وہ ہماری سگی نانی نہ تھی پھر بھی ہمارے لئے سگی سے کم نہ تھی۔ جب سے وہ ہمارے گھر پر آنے جانے لگی تھیں تو اس کی آمد آمد کی خبر کے ساتھ ہی گھر میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ بڑے کمرے میں موٹا سا مٹرس بچھاد یا جاتا تھا۔ مٹرس کے اوپر کڑھائی کی ہوئی کھدر کی چادر بچھائی جاتی تھی۔ تین اطراف گاو تکیے لگا دئے جاتے تھے تاکہ وہ پھسکڑا مارکر بیٹھ سکے۔ نانی کے آنے سے توغسل خانے کی قسمت چمک اُٹھتی تھی۔ ایسی گھسائی، دھلائی ہوتی تھی کہ فرش آئینے کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ نہانے کے لئے کونے میں گلابی رنگ کی ایک نئی نویلی پیڑھی رکھ دی جاتی تھی تاکہ نانی اس پر بیٹھ کر اشنان لے سکیں۔ صابون کیس میں خوشبو دارصابون کی ٹکیہ رکھی جاتی تھی تاکہ اگل بغل کی سڑاند اس خو شبو میں دب جائے۔ ساتھ میں تیل کی شیشی، کنگی، سرمہ سب ایک طاق پہ سجا کے رکھ دیا جاتا تھا تاکہ نانی کو ادھر اُدھر دوڑنا نہ پڑے۔ بدن پونچھنے کے لئے اماں اپنے من کو مار کرٹرنک سے ایک نئی تولیہ نکال کر باتھ روم میں ٹنگا کے رکھدیتی تھیں۔ جونہی گاڑی کا پونپو بجتا تھا تو گھر کی ساری عورتیں یعنی اماں، بھابی، تائی اور چاچی گھونگھٹ نکال کے ادھر ادھر گرتی پڑتی نظر آتی تھیں جب کہ پتا جی بھاگ کر پھاٹک پر کھڑے ہو جاتے تھے اور نانی کا ہاتھ تھام کر ان کو ٹیکسی سے باہر لے آتے تھے اور پھڑ انہیں بہ نفس نفیس اندر لے آتے تھے۔ نانی کے پیچھے ان کا چہیتا کشمیری چھوکرا گلزار نانی کا بڑا سا بیگ اٹھائے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ جونہی نانی کمرے میں قدم رکھتی تھیں تو گھر کی ساری عورتیں ایک ایک کرکے اس کے پاوں چھونے کے لئے آگے بڑھتی تھیں۔ نانی سب کو باری باری آشیر واد دیتیں اور ساتھ ہی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالکر ہر ایک کی ہتھیلی پر ایک ایک روپے کا سکہ رکھ دیتی تھیں۔ نانی کی جیب قارون کے خزانے سے کچھ کم نہ تھی۔ وہ سکے بانٹتے بانٹتے تھک جاتی تھیں پر اُسکی جیب خالی ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔
نانی کا اصلی نام پوشہ مال مال تھایعنی پھولوں کی لڑی پر ہم تو اسے اس نام سے نہیں بلکہ نانی کے نام سے جانتے تھے۔ اس کے ماں باپ نے شاید اس کی صباحت اور نزاکت کو دیکھ کر ہی اس کا نام پوشہ مال رکھ لیا ہوگا۔ وہ واقعی پھول کی طرح نازک اور ملائم تھی۔ لطافت اور خوشبو سے محمور۔ پاکیزہ اور بےداغ جیسے ابھی کوئی جاکر اسے بھگوان کی مورتی پر چڑھا کے آئےگا۔ پوشہ مال نے عمر کے پینسٹھ پڑاو پار کئے تھے۔ ان پینسٹھ سالوں میں اس نے بڑے اتار چڑھاو دیکھے تھے۔ اتنے سارے نشیب و فراز دیکھنے کے باوجود وہ زرا سی بھی نہ بدلی تھی۔ وہ پہلے جتنی شیریں، شفیق اور مہربان تھی وہ آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھی۔ اس کے رکھ رکھاو میں اس کے سوبھاو میں رتی بھر بھی فرق نہ آیا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے اس بادل کا خیال آتا تھا جو رحمت باراں برسا کر آیا ہو اور اب دور کسی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھ کر سستا رہا ہو۔ وہ اکثر خاموش رہتی تھیں کوئی کچھ پوچھتا تو ہوں ہاں میں جواب دیتی تھیں۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ان آنکھوں میں درد کا ایک بیکراں ساگر پنہاں ہے جس کی کوئی تھاہ نہیں جس کا کوئی کنارا نہیں۔ وہ اس کھیت کی طرح دکھائی دے رہی تھی جس کی فصل کٹ چکی ہو اور اب اُس میں ٹھنٹھ ہی ٹھنٹھ رہ گئے ہوں۔ وہ کافی ظعیف ہو چکی تھی۔ اس کے چہرے پر وقت سے پہلے جھریاں پڑ گئی تھیں۔ وقت بڑا ستم ظریف ہوتا ہے۔ کبھی بسنت کے میلے لگا دیتا ہے تو کبھی خزاں کے ہاتھوں سب کچھ تحس نحس کر کے رکھ دیتا ہے۔ پوشہ مال بھی وقت کی بےرخی کا شکار ہو چکی تھیں۔ حالات کے بے رحم تھپیڑوں نے اس کے چہرے پر یہ جوجھریوں کا جھالر لٹکا دیا تھا اس جھالر میں ایک تاریخ رقم تھی جسے آج تک کوئی پڑھ نہیں پایا تھا۔
پوشہ مال کی جوانی کا دور بڑے اوج موج کا رہا تھا۔ خوشیوں اور شاد مانیوں سے معمور، آسودگی اور سکون سے مملو، آسائشوں اور لطافتوں سے بھر پور۔ اس نے سچے معنوں میں جیون کا آنند اٹھایا تھا۔ اُسکے شوہر ماسٹر روگناتھ جی جو کہ اننت ناگ کے ضلع مٹن کے باسی تھے۔ ان کی گنتی اس علاقے کے معزز ہستیوں میں ہوتی تھی۔ پیشے سے ماسٹر تھے اس لئے اس علاقے کا ہر فرد و بشراُنکی عزت و تکریم کیا کرتا تھا۔ اس علاقے کے بیشتر نوجوان ان کے شاگرد رہے تھے۔ وہ جدھر سے بھی گزرتے تھے لوگ تعظیم سے کھڑے ہو جاتے تھے اور جھک کر سلام کیا کرتے تھے۔ ماسٹر جی بہت ہی نیک، خدا ترس اور خوش طبع آدمی تھے۔ زندگی بھر کبھی اُنہوں نے کسی کی دل آزاری نہیں کی تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ماسٹر جی کے اثر و رسوخ کا کچھ لوگوں نے خوب فیض اٹھایا تھا۔ کون کیا کر رہا ہے انہیں ان باتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ اگر انہیں پتا بھی چلتا تھا کہ فلاں آدمی نے ان کے نام کا غلط فائدہ اٹھایا تو ماسٹر جی جواب میں کہتے کہ ”اگر کسی کا بھلا ہو رہا ہے تو میرا نام لینے میں کیا قباحت ہے“ وہ ایسے بھلے ما نس تھے کہ اُن کی بیوی اگر ان پر کبھی غصہ کرتی تھی تو ایک بچے کی طرح سر جھکائے کھڑے رہتے تھے۔ آج تک کسی نے انہیں اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا نہ سناتھا۔ بہت ہی حلیم اور خوش اخلاق تھے وہ۔
ماسٹر جی خاندانی رئیس تھے۔ خدا کا دیا سب کچھ تھا ان کے پاس۔ زمین جائیداد اونچی حویلی، ڈور ڈنگر، کئی میوہ باغات۔ گھر میں ہر چیز کی فراوانی تھی۔ وہ چاہتے تو بیٹھے بیٹھے ہی ان کو سب کچھ میسر ہو جاتا مگر دل میں یہ امنگ تھی کہ اس کے علاقے کا ہر بچہ پڑھے لکھے اس لئے انہوں نے ماسٹری کا پیشہ اپنایا تھا۔ لوگ ان کے اس نیک جذبے کی دل سے قدر کیا کرتے تھے۔ ماسٹر جی اپنی بھاگ بھری پر جان چھڑکتے تھے۔ پوشہ مال نے کبھی بھی ماسٹر جی کو شکایت کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ محلے میں جسکو دیکھو وہی پوشہ مال کے گن گاتا تھا۔ ہر روز پاس پڑوس کی کوئی نہ کوئی عورت اُس سے کچھ نہ کچھ مانگ تانگ کے لے جایا کرتی تھی۔ وہ کسی ایک کو بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا دیتی تھیں۔ اس کا دل بڑا کشادہ تھا۔ دوسروں کی حاجت روائی کرنے میں وہ دلی خوشی محسوس کرتی تھیں۔ رشتہ داروں کو تو آئے دن اس کی یاد ستاتی رہتی تھی۔ وہ سبھی رشتہ داروں کو ایک ہی نظر سے آنکتی تھی چاہے وہ دور کو ہو یا پاس کا۔ وہ کسی کی بھی خاطر مدارت میں کوئی کمی کسر رہنے نہیں دیتی تھی۔ وہ جب جانے لگتے تھے تو پوشہ مال ان کو خالی ہاتھ جانے نہیں دیتی تھیں بلکہ انہیں کچھ نہ کچھ سوغات دیکر ہی رخصت کرتی تھیں۔ ایک تو سو پچاس ہاتھ پہ رکھ دئے اوپر سے کسی کو دو کلو اخروٹ تھما دئے۔ کسی کی تھیلی میں چار کلو سیب بھر دئے۔ کسی کو مکئی کا آٹا دے کر خوش کیا تو کوئی دس کلو چاول لے کر نہال ہو گیا۔ غرض جو کچھ بھی گھر میں دستیاب تھا وہ بٹ ہی جاتا تھا۔ یہ سلسلہ سال بھر چلتا رہتا تھا۔ رشتہ داروں کو یہی لالسا پوشہ مال کے پاس کھینچ کر لاتی تھی۔ کشمیر میں برسوں سے یہ معقولہ چلتا آیا ہے کہ تم ہمیں بلاوگے تو کیا کھلاوگے؟ تم ہمارے گھر آوگے تو کیا لاوگے؟ مطلب یہ کہ گاوں والے کو آتے جاتے کچھ نہ کچھ نذرانہ شہر والے کو ادا کرنا ایک روایت بن گئی ہے۔ یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔ شہر و الے دیگر معاملوں میں بھلے ہی سست ہوں مگر گاوں والے سے خراج وصول کرنے میں بڑے تیز رہے ہیں۔ وہ جب شہر سے گاوں آتے ہیں تو خالی ہاتھ آتے ہیں لیکن جب جاتے ہیں تو اپنے ساتھ بہت ساری سوغات لے کر جاتے ہیں۔ جب ان کے یہاں جاو تو کم سے کم دو چار کلو راجماش، یا آٹھ دس کلو چاول لے کر ہی جانا پڑےگا۔ اگر کو ئی خالی ہاتھ گیا تو یہ لوگ اسے پانی تک کے لئے نہیں پوچھتے، چاہے وہ کتنا ہی نزدیکی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔
پوشہ مال اس معاملے میں بڑی ہی حساس اور وضع دارخاتون تھیں۔ وہ یا ماسٹر جی اگر کبھی سری نگر کسی کام سے جاتے تھے اور وہاں پر ایک آدھ رات کسی رشتہ دار کے یہاں گزارتے تھے تو اپنے ساتھ دس طرح کی چیزیں تحفے کے طور پر لے جاتے تھے۔ پوشہ مال کے بارے میں کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ اس چنار کی طرح ہے جو خود دھوپ میں جھلستا ہے پر ہر تھکے مسافر کو ٹھنڈی چھاوں دیتا ہے۔ کچھ لوگ فطرت سے ہی ایسے ہوتے ہیں جو خود پیاسے رہتے ہیں پر دوسروں کی پیاس بجھانے میں
فرحت محسوس کرتے ہیں۔ پوشہ مال ان میں سے ایک تھیں۔
ماسٹر جی کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام تیج ناتھ تھا اور چھوٹے کا نام راجناتھ تھا۔ ماسٹر جی نے اپنے دونوں بچوں کو خوب پڑھایا لکھایا۔ تیج ناتھ نے سری نگر کی یونیورسٹی سے ایم اے کیا جب کہ راجناتھ نے دلی میں جاکر ایم بی بی ایس کیا۔ تیج ناتھ کو سری نگر میں ہی لیکچرار کی نوکری مل گئی جب کہ راجناتھ مزید پڑھائی کرنے کے لئے لنڈن چلا گیا۔ پوشہ مال کو تیج ناتھ کے لئے رشتے پہ رشتے آنے لگے۔ وہ اپنے ہی علاقے کی لڑکی کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں۔ دو ایک لڑکیاں اس کی نظر میں تھیں۔ ماسٹر جی کو بھی وہ لڑکیاں پسند تھیں۔ جب ماں نے بیٹے سے بات کی تو جواب میں اُسے جو کچھ سننے کو ملا اسے سن کر اس کے پاوں تلے کی زمین سرک گئی۔ تیج ناتھ نے اپنے لئے پہلے سے ہی ایک لڑکی پسند کرکے رکھی تھی جو سری نگر کے حبہ کدل علاقے کی رہنے والی تھی۔ پوشہ مال شہری بہو کے حق میں نہیں تھیں۔ شہر ی لڑکیاں گاوں کے ماحولمیں اپنے آپ کو ڈھال نہیں پاتی ہیں۔ ان کی زندگی کا لائف اسٹائل گاوں کے لائف اسٹائل کے ایکدم الٹ ہوتا ہے۔ یہاں گائے بھینس کو چارہ ہی نہیں کھلانا پڑتا ہے بلکہ ننگے ہاتھوں سے گھاس گوبر بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ گھر میں دودھیلی گائیں ہوں تو پھر صبح و شام بلوئی لے کر گائیوں کو دوہنا بھی پڑتا ہے۔ کبھی کھیتوں میں کام چل رہا ہو تو چائے ناشتہ لے کر کھیت پر جانا پڑتا ہے۔ ساگزار میں جاکر مزدور کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ کبھی آکھر کی صفائی کرنی پڑتی ہے تو کبھی کوئی تیج تیوہار ہو تو گھر بھر کی لیپائی، پوتائی کرنی پڑتی ہے۔ یہ سارے کام شہری بہو کے بوتے کے کہاں۔ اس لئے جب تیج ناتھ نے ماں کو اپنا فیصلہ سنایا تو پوشہ مال کو لگا جیسے اس کے بیٹے نے اُسکے منہ پر چانٹا مار دیا ہو۔ وہ کمرے سے نکل کر سیدھے اپنے شوہر کے پاس گئی اور اسے بھاری من سے یہ خبر سنائی۔ ماسٹر جی کو بھی یہ خبر سن کر گہرا دھچکا لگا۔ وہ اُٹھا اور سیدھے تیج ناتھ کے کمرے میں چلا گیا۔ باپ کو دیکھ کر تیج ناتھ کھڑا ہو گیا۔ وہ باپ سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔ ماسٹر جی نے دو ٹوک لہجے میں اس سے کہہ دیا۔
”آج تک اس گھر کے فیصلے میں لیتا آیا ہوں۔ آگے بھی میں ہی لوں گا۔ تمہارے لئے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ یہ ہم سوچیں گے تم نہیں اس لئے جس لڑکی کو تم پسند کر تے ہو، اسے بھول جاو کیونکہ میرے جیتے جی وہ اس گھر کی بہو نہیں بنے گی اورہاں اگر تم نے میرے فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش کی تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ہم سب کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔“
پہلی بار تیج ناتھ نے اپنے باپ کو غصے کی حالت میں دیکھا تھا پر وہ تو پیار کے نشے میں ایسا ڈوب چکا تھا کہ باپ کی بھبکی کا اس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔
اس نے باپ کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے اڑا دی۔ وہ جانتا تھا کہ ماں باپ کو کیسے نرم کرنا ہے۔ اگلے روز وہ ڈیوٹی پر نہیں گیا بلکہ اٹوائی کھٹوائی لے کر پڑا رہا۔ جبماں اسے اٹھانے گئی تو وہ ایسے لیٹا رہا جیسے بیمار ہو یا کسی کا سوگ منا رہا ہو۔ ماں اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئی۔ وہ فوراََ شوہر کو خبر کرنے گئی۔ ماسٹر جی اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ وہ یہ خبر سن کر پریشان تو ضرور ہوئے البتہ انہوں نے کوئی فوری رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ حربہ تیج ناتھ اپنی ضد پوری کرنے کے لئے استمال کر رہا ہے۔
ماسٹرجی اس بھرم میں تھے کہ ایک دو دن میں تیج ناتھ کے سر سے یہ پیار کا بھوت اتر جائےگا مگر ماسٹرجی کا اندازہ غلط نکلا۔ وہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ تیج ناتھ جیت گیا اور ماسٹرجی ہار گئے۔ اُسنے اپنی ضد پوری کی اور اپنی من پسند لڑکی کو دلہن بنا کر گھر لے آیا۔ ادھر تیج ناتھ نے یہ کارنامہ کیا اور ادھر راج ناتھ نے نیا گل کھلایا۔ اُس نے ایک میم سے شادی کر ڈالی وہ بھی ماں باپ کو خبر کئے بنا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا شیرازہ بکھر گیا۔ ماسٹر جی اس دوہری مار سے بالکل ٹوٹ کر رہ گئے۔ ایک سال کے اندر ان کا دیہانت ہو گیا۔ پوشہ مال پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ایسا لگا جیسے روح چلی گئی ہو اور اب بس خالی شریر رہ گیا ہو۔
اس کی بہو وینا کے رنگ دھنگ دیکھ کر پوشہ مال کڑھ کے رہ جاتی تھیں۔ وہ بس اپنے آپ میں مست رہتی تھی۔ گھر کے کام کاج سے جیسے اس کا کوئی لینا دینا ہی نہ تھا۔ جب دیکھو ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھی ہے۔ بیچاری پوشہ مال کو اس عمر میں کام کرنا پڑتا تھا۔ بہو سے کچھ کہتی تھی تو بیٹا بیوی کی حمایت میں آکے کھڑا ہو جاتا تھا اور ماں کو ہی چار کڑوی باتیں سنا کے جاتا تھا۔ پوشہ مال تو بہو سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں۔ وہ اندر ہی اندر گھٹتی رہی۔ ایک دن تیج ناتھ نے یہ کہہ کر اس کے سر پر بم پھوڑ دیا کہ اس کا تبادلہ جموں ہوا ہے اسلئے وہ اپنی بیوی کو لے کرجموں جا رہا ہے۔ اس نے جھوٹے منہ سے بھی ماں کو ساتھ چلنے کے لئے نہیں کہا۔ پوشہ مال بیٹے کی اس بےرخی سے بس اپنا من مسوس کر رہ گئی۔
وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔ جنہیں وہ سرمایہ حیات سمجھ بیٹھی تھیں وہ ایک ایک کرکے دغا دے گئے تھے۔ اولاد اتنی کم ظرف نکلے گی یہ بات اس کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ بچوں کی اس بےرخی سے اس کے سارے سپنے چور چور ہو چکے تھے۔ جینے کی امنگ ہی مر چکی تھی۔ وہ پوتے پوتیوں کو کھلانے کی معصوم خواہشیں، وہ بچوں کو اپنے سامنے پھلتے پھولتے دیکھنے کے پنہاں ارمان ایک دھچکے میں زیر و زبر ہوکر رہ گئے تھے۔ اب اُسے جینے کا کوئی مقصد نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جی نہیں رہی ہے بلکہ سزا کے دن کاٹ رہی ہے۔
اس سے پہلے کہ دکھ اور نراشا کا یہ پھیلا ہوا اندھکار اسے نگل ڈالے اس نے زندہ رہنے کے لئے ایک نئی راہ تلاش کی۔ ایکدن ا سی گاوں کے مقدم حاجی ولی بٹ یک مسلم لڑکے کو اس کے پاس لے آیا جس کا نام گلزار احمد تھا، جو نانی کی طرح ہی قسمت کا مارا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اُسکے ماں باپ کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے باپ پر یہ الزام تھا کہ وہ دہشت گرد ہے۔ جب حفاظتی دستے اُسے گرفتار کرنے کے لئے اس کے گھر میں وارد ہوئے تو گلزار کی ماں ہتھیار بند سپاہیوں سے دست و گریبان ہو گئی۔ اس کی یہ جسارت اس کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ گلزار کی آنکھوں کے سامنے اس کے ماں باپ قتل ہوئے اور وہ منجمد ہوکے کھڑا رہا۔ ایک پل میں وہ یتیم ہوکے رہ گیا۔ اس کے معصوم خواب ایک لحظ میں چکنا چور ہوکے رہ گئے تھے۔ ایک ثانیے میں اس کی دنیا لٹ گئی اور وہ اپنے سامنے پڑی دو لاشوں کا نوحہ بھی نہیں کر سکا۔ یہ دونوں ستم رسیدہ تھے۔ ان دو کسانوں کی طرح جن میں سے ایک کا کھیت سوکھے سے تباہ ہو گیا ہو جب کہ دوسرے کا کھیت طغیانی سے برباد ہوا ہو۔ اس سانحے کے بعد اس کے ہونٹوں کی مسکان چھن گئی۔ اس کی آنکھوں کی چمک فنا ہو گئی۔ دومعصوم آنکھیں درد کے بیکراں ساگر میں تبدیل ہو گئیں۔ ایک ایسے ساگر میں جسکی کوئی تھاہ نہ تھی۔ یہ درد اس کی روح کی گہرائیوں تک اتر چکا تھا۔ اب وہ بولتا نہیں تھا۔ بس خاموش آنکھوں سے آسمان کو تکتا رہتا تھا۔ شاید وہ اوپر والے تک اپنی خاموش فریاد پہنچا رہا تھا۔ مقدم کو یقین نہیں تھا کہ نانی اس لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ ہوگی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پوشہ مال بڑی کٹر پنڈتانی ہے لیکن جب اُسنے اس مظلوم کی روداد سنی تو اس کی چھاتی پھٹنے لگی۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ گھائل کی گت گھائل ہی جانے۔ نانی کو لگا جیسے اس کا غم اس لڑکے کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ جب ممتا جاگ جاتی ہے تو اجنبیت، تعصب، کٹر پرستی کی ساری دیواریں خود بخود ڈھ جاتی ہیں اور پیار و محبت کا اجالا ان مہیب بادلوں کو چیر کر نکل آتا ہے۔ وہ ممتا کے ابال میں یہ بھول گئی کہ اس لڑکے کا دھرم کیا ہے، اس کا نام کیا ہے۔ اس نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اُسے نہ صرف اپنے گھر میں سہارا دیا بلکہ اُسمیں وہ اپنی کھوئی ہوئی اولادکو تلاش کرنے لگی۔
دونوں حالات کے مارے تھے۔ ایک سوکھی ندی تھی تو دوسرا ایک جل دھارا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت تھی۔ نانی اگر گلزار میں اپنے بچوں کو تلاش کرنے لگی تو گلزار بھی اس عورت میں اپنی کھوئی ہوئی ماں کو ڈھونڈنے لگا۔ نانی کے ساتھ رہ کر اُسکا غم کچھ کم ہونے لگا۔ نانی بھی اسے اپنے بچے کی طرح عزیز رکھنے لگی۔ آج تک رشتہ دار اس کے ہاں چلے آتے تھے، اب وہ بہانے بہانے سے رشتہ داروں سے ملنے جایا کرتی تھیں۔ روپیے پیسے کی آج بھی اس کے پاس کوئی کمی نہ تھی اس لئے دل بہلانے کی خاطر وہ نہ صرف نزدیکی بلکہ دور دراز کے رشتہ داروں تک پہنچنے لگی۔ رشتہ دار بھی اس کے آگے پلکیں بچھا دیتے تھے۔ وہ ایک رات سے زیادہ کہیں بھی قیام نہ کرتی تھیں۔ جہاں جاتی تھیں لینے کی جگہ کچھ نہ کچھ دے کے ہی آتی تھیں۔ اس کے ہاتھ آج بھی کھلے تھے، وہ تو ہمیشہ کشادہ دل رہی تھی۔ آج بھی وہ دو دو ہاتھوں سے دھن لٹاتی تھی کیونکہ سخاوت اس کی فطرت میں تھی۔
پوشہ مال کے پاس سب کچھ تھا پر دل کی خوشی نہیں تھی۔ من کا سکون نہیں تھا۔ اس کا جی تو ایکدم اچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ حسرت سے اپنے بچوں کی تصویروں کو گھنٹوں نہارا کرتی تھیں۔ بچوں کی یاد کلیجے کو بھرمانے لگتی تھی اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے تھے۔ وہ سوچتی تھی کہ آخر اس کے پیار میں ایسی کیا کمی رہ گئی جو اس کے بچوں نے اسے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور کبھی آکر ایک بار بھی اُسکی سدھ نہیں لی۔ وقت آدمی کو کتنا خود غرض اور کمینہ بنا دیتا ہے یہ برا وقت آنے پر پتہ چلتا ہے۔ بیوی کی ایک تال پر شوہر کی دیدوں کا پانی ہی ڈھل جاتا ہے۔ وہ ماں باپ کو کاٹھ کباڑ کی طرح دل سے نکال کر پھینک دیتا ہے۔ وہ سوچتی تھی تو روتی تھی۔ اس کا دل سوچ سوچ کے کرچی کرچی ہو کر رہ جاتا تھا۔
کئی سال گزر گئے۔ دو نوں بیٹے ماں کو یکسر بھول گئے۔ وہ دو بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی لاولد کی طرح جیتی رہی۔ گلزار نے کسی حد تک اس خلا کو بھرنے کیکوشش کی تھی۔ اب دونوں ایک پل بھی ایک دوسرے کے بنا رہ نہیں پاتے تھے۔ وونوں سیاسی شعبدہ بازیوں سے بے بہرہ تھے۔ دونوں خود غرضی اور بے ایمانی کی کثافت سے پاک تھے۔ وہ تو بس ایک دوسرے کے درد کا مدوا بننے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔ جہاں نفرت اور دہشت کی کالی آندھی نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، اس گھر میں دو ایسے انسان تھے جو پیار کی ایک ننھی سی قندیل اس طوفان میں جلائے بیٹھے تھے۔
کشمیر کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے تھے۔ پوشہ مال کی زندگی پر بھی خوف کے کالے بادل منڈھلا رہے تھے۔ گاوں والے ہر پل اسکی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔ صبح سے شام تک اس کے گھر ں لوگوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ کوئی سبزی لے کے آ جاتا۔ کوئی ددھ دینے چلا آتا۔ ہر فرد اپنے اپنے ڈھنگ سے اس کی مدد کرتا جا رہا تھا اور اس بھائی چارے کو بنائے رکھنا چاہتا تھا جو کہ صدیوں سے اس وادی کی اساس رہی ہے۔
ادھر تیج ناتھ کی بیوی وینا جموں میں کرایے کے مکانوں میں رہ رہ کے عاجز آ چکی تھی۔ وہ ایک نیا مکان خریدنا چاہتی تھی جس کے لئے ایک بڑی رقم درکار تھی۔ وہصبح و شام اپنے شوہر کے سر پر سوار رہتی تھی کہ وہ مٹن جاکر اپنی جائیداد بیچ کر آ جائے۔ تیج ناتھ کئی مہینوں تک بیوی کو ٹالتا رہا لیکن جس دن اسے معلوم پڑ گیا کہ اس کی ماں نے ایک مسلم لڑکے کو گود لیا ہے اور وہ اپنی ساری جائیداد اس کے نام کرنا چاہتی ہے تو اس کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے اور وہ رات دن انگاروں پر لوٹنے لگا۔ ایک دن وہ اننت ناگ کے رجب دلال سے ملا اور اس سے اپنے حصے کا سودا اونے پونے دام میں کر ڈالا۔ رجب دلا ل بیعانہ بھی دے کر چلا گیا۔ جب وہ مٹن جاکر پٹواری کے ساتھ اس زمین کی پیمائش کرنے پہنچا تو پوشہ مال کے سارے پڑوسی گھروں سے نکل آئے اور اُنہوں نے رجب دلال اور پٹواری کو گھیر لیا۔ پٹواری لوگوں کے اس جمغفیر کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ رجب دلال بھی گاوں والوں کے غصے کو دیکھ کر ڈھیلا پڑ گیا اور وہ ٹیکسی پکڑ کر سیدھے تیج ناتھ کے پاس پہنچ گیا اور اسے سارا ماجرا سنا دیا۔ تیجناتھ کاخون کھول اٹھا۔ وینا تو پہلے سے ہی اپنی ساس کی جان کی دشمن بنی ہوئی تھی اب تیج ناتھ بھی اپنی ماں کی جان کا لاگو ہو گیا۔ اُسنے رجب دلال سے مدد مانگی۔ رجب دلال کے پاس سو مرض کی ایک ہی دوا تھی۔ پیسہ دیکر بڑھیا کا کام تمام کروا دینا۔ جائیداد کی لالچ میں تیج ناتھ یہ سودا کرنے پر تیار ہو گیا۔
ایک رات جب ایک بندوق بردار پوشہ مال کے گھر میں ملک الموت بن کے پہنچا تو ننھا گلزار نانی کے بغل میں لیٹا ہوا تھا۔ باہر بڑی خوف ناک رات تھی اوراندر معصوم گلزار کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ اسے وہ منظر یاد آرہا تھا جب اس کے ماں باپ خون میں لت پٹ اس کی آنکھوں کے سامنے پڑے تھے اور وہ رو بھی نہیں پایا تھا۔ وہ اسی طوفان سے لڑتا جا رہا تھا کہ اچانک اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ جب اس کی نظر بندوق بردار پر پڑی تو ایک پل کے لئے اس کا خون سوکھ کے رہ گیا۔ اگلے ہی پل اس نے نانی کو جگانے کی کوشش کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ گلزار نے دیکھا کہ بندوق بردار نے آگے بڑھکر نانی کی طرف نشانہ باندھ لیا۔ گلزار کو لگا کہ وہ ایک بار پھر یتیم ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ گولی چل جائے وہ ڈھال بن کے نانی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد گولیوں کی آواز نے رات کے سناٹے کو چیر ڈالا۔ آواز سن کر سارا گاوں جاگ گیا اور پھر لوگ لشتم پشتم گھروں سے نکل کر پوشہ مال کے گھر کی طرف دوڑنے لگے۔ وہاں کا نظارہ دیکھ کرہر کوئی سن ہوکے رہ گیا۔ پوشہ مال اپنے سر پر خاک ڈالے گلزار کے بے جان جسم کو اپنی گود میں لے کر ایسے بیٹھی تھی جیسے آج اس کی حقیقی اولاد کی موت ہوئی ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.