Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پوسٹ مارٹم

بلال حسن منٹو

پوسٹ مارٹم

بلال حسن منٹو

MORE BYبلال حسن منٹو

    ہفتہ وار چھٹی کی صبح، ابا، نوید بھائی اور میں گاڑی میں بیٹھ کر اپنے ماڈل ٹاؤن سے نکل کے ایک جنگل نما جگہ کو جاتے تھے۔ ابا اور نوید بھائی گاڑی میں آگے بیٹھتے تھے اور میں اور ہیپی پچھلی سیٹ پر۔ ہمارے شہر کے بیچ ایک بہت پیاری چھوٹی سی نہر گزرتی ہے جس میں لاہور کی سخت گرمیوں میں بیشمار آدمی نیم برہنہ اور بچے اکثر الف ننگے نہایا کرتے تھے۔ وہ اب بھی یہی کرتے ہیں گو کہ اس پر کبھی کبھی غلغلہ اٹھتا ہے کہ یہ کام بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ بے شرمی پہ مبنی ایک غیر اسلامی بات ہے۔ ہم اسی نہر کے کنارے کنارے، دور، جہاں اب یونیورسٹی کی عمارتیں ہیں، اس سے بھی آگے جا پہنچتے تھے۔ وہاں نہر کے ساتھ ساتھ ایک جنگل چلتا تھا۔ باقاعدہ جنگل، گھنے درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈوں والا، کیونکہ ابھی ہمارا لاہور پھیلتے پھیلتے وہاں تک نہیں پہنچا تھا اور اس کی انسانوں سے لبریز نئی نئی بستیوں نے اس علاقے کو ہضم نہیں کیا تھا۔ ہم وہاں جھاڑیوں اور درختوں کے درمیان ادھر ادھر پھرتے تھے اور سیہ کے کانٹے اکٹھے کرتے تھے۔ وہاں کو ئی خونخوار جنگلی جانور نہیں پائے جاتے تھے مگر میں اکثر اپنے تصور میں کسی بھیڑئیے یا شیر کو جھاڑیوں کے پیچھے سے اپنی طرف لپکتے دیکھتا تھا۔

    کبھی کبھی بھینسوں کا کوئی ریوڑ نہر میں نہانے آ جاتا تھا۔ کسی پاس کے گاؤں سے آتا ہو گا شاید۔ مجھے بھینسوں کا آنا ہمیشہ ناگوار ہوتا تھا کیونکہ بھینس خطرناک جنگلی جانور نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ افریقہ کے جنگلوں کی ہو جس کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہ اس قدر بہادر اور غصیلی ہوتی ہے کہ اس سے شیر تک ڈرتا ہے اور کبھی یہ جرأت نہیں کرتا کہ اکیلا اس پر حملہ آور ہو جائے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے شیر کو جنگل کا بادشاہ مشہور کر رکھا ہے وہ مبالغہ کرتے ہیں اور شیر ہرگز جنگل کا بادشاہ نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو پھر جنگلی بھینس سے کیوں ڈرتا ہے اور اکیلے ہی کیوں اس پر حملہ آور ہوکے نہیں دکھاتا؟ ہمیشہ اپنے خاندان کے باقی لوگوں کو کیوں سہارے کے طور پہ ساتھ لاتا ہے کہ تم پیچھے سے حملہ کرنا، تم اس طرف سے، تم اس طرف سے اور پھر دیکھنا میں کس طرح اس کالی بھینس کی گردن دبوچتا ہوں اور وہ لوگ جو اسے بادشاہ بادشاہ کہتے ہیں، ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر ایسا ہی یہ بادشاہ ہے تو پھر کیوں ہاتھی اور گینڈے کا شکار اسی طرح نہیں کرتا جس طرح اپنے سے کمزور ہرن اور نیل گائے کا کرتا ہے؟ خیر، یہ بات ان جھوٹے لوگوں سے پوچھنی چاہیے جنہوں نے صدیوں سے اس جانور، شیر کو، بادشاہ قرار دیا ہوا ہے اور انہی لوگوں سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا جنگل کوئی سلطنت ہے جس میں بادشاہ ہو؟ اور اگر ہے تو پھر یہ بھی بتانا پڑےگا کہ وزرا کون ہیں؟ کوئی عدلیہ بھی ہے یا نہیں؟ شوریٰ میں کون کون شامل ہے؟ خیر، ان باتوں کے جوابات تو نہ جانے کوئی دے پائے یا نہیں مگر نہر کے کنارے کے اس جنگل میں جاکے میں یہ تصور کرنا چاہتا تھا کہ میں ’’سوئس فیملی رابنسن’‘ والے خاندان کا ایک فرد ہوں جس کے بارے میں امریکہ کے لوگوں نے ایک جھوٹی فلم میں دکھایا تھا کہ وہ درندوں سے پر ایک گھنے جنگل میں مچان پہ گھر بنا کے رہتے تھے۔ لیکن میرے اس فلمی تصور کو موٹی کالی بے ضرر بھینسوں کے ریوڑ خاک میں ملا دیتے تھے اور مجھے مایوسی سے دوچار کرتے تھے۔

    گاڑی میں بیٹھ کے واپس جانے سے ذرا پہلے ابا اپنی بندوق سے ایک کارتوس ہوا میں داغتے تھے جس پر ہیپی اپنی دم دبا کے گاڑی کی طرف بھاگتا تھا اور پھر دم ہلا ہلا کے ہماری جانب دیکھتا تھا جیسے خوشامد کر رہا ہو کے دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر گھس کے ان گولا باریوں سے محفوظ ہو جاؤں۔ لٹکے ہوئے کانوں اور کالی کھال والے ہمارے پیارے ہیپی کو شور شرابے اور پرتشدد آوازوں سے سخت نفرت تھی۔ میری بھی کئی عادات ہیپی سے بہت ملتی تھیں اور مجھے بھی فائر کی آواز سے نفرت تھی گو کہ فائر کے بعد بچ جانے والے خالی کارتوس میں سے جو بارود کی خوشبو آتی تھی وہ مجھے اور نوید بھائی دونوں کو بہت پسند تھی۔ واپسی پر ہم باری باری خالی کارتوس سونگھتے تھے مگر جب اسے ہیپی کی ناک کے آگے لہراتے تھے تو وہ ناگواری سے چہرہ دوسری طرف کرکے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیتا تھا۔

    اکثر واپسی کے راستے میں ہمیں کسی کھیت میں سفید براق بگلے بیٹھے نظر آتے تھے اور ہم ابا سے کہتے تھے کہ وہ چینی بندوق سے ان کا شکار کریں تاکہ آج گھر جاکے امی سے ان کا روسٹ بنواکر کھایا جائے۔ ابا ایسا کبھی نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا اصول تھا کہ بس ایک ہی کارتوس چلایا جائےگا اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بگلا کھایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ حلال نہیں ہے۔ ہم اس بات پر بہت حیران ہوتے تھے کہ ابا یوں تو اپنی زندگی میں مذہبی فریضوں اور احکامات کے بارے میں کچھ زیادہ فکر مند نہیں رہتے تھے تو پھر اس حرام بگلے کاروسٹ کھانے میں انھیں کیا عار تھی۔ ابا کے اس عذر کے باوجود ہم ہر بار بگلے دیکھنے پر اپنا مطالبہ دہراتے تھے۔

    ’’آپ ماریں نہ اسے، پھر دیکھیں ہیپی کیسے شکاری کتے کی طرح جا کے اسے اپنے منہ میں دبوچ کر لائےگا‘‘ ایک بار میں نے تجویز دی۔

    ابا نے کہا کہ ہیپی کو ایسی کوئی تربیت نہیں ہے کہ جائے اور شکار پکڑ کے لائے۔ اگر چلا بھی گیا تو وہیں اسے خود کھانا شروع کر دےگا۔ میں نے کہا کہ تربیت کرنے سے ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے اور امی نے یا سکول کے اساتذہ نے نوید بھائی کی اور میری کی ہے۔ ایک دو بار ممکن ہے ہیپی وہی کرے جو آپ نے کہا ہے مگر پھر جب ہم اسے پیٹھ پر سوٹیاں ماریں گے اور اس کے منہ پر گھونسے لگائیں گے کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس کی تربیت بھی ہو جائےگی۔

    ’’جب بگلا حلال نہیں ہے اور کھا نہیں سکتے تو کیوں ماریں؟‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’حلال بھی تو کرنے سے ہوتا ہے۔ آپ اسے یوں ماریں، ایسا تاک کے نشانہ لے کر گولی چلائیں کہ یہ پوری طرح نہ مرے اور گر کر تڑپنا شروع کر دے۔ پھر جب ہیپی اسے دبوچ کر واپس لائے تو آپ اسے ذبح کریں، اس کی شہ رگ پہ تیز دھار خطرناک خنجر پھیر کے۔ تب جب وہ تڑپ تڑپ کے مرےگا تو کیا حلال نہیں ہو جائےگا؟ جیسے بازار میں مرغیاں ہوتی ہیں ہر روز اور بکرے۔‘‘

    ابا نے کہا کہ ایک تو ہمارے پاس تیز دھار خطرناک خنجر نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ کچھ جانور ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں ذبح بھی کیا جائے تو وہ ہرگز، ہرگز حلال نہیں ہو سکتے مثلاً انسان، بگلا یا چوہی، کیونکہ مذہب اسلام جس کے ہم پیروکار ہیں، اس میں یہی حکم در ج ہے۔

    انھوں نے ’’حرام‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ انھیں شاید عجیب سا لگتا ہوگا کہ یہ لفظ بولیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس لفظ سے فوراً ہمارے دماغ میں ایک اور لفظ آئےگا، یعنی ’’حرامزادہ‘‘ یا ’‘حرامزادی‘‘ جو ایک غلیظ اور ناقابل برداشت گالی ہے۔

    گھر پہ، ناشتے کے بعد، ابا اپنی بندوق کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس کی نالی کو ’’پل تھرو۔۔۔‘‘ سے صاف کرتے تھے جسے ہم ’’پھلترو’‘ کہتے تھے اور اسکو بڑی محنت سے تیل دے کے دھوپ میں رکھ دیتے تھے۔ ابا ایسے شخص نہیں تھے جو بندوقیں خریدتا ہو یا ہتھیاروں میں دلچسپی رکھتا ہو۔ یہ بندوق دادا ابا کی تھی۔ ہم نے تو انھیں دیکھا نہیں تھا کیونکہ وہ امی ابا کی شادی سے پہلے ہی کسی مہلک بیماری کی زد میں آکر ایک دن دوپہر کے وقت وفات پا گئے تھے، مگر جو سنا تھا اس سے پتا چلا تھاکہ یہ بندوق انھوں نے ایک خاص مقصد کے لیے خریدی تھی۔ دادا ابا اپنے قدیم زمانے میں اپنی ایک رشتہ دار لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس لڑکی نے شروع میں تو ان کے ساتھ بہت پینگیں بڑھائیں اور انھیں بہت پچکارا کہ ہاں ہاں تم ہی سے شادی کروں گی مگر پھر یہی حرکت، یعنی شادی، اپنے ایک اور رشتہ دار سے کر لی۔ دادا ابا سخت طیش میں آئے اور انھوں نے یہ بندوق تب خریدی، یہ کہہ کر کے اس سے اس شادی شدہ جوڑے کو ہلاک کر دوں گا۔ بعد ازاں انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ شاید ان کے والد، یعنی ہمارے پردادا ابا نے تھپڑ مار کے اور ڈانٹ پلا کے روک دیا ہوگا کہ خبردار جو ایسا کام کیا۔ مگر یہ بندوق انھوں نے ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھی اور وہ کہتے تھے کہ اس کی شکل میں انھیں وہ بےشرم اور بےایمان عورت نظر آتی ہے جس کا دیا ہوا دھوکا اس کے خریدنے کا محرک بنا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سوچتے ہوں کہ کبھی موقع ملا تو پردادا ابا کی آنکھ بچاکر یا ان کے فوت ہونے کے بعد ضرور اس عورت کو اس بندوق سے اس کے سر اور پیٹ پر پے در پے فائر کرکے ہلاک کر دونگا۔

    ابا اس بندوق کو بڑے پیار اور احتیاط سے رکھتے تھے۔ ایسے، جیسے خود یہ دادا ابا ہی ہوں اور جب چھٹی والے روز اس سے فائر کرتے تھے تو عین ممکن ہے یہ سمجھتے ہوں کہ دادا ابا اس فائر کی آواز میں ان سے ہمکلام ہوئے ہیں۔

    چھٹی والے دن ہمارے گھر مہمان بھی آ جاتے تھے۔ بغیر بتائے۔ اچانک۔ پچھلی گلی سے آنٹی فضیلہ تو ضرور آتی تھیں اور اپنے دو بچے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ساتھ لاتی تھیں، جن کو ہم، محلے کے باقی بچے، عام طور پہ منہ نہیں لگاتے تھے۔

    ’’یہ ایسے ہی صرف ملنے نہیں آتی۔‘‘ امی کہتی تھیں۔ ’’یہ ایک حاسد عورت ہے۔ جادوگرنی اور چڑیل ہے۔‘‘

    جب وہ چلی جاتیں تو امی ڈرائینگ روم کا معائنہ کرتیں، زیادہ تر اس صوفے یا کرسی کے آس پاس جہاں آنٹی فضیلہ بیٹھی رہی ہوں اور خاص طور پہ صوفے کی گدیاں اٹھا اٹھا کے دیکھتیں کہ وہ چپکے سے کہیں کوئی جادو ٹونے کا تعویز تو نہیں رکھ گئیں۔ جب کچھ برآمد نہ ہوتا تو تھک کے کہتیں کہ وہ کوئی اناڑی تھوڑا ہی ہے جو اتنی آسانی سے مجھے اس کے تعویز مل جائیں۔ ابا کبھی ان باتوں پر محظوظ ہوتے تھے اور کبھی ذرا سا غصے میں آتے تھے۔ جب غصے میں آتے تو کہتے کہ یہ آپ کیسی فضول باتیں کرتی ہیں جادو ٹونوں کی۔ اچھی خاصی پڑھی لکھی ہیں آپ۔ ایسی بیہودہ باتیں مت کیا کریں۔

    ’’میں کہاں مانتی ہوں جادو ٹونا۔‘‘ امی کہتی تھیں۔ ’’مانتی تو میں نہیں ہوں۔ پر وہ تو مانتی ہے نا؟ اور اگر بعد میں کبھی پتا چلے کہ واقعی اس دنیا میں آج بھی جادو ٹونے کئے جاتے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟؟ اگر تب تک ہم ان کی زد میں آکر تباہ وبرباد ہو چکے ہوئے، تو پھر؟‘‘

    ’’وہ آپ پر کیوں کرےگی جادو؟‘‘ ابا نے ایک بار پوچھا تھا۔ اس پر امی نے کہا تھا کہ وہ حاسد ہے اور بس یہی کچھ کرتی ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کیونکہ اس کی سگی بہن نبیلہ بھی یہی کہتی ہے۔

    ’’نبیلہ سے زیادہ کسے پتا ہوگا؟ ایک تو بہن اور دوسرا اس کے ساتھ والے گھر میں رہتی ہے۔ اسے نہیں پتا ہوگا تو اور کسے پتا ہوگا؟‘‘

    ابا چپ ہو گئے کیونکہ جس یقین سے امی یہ بات کہہ رہی تھیں اس سے ظاہر تھا کہ یہ گفتگو جاری رکھنا بے سود ہے اور امی کے خیالات اس دلیل سے بھی نہیں بدل سکتے کہ فضیلہ اور نبیلہ کاآپس میں جھگڑا ہے اور جائیداد کے بہت سے تنازعے ہیں جنکی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔

    ہمیں آنٹی فضیلہ کے موٹے بیٹے سے چڑ تھی کیونکہ وہ بدتمیز تھا اور اس کی زبان بہت گندی تھی۔ یعنی وہ بہت بری بری باتیں کرتا تھا اور گندی گندی گالیاں دیتا تھا۔ ‘‘حرامزادہ ‘‘سے بھی زیادہ خراب اور مؤثر گالیاں۔ ہم بہت حیران ہوتے تھے کہ اس کے ماں باپ بجائے اس کے منہ پہ چانٹا مارنے کے اس کی گندی گندی باتوں پہ ہنستے ہیں۔ ہم کوشش کرتے تھے کہ اس سے دور رہیں مگر چونکہ محلے کا کوئی لڑکا اس سے دوستی نہیں کرتا تھا اس لیے جب وہ لوگ چھٹی کے دن زبردستی ہمارے گھر آتے تو وہ ہمارے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا تھا، خاص طور پہ میرے پیچھے کیونکہ میں اس کا ہم عمر تھا۔ وہ میرے کمرے میں گھس آتا تھا اور میرے دراز وغیرہ کھولتا پھولتا رہتا تھا۔

    آنٹی ارشد بھی ان لوگوں سے بہت تنگ تھیں۔ اکثر شام کو وہ چلاتی ہوئی ہمارے گھر آ جاتی تھیں۔

    ’’سمجھ نہیں آتا کہ اسے میرے بچوں سے کیا بیر ہے؟‘‘ آنٹی ارشد روہانسی ہوکے کہتی تھیں۔ ’’کبھی زاہد کی نوکری کے بارے میں کریدتی ہے اور کبھی پوچھتی ہے کہ عامرہ کا رشتہ ہوا یا نہیں۔ میں تو دل ہی دل میں قرآن شریف پڑھتی رہتی ہوں تاکہ اس کے جادونہ چل سکیں۔‘‘

    ’’بس، جب بھی آئے آپ قرآن شریف کی آیات کا ورد کرتی رہا کریں۔‘‘ امی کہتی تھیں۔ حالانکہ امی خود تو یہ نہیں کرتی تھیں۔ یا شاید دل ہی دل میں کرتی ہوں گی۔

    ’’چاروں قل اور آیت الکرسی۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ وہ صرف آپ کے بچوں کے پیچھے نہیں پڑی رہتی، سب کے پیچھے پڑی رہتی ہے۔ وہ حاسد ہے۔‘‘

    ’’ندرت جان‘‘، آنٹی ارشد امی کو پکار کر کہتیں، ’’وہ اپنے موٹے بیٹے سے تمہارے بیٹوں کا مقابلہ کرتی ہے اور اپنی بیٹی سے میری عامرہ کا اور پھر جب بھی میرے گھر میں کوئی نئی چیز دیکھےگی، پوچھے گی کتنے کی لی۔ میں تو ہمیشہ کہتی ہوں سیکنڈ ہینڈ ہے، بہت سستی ملی۔ تاکہ وہ مطمئن ہو جائے اور نظر نہ لگائے۔‘‘

    ’’بالکل ٹھیک طریقہ ہے۔ یہی کہنا چاہیے۔‘‘ امی اتفاق کرتیں۔

    پھر دونوں دوسری باتیں کرتیں۔ دوسرے مسائل کی۔ نوکر، ہمسائے، گوشت کی قیمت۔ یکایک آنٹی ارشد کو احساس ہوتا کہ گھر جا کے رات کے کھانے کا انتظام شروع کرنا ہے۔ انکل سلطان ساڑھے سات بجے کھانا کھا لیتے تھے اور کھانے میں تاخیر پہ غضبناک ہو جاتے تھے۔ ایک بھوکے جنگلی جانور کی طرح، جس طرح کے جانور میں چاہتا تھا کہ نہر والے جنگل میں پائے جائیں مگر جو وہاں نہیں پائے جاتے تھے۔

    ۔۔۔۔۔۔

    دسمبر کی ایک کہر آلود شام تھی جب ہمارے ہیپی نے کھانا کھانا بند کر دیا۔ نوید بھائی شام کو اسے کتا کوٹ پہنانے باہر باغ میں نکلے جہاں وہ خاموشی سے اپنے کلے سے بندھا بیٹھا تھا۔ اس نے ذرا سی آنکھ کھول کر نوید بھائی کو دیکھا اور مسکرایا۔ پھر اس نے دم کو دائیں سے بائیں خفیف سی جنبش دی اور بس۔ یہ اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ نہ کھڑا ہوکے دم زور زور سے ہلائی، نہ نوید بھائی سے کوئی اٹھکیلیاں کیں۔ نوید بھائی کچھ پریشان ہوئے۔

    ’’ہیپی، ہیپی‘‘ انہوں نے اسے چمکارا۔

    اب کہ اس نے آنکھیں بھی نہ کھولیں اور صرف دم کو بائیں سے دائیں جنبش دی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ یہ بھی اس کے لیے کچھ آسان نہیں ہے اور اس نے صرف نوید بھائی کی محبت میں ایسا کیا ہے۔ نوید بھائی کی نظر اس کے برتن پہ پڑی جس میں دوپہر کا کھانا اسی طرح موجود تھا اور اس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

    رات کھانے کی میز پر نوید بھائی نے ابا کو ہیپی کی کیفیت بتائی اور فکر سے کہا کہ لگتا ہے وہ بیمار ہے کیونکہ اس نے دوپہر کے کھانے کا ایک نوالہ بھی نہیں کھایا۔ ابا نے کہا کہ ممکن ہے اسے دوپہر کا کھانا پسند نہ آیا ہو۔

    ’’مگر روز یہی کھانا اس کو ملتا ہے‘‘ میں نے کہا۔ ’’روز تو کھاتا ہے۔‘‘

    ’’شاید یہی وجہ ہو۔ آپ کو روز ایک ہی چیز دی جائے تو آپ بھی ایک دن تنگ آ جائیں گے یا نہیں؟‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’واہ۔ یعنی اب میں اس کے لیے روز نت نئے پکوان تیار کروں؟‘‘ امی نے غصے سے کہا۔ وہ ہیپی سے نفرت کرتی تھیں۔

    ’’اچھا خیر، رات کو دیکھتے ہیں کچھ کھاتا ہے یا نہیں۔‘‘ ابا نے بات ختم کرنا چاہی۔

    ’’لیکن وہ ہلا کیوں نہیں؟ مجھے اسے کوٹ بھی لیٹے لیٹے ہی پہنانا پڑا۔‘‘ نوید بھائی نے فکرمندی سے کہا۔

    ’’شاید زکام ہو گیا ہو۔ اتنی سردی جو ہے۔ اگر رات کا کھانا بھی نہ کھایا یا کل بھی ایسے ہی رہا تو ڈاکٹر والٹر کے لے جانا‘‘۔

    رات کو میں اور نوید بھائی ہیپی کے پاس کھانا لے کر گئے۔ نوید بھائی نے اسماعیل سے کہہ کر قیمہ بنوایا تھا اور نرم نرم روٹیاں۔ روٹیوں کو توڑ کر قیمے کے ساتھ مکس کیا تھا اور اوپر دہی ڈالا تھا۔ بڑا مزیدار کھانا تیار کیا تھا اپنے پیارے ہیپی کے لیے۔ ’’ہیپی مکس’‘۔ انھوں نے اس پکوان کا نام بھی رکھ دیا تھا۔ میں نے اس ملغوبے کے اوپر تھوڑا سا دھنیہ سجا دیا تھا کہ شاید اس آرائش اور دھنیے کی تازگی اور رنگ و بو سے وہ ہیپی مکس کی طرف متوجہ ہو جائے۔ عام طور پر ہیپی کو رات کو کھانا نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ پھر وہ تمام رات سوتا رہتا تھا۔ گو وہ جاگ کے بھی کچھ زیادہ نہیں کرتا تھا مگر پھر بھی ذرا تسلی رہتی تھی کہ ہیپی جاگ رہا ہے جبکہ ہم غافل سو رہے ہیں۔ اس جھوٹی تسلی کے سوا اسے رات بھر جگانے کا کچھ اور مصرف نہ تھا۔ نوید بھائی کو یہ بات ظالمانہ لگتی تھی کہ ہیپی کو رات بھر جگایا جائے اور صرف دو وقت کی روٹی دی جائے جب کہ ہم خود تین وقت کھائیں پئیں اور اس کے علاوہ بھی جب دل چاہے فریج کھول کے کوئی پھل یا مشروب نکال کر کھا پی لیں۔ مگر ہیپی کے قیام و طعام کے اصول ابا نے کسی معلوماتی کتاب میں سے پڑھ کر طے کئے تھے اس لیے نوید بھائی کو یہ دو وقت کی روٹی والا نظام ماننا پڑا تھا۔

    ہیپی بھونکتا وونکتا کم ہی تھا۔ کبھی کوئی بہت خاص وجہ ہوتی تو بھونکتا تھا اور تب ہم بہت خوش ہوتے تھے۔ یہ ہم کبھی نہ جان سکے کہ وہ کیا بات ہے جو اسے بھونکنے پر اکساتی ہے۔ کوئی غیر مرئی، خفیہ سے محرکات معلوم ہوتے تھے۔ نہ وہ کسی آتے جاتے اجنبی کو بھونکتا تھا اور نہ کسی بلی چوہے کو۔ ہاں دوڑتی گاڑیوں کو بھونکتا تھا۔ جو اس سے دور جا رہی ہوتی تھیں۔ ان کو نہیں جو اس کی جانب آ رہی ہوتی تھیں۔ وہ اپنے سے دور جاتی گاڑیوں کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا بھونکتا جاتا تھا اور اگر کبھی وہ رک جاتیں، تو ہیپی بھی فوراً رک جاتا اور بھونکنا بند کرکے واپس گھر کے اندر بھاگ آتا۔ ابا نے ہمیں بتایا تھا کہ اصل میں ہیپی سمجھتا ہے کہ گاڑیاں اس سے ڈر رہی ہیں اور اس وجہ سے اس سے دور بھاگ رہی ہیں۔ انکو ڈرتا ہوا سمجھ کر اس کو بہادری کا دورہ پڑتا ہے اور یہ ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کے بھونکتا ہے اور ان کے خوف سے محظوظ ہوتا ہے۔ تب ہی تو جیسے ہی وہ رک جاتی ہیں یہ بھی خاموش ہو جاتا ہے اور پھر چپ چاپ واپس مڑ جاتا ہے۔ مایوسی سے، یہ سوچ کر کے اوہو، یہ تو مجھ سے خوف کھا ہی نہیں رہیں۔

    صرف امی ہی نہیں، ہیپی بھی امی کو سخت ناپسند کرتا تھا مگر باوجود اس کے کہ وہ اسے اکثر ڈانٹتی رہتی تھیں، وہ کبھی امی پر بھونکا نہیں تھا۔

    ’’برآمدے میں مت بیٹھو۔‘‘ امی بلا وجہ کہتیں، حالانکہ برآمدہ ایک خالی سی جگہ تھی جس میں صرف دو تین کرسیاں پڑی رہتی تھیں اور یہ بھی نہیں تھا کہ ہیپی ان کرسیوں پہ بیٹھ جاتا ہو۔

    ’’اٹھو یہاں سے۔‘‘ یہ وہ اکثر کہتی تھیں، یہاں تک کہ تب بھی کہہ دیتی تھیں جب وہ لان میں یا کسی اور جگہ پر الگ تھلگ بیٹھا ہوتا۔

    ’’خبردار جو میرے نزدیک آئے۔‘‘ جیسے وہ بہت شوق رکھتا ہو ان کے نزدیک آنے کا۔

    جب امی اسے ڈانٹتیں تو بیچارے کو کرنا تو وہی پڑتا جو وہ کہتیں مگر وہ ساتھ ساتھ ان کی طرف دیکھ کے منہ بھی چڑاتا تھا۔ اس سے امی اور غضبناک ہو جاتی تھیں۔ابا ہمیشہ کہتے کہ اس میں غصے کی کیا بات ہے؟ جیسے آپ کو وہ پسند نہیں ویسے ہی وہ آپ کو پسند نہیں کرتا۔ امی کہتیں کہ میں کم ازکم منہ نہیں چڑاتی اور یہ کہ اپنے سے بڑے لوگوں کا منہ چڑانا حد سے زیادہ بدتمیزی ہے۔ پھر اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مجھے کہتیں:’’ سن لو تم۔ میں نے کبھی تمہیں کسی بڑے کا منہ چڑاتے دیکھا تو کھال ادھیڑ کے ہاتھ میں پکڑا دونگی ’‘جو کہ ظاہر ہے کبھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ انسانوں کی کھال بہت پتلی ہوتی ہے اور ایسے نہیں اتاری جا سکتی جیسے ریچھ یا بارہ سنگھے کی اور اگر اتاری بھی جا سکتی ہو تو کوئی شخص اتنا مضبوط نہیں ہو سکتا کہ اس کی کھال اتاری جائے اور اس کے بعد وہ چپ چاپ اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ لے۔ ایسے کسی شخص کا ذکر تو تاریخ کی جھوٹی سچی کتابوں میں بھی کہیں نہیں ملتا۔

    ’’آپ تو بول لیتی ہیں اور اسے ڈانٹ لیتی ہیں۔ اسے بولنا نہیں آتا اس لیے منہ چڑاتا ہے۔‘‘ ابا نے ایک بار کہا تھا۔

    مگر امی کا سوال یہ تھا کہ اسے کیسے پتا ہے کہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں جس پہ ابا کا جواب تھا کہ کتے تو انسان کے احساسات بھی سونگھ لیتے ہیں اور آپ تو اس پر باقاعدہ چیختی چلاتی ہیں۔ ہم دونوں کو، مجھے اور نوید بھائی کو یہ ’’احساسات’‘ سونگھ لینے والی بات بہت پسند آئی تھی۔ اکثر جب کتوں سے خوف کھانے والے کوئی مہمان ہمارے گھر آتے تھے اور ہیپی ان کے نزدیک آکے ان کے جوتے اور کپڑے سونگھتا تھا تو ہم اطمینان سے ان کی ڈھارس بندھاتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’فکر مت کریں، یہ صرف آپ کے احساسات سونگھ رہا ہے۔‘‘ کچھ یہ سن کر مطمئن ہو جاتے تھے اور کچھ حیران اور کچھ گھبرا جاتے تھے جیسے ہیپی کوئی جاسوس ہو اور ان کے خفیہ احساسات سونگھ کر ہمیں انکے بارے میں بتانے والا ہو۔ جب وہ لوگ گھبراتے تھے، تو کبھی کبھی کوئی الٹی سیدھی حرکت کر دیتے تھے۔ عورتیں عام طور پہ چیخ اٹھتی تھیں اور آدمی جلدی جلدی بولنے لگ جاتے تھے یا تیز تیز گھر کے دروازے کی طرف چلنے لگتے تھے تاکہ جلدی سے اندر گھس جائیں، ہمیں،جنکا گھر تھا، پیچھے چھوڑتے ہوئے۔ اس پر کبھی کبھی، بالکل کبھی کبھار، ہیپی ان پر بھونک اٹھتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ان کا تمسخر اڑا رہا ہو۔ ہم تب بھی اس کا بھونکنا سن کے بہت خوش ہوتے تھے اور یہ بھول جاتے تھے کہ ہمارا مہمان ہمیں کھلکھلاتے دیکھ کر خوش نہیں ہوگا۔ ایک بار، ایسے ہی کسی مہمان کو، جس نے خوف کے مارے گھر سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی تھی، ہییپی نے غلطی سے کاٹ بھی لیا تھا۔ شاید گھبرا کے کاٹ لیا تھا، یہ دیکھ کر کہ یہ انسان بغیر کسی وجہ کے کیسی عجیب حرکت کر رہا ہے۔ ابھی تو آیا ہے اور ابھی باہر کو دوڑ رہا ہے۔ وہ مہمان جسے ہیپی نے غلطی سے کاٹا تھا کچھ ہی دنوں بعد فوت ہو گیا۔ ہیپی کے کاٹنے سے نہیں، جان لیوا دل کے دورے سے جو لوگوں کو بکثرت پڑتے رہتے ہیں۔

    ہیپی کے برتن میں دوپہر کا کھانا ابھی تک پڑا ہوا تھا۔ رات کو شاید مکھیاں نہیں ہوتیں۔ کہیں چلی جاتی ہیں یا شاید سو جاتی ہیں، کیونکہ اس وقت اس کھانے پہ کوئی مکھی نہیں تھی۔ اسماعیل وہ برتن لے کے گھر سے باہر گیا اور کوڑے کے ڈھیر پہ اسے خالی کر کے واپس لے آیا۔ اس اثنا میں نوید بھائی اور میں بس وہاں کھڑے ہیپی کو دیکھتے رہے۔ نوید بھائی کبھی کبھی اسے پکار بھی لیتے تھے۔

    ’’ہیپی۔ ہیپی۔ پچ پچ۔‘‘

    مگر اب نہ اس کی دم ہلی نہ آنکھ کھلی۔ ہم تو سمجھتے کہ وہ مر ہی چکا ہے اگر اس کی سانس نہ آ جا رہی ہوتی اور پیٹ اوپر نیچے نہ ہو رہا ہوتا۔

    سامنے، ہمارے اور آپا صغراں کے گھر کے درمیان دیوار پر، ایک بلی نمودار ہوئی۔ نوید بھائی نے فوراً ہیپی کو اکسانے کے لیے آواز نکالی، جیسی کتوں کو اکسانے کے لیے نکالتے ہیں، پہلے زبان کو ’‘کڑک’‘ کرتے ہیں اور پھر ’’ اوش’‘ کہتے ہیں۔

    ’’ہیپی۔۔۔ وہ دیکھ۔۔۔ کڑک۔۔۔ اووووش‘‘۔

    میں نے جھنجھلا کے کہا کہ وہ یہ کیا عجیب حرکت کر رہے ہیں۔ ہیپی بھوکا ہے اور پھر بھی کھانے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ رہا۔ زندگی میں آج تک اس نے کسی بلی چوہے کو کچھ نہیں کہا۔ اب اس وقت، اس حالت میں آپ کی کڑک اوش سن کے کیا وہ بلی کی جانب دوڑ پڑےگا؟ نوید بھائی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ فکرمند تھے۔

    اسماعیل برتن لایا تو نوید بھائی نے اس میں ہیپی مکس ڈالا اور ہیپی کی ناک کے عین سامنے رکھا تاکہ سونگھے اور بھوک چمکے۔ ہیپی نہ ہلا۔ نوید بھائی نے روٹی کا ایک ٹکڑا اٹھاکر اس کی ناک کو اس ٹکڑے سے چھوا مگر کچھ اثر نہ ہوا۔

    ’’ہاتھ سے کھلا کر دیکھیں۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔

    ’’کیسے؟‘‘ نوید بھائی نے پوچھا۔

    ’’آپ ہاتھوں سے زور لگا کے اس کا منہ کھولیں اور اسماعیل اس کے منہ میں نوالہ ڈالے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اور آپ؟ آپ تماشہ دیکھیں گے صرف؟‘‘ نوید بھائی نے ہنس کر پوچھا۔

    ’’دھنیہ اور دہی منہ میں جائیں گے تو شاید دل کرے گا اس کا کہ کھالے۔‘‘ میں نے کھسیانا ہوکے بات بدلی۔

    نویدبھائی نے بہت کوشش کرکے ہیپی کا منہ تھوڑا سا کھولا۔ بالکل تھوڑا سا۔ بمشکل آدھا انچ اور اسماعیل نے روٹی کا ایک چھوٹا نوالہ اٹھا کے اس میں گھسانے کی کوشش کی۔ نوید بھائی ساتھ ساتھ پچ پچ، ہیپی ہیپی، ہوٹ ہوٹ، بھی کرتے جا رہے تھے۔

    ’’پچ پچ، ہیپی ہیپی، ہوٹ ہوٹ‘‘

    ’’جلدی کرو۔ میں زیادہ دیر اس کا منہ کھلا نہیں رکھ سکتاـ۔‘‘ انھوں نے کہا۔

    ہیپی کا منہ آپ ہی آپ بند ہونے لگا اور نوید بھائی نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ان کی انگلی ہیپی کے ایک نوکیلے تیز دانت سے رگڑ کھا گئی اور خون کا ایک قطرہ اس پر نمودار ہوا، جیسے آج کل شوگر کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ذیابیطس کے مریض ایک قطرہ خون اپنی انگلی سے برآمد کرتے ہیں۔ نوید بھائی نے ہیپی کے کتا کوٹ سے وہ خون صاف کر لیا۔

    ’’کل ڈاکٹر والٹر کو دکھانا پڑےگا۔‘‘ انہوں نے کہا۔

    اگلے روز ہمیں ہیپی کو اٹھا کر گاڑی تک لانا پڑا تاکہ ڈاکٹر والٹر کے ہاں لے جاسکیں۔ پہلے، جب کبھی ہمیں اسے ڈاکٹر والٹر کے لے جانا پڑتا تھا تو بہت مشکل پیدا ہوتی تھی۔ ہیپی کو اچھی طرح علم تھا کہ وہاں جانے کا مطلب ہے اپنی ٹانگوں میں ٹیکے کی سوئیاں لگوانا، اپنی پیٹھ کے سوراخ میں تھرمامیٹر گھسوانا یا اپنے منہ میں کڑوی کسیلی دوا زبردستی انڈلوانا۔ جن دنوں وہ صحتمند اور خوش تھا اور ہم اسے اس کے سالانہ ٹیکے لگوانے کے لیے زنجیر اس کے پٹی سے باندھ کر ڈاکٹر والٹر کے گھر لے جاتے تھے تو وہ ان کے گیٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی غرانا شروع کر دیتا تھا اور واپس مڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس وقت اس میں بہت طاقت آ جاتی تھی اور مجھے اسے زنجیر سے پکڑ کے کھینچنا پڑتا تھا جب کہ نوید بھائی کو اس کی پیٹھ سے دھکا دینا پڑتا تھا تاکہ وہ آگے چلے۔ ایسے ہی دھکیلتے کھینچتے ہم اسے ڈاکٹر والٹر کے گیٹ میں داخل کرتے تھے۔ تب، جیسا کہ کتے خوف سے کرتے ہیں، وہ اپنی دم ٹانگوں کے اندر گھسا کر پیٹ سے لگا لیتا تھا۔ سب کتے خوف میں مبتلا ہونے پر یونہی کرتے ہیں۔ایسا نہیں کہ صرف ہیپی ہی یہ کام کرتا تھا تا کہ تھرمامیٹر پیٹھ کے سوراخ میں داخل نہ کیا جا سکے اور دم کی وجہ سے وہ سوراخ بند ہو جائے۔ بس کتوں کو یہی آتاہے کہ خوف میں اپنی دم کے ساتھ یوں کرنا چاہیے۔ اسی خوف سے اس کا پیشاب بھی آہستہ آہستہ، قطروں کی صورت میں برآمد ہونا شروع ہوتا تھا اور دم ٹانگوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے گیلی ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ جب ہم ڈاکٹر کے ہاں سے فارغ ہوتے تھے تو واپسی پر ہیپی تیزی سے گھر پہنچنے کے لیے اس قدر زور لگاتا تھا کہ اکثر نوید بھائی تنگ آکر اس کی زنجیر چھوڑ دیتے تھے تاکہ وہ خود ہی دوڑ کے ہم سے پہلے گھر پہنچ جائے۔

    لیکن آج تو بیچارے نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ بس ہمارے لیے وہ ذرا بھاری ہو گیا تھا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ جیسے ہار مان لی ہو۔

    ڈاکٹر والٹر نے ہیپی کا کوئی خاص معائنہ نہ کیا۔ تھرمامیٹر سے بخار ناپا۔ بمشکل جبڑے تھوڑے سے ٹٹول کر دیکھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب بھی یونہی کیا ورنہ انھیں اس پر ایک نظر ڈال کے ہی پتا چل گیا تھا کہ کیا ماجرا ہے۔

    ’’آئی ایم سوری۔ بچےگا نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔

    ہم ذرا خاموش سے ہو گئے۔ جیسے کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ اب کیا کریں۔ یا کیا کہیں۔ یہ بات کہ ہیپی مر بھی سکتا ہے، یہ تو ہم نے پہلے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔ آج اچانک سننی پڑ رہی تھی اور ابھی فوراً سیکھنا پڑ رہا تھا کہ اس کے رد عمل میں کیا کریں۔

    ’’اسے ہوا کیا ہے؟‘‘ نوید بھائی نے پوچھا۔ جو ان حالات میں ٹھیک ردعمل اور مناسب سوال تھا۔

    ڈاکٹر والٹر نے بتایا کہ ہیپی کو ایک بیماری ہو چکی ہے جس کا کا نام rabies ہے۔

    Rabies? نوید بھائی نے خوف سے دہرایا۔ شاید وہ اس بیماری کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

    ’’اوہ۔۔۔’‘ میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی خوف سے کہا۔ ’’وہ خرگوشوں والی بیماری؟‘‘ میں نے اپنی طرف سے چالاکی دکھائی کہ میں بھی rabies کے بارے میں جانتا ہوں حالانکہ یہ میں نے صرف اس لیے کہا تھا کہ خرگوش کو انگریزی میں 'rabbit'کہتے ہیں اور یہ لفظ کچھ rabies سے ملتا جلتا ہے۔

    ’’مگر اس میں تو کتا پاگل ہو جاتا ہے اور ہر آتے جاتے کو کاٹ لیتا ہے۔‘‘ نوید بھائی نے کہا۔ انھوں نے سوچا کہ شاید ڈاکٹر والٹر کوئی غلطی کررہے ہیں اور ممکن ہے وہ اپنی تشخیص بدل لیں۔

    ڈاکٹر والٹر نے بتایا کہ یہ جو ہیپی بیچارے پر حملہ آور ہوئی ہے، یہ dumb rabies ہے۔ یعنی گونگی ہے اور زیادہ تہلکہ نہیں مچاسکتی۔ وہ جو ہوتی ہے خوفناک والی، جس میں کتے ہر ایک کو کاٹتے پھرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ’’پرے ہٹو، پرے ہٹو، کتا ہلکا ہے، کاٹ لےگا’‘ یا ‘‘بندوق لاؤ۔ اسکو مار ڈالو’‘ وہ furious rabies ہوتی ہے۔

    شکر کرنا چاہیے کہ ہیپی کو furious rabiesنہیں ہے۔

    نوید بھائی نے پوچھا کہ anti rabies کے ٹیکے تو ہم لگواتے ہیں، پھر کیسے ہو گئی یہ بیماری؟ وہ اب بھی یہی سوچ رہے تھے کہ شاید ڈاکٹر والٹر سے غلطی ہو گئی ہے اور شاید تشخیص بدلی جائے لیکن ڈاکٹر والٹر کی ایک عمر کتے بلیوں کے ساتھ گزری تھی۔ انھوں نے جواباً بس یہی کہا کہ ہاں آپ لگواتے تو رہے ہیں ٹیکے اور بالکل ٹھیک قاعدے کے مطابق صحیح صحیح وقفے سے، مگر ڈاکٹری میں کوئی چیز سو فیصد نہیں ہوتی اور یہ کہ گاڈ کی مرضی کے سامنے آپ کے ٹیکوں کی ذرا برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔

    ’’Nothing is one hundred percent اور ڈاکٹری میں تو بالکل نہیں۔‘‘ انھوں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

    پھر انھوں نے کہا کہ اگر تو یہ furious rabies ہوتی تو ہم فوراً اس کو جان سے مار ڈالتے تاکہ یہ کسی کو کاٹ نہ کھائے اور کسی انسان کو اس کے کاٹنے سے rabies نہ ہو جائے۔ لیکن اب چونکہ اس میں طاقت بھی نہیں ہے اور فالج بھی ہو رہا ہے اس لیے بیچارے کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی کو کچھ نہیں کہےگا اور تھوڑے دنوں میں خود بخود مر جائےگا۔ ڈاکٹر والٹر نے صاف کہا کہ اس سے دور دور رہنا بہتر ہے۔ ’’مر جائےگا بیچارا۔ جلد ہی‘‘۔

    میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر والٹرطبی طور پر تو یہی کہنا چاہتے تھے کہ اس کو موت کی نیند سلا دینا چاہیے مگر شاید ہمیں افسردہ دیکھ کے انھوں نے سوچا ہوگا کہ چلو فوری موت کی جگہ اسے آہستہ آہستہ مرنے دیتے ہیں۔

    ’’کل ہیپی نے نوید بھائی کوکاٹا تھا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔

    ’’نہیں نہیں۔ کاٹا نہیں تھا۔ غلطی سے دانت لگ گیا تھا۔ میرا قصور تھا۔ میں اسے زبردستی کھانا کھلا رہا تھا۔‘‘ نوید بھائی جلدی سے بولے جیسے ڈر رہے ہوں کہ ڈاکٹر والٹر کہیں اس بنا پر ہیپی کے قتل کا حکم نہ جاری کر دیں۔

    ڈاکٹر والٹر نے بھنویں اوپر چڑھائیں۔

    ’’خون نکلا تھا؟‘‘

    ’’نکلا تھا۔‘‘ میں نے بتایا۔

    ــYou must see a doctor at once.۔ڈاکٹر والٹر نے انگریزی میں کہا اور اس سے عین ظاہر تھا کہ یہ بہت اہم اور سنجیدہ بات تھی۔ انھوں نے انگریزی ہی میں یہ بھی کہا کہ میں تمہارے والد کو فون کروں گا کہ فوراً تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ ‘‘Your Dad’‘ــ کہا تھا اور پھر کہا: ’‘بہت خطرناک بات ہے۔ ویری ڈینجرس۔‘‘ یہ بھی کہا کہ اگر انسان کو rabies ہو جائے تو موت یقینی ہے۔ خیر جس بات کا نوید بھائی کو ڈر تھا وہ نہ ہوئی اور ڈاکٹر والٹر نے ہیپی کو مارنے کا حکم نہ دیا۔ ہم ہیپی کو گھر لے آئے۔ میں اسے باندھنے لگا تو نوید بھائی نے منع کر دیا کہ بیچارا ہلتا تو ہے نہیں۔ فالج بھی ہے۔ چھوڑو کیا باندھنا۔ آزادی سے مرنے دو۔ ہم نے اسے کتا کوٹ سمیت ایک کیاری میں رکھ دیا۔

    ڈاکٹر والٹر ابا کو فون کر چکے تھے اور انھوں نے نوید بھائی کے بارے میں بہت سنجیدہ لہجے میں بات کی ہوگی کیونکہ امی اور ابا دونوں بہت خوفزدہ لگ رہے تھے۔ ابا فوراً نوید بھائی کو کسی ہسپتال لے گئے جہاں سے یہ لوگ کافی دیر میں واپس لوٹے۔ نوید بھائی کے پیٹ میں ایک بہت بڑا اور تکلیف دہ ٹیکہ لگایا گیا تھا اور ابھی مزید تیرہ ٹیکے، روز کا ایک، لگائے جانے تھے۔

    نوید بھائی نے rabies کے بارے میں بہت سی باتیں سن رکھی تھیں۔ یا شاید پڑھی ہوں کہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک کیڑا ہوتا ہے، خوردبینی، یعنی عام آنکھ اسے دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ Rabies والا کتا کاٹتا ہے تو وہ کیڑا اس کی تھوک کے ذریعے فوراً آپ کے اندر گھس جاتا ہے اور پھر ہاتھ پیر مارتا آپ کے جسم میں سفر کرتا کرتا جاکے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر جب اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو طرح طرح کی عجیب باتیں ہوتی ہیں۔ انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ پانی سے ڈرنے لگتا ہے۔ انسان کو باندھ کے رکھنا پڑتا ہے۔ انسان کتے کی طرح بھونکنا شروع کر دیتا ہے اور ہر ایک کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ مجھے یہ آخری بات بہت عجیب لگی۔ وہ جو اندر گھستا ہے وہ کوئی کیڑا ہوتا ہے یا کوئی چھوٹی سی کتیا جو اندر گھس کر انسان کی روح کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے اور پھر اس سے بھونکواتی ہے اور آتے جاتے لوگوں کو بلا وجہ کٹواتی ہے؟ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟

    میں ان انکشافات پر بہت حیران تھا اور خوفزدہ بھی۔ میں اگلے تیرہ دن، جب تک نوید بھائی کو سارے ٹیکے لگ نہ چکے، ان پہ خاص نظر رکھتا رہا کہ کہیں وہ پانی سے ڈرنے تو نہیں لگے؟ کہیں اکیلے میں چھپ چھپ کر بھونکتے تو نہیں؟ میں ان کے نہانے کے بعد غسلخانے میں جاکے دیکھتا تھا کہ اصل میں نہائے ہیں یا دھوکا دے رہے ہیں؟ غسل خانے کی زمین گیلی ہوئی ہے یا نہیں؟ کہیں پانی گرنے کے آثار ہیں یا نہیں؟ اور جب وہ رات کو سونے لیٹ جاتے تو دروازے سے کان لگا کے سنتا تھا کہ دبی دبی آواز میں بھونک تو نہیں رہے، حالانکہ میرے دماغ میں یہ بات آنی چاہیے تھی کہ اگر انھیں rabies تھی بھی تو وہ تو ہیپی سے آئی تھی اور ایک تو یہ کہ وہ خود dumb rabies تھی اور دوسرا یہ کہ ہیپی تو بھونکتا ہی نہیں تھا، سو نوید بھائی کیونکر بھونکتے؟

    بعد میں پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی کمینے آدمی نے ایسی افواہ پھیلائی تھی کہ اگر آپ کو rabies ہو جائے تو آپ بالکل کتا بن جاتے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ انسان rabies ہو جانے سے کتا نہیں بن جاتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ پانی سے ڈرتا ہے، مگر یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں کہ انسان کسی چیز سے ڈرے۔ اردو کے ایک بہت خاص سمجھے جانے والے شاعر مرزا غالب نے تو اپنے اشعار کی موٹی کتاب میں درج ایک شعر میں یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ وہ مردم گزیدہ ہیں، یعنی انسانوں کے ڈسے ہوئے ہیں، لہذا وہ آئینے میں اپنی، یعنی ایک آدمی کی شکل دیکھ کے ڈر جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے سگ گزیدہ، یعنی کتے کا کاٹا ہوا، پانی دیکھ کے ڈر جاتا ہے۔ حالانکہ سگ گزیدہ پانی میں اپنی شکل دیکھ کے نہیں ڈرتا بلکہ صرف اس لیے ڈرتا ہے کہ اسکو rabies ہو چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے گلے میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ پانی پینا ایک بیحد تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے اور وہ پانی کو دیکھ کرخوف سے کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں مجھے اس کو پینا ہی نہ پڑ جائے۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ہم نے ہیپی کو اکیلا چھوڑ دیا ہوا تھا کہ جو اس کا جی چاہے یہ کرے۔ جہاں چاہے گھومے پھرے۔ ہم اسے کھانا بھی دیتے رہے۔ دو کی بجائے تین وقت لیکن ان سب باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ نہ وہ ہلتا جلتا تھا نہ کچھ کھاتا پیتا تھا۔ ایک کے بعد دوسرے دن بس سوکھتا چلا جاتا تھا اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کے فضا میں دور تک دیکھتا تھا جیسے موت کوئی بھیانک ناچ ناچتی آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی ہو۔ آرام سے، اپنی مرضی سے، مزے لے لے کے۔

    نوید بھائی کو نہ پانی سے ڈر لگنا شروع ہوا اور نہ وہ بھونکے۔ وہ نہاتے بھی رہے اور پانی پیتے بھی رہے۔ ڈاکٹر والٹر نے کہا تھا کہ ہیپی دس دن کے اندر اندر مر جائےگا مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ چودہ دن زندہ رہا، کیونکہ کوئی بھی چیز سو فیصد نہیں ہوتی۔ Nothing is one hundred percent۔ چودھویں دن جب نوید بھائی شام کو اپنا آخری ٹیکہ پیٹ میں لگواکے گھر پہنچے ہی تھے تو اسماعیل بھاگتا ہوا آیا۔

    ’’ہیپی مر رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تمھیں کیسے پتہ ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔

    ’’بس، لگ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ہم تینوں بھاگے بھاگے پچھلے لان میں گئے جہاں ہیپی کیاری میں لیٹا تھا۔

    ’’دو رہنا۔ قریب مت جانا۔‘‘ ا می نے پیچھے سے یوں آواز دی جیسے ہیپی کی روح کے ساتھ rabies کے جراثیم بھی اس کے جسم سے باہر نکل آئیں گے اور ہو سکتا ہے باہرنکل کے ہمیں چمٹ جائیں۔

    ہیپی زور زور سے موٹے موٹے سانس لے رہا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا جسم کانپ اٹھتا تھا۔ ہم کھڑے اسے دیکھتے رہے۔

    ’’جان نکل رہی ہے۔‘‘ اسماعیل نے سرگوشی کی۔

    مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کروں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اپنے منہ کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ انگلیوں کے بیچ میں سے میں نے دیکھا کہ نوید بھائی ہیپی کے سر پہ بیچارگی سے ہاتھ پھیر رہے تھے۔ یکایک ہیپی نے جنبش کی۔ اسماعیل جلدی سے آگے بڑھا اور اس نے نوید بھائی کو پیچھے کھینچا۔ میں نے اسی طرح انگلیوں کے بیچ میں سے دیکھا کہ ہیپی نے لیٹے لیٹے اپنا سر اٹھایا، اس کی گردن اکڑی اور منہ کھل گیا۔ کھلے منہ سے سبز رنگ کا گاڑھا سا کچھ لعاب نکلا۔ پھر ہیپی ساکت ہو گیا اور اس کا سانس چلنا بند ہو گیا۔

    ’’ جان نکل گئی۔‘‘ اسماعیل نے سرگوشی کی۔

    ۔۔۔۔۔۔

    رات کھانے پر شروع میں کچھ خاموشی رہی۔ مجھ سے کھانا نہ کھایا گیا۔ اس کی وجہ کچھ تو غم تھا اور کچھ وہ سبز لعاب جو رہ رہ کے میرے تصور میں آ رہا تھا۔ وہ بڑا ہی غلیظ سا سبز لعاب تھا اور اس میں یقیناً rabies کے بہت سے جراثیم موجود تھے۔ کچھ عرصے بعد جب ایک ڈراؤنی فلم سینماگھروں میں نمائش پذیر ہوئی تو اس میں بھی میں نے ویسا ہی سبز لعاب دیکھا۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کسی بچی کے اندر ایک جن آن گھستا ہے جو ایک پادری کے بار بار دھمکانے پر بھی کہتا ہے کہ میں اس بچی کے اندر سے نہیں نکلوں گا اور ہمیشہ یہیں رہوں گا۔ پادری طرح طرح کے مذہبی اور نیم مذہبی نسخے آزماتا ہے مگر وہ بہادر جن ٹس سے مس نہیں ہوتا اور اس کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا عزم اٹل ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ پادری تم جو کچھ بھی کرلو، حضرت عیسیٰ ؑ کا واسطہ دو یا حضرت موسیٰ ؑکا، مقدس پانی کے نشتر برساؤ یا انجیل میں سے چن چن کے میرے خلاف لکھی باتوں کی تلاوت کرو، میں نہیں نکلوں گا۔ تب، جب پادری منہ ہی منہ میں کچھ آسمانی باتیں بڑبڑا بڑبڑا کے اسے مقدس الفاظ اور انجیلی دعائیں پڑھ کے مزید کچوکے لگاتا ہے تو جن جواب میں کچھ ایسا بندوبست کرتا ہے کہ لڑکی کے منہ سے ایک سبز رنگ کا لعاب نکل کے پچکاری کی صورت میں پادری کے منہ پہ آ ن پڑتا ہے۔ کچھ ایسی جناتی طاقت سے کہ پادری لڑکھڑا جاتا ہے اور اس کے اوسان خطاء ہو جاتے ہیں۔ دونوں لعابوں میں، جن والے اور ہیپی والے میں، فرق اتنا تھا کہ ہیپی کا لعاب آہستہ آہستہ اس کے منہ سے بہا تھا، جیسے جیسے جان نکلی تھی شاید، جبکہ جن نے جو لعاب لڑکی کے منہ سے برآمد کرکے دکھایا تھا وہ جناتی طاقت کی وجہ سے تیزی سے پچکاری کی صورت آن کے پادری کے منہ پہ گرا تھا اور پادری جو اپنی طرف سے جن کو نکال باہر کرنے آیا تھا اس کی سٹی گم ہو گئی تھی اور ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔

    کھانا کھاتے کھاتے جب بھی مجھے ہیپی والے لعاب کا خیال آتا میرا منہ چلنا رک جاتا اور میں نوالہ چبانا بند کر دیتا۔ نوید بھائی خاموشی سے منہ چلا رہے تھے مگر آہستہ آہستہ۔ امی تو خوش لگ ہی رہی تھیں مگر میرا خیال ہے کہ ابا کو بھی ہیپی کی موت سے کوئی خاص فرق نہ پڑا تھا اور وہ شاید صرف میرے اور نوید بھائی کے غم کے احترام میں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ میں نے جب ایک یا دو دفعہ ابا کی طرف دیکھا تو اس بات پر حیران ہوا کہ ابا امی کو دیکھ کر مسکرائے اور آنکھ سے ہماری طرف اشارہ کیا۔ جیسے وہ یہ بات بہت مضحکہ خیز سمجھتے ہوں کہ ہمیں، یعنی مجھے اور نوید بھائی کو ہیپی کے مرنے پر غم تھا اور یہ کہ اس غم کی وجہ سے ہم کچھ خاموش تھے اور کھانے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ اسماعیل بار بار باورچی خانے سے آتا اور گرم روٹی میز پر دے کر جاتا۔ جب امی نے کھانے میں ہماری دلچسپی کے فقدان کو دیکھا تو انھوں نے اسماعیل سے کہا کہ وہ ہمارے لیے روٹیاں پکانی بند کر دے اور بس اپنے لیے پکا لے مگر اسماعیل نے کہا کہ اسے بھوک نہیں ہے۔ جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو میں نے اس کی طرف دیکھا اور نوید بھائی نے بھی۔اس نے بھی ہماری طرف دیکھا اور ایک لمحے کے توقف کے بعد پوچھا:

    ’’جنازہ کب کریں گے نوید صاحب؟ ‘‘

    یہ سنتے ہی ابا اور امی کے منہ سے ہنسی کے فوارے چھوٹ پڑے۔

    میں، نوید بھائی اور اسماعیل، ششدر رہ گئے۔ گھر میں ایک موت واقع ہوئی تھی۔ ہمارے پیارے ہیپی کی موت جو اتنا عرصہ ہمارے پاس رہا تھا۔ اس میں ہنسی کی کون سی بات تھی؟ ٹھیک ہے، امی کو ہیپی ناپسند تھا، پھر بھی، ایسے اس کے مرنے پہ ہنسنا کیا ضروری تھا؟ اور ابا؟ وہ کیوں ہنس رہے تھے؟ انھیں تو ہیپی ناپسند نہیں تھا۔

    امی نے آدھا ہنستے ہوئے آدھا جھڑکتے ہوئے اسماعیل سے کہا کہ جنازہ انسانوں کا ہوتا ہے، جانوروں کا نہیں اس لیے وہ فضول باتیں نہ کرے۔ میں نے نوید بھائی کی طرف دیکھا کہ وہ شاید کچھ بولیں مگر وہ چپ چاپ نوالہ چباتے رہے۔ شاید وہ ایسا معلوم نہ ہونے دینا چاہتے تھے کہ انھیں یہ باتیں، یہ بڑوں والی باتیں، جیسا کہ یہ کہ جنازہ صرف انسانوں کا ہوتا ہے، معلوم نہیں تھیں۔ شاید وہ اس لیے چپ رہے کہ کہیں امی اور ابا ان پر بھی ہنسنے نہ لگیں جبکہ تھوڑی دیر پہلے وہ بھی امی اور ابا کی جانب اتنی ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے جتنی کہ میں اور اسماعیل۔ ہمت کرکے میں نے کہا کہ جنازہ ہوگا اور کل ہوگا۔ دوپہر کو اور ہیپی کو ہم پیچھے لان میں دفن کریں گے۔وہاں اس کی قبر بنائیں گے اور اس پہ اگر بتی لگائیں گے۔ اب امی بہت غضبناک ہو گئیں۔

    ’’خبردار۔‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’ ایسی کوئی حرکت کرنے کا نہ سوچنا۔ صبح گریس اور مالی جاکے کتے کو دور پھینک آئیں گے۔ چائنہ بستی کے پاس‘‘۔

    اب میرے لیے برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ میری آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے اور میں رونے لگا۔

    ’’میں کروں گا اس کا جنازہ۔ کروں گا کروں گا کروں گا۔ روک کے دکھائیں۔‘‘

    ایسے، یہ کچھ کہتے ہوئے میں اٹھا اور دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

    ’’میں ہاتھ توڑ دوں گی۔ خبردار کسی نے ایسی کوئی حرکت کی۔۔ـ’‘امی نے آواز دے کر کہا۔

    میں اپنے کمرے میں بیٹھا رونے لگا۔تھوڑی دیر بعد نوید بھائی اندر آئے۔ وہ میرے پاس کھڑے مجھے روتا دیکھتے رہے اور پھر کہنے لگے کہ گھر میں تو انسانوں کو بھی دفن نہیں کرتے تو پھر ہم ہیپی کو کیسے دفن کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ انسانوں کے لیے بہت بڑے بڑے اور عالیشان قبرستان موجود ہیں جن میں وہ دفن ہوتے ہیں۔

    ’’کتوں کے لیے بنایا ہے کوئی قبرستان ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ٹھیک کہہ رہے ہو۔نہیں بنایا‘‘۔ انھوں نے کہا۔

    ’’یہ چائنہ بستی میں کیوں کہہ رہی ہیں؟ وہاں کیوں پھینکنے کا کہہ رہی ہیں؟‘‘

    ’’کون؟ امی؟ چائنہ بستی کے پاس کہا ہے انھوں نے۔‘‘

    ’’کیوں؟ چائنہ بستی کے پاس کیوں؟ باہر ہمارے گھر کے پاس کیوں نہیں؟‘‘

    ’’چائنہ بستی والے کہیں دفن کر دیں گے نا۔ یا دور پھینک آئیں گے۔‘‘

    ’’وہ کیوں کریں گے؟ کیوں کہ وہ جمعدار ہیںـ؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ انھیں آتا ہے نہ یہ کام۔‘‘

    ’’کتوں کی لاشیں ٹھکانے لگانے کا کام؟ وہ تو کرسچن ہیں۔ کرسچن تو بہت پیار کرتے ہیں اپنے پالتو کتے بلیوں سے۔‘‘

    ’’کرسچن بہت پیار کرتے ہیں؟ یہ کیسے پتا چلا؟‘‘ نوید بھائی نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’انگریز لوگ کرسچن ہوتے ہیں۔ فلموں میں آپ نے دیکھا نہیں کیسے اپنے کتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں؟ کتے ان کے منہ تک چاٹ لیتے ہیں اور ہیپی نے ایک بار آپ کا منہ چاٹا تھا تو امی کیسے چیخ پڑی تھیں۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘ نوید بھائی نے کہا۔ ’’لگتا ہے اصل بات انگریز ہونے کی ہے۔ کرسچن ہونے کی نہیںـ‘‘

    ’’شاید۔ لیکن دیکھیں نہ کہ ڈاکٹر والٹر بھی جانوروں کے ڈاکٹر ہیں۔ یعنی انھوں نے بھی یہی بات پسند کی کہ جانوروں کا علاج کریں۔ انسا نوں کا نہیں۔‘‘

    نوید بھائی یہ سن کر ہلکا سا ہنسے۔

    ’’آپ ہنس رہے ہیں؟ ایسے موقع پر آپ ہنس رہے ہیں؟ یہ لوگ بھی ہنس رہے تھے۔ ہیپی ان کا کچھ نہیں لگتا تھا؟؟؟‘‘

    ’’یہ لوگ ؟‘‘

    ’’آپ کی امی اور ابا۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔ نوید بھائی مسکرائے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ صبح فیصلہ کریں گے کہ ہیپی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ آج رات اسے وہیں کیاری میں پڑا رہنے دیتے ہیں اور اوپر کپڑا ڈال دیتے ہیں۔ یہ سن کے مجھے جھرجھری سی آئی کہ ہیپی کا مردہ رات بھر باہر لان میں پڑا رہےگا مگر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔

    صبح سکول کا دن تھا اس لیے ہیپی کی آخری رسوم پر غور اور بحث کرنے کے لیے کوئی زیادہ وقت دستیاب نہیں تھا۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم معاملہ تھا۔ مگر امی اور ابا اور یہاں تک کہ نوید بھائی بھی، صبح یوں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ جیسے اب مزید اس معاملے میں کچھ خاص رہ نہیں گیاتھا۔ مجھے حیرت تھی کہ نوید بھائی میرے مطالبات سے یہ کیسی چشم پوشی کر رہے تھے جبکہ وہ ایسے نہیں تھے اور رات کو کتنے شیروشکر اور صلح جو رہے تھے میرے ساتھ اس معاملے پر۔

    میں ناشتہ کرتا جاتا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھ کے باہر جا جاکے دیکھتا تھا کہ مالی آیا یا نہیں۔ امی اور ابا نے مجھے کہا کہ جلدی تیار ہو جاؤں اور دیر نہ کروں میں نے کہا کہ پہلے بتائیں کہ ہیپی کا کیا کرنا ہے۔

    ’’کیا مطلب کیا کرنا ہے؟‘‘ امی نے کہا۔

    ’’جنازہ وغیرہ۔ کفن دفن۔‘‘

    ’’بس اب یہ فضول باتیں بند کرو، کتے بلیوں کے جنازے اور کفن دفن نہیں ہوتے۔ بہت ہو گیا مذاق۔‘‘

    ’’مذاق؟ مذاق؟‘‘ میں چیخا۔ ’’کسی کا مرنا مذاق ہے؟ آپ لوگ انسان ہیں یا۔۔۔ یا۔۔۔‘‘

    ’’یا کیا؟‘‘ امی نے غصے سے پوچھا۔

    ’’یا۔۔۔یا۔۔۔‘‘ میں یا۔یا کہتا ہوا ذرا پیچھے ہٹا۔’’ یا کتے!‘‘ میں نے کہا، جو ہمارے گھر میں ایک بڑی گالی سمجھی جاتی تھی اور یہ کہہ کر باہر بھاگا۔ لیکن ’’کتے‘‘ میں نے نوید بھائی کو دیکھ کے کہا تھا جو انڈا کھا رہے تھے کیونکہ ایک تو مجھے ان پر غصہ تھا کہ کیوں میری حمایت میں کچھ بول نہیں رہے تھے اور دوسرا اس لیے کہ ان کو گالی دینا امی ابا کو گالی دینے سے کم تر جرم تھا۔

    امی میرے پیچھے لپکیں۔ میں تیزی سے باورچی خانے کے دروازے سے پیچھے لان میں نکل گیا۔ غیرشعوری طور پر میں اس کیاری کی طرف بھاگا جس میں رات کو پیارے ہیپی کا مردہ ہم نے چھوڑا تھا لیکن جونہی میری نظر اس جگہ پڑی جہاں پیارے ہیپی کے مردے کو اس وقت بھی ہونا چاہیے تھا، میرے پاؤں جم گئے۔ ہیپی کا مردہ غائب تھا۔ نہ جنازہ ہوا نہ کفن دفن اور ہیپی کا مردہ غائب تھا۔ کیسے غائب ہوا ہمارے پیارے ہیپی کا بےجان جسم؟

    میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ امی نے میرا کان پکڑا اور اسے زور سے مروڑا۔ ’’اندر آؤ ذرا۔ بدتمیز۔ گالیاں دیتے ہو؟ بےشرم‘‘۔

    امی کان پکڑے پکڑے مجھے اندر لے جانے کے لیے مڑیں تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے مالی اور گریس آ رہے تھے۔ مالی کے ہاتھ میں ایک رسی تھی۔

    ’’پھینک آئے ہو؟‘‘ امی نے پوچھا۔

    ’’جی بیگم صاحب۔ سٹ آئے آں ہیپی نوں۔‘‘ مالی بولا۔ (1)

    ’’یہ رسی کیوں لے آئے ہو مالی؟ تمہارا دماغ خراب ہے؟ پھینکو اس گندی رسی کو۔‘‘

    کمینہ مالی کھسیانی ہنسی ہنسا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے ہمارے لان میں کوڑے کا کوئی ڈھیر ڈھونڈ رہا ہو جس پر رسی پھینک دے۔ پھر جب امی میری طرف متوجہ ہوئیں تو اس نے رسی جیب میں اڑس لی۔

    میں زور زور سے رونا شروع ہو گیا۔ کچن کے دروازے کے باہر اسماعیل اور نوید بھائی کھڑے تھے۔ اسماعیل کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ میں روتا گیا اور اونچا اونچا کہتا گیا ’’دھوکے باز۔جھوٹے لوگ۔ دھوکے باز۔ ظالم لوگ۔‘‘

    ’’چپ!‘‘ امی نے کہا۔ رونے کا یہ فائدہ ہوا کہ امی نے مجھے مارا نہیں۔ کان سے پکڑ کے اندر لے گئیں اور پھر چھوڑ دیا۔ میں روتے روتے سکول کے لیے تیار ہونے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    اس دن دوپہر کو سکول سے آکر کھانے کے بعد میں مظہر اور طلعت سے ملنے گیا اور انھیں اس افسوسناک واقعہ کے بارے میں بتایا۔ مظہر کو ہیپی ہمیشہ ناپسند رہا تھا اس لیے اس نے کسی افسوس کا اظہار نہ کیا مگر یہ کہا کہ ہیپی کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے۔

    ’’پوسٹمارٹم؟‘‘

    ’’ہاں۔ جب بھی کوئی مرے، پوسٹ مارٹم ضروری ہوتا ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بس ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تمھیں کیسے پتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’بلیک ہینڈ نے بتایا ہے۔‘‘ اس نے حسب معمول اس خطرناک غیبی طاقت کا حوالہ دیا جو اسے اکثر کائنات کے پوشیدہ راز بتاتی رہتی تھی اور جس کا ذکر کر کرکے وہ ہمیں ڈراتا رہتا تھا اور ہم پہ رعب جماتا تھا۔

    ’’بلیک ہینڈ سے کہو مجھے خود بتائے یہ بات،‘‘ میں نے کہا۔ ’’کہاں ہے بلیک ہینڈ؟ بلاؤ اسے۔‘‘

    ’’کیسے کرنا ہوتا ہے پوسٹمارٹم؟‘‘ طلعت نے گھبرا کے پوچھا کیونکہ وہ ڈر گیا تھا کہ میرے گستاخانہ کلام سے کہیں بلیک ہینڈ ناراض نہ ہو جائے۔

    ’’بتاؤں گا۔ ابھی پہلے چلو وہاں جہاں ہیپی پڑا ہوا ہے۔‘‘ مظہر بولا۔

    میں نے مزید مزاحمت نہ کی۔ یہ سوچ کر کے چلو، جنازہ، کفن دفن نہ سہی، کوئی، کسی قسم کی رسم تو ہوگی پیارے ہیپی کی وفات پر۔ پوسٹ مارٹم میں کیا خرابی ہے؟ وہی سہی۔

    مجھے بس اندازہ ہی تھا کہ ہیپی کہاں پڑا ہوگا۔ چائنہ بستی کے پاس کسی کوڑے کے ڈھیر پر۔ زیادہ مشکل نہیں پڑی اور وہ کوڑے کا ڈھیر جلد ہی مل گیا، چائنہ بستی کے آخری سرے پر، گریس کے گھر کے بالکل پاس۔ ظاہر ہے کہ گریس نے جان بوجھ کے ہیپی کو وہاں رکھوایا تھا تاکہ شام کو کام سے واپس آکر وہ اس کی لاش قبضے میں کر سکے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ اس لاش سے کیا چاہتی تھی مگر مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا میں بہت سے لوگ جانوروں کے مختلف اعضاء سے بہت سے کام لیتے ہیں۔ ریچھ کے پنجے، گینڈے کے سینگ، ہاتھی کے دانت۔ کتوں کے کن حصوں کو لوگ استعمال کرتے ہیں اور کن چیزوں میں استعمال کرتے ہیں، یہ میں نہیں جانتا تھا۔ ہوں گے کوئی۔ دم ہوگی۔ یا کان۔ یا اور کچھ۔ تبھی توگریس نے ہیپی کو وہاں عین اپنے گھر کے نزدیک کوڑے کے ڈھیر پہ پھینکوایا تھا۔

    کوڑے کے ڈھیر پہ ہیپی کے اوپر، خاص کر اس کے کھلے منہ کے اوپر، مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ عام مکھیاں بھی اور بڑی بڑی اونچی آواز سے بھنبھنانے والی موٹی مکھیاں بھی۔ جیسی بو مرے ہوئے جانوروں سے آتی ہے، ویسی ابھی وہاں سے آنی شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ سردیوں کے دن تھے اور ہیپی کو مرے ہوئے بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور اس کا جسم ابھی گلا سڑا نہیں تھا۔ البتہ کوڑے کے ڈھیر میں سے کوڑے کی اپنی، گیلی گیلی، بھاری سی بو بھاپ کی طرح اٹھ رہی تھی۔

    ’’چچ چچ۔‘‘ مظہر نے کہا۔ ’’بیچارہ۔ آنکھیں بھی کھلی ہیں۔‘‘

    ’’وہ تو انسانوں کی بھی اکثر کھلی رہ جاتی ہیں اور ہاتھ سے بند کرنی پڑتی ہیں۔‘‘ میں نے تنک کر کہا کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ مظہر کی اس بات میں ہیپی کے لیے حقارت تھی اور مجھے ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی کہ ہیپی کو انسانوں سے یا کسی اور مخلوق سے کم تر درجہ دیا جائے۔

    ’’ہو سکتا ہے کہ بلیک ہینڈ کی بھی کھلی رہ جائیں۔ جب وہ مرے۔‘‘ میں نے مظہر کو کچوکا دیا۔

    ’’بلیک ہینڈ کبھی نہیں مر سکتا۔‘‘ مظہرنے غصے سے کہا۔

    ’’کریں پوسٹ مارٹم ؟‘‘ ڈر پوک طلعت نے فوراً دخل دے کے بات بدلی۔

    ’’ٹھہرو ذرا۔‘‘ مظہر نے کہا۔ اس نے ہیپی کی دم کو ہاتھ سے ہلایا۔

    ’’اف گندا۔‘‘ طلعت نے سرگوشی میں کہا۔ ‘‘ہاتھ لگا رہا ہے۔‘‘

    یہ بات مجھے بھی کچھ ٹھیک نہ لگی۔

    ’’ہاتھ تو نہ لگاؤ۔‘‘ میں نے کہا۔

    مظہر نے ہماری طرف کچھ توجہ نہ کی اور غور سے ہیپی کو دیکھتا رہا، جیسے اس کی لاش دیکھنے میں اسے بہت لطف آ رہا ہو۔

    ’’ہوتا کیا ہے پوسٹ مارٹم؟ کیسے کروگے۔‘‘ میں نے جھنجھلا کے کہا۔

    مظہر نے ہمیں ہاتھ سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور سیدھا کھڑے ہوکر آنکھیں بند کر لیں۔

    یعنی وہ بلیک ہینڈ سے باتیں کرنے لگا۔ جب بھی وہ بلیک ہینڈ سے باتیں کرتا تھا کچھ اسی طرح خاموش ہوکر آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ ہم کھڑے اسے دیکھتے رہے۔ کچھ لمحے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور ہیپی کی لاش کے گرد، یعنی اس کوڑے کے ڈھیر کے گرد آہستہ آہستہ چل کے ایک چکر لگایا۔ پھر اس نے ایک بار اور ہیپی کی دم کو ہلایا اور اس کے ایک کان کو پکڑ کے تھوڑا سا کھینچا۔

    ’’چلو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’چلیں۔‘‘

    ’’پوسٹ مارٹم نہیں کرنا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہو گیا ہے۔‘‘ مظہر نے کہا۔

    ’’ایسے ہوتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’بس؟‘‘

    ’’کتوں کا ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ مظہر نے کہا۔

    ’’اور انسانوں کا؟ اور دوسرے جانوروں کا؟ ٹائیگر کا؟ یا اونٹ کا؟‘‘

    ’’وہ اور طریقے سے ہوتا ہے۔ اس میں چھری سے پیٹ پھاڑنا پڑتا ہے۔‘‘ مظہر نے جھنجھلا کے کہا۔’’چلو اب‘‘۔

    میں چلانے لگا کہ یہ جھوٹ ہے اور الزام لگایا کہ وہ پوسٹ مارٹم کے بہانے مجھے استعمال کرکے ہیپی تک لے آیا ہے تاکہ اس کی لاش کے ساتھ یہ عجیب سا کھیل کھیل سکے اور یہ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے کہ کتوں کا پوسٹ مارٹم ایسے ہوتا ہے کہ ان کی دم کو ہلایا جائے اور ان کی لاش کے گرد چکر لگایا جائے۔ گو کہ یہ سن کر کے انسانوں اور دوسرے جانوروں کے پوسٹ مارٹم میں پیٹ پھاڑنا پڑتا ہے مجھے یہ حسرت نہیں رہی تھی کہ پیارے ہیپی کا پوسٹ مارٹم بھی ویسے ہی کیا جائے مگر پھر بھی میں اس بات سے بہر حال مایوس تھا کہ ہیپی کے پوسٹ مارٹم کی رسم بس اتنی سی ہو جتنی کہ مظہرنے ابھی کرکے دکھائی تھی۔

    ’’چلو یہاں سے۔ کتوں کے پوسٹ مارٹم کا یہی طریقہ ہے۔ مجھے بلیک ہینڈ نے بتایا ہے۔‘‘ مظہر نے پھر کہا۔

    ’’چل چل چلیں اب۔‘‘ طلعت نے جلدی سے کہا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    گھر پہ سب بالکل معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ امی ابا آرام کر رہے تھے اور نوید بھائی باہر اپنے دوستوں کے ساتھ مزے کرنے گئے ہوئے تھے۔ صرف اسماعیل ابھی تک غمگین تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ہیپی کی لاش دیکھ کر آیا ہوں اور یہ بھی کہ مجھے شک ہے کہ گریس اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے استعمال میں لائےگی۔ اسماعیل نے کہا کہ ہاں، ایسے مردہ جانوروں کو بہت سے لوگ جادو ٹونے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ گریس کے بھی یہی ارادے ہوں۔

    ’’کتی‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ شرم نہیں آتی۔ عیسائی تو جانوروں سے پیار کرتے ہیں۔‘‘

    اگلی صبح جب میں سکول کے لیے تیار ہو کے باہر نکلا تو مالی کیاریوں میں گوڈی کر رہا تھا۔ یہ آدمی کل گریس کی مدد سے پیارے ہیپی کی لاش کی ٹانگیں رسی سے باندھ کر اسے کول تار کی گندی سڑک پر گھسیٹتا ہوا لے گیا تھا اور چائنہ بستی کے پاس اسے ایک کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک آیا تھا۔ گریس کے گھر کے نزدیک، جو اب ہیپی کی دم یا پنجے پکا کے کھانے والی تھی یا ان سے کوئی خوفناک جادو تیار کرنے والی تھی۔ مالی نے میری طرف دیکھا اور اپنے بڑے بڑے پیلے دانت نکالے۔ میرا دل چاہاکہ اس کے منہ میں وہی سبز لعاب بھر دوں جو ہیپی کے منہ سے نکلا تھا۔

    ’’مالی، اللہ کرے تو بھی مر جائے۔‘‘ میں نے زور سے چیخ کر کہا اور سکول جانے کے لیے گیٹ کی طرف بھاگا۔ مگر یہ کافی نہیں تھا۔ میری تسلی نہیں ہوئی تھی۔ میں گیٹ سے باہر جانے سے پہلے رکا اور مڑ کر دوبارہ چلایا:

    ’’اور جب تو مرےگا تو میں خود پیٹ پھاڑ کے تیرا پوسٹ مارٹم کروں گا۔‘‘

    حواشی:

    جی بیگم صاحب، پھینک آئے ہیں ہیپی کو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے