Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیاس

MORE BYشفیع مشہدی

    ’’اے مہاگیانی! جب میں دانتوں پر دانت جما کر اور تالو کو زبان سے لگاکر، دل و دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے پسینہ آنے لگتا ہے۔ جب میں سانس روک کر تپسّیا کرتا ہوں تو میرے کانوں سے سانس نکلنے کی آواز آتی ہے ... پھر اے گرو دیو، جب میں سانس روک کر اور کانوں کو ہاتھ سے دبا کر تپسّیا کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی تلوار کی تیز نوک سے میرا ماتھا چھلنی کر رہا ہے۔ میری زبان پر کانٹے اُگ آتے ہیں۔ حلق سوکھ کر کھردرا ہو جاتا ہے ... یہ کیا ہے پربھو! ایسا کیوں ہوتا ہے‘‘؟

    ’’یہ پیاس ہے بھکشو! اسی کو پیاس کہتے ہیں‘‘

    ’’کیسی پیاس پربھو‘‘؟

    سادھارن پیاس تو گھونٹ دو گھونٹ پانی پی کر بجھ جاتی ہے۔ مگر ایک تونس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو اتنی ہی پیاس بھڑکتی ہے ... یہ سب منشّیہ پر نِربھر ہے بالک! کسی کو کایا موہ کی، کسی کو زر زمین کی پیاس ہوتی ہے، کسی کو خدا کی پیاس ہوتی ہے اور کسی کو خدائی کی ... کسی کو عورت کی پیاس ہوتی ہے مگر سب سے خطرناک وہ جھوٹی پیاس ہوتی ہے بالک! جو منشّیہ اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ یہ پیاس تو دریاؤں، بادلوں اور سمندروں سے بھی نہیں بجھتی ..... انسان کو دریا دریا سراب سراب لیے پھرتی ہے اور ایک دن خود انسان کو پگھلا کے پی جاتی ہے ... پیاس بڑی بھیانک ہوتی ہے بھکشو ...‘‘

    پڑھتے پڑھتے میری زبان بھی خشک ہو رہی تھی اور پیاس کا احساس شدید ہوتا جا رہا تھا۔ سامنے پھیلے ہوئے سیاہ الفاظ سراب کی طرح میری تشنگی بڑھا رہے تھے اور ذہن قلابازیاں کھا رہا تھا ... دفعتہ ذہن کے پردوں پر نصیرآباد کے حاجی غلام حسین اُبھر آئے اور میں نے آنکھیں بند کر لیں۔

    نصیرآباد آئے ہوئے مجھے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ سرکٹ ہاؤس میں دو تین ماہ گزار کر جب میں کرائے کے مکان میں شفٹ ہوا تو سامان یکجا کرتے ہوئے اچانک میرا پرانا البم مل گیا اور میں اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔

    یونیورسٹی کے گروپ فوٹو میں اسلم حسین کی تصویر پر نگاہیں جم گئیں اور کالج کے دوران اس کے ساتھ گزارے شب و روز یاد آ گئے۔ اسلم اسی شہر نصیرآباد کا رہنے والا تھا مگر کالج چھوڑنے کے بعد برسوں سے اس کی مجھے کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک خلش سی پیدا ہوئی اور میں نے اپنے بوڑھے پیشکار رحمت علی سے اسلم حسین کی بابت پوچھا تو وہ اسلم حسین کا نام سنتے ہی بول پڑے:

    ’’حضور! اسلم صاحب کو کون نہیں جانتا۔ وہ حاجی غلام حسین صاحب کے بڑے لڑکے ہیں۔ مگر اب وہ ٹاٹا میں رہتے ہیں جہاں ان کی دو فیکٹریاں ہیں۔ یہاں ان کے والد حاجی صاحب اور دوسرے بھائی رہتے ہیں۔ اس شہر کے سب سے امیر اور عزت دار لوگ ہیں۔ کارخانے، بھٹی کا ٹھیکہ، بہت بڑا کاروبار ہے ان کا۔ لکھ پتی ہیں۔ ہمارے محلے میں ہی رہتے ہیں۔ چاہیں تو ان کو بلوا دوں ‘‘... ایک ہی سانس میں رحمت علی نے پوری داستان سنا دی۔

    ’’نہیں، نہیں، بلوانے کی ضرورت نہیں۔ میں خود ان سے ملنے جاؤں گا۔ وہ میرے دوست کے والد ہیں تو اصولاً مجھے ہی جانا چاہیے‘‘۔ میں نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہہ دیا۔

    کچھ اور لوگوں سے غلام حسین صاحب کا تذکرہ ہوا تو ان کی امارت اور ان کی دلچسپ شخصیت کے بارے میں کچھ ایسی باتیں معلوم ہوئیں کہ میرا تجسس بڑھ گیا .....

    حاجی صاحب اس شہر کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی تھے، بڑی شاندار کوٹھی، موٹر، نوکر چاکر ... ان کی فیملی کے لوگ بڑی شان و شوکت سے رہتے تھے۔ مگر خود حاجی صاحب ایسی سادہ زندگی گزارتے تھے کہ اکثر لوگ ان کا مذاق اڑانے لگے تھے۔

    دلچسپ باتیں سن کر میرا تجسّس اور بڑھ گیا تھا کہ رحمت علی پیش کار نے ایک روز معاملہ ہی طے کر دیا۔

    ’’حضور! حاجی غلام حسین صاحب سے ہم نے آپ کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ بھی حضور سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ آپ چاہیں تو آج چل سکتے ہیں‘‘۔

    ’’ٹھیک ہے کچہری سے واپسی پر ہم ساتھ چلیں گے‘‘۔ میں نے حامی بھر لی۔

    شام کو پیشکار صاحب کے ساتھ جب میں حاجی غلام حسین صاحب کی شاندار کوٹھی پر پہنچا تو در و دیوار سے دولت جھانک رہی تھی۔ خوبصورت لان، شاندار مکان اور مکان کی آرائش دیکھ کر میں مرعوب ہو گیا۔ پیشکار صاحب مجھے اپنے ساتھ مکان کی پشت پر لے گئے تو مجھے حیرت ہوئی۔

    ’’حضور! اس کوٹھی میں حاجی صاحب کے بیٹے وغیرہ رہتے ہیں۔ حاجی صاحب خود پرانے کھپریل کے مکان میں رہتے ہیں‘‘۔

    پیچھے ایک بوسیدہ سا کھپرا پوش نیم تاریک سا مکان تھا جس کے برآمدے میں ایک پُرانی چارپائی پر حاجی غلام حسین صاحب نیم دراز اپنے منشی کے ساتھ کھاتہ بہی چیک کر رہے تھے۔ پیش کار صاحب تیز قدموں سے چل کر برآمدے پر چڑھ گئے اور بعد سلام علیکم کے انھوں نے زور سے اعلان کیا۔

    ’’حاجی صاحب! مجسٹریٹ صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں‘‘۔ اس جملے کا حاجی صاحب پر بڑا شدید اثر ہوا اور وہ ہڑبڑا کر چارپائی سے ایسے اُٹھے جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ ننگے پیر آگے بڑھ کر انھوں نے جھک کر مؤدبانہ انداز میں ’’سلام حضور‘‘ کہا اور ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑے ہو گئے جیسے عدالت کے کٹہرے میں ہوں ... میں ان کے رویہ پر نادم سا ہو گیا اور میں نے بڑھ کر سلام علیکم کہتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیئے۔

    اپنے کندھے پر رکھے گندے سے کپڑے سے وہ کرسی کو پونچھنے لگے۔

    ’’آئیے، تشریف لائیے، زہے نصیب ... حضور نے کیوں زحمت کی مجھے بلا لیا ہوتا۔‘‘

    شہر کے سب سے بڑے دولت مند کے اس انداز پر مجھے بےحد حیرت بھی ہوئی، مگر کرسی پر بیٹھتے ہوئے میں نے کہا۔

    آپ میرے دوست اسلم کے والد ہیں، میرے بزرگ ہیں۔ مجھے گنہگار نہ کریں۔ تشریف رکھیں۔ میں نے انکساری کے ساتھ کہا۔

    ’’یہ تو حضور کی ذرہ نوازی ہے ... کب تشریف لائے آپ نصیرآباد۔ مجھے کسی نے اطلاع ہی نہیں دی، ورنہ خود حاضر ہوتا‘‘۔

    حاجی صاحب چارپائی پر بیٹھ گئے تو میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ نیم تاریک برآمدے میں ایک بوسیدہ سی چارپائی پر کثیف سا بستر تھا۔ سرہانے رکھا ہوا تکیہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس کا غلاف برسوں سے بدلا نہیں گیا تھا۔ دُبلے پتلے حاجی غلام حسین صاحب میلا کچیلا سا موٹا کرتہ، میلی سی لنگی اور تیل سے بھیگی سیاہ ٹوپی پہنے، کثیف بستر کاہی ایک حصہ نظر آ رہے تھے۔ چارپائی کے ایک طرف ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی جو شاید نماز پڑھنے کے لیے تھی۔ دوسری طرف اسٹول پر المونیم کا پرانا بدھنا اور تام چین کی ایک رکابی رکھی تھی۔ منشی جی کھاتہ بہی سنبھال کر جا چکے تھے اور میں حیرت سے حاجی غلام حسین کو دیکھ رہا تھا جو اس شہر کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی تھے۔

    ’’معاف کیجئےگا، میں ابھی حاضر ہوا‘‘ کہتے ہوئے حاجی صاحب اندر کمرے میں چلے گئے اور واپس لوٹے تو ان کے ہاتھ میں ایک پرانا سا عطردان تھا، میری طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’شوق فرمائیے‘‘۔

    حاجی صاحب، ان کی بے پناہ دولت، بوسیدہ چارپائی، المونیم کا بدھنا، تام چین کی رکابی اور بوسیدہ مکان کو دیکھ کر میں حیرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بولوں ..... ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کوٹھی کی طرف سے ایک نوکر طشت میں ناشتہ لے کر آ گیا اور اس نے ایک میز لا کر اس پر ناشتہ سجا دیا۔ بسکٹ، پیسٹری، کاجو، انڈا، گاجر کا حلوہ ..... بڑے سلیقے سے ناشتہ آیا تھا۔ حاجی صاحب انکساری کا پتلا بنے کہہ رہے تھے۔

    ’’نوش فرمائیے۔ ہمیں افسوس ہے کہ شایانِ شان خاطر نہیں کر سکتا‘‘۔

    ’’کیسی باتیں کر رہے ہیں حاجی صاحب اتنا پرتکلف ناشتہ ہے‘‘، میں نے کہا۔

    ’’ذرہ نوازی ہے حضور کی ... مگر ایک گزارش ہے کہ اگلے اتوار کو حضور دن کا کھانا اس غریب کے ساتھ کھائیں‘‘۔

    ’’اس کی کیا ضرورت ہے‘‘؟ میں نے ٹالنا چاہا تو وہ اصرار کرنے لگے۔

    ’’اگر آپ نے میری درخواست قبول نہیں کی تو میری دل شکنی ہوگی اور...‘‘۔

    ’’نہیں، نہیں! ایسی بات نہیں۔ آپ کا اصرار ہے تو میں ضرور حاضر ہوں گا‘‘۔

    پھر کافی دیر تک حاجی صاحب سے اسلم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور میں نے محسوس کیا کہ حاجی صاحب خاصے تجربہ کار، ذی فہم اور معاملہ شناس آدمی ہیں۔ کاروبار کے معاملے میں انتہائی چالاک ہیں اور سارا کاروبار تنہا سنبھالے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد ہی بے تکلفی ہو گئی اور میں حیرت و استعجاب میں ڈوبا گھر واپس آ گیا۔ اتنے بڑے دولت مند آدمی کا ایک مفلوک الحال کی طرح رہنا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اور یہ معمہ میری سمجھ میں اس دن آیا جب اتوار کو میں نے انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھا... بات یوں ہوئی کہ میں مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی حاجی صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ وہ کچھ گھبرا سے گئے مگر انھوں نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔ برآمدے کے ایک کنارے پر کھانے کی میز میرے لیے سجائی جا رہی تھی اور حاجی غلام حسین صاحب اپنی چارپائی پر بیٹھے ہاتھ میں تام چین کی رکابی لیے کھانا کھا رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی رکابی چارپائی پر رکھ کر وہ کھڑے ہو گئے۔ میں نے قبل از وقت آنے کے لیے معذرت خواہ ہو کر انھیں بیٹھنے کو کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ حاجی صاحب نے چارپائی پر بیٹھ کر رکابی پھر ہاتھ میں لے لی اور معذرت کے انداز میں بولے۔

    ’’گستاخی کے لیے معافی چاہتا ہوں، میں ناشتہ اور کھانا ایک ہی ساتھ کھاتا ہوں اور یہی اس کا وقت ہے اس لیے مجھے اجازت دیں کہ میں کھانا کھا لوں... یہ میرا معمول ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں! آپ شوق سے کھائیے‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا اور حیرت سے حاجی غلام حسین صاحب کا کھانا دیکھنے لگا۔ تام چین کی پرانی سی گہری رکابی میں چاول، دال اور آلو بیگن کی سبزی جسے ہاتھ میں لیے حاجی صاحب بڑے شوق سے کھا رہے تھے۔ پھر کھانا ختم کر کے انھوں نے المونیم کے بدھنے کی ٹونٹی سے منہ لگا کر پانی پیا اور اسی رکابی میں ہاتھ دھوکر رکابی کو دھویا اور پانی پھینک کر اسے اسٹول پر رکھ دیا ..... کثیف سے تولیے سے مونہہ پونچھ کر انھوں نے بڑی قرأت سے الحمد للہ کہا اور میری طرف مخاطب ہوئے۔

    ’’آپ کہیے تو آپ کا کھانا لگواؤں‘‘۔

    میں جیسے خیالات سے چونک پڑا۔ یہ سب کچھ مجھے اس کہانی کی طرح لگا جو نانی اماں ایک کنجوس کے بارے میں سناتی تھیں۔ مگر حاجی صاحب تو بڑے مہمان نواز تھے، انھیں کنجوس کیسے کہا جاتا مگر خود ان کا اپنا حال ... مجھے حیرت میں ڈوبا ہوا دیکھ کر وہ مسکرائے۔

    ’’کیا بات ہے حضور! آپ کچھ سوچ رہے ہیں‘‘۔

    ’’جی ہاں! آپ ہی کے متعلق سوچ رہا ہوں‘‘ ..... میں نے ہمّت سے کہا۔

    ’’میرے متعلق سوچ رہے ہیں۔ کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی‘‘؟ وہ سراپا انکسار تھے۔

    ’’جی نہیں! گستاخی تو میں کر رہا ہوں بلکہ گستاخی کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے سوال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

    ’’بڑے شوق سے، فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں‘‘۔

    ’’آپ اجازت دیں تو میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا۔

    ’’ہاں ہاں! ضرور بڑے شوق سے پوچھئے‘‘۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

    ’’دیکھئے حضور! آپ میرے دوست کے والد ہیں، اس طرح میرے بھی بزرگ ہوئے۔ اس لیے مجھے بھی اپنا عزیز ہی سمجھئے۔‘‘

    یہ آپ کی سعادت مندی ہے حضور۔ فرمائیے۔ بلا جھجک پوچھئے۔ وہ مسکرا رہے تھے۔

    ’’میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس اتنی دولت ہے۔ اتنا بڑا کاروبار ہے۔ اتنی شاندار کوٹھی ہے ... اللہ نے سب کچھ دیا ہے آپ کو مگر آپ اس طرح بوسیدہ مکان میں اور اس طرح... آخر ایسی دولت سے کیا فائدہ‘‘۔ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

    وہ ہنسنے لگے۔ ’’میں سمجھ گیا تھا کہ آپ یہ پوچھیں گے کہ میں بوسیدہ مکان میں رہتا ہوں، تام چین کی رکابی میں گنواروں کی طرح کھاتا ہوں۔ انتہائی معمولی کپڑے پہنتا ہوں۔ جب کہ میرے پاس اتنی دولت ہے۔ یہی نا۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بول رہے تھے۔

    ’’جی ہاں‘‘! میں نے معذرت کے انداز میں کہا۔

    ’’ٹھیک ہے۔ اچھا آپ یہ بتائیے کہ انسان اچھا کھانا کیوں کھاتا ہے۔ اچھے کپڑے کیوں پہنتا ہے، آرام اور آسائش کی تمنا کیوں کرتا ہے‘‘؟ حاجی صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’خوشی کے لیے، آسودگی کے لیے، مسرت کے لیے‘‘۔ میں نے برجستہ جواب دیا۔

    ’’بہت خوب بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے کہ یہ سب کچھ انسان خوشی حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے‘‘۔

    ’’جی ہاں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔

    حاجی صاحب نے اپنا کثیف بستر الٹ کر اس کے نیچے سے بینک کی چار پانچ پاس بک نکالی اور ان میں سے ایک کو کھول کر میرے ہاتھ میں دیا۔

    ’’آپ بتائیے کہ بینک بیلنس کیا ہے اس میں۔ یہ میری ایک پاس بُک ہے‘‘۔

    ’’یکم فروری کو تین لاکھ پچیس ہزار‘‘۔ میں نے زور سے پڑھا۔

    اب دوسرے مہینے کا بیلنس پڑھئے۔

    انھوں نے کہا :

    یکم مارچ چار لاکھ چھتیس ہزار

    یکم اپریل پانچ لاکھ تین ہزار

    یکم مئی سات لاکھ دو ہزار

    میں حیرت سے پڑھتا رہا۔

    ’’بس کافی ہے۔ یہ ہر ماہ بڑھتا ہی جائےگا۔ ایسی دس پاس بک ہیں میرے پاس۔ اور اللہ کے فضل سے سب میں بینک بیلنس اسی طرح بڑھتا ہی رہتا ہے۔ سمجھ گئے‘‘؟

    ’’جی نہیں، میں کچھ نہیں سمجھا‘‘۔

    وہ مسکرائے۔ ’’میں ہر روز ان پاس بکوں کے صفحے الٹ کر بڑھتی ہوئی رقم کو دیکھتا ہوں اور اس سے جو خوشی مجھے ملتی ہے، وہ آپ کو نئے سوٹ پہن کر یا مرغ و ماہی کھا کر نہیں ملتی ہوگی۔ سمجھے! سارا مسئلہ خوشی اور آسودگی کا ہے۔ کسی کو عیش و عشرت سے خوشی ملتی ہے اور مجھے اپنی پاس بُک کے مطالعے سے...‘‘۔

    میں جواب سن کر دم بخود رہ گیا تھا۔ کتاب میرے ہاتھ سے گر گئی تھی۔ اسے اٹھا کر میں نے صفحہ کھولا تو وہ بدل چکا تھا۔ پھر جب تالوت لشکر لے کر چلا تو اس نے کہا : ’’ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمھاری آزمائش ہونے والی ہے، جو اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں ہے۔ فَلَےْسَ مِنِّی میرا ساتھی وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے اور آزمائش میں کامیاب ہو۔ پھر ایسا ہوا کہ دریا آیا اور کچھ کو چھوڑ کر لشکر کے باقی سارے لوگ دریا سے سیراب ہوئے اور دریا کے پاس شکست اُن کی منتظر تھی۔ پس جیت اس کی ہے جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے اور پیاس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے‘‘۔

    میرے ہاتھوں کی کتاب ایک پاس بک بن چکی تھی اور اس کے صفحے پر حاجی غلام حسین کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دے رہا تھا ... پیاس حاوی ہوتی جا رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے