Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پل

MORE BYسلمی صنم

    وہ میرے ساتھ ہی گھر سے چلی تھی، ہوٹل منزل! وجئے کا فون آیا تھا، یار اس موٹے بھدے سیٹھ کو پٹا لینا، بزنس میں فائدہ ہی فائدہ ہوگا، میں نے کار لی تھی کہ وہ سیٹ پر آ بیٹھی اور بولی ’’یاد کرو وہ بڑی سی حویلی اور اس کی روایت تم اس کی وارث ہو‘‘۔

    ’’تو۔۔۔‘‘

    ’’اپنی اس روایت کو آگے بڑھاؤ۔‘‘

    میں پل کے قریب تھی، سورج کی گرمی مسلسل گھٹ رہی تھی، پل پر زندگی، جاگتی، کروٹ بدلتی، سانس لیتی دھڑکتی محسوس ہو رہی تھی اور پل کے نیچے ایک پرشور ندی تھی، جس کی روانی تجسس اور حیرت کے جذبوں سے ملی جلی نظر آ رہی تھی، پل پر خاصا ہجوم تھا، ماتا دیوی کا جلوس چل رہا تھا، یہ جلوس۔۔۔ یہ بےتحاشہ بڑھتی ہوئی ٹرافک دوڑتے رکتے لوگ میں بےبس سی ہو گئی، تھم گئی۔ لوگ ہی لوگ ناچتے جھومتے، بینڈ کی آواز۔۔۔ باجے کا شور۔۔۔ کا ن پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، سواریوں کی لمبی قطار اور ٹرافک جام۔ کوئی اپنی منزل پہنچے تو کیسے؟

    ’’ڈیم اٹ‘‘ میں بری طرح جھنجھلا گئی۔

    ’’سنو تمہارے بابوجی بڑے دھارمک تھے نا ‘‘اس کی آواز الگ جان جلانے لگی۔

    ’’ہاں تھے تو‘‘ میں نے خود پر تو قابو پایا۔

    ’’اور تم‘‘

    ’’میں‘‘دفعتہ مجھے یاد آیامیں تو بچپن سے ایسی ہی تھی، دھرم سے دور بھاگنے والی۔۔۔ بھگوان سے آنکھ چرانے والی، اپنی روایتوں سے بغاوت کرنے والی ’’جئے ماتادی۔۔۔ جئے ماتادی‘‘ بھکتوں کی پرشور آواز فضا ہلچل مچا رہی تھی ان کی بھکتی میں ذرا بھر فرق نہ آیا تھا، وہ مست تھے، اپنی نیکیوں میں مست تھے، ’’اچھا تو کہو یہ منزل کہاں ہے‘‘

    ’’مغرب میں‘‘

    ’’اور ہم مشرق میں۔۔۔ کیوں کچھ سمجھیں‘‘

    ’’کیا‘‘

    ’’یہ ایک سنکیت ہے ‘‘

    ’’اونہہ ‘‘

    میں نے اس بورسی شئے پر سے اپنا دھیان ہٹایا اور اپنی نظر ادھر ادھر دوڑائی تو اپنے پاس ہی اس نیلی کارمیں ایک چہرہ تھا، لو دیتا ہوا چہرہ محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش وہ چہرہ میرے روبرو تھا، میں چونکی، ٹھٹھکی سٹپٹائی اپنے اندر جھانکا تو دیکھا وہ ایک جھلملاتی سی جوت تھی، ہائے میں حیران رہ گئی، یہ جوت۔۔۔ یہ جوت اس چہرے سے کیوں پھوٹ رہی ہے جو کھڑکی پہ تھا، کون ہے؟ یہ کون ہے۔۔۔ میں نے ذہن پر زور دیا۔

    ’’مہاراج تمہارے کل گرو‘‘ وہ بولی میں تو ہڑبڑا گئی۔

    ’’کیا۔۔۔ کیا‘‘میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی۔ یوں لگامیں ڈول رہی ہوں، دفعتاً دھویں کی ایک لکیر سی اڑی، انجنوں کا شور بلند ہوا، گاڑیاں سرکنے لگیں ماتا دیوی کا جلوس جا چکا تھا، ڈھول کی آواز باجے کا شور۔۔۔ بھکتوں کی جے جے کارسے پل خالی تھا، میں نے دیکھا وہ لو دیتا ہوا چہرہ میری گرفت سے نکل چکا ہے۔ ایک آہ سرد بھرتے ہوئے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

    ’’پہلے جلوس، پھر مہاراج، تم اب بھی کچھ نہیں سمجھیں‘‘

    ’’نہیں اب تم چپ ہی رہو‘‘۔ میں نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا۔

    ’’مجھے جلد از جلدمنزل پہنچنا ہے‘‘

    ’’ مشرق سے مغرب کی اور‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’مجھے لگا تھا تم پلٹ پڑوگی‘‘۔

    ’’وہ بھلا کیوں‘‘؟

    ’’تم ڈول جو رہی تھیں‘‘۔

    میں اس کی باتوں کو جھٹک کر پل پر سے گزرنے لگی بہت مضبوط پل تھا، جو اس پرشور ندی پر بندھا تھا، جو شہر کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرتی تھی، پھر دیکھتے دیکھتے مشرق کی ویرانیاں پیچھے رہ گئیں اور مغرب کی جگمگاہٹیں چکاچوند کرنے والی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنیاں آگے تھیں، میں بھی ان جگمگاہٹوں کا ایک حصہ بن گئی، مشرق کہیں بہت پیچھے رہ گیا اور میں مغرب میں چلی آئی، اب ہوٹل منزل میرے روبرو تھی۔

    گاڑی پارک کرکے میں اندر چلی ہی تھی کہ دفعتہ وہ میرے سامنے آ گئی اور راستہ روکتے ہوئے بولی ’’سنو۔ اندر مت جاؤ۔ چلو واپس چلتے ہیں‘‘

    ’’نہیں اب یہ ممکن نہیں۔ میں بہت دور آ گئی ہوں۔ اب میرے قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘‘ میں اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اندر بڑھ گئی۔

    ہوٹل کافی پرکیف اور بارونق تھا۔ میں اپنی منتخب میزکے گرد بیٹھی ہی تھی کہ وہ بھی کرسی کھسکاکر میرے سامنے ہی بیٹھ گئی اور سرگوشیانہ انداز میں بولی۔

    ’’ابھی کچھ نہیں گیا۔ چلو چلتے ہیں۔ اس موٹے بھدے سیٹھ کو رہنے دو‘‘

    دفعتہ فضا میں ستار کی جھنکار ہوئی۔ وائلن کھنک اٹھا اور پھر طبلے کی تھاپ گونجنے لگی۔ وہ موٹا بھدا سیٹھ آ گیا اور مئے سے شغل کرنے لگا ساز بجتے رہے۔ روشنیاں پگھلتی رہیں۔ رات ڈھلتی رہی اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے ادھر دیکھا۔ وہی ایک چہر ہ لو دیتا ہوا چہرہ، محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش۔ مجھے لگا وہ چہرہ مجھے اپنے اور کھینچ رہا ہے۔ میں سحرزدہ سی اٹھی اور اس کی جانب چل پڑی پھر مجھے پتہ ہی نہ چلاکہ کب میں پل کے پاس پہنچی ہوں لیکن یہ کیا؟ وہ مضبوط پل تو ٹوٹ چکا تھا۔ پرشور ندی اور پرشور لگ رہی تھی؟ میں ٹھٹھک گئی، ’’میں مشرق کی جانب جاؤں تو کیسے؟‘‘ میں نے بےاختیار سوچا۔

    ’’چلوچھلانگ لگاتے ہیں ، تیرکرپارکرلیں گے‘‘

    وہ دشمن جان تومیرے سامنے ہی تھی اور وہ لودیتاہواچہرہ پتہ نہیں وہ کیسے مشرق میں تھا۔ میں نے بے ساختہ چھلانگ لگانی چاہی کہ جانے کہاں سے وجئے نمودارہوا اور پھردیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس دشمن جاں کو پُرشورندی کے حوالے کیا اور میراہاتھ پکڑے مغرب کی اور چلدیا!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے