پھانس
رات بہت نہیں ہوئی تھی۔ پوس کی اندھیاری گاؤں کے اوپر اتر آئی تھی، نچلی تہہ میں جمے ہوے دھویں کی نیلی نیلی چادر۔ آج رام پورا کی بازار تھی۔ آج کے روز اس گاؤں اور آس پاس کے دوسرے گاوؤں کے لوگ ہفتے بھر کی خرید و فروخت کے لیے رام پورا نکل جاتے اور پھر سانجھ ہوتے ہوتے گاؤں لوٹتے تھے، پیدل، سائیکل یا بیل گاڑی پر۔
وہ دو تھے۔ کڑک، پھرتیلے جوان، اندر شائیں شائیں کرتا تناؤ، بے چینی، جسے انہوں نے ایسے باندھ لیا تھا جیسے پھر پھر کرتے کرتے کو باندھ لیتے ہیں، ایک دم کس کے۔ وہ دروازے پر آ کھڑے ہوئے۔ پھر سدھے ہوئے ہاتھوں سے باہر کی زنجیر کھٹکھٹائی اور اندر کی طرف کان لگا لیے۔ ان کا اندازہ صحیح تھا۔ گھر میں صرف پلٹو اور اس کی ماں تھی۔ پلٹو کی ماں کی آواز گھر کے اندر کے کسی کونے سے اٹھی اور ان تک بڑھتی ہوئی سنائی دی۔
’’متائی باپ نے کچھ نام نئیں رکھو کا، جو بتاوت نائیں بنت۔۔۔۔‘‘ (ماں باپ نے کوئی نام نہیں رکھا کیا جو بتاتے نہیں بن رہا ہے؟) پلٹو کی ماں بھنبھنا رہی تھی۔
’’بھوجی، ہم ہیں جگو۔ پلٹو کے ددّاہاٹ (بازار) میں ملے تھے۔ بولے گھر پہنچو، وہ پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ کچھ ضروری بات کرنا ہے ان سے۔‘‘
پلٹو کی ماں جب ایک دم دروازے تک آ گئی، تب انہوں نے اطمینان دلانے کے لیے کہا۔ پلٹو کی ماں نے کواڑ کھول دیے اور اندر جاکر ان کے لیے دالان میں کھڑی کھٹیا ڈال دی۔ پھر انہیں بیٹھتے دیکھتی رہی۔
’’کائے بھیا، کہاں کے آؤ؟ پہلے کبہوں نائیں دیکھو؟‘‘ (کیوں بھیا، کہاں کے ہو؟ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔)
’’ہم دونوں شہر میں رہتے ہیں۔‘‘
بہت جھوٹ نہیں تھا۔ وہ کام کی تلاش میں بھاگ کر شہر پہنچے ہوئے لڑکے تھے۔ کام تو شہر نے دیا نہیں، سینما وغیرہ دکھاکر تھوڑی تیزی ضرور ہاتھوں میں تھما دی، جس کے سہارے وہ خواب دیکھ سکتے تھے۔ اس صدی کا خواب، رئیس بننے کا۔ البتہ پکے شہرا تو گھاگ وہ اب بھی نہیں بن پائے تھے۔
’’شہری بھیا ہو! اب بھیا پہلے تو پینٹ پتلون والے الگ جنچ جات تھے، اب تو جئیں دیکھو پینٹ ڈانٹے پھرت رہت۔۔۔اچھا بھیا، تم لوگ بیٹھو، ہماؤ تو چولھو برت۔۔۔‘‘ (شہری ہو۔ پہلے تو پینٹ وغیرہ پہننے والے الگ پہچان لیے جاتے تھے، اب تو جسے دیکھو پینٹ پہنے گھومتا ہے۔ اچھا بھیا، تم لوگ بیٹھو، ہمارا چولھا جل رہا ہے۔)
پلٹو کی ماں کے رسوئی گھر میں گھستے ہی وہ چست ہو گئے۔ اس نے اپنی ساتھی کو فٹافٹ اشارہ کیا۔ وہ ’’بڑی ٹھنڈی ہے، بڑی ٹھنڈ ہے‘‘ کرتا ہوا گیا اور باہر کے دروازے کی زنجیر اندر سے چڑھا آیا۔ پھر نظروں کو تیزی سے ادھر ادھر دوڑانے لگا۔ یہ اپنا مورچہ سنبھالنے رسوئی گھر کی دہلیز پر پہنچ گیا۔
’’بھوجی، گرسی (انگیٹھی) کہاں ہے؟ تھوڑا تاپ لیتے۔ بہت جاڑا ہے۔ تم بس بتادو، ہم اٹھا لیں گے اور سلگا بھی لیں گے۔‘‘
’’کھٹیا کے پاس دھری۔ اتنی کیڈا دھرے۔ آگی کھدوا کے دیکھو نائیں تو اتے لے آؤ، ایک دو انگارے ہم دھر دیبی۔‘‘ (کھٹیا کے پاس رکھی ہے۔ وہیں اپلے بھی رکھے ہیں۔ آگ کرید کر دیکھو، نہیں تو ادھر لے آؤ، ایک دو انگارے ہم دے دیں گے۔)
وہ دوڑ دوڑ کر پہلے انگیٹھی، پھر دو چار اپلے رسوئی کی دہلیز پر لے آیا اور پھر وہیں بیٹھ کر اپلے توڑ توڑ کر انگیٹھی کے بیچ دھویں کا ایک پردہ سا کھینچنے لگا۔ وہ بیٹھا بھی اس طرح کہ لگے کہ اس کا ساتھی بھی دوسری طرف بیٹھا تاپ رہا ہے، جب کہ دراصل اس بھائی کی پکڑ میں اب تک اندر کی کوٹھریاں آ چکی تھیں اور وہ پٹھا اندر داخل ہو چکا تھا۔
’’اب بازار میں وہ رونق نہیں جو پہلے تھی۔‘‘ اس نے پنڈلیوں کو ہتھیلی سے سہلاتے ہوئے کہا، جیسے انہیں آگ کی سینک دے رہا ہو۔
’’اب بھیا مانگائی تو ای تراں کی ہوےگئی کہ مڑئیں کا کھائے، کاپیے اور کاپہرے۔ ہمار ددّا ہرن کے دنن میں ایسی ہتو کہ دوئی چار سال ماہیاں بچھون کی نئی جوڑی پو ترابے بندھی جرور سے دکھانے۔۔۔‘‘ (اب بھیا، مہنگائی تو اتنی ہے کہ آدمی کیا کھائے، کیا پیے اور کیا پہنے۔ ہمارے دادا ہرن کے دنوں میں تو ایسا تھا کہ دو چار سال بعد ایک نئی بیلوں کی جوڑی چبوترے پر ضرور بندھی ہوتی تھی۔)
اس نے چابی بھر دی تھی اور اب پلٹو کی ماں چلی جارہی تھی پٹری پر۔ وہ ایسا ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے تاپنے کے سوا دنیا میں دوسرا کام ہی نہ ہو۔ پلٹو کی ماں اپنا کام کرتی جاتی اور بولتی جاتی تھی۔ بیچ بیچ میں چولھے کے سامنے بیٹھے روٹی کھاتے پلٹو سے بھی باتیں کرتی جا رہی تھی۔
چولھے کے اندر پتلی لکڑیاں چٹر چٹر جل رہی تھیں۔ گرم راکھ کے ذرے ادھر ادھر اڑتے ہوئے انگیٹھی پر جمع ہو رہے تھے۔ اپلے سلگ چکے تھے۔ کٹے ہوئے اپلے کے حصے سے آنچ کی ایک لو کبھی اٹھتی، پھر گم ہو جاتی۔ وقت رینگ رہا تھا۔ یہی وقت ہے گاؤں میں۔ شہر ہوتا تو پتا ہی نہ چلتا۔ یہاں وقت کم بخت ماتھے پر چڑھ جاتا ہے اور پھر وہیں جم کر بیٹھ جاتا ہے۔ پلٹو کی ماں کب تک ایسے بولتی رہےگی؟ اس سے بات کرتے چلے جانے کے لیے بھی باتیں چاہیے تھیں۔ وہ کہاں تھیں اس کے پاس؟
’’بھوجی، تم کس گاؤں کی ہو؟‘‘ پلٹو کی ماں کے تھمتے ہی اس نے سوال ٹھونک دیا۔
’’برورا۔ اوتم بھیا؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں بھی برورا کا ہوں۔‘‘
تب تو تم سچوں بھیا لگت ہو۔ پہلیں بتا دیتے اور دیکھو اب ہم آئیں تمائی ججی اور تم بھوجی لگائے رہے ہو۔ پلٹو دیکھو آئے بیٹھیں، تمائے مماں۔‘‘ (ارے، تب تو تم واقعی بھائی لگتے ہو۔ پہلے بتا دیتے اور دیکھو، ہم ہیں تمہاری بہن اور تم بھوجی کی رٹ لگاتے رہے ہو۔ پلٹو، دیکھو، کون آئے بیٹھے ہیں، تمہارے ماموں۔)
اس نے ہلکی سی پھریری اپنے اندر اٹھتی محسوس کی لیکن وہ جانتا تھا کہ ان گاوؤں میں تو ہر کوئی، ہر کسی کا ماما، چاچا، موسی، کاکی یا کاکا ہے۔ یہاں تک کہ ہریجن (اچھوت) بھی ایسے ہی رشتوں سے پکارے جاتے ہیں۔ اس گاؤں کی لڑکی دوسرے گاؤں میں گئی ہو، تو یہاں کے بڑے بوڑھے اس گاؤں کے کنویں کا پانی تک نہیں پیتے۔ پورا گاؤں ہی لڑکے کا گھر ہو گیا۔ اسے یہ سب ناٹک بازی لگتا ہے۔ جن ہریجنوں کو ماما موسی کہتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر بھوجن تو کرے کوئی!
’’تو بھیا برورا میں کی لے گھر کے آؤ؟‘‘ (تو بھیا، برورا میں کس کے گھر کے ہو؟)
جیسے گائے نے یکایک لات ماری اور اسے کھر آ لگا۔ وہ گڑبڑا گیا۔ جھٹکے میں کہہ گیا تھا لیکن یہ تو مصیبت میں پھنسنے والی بات ہو گئی۔ اس نے سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’اب مجھے یہ کیا معلوم؟ ہمارے پردادا گاؤں چھوڑ کر کان پور چلے آئے تھے۔ پھر پشت درپشت ہم سنتے چلے آئے کہ اصل میں ہم بروراہی کے ہیں۔‘‘
’’تو کا بھائی، اب ہم کئوں کے کئوں چلے جابسیں پے کہیں تو برورا کیئی۔ ججی کہو ہمیں اور ہم ٹاٹھی پرسیں دیت۔ جنے جئیں لیو۔ ساسرے ٹیں بھیا کا کھواوے کو سکھ روج روج ملت کا؟‘‘ (تو کیا ہوا بھائی، اب ہم کہیں سے کہیں جابسیں، پر کہلائیں گے تو بروراہی کے۔ بہن کہو ہمیں۔ ہم تمہارے لیے کھانا لگارہے ہیں۔ خوب پیٹ بھر کر کھاؤ۔ سسرال میں بھائی کو کھلانے کاسکھ روز روز تھوڑا ہی ملتا ہے۔)
خالی پن کا ایک چھوٹا سا گولا اس کے گلے میں اترا اور پھر کھنچتا ہوا نلی میں کہیں نیچے دھنستا چلا گیا۔ یکایک اس کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ باتیں بنانا اسے بھی خاصا آتا تھا لیکن یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ یہاں جتنا بولےگا، پھنستا چلا جائےگا۔ پلٹو کی ماں کی چکنی چپڑی باتوں میں کچھ تھا جو مکڑی کے جالے کی طرح باریک سا کچھ اس کے چاروں طرف بنتا چلا جاتا تھا۔ اسے اس مایا جال سے دور رہنا چاہیے۔ فٹافٹ کام کیا اور سرر سے باہر۔ پلٹو کی ماں کو وہ اب بھی ایسے جتا رہا تھا جیسے وہ بہت اطمینان میں ہو لیکن اندر خوف کی ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھی کو اب تک نکل جانا چاہیے تھا مگر وہ اب بھی کوٹھری میں گھسا ہوا نہ جانے کیا سٹر سٹر کیے جا رہا تھا۔ باہر گلی سے جوتوں کی چرمراہٹ اور باتوں کے گچھے رہ رہ کر اٹھتے تھے۔ ایسے میں اس کی بے چینی اور بھی بڑھ جاتی۔ لوگ ہاٹ سے لوٹ رہے تھے۔ پلٹو کا دادا کبھی بھی آ سکتا تھا۔ کوئی دوسرا ملنے والا بھی دھمک سکتا تھا۔
’’تو کائے بھیا، پرسیں ٹاٹھی؟‘‘ (کیوں بھیا، کھانا لگائیں؟)
’’ارے جیجی، اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘
’’کائے کا جیجا کے سنگ بیٹھہو کھابے کا؟‘‘ (توکیا اپنے بہنوئی کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤگے؟)
’’ہاں۔‘‘
’’ان کو بھروسے نہ کرو۔ کہو تو ہالیوں آئے جائیں اور کہو تو ادھ رتا تک نہ آئیں۔‘‘ (ان کا اتنظار مت کرو۔ ہو سکتا ہے ابھی آ جائیں اور ہو سکتا ہے آدھی رات تک نہ آئیں۔)
’’بات یہ ہے کہ ہاٹ ہی میں ہم پیٹ بھر کے کھا آئے تھے۔‘‘
اس نے بات کو ایسے ختم کیا جیسے چاقو سے کسی جنگلی لتر (بیل) کو چھاٹ رہا ہو۔ پلٹو کی ماں کی ضد اس پر جھنجھنی بن کر چڑھ رہی تھی۔ تب اسے اپنے ساتھی سے جلن محسوس ہوئی۔ کم بخت کوٹھری میں کتنا محفوظ تھا اور اسے یہ جھیلنے کے لیے یہاں رکنا پڑا۔ پلٹو کی ماں نے جواب میں کیا کہا یہ اس نے نہیں سنا، پر یہ ضرور دیکھا کہ اس نے چولھے سے لکڑیاں نکال لی تھیں اور ان پر پانی چھڑک رہی تھی۔ بھاپ اور دھواں دونوں مل کر اوپر اٹھ رہے تھے۔ پلٹو کھانا ختم کر چکا تھا۔
وہ زور سے کھانسا، اپنے ساتھی کو جلدی کا اشارہ دینے کے خیال سے۔ پلٹو کی ماں اب کسی بھی لمحے رسوئی سے باہر آ سکتی تھی۔ جوں ہی وہ باہر آنے کو ہوئی، یہ لپک کر رسوئی کے کواڑ بند کر دےگا اور باہر سے کنڈی چڑھا دےگا۔ پلٹو کی ماں چلائےگی ضرور۔ اس کا چلانا پڑوسی سن لیں، اس سے پہلے ہی انہیں بھاگ لینا ہوگا۔ اگر پلٹو کی ماں باہر آ گئی اور اس نے اصلی رنگ دیکھ لیا تو پھر خیر نہیں۔ یہاں کی عورتیں خاصی خونخوار ہیں۔ پریم بھی کرتی ہیں پر سنا ہے رات کے اندھیرے میں اکیلے ڈنڈا لیے چور کو کھدیڑ نے بھی دوڑ پڑتی ہیں۔
پلٹو کی ماں نے برتن ایک طرف سمیٹ دیے اور جھوٹے برتن دوسری طرف سرکادیے۔ پھر پلٹو کو کمر پر لادا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین اٹھاکر باہر کی طرف آنے لگی۔ یہی موقع تھا، جھپٹ کر اندر ہی دبوچ لے، ماں بیٹے دونوں کا منھ توپ دے۔ باندھ دے اور پھر رسوئی گھر کی کنڈی باہر سے ماردے۔ چھٹی۔ اگر انہیں تھوڑا وقت اور چاہیے ہوگا تو وہ بھی مل جائےگا لیکن وہ بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔ وہ اندر سے کچھ پست ہو گیا تھا، جیسے یہ سب وہ پلٹو کی ماں کے ساتھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس عورت میں کچھ تھا کہ کسی طرح کی زبردستی کرنے کا خیال پنپ ہی نہیں پا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگ جاتا تھا اور سوچتے ہی سوچتے اس کا خون ٹھنڈا پڑ جاتا تھا۔
اسے لگا وہ اپنے ساتھی کے ساتھ دغا کر رہا ہے، اسے پریشانی میں ڈال دےگا۔ پلٹو کی ماں کو گھیرے رہنے کی ذمے داری اس کی تھی۔ کیا وہ اسے مستعدی سے نبھا رہا تھا؟ پر اس کا ساتھی بھی تو سالا کب سے گھس گھس کیے جا رہا تھا، یہ نہیں کہ تڑاق پڑاق۔۔۔ اس کا جی چاہا وہ بڑبڑائے، غصہ کرے۔ غصہ کچھ اس صورت حال پر تھا اور کچھ اپنی لاچاری پر۔ اس نے خود کو سنبھالا اور کچھ نہیں تو پلٹو کی ماں کو ویسے ہی گھیرے رہے، جواب تک کر رہا ہے۔
پلٹو کی ماں دالان میں پہنچ گئی تھی۔ انگیٹھی اٹھائے، وہ بھی پہنچا، پیچھے پیچھے، تقریباً دوڑتا ہوا۔
’’آؤجیجی، ہاتھ پاؤں سینکیں۔‘‘
’’وہ دوسرے بھیا کاں گئے؟‘‘
’’اسے سورتی (تمباکو) کی طلب ہو رہی تھی۔ وہ لینے گیا ہے۔‘‘
مورے بھیا آ جابے کے پہلاں کچھ بتاتے تو۔ گھرئی من سورتی دھری۔ پلٹو کے ددا کا نائیں دیکھو، دن بھر پھانک رہت۔‘‘ (واہ رے میرے بھیا، جانے سے پہلے بتاتے تو کچھ۔ تمباکو تو گھر ہی میں رکھی ہے۔ پلٹو کے دادا کو نہیں دیکھا، دن بھر پھانکا کرتے ہیں۔)
پلٹو کی ماں نے لالٹین نیچے رکھی، پلٹو کو نیچے اتار کر انگیٹھی کے پاس بٹھا دیا، پر خود نہیں بیٹھی۔ لالٹین اٹھائی اور رسوئی کی طرف بڑھ گئی۔
’’کلوئی بلیا لبئی ہے۔ تنا آنکھ بچی نائیں کہ پٹ سے مہرانی جوں بھیتر سرک گئیں اور پھر کھانے نائیں اتے پے ہاتھ مارنے۔۔۔‘‘ (ایک کالے بلی لیٹی ہے۔ ذرا آنکھ بچی تو یہ مہارانی جھٹ سے اندر گھس جائےگی۔ کھانا کھائے گی کیا، برباد کرےگی۔)
بڑبڑاتی ہوئی وہ رسوئی کے اندر کونا کونا ٹٹول رہی تھی۔ پتا نہیں کالی بلی کس کونے میں دبکی بیٹھی ہو، کس برتن کے پیچھے چھپی ہو۔ آخری موقع تھا۔ رسوئی میں گھس کر پلٹو کی ماں کو باندھ دے، پھر پلٹو کو یہیں دالان میں۔ وہ روئے گا، بچے کے لیے عورت باگھن (شیرنی) ہوجائے گی۔ پھر سوچنا۔۔۔ وہ اتنا کب سے سوچنے لگ گیا؟
تب ہی اس کا ساتھی مریل چال چلتا ہوا آیا اور اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ کوٹھری کے باہر ہونے والی ایک ایک بات اس کے کانوں میں گری تھی، ہایے سے ٹپکتی تیل کی بوند کی طرح۔ اس نے اب دونوں ہاتھ نکال کر انگیٹھی کی آگ کے سامنے کردیے تھے، قریب قریب ’’ہینڈزاپ‘‘ کے انداز میں۔
’’کیوں بے؟‘‘ وہ زور لگاکر پھسپھسایا۔ اس کا ساتھی کچھ نہیں بولا۔ اس کے چہرے پر باسی باسی ٹھنڈ تھی۔
’’کچھ نہیں؟‘‘ اس نے پھر کریدا۔ اس پر ساتھی کی آنکھیں اٹھیں اور پھر جھک گئیں۔ چہرے پر بے چارگی سی پھیل گئی۔ بولنے کے بجائے منھ میں جمع ہو آئے پانی کو گٹکنے لگا۔
دونوں ریشہ ریشہ بکھر گئے تھے۔ کیا ہو گیا تھا، یہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے جو طریقہ اپنایا تھا وہ شہر میں چاہے گھس چکا ہو۔۔۔ لوگ کواڑ میں لگی آنکھ میں سے دیکھتے اور دروازہ ہی نہ کھولتے۔۔۔ لیکن یہاں کے لیے وہ اب بھی نیا تھا۔ کامیابی کی پوری امید تھی۔ پر وہ ایک دم نئی قسم کی مصیبت میں آ پھنسے۔ کہیں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں جو دکھائی دے اور جسے الگ کر دیا جائے۔ نظر نہ آنے والا سا کوئی منظر تھا جو دھیرے دھیرے عجیب ہیبت ناک طریقے سے پھیلتا اور انہیں اندر تک چیرتا چلا گیا۔
’’چیجی۔۔۔ اب ہم چلیں گے۔‘‘ پلٹو کی ماں کے آتے ہی اس نے کہا۔
’’کائے تھک گئے؟‘‘
’’ہاں یہی سمجھو۔‘‘
’’کچھ چاؤ نے ہتو کا؟ ہمیں دیت کو ہو تو بتاؤ۔ سنو ہے کہ شہر میں کیہوں پوروئی نائیں پرت۔۔۔‘‘ (کچھ چاہیے ہے کیا؟ ہمارے دینے کا ہو تو بتاؤ۔ سنا ہے شہر میں کبھی پورا ہی نہیں پڑتا۔)
اور نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک دم ختم! اس نے اپنی جیب سے پانچ کا نوٹ نکالا اور پلٹو کی ماں کو پکڑا دیا۔
’’جیجی ہماری طرف سے پلٹو کو مٹھائی کھلا دینا۔‘‘
پٹو اور پلٹو کی ماں انہیں باہر تک چھوڑنے آئے۔
’’پلٹو پوچھت کہ مماں پھر کب آیہو؟‘‘ (پلٹو پوچھ رہا ہے کہ ماموں، پھر کب آؤگے۔)
ان دونوں کی نظریں نیچی تھیں۔ انہیں چراتے ہوئے وہ مڑے اور پھر دھیرے دھیرے اندھیرے میں کھو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.