Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھیرا

MORE BYدیو پرساد داس

    بھیڑسے بھری سڑک پردوڑتا ہوا ہجوم، یہ اس کی جانی پہچانی سڑک ہے۔ گذشتہ بارہ برسوں اس سڑک کے ساتھ اس کارشتہ قائم ہے۔ روزاسی سڑک سے وہ گھرسے دفترآتی ہے۔ پھرلوٹتی ہے۔

    رخسانہ جلدی جلدی دفترسے نکل کرسامنے والی سڑک کودیکھنے لگی۔ پھرآسمان، پھرافق۔ آہستہ آہستہ نظرگھماکر اس نے بھیڑ پرنگاہ ڈالی۔ کسی کوپہچاننا ممکن نہیں تھا۔

    آسمان کو چیرتی ہوئی اوپراٹھی ہوئی مکیش کاٹن مل کی بندپڑی چمنی، سڑک کے ایک طرف والا رنگین ہورڈنگ، موڑ کی بائیں طرف لوکل اسٹیشن کی چھت پرچہچہاتے پرندوں اور سڑک پرتیزی سے دوڑتی ہوئی بھیڑ۔۔۔ کچھ بھی، اسے کوئی بھی جاناپہچاناچہرہ نظر نہیں آیا۔ یہ دیکھ کروہ محسوس کرتی ہے کہ دنیا ٹھیک اسی طرح ہے، جیسے کہ کل تھی، پرسوں تھی اور اس سے پہلے والے دن تھی، مگرآج وہ کسی کوبھی پہچان نہیں پارہی ہے۔

    اس نے چہرے سے نقاب ہٹالیا۔ وہ اندر سے بالکل پریشان ہوچکی تھی۔ ایک طرح سے سانس رک جانے والا تجربہ۔ روز دفترسے گھروہ ذرادیرسے لوٹتی ہے مگر آج وقت سے پہلے لوٹ رہی ہے۔ پھربھی وہ مطمئن نہیں ہے۔ رخسانہ کوتجربہ ہوا، دفترسے گھرتک پہنچنے کی اس کی یہ کوشش زندگی کاسب سے بڑا سفرجیساہے۔

    اس نے گلے میں لٹکے تعویذ کوہاتھ سے پکڑکردونو ں آنکھوں اورپیشانی تک لے گئی۔ جس تعویذ کووہ آج تک بیکارچیز سمجھتی آئی تھی، ایک عقیدے میں بدل گئی۔

    ایک دن امی نے اس کی حفاظت کے لیے یہ تعویذدیاتھا۔ رخسانہ کوان سب چیزوں پریقین نہیں تھا۔ وہ تعویذ ویسے ہی پڑھنے والی میزکی درازمیں پڑارہا۔ امی نے کتنی بارمنتیں کی تھیں، اپنے لیے نہ صحیح کم سے کم میرے لیے پہن لے۔ ماں کی ضد کے سامنے رخسانہ کی ایک نہ چلی۔ آج اچانک اسی تعویذکی موجودگی نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ شاید اعتماداور عقیدہ یہی ہے۔ اچانک خودکوظاہر کردیتاہے۔

    وہ تیزی سے چلنے لگی۔ آج کچھ زیادہ ہی بھیڑ ہے، دوسرے دنوں کے مقابلے۔

    اس بھیڑمیں سے کوئی زورسے چلایا۔ ’’انہیں لوگوں نے کیاہے یہ سب، یہ ہی ہیں بدمعاش۔۔۔‘‘ رخسانہ چونک گئی۔ وہ گھبراکرادھرادھر دیکھنے لگی۔ بھیڑ کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ بھیڑ کی کوئی خاص آواز نہیں ہوتی۔ س طرح کی باتیں سنناعام تھا۔ وہ لوگ توہمیشہ شک کے گھیرے میں رہتے ہیں۔ پھرسے اسی موبائل میسج کی یاد آگئی۔ بامب بلاسٹ ان داسٹی۔ شہرمیں دھماکہ۔

    اس کے اپنے شہرمیں پھرایک دھماکہ۔ بے نیازبھیڑ پھر اچانک رخ بدل سکتی ہے۔ شک کی چنگاری پھر سے آگ لگاسکتی ہے۔ پچھلی بارتو ایسا ہی ہواتھا۔ بے اعتمادی اور نفرت نے برسوں کے رشتوں اوربھائی چارے کوجلاکرراکھ کردیاتھا۔

    خون کی پیاسی بھیڑبغیر کچھ سمجھے سب کچھ بربادکردینے پرتلی تھی۔

    پورا علاقہ آگ کی لپٹوں میں آگیا۔ جانے پہچانے لوگ بے گانے لگتے تھے۔ رخسانہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی جلتے گھرکودیکھاتھا۔ باہر کی دنیا گھرسے زیادہ محفوظ بن سکتی ہے۔ کیا؟ وہ لوگ پھرلوٹ آئے تھے، لیکن تب ان کے ماضی کاجیسے کوئی وجودہی نہیں تھا۔

    گھرکی یادیں بچپن اور رشتے سب جل چکے تھے۔ پھرسب ہنسنابھول گئے تھے۔ زندگی پھراپنی رفتار میں آگئی لیکن سینے میں، یادوں میں دل میں کبھی نہ مٹے والے داغ اور درد اب بھی انہیں ڈراتے ہیں۔ کیسے بدل گئی یہ دنیا؟ کچھ خاموشیوں کوگونج لوٹاکرلے آتی ہے، جہاں کاغذ کاپرزہ اڑتاہے توطوفان ساسنائی پڑتاہے۔

    بھیڑکا نشانہ وہ بھی ہوسکتی ہے، وہ اوراس کے جیسے کئی لوگ شک کے گھیرے میں ہیں۔ سچائی کوڈھونڈا جاسکتاہے، تھوڑے ہی لوگوں کے لیے پوری قوم کوموردالزام بناکر سوال پوچھے جاسکتے ہیں۔

    بغل میں ایک تنگ گلی، اندھیارے اوراجیارے کالکاچھپی کاکھیل! یہ جگہ صحیح ثابت ہوسکتی ہے۔ بڑے ہی احتیاط سے گلی میں جاکر اس نے برقعے کونکال کربیگ میں رکھ لیا۔

    پھر وہ سڑک پرچلی آئی، سامنے لوگوں کاسیلاب! اس نے اس بھیڑ میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ اتنا بڑا شہر جورات میں کبھی نہیں سوتا ہے حالانکہ آج جیسے دنوں میں بندکھڑکیوں اور دروازوں کے پیچھے ٹھہرجاناچاہتا ہے۔ کچھ خاموشیوں کوسڑک اور بازاوں کی طرف پھینک کر ایسی راتیں دل میں خوف پیدا کرتی ہیں، اندیشے جگاتی ہیں، سانس کی آواز بھی دل دہلادیتی ہے، کچھ پھس پھساہٹ اورکچھ رکی رکی سانسوں کے اندر ہی رات لمبی ہوجاتی ہے۔

    بھیڑکی دوڑ اپنے اپنے گھر کی طرف۔ اندرہی اندرڈھیروں سوال۔ کہاں ہواہے دھماکہ، کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے، شہر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے یانہیں؟ سارے سوالات، ساری دلیلوں کاایک ہی مطلب ہے، وہ مطلب اچانک طوفان پیداکرسکتا ہے، رخسانہ تیزقدموں سے چلنے لگی، اسے جلدی سے جلدی گھرپہنچناہے۔

    خوف اس کاپیچھانہیں چھوڑرہاتھا۔ اس سے پہلے کہ یہ شام خوفناک سیاہ رات بن جائے، اسے پہنچناہوگا، وہ ٹیکسی بھی لے سکتی ہے!

    ’’ٹیکسی محبوب نگر چلناہے؟‘‘

    وہ جواب کا انتظار کیے بغیر پیچھے کی سیٹ پربیٹھ گئی۔ وہ ڈرائیور 35۔40کی عمرکا آدمی تھا۔ چہرے پرہلکی داڑھی، سستے عطرکی خوشبوآرہی تھی۔ ذرا سا سکون محسوس ہوا، سڑک پرویسی ہی بھگدڑمچی تھی، کم سے کم اب وہ ذراجلدی گھرپہنچ جائے گی۔

    مہانگرمیں رات نہیں ہوتی، پھربھی کسی واردات کے اندیشے سے دکانوں کے شٹرگرنے شروع ہوگئے تھے۔ اس شہر کی تاریخ میں ایسی ہی کتنی راتوں نے لوگوں کی زندگی بدل دی ہے، گھر اجڑگیا، خاندان چھوٹ گیا، کام دھنداچوپٹ ہوگیا، محنت مزدوری چلی گئی، خواب بکھرگئے۔ جینے کی خواہش تونہیں بلکہ کچھ لوگ صرف وقت گزارنے کی کوشش کرتے آئے ہیں، شہرکی لوکل ٹرینوں کی طرح، وہ لوگ روزٹھیک وقت پر آتے ہیں، جاتے ہیں، پیٹھ پرلادکرلے جاتے ہیں کچھ کھونے کادرد۔

    ٹیکسی کے دونوں طرف بھیڑ، بے چین اور پریشان، اچانک ایک آدمی ہاتھ میں ڈنڈا لیے بھیڑ کوکھدیڑتاہوا آگیا۔ رخسانہ چونک گئی۔ شہرمیں دنگاشروع ہوگیاکیا؟ وہ آدمی ٹیکسی مالک کے قریب تھا۔ رخسانہ نے خوف سے آنکھیں موندلیں۔ سانسوں کوقابومیں کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کتنے لمحے بیت گئے۔ آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولیں۔ وہ آدمی ہوا میں کھوگیا کہیں، شایدتیزفتاربھیڑ کے اندر۔

    اچانک موبائل بجنے لگا۔ اس کی آواز بھی اسے چونکانے کے لیے کافی تھی۔ امی کافون، اسے تھوڑی راحت ملی، ماں کی باتیں سن کر اسے یقین نہیں ہوا، جو تعویذ انہوں نے ضد کرکے پہنایاتھا، آج اسے نکال کربیگ میں رکھنے کے لیے بڑے ہی خوف زدہ ڈھنگ سے بول رہی تھی، لیکن کیوں؟ تعویذکیااس کی حفاظت کے لیے نہیں ہے؟ نا، نا، تعویذ سے وہ پہچانی جائے گی۔ اس اپنے شہر میں آج رات کے لیے بے گانہ بن جانا ہی اچھا ہے۔ وہ صرف بھیڑکا ایک حصہ ہے، اس کی اپنی کوئی خاص پہچان نہیں ہے، کوئی ماضی نہیں ہے، کوئی مذہب، کوئی گھرخاندان نہیں ہے، وہ اس بھیڑ میں ایک انجان ایک اجنبی ہے بس۔

    تعویذ کوگلے سے نکال کرکچھ لمحے ہاتھ میں رکھنے کے بعد پھراس نے بیگ میں رکھ دیا۔ توکیا اس نے اپنی پہچان کومٹادیا؟ خوف شک میں بدل گیا اور اس نے رخسانہ کواپنی آغوش میں لے لیا۔

    بھیڑ کوچیرتی ہوئی ٹیکسی آگے بڑھ رہی تھی۔ رخسانہ یہ جان گئی کہ وہ ٹیکسی سے زیادہ دور تک نہیں جاپائے گی۔ اچانک کہیں پریہ بھیڑدیوار بن جائے گی اوراسے ٹیکسی کی پرواہ کئے بغیر اس دیوار میں سے راستہ نکالناہوگا۔

    یہ شہرپھرکون جانے کتنے دنوں تک شک اوراندیشے کے گھیرے میں رہے گا؟ پھرکتنے دنوں تک لوگ گھر سے باہرنکلنے سے ڈریں گے؟ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے تو پہلے اس کے شہر میں بے اعتمادی کا دھواں بھرجاتاہے۔ برسوں سے ساتھ رہنے والے پڑوسی رہ چکے لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتاہے لیکن دوریاں بڑھتی جاتی ہیں۔

    ٹیکسی کے ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی۔ رخسانہ آگے کی طرف پھسلی، پھر سنبھل گئی۔ کچھ لوگ ان کے سامنے سے دوڑتے بھاگتے چلے گئے۔ ڈرائیور دل ہی دل میں ناراضگی میں کچھ بڑبڑایا۔

    ’’آج سارے لوگ جلدی میں ہیں، ہواکیاہے، دیدی؟‘‘

    ٹیکسی ڈرائیور کے اس معصوم سوال نے رخسانہ کوجیسے لمحے بھرکے لیے خاموش کردیا۔ اسے اب تک خبربھی نہیں ہے کہ شہرمیں کیاہواہے؟

    سچ میں ڈرائیور کوکچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ اس نے کہا، ’’تب توزیادہ دورتک آپ کولے جاناممکن نہیں ہے۔‘‘

    زیادہ دورتک وہ ٹیکسی میں جانہیں سکے گی۔ اس نے اندازہ لگالیاتھا اس لئے ڈرائیور کی بات پراسے کوئی تعجب نہیں ہوا۔

    ٹیکسی اب موڑمڑتی ہوئی ایک اندھیری تنگ گلی میں داخل ہوئی۔ چہرے سے وہ آدمی جاناپہچانا سا لگتا تھا، پھربھی وہ ایسے راستے کی طرف کیوں آیا؟

    ’’ہوسکتاہے ہم ادھر سے گھنٹہ گھر تک پہنچ جائیں۔‘‘ ڈرائیور بھی دل کی بات پڑھتا ہوابولا۔ چاروں طرف دیکھتا ہوا وہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ گاڑی چلارہاتھا۔ پچھلی سیٹ کے دونوں طرف کے شیشے اوپراٹھانے کے لیے رخسانہ سے کہا۔

    اچانک کچھ ہی دوری پر آگ کاگولہ دکھائی دیا۔ ٹیکسی روک کرڈرائیور نے لائٹ بجھادی۔ ایک طرف گاڑی کواندھیرے میں ہی گم ہوجانے دیا۔ گاڑی اورگاڑی کے اندرجیسے کوئی ہوہی نہیں۔ کچھ لوگ قریب سے بھاگ دوڑکے چلے گئے۔ لمحے بھر کے بعدسب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔

    ڈرائیورتیزرفتار سے گاڑی چلانے لگا جیسے اس کے اوپرکوئی ذمہ داری لاد دی گئی ہو اوراسے وہ بخوبی نبھانے چلاہو، گھنٹہ گھر اب نزدیک تھا۔

    ٹیکسی ڈرائیور نے اب مین روڈ پرہی گاڑی روک دی۔ رخسانہ کے اترنے سے پہلے کچھ لوگ گاڑی کے اوپرجیسے کودپڑے۔ انہیں قدم رسول تک جاناہے۔ ڈرائیور نے پختہ لہجے میں منع کردیا۔ وہ لوگ چلے گئے۔ سامنے لوگوں کاہجوم۔۔۔

    رخسانہ ڈرائیور سے ناراض ہوئی۔ ’’ایسے وقت پرلوگوں کی مددکرنی چاہیے، مشکل میں پھنسے لوگوں کومنع کرتے ہیں!‘‘

    ’’ادھرخطرہ ہے۔‘‘ بہت ہی ٹھنڈ ے لہجے میں ڈرائیوربولا۔ اس کی آوازمیں موت کی سی سردمہری تھی۔ اچانک رخسانہ نے غورکیا کہ ڈرائیور کے گلے میں درگا ماں کاایک لاکٹ ہے۔

    اب تک وہ جسے مسلمان سمجھتی آئی تھی، وہ ہندو ہے اوراسی کی طرح دہشت زد ہ ہے۔

    اس شہرمیں ہندومسلمان کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بس ایک ہی سچائی ہے۔ سب کے سب انسان ہیں اورسب ڈرے ہوئے ہیں۔ صرف مایوس لوگوں کاشہر۔ محنتی اور معصوم، عام لوگوں کے لیے توزندہ رہناہی ایک ایمان ہے۔ وہ چھوٹایابڑا نہیں سمجھتا، بھید بھاؤ نہیں کرتا، ایسے لوگوں کوشہر نے دہشت د ی ہے۔

    پھررخسانہ بھیڑ میں کھوگئی۔ گھرپہنچ کر دروازے اورکھڑکیاں بند کردے گی۔ اپنی ماں کے دوپٹے میں اپنے آپ کوچھپالے گی۔ اپنے سب سے بھروسے والی پناہ گاہ میں۔

    وہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شہر کبھی تھکتانہیں ہے لیکن آج جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ گھبرائے ہوئے چہرے، کالے بادل سی گھری آنکھیں، پریشانی میں ڈوبے سر، سب کے سب خاموش۔۔۔

    اتنے بڑے ہجوم کوکسی نے شاید جادوٹونے سے چپ کرادیاہو، چاروں طرف اپنی تیزنظروں سے دیکھتی رخسانہ آگے بڑھ رہی تھی۔ برا وقت کب آجائے، کون کہہ سکتا ہے۔؟

    سائرن بجاتی ہوئی دوایمبولینس انہیں اچانک پارکرگئیں۔ ایسے حالات میں ایمبولینس یا دمکل کی آوازیں عام ہوجاتی ہیں اوردہشت پھیلاتی ہیں۔ بڑ ا ہی دردناک اورڈراؤنی لگتی ہیں۔ سائرن کی آواز، بھیڑمیں کھلبلی مچ گئی۔ ایک ہلکے سے شوروغل نے خاموشی کی جگہ لے لی۔

    کسی نے کہا، ’’دوسوکی موتیں ہوئی ہیں۔‘‘

    رخسانہ کے قدم تیز ہوگئے، بارود نے آگ پکڑلی، کبھی بھی دھماکہ ہوسکتاہے۔ اس شہر میں ڈھیروں لوگ ہیں اور دکھ بھی، چاہے دھماکہ ہویا دنگا، کچھ مرجاتے ہیں توحساب میں کوئی فرق نہیں پڑتا، جوکسی کو کھودیتاہے، صرف وہی زندگی بھرغم اٹھاتاہے، دوسرے بھول جاتے ہیں، زندگی کوسمیٹ لیتے ہیں، ڈر کا کوئی دوسرا لمحہ آنے تک۔۔۔

    سامنے چرچ ہے، وہیں سے وہ مین روڈ چھوڑکراندر مڑے گی۔ اب اس کا گھر زیادہ دورنہیں ہے۔ امی کوفون سے خبر کردیں کیا؟ لیکن موبائل کام نہیں کررہاہے، ایسے دنوں میں رشتے کتنی دور نکل جاتے ہیں؟ سب کچھ قریب ہونے پردورلگتا ہے، دور، بہت دور۔۔۔

    رخسانہ مڑگئی۔ پیچھے ہجوم کے ساتھ آہستہ آہستہ شوربڑھ رہاہے۔ رخسانہ تیزقدموں سے چلنے لگی۔ گلی کے ایک سرے پر ایک پولس کی گاڑی اوردوکانسٹبل۔ وہ اسی طرح چپ چاپ چلتی رہی، اسے جلدی گھر پہنچناہوگا۔

    گلی سے گلی۔۔۔ موڑپرموڑ۔۔۔ رخسانہ چل رہی تھی، پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ۔

    دھیرے مگر نمایاں۔۔۔ ضرورکوئی آرہا ہے، چاروں جانب اندھیرا، سنسان سڑک، بڑی بڑی عمارتوں کے دروازے اورکھڑکیاں بندہوچکے ہیں۔ یہ قدم ضرور اس کا پیچھا کررہے ہیں، جس خطرے سے وہ اب تک خودکوبچاتی آئی ہے، کیا وہ اتنے قریب ہے؟ وہ تو اس علاقے سے واقف ہے۔ کسی ظالم، بے رحم دہشت پھیلانے والے کے لیے کیا وہ خودکوقربان کردے گی؟

    رخسانہ خوف سے کانپنے گی، اس کی سانس رکنے لگی، پاؤں میں جان نہیں رہی۔

    اتنے قریب پھراتنی دور۔ اس نے پیچھے کی طرف دیکھا۔ ایک لڑکی ہے۔ عمرمیں اس سے کچھ چھوٹی ہوگی۔ دبے پیر آکروہ اس کے پاس پہنچ گئی۔

    ’’مجھے گرانڈروڈ تک جانا ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے!‘‘ وہ خوف بھری آوازمیں بول رہی تھی۔

    ’’کیاتم مسلمان ہو؟‘‘

    ’’نہیں، میں ہندوہوں‘‘

    شہرکے سارے لوگ آج خوف زدہ ہیں، زندگی ہے اس لیے موت سے ڈرلگتاہے۔ موت قریب آسکتی ہے، اس لیے زندگی کا ڈررہتاہے۔ زندگی اور موت دونوں کو انسانوں سے ڈرہے۔ عقیدت، اعتماد اورمحبت کی غیرموجودگی میں صرف خوف ہی خوف۔ رخسانہ سوچنے لگی کہ وہ کس سے ڈررہی تھی؟ ایک جانی پہچانی قربت سے۔۔۔؟ اندھیرے سے۔۔۔؟ وہ ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔ دوسری طرف موت کی سی خاموشی تھی۔ خاموشی ہی سوال ہے، خاموشی ہی جواب ہے، خاموشی ہی صداقت اور حسن ہے۔ خاموشی میں ہی وہ دونوں اپنے اپنے وجود کومحسوس کرنے لگیں۔

    دل روشن ہواٹھا، رخسانہ نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکی کاہاتھ پکڑلیا، وہ دونوں اسی طرح آگے کی جانب چلنے لگیں، رکنے پرڈرلگتا ہے، آگے بڑھنے پرڈرکہاں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے