن میں پٹرول بھر کر گیئر لگا دیا جائے تووہ آپ سے آپ دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ چلتے چلتے اپنی ٹانگوں پر ہاتھ لگا کے یہ جاننے کی کوشش کرتاکہ وہ کون سے گیئر GEAR میں ہے۔ سڑک پر جب کوئی موڑ آتا ہے تو وہ اپنی رفتار سست کر دیتا اور ٹانگوں پر ہاتھ لگاتا۔ ’’اب فرسٹ گیئر چل رہا ہے‘‘۔ فرسٹ گیئر کے شور سے اسے وحشت ہونے لگتی تو وہ کبھی کبھی ایک آدھ موڑ تیزی سے کاٹتا اور خوش ہوتا کہ اس نے تیسرے گیئر میں موڑ کاٹ لیا ہے اور اس کی تیز رفتاری سے وہ شوور اور گرڑ گرڑ پیدا نہیں ہوئی جو فرسٹ گیئر لگانے سے پیدا ہوتی ہے اور جس سے اسے سخت وحشت ہوتی۔ سیدھی سڑک اور فرسٹ گیئر دونوں سے اس کی جان عذاب میں تھی۔ اس نے کئی دفعہ گڑگڑا کردعا کی اللہ میاں تو نے ساری سڑکیں سیدھی کر دی ہیں تو مجھے بھی آدمی کی جگہ سکوٹر بنا دیا ہوتا!

    اپنی ذات اور سکوٹر کی مماثلت کے اس نے بہت سے پہلو تلاش کر رکھے تھے۔ سکوٹر کے پہیوں پر اسے ہمیشہ اپنی ٹانگوں کا شبہ ہوا۔اس کی پٹرول کی ٹینکی پہ کئی دفعہ اس نے اس خیال سے ہاتھ رکھا جیسے وہ اپنے معدے کو دبا کے دیکھ رہا ہے کہ اس میں خالی ہوا تو نہیں بھری ہوئی۔ اس کی روشن بتی پہ اسے ہمیشہ یہ گمان ہوا جیسے کوئی احساس جرم کا مارا ہوا شخص تاریکی میں چھپ کے اپنی سیاہیوں پہ تیز نظر ڈال رہا ہو۔ سکوٹر، کار اور بسوں کی تیز لکیر سی روشنی سے وہ غضب آلود ہو جایا کرتا۔ راستہ چلتے چلتے جب کبھی وہ تیز روشنی کی زد میں آ جاتا تو اسے یوں لگتا جیسے کسی نے سرراہ اس کے کپڑے اتار دیے ہیں اور وہ ننگا دھڑنگا اپنی جسمانی کمزوریوں کے ساتھ سب کو نظر آ رہا ہے۔ تیز روشنی اپنے جسم پرپڑتے ہی وہ کار، سکوٹر اور بس چلانے والے کوایک غلیظ سی گالی دیتا کہ وہ اندھیرے میں بیٹھے ہوئے اسے ننگا کرکے دیکھ رہے ہیں۔خط مستقیم اس کے ذہن اور اعصاب پر اس بری طرح سوار تھا کہ جہاں کہیں کاغذ کتاب پہ وہ سیدھی سطریں دیکھتا انہیں کاٹنا شروع کر دیتا۔ لکیروں والے رائٹنگ پیڈ پہ اس نے کبھی کسی کو خط نہیں لکھا تھا کہ ایسے پیڈ کو دیکھتے ہی اس پہ کچھ لکھنے کا سوال ہی آپ سے آپ ختم ہو جاتا۔ زمین پہ جب کبھی وہ انگلی یا تنکے سے کوئی خط کھینچتا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھا میڑھا اور بل کھاتا ہوا ہوتا۔ جسمانی طور پر سیدھی لڑکی سے اسے سخت نفرت تھی۔ لیکن جذباتی طور پر کچی اورسیدھی لڑکی سے اسے پیار کی حد تک دلچسپی ہوتی تھی کہ ایسی لڑکی کو وہ جیسے چاہے ٹیڑھا کر سکتا ہے اوراس میں بل پیدا کر سکتا ہے۔ سانپ جیسے بل، پہاڑی ندی کے سے بل، پھلوں سے لدی ہوئی شاخوں کے بل، گلے میں ڈالی ہوئی بانہوں کے خم اورجھکی ہوئی گہری پلکوں کے سایوں کی گولائی۔

    نئے شہر میں سیدھی سپاٹ سڑکیں تھیں اور ترچھی سوچ، ترچھی سوچ اس شہر کے رہنے والوں کو اس طرح کاٹتی چلی جاتی تھی کہ ان کے الگ الگ حصے ہو گئے تھے۔ درجہ سوم اور درجہ چہارم کے ملازمین ای ٹائپ کے کوارٹروں میں رہتے تھے۔ ای ٹائپ کے کوارٹر جہاں ختم ہوتے تھے وہاں ایک سیدھی سڑک دیوار کی طرح گزرتی تھی اور اس دیوار سے آگے ڈی ٹائپ کے مکان شروع ہوتے تھے۔ درجہ دوم کے ملازمین ڈی ٹائپ میں رہتے تھے اور ای ٹائپ والوں کو دیکھتے تھے اوراپنے سے حقیر جانتے تھے۔ ڈی ٹائپ والے ای ٹائپ والوں کی طرح مسلسل اسی فکر میں غلطاں رہتے تھے کہ انکی تنخواہ کب اتنی بڑھے گی کہ وہ سی یا بی ٹائپ کے مکانوں میں چلے جائیں گے۔ مکانوں اور ٹائپ کاقصہ یہ تھا کہ تنخواہ کے مطابق ہر شخص کا درجہ متعین تھا اور وہ اپنے درجہ میں بیٹھ کر اوپر کے درجہ کی طرف دیکھتا رہتا کہ سالانہ ترقی کے متواتر کتنے سالوں میں وہ اس قابل ہوگا کہ اپنے درجے والوں سے آگے نکل جائے اور ان سے اعلیٰ درجے کے ٹائپ میں رہ کر ان کی طرف حقارت سے دیکھ سکے۔ مختلف درجوں کے درمیان سیدھی سپاٹ سڑکیں حقارت کی لکیریں تھیں کہ جن کو پاٹنے کی فکر اس شہر کے ہر باسی کو لگی رہتی۔ یہ لکیریں تو مکانوں کے باہر سے گذرتی تھیں۔ لیکن جب کبھی نچلے ٹائپ کے بچے کھیلتے کھیلتے اوپر والے درجے کے ٹائپ کے گھروں کی طرف جاتے اور اوپر والے ٹائپ کے لوگ اپنے بچوں کو منع کرتے کہ وہ گھر سے باہر نچلے اور گھٹیا ٹائپ کے بچوں سے نہ کھیلیں تو نفرت اورحقارت کی یہ لکیریں گھروں کے صحنوں، برآمدوں اور کمروں میں سے ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزرنے لگتیں۔ نچلے ٹائپ میں رہنے والی مائیں شام کے وقت اپنے بچوں کوخاص ہدایت کرتیں کہ وہ اپنے محلے ہی میں کھیلیں، اس سے اگلے محلے میں نہ جائیں وہاں صاحب لوگ رہتے ہیں۔ مکانوں اور محلوں کی اپنی کوئی شخصیت نہ تھی۔ نہ کوئی گھر بیری کے بوٹے سے پہچانا جاتا اور نہ کسی گھر میں آسیب تھا کہ جس پر برسوں تالا پڑا رہتا ہے اور بچے اور بوڑھیاں وہاں سے پرے ہو کر گزرتے ہیں اور نہ کوئی ایسی تھی کہ جس میں بادشاہ اور فقیر اپنے تخت اور تکیے پر اپنے حال میں مست پڑے ہیں اور بادشاہ چل کے فقیر کے تکیے پر آتا ہے۔

    شخصیت نہ مکانوں کی تھی نہ مخلوق کی۔ کوئی اپنی صفت سے نہیں پہچانا جاتا تھا، پہچان صرف ذات پات کے حوالے سے ہوتی تھی۔ ذاتیں کہ جن کو نفرت کی سیدھی سڑکیں کاٹتی چلی جاتیں تھیں اور جن پر چلتے ہوئے آدمی اپنے معدے کو دبا کے دیکھتا تھا کہ اس میں کتنے گیلن پٹرول بھرا ہوا ہے۔ پٹرول پمپ جگہ جگہ تعمیر ہو گئے تھے۔ چوڑی چکلی کشادہ سڑکوں والے، جن میں سے پٹرول جب باہر آتا تھا تو سوئی بھی ساتھ ہی گھومتی تھی اور بتلاتی تھی کہ اتنے گیلن پٹرول باہر نکل گیا ہے۔ نئے شہر میں چلتے چلتے جب اسے سخت بھوک لگی تووہ ایک پٹرول پمپ کی مشین کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کی نالی منہ میں ڈال کر پٹرول پمپ والے کو حکم دیا ’’آدھی گیلن‘‘۔

    پٹرول پمپ والے نے اس کو گالی دی اور پٹرول بھرنے والی نالی اس کے منہ سے کھینچ کر ساتھ آکر کھڑی ہونے والی موٹر کی پیٹھ میں ڈال دی اور سوئی تیزی سے گھومنے لگی۔ اسے پٹرول والے پر سخت غصہ آیا اور جب موٹر پٹرول بھروا کر چل پڑی تو اس نے زمین پر سے ایک کچا ڈھیلا اٹھا کر اسے مارا۔ مگر موٹر آگے نکل چکی تھی۔ کچے ڈھیلے کی مٹی ذرا سی اڑی پھر زمین پر بکھر گئی۔ اس نے اپنا سر پکڑ کر اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ سیدھی سٹرکیں، موٹریں، سکوٹر پٹرول، گھومنے والی سوئی۔۔۔نفرت اور حقارت، آدھی گیلن، دو گیلن۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے بہت سا پٹرول پی لیا ہے اور اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا ہے اوراس کے پیٹ میں نفرت بھر گئی ہے۔ اس نے اپنے حلق میں انگلی ڈال کر قے کرنے کی کوشش کی کہ اس کاجی بہت متلانے لگا تھا۔ اسے قے بالکل نہیں ہوئی۔ لیکن اس کا پیٹ بوجھل تھا اور پٹرول پمپ پرموٹریں اور سکوٹر پٹرول بھرواتے چلے جا رہے تھے۔

    ’’لعنت‘‘۔ اس نے اپنے بارے میں سوچتے ہوئے یہ لفظ دو چار مرتبہ منہ سے نکالا۔ اس نے سوچا کہ میں آدمی ہوں یا جانور۔ لیکن پھر فوراً ہی اصلاح کر دی نہیں آدمی یا سکوٹر، اس نے پانچویں مرتبہ اپنے آپ پر لعنت بھیجی اور اپنے خیالات کی گرد کو ذہن سے ہٹانے کے لیے نئے شہر کے ایک نئے کیفے میں داخل ہو گیا تاکہ وہ چائے کی پیالی سے ان خیالات کے دھارے کو بدلنے کی کوشش کرے۔اس نے چائے کا آرڈر دیا اور سگریٹ سلگائی، سگریٹ کے کش میں اسے پٹرول کی بو آئی تواس نے سوچا شاید تمباکو کو پٹرول کی چس دے دی گئی ہے۔ اس کی طبیعت پھر گھبرائی۔ چائے کا پہلا گھونٹ پیتے ہی اس کی زبان سے وہی ذائقہ چمٹ گیا جو پٹرول کی نالی منہ میں ڈالنے پر محسوس ہوا تھا اس نے چائے وہیں رکھ دی اور سگریٹ کو پاؤں سے مسل کر آرام سے بیٹھ گیا۔ نئے شہر کے لوگ محو گفتگو تھے۔ پچھلی ٹیبل والے ایک نئے شخض کا تعارف ایک دوسرے سے کروا رہے تھے۔

    ’’ان سے ملیے۔ محمد حسین صاحب! بی ٹائپ میں رہتے ہیں‘‘۔ پاس بیٹھے ہوئے ڈی ٹائپ والوں نے مسرت اور عقیدت کے ملے جلے جذبات سے بی ٹائپ والے کی طرف دیکھا اور اسے بڑی عزت سے پوچھا کہ وہ چائے کے ساتھ کیا کھانا پسند فرمائیں گے۔ بی ٹائپ والے نے کہا وہ صرف چائے پئےگا اور وہ بھی بغیر شکر کے۔ ایک ڈی ٹائپ والے نے قہوہ اس کی پیالی میں انڈیلا اور بےدھیانی میں چمچہ اس کی پیالی میں ہلانا شروع کر دیا۔ بی ٹائپ والے نے اس کا ہاتھ روکا اور کہا ہلائیے مت، اس میں شکر نہیں ہے۔ ڈی ٹائپ والے نے خفت کے احساس کے ساتھ چمچہ پیالی میں سے نکالا اور شکر سے بھر کر اپنے منہ میں انڈیل لیا اور اسے چبانے لگا۔

    سامنے والی میز پر ایک نیا نیا بنگالی جوڑا آکر بیٹھا تھا۔ لڑکی بےحد شرمیلی تھی، ادھر ادھر لوگوں کو چوری چوری دیکھتی۔ چائے کی پیالی اٹھانے سے پہلے وہ دیکھتی کہ اسے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ ہنستے وقت وہ ساڑھی کا پلو منہ پر رکھ لیتی اس کا بلاؤز اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔ شوہر اس کے ننگے پیٹ اور کمر کو دیکھ دیکھ کر نروس ہو رہا تھا۔ اس نے آنکھوں سے اشارے کر کے اپنی بیوی کو بتلانے کی بڑی کوشش کی کہ وہ بلاؤز نیچے کر لے۔ لیکن وہ اس کے اشاروں کو پڑھنے کی بجائے ادھر ادھر چوری چوری لوگوں کو دیکھتی تھی کہ کہیں وہ سارے اسے چائے پیتے تو نہیں دیکھ رہے۔ اس کا شوہر جب مزید نروس ہو گیا تو اس نے انگلی کے اشارے سے ننگے پیٹ اور کمر کو ڈھانپنے کے لیے کہا۔ بنگالی لڑکی نے اس کی انگلی جھٹک دی اور غصے سے کہا کہ وہ ہر وقت انگلیوں سے اسے اشارے کرتا رہتا ہے اور یہ بہت بری عادت ہے۔ شوہر مزید نروس ہو گیا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی نظریں اس کی بیوی کے بلاؤز کو اوپر کھسکائے جا رہی ہیں اور اگر اس نے ہاتھ سے بلاؤز نیچے نہ کیا تو اس کا بلاؤز کھل جائےگا اور سارا ہوٹل اس کے سینے کی بہار لوٹےگا۔ شوہر نے اپنا ہاتھ بلاؤز کی طرف بڑھایا توایک میز سے آواز آئی۔ ’’ہوٹل میں تو صبر کرو‘‘۔

    شوہر نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا اور اس میز کی طرف دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی۔ ایک لوئر ڈویژن کلرک پوری بتیسی نکالے ہنس رہا تھا۔ اس کے دانت پان سے سرخ تھے اور وہ جلدی جلدی میں سگریٹ پی رہا تھا اور ہر مرتبہ ناک میں سے دھواں نکالتا تھا۔ بنگالی شوہر اس کے سرخ دانت دیکھ کر غصے سے کانپنے لگا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ پٹرول پھینک کر اسے آگ لگا دے لیکن پٹرول آس پاس نہیں تھا۔ اس نے جلدی میں بیرے کو آواز دی بل لاؤ اورجب بل آیا تو اس نے کھٹ سے پیسے میز پر پھینکے اور ہوٹل سے باہر نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے بیوی کے بلاؤز کو اس زور سے نیچے کھینچا کہ وہ چیخ اٹھی کہ اس کا شوہر پاگل تو نہیں ہو گیا۔ شوہر پاگل تو نہیں ہو ا تھا اس نے بیوی کو جھڑکتے ہوئے کہا، تمہیں شرم نہیں آتی۔ ہوٹل میں میرے دفتر کا کلرک تمہارا سارا جسم دیکھ رہا تھا۔ دفتر کا کلرک اگرچہ نچلے درجے کے مکانوں میں رہتا تھا لیکن وہ ہوٹل میں اس لیے آ جاتا تھا کہ وہاں اے اور بی ٹائپ میں رہنے والے افسران اپنی بیویوں کے ساتھ چائے پینے کو آجاتے تھے اور وہ ان کے برابر کے میز پر سامنے بیٹھ کر اپنے آپ کو یقین دلاتا کہ وہ نچلے ٹائپ کے مکانوں میں رہتا ہے لیکن ہوٹل میں تو وہ اپنے افسروں کے مقابل بیٹھ سکتا ہے اور اگر کوئی افسر اپنی بیوی کے مختصر بلاؤز پر نروس ہو سکتا ہے تو وہ ہمت کر کے فقرہ بھی کس سکتا ہے۔ اس دن جب وہ ایک افسر کو نروس ہوتے دیکھ کے ہنسا تواسے بڑا اطمینان نصیب ہوا جیسے وہ تمام فائلیں جو اس کے منہ پر آئے دن گرتی رہتی ہیں اس نے اٹھا کر افسر کے منہ پر واپس دے ماری ہیں۔ اس نے چائے پینے کے بعد اس روز بیرے کو چار آنے کے بجائے آٹھ آنے ٹپ کئے اور اٹھتے ہوئے بیرے سے کہا، جاؤ عیش کرو۔ بیرا آٹھ آنے جیب میں ڈال کر عیش کرنے کے لیے مڑا تو کلرک ہوٹل سے باہر نکل گیا۔

    نئے شہروں میں مکانوں اور محلوں کی طرح ان میں رہنے والوں کی بھی کوئی شخصیت نہیں تھی۔ ایک ہی ٹائپ کے مکانوں میں رہنے والے سب ایک جیسے تھے۔ اپنے مکانوں کی طرح کہ سب کاایک دروازہ ہے۔ سب کے تین کمرے ہیں۔ سب کا ایک ساصحن ہے۔ مکانوں کی طرح ان کے بھی نمبر تھے۔ ۱۳۱۴اے، ۳۱۵بی، ۱۸۲ سی، ۲۱۰ ڈی، ۵۸۵ای۔ ہر شخص اپنے گلے میں اپنی نمبر پلیٹ لگا کے چلتا تھا۔ نمبر پلیٹ اگرچہ قمیض کے اندر جسم سے لگی ہوئی تھی لیکن ہر شخص کاچہرہ اس کے نمبر کی چغلی کھاتا تھا۔ چہرہ اور نام تواکثر دھوکا دیتے ہیں۔ کچے اور عارضی رنگ کی طرح۔ مگر نمبر پلیٹ بڑی پکی چیز ہوتی ہے۔ نمبر تقدیر کا چکر ہے کہ آدمی دو تین چار کرتے کرتے قبر میں پہنچ جاتا ہے اوراسے اپنے ٹائپ کے قبرستان میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ آدمی زمین کے نیچے ہو یا زمین کے اوپر، جو نمبراس کے گلے میں پڑ گیا ہے وہ اسے ایک خاص خانے میں مقید کر دیتا ہے۔ شیرازی کبوتر لکے کبوتروں میں نہیں ملتے اور لکے شیرازیوں میں۔

    اور وہ جو ہوٹل میں خاموش بیٹھا اپنے نمبر کوالٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ حیران تھا کہ وہ کس آدم کی اولاد ہے۔ وہ دس بچوں کا باپ ہے مگر اسے ای ٹائپ کے ایک چھوٹے سے مکان میں اس لیے رہنا پڑتا ہے کہ اس کی تنخواہ زیادہ نہیں اور وہ جو دو ہزار روپیہ مہینہ کمارہا ہے، اس کے دو بچے ہیں مگر وہ سات کمروں اور بڑے بڑے لانوں والی کوٹھی میں براجمان ہے اوراس کے دو بچے بھائیں بھائیں کرتے ہوئے کمروں میں یوں ہی گھوم رہے ہیں۔ زہر بھری خاموشی کمروں کے اندر بھری پڑی ہے۔ گھر کے افراد دور دور صوفوں پر بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ جیسے قریب آنے سے انہیں ڈر لگتا ہو۔ اس نے اپنے گلے میں بندھی ہوئی نمبر پلیٹ کو گھمایا اورقمیص کے اندر ڈال کر ہوٹل سے باہر چلا آیا۔ اس کا سر شدید درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ سیدھی سڑک پر چلتے چلتے اس کا جی چاہا کہ آج وہ راستہ بھول جائے اور چلتے چلتے ایسی جگہ پر پہنچ جائے جہاں مکانوں اور آدمیوں کی شکلیں ایک جیسی نہ ہوں جہاں مکانوں کے کوئی نمبر نہ ہوں۔ جہاں آدمیوں کے کوئی نمبر نہ ہوں، جہاں سڑکوں کے کوئی نمبر نہ ہوں، جہاں اے، بی، سی، ڈی اور ای کی ذاتیں نہ ہوں۔ جہاں آدمی، آدمی ہو، سکوٹر نہ ہو۔۔۔ جہاں مکان اپنے مکینوں سے پہچانے جائیں۔

    ’’لعنت‘‘۔

    اس کے منہ سے پھر یہ لفظ نکلا، سیدھی سڑک پہ راستہ بھولنے کی خواہش پوری نہ ہو رہی تھی۔ اسے شدید گھٹن ہونے لگی کہ وہ جب بھی راہ پہ نکلے گا ناک کی سیدھ ہی میں چلےگا اور چلتا ہی رہےگا۔ یہ بھی کیا لعنت ہے۔ اس نے پھر اپنے آپ کو ملامت کی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ایک جیسے سینکڑوں مکانوں کی قطاریں دھوپ میں زمین پر یوں بکھری پڑی تھیں جیسے دھوبی نے کپڑے سکھانے کے لیے ڈال رکھے ہوں۔ سیدھی سڑکیں، بےنام لوگ، بے نام گھر، ایک سکوٹر اس کے سامنے سڑک پر سے گذرا۔ اس نے پٹرول کے دھوئیں کو اپنے نتھنوں میں محسوس کیا۔ پھر زور سے اسے سینے کے اندر کھینچا۔ اپنا سینہ پٹرول کے دھوئیں سے بھرنے کے بعد اس نے فرسٹ گیئر لگایا اور اسکوٹر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے