Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پوجا میں نہ چڑھے پھول

ایم موہنن

پوجا میں نہ چڑھے پھول

ایم موہنن

MORE BYایم موہنن

    وہ سیڑھیاں اتر کر آگے بڑھا۔ ایک بار مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ ہر قدم کے ساتھ غصہ ظاہر ہو رہا تھا۔ نہیں، وہ مڑ کر کبھی نہیں دیکھے گا۔ وہ کبھی نہیں آئے گا۔ شدت درد سے وہ رو اٹھی۔ میرے پیارے بھیا!

    تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر چھت کی ریلنگ کے کنارے کھڑی ہوکراس نے باہر راستے کی طرف دیکھا۔ اس کی جیپ طوفانی رفتار اورجھنکار کے ساتھ سنسان راستہ سے دور چلی جارہی تھی۔ وہ بھیگی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔

    آخری رشتہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔

    اب اپنا کوئی نہیں، کچھ نہیں۔ اس وسیع دنیا میں ایک تنہا جزیرہ کی طرح وہ تنہا رہتی ہے۔ وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ شاید وہ اسے پھردیکھ بھی نہ سکے گی اور اسے دل سے بھلا دینا بھی نہیں چاہتی، موڑ پر وہ گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی، وہ پھر بھی ساکت و خاموش دیکھتی ہی رہی۔۔۔ شاردا دیدی۔۔۔

    پیچھے سے کسی نے پکارا۔ کاتیاینی ہوگی، اس نے مشینی گھڑی کی طرف دیکھا، کچھ دیر اور کھڑی رہی تو دفتر کے لیے دیر ہوجائے گی۔ لیکن وہ ویسے ہی ساکت اور بے حس و حرکت کھڑی رہی وہ ہل بھی نہ سکی، بول بھی نہ سکی۔ اس کے آگے صرف ایک ہی سچائی ہے۔۔۔ وہ تنہا ہے۔

    کاتیاینی اوپرآگئی تھی۔ اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جنبش دی اور پوچھا۔۔۔

    ’’کیا ہوا شاردا دیدی؟‘‘ اس کے چہرے کی مایوسی اور پریشانی کودیکھ کر وہ اچانک چپ ہوگئی۔

    کاتیاینی کوکچھ بھی معلوم نہیں ہوا ہوگا۔ کیسے معلوم ہوگا۔۔۔؟ وہ تو ابھی بچی ہے۔ صرف زندگی کے دروازے ہی تک پہنچی ہے۔ چیت کا بادلوں سے خالی آسمان تو اس نے دیکھا ہے۔ انسان کا دکھ دیکھنے اوراسے سمجھنے کی صلاحیت اس میں ہے۔ لیکن شاید درد کی خاموش لرزش نے اس کی آواز کو بھی بے اثر کر دیا ہے۔

    شاردا نے کہا، جیسے وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو’’کارتی آج میں نہیں جاؤں گی۔ طبیعت ناساز ہے۔ میری رخصت کی درخواست دفتر میں دے دینا۔‘‘

    درخواست لکھتے وقت بھی کاتیاینی نے شاردا سے کچھ نہیں پوچھا۔ تکلیف سے سوجا ہوا چہرہ اورپریشان حال آنکھیں دیکھ کر وہ خاموش رہ گئی۔ صرف کسی ایک ناگزیر مصیبت کے گہرے زخم کواس نے وہاں دیکھا۔ وہ کیا ہوسکتا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ سویرے شاردا سے ملنے کے لئے اس کا چھوٹا بھائی آیا تھا۔ وہ کبھی کبھی آیا بھی کرتا تھا۔ آئی، پی، ایس پروبیشنر۔ اس چھوٹے بھائی کے علاوہ شاردا دیدی کا اور کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ وہ کون سی تکلیف دہ خبر لایا ہوگا۔ کچھ پوچھنے کا موقع نہیں تھا۔ درخواست کے لیے تاکید کرکے کاتیاینی نیچے چلی گئی۔

    سیڑھیوں سے اترتی کارتی کوشاردا ایک لمحہ تک دیکھتی رہی۔

    زور کے قدم سے صدا کرتی ہوئی برسوں کی سیڑھیوں سے یادیں بھی بھاگ رہی ہیں۔ سب کے سب اتر کر چلے گئے۔ ایک ایک کر کے سب چلے گئے، تنہائی کی رات میں اسے تنہا چھوڑ کر اب آخری شخص بھی چلا گیا۔

    شہر کے درمیان وہ این، جی، او۔ بنتیا ہوسٹل، پرانی محبت جسے یاد کرنے کی بیکار سی کوشش بھی کسی نے نہیں کی، بغیر کسی کشش کے کھڑا رہتا ہے۔ اس ہوسٹل کے ایک تاریک کمرے میں وہ تنہا بیٹھ کر روئے گی۔ بغیر آنسو بہائے روئے گی۔ وہ اٹھارہ سال کی انکری منٹ اوراڑتالیس سال پرانی ایک مشین کی مانند تھی۔ تب اس میں آنسو کیسے ہوں گے؟ چھت پرلگے جالے کودیکھتی ہوئی وہ پیٹھ کے بل سیدھی لیٹی رہی۔ وہ ایک جالا ہی تھی جسے زمانہ دور کرنا بھول گیا۔ بہت دور کہیں بچپن کی ہری بھری وادیاں تھیں پھولوں سے بھری ہوئی ترائی، اس دن وہ نانی کے گھر صبح کے کھلے پھول توڑنے گئی تھی۔ پیروں میں کانٹا چبھا، ہاتھ پر خراش لگی پھر بھی اس نے پھول توڑے۔ لیکن جب لے کر آئی تونانی نے کہا۔۔۔ ’’یہ سب بیکار ہیں بیٹی۔ یہ پھول پوجا میں نہیں چڑھائے جاتے۔۔۔!‘‘

    چھوئی موئی کے پھول، بیڑے کے کپاسی پھول، کدلی اور جنگلی کیتکی کے پھول، پوجا پرنہ چڑھے۔ پھول آنگن کے ایک گوشے میں، کوڑا خانہ میں پامال پڑے روتے رہے۔ ایک لڑکی جس کے گلے میں کالے دھاگے پر تعویذ بندھا ہوا تھا، رخساروں پر آنسوؤں کی واضح لکیروں کے ساتھ برآمدے کے ستون سے ٹکے انہیں دیکھتی رہی، سسکتی رہی۔

    وہ نانی سالوں پہلے ہمیشہ کے لیے چل بسی۔ اس سے بھی پہلے یادوں کی رسائی کے بھی پرے، ماضی کی برف پوش زمین پر اس کی ماں بھی غائب ہو چکی ہے اور اس طرح انیس سال کی اس لڑکی پرگھر کا سارا بار آگیا۔ کچی عمر کے ایک چھوٹے بھائی کی اور عمر کی بندرگاہ کی طرف تیزی سے بڑھتی ایک چھوٹی بہن کی وہ بن بیاہی ماں بنی، نانی بنی، جس نے کسی کوجنم نہ دیا ہو۔

    ابا اندر لیٹے تھے۔ لقوہ زدہ جسم کا ایک حصہ پڑا ہے۔ ذرا سوچو ان سب زحمتوں کے ذمہ دار ابا ہی ہیں نا؟ لیکن ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ابا تاریخ کے بدلتے ہوئے زمانے کے کھلونے کی طرح تھے۔ ان پرالزام لگانے سے کیا فائدہ؟

    آزادی، مساوات اور سوشلزم، ان سب لفظوں کا مطلب مجھے معلوم نہ تھا۔ وطن اورہم وطن کیا ہیں یہ بھی میں نہیں جانتی تھی۔ ہائے! ابا جان! میری یہ زندگی کیسے اجیرن بن گئی۔ یہ سوچتے وقت میرا دماغ کام نہیں کرتا۔

    ابا جنگ آزادی کے مجاہد تھے۔ ستیہ گرہ اورہڑتالوں میں حصہ لے کر جیل گئے۔ نعروں اورجلوسوں کے لافانی جوش میں بہہ گئے۔ ان کا سب کچھ کھو گیا۔ دھان کی کھیتی اور بہت زیادہ فروخت ہونے والا اخبار بھی ختم ہوگئے۔ صحت بھی خراب ہوگئی، آخر میں بالکل تھکے ماندے لیٹ گئے۔ اس حال میں بھی والد کے سارے افکار اور باتیں وہاں تھیں۔ یہ سب باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ اس کی سمجھ سے باہر کی باتیں، لوگوں کی، حادثات کی، وطن اور ہم وطنوں کے عام مسائل کی باتیں یہ سب ابا کی ذہنیت کو زخم پہنچانے والے لاعلاج کینسر تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہوگیا۔ آخر میں فراموش شدہ گہری جھیل کی طرف پھینکے ایک پتھر کی طرح والد ایک چٹائی پرلیٹ گئے۔ ایثار سے روشن اس زندگی کا ا نجام ایسا تھا۔ لیکن ایک پہلو سے ابا قابل مبارک تھے۔ زندگی کے آخری لمحہ تک وہ اس سچائی کو نہیں سمجھتے تھے کہ وہ فراموش کردہ اورنامعلوم ہزاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ یہ بھی نہ جان پائے تھے کہ انہوں نے اپنی ایسی زندگی کو برباد کردیا جو دوسروں کے لیے بے فیض ہوتے ہوئے بھی اپنے تین بچوں کے لیے بیش بہا بن سکتی تھی۔ ماں نے ہزاروں تمناؤں کے بعد ایک بیٹے کوجنم دیا اس کے بعد کی بیماری کے دنوں میں کہیں دور تاریک جیل میں نہ پڑے رہتے توکبھی شکایت نہ کرنے والی بے چاری بیوی کی بے وقت موت نہ ہوتی۔ مگر انہوں نے کبھی اس طرف دھیان بھی نہیں دیا۔ ’’جس آزادی کے تم لوگ اینٹھ کر بیٹھے بیٹھے مزے اٹھا رہے ہو اس کے لیے میں نے بھی مشقت اٹھائی ہے! یہ جوجمہوریت ہے نا اس کے حصول کے لیے میں نے اپنی زندگی نذرکردی۔‘‘

    ایسے غرور سے خودساختہ بے وقوف دنیا میں ابا ہمیشہ چھبکی لیتے رہے۔

    ’’میں کچھ چاہنے کی خواہش میں آگے نہیں چلا، کسی کی سفارش اورچاپلوسی نہیں کی، زندگی گزارنے کے لیے تنخواہ پانے کی کوششیں بھی نہیں کی۔۔۔ سمجھے۔۔۔؟‘‘

    لیکن گھرمیں احاطے کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں تھا۔ چولہے میں آگ جلانا تو دور، گذارے کے لیے بھی کوئی سامان نہ تھا۔ ابا پروانے کی طرح اصول پسندی کے چراغ میں اپنے آپ کو مسلسل جلاتے رہے۔ بے بسی کے بیچ میں اس نے اپنی تعلیم ترک کردی۔ اس چھوٹی عمر میں ہی ادھر ادھر ملازمت کے لیے درخواست بھیجنے لگی۔ وہ ایک لوورڈویژن کلرک کے عہدے پر ۴۵۔ ۷۵ روپے ماہانہ کی پگڈنڈی پرآگے بڑھنے لگی تو ایک نئے فیصلے کا آغاز بھی ہوا۔

    ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سب کچھ کل ہی واقع ہوا ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی کالج چھوڑ آئی۔ سہیلیوں کے ساتھ خوش آئند زندگی گذری تھی، وہ سب مصیبتوں اور زحمتوں کو بھلانے والا مسرت بخش لمحہ تھا۔ وہ ایک ایسا آرام دہ زمانہ تھا جب وہ بغیرکسی وجہ کے ہنس سکتی تھی۔ کیا کیا تمنائیں تھیں۔ خواب۔۔۔! ساری خواہشیں۔ وہ پنکھڑیوں کی طرح جھڑ گئیں۔ ہاتھ میں پہنی کھنکتی آشا کے کانچ کی چوڑیاں تتربتر ہوگئیں۔ زندگی بدل رہی تھی۔ اطمینان کے ساتھ بغیرکسی شکایات یا بھنبھناہٹ کے اس نے اس بدقسمتی کو قبول کر لیا۔ کسی غیرمعلوم فیصلے کے بڑے بنیادی پتھر کی سی ہوکر وہ ہمت باندھے آگے بڑھی، بغیر اپنے دائیں بائیں دیکھے ہوئے اور ایک لمحہ کی بھی تاخیرکے بغیر۔

    ہاں ایک لمحہ کی بھی تاخیر کے بغیر۔۔۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ کیا؟ وہاں یادوں کے پاؤں لرزہ براندام ہو جاتے ہیں۔ آنے جانے والی امیدیں چیخ اٹھتی ہیں۔ پرانے دنوں کا ناسور پھر منھ نکالنے لگتا ہے۔ ایثار کا میٹھا نام دینے کے باوجود وہ سچ مچ قتل ہی تو تھا صرف اپنی زندگی ہی نہیں، ایک دوسرے کی زندگی کا بھی۔ زندگی کی خواہش کا گلا دبوچ کرمارنا ہی تھا۔

    یہ سب کس کے لیے۔۔۔؟ کچھ نہیں ملا، کہیں بھی نہیں پہنچ سکی۔ بغیر نصب العین کے انتھک کوشش کی طرح سب بیکار رہ گئے، سب کچھ۔

    اے خدا مجھے معاف کردے۔

    بھیگی پلکوں کے سامنے بال چندرآج بھی آکھڑے ہوئے ہیں۔

    آج کے سے سفید بالوں سے نہیں، دوپہر کی طرف پھیلی ہوئی عظیم پیشانی سے نہیں، چہرے پر جھریاں اور سکڑن، آگے کی طرف ذرا جھکے ہوئے اورتھکے ماندے اسسٹنٹ سکریٹری کی صورت میں نہیں، موٹے فریم کے چشمے پہنے، خاندانی تسبم لیے گورے پتلے صحت مند جوان کی صورت میں، کسی کو بھی اپنی طرف کھینچنے والا خوبصورت بااخلاق آدمی، بال چندر اس وقت سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کے ہی سیکشن میں شاردا کو کام کرنے کا موقع ملا۔ ا نہوں نے ہی اسے پرسنل رجسٹر، ڈرافٹ، نوٹ، سب مشن سب کچھ سکھا دیا۔ ایک ملازم کی شکل میں اسے سبھی کاموں میں ماہر بنا دیا۔

    ایک دن ڈیوٹی کے بعد واپس آتے وقت دفتر کے پیچھے پتے پھیلائے جنگلی کیلے کے باغ کے پاس کھلے ہوئے جھولتے گل مہر کے نیچے بال چندر نے اس سے پوچھا،

    ’’مجھ میں شاردا کوپانے کی اہلیت ہے؟‘‘

    اس گل مہر کے پودے کی طرح ہی اس کا دل بھی حیران رہ گیا۔ پھول جھڑ گئے، پتے اڑ گئے وہ ایسے کسی سوال پر کبھی دھیان نہ دے گی۔ اس نے دل ہی دل میں بڑا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے اس فیصلے پر ڈٹی رہی۔ دل کے اس حصے کے تمام جھروکوں کوبند کرکے خود محفوظ رہی تھی پھر بھی اب۔۔۔ تم نے جس سے بچنا چاہا وہی اب۔۔۔

    اس سوال کے جواب کے لیے وہ تیارنہیں تھی، اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ لقوہ زدہ باپ کی یتیم بیٹی تھی۔ وہ بڑی ہونے والی ایک بہن اورکچی عمر کے ایک بھائی کی بڑی بہن تھی۔ ایک ایسے سوال کے لیے اس کی زندگی میں کوئی نئی جگہ نہیں تھی، اس وجہ سے اس سوال اور موضوع پر سوچنے کا بھی اسے کبھی وقت ہی نہیں ملا۔

    میدان سے آئی ہوا پہاڑی کیلوں کے پتوں کو پھاڑ کر جھالربنا رہی تھی۔ گل مہر کے پھول ہوا میں اڑ رہے تھے۔ جوانی کی سرخ مسکراہٹ لال پھول لگا کر یوفوربیا کی بیلیاں لوہے کے گھیرے سے ٹکی ہیں۔ آسمان میں شام کے بادل اس کے شاہد ہیں۔

    اس نے کچھ نہیں کہا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی چلی گئی، مڑکر بھی نہیں دیکھا۔ مڑکر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ ایک بارمڑ کر دیکھتی، اس چہرے کے جذبات کی دلکشی دیکھتی، ان آنکھوں کی مقناطیسی کشش کی محیط میں پڑتی تو۔۔۔

    جڑ ہی نہ اکھڑ جاتی؟

    ایک جلے دل کے تمام دردوں کے ساتھ اس کے قدموں پرخود کو نثار نہ کرتی۔۔۔؟ چیخ سنائی پڑی، ایک ناپید کنار وادی سے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دل کی گہرائی میں کہیں پر ایک معصوم ضد کی ناقابل برداشت چیخ سنائی پڑی ایک ناپید کنار وادی سے پیدا ہوئی ہو جیسی وہ آواز گونج اٹھی، پھر بھی انہیں صدا بصحرا سمجھ کر وہ آگے بڑھی اس نے اپنے فیصلے کے پتھر پر سے مضبوطی کے ساتھ قدم آگے بڑھائے۔

    ’’اے خدا! یہ قدم نہ کانپیں نہ ان میں لغزش ہو، نہ گریں‘‘

    لیکن رات بھرسو نہیں سکی اورکچھ دنوں وہ دفتر بھی نہیں جاسکی۔

    یاد کا دروازہ آدھا کھولے، وہی پیٹھ کے بل پرٹیک لگائے آنکھوں کی روشن چمک دکھا کرآہستہ آہستہ لہجہ میں پوچھتا ہے۔

    ’’مجھ میں شاردا کوچاہنے کی تمنا کرنے کی اہلیت ہے کیا؟

    شرم سے سر جھکا کر کھڑی رہنے کی ہمت ہے۔ کھلے گیسو کی آڑمیں اپنے چہرے کی سرخی چھپائے رہنے کی ہی قدرت ہے۔

    شاردا، تمہاری پیدائش ایسا سوال سننے کے لیے ہی ہوئی۔ کوئی دل کی گہرائی میں ہمیشہ پھسپھساتارہتاہے۔ ان لفظوں کے مدہوش کن نشے میں، اس کی یاد کی خوشبو میں، سب کچھ بھول کرروحانی مسرت میں وہ محوہوجاتی ہے۔ روح میں ایک گل مہرپھول جھولے کھڑا ہے اس کا فطری انجام کیاہوتاہے۔۔۔؟

    نسوانیت کی وہ نرم ونازک آواز زندگی کی شیریں موسیقی کی صورت میں فروغ پاتی نا۔۔۔؟ اس فرحت بخش نغمے کی الاپ کانوں سے ٹکراتی گونجتی، لیکن افسوس کی بات ہے کچھ بھی اس کے صحیح نتیجے تک نہ پہنچ سکا۔ قسمت کے غیرمرئی ہاتھوں نے سب الٹ پلٹ کردیا۔ سب گرکرپھوٹ گئے۔ قسمت کوکیاکوسنا؟

    توکیا ان سب کاسبب میں ہی ہوں؟

    ہاتھیوں کی طرح مست بادلوں سے بھراآسمان ہی اب باقی ہے۔ موسلادھاربارش جب چاہے تب برس پڑے گی۔

    باپ کی موت اچانک ہوئی۔ موت نے آکر باپ کومحبت سے سہلایا تووہ اطمینان سے دیکھتی رہی۔ وہ سینہ پیٹ کرروئی نہیں۔ بے ہوش ہوکر گرنہ پڑی، ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ آگے باپ نہیں۔ اپنے بچوں کے تئیں دُلار ومحبت کا اظہار کرناوالدصاحب جانتے ہی نہیں تھے۔ وہ اپنے دل کی شفقت ومحبت کوظاہرنہیں کرسکتے تھے۔ والد کے دل میں چھ ہزار کوس دوربسنے والے انگریزوں کے خلاف نفرت کا جذبہ بھرا تھا۔ وہ جذبہ بدل گیا تو بدلے میں آئے نئے لوگوں کے تئیں بھی وہی نفرت جاگ اٹھی۔ ان کی زندگی ہمت اورجوش سے روشن تھی۔ والدایک ایسے آدمی تھی جنہوں نے صرف جینانہیں سیکھاتھا۔

    لیکن حیرت واستعجاب کی بات ہے کہ موت سے پہلے کسی شدید نامعلوم ترغیب سے باپ نے بیٹی کوپاس بلایا۔ شام کا وقت تھا، چھت کے روشندان سے سرخ سرخ کرنیں داخل ہورہی تھیں۔ احاطے کے سرے پرکھڑے لمبے تاڑ کے درختوں کے سیاہ سائے بڑھتے بڑھتے برآمدے تک آگئے تھے۔ قریب جاکردیکھا۔ والد کی آنکھیں چھلک آئی تھیں، بالوں سے بھرے چہرے کے گڑھے میں آنسوؤں کی دوجھیلیں۔ والدصاحب جو کبھی نہیں روئے اب روہے ہیں کیا؟

    اپنے دبلے پتلے ہاتھوں سے اسے پکڑکرخوش آئند آوازمیں باپ نے پکارا۔ ’’میری بدقسمت بیٹی!‘‘

    زندگی کی تمام شفقتوں اورمحبتوں کے جذبات اس پکار میں پوشیدہ تھے۔ کچھ بولنے کے لیے ان کے لب آرزومندبن گئے، مگرایک بھی لفظ باہر نہیں نکل سکا۔ کچھ بولے بغیرزندگی ختم ہوگئی۔

    وہ ساکت بیٹھی رہ گئی۔ چھوٹی بہن اورچھوٹا بھائی سینہ کوبی کرکے زارزاررونے لگے تب اسے ہوش آیا۔

    ان لبوں پررُکے ہوئے الفاظ کیاتھے؟

    والدآخری لمحے میں کیاکہناچاہتے تھے؟

    سال شوروغل مچاتے ہوئے آنکھوں کے سامنے سے سرک گئے۔

    بڑے بڑے جلوس۔ عوامی جلسے۔ ستیہ گرہ، ہڑتالیں سب کے سامنے کھادی ٹوپی پہنے ایک قدآورشخص دکھائی پڑتے تھے۔ اخباروں میں ان کی تصویر چھپتی تھی۔ ان کی تقریریں شائع ہوتی تھیں۔ باپو!

    اس وقت وہ صرف کمسن بچی تھی۔ گھاگھرا اورفراک پہنے، کندھے سے بستہ لٹکائے وہ اسکول جاتی تھی۔ تب اس کی طرف اشارہ کرکے لوگ احترام سے کہتے۔۔۔ کی بیٹی ہے، جانتے نہیں۔۔۔؟

    اس باپ کی بیٹی آج اس طرح۔۔۔

    یااس باپ کی ہی حالت کیاسے کیاہوگئی۔ دنیا سے انجان کسی اعزاز یا احترام پائے بغیرچھ فٹ مٹی میں سماگئے۔

    جس شمشان میں صرف جنگلی اکوّا اور جنگلی کیتکی کے پھول تحفہ کے طورپرسرجھکائے کھڑے تھے، اس شمشان میں ابھی ابھی لگائے ناریل کے اس درخت کے نیچے ایک زندگی ختم ہوئی ہے۔ گہری نیند میں سوئی پڑی ہے۔ بھول کی ٹھنڈی تاریکی میں نظر سے اوجھل پڑی ہے۔

    ابھی وہ آنکھیں چھلک پڑتی ہیں کیا۔؟ وہ لب سسکتے ہیں کیا۔؟ آخری لفظ ابھی ڈٹے رہتے ہیں کیا؟

    والدصاحب ذرابتائیے۔ آخر میں بتانے کے لیے کیا خزانہ رہ گیاتھا۔۔۔؟

    زندگی کی سنسان سرزمین پربغیرسہارے کے چھوڑے ان بچوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہا ہوگا۔۔۔؟ یا بازو نہ نکلے چھوٹے بھائی کے مستقبل کے بارے میں؟ یااشارہ تک نہ پہنچی نادان چھوٹی بہن کے بارے میں۔۔۔؟

    جیتے جی تووالد کوسکون نہیں ملا۔ کم از کم موت کے بعدتوانہیں سکون ملے۔ سوجائیے، اطمینان سے سوجائیے آخری لمحات میں آپ کوشش کے باوجود کچھ کہہ نہ سکے ان لفظوں کومیں ہی اب کہہ رہی ہوں۔

    میں سب کی ذمہ داری اپنے سرلیتی ہوں، باپ کے نام اوروقار کی اوربھائی اوربہن کے مستقبل کی یہ سب کچھ میں اپنے ذمہ لیتی ہوں۔

    اس عہدکوپورا کرنے کے لیے اس کاسارا مستقبل ختم تھا۔ ایک محویت کا سفر اس سفر میں کئی خواہشات کودور ہٹاناپڑا۔ کئی بیش بہاچیزوں کودورپھینکناپڑا۔ اس میں عورت کے زندہ رہنے کی خواہش بھی چھوڑناپڑی۔ اس فیصلہ کن مصیبت کے آغاز کی یادآج بھی باقی ہے۔

    والدکی موت کی خبرپاکر بال چندر فورا آئے۔ ایک رشتہ داریاذمہ دار شخص کی حیثیت سے کریا کرم سے متعلق سارا کام کرنے میں انہوں نے مددکی۔ اس کے بعد بھی وہ کئی بارآئے، وہ اپنی شفقت آمیزموجودگی سے روشنی بخشتے رہے تھے۔ دکھ کے بادلوں سے پوشیدہ اس کی تنہائی کی راتوں میں نسبت پورنیما کے چاند کی طرح وہ پہنچتے تھے۔ بڑھتے میل جول سے اس کوخوف ساہونے لگا کہ پہلے سے مسائل سے بھرپورزندگی اورزیادہ سخت ہورہی ہے۔ اس لیے اس نے واضح طور پرکہہ دیا۔ جوروزانہ شفقت، ہمدردی اور تعاون ہی کرتے آئے اس بھلے آدمی سے احسان فراموش بن کرکہہ دیا۔ جان بوجھ کرتلخ لہجہ میں کہہ دیا۔

    ’’میرے لیے شادی کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

    زردچہرے پردردبھرے وہ کھڑی سسکتی رہی توانہوں نے کہا ’’جتنے دن چاہو میں انتظار کروں گا۔‘‘ نسوانیت کی معمولی خواہش اورجوانی کی سخت محبت کے جال میں پڑنے سے پہلے پرعزم آوازمیں اس نے کہا،

    ’’نہیں، نہیں، میں شادی نہیں کروں گی، میرانتظار نہیں کریں۔‘‘

    پرخلوص محبت کے سینے میں جھونکے ہوئے ایک خنجر کی طرح وہ الفاظ ان پرجالگے۔ پھربھی کچھ کہے بغیر وہ وہاں سے چلے گئے اوراس کے بعد اس راستہ میں ان کا سایہ تک نہ پڑا۔ زندگی ایک سخت محویت پسندبندگی بن گئی ایک پرانے فائل کی طرح دل کواس کی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ اس نے لال فیتہ سے باندھ دیا سماج کی اخلاقی قدروں کوتسلیم کرتے ہوئے وہ ہوشیاری سے مستقبل کی راہ پرگامزن ہوئی۔

    نوکری میں ۴۵۔ ۷۵ سے ۵۰۔ ۱۵۰ تک اور ۹۰ ۲۰۰تک ترقی پاتی ہوئی آگے بڑھی۔ برسوں کی پائدانوں کوپیچھے چھوڑتی رہی۔ تنہائی کے دنوں کی بدمزگی گردش کی طرح باقی رہ گئی۔ اپنی ذمہ داریوں کوبرداشت کرتی رہی۔ چھوٹی بہن کی شادی کرائی وہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ بہت دورایک شہرمیں بس گئی۔ چھوٹا بھائی بی ایک اعلیٰ عہدے پرپہنچ گیا۔ اس اتنا میں گھراور احاطہ بھی فروخت کرناپڑا۔ توکیا؟ ذمہ داریوں کے بوجھوں کوایک ایک کرکے اتارتودیا۔ کرنے کے لیے آپ باقی کچھ نہیں ہے، مگرعمر نے اب تک اس کے سرپرچاندی کے پھول کھلادیے ہیں۔ رخساروں کی سرخی مٹ گئی ہے۔ جوانی کی سرمستیاں بھی آہستہ آہستہ رخصت ہوئیں۔ سورج دن چڑھے تک پہنچ گیاہے۔ اس اثنا میں کئی لوگ زندگی میں آئے، کئی چھوڑگئے۔ شب وروز طویل سال اس پرانے ہوسٹل کے تاریک کمرے سے سکریٹریٹ تک کے تنگ راستے سے بائیں طرف سرک گئے۔ کتنی سہیلیاں ایک کے بعد ایک آئیں اوربدل گئیں۔

    سمت، آنی، رادھا، اندرا، میری شری دیوی۔۔۔ سب ایک ایک کرکے چھوڑگئیں۔ ہرایک چھوٹے خاندان کی تنگ چہاردیواری کے اندرکی طرف جھنجھناتے پازیب پہنے بچوں کی کلکاریوں سے بھرے خاک زدنہ آنگن کی طرف شتاوری پھول سی دبلی پتلی کبوتر جیسی نرم ونازک سہیلی بھی شادی کے لیے کمربستہ ہوکرہوسٹل چھوڑگئی۔ وہ سب مائیں بنیں، نانیاں بن گئیں۔ اپنے اپنے خاندانی خوبصورتی کی آسودگی کے آپسی میل جول میں ان مادہ پرندوں کوصرف ایک شاہد کی طرح وہ تاکتی رہی۔ تشنگی سے، ناامیدی کی تکلیف سے نہایت بے بسی کے ساتھ وہ دیکھتی رہی۔

    صرف مجھے ہی ٹھوکریں کھاناپڑیں۔

    اس کی زندگی ایک سرائے کی شام کی طرح تھی جہاں لوگ آتے ہیں، آرام کرتے ہیں اورچھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔ ایک ہی راستہ سے آفس اور پھرواپس ہوسٹل آتی جاتی رہی۔ ایک آرام سے محروم زندگی۔ خودبنائے ہوئے دائرہ نما مکڑے کے جالے میں چکرکاٹتے رہنا۔ آخر میں سب کاانجا م مکڑی کے جالے کی طرح ہوتاہے۔

    یادوں کے سامنے پھولوں کی تھالی لیے ایک وہی گل مہرجس کے اندرہی اندر آنسو جھڑنا! اس آنسو کے جھرنے کے کنارے کبھی نہ کھلنے والے گل مہر کے نیچے کسی کا بھی انتظارنہ کرتے ہوئے وہ اکیلی راہ پرچلتی رہی۔

    میری شادی کبھی نہ ہوگی۔ کسی کوبھی میر انتظار نہیں ہے۔ ماضی کی پگڈنڈیوں پراپنے لگائے ہوئے وہ کانٹے یادوں کے پاؤں میں چبھ کرخون بہارہے تھے۔

    بال چندر، اساڑھ کے مہینے کے پہلے پھول کی طرح تم نے اپنے دل کی خوشبو کے ساتھ مجھے کیوں جگایا۔ وقت نے تمہارے آنسوتوپوچھ دیے لیکن میرے۔۔۔؟

    بال چندر سے کبھی کبھی میری ملاقات ہوتی تھی۔ انہوں نے جان بوجھ کر اپنا سیکشن بدل دیااس کے بعد بھی کبھی کبھی مل جاتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی بھی کچھ یادنہیں دلایا۔ صرف ہمدردی اور خلوص کے جذبے کو ایک مسکراہٹ بخش کرچلے گئے۔ لیکن دیکھتے دیکھتے انہوں نے ماضی کی بربادقسمت کی تکلیف دہ یادیں جگادیں۔ گہرے احساس کی آگ کی دہکتی رہی۔ ان کی شادی ہوگئی، باپ بھی بنے۔ زندگی کے سفر میں بہت آگے جاپہنچے۔

    پھربھی کسی ایک نامعلوم طاقت نے اسے آہستہ ان کی طرف متوجہ رکھا۔ ان کی زندگی اورآرام جاننے کی اشتیاق بھری بیقراری نے خاموشی اختیارکرلی۔ تلاش وجستجو سے بھرپور دلچسپی کے ساتھ دل اس کے پیچھے چلا۔ خاموش آوازمیں روزانہ دعادیتی رہی۔

    ’’ایشورآپ کابھلاکرے۔‘‘

    ان کے خاندان کے ساتھ تعارف ہوگیا۔ آہستہ آہستہ اس خاندان کی قرابت داربن گئی۔ ان بچوں کی سہیلی اورچہیتی بن گئی ان بچوں کوگلے لگاکر بوسہ دینے کے وقت سینے میں مامتاجاگ اٹھی۔ لیکن اس رشتہ سے متعلق لوگوں نے جوباتیں پھیلائیں وہ ان کے کانوں میں نہ پڑیں۔

    بال پکنے لگے۔ اس بالغ اورپرانے اپرڈویژن کلرک کے نئے راستے کے بارے میں طرح طرح کے افسانے پھیلنے لگے۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ایک گفتگو کا موضوع بن رہی ہے۔ نوجوان ملازمین کے لیے ایک ادھیڑعورت کی پراسرار کمزوری بات چیت کے لیے تازہ موضوع تھا۔ پونی ٹیل باندھے لپ اسٹک لگائے باریک نائیلون کے کپڑوں میں ملبوس اپنے جسم کے جغرافیہ کا مظاہرہ کرتی ہوئی نوجوان لڑکیاں انتظارگاہ میں اس کے سامنے ہی اس کے متعلق موضوع پرسرگوشیاں کرتیں۔ ’’بوڑھی اوربوڑھے کی محبت۔‘‘

    وہ لڑکیاں جواپنی عمراورطاقت سے بھی زیادہ افسانے ڈھونڈتی تھیں، بڑھاچڑھاکر خبریں پھیلارہی تھیں ’’آج کل وہی رہتی ہے‘‘

    ’’تھوڑے دن پہلے دونوں کوکنیاکماری میں دیکھا‘‘ آج کشن کہہ رہا تھا۔

    ’’اتنی بوڑھی ہوگئی اس پربھی شرم نہیں آتی۔ یہی یرت کی بات ہے۔‘‘

    وہ یہ سب جھوٹی باتیں نہیں جانتی تھی۔ کل ہی یہ باتیں اس نے سنیں تووہ چونک گئی۔ پرانے دائرے میں سب کچھ واقع ہوا۔ آفس کاپچھواڑہ۔ شام کی دھوپ کی سنہری روشنی میں ڈبکی لے رہاتھا۔

    میدان سے ہواجھونکے کے ساتھ آرہی تھی۔ اتفاق سے بال چندر مل گئے۔ مناظر اورعمل وہی سب پرانے ہیں صرف اداکاری کے حصے ہی عام طورپربدلنے پڑے۔

    ’’میری ازدواجی زندگی کوتتربتر نہ کرنا۔ شاردا۔ تیری التجا پرہی میں تجھ سے دورہٹ گیا۔۔۔ اب اس راہ پر بھی تومجھے اطمینان سے نہیں جانے دے گی کیا۔‘‘ وہ متحیر ہوکر سنتی رہی۔ غیرمتحرک۔ ایک لفظ بھی نہ بولی۔ دل کے اندرلہریں اٹھیں۔ اپنے لمبے سائے کے پیچھے اس جلدنابود ہونے والے آدمی کودیکھ کروہ بے جان ہوکر رہ گئی۔ کہیں کوئی نہ تھا۔ پتے پھیلائے جنگلی کیلے بھی نہیں۔ پھلاپھولاگل مہر کاپودا بھی نہیں۔ جوانی کی سیاہی لیے کھلی یوفوربیا کی زہریلی بیل بھی نہیں۔ پرانے زمانے کی کہانیوں کی یادگار وغیرہ کچھ نہیں۔ بس وہاں حیرت زدہ آسمان رہ گیاتھا۔ زمانہ پلک جھپکے بغیر دیکھ رہاہے۔ پتے پھیلائے دلکش جنگلی کیلوں کے دائرہ میں کھلے گل مہر کی جگہ اب نئے نئے مکانات کی تعمیر کے لیے پتھروں کا انبار لگاہے۔ کالے پتھر کے ٹکڑے اپنے پنے خوابوں کی فرحت بخش سستی میں جھپکی لیے وہ پھول ان کالے پتھروں کے نیچے کھلے پڑے ہیں۔

    وہ زخمی دل لیے رات بھرروتی رہی۔ نیندسے محروم رات۔ وہ سسک سسک کرروتی رہی سب امیدوں پرپانی پھرگیا۔ سب کچھ چورچورہوگیا۔ نیندسے محروم رات کے تاریک پہروں میں اس نے ایک مضبوط ارادہ کیا۔ سویرے آفس میں پہنچتے ہی چھوٹے بھائی کوفون کرناہے۔

    ’’شام کوہوسٹل آنا۔ ضرور آنا ضرور۔‘‘

    پھراس سے کہوں گی۔

    ’’نہیں مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ جہاں تک ہوسکتا تھا اس سے زیادہ ہی کیا۔ اپنی طاقت سے باہرجاکربھی۔ اب بالکل تھک گئی ہوں۔ میں اب نوکری نہیں کرسکتی۔ توکہنا تھا نا۔۔۔ میں استعفےٰ دے دوں۔ کہیں بھی جائیں میں حاضرہوں۔ ٹریننگ کے بعدوہ کئی بار کہہ چکاہے۔

    ’’اب یہ چھوٹی نوکری کس کے لیے؟ چھوڑدیجیے۔۔۔ دیدی کے گزارے کے لیے مجھے کافی تنخواہ مل جاتی ہے۔‘‘

    دنیا صرف مجھ سے ہی ناانصافی کرتی ہے۔ اس نے سوچا۔ وہ آئی، پی، ایس ہے اوراس کے لیے یہ بے عزتی کی بات ہے کہ اس کی دیدی ایک کلرک ہے۔ اس کی شادی کی بڑی بڑی تجویزیں اوربڑے بڑے مالی خاندانوں کے سامنے دیدی کی نوکری بالکل چھوٹی لگتی ہے، بری لگتی ہے۔ اس کی حیثیت کوٹھیس پہنچتی ہے۔ شاید شادی کی تجویزلانے والوں میں کسی نے اس بات کی طر ف اشارہ کیاہو۔

    تونہیں جاننا کہ تیری دیدی کی اس چھوٹی نوکری سے حاصل شدہ معمولی تنخواہ نے ہی تجھے آئی، پی، ایس بنوایا۔ میں سمجھتی ہوں کہ تیرایہ غصہ آمیز حکم اپنی جھوٹی عزت کی سیاہی کوچھپانے کے لیے ہی ہے۔

    ایک اورڈربھی تھا۔ چھوٹے بھائی کی شادی کرنے پر، اس کا گھربسنے پردیدی وہاں بھی حقیر رہے گی۔ اس خاندان کی موسیقی میں ایک غیرمناسب زیروبم بنے گی؟ بہن کے ہرخط سے جوتاثرحاصل ہوتا تھا اوران سے ظاہرہونے والی ہمدردی اوررحم بھی ایک طرح سے سہاراتھا۔ اوروہ اس سے زیادہ اسے کسی سے کچھ امید نہیں ہے۔

    ’’بیچاری دیدی۔ کوئی چارہ کارنہیں۔ باقی ماندہ زندگی کے لیے کوئی مقصد بھی نہیں کچھ نہ کچھ کہاہوگا۔ تواسے بھول کرمعاف کیوں نہیں کردیتا۔‘‘

    آگے راستہ بندہے۔ وہ جامدہوگئی ہے۔ دل کھول کراتناہی کہناہے۔

    ’’نہیں مجھ سے برداشت نہیں ہوتابھیا میں بہت پریشان ہوں۔‘‘

    اس نمایاں بے عزتی اور گریز سے بڑھ کرکچھ بھی ہوسکتاہے؟ لیکن سویرے آفس نہ جاناپڑا۔ فون نہ کرناپڑا۔ اس سے پہلے ہی وہ آپہنچا۔ چھوٹا بھائی آیاہے، یہ جان کر سیڑھیاں اترنے کے وقت اس نے سوچا۔۔۔ ایشورپہلے ہی سب کچھ جانتاہے۔ اسے خود ہی بھیج دیاہے لیکن ملنے پرحیران رہ گئی۔ پہلے کی بہ نسبت سادہ یونیفارم میں کام کرتے کرتے دوڑکرآیاہے۔ چہرہ آگ کے شعلوں کی طرح سرخ ہوگیاہے۔ گھبراہٹ دور ہی نہ ہوئی، پہلے ہی وہ چیخ اٹھا۔

    تم کو اب اپنی بہن کہنے میں شرم آتی ہے۔ سراٹھاکر چل نہیں سکتا۔ شرم اورعزت ترک کرکے۔۔۔ آج سے میں تمہارا بھائی نہیں ہوں۔ تمہارے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس بوڑھے اسسٹنٹ سکریٹری کی داشتہ بن کرہی جیو۔۔۔‘‘

    بے حس ہوکر سنتی رہی۔ رونے کے لیے آنسوباقی نہیں رہ گئے تھے۔ شرم اورعزت سے خالی عورت، اس لیے سربھی نہ جھکا۔ ساکت ہوکر سنتی رہی۔ وہ کہہ کر چلاگیا ایک طوفان کی طرح۔ بچپن سے ہی وہ غصہ ورتھا۔ رنجیدہ چڑچڑااورکمزور تھا۔ اسسٹنٹ سکریٹری کی داشتہ!

    ’’ارے لال تجھے یہ لفظ میرے منھ پرکہنے کی ہمت کیسے ہوئی؟‘‘

    اس کے ہاتھوں میں پل کروہ بڑا ہوا۔ اس کے ہاتھوں سے ہی اس نے کھایا۔ اس کی لوری سن کر وہ سویا۔ وہ اس کے لیے ماں، بھائی، دیدی سب کچھ تھی۔ آنکھ کی پتلی کی طرح زیادہ لاڈپیارسے بغیر خودغرضی کے اس نے اس کی پرورش کی۔ زندگی میں کسی بھی نتیجہ کاانتظار نہ کرنے کی تعلیم ملی۔ یہ دکھ بھری سچائی پہلے سے ہی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ گہرا زخم اسے اس کی امید کبھی نہیں تھی۔۔۔

    ’’آئندہ تمہارے ساتھ میراکوئی رشتہ نہیں۔‘‘

    سب کتنی جلدی واقع ہوا۔ پانی کی لکیرکی طرح ماضی کے دروازے کوبند کرکے تالالگانا کیااتنا آسان کام ہے؟

    دل ریشمی لنگوٹی پہنے اور باریک دھوتی پہنے بچپن کی سرسبزوشاداب وادی کی طرف بڑھا۔ وہاں چاروں طرف پھول ہی پھول کھلے تھے۔ وہ پھول توڑنے کوترس اٹھی۔ چاروں طرف دوڑی پھری۔ اس کی آواز گونج اٹھی، پھول۔۔۔ پھول، آسودگی کی علامت کے پھول۔ پیروں میں کانٹے چبھے تو کیا؟ ہاتھوں میں خراش لگے تو کیا؟ لوٹنے کے وقت تھالی بھر پھول تھے۔ ان پھولوں کی طرح اس کاچہرہ بھی کھلا ہوا تھا۔

    لیکن وہ سب کچھ بے وقت مرجھاگئے۔

    پوجا کے کمرے کے دروازے پرپھول رکھنے لگی تونانی نے کہا،

    ’’یہ سب پوجا کے لیے نہیں چڑھائے جاتے بچی۔ پوجا کے کمرے کی پھول والی تھالی میں ایک پھول کوبھی جگہ نہ ملی۔ صحن کے گوشے میں رکھے کوڑے دان میں گرکروہ بیچارے پھول چیخے چلائے اورپھر مرجھاگئے۔

    ’’پوجا میں نہ چڑھے پھول‘‘

    برسوں کے درد سے بھرا ہوا دل ہے۔ تومیں اب اطمینان سے پوچھتی ہوں نانی۔۔۔ کیااس دن منھ سے نکلے وہ لفظ محبت کی زبان سے ہی نکلے تھے یا تاریکیوں بھری قانون کی سیاہ زبان سے؟!

    آسمان کی سیاہی سے بددعا کی طرح وہ الفاظ زندگی میں ٹوٹ پڑے ہیں۔ اچھی طرح سے جھلسایاہے، خاکستر کردیاہے۔

    پوجا پرناچڑھاپھول میں ہوں نانی۔۔۔ میں ہی ہوں۔۔۔

    بغیر چاہے وہ نالائق پھول کی طرح ٹھکرادی گئی۔

    پوجا کو نہیں چاہئے پجاری کونہیں چاہئے۔

    زندگی کے کوڑے دان میں پڑی روتی ہوں، جل کرراکھ بنتی ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے