بالکنی میں کھڑے ہونے کے بعد جب میں نے اوپر نظر اٹھائی تو راکھ کے رنگ کے آسمان کو دیکھتے ہی طبیعت بجھ سی گئی۔ اُداسیاں پھن پھیلائے میرے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔ مجھے خود کو ان ناگنوں کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔ زندگی ٹھہر تو نہیں گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ راکھ کے رنگ کا آسمان دیکھنے کی میں عادی نہیں ہوں، مجھے تو عادت ہی ایسے آسمان تلے جینے کی ہے۔ دہائی بھر سے اوپر ہو گیا اب تو۔بس کبھی کبھی کچھ دنوں کی چھٹیاں منانے کا موقع مل جائے یا کسی کانفرنس یا سمینار میں کہیں شہر سے باہر جانا ہو تو بات دوسری ہے۔ جب آسمان کا اصلی رنگ نظر آتا ہے۔ نیلا، فیروزی یا کپاس کے پھولوں ایسا سپید۔ یا کالے گھنے گھنے بادلوں سے ڈھکا ہوا، جھانکتا، چھپتا۔
ایسا ہی ایک اسٹڈی ویک اٹینڈ کر کے لوٹی تھی میں صبح ایک پہاڑی مقام سے۔ بلکہ ایک حسین ترین پہاڑی علاقے سے۔ کوئی چھ دن بعد۔
رات ٹرین کے آرام دہ کمپارٹمنٹ میں سوئی رہی۔ مگر شاید تین یا ساڑھے تین گھنٹے۔ حالانکہ میرے پاس سونے کے لیے پورے آٹھ گھنٹے تھے۔ مگر نیند نہیں آ رہی تھی۔ مجھے پہاڑ پر گزری ہوئی شاموں کا خیال آ رہا تھا۔ یہاں ایسی یکسوئی سے شام گزارنا ممکن ہوتا تو یہ اداسیاں میرے ارد گرد۔۔۔ اس طرح۔۔۔
جب میں پہاڑ پر پہنچی تو صبحِ کاذب کے چہرے سے سیاہ نقاب سرکنے والی تھی، ہوا میں خنکی تھی اور خنکی میں رچی نمی نے یہ احساس دلایا کہ آس پاس ہی کہیں صبح منتظر کھڑی ہے۔ اس بار میرے ساتھ کئی چیزیں پہلی بار ہوئی تھیں۔ میری نیند گہری نہیں ہوتی مگر چونکہ پہلی بار شب کا سفر کیا تھا اس لیے گھڑی اتار دی تھی کہ شاید تکان کا مارے نیند گہری آئے اور کوئی چور وور۔۔۔
میں نے سفری بیگ کی زپ سے لگا ننھا سا تالا کھول کر گھڑی نکالی تو چار بجنے میں ۱۰ منٹ باقی تھے۔ یہ بھی پہلا موقع تھا کہ میں سحر کے وقت کسی پہاڑی مقام پر کمرے سے باہر تھی۔ یہ سفر بھی میرا پہلا تنہا سفر تھا۔ پہلی بار میں نے سحر کی بھیگی ہواؤں کی خوشبو محسوس کی تھی۔ نیند کی کمی سے بوجھل سلگتی آنکھوں میں ایسی ٹھنڈک پڑی جیسے یعقوبؑ کو یوسفؑ کا لباس چھو جانے سے۔ تھکن سے چور بدن میں تازگی کی لہر دوڑ گئی، جیسے آٹھ نو گھنٹے آرام کیا ہو۔ جی چاہا کہ سامان گیسٹ ہاؤس کے چوکیدار کے حوالے کر دوں اور خود وہیں اس مختصر سے زینے کے کنارے پر بیٹھ کر شبنم میں بھیگ بھیگ جاؤں۔ تو یہ ہوتا ہے سَحر کا سِحر۔ نئی زندگی جیسا، نئی روح ایسا۔
میں لمبے سانس لیتی ہوئی آسمان پر چمکتے ستاروں کو تکنے لگی۔ چوکیدار نے مجھے دیکھا تو خود ہی سامان اٹھا کر اندر کی طرف چل پڑا۔ اس کا اوجھل ہونا تھا کہ میں نے اپنے نرم گرم شال کو دُپٹے کی طرح گردن سے لگا کر شانوں کے پیچھے پھینکا اور باہیں آسمان کی طرف پھیلا کر ایک پاؤں پر ایک دائرہ ناچ لی، جیسے کہ آسمان سے ستارے ٹوٹ کر میرے ہاتھوں میں آیا چاہتے ہوں۔ ہوا سرد مگر فرحت بخش تھی۔ میرے ہونٹوں پر جانے کب سے ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اپنے اندر مجھے ایک غیر یقینی سی خوشی اور توانائی کا احساس ہوا تو مجھے خیال آیا کہ داناؤں نے اسی لیے نسیمِ سحر کی اس درجہ پذیرائی کی ہے اور اس مقام کی سحر۔۔۔ بات دو آتشہ ہو گئی۔ اگر صبح اتنی دلربا ہے تو شام کیسی جادو بھری ہوگی۔ جب طیور اپنے اپنے آشیانوں کی طرف پرواز کرتے ہوئے آپس میں چہلیں کرتے ہوں گے۔ میں کمرے کی بالکنی میں کرسی پر بیٹھ کر کافی کا گرم گرم مگ ہاتھوں میں تھامے انھیں دیکھوں گی اور ساتھ ساتھ حنا سے باتیں بھی۔
اوہ! میں تو بھول ہی گئی۔اس بار ایک اور نئی بات بھی ہوئی تھی۔ حنا میرے ساتھ نہیں تھی۔ اس کے بغیر میں زندگی بھر کبھی کہیں نہیں گئی۔ کبھی کبھی اپنی پرانی تصویریں دیکھا کرتی ہوں۔ چاند سے چہرے والی حنا کی گود میں ننھی سی، گل گوتھنا سی میں۔ رنگ برنگے پھولوں والا فراک پہنے ہوئے۔ دونوں ٹخنوں میں چھم چھم کرتی ہوئی، بےشمار گھنگھروؤں والی پازیبیں پہنے۔ یہ پازیبیں میں نے حنا کے جنم دن پر پہنائی تھیں اسے۔ ہاں یاد آیا۔ تصویر میں چاند سے چہرے والی وہ لڑکی حنا نہیں، میں ہوں اور میری گود میں حنا پائلیں پہنے ہوئے، حنا نے بولنا بہت جلد سیکھ لیا تھا اور چلنا بہت دیر سے۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ بہت ذہین ہوتے ہیں جلد بولنے والے بچے اور چلی تو وہ سال بھر سے کچھ اوپر ہو گئی جب ہی۔ پازیبیں پہنے ہوئے جب وہ گول نرم پاؤں اٹھا کر تھپ تھپ آوازیں پیدا کرتی ہوئی چلتی تو فضا میں ایک لطیف سا ترنم چھڑ جاتا۔ گھنگھریاں چھن چھن بجتیں اور دھپ کی آواز کے ساتھ ایک دم بند ہو جاتیں اور میں کان کلکاریوں پر لگا دیتی۔ بھاگ کر اسے گود میں اٹھا لیتی۔ وہ ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے دوسری آنکھ سے میری راہ دیکھتی ہوئی ناز بھری آواز میں پکار چھیڑ دیتی۔
ماریں گے۔ ماریں گے اس فرش کو ہم۔ ہمارے بچے کو چوٹ لگا دی۔؟ گرا دیا۔؟ بہت خراب بات ہے۔ بہت خراب۔ میں ایک پاؤں دوچار بار فرش پر پٹختی اور اس کی ایک آنکھ کے پاس بسیار محنت کے باوجود بھی نہ آیا ہوا آنسو جھوٹ موٹ پونچھ کر سینے سے لپٹائے اپنے پاس لے آتی۔ وہ اپنی منّی منّی باہیں میرے گلے سے لپٹائے رکھتی۔ میں لکھنے کی میز کے پاس آتی تو وہ میرے زانوں پر بیٹھی رہتی۔ میز کو زور زور سے تھپکتی، پھر پتہ نہیں کب گود سے اتر جاتی۔ وہ جب چاہے گود سے نکل جاتی تھی۔ چاہے میں کسی بھی زاویے سے اسے لیے رہوں۔ پکڑ کر کچھ کھلاؤں، دبوچے رکھوں مگر جانے کس طرح وہ بغیر روئے، شور مچائے، ہنستی ہوئی، اچانک مچھلی کی طرح۔۔۔ نہیں۔۔۔ مکھن کی ڈلی کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتی۔
وہ کبھی روتی نہیں تھی۔ میں گھنٹوں اسے اپنے ساتھ کبھی کہیں، کبھی کہیں بٹھائے رکھتی۔ ہال میں یوں بیٹھتی جیسے میں نہیں وہی ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں شریک ہونے آئی ہو۔ خاموش دیکھتی، سنتی ہوئی۔ میری مختصر سی دنیا کی تکمیل میں اس کے مزاج کا بھی ہاتھ تھا ورنہ عنظر سے علیحدگی کے بعد شاید میں بھی کچھ سوچتی۔ مگر میری اس دوست اور رفیق نے مجھے کبھی احساسِ تنہائی نہ ہونے دیا۔ہر حال میں میں نے اسے صبر و شکر کی تصویر پایا۔ میں اگر مصروف ہوں اور اس کے دودھ کا وقت ٹل رہا ہے تو وہ چپ چاپ شہادت کی انگلی منھ میں ڈالے ساکت لیٹی چھت کو تکا کرتی۔ میں آتی تو مسکرا دیتی۔
وقت کو ایک کام بہت اچھی طرح آتا ہے۔ پر لگا کر اڑنا۔ وقت میرے دیکھتے دیکھتے اڑ گیا۔
حنا کے ہاتھوں میں مہندی رچی۔ وہ چلی گئی۔ میری حنا مکھن کی ڈلی کی طرح ہاتھوں سے نکل گئی۔ میرے زندگی کے سارے رنگ ساتھ لے گئی اور میں ایک بار پھر Single Woman بن گئی۔ بلکہ ایک بار پھر یتیم ہو گئی۔
نظمی اچھا لڑکا ہے۔ کینیڈا میں ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر لڑکی کے لیے ڈاکٹر شوہر ہی موزوں رہتا ہے میرے خیال میں۔ سال بھر بعد واپس لوٹیں گے دونوں۔ پھر یہیں رہائش رہےگی۔ مجھے چار بیڈروم کے فلیٹ کا کیا کرنا ہے۔
مگر ابھی تو حنا کو گئے ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا۔
کیا جلدی تھی آپ کو میری شادی کی۔ میں ایم ڈی کر لیتی۔ وہ مہندی کی رات کو میرے گلے سے لپٹ کر لاڈلی سی آواز میں بولی تھی۔ گلے کی آمیزش کے ساتھ ہلکا ہلکا احتجاج لیے ہوئے۔
میں تو سمجھی تھی تم بہت خوش ہو اس رشتے سے۔ میں روہانسی ہو کر بولی تھی۔
دکھی بھی نہیں ہوں۔ مگر میں نے سوچا کہ آپ اتنی خواہش مند ہیں مجھے دلہن بنانے کی تو۔ اس نے میرے گلے سے باہیں الگ کر کے نیچے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اصل میں میں نے اسے نظمی کی Company میں بہت خوش دیکھا تھا۔ یا ایسا سمجھا تھا کہ جب وہ آتا تو خوب قہقہے لگتے۔ حنا باورچی خانے میں میرا ہاتھ بٹاتی۔ مجھے کھینچ کھینچ کر ڈرائنگ روم میں لے جاتی اور لطیفوں اور دلچسپ واقعات میں شریک کرتی۔ ہنستی ہنساتی رہتی۔
اور میں یہ سمجھی کہ۔۔۔ یہ سوچ کر کہ کہیں اس کی خوشیوں میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ میں نے جلدی میں رشتہ۔۔۔
رخصتی کے دن میں اسے کتنی باتیں کہنا اور سمجھانا چاہتی تھی مگر وہ الٹا مجھے ہی سمجھائے جا رہی تھی۔
سیما کے پارلر سے بال نا بنوائیےگا امی۔۔۔ وہیں جائیےگا حبیب کے ہاں۔۔۔ برباد کر دیتی ہے وہ آپ کے بال۔۔۔ اور ہاں امی یہ جنریٹر بدلوا دیجئےگا۔ میں کب سے کہہ رہی ہوں ۔ دیکھئے اس کی ڈوری آپ سے کھنچےگی نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ بازو دکھے گا تو لکھیں گی کیسے۔۔۔ رخسانہ کو کہیے گا کہ اپنے بیٹے کو یہیں لے آئے۔ گھر نہ جایا کرے شام کو۔ اب اس فلیٹ میں آپ اکیلی ہوں گی تو۔۔۔ وہ زور زور سے بولتی ہوئی اچانک خاموش ہو جاتی۔ مجھے سینے کے اندر سے دھپ کی آواز سنائی دیتی۔۔۔ پازیب کی جھنکار بند ہو جاتی تو میں اس کی طرف غور سے دیکھتی۔۔۔ وہ رندھی ہوئی آواز کو کامیابی سے قابو میں لاتی ہوئی کہتی۔۔۔ اب اکیلی ہیں تو۔۔۔ وہ جیسے کچھ نگلتی۔۔۔ تو یہ ٹانک لینا مت بھول جائیےگا۔ اس میں کیلشیم اور وٹامن کے ساتھ ساتھ بی کامپلیکس اور آئرن بھی ہے۔
افوہ۔۔۔ بتایا ہے نا تم نے مجھے کئی دفعہ میری اماں۔ میں مجروح سی آواز پر ہنسی کا بینڈایڈ (Bandaid) چپکا کر کہتی اور وہ اور میں دونوں ہنس دیتے۔ اور شادی میں آئے مہمان بھی۔ ہم دونوں کے علاوہ اپنی اپنی اور ایک دوسرے کی حالت کا اندازہ کسی کو نہ ہوتا۔
بچھڑتے وقت وہ زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑائی تھی۔ شاخِ گل سا سجا سنورا اس کا نازک سا وجود ہر ہچکی کے ساتھ ہچکولے کھاتا۔ میں اسے سنبھالنے کے بہانے خود طوفان کی زد میں آئی نیّا سی ڈولتی، لبوں تک آئے دم کو قابو میں رکھے،اسے وداع کر آئی اور جب سے۔ جب سے اب تک۔ نسیم سحر سے دوستی ہونے تک ماہی بے آب سی تڑپتی رہی۔ رخسانہ اپنے بچے کو لے کر ہمارے ہاں آ گئی ہے۔
حنا کے جانے کے بعد میں پہلی بار گھر سے نکلی ہوں ۔
ہوا تیز چلنے لگی تھی۔ ہاتھوں اور پیروں میں ٹھنڈ سی محسوس ہوئی تو میں نے گلے سے لپٹی شال پھیلا کر اوڑھ لی۔قریب ہی سے کوئی کوّا بول اٹھا۔لہراتی ہوا میں پھولوں کی مہک شامل ہو گئی تھی۔ میں نے دور نظر دوڑائی۔ پہاڑوں کے قریب آسمان کی سیاہی میں نیلاہٹ گھلا چاہتی تھی۔ سامنے ایک کشادہ باغیچہ تھا۔ میں نے کیاریوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک چکر کاٹا۔ میرے بال پھر کھل گئے تھے۔ چاہے کسی بھی انداز سے بناؤں میں انھیں مگر یہ اس قدر ملائم ہیں کہ جوڑا پھسل پھسل جاتا ہے۔مُوباف سے نکل آتے ہیں اور ہیئر پن ڈھیلا ہو کر گِر جاتا ہے۔ جبھی تو حنا نے انھیں ترشوا لیا تھا۔ اب کچھ بے ترتیبی سے بڑھے ہوئے تھے تو میں نے انھیں ربر بینڈ میں سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ مگر اس وقت پھر ربر سے کسی طرح پھسل کر۔۔۔ اگر حنا ہوتی تو سفر سے پہلے ضرور میرے بال سیٹ کروا لیتی۔
میں نے کمرا تو دیکھا ہی نہیں تھا۔مجھے اندر جانا ہوگا۔ اس منظر کو چھوڑ کر۔۔۔
فرحتِ دیدنِ گل آہ کہ بسیار کم ست
آرزوئے دلِ مرغانِ چمن بسیار ست
میں اندر جاتے ہی حنا کی تصویر میز پر سجا دوں گی۔ دن میں کئی کئی بار تو دیکھتی ہوں میں اس کی تصویر۔ اور کل رات سے میں نے اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے اندر جانا چاہیے۔
میں زینے کی طرف مڑی تو پیچھے سے مجھے کسی کے دوڑنے کی آہٹ سنائی دی۔ کوئی ہلکی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ اسپورٹس شوز اور ٹریک سوٹ میں۔ داڑھی سفید تھی اور سر کے لمبے سفید بال جُوڑے کی شکل میں سرکے اوپر ایک رومال میں بندھے ہوئے تھے۔ مگر انداز خاصا پھرتیلا تھا۔ میں نے قدم آگے بڑھایا تو آواز آئی۔
گڈ مارننگ۔ وہ مسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب تھے اور آواز میں سانس کا تیز اتار چڑھاؤ واضح تھا۔
گڈ مارننگ۔ میں نے جلدی سے کہا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ بدلتے موسموں کی مہربانی سے مجھے اس قدر محتاط رویے کو خیرباد کہہ دینا چاہیے تھا۔ مگر مجھ میں میں کم اور حنا زیادہ نظر آتی۔ لوگ کہتے تھے۔
اس لیے میں اس فطری احتیاط سے دامن نہ چھڑا سکی تھی۔۔۔
حنا کی میرے شانے پر رخسار رکھے کھنچی تصویر کو بوسہ دے کر میں نے کپڑے الماری میں ہینگروں پر لٹکا دیے۔ گرم پانی سے غسل کیا اور اس ذی الجلال مبین کو یاد کیا۔
ڈائننگ ہال میں خاصے لوگ تھے۔ ۴۰ اور ۷۰ کے آس پاس کے سِن کے۔ جیسے کہ اس طرح کے، یونیورسٹیوں کے بعد توسیعی تعلیم کے اداروں سے متعلق اشخاص ہوا کرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں سے شناسائی تھی۔ کچھ اجنبی تھے۔ ایک میز پر صبح والے سردار صاحب لطیفے سنا رہے تھے۔ ایک خاتون میری پہچان کی نظر آئیں ۔ جو ہال میں کئی لوگوں سے واقف نظر آ رہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی میرے پاس چلی آئیں ۔
نمسکار رِتو جی۔ سردار صاحب رِتو شریواستو سے مخاطب تھے۔
ارے آپ۔۔۔ کیسے ہیں ،آئیے نا۔ رِتو نے کرسی کھینچی۔
یہ فوزیہ سلیمان ہیں ۔بہت اچھی قلمکارہ۔۔۔ فوزیہ! یہ تبسم صاحب ہیں۔
رِتو نے مجھ سے کہاسریندر سنگھ تبسم۔
آداب محترمہ۔۔۔ میں نے شاید آپ کو صبح دیکھا تھا۔ تعلیمی ہفتے میں شرکت کے لیے تشریف لائی ہیں۔ زہے نصیب۔ وہ میری طرف دیکھ کر کرسی پر ہاتھ دھرے کھڑے رہے۔ میں نے بھی اٹھ کر تسلیم کیا۔
فوزیہ تم حیران ہو گی کہ سردار صاحب اور یہ نفیس اردو۔ آپ دراصل انگریزی کی پروفیسر شپ سے ریٹائر ہوئے ہیں، پنجابی میں کئی ناول تحریر کیے ہیں، اردو کے کچھ بڑے بڑے ناولوں کا ترجمہ کیا ہے۔رِتو نے کہا تو تبسّم صاحب نے فوراً بات کاٹی۔
رِتو جی کیا پورا بایو ڈاٹا ہی پیش کر دیں گی۔سردار صاحب خوش دلی سے ہنستے ہوئے بولے۔
اور کیا ہو رہا ہے آج کل سر۔رِتو نے پوچھا۔
پنجابی ادب کی تاریخ پر کتاب لکھ رہا ہوں۔ اب تو سال بھر سے یہیں ہوں۔ یہ کہہ کر وہ کچھ خاموش ہو گئے۔
جب ہم لوگ سمینار روم میں داخل ہو رہے تھے تو تبسّم صاحب مختلف لوگوں سے مل رہے تھے اور دوسروں سے بھی ملوا رہے تھے۔ جس کا ذکر کرتے، اس کی صدق دلی سے تعریف بھی کرتے۔ کسی کی چھوٹی سی خوبی کو بڑھا چڑھا کر سراہتے۔ اور ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر پُر خلوص سے تاثرات چھا جاتے۔
دن دلچسپ گزرا۔ تازہ ہوائیں۔ کام۔ پڑھے لکھے لوگ۔ مباحثے، ہلکا پھلکا لنچ۔۔۔ اور لنچ کے فوراً بعد مقررین کو سنتے ہوئے، سوچنے کے بہانے پل دو پل کی جھپکیاں لیتے ہوئے حاضرین۔
شام کو کمرے میں لوٹی۔ کچھ کتابوں کو دیکھا، کچھ مقالے کو بھالا۔ بالکنی میں آئی۔ غروبِ آفتاب کا بہترین منظر نظر آ رہا تھا۔ بھٹی میں تپے ہوے گھڑے ایسا قرمزی رنگ کا خورشید اپنی جسامت سے بڑا نظر آ رہا تھا۔ ایک پرندہ سورج کے کہیں قریب ہی چکر کاٹ رہا تھا۔ باقی پرندے ٹولیوں میں بٹے جیسے سورج کے آس پاس پرواز کر رہے تھے۔
حنا ذرا باہر تو آنا۔میں نے پلٹ کر حنا کر پکارنا چاہا۔ آواز زباں بنتے بنتے لوٹ گئی۔
کتنی خاموشی تھی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ لوگ شاید مارکیٹ کی طرف گئے ہوں گے۔
تبسّم صاحب کہیں سے آ رہے تھے۔ اسپورٹس شوز پہنے ہوئے۔ مگر اس وقت ان کی چال میں صبح والی چستی نہیں تھی۔ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں طرف پیڑوں اور سبزے کو دیکھتے ہوئے۔بیچ بیچ میں رک بھی جاتے۔ شاید کسی جھینگر پر غور کرنے کے لیے۔ ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی۔ جسے کبھی گھماتے اور کبھی عصا کی طرح ٹیکتے۔
بالکنی کے سامنے سے گزرے تو ہاتھ سے ویو کیا۔میں نے بھی جواب میں ہاتھ ہلایا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد جب میں لائبریری کی طرف جانے لگی تو تبسم صاحب سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ سر جھکائے ہوئے، جیسے کسی سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں ہوں ۔ کچھ غمزدہ سے بھی نظر آ رہے تھے۔ یا شاید طبیعت نا ساز ہو۔
آداب آداب۔ مجھے دیکھتے ہی بولے۔
آداب۔
چائے پی جائے؟اگر Freeہوں توں۔۔۔ آداب کہتے وقت ان کے چہرے پر رونق سی آ گئی تھی۔ چائے پینے کا خیال ظاہر کرتے وقت رونق ایک ٹھہری ہوئی سنجیدگی میں تبدیل ہو گئی تھی۔اور آخری جملہ کہتے ہوئے وہ اس قدر اداس نظر آنے لگے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ ہی دیر میں رونے والے ہوں۔
رِتو بازار گئی ہے۔ بس ذرا آ جائے تو۔ میں نے سڑک کی طرف دیکھ کر کہا۔
جب تک ہم ڈائیننگ ہال کی طرف چلتے ہیں؟ انھوں نے اس انداز سے کہا جیسے انھیں یقین ہو کہ میں ہال کی طرف جانے والی نہیں ہوں۔
آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ شام کو بس۔۔۔ انسان جیسے بیمار ساہو جاتا ہے یہاں۔ وہ کچھ ایسے بولے جیسے کوئی مہلک مرض چھپا رہے ہوں۔
دن میں خاصے ایکٹیو تھے آپ۔۔۔ اس وقت۔
نہیں تو۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔
آپ سیر کے بہت شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے انسان یہاں سیر نہ کرے تو پھر اور کہاں کرے۔۔۔ یہ تازہ ہوائیں۔۔۔ ہریالی۔
میں نے سوال کے ساتھ خود ہی جواب جوڑ دیا۔
جی ہاں۔۔۔ مگر اب سیر بھی کتنی کرے انسان۔۔۔ میں دراصل دیکھ رہا تھا کہ یہ سب لوگ۔۔۔ شاید کوئی مل جائے۔ باتیں واتیں ہوں، چائے ہو۔ ان کی آواز میں کرب سا اتر آیا تھا۔
حنا آج بےطرح یاد آ رہی تھی مجھے۔ وہ ساتھ ہوتی تو ہم دونوں اس لمبی سڑک پر ایک طویل چکر لگا آتے۔ بہت سی باتیں کرتے ہوئے۔ ان چار دنوں کو اور خوبصورت طرح سے گزرانے کے پروگرام بناتے ہوئے۔۔۔ مگر یہاں دور تک نیم انسانی صورتوں میں صرف سیاہ لنگور نظر آ رہے تھے۔ Study Week کے بڑے سے بینر پر ایک قُمری چونچ بھینچے، اپنے ننھے، بھورے رنگ کے مہین مہین پروں والے حلقوں کو جنبش دیتی ہوئی کُک۔ کُک کی صدائیں لگاتی ہوئی اپنے چھوٹے سے سرکو ہلا کر اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی جانے کسے پکار رہی تھی۔
اگر اس کا حلق پھولتا پچکتا نہیں تو اس کی بند چونچ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہرگز ممکن نہ تھا کہ یہ صدائیں وہی لگا رہی ہے۔ یہ آوازیں فضا میں کچھ اس طرح تحلیل ہوتیں جیسے کہیں دور سے سنائی دے رہی ہوں۔ سامنے ایک شخص چائے کے خالی برتن لے کر کسی کمرے سے نکل رہا تھا۔
دراصل یہاں۔۔۔ ان پہاڑوں پر شامیں اداس ہوا کرتی ہیں ۔ تبسم صاحب نے ڈوبی ڈوبی سی آواز میں کہا۔
ہاں ،واقعی۔ جانے یہ جملہ میں نے فوراً ہی کیوں کہہ دیا۔
آپ کو بھی محسوس ہوا نا۔۔۔ وہ انگلی میری طرف اٹھا کر بولے۔
شام گزارنا ایک مسئلہ ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔اور کہیں دور دیکھتے ہوئے چلنے لگے۔
دور سے رِتو کسی کے ساتھ آتی دکھائی دی تو میں بھی تبسّم صاحب کے ساتھ چلنے لگی۔
شام گزارنے کے لیے کوئی دلچسپ سا مشغلہ ڈھونڈ لیجیے نا۔ میں نے کہا۔
ہاں سوچا تھا۔ بلکہ دو مہینے پہلے جب آفریدی صاحب۔۔۔ تھے تو۔۔۔ سوشیالوجسٹ، آپ جانتی ہوں گی مشہور ماہر سماجیات ہیں۔۔۔ وہ اور میں بیڈ مینٹن کھیلا کرتے تھے ہر شام۔۔۔ وقت کیسے گزرتا پتہ ہی نہ چلتا۔ تبسم صاحب کے چہرے سے خوشی پھوٹنے لگی۔ مہینہ بھر خاصے پنکچول رہے ہم۔ کبھی کبھی سہ پہر بھی ساتھ گزرتی۔ مگر پھر وہ چلے گئے۔۔۔ ان کا چہرہ بجھ سا گیا۔ مگر دوسرے ہی پل لوگوں کو بازار سے لوٹتا دیکھ کر وہ کھل اٹھے۔
وہ دیکھئے آپ کی رِتو جی بھی آ رہی ہیں۔ یہ خاتون جو ان کے ساتھ ہیں یہاں فیلو ہیں ایک عرصے سے۔ بہت مصروف رہتی ہیں۔ آج مدت بعد نظر آ رہی ہیں یہ شام کے وقت۔ ورنہ بس لنچ ڈنر وغیرہ میں ۔ادھر دیکھئے کچھ ہمارے یا ر لوگ بھی آ رہے ہیں پیچھے پیچھے۔ آخری جملہ کہتے وقت ان کی آواز کی چہک نمایاں ہو گئی تھی۔
سبھی ساتھ ساتھ ڈائیننگ ہال پہنچے۔
یہ مسز ترویدی ہیں۔ رِتو نے کہا تومیں نے آداب کہا۔
رِتو کہتی ہے تم بہت اچھا لکھتی ہو۔ انھوں نے محبت اور اپنائیت سے کہا۔
بور تو نہیں ہوئیں نا یہاں۔ انھوں نے پوچھا۔
جی بس ذرا سا کسی وقت۔۔۔ رِتو بھی نہیں تھی نا۔۔۔ تو۔
رِتو۔۔۔ میرے کمرے میں آ گئی تھی۔ پھر ہم ذرا بازار کی طرف ہولیے۔ مجھے کچھ پھل وغیرہ خریدنے تھے اور اسے پتہ نہیں کیا کیا۔ مسز ترویدی ہنس دیں۔ وہ ایک دبلی پتلی جسامت کی پچھتر چھہتر کے سِن کے مشفق سی خاتون تھیں۔ صاف رنگ۔ گہری گہری آنکھیں۔ بال چند ایک کو چھوڑ کر سب سفید۔ چہرے پر لکیریں ہی لکیریں مگر باریک، جو جلد میں پڑی تھیں۔ گہری جھرّیاں نہیں۔ مسکراتیں تو بچوّں کی سی معصوم نظر آتیں اور بات کرتیں تو محبت کے سارے معنی سمجھ میں آنے لگتے۔
آپ تو کبھی بور نہیں ہوتیں میڈم۔۔۔! تبسّم صاحب سب کی طرف باری باری دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے۔ ان کا چہرہ خاصا بشاش نظر آ رہا تھا۔اس سوال میں مجھے بھی دلچسپی تھی۔
پہلے پہل جب شہر سے ایک دم یہاں آئی تو۔۔۔ خالی خالی سا لگتا۔ ادھر گھر میں بھی بچےّ اپنی اپنی دنیاؤں کے ہو گئے تھے۔ کچھ ایسا فرق بھی نہیں پڑا مگر پھر بھی یہ سکوت کہیں اندر سے خاموش سا کر دیتا۔ حالانکہ دن خاصی مصروفیات میں گزرا کرتا اور کرنے کو اور بھی بہت کچھ ہوتا۔ مگر پھر بھی ایک احساس تنہائی سارے وجود پر مسلّط رہتا۔ سمینار وغیرہ ہوتے تو چہل پہل ہوتی۔۔۔ مگر میں نے خود کو کبھی اداس نہیں ہونے دیا۔
پھر۔۔۔؟ تبسم صاحب ہمہ تن گوش تھے۔
بتاتی ہوں بھئی۔۔۔ وہ ہنس دیں۔ شفاف سا نپا تلا قہقہہ۔
اگر دیکھا جائے تو انسان ہمیشہ اپنا بار اٹھاتا پھرتا ہے۔ بچپن میں انجانے میں اور بڑا ہو کر دانستہ۔۔۔ کوئی بھی ساتھ چل پڑے تو وہ اپنے وجود کو خود ہی اہم سمجھنے لگتا ہ۔۔۔ بڑے بڑے الفاظ میں اسے موہ مایا وغیرہ کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ صاف الفاظ میں یہ دوسروں پر انحصار کرنے والی بات ہے، اور کچھ نہیں۔
مگر یہ بات دماغ کہاں قبول کرتا ہے میڈم۔ تبسم صاحب افسوسناک سے لہجے میں بولے۔
آپ کو تو کوشش کرنا چاہیے اور آپ اپنے ذہن کو تیار کر سکتے ہیں اس بات کے لیے۔ اصل میں ہم جس طرح رہنا چاہتے ہیں یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھ میں ہے۔
جیسے؟رِتو بولی۔
وہ اس طرح کہ جو ہمیں میسر ہے۔ ہم اس کے مطابق اپنی ضروریات وضع کر لیں۔ میں نے بھی ان باتوں کی معراج یہاں آ کر ہی حاصل کی۔
مگر میرے ساتھ الٹا ہوا ہے۔ میں یہاں آ کر۔۔۔ تبسم صاحب کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
میں یہ ہی تو کہہ رہی ہوں۔ میں بھی دن بھر کے کام کے بعد شام میں ایک لمبا چکر لگا آنے کے باوجود وقت کو منھ پھاڑے کھڑا دیکھتی اور رات کے کھانے تک کا وقفہ جب بھی طویل محسوس ہوتا۔ اب چونکہ لکھنے پڑھنے کے کام کا زیادہ حصہ میں رات میں کیا کرتی ہوں۔ اس لیے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ شام کیسے گزاروں۔
میری سمجھ میں آ گیا رِتو چٹکی بجا کر بولی کھیل کر یا کوئی میگزین دیکھ کر یا۔۔۔ یا پھر بازار گھوم کر۔۔۔
کھیلنے کے لیے بھی ساتھ چاہیے کسی کا۔۔۔ ہے نا۔۔۔ صبح سیر کر لیتی ہوں لمبی سی۔ پھر ذرا سی شام کو بھی۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ یہ وقت۔۔۔ اخبار رسالے وغیرہ میں ناشتے کے وقت کے آس پاس دیکھ لیا کرتی ہوں۔ وہ سمجھانے کے انداز میں ہاتھ میز سے ذرا سا اٹھا کر بولیں۔ ان کی سفید کالی مہین مہین لکیروں والی ساری ان کے بالوں سے نہایت پر وقار سے انداز میں میل کھا رہی تھی اور ان کی مسکراہٹ کا اسرار انھیں عجیب طرح کا تقدس بخش رہا تھا۔
عبادت کر کے۔ میرے منھ سے اچانک نکلا۔
سیانی ہے۔ مسز ترویدی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’عبادت صبح تو کرتی ہو گی۔۔۔ انھوں نے پوچھا ہر ایک کرتا ہو گا اپنے اپنے طور سے۔۔۔ کچھ نہ کچھ۔۔۔ ہے نا۔۔۔ انھوں نے باری باری سب کی طرف دیکھا۔
کچھ دیر ذرا گہرائی سے اس کا تصور کر کے دن شروع کرے انسان تو من پرسکون، شانت رہتا ہے۔ جیسے ہم نے ہر کام اس کو سونپ دیا ہو۔ وہ جوہر چیز پر قادر ہے۔۔۔ انھوں نے اوپر کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہا۔
ہمارے سوچنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ اداس ہو کر ہم دوسروں سے ذرا ذرا سا پیار اور اہمیت مانگ کر وقت گزارا بھی کریں تو تہی دامن ہی رہتے ہیں۔ خوشی کے لیے ہم دوسروں پر منحصر ہوں۔ اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی طرف سے بہتر کر سکیں۔ خود کے لیے۔۔۔ دوسروں کے لیے۔۔۔ چلیے دوسروں کے لیے بہتر نہ بھی کریں۔ مگر کسی کو تکلیف بھی نہ دیں۔۔۔ اور باقی اس پر چھوڑ دیں۔ اس کے ہو جائیں تو خوشی اندر سے، ہمارے دلوں سے پھوٹتی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا۔ صبح اُس کا ذکر کرتے ہیں۔ یا کبھی بھی کرتے ہوں۔ ذرا سا شام کو بھی دھیان کر لیں تو چوبیسوں گھنٹے سپھل ہو جاتے ہیں۔ جو وقت اذان کا ہوتا ہے، آرتی کا ہوتا ہے، ارداس کا پاٹھ کا، کچھ بھی کہہ لیجیے۔ جب سورج اپنا فرض نبھا چکتا ہے، رات اپنی حکمرانی پر آیا چاہتی ہے۔ ماحول میں شور بھی کم ہوتا ہے۔ کتنا حسین وقت ہوتا ہے وہ۔ اب اس کا ذکر آپ اگر شام کو بھی کرتے ہیں تو ذرا اور زیادہ وقت کے لیے کر لیا جائے۔ وقت بچا کر تنہائیوں کے سپرد کیوں کیا جائے۔ اس سے لو کیوں نہ لگائی جائے جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ پھر آپ وقت گزارنے کے بہانے نہیں ڈھونڈیں گے، وقت ہی آپ کا منتظر ہوگا۔ باہر کی منفی طاقتوں کو اپنے اندر کے سکون پر حملہ کرنے کی اجازت بھی کیوں دیں گے۔ اپنی اندر کی طاقت سے اسے پسپا کر دیجئے۔ ذرا سا باہر سے لوٹ کر اپنے اندر سمٹ آئیے۔ اپنے اور اس پرم شکتی، اس محبوبِ حقیقی۔۔۔ اس سچے پریمی کے اور قریب ہو جائیے۔ پھر بس سکون ہی سکون۔۔۔ آپ خوشیاں مانگیں گے نہیں، بانٹیں گے۔ آپ کا اندر روشن رہےگا اور آپ یہ روشنی دوسروں کو دیں گے۔ انھوں نے دونوں ہاتھ میز پر اوندھے رکھ دیے اور مسکراتے ہوئے ہمارے چہروں کا جائزہ لینے لگیں۔
جب ہم لوگ راہداری سے گزر رہے تھے تو رِتو میرے ساتھ چل رہی تھی اور تبسم صاحب اور مسز ترویدی آگے آگے۔
جب بھی ان کے ساتھ ہوتی ہوں تو مجھ پر کسی نئی خوشی کا انکشاف ہوتا ہے۔ رِتو بولی تو تبسم صاحب پیچھے مڑے۔
اس لیے کہ زندگی پرانی ہو جائے تو جینے کے لیے نئے طریقے چاہئیں۔ مجھے یہ راز پہلے معلوم ہوتا تو سال بھر سے اپنی شامیں بندروں سے گفتگو میں برباد نہ کرتا۔ انھوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ پہاڑیوں سے ٹکرا کران کا قہقہہ ہمارے پاس لوٹ آیا تو ہم سب بھی ہنس دیے۔
سمجھے تو گھر میں رہے پر سا پلک لگائے
تیرا صاحب تجھ میں انت کہو مت جائے
کبیر نے کہا ہے۔
مسز ترویدی نے مڑ کر ہمیں دیکھتے ہوئے کہا:
بنا پریم دھیرج نہیں برہا بنا بیراگ
ست گرو بنا نہ چھوٹیے من منسا کی آگ
یہ بھی کبیر نے کہا ہے۔
تبسم صاحب پرسکون سی مسکراہٹ لیے ہم سب سے بولے۔
اور پھر وہ شامیں۔ سب کی ہی شامیں پرسکون گزری ہوں گی کہ میں نے پھر کسی شام تبسم صاحب کو نہیں دیکھا۔ یا وہ نظر نہ آئے یا میں شاموں کو باہر نہ نکلی۔ یا ہم دونوں ہی۔
اس فلیٹ سے حنا کی ان گنت یادیں وابستہ ہیں۔ آسمان مٹ میلا سا ہے۔ ہوائیں صاف نہیں ہیں۔ فضا میں دھندلا دھندلا دھواں سا ہے۔ باہر شور ہی شور ہے۔ یہاں حنا کی چیزیں، تصویریں، باتیں، خوشبو، سب ویسے ہی ہے۔ آسمان کو دھویں نے چھپا لیا ہے مگر بالکنی کے نیچے کی یہ زمین میرے پاس ہے۔ یہاں سے میری آنکھیں دھوئیں کے اُس پار، دور عرش کے قریب پہنچ سکتی ہیں۔ بس ذرا سامیں انھیں موند کر اپنے اندر سمٹ جاؤں میرے اندر کی خاموشی کو باہر کا شور مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ یہ سکوت میرے ابدی سکون کا پیامبر ہے، پھر روح پرور سحر تو میری اپنی ہے ہی اور حنا اپنے گھر میں خوش ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.