وہ پہلا آدمی نہیں تھا جو بدحواسی کے عالم میں بھاگا جا رہا تھا۔ جب وہ پہنچا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔جتنے لوگ وہاں کھڑے تھے، اس کی باری تو شام تک نہیں آئےگی، یہ سوچتے ہوئے جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے پیچھے بھی اتنے ہی لوگ تھے جتنے اس سے آگے تھے۔ وہاں موجود ہر شخص یہ سوچ سوچ کر پیچ وتاب کھا رہا تھا کہ آج ہی پورے شہر والوں نے خواب کی تعبیر پوچھنے آنا تھا؟۔ یہ شہر کے معبر کے گھر کا چھوٹا سا احاطہ تھا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اتنے زیادہ لوگ جمع ہونے کے باوجود وہاں کوئی شور شرابہ نہیں تھا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ جب اس کی باری آئےگی تبھی اسے اندر جانے کی اجازت ملےگی۔ تعبیر بتانے والے کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایک وقت میں وہ صرف ایک ہی آدمی کو اندر بلاتا۔ جس آدمی کو وہ اندر بلاتا، اس سے جو بھی بات چیت ہوتی وہ نہ صرف صیغہ راز میں رکھی جاتی بلکہ وہ سختی سے تنبیہ کرتا کہ اگر اس نے اپنی الجھن کسی اور کے سامنے بیان کی تو نہ صرف اس کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ بات اور بگڑ جائےگی۔ چند ایک لوگوں نے اس کے کہے پر عمل نہیں کیا تو انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا۔ کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ کوئی فرد ایک ہی مسئلہ لے کر دوبارہ اس کے پاس گیا ہو۔ تعبیر پوچھنے پرجو کچھ وہ بتاتا، حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتا۔ صرف اسی شخص کو تعبیر پوچھنے کی اجازت تھی جسے جاگنے کے بعد خواب من و عن یاد ہو اور خواب اسے مسلسل پریشان کر رہا ہو۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے اس کے گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا۔ دن اور رات کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ خواب دیکھنے والوں کو خواب دوڑاتے ہوئے اس کی چوکھٹ پر لے آتے۔ تعبیر دیکھنے کی صلاحیت اس خاندان میں کسی نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ ہر نسل میں سے کسی ایک فرد کے پاس یہ صلاحیت ہوتی۔ نوجوان معبر کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تعبیر بتانے کو کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا۔ لوگ اپنی مرضی سے اسے اشیائے ضرورت دیتے۔ ضرورت ہوتی تو وہ قبول کرتا ورنہ واپس کر دیتا۔
پہلے کبھی کبھار کوئی آدمی تعبیر پوچھنے آتا تھا لیکن آج صورت حال بہت عجیب تھی، بےشمار لوگ خواب دیکھ بیٹھے تھے ۔جو شخص بھی اندر جاتا حواس باختہ باہر آتا اور گھر واپس جانے کی بجائے ادھر ہی ایک طرف کھڑا ہو جاتا۔ کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا تو لوگوں میں بےچینی پھیلنا شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور تعبیر بتانے والا فکر مند چہرے کے ساتھ باہر نکلا۔ دو گلیاں چھوڑ کر ایک کھلا احاطہ تھا، اس نے سب لوگوں کووہاں جمع ہونے کو کہا اور خود دوبارہ اندر چلا گیا۔ وہ جو اپنا اپنا خواب بتا کر تعبیر پوچھ آئے تھے، باقی لوگ ان سے پوچھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اندر کیا ماجرہ پیش آیا؟ سب جانتے تھے کہ وہ کسی صورت اپنا خواب اور اس کی تعبیر نہیں سنائیں گے۔ لیکن وقت کو آگے دھکیلنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سبھی اس احاطے میں پہنچ چکے تھے۔ خوشی، غمی، مذہبی تہوار یا کسی اور تقریب کے انعقاد کے لیے آبادی والے یہی احاطہ استعمال کرتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہو چکی تھی کہ لوگ اپنے اپنے خواب بھول چکے تھے اور بےصبری سے تعبیر بتانے والے کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ جن کے دل میں ہمیشہ سے اس کا حترام تھا آج اس کے بارے میں عجب وسوسوں کا شکار ہو رہے تھے۔جوں جوں انتظار بڑھتا جا رہا تھا لوگوں کی بےچینی اضطراب میں بدلتی جا رہی تھی۔
آخر وہ ایک ہاتھ کمر پر رکھے اور دوسرے ہاتھ سے چھڑی ٹیکتا،سر جھکائے احاطے میں داخل ہوا ۔ کچھ دیر پہلے جب وہ لوگوں کے سامنے آیا تھا تو نوجوان اور صحت مند دکھائی دے رہا تھا مگر اب اس کے بال سفید ہو چکے تھے۔ سر کے بال کندھوں پر جھول رہے تھے اور داڑھی سینے تک آپہنچی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کئی سو سال مراقبے میں گزارنے کے بعداپنے حجرے سے نکلا ہو۔ وہ قدرے اونچی جگہ پر جاکر کھڑا ہو گیا۔ سب بےساختہ کھڑے ہو گئے ۔وقت کسی کے ساتھ ایسا سلوک بھی کر سکتا ہے؟ انہوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا جہاں بےیقینی بادل امڈ رہے تھے۔ وہ شخص جو ہمیشہ ہشاش بشاش اور مسکراتا ہوا دکھائی دیتاتھا آج اسے یوں دیکھ کر لوگوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ اس بوڑھے کی طرف دیکھ رہے تھے جو تھوڑی دیر پہلے نوجوان تھا اور سب اس کے محتاج تھے لیکن اب خود اس کی اپنی حالت قابل رحم تھی۔ اس کی پتھرائی آنکھیں لوگوں پر گڑی تھیں، ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ اسی کی جانب دیکھ رہا ہے۔ سب کی طرح وہ بھی پچھتا رہا تھا کہ وہ آج ہی خواب کی تعبیر کیوں پوچھنے آیا؟ میرا خواب تو بہت خوفناک تھا، تمام رات کانپتے ہوئے گزری۔ ہردم یہی محسوس ہو رہا تھا کہ جان اب گئی کہ گئی۔ وہ تو سب گھر والے پاس تھے ورنہ اب تک یہی لوگ میری میت پر جمع ہوتے۔ وہ آدمی اس بات سے بےخبر تھا کہ وہاں موجود ہر شخص یہی سوچ رہا ہے۔
اس نے دایاں، رعشہ زدہ ہاتھ اٹھا کر پہلے سے بت بنے لوگوں کو متوجہ کیا۔ ''کل رات تم لوگوں نے ایک ہی خواب دیکھا ہے''۔بوڑھے کے لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے الفاظ لوگوں کی سماعتوں پر قیامتیں ڈھا گئے۔ وہ راز جو ہر کوئی اپنے سینے میں لیے گھر سے نکلا تھا کتنی آسانی سے فاش ہو گیا۔ اس انکشاف نے انہیں مبہوت کر دیا۔ تمام لوگ سکتے میں آ گئے، اس کی پر اسرار اور کہیں دور سے آتی ہوئی آواز مدھم ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔ اس کے صرف ہونٹ ہل رہے تھے، کسی کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ان کے سریوں جھک گئے جیسے راز فاش ہونے پر ہر کوئی شرمندہ ہو، کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی اسی عالم میں بیٹھا تھا، خیا لات کا سلسلہ اندر کی طرف سکڑتے ہوئے وجود کے اتھاہ کنویں میں ڈوب گیا۔ وہ سوچ نہیں رہا تھا، اندر سے کوئی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟۔ اس نے ارد گرد دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔ یہ نظر کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے، یہ سوچتے ہی اس نے ذرا دھیان سے دیکھا، ہر کوئی وہیں بیٹھا تھا جہاں نظر نہ آنے سے پہلے تھا۔ تعبیر بتانے والا چھڑی کے سہارے کھڑا کچھ کہہ رہا تھا۔ارد گرد لوگ سر جھکائے اپنی اپنی سوچوں میں گم بیٹھے تھے۔ سامنے صدیوں پرانے برگد کے درخت پر کوے کسی تنازعہ پر زور شور سے ایک دوسرے کے پر نوچ رہے تھے۔ چھوٹے پرندے ادھر ادھراڑ کر اپنا بچ بچاو کر رہے تھے۔ اونچی ٹہنیوں پر بھاری بھرکم گدھ اور چیلیں اردگرد کے شور شرابے سے بے نیاز آنکھیں بند کیے اونگھ رہے تھے۔ گدھوں اور چیلوں کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھ وہ بہت حیران ہوا۔ یہ مردار خور صرف اسی وقت دکھائی پڑتے جب کسی جانور کی موت ہو جاتی لیکن اب تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ پھر یہ سب یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اس بات کا اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ پتے اس وقت ہلتے جب کوئی پرندہ اڑکر کہیں بیٹھنے کی کوشش کرتا۔ ہوا نہ ہونے کی وجہ سے فضا بہت گھٹن زدہ تھی۔ نیلے آسمان پر کچھ بدلیاں یوں نظر آ رہی تھیں جیسے شفاف پانی پر برف کے گالے ہولے ہولے سرک رہے ہوں۔ آہستہ آہستہ اس کے ہوش بحال ہونا شروع ہوئے، ساری باتیں یاد آ گئیں۔ وہ اپنا خواب اس کی زبانی سننے کے لیے بےچین تھے۔ تھوڑی دیر پہلے جو کچھ ان کے ساتھ پیش آیا تھا، اس کی شدت کم ہو چکی تھی۔ اب لوگوں کو خود سے زیادہ یہ تعبیر بتانے والے کا مسئلہ معلوم ہو رہا تھا۔
ہر طرف پانی ہی پانی ہے دور تک کوئی ذی روح نہیں۔ میں ایک نظر نہ آنے والی کشتی پر ہوں جس کے پتوار میرے ہاتھ میں ہیں۔خبر نہیں کہ کب سے کشتی کھے رہا ہوں، چپو چلاتے چلاتے میں کافی دور چلا جاتا ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کس سمت میں جاؤں، تھوڑی دور جا کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں غلط راستے پر ہوں۔ پتوار چھوڑکر کافی دیر سوچتا ہوں کہ کدھر جانا تھا پھر کشتی موڑکر کسی اور طرف کا رخ کرتا ہوں۔ سورج پانی ہی سے ابھرتا ہے اور پانی میں ہی ڈوب جاتا ہے۔ رات کا وقت ہے اور میں اسی طرح چپو چلا رہا ہوں اب میرے بازو شل ہو چکے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں دائرے میں سفر کر رہا ہوں۔ مسلسل سفر کی وجہ سے میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہاہوں۔ اسی الجھن سے مغلوب ہوکر میں پوری قوت سے کشتی پر چپو دے مارتا ہوں۔ چپو کشتی پر پڑنے کی بجائے پانی پر جا کر لگتا ہے۔ پانی کے چھینٹے اچھل اچھل کر میرے جسم پر پڑتے ہیں۔ میں جنونی سا ہو جاتا ہوں اور دونوں ہاتھوں میں چپو تھام کر ہوا میں بلند کر کرکے مارے جا رہا ہوں۔ اچانک مجھے شدید سردی کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اب نہ میں کشتی پر ہوں اور نہ ہی پتوار میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں پانی میں تیر رہا ہوں۔ میری رفتار بہت زیادہ ہے۔ تیرتے ہوئے میں سوچتا جاتا ہوں کہ اتنی رفتار سے تو میں کبھی زمین پر بھی نہیں بھاگا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا ہوں کہ کوئی چیز میرے دونوں پاؤں پکڑ لیتی ہے۔ میں پاؤں چھڑانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ نہیں چھوڑ رہی۔ مجھے غوطے آ رہے ہیں۔ وہ میرا جسم آہستہ آہستہ نگل رہی ہے بلکہ توڑ توڑکر کھا رہی ہے۔ مجھے درد بالکل محسوس نہیں ہو رہا، یہ بات بہت حیرانی کا سبب ہے ۔پہلے وہ میری ایک ٹانگ توڑتی ہے، پھر دوسری اور پھر گلے تک سب ہڑپ کر جاتی ہے۔ وہ بہت مزے سے میری ہڈیاں چبا رہی ہے۔ اب صرف میری گردن اورسر باقی ہیں، میں انہیں بچانے کی آخری کوشش کرتا ہوں۔ سر کو ادھر ادھر ہلانے کے سوا میں کچھ نہیں کرپاتا۔ درد کی شدت سے ایک خوفناک چیخ میرے حلق سے نکلتی ہے لیکن آواز میرے دماغ ہی میں گونج کر رہ جاتی ہے۔ میری گردن چبانے کے بعد اس نے اپنے چار نوکیلے دانت میرے سر کے پچھلے حصے میں گاڑ دیے۔ جوں جوں اس کے دانت دماغ میں پیوست ہو رہے ہیں میرا منہ کھلتا جا رہا ہے۔ جبڑے کھٹاک کی آواز پیدا کر کے ٹوٹ جاتے ہیں۔ میرا دماغ اس نے توڑ کر کھا لیا ہے اب صرف میرا چہرہ بچا ہے۔ میرا چہرہ پانی پر تیر رہا ہے اور میں انتظار کررہا ہوں کہ وہ اسے بھی ہڑپ کر لے ۔میں چیخ چیخ کر التجا کررہا ہوں کہ وہ آئے اور میرا نشان مٹا دے۔ وہ چیز جیسے اب وہاں ہے ہی نہیں اور جان بوجھ کر میرا چہرہ چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ ہر آنے والی لہر کے ساتھ میرا چہرہ پانی میں سیدھا ہو رہا ہے تو کبھی الٹا۔ جب چہرا آسمان کی طرف ہوتا ہے تو اپنی چیخ کی آواز مجھے بھی سنائی دے جاتی ہے لیکن جب پانی کی طرف ہوتا ہے تو جیسے دم گھٹ سا جاتاہے۔ یہ سلسلہ ابھی چل ہی رہا ہے کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے میں پسینے میں نہایا بیٹھا ہوں اور میرے اپنے میرے ارد گرد بیٹھے مجھے جھنجھوڑ جھنجھوڑکر ہوش میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔''
اس نے خواب یوں سنایا جیسے یہ ان تمام لوگوں نے نہیں بلکہ صرف اسی نے دیکھا ہو۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور چھڑی کے سہارے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ ان کی جیسے آنکھ کھل گئی یہ وہی خواب تھا جو رات انہوں نے دیکھا اور تعبیر پوچھنے کی خواہش انہیں اس کے پاس گھسیٹ لائی تھی۔ درد کی ٹیسیں ایک بار پھر ان کے دماغوں سے اٹھناشروع ہو گئیں۔ کئی ایک کے ہاتھ بے ساختہ سروں کے پچھلے حصے کی طرف اٹھ گئے، اسے اپنی مقررہ جگہ پر موجود پا کرجیسے انہیں اطمینان سا ہو گیا۔ کافی دیر لوگ دل ہی دل میں سنے ہوئے اور دیکھے ہوئے خواب کا موازنہ کرتے رہے۔ خواب پورا سنتے ہی اسے جھرجھری آ گئی، اس نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا گھروں کی چھتوں پر کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ کوئی ایک آدھ مرد یا عورت بھی نظر آ جاتی یہ وہ لوگ تھے جنہوں یا تو خواب نہیں دیکھا تھا یا تعبیر پوچھنے نہیں آئے تھے۔ اس نے سوچا اگر وہ چھت پہ کھڑا ہوتا تو تعبیر بتانے والا اسے تماشا گر اور باقی لوگ تماشائی دکھائی دیتے۔ دیکھا ہوا خواب اسے دھندلا دھندلا سا لگا جبکہ جو اس نے ابھی سنا بہت واضح تھا۔ اس نے نظروں ہی نظروں میں ساتھ بیٹھے آدمی سے خواب کے صحیح ہونے کی تصدیق چاہی۔ اقرار میں ہلتا ہوا سر دیکھ کر وہ دل ہی دل میں مطمئن ہو گیا۔ تمام لوگ پریشانی کے عالم میں ہیں وہ اکیلا نہیں ہے۔ یہ مسحور کن خیال ذہن میں آتے ہی اس نے ارد گرد بیٹھے ہوؤں کی طرف دیکھا۔ تعبیر کی اہمیت لوگوں کے لیے بڑھ گئی تھی کہ آج سے پہلے اس نے کسی ایک فرد کا خواب کسی دوسرے کو نہیں سنایا تھا اور نہ ہی خواب دیکھنے والے کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنا خواب یا تعبیر کسی دوسرے شخص کو سنا سکتا لیکن آج صورت حال یکسر مختلف تھی، سب نے ایک ہی خواب دیکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تعبیر کا تعلق بھی سب کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے اس حوالے سوچا تو انجانے خوف میں مبتلا ہو گئے۔ اب کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ہر کوئی اپنے اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا۔ وہ خواب دیکھنے پر خود کو مجرم تصور کر رہے تھے۔ منصف کے حتمی فیصلے سے پہلے کی گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تعبیر کنندہ سب لوگوں سے بے خبر سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے فیصلہ نہ دینا چاہ رہا ہو لیکن مجبور ہو۔
''تم سب کا مقدر اس خواب سے جڑا ہوا ہے۔ قافلہ کب کا نکل چکا ہے، ابدیت کا قافلہ''۔ وہ یوں گویا ہو جیسے خودکلامی کر رہا ہو۔
''اس خواب کی تعبیر عجیب ہے، مجھے حکم نہیں ہے کہ میں پوری پوری تعبیر بتا ؤں اور نہ ہی تمہیں حکم ہے کہ یہ خواب اور اس کی تعبیر کسی اس شخص کو سناؤ جس نے یہ خواب نہیں دیکھا۔ خواب کا انسانی تقدیر سے بہت گہرا رشتہ ہے، یہ ایک غیر مرئی حصار ہے جو ایک مقدس ہالے کی طرح ہردم، ہرجگہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ وقت آئینے کی طرح ہوتا ہے۔ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ انسان کبھی ماضی ہے، کبھی حال ہے تو کبھی مستقبل! آئینہ لافانی ہے لیکن اپنے اندر فانی دنیاؤں کو محفوظ رکھتا ہے۔ تبدیلی آئینے سے باہر ہے۔ جو کچھ بدلتا ہے آئینہ ہمیں بتا دیتا ہے۔ روح بھی آئینے کی طرح لافانی ہے ہر دم ہر جگہ جاری و ساری، یہ تو جسم ہے جو تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے۔ خواب روح کی مانند ہے۔ زمانوں کی قید سے آزاد۔ روح نیند کے عالم میں کیا خبر کس روپ میں کہاں کہاں بھٹکتی پھرتی ہے۔ اگلے زمانوں میں چلی جاتی ہے تو کبھی صدیوں پیچھے۔ ہم جس جگہ آنکھ بند کرتے ہیں بیدار بھی وہیں ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ہم روح کی مراجعت سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ سویا ہوا انسان مردے کی طرح ساکت ہوتا ہے۔ نیند کے عالم میں کبھی کبھار جسم کا کوئی ایک حصہ روح کے ساتھ ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کونکل کھڑا ہوتا ہے۔ اگر وہ دونوں ایک ساتھ مراجعت کریں توکچھ یاد نہیں رہتا لیکن جسم کا وہ حصہ اگرپہلے واپس آ جائے تو ہر چیز یاد رہتی ہے ۔ جسم تڑپ اٹھتا ہے ۔اٹھتے ہی یاد رہنے والی چیز خواب کہلاتی ہے۔ بیداری اور نیم بیداری خواب کے راستے کا سب سے بڑا پتھر ہے۔ جسے سکون کی نیند میسر ہوتی ہے خواب اس کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے، اسے اپنی دنیامیں لے جاتا ہے۔ عجب مقام حیرت ہے؟ کل رات تم سب لوگ سکون کی نیند سوئے، نیند کا وہ لمحہ تم سب پہ گزرا۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کاسکون کی نیند سونا، ناقابل یقین بات ہے۔ ایک آبادی میں، ایک رات میں، کوئی ایک شخص ہی مطمئن سوتا ہے۔ خواب ایسے وقت کی تاک میں تھا، وہ تو کسی ایک کے لیے آیا تھا مگر تم سب لوگ اس لمحے میں اس کے منتظر تھے۔ اب وہ کیا کرتا تم سب کو ساتھ لے گیا۔ اکیلے آدمی کا خواب دیکھنا بنی نوع انسان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن سب لوگوں کا ایک ہی خواب دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے ایک ہی روح کا کئی جسموں میں جاری و ساری ہونا۔ تمہارے جسم جدا جدا ہیں لیکن روح ایک ہے ۔آج رات جنھوں نے خواب نہیں دیکھا ان کی تقدیر تم سب سے جدا ہوگئی۔ خواب نے تم سب کو ایک کڑی میں پرو دیا ہے تم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے ہو۔ ایسا اب تاریخ انسانی میں اب کبھی نہیں ہوگا۔ آنے والے لوگ جب اس واقعہ سے واقف ہوں گے تو سراپاحیرت بن جائیں گے۔
ہمارے گاؤں کے نزدیک سے وہ قافلہ گزرے گا۔ تم سب لوگوں کو اس قافلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ وہ کس وقت یہاں پہنچے گا یہ میں نہیں جانتا لیکن اس کا پڑاؤ یہاں ضرور ہوگا۔ جو اس قافلے میں شامل ہو جائےگا، اس کے لیے ہی مکتی ہے۔ اب تم لوگوں کو سکون کی نیند سے بچنا ہے اگر کوئی سو گیا تو تقدیر اس کے ساتھ کھیل کر جائےگی۔ خواب وہیں سے شروع ہو گا جہاں سے تمہاری آنکھ کھلی تھی۔ کون جانتا ہے تمہارے باقی بچے ہوئے چہروں کے ساتھ کیا ہو جائے اور کیا خبر تم سو جاؤ تو کوئی شے سچ میں تمہارا سر اکھیڑ کر لے جائے۔ اب تم سب لوگوں کو جاگنا ہے، اس وقت تک قافلے کا انتظار کرنا ہے جب تک وہ آ نہیں جاتا۔ تم اس کاحصہ بن جاؤگے تو امن میں رہ سکو گے۔یہ طے ہے کہ قافلہ آبادی کے پاس کافی دیر پڑاؤ کرےگا۔''
یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ تمام لوگ وہیں بیٹھے رہے، خاموش جیسے بولنا بھول گئے ہوں۔ سب نے اسے غور سے سنا لیکن وہ کہہ کیا رہا تھانہ تو کسی کی سمجھ میں آیا اور نہ ہی کوئی اس تعبیر پر یقین کرنے کے لیے خود کو مائل کر پا رہا تھا۔ البتہ خواب کے وہیں سے شروع ہو جانے کا خیال بہت بھیانک تھا۔ ابدیت کا قافلہ کہاں سے آ رہا تھا؟ وہ قافلہ ان کے گھروں کے قریب سے گزرے گا ،پڑاؤ کرے گاپھراس سارے معاملے کا خواب سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ہمیشہ بیداررہنے کے تصور سے انہیں جھرجھری آرہی تھی ۔وہاں بیٹھا ہر شخص خیالات میں الجھا ہوا تھا۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہیں تھی کہ تعبیر کنندہ سے استفسار کر سکتا۔ خود اس کی حالت بھی بہت قابل رحم تھی۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے خواب کا تعلق لوگوں سے زیادہ خود اس کی ذات کے ساتھ ہے۔لمحوں میں اس کا بوڑھا ہو جاناان کے خواب کی بھیانکتا کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
یہ قبیلہ عجیب جگہ پر واقع تھا ایک طرف بیکراں پھیلا ہوا صحرا تو دوسری طرف ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ سمندر قبیلے کے عین سامنے مشرق کے رخ چند فرلانگ سے شروع ہوتا ہوا دور آسمان سے بغل گیر ہو جاتا۔ صحرا پشت کی جانب تاحد نگاہ طویل فاصلے تک پھیلا ہوا تھا۔ کبھی نگاہوں اور صحرا کے درمیان دھول کا ایک پردہ آ جاتا جو زمین سے آسمان تک پھیلا رہتا۔ کبھی کبھار وہ پردہ چھٹ جاتا تو بھی لامتناہی صحرا ہی دکھائی پڑتا۔شمال کی طرف سمندر اور صحرا باہم دور تک دکھائی دیتے۔ کہیں سمندر صحرا پر چڑھ دوڑتا ہوا تو کہیں صحرا سمندر کے اندر تک گھستا ہو دکھائی پڑتا۔جہاں نظر کام کرنا چھوڑ دیتی دونوں کی تفریق بھی مٹتی ہوئی معلوم ہوتی۔ سورج کی تیز چمکتی ہوئی روشنی سے پانی اور صحرا کی ریت دمک اٹھتے وہ نظارا ہمیشہ قابل دید ہوتا۔ جب تند وتیز ہوا کی وجہ سے غبار اٹھتا تو صحرااور سمندر دونوں اس میں چھپ جاتے۔ جنوبی سمت میں ایسا کچھ نہیں تھا قبیلے سے ملحق چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں تھیں ان سے تھوڑا آگے سمندر کچھ زیادہ اندر تک آ گیا تھا۔ جس نے ایک بڑے سے حوض کی سی شکل اختیا ر کرلی تھی یہی وہ جگہ تھی جہاں لوگ اپنی کشتیاں لنگر انداز کرتے۔ اس سے پرے گھنا جنگل تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ سمندر میں ہے یا کہ سمندر اس میں ہے۔ درختوں نے مغرب کی سمت دور تک دیوار سی بنا دی تھی۔ اس دیوار کی اوٹ میں سمندر تھا یا صحرا یا درخت ہی درخت تھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ لوگوں کی واحد خوراک سمندری مخلوق تھی، وہ کئی کئی دن سمندر میں گزار دیتے جس کے ہاتھ جو آ جاتا ایک عرصہ پورا کنبہ اس پر گزارا کرتا۔ روز شکار کرنے کا رواج نہیں تھا۔ راشن ختم ہونے سے ایک دو دن پہلے گھر کا کوئی فرد پھر نکل کھڑا ہوتا۔ صحرا کی طرف خوراک کے حصول کے لیے کبھی کسی کا جانا نہیں ہوتا تھا۔ صحرا کی بیکرانی کی وجہ سے لوگ دہشت زدہ سے رہتے کوئی صحرا میں مرکر چیلوں اور گدھوں کی خوراک نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس کے مقابلے میں وہ عمیق سمندر میں غرق ہونے کو ترجیح دیتے ۔البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان کے بچے کے ہاتھ صحرا میں کھیلتے کودتے کوئی جانور اگر ان کے ہاتھ آبھی جاتا تو کبھی گھروں تک نہیں پہنچ پاتا تھا۔ سننے میں نہیں آیا کہ کسی گھر میں کوئی صحرائی جانور انسانوں کی خوراک بنا۔ آبی مخلوق سے وہ بڑی مہارت سے پہننے اور اوڑھنے کے لیے لباس بنا لیتے۔ مرد وزن کے نزدیک جنس کا تصور وہی تھا جو دوسرے جانوروں کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب ایک ساتھ آزادی سے شکار کرتے۔ یہ سب ہونے کے باوجود خاندان کا تصور موجودتھا۔ آپس میں شادی بیاہ اور خوشی غمی کے موقع پر سب اکٹھے ہوتے۔
قبیلے میں ایک ایسا دانش مند بھی تھا جو بیماروں کا علاج کرتا تھا۔ اس کی عمر کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی یہی کوئی تیس کے قریب ہو گی اس کے پاس کوئی ایسی صلاحیت تھی جو اسے ہمیشہ جوان رکھتی۔ قبیلے والوں نے اسے ہمیشہ سے ہی ایسے دیکھا تھا اس لیے کوئی زیادہ حیرت کا اظہار نہ کرتا۔ جب بھی کوئی کسی تکلیف یا بیماری میں مبتلا ہو جاتا تو اسے اس شخص کے پاس لے جایا جاتا وہ کچھ پڑھ کر اس پر پھونک دیتا اور مریض صحیح سلامت واپس آتا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص کسی بیماری سے مرا ہو۔ قبیلے میں اس کی حیثیت ایک مسیحا کی سی تھی جس کے پاس تمام مسائل کا حل تھا۔ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا ہاں اگر کوئی کسی مسئلے میں اسے بلانے جاتا تو کبھی انکار نہیں کرتا تھا۔ اس مقناطیسی صلاحیتوں کے مالک کی اصل خوبی اس کی پیش بینی تھی ۔ قبیلے والے شکار پر نکلنے سے پہلے اس سے پوچھ کر جاتے کہ آج ان کے ہاتھ کتنا شکار آئے گایا آج شکار پر جانا چاہیے کہ نہیں؟ وہ جو کچھ بتاتا حرف بہ حرف وہی ہوتا۔ وہ صرف موت کے بارے میں زبان نہیں کھولتا تھا۔ اس استفسار پر کہ وہ انہیں موت کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتاتا، اس کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتا۔ لوگ اس کے اس جواب پر سر جھکا لیتے لیکن اعتبار نہیں کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ سب جانتا ہے لیکن بتاتا نہیں۔
یہ قبیلہ زمانوں سے وہاں آباد تھا۔ پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کا تناسب حیران کن تھا، آبادی کبھی اتنی نہیں بڑھی کہ نئے مکان بنانے کی ضرورت پیش آئی ہو۔ بعض افراد سمندر میں غرقاب ہو جاتے اور کسی غیرمرئی قانون کے تحت عورتوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ نہ ہو پاتی کہ کوئی مسئلہ بنتا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی موت گھر پر ہوئی ہو۔ کسی نے اپنے ہم جنس کا مرا ہوا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ ان کی کل دنیا ان کا قبیلہ تھا۔ ان کے لیے کسی اور دنیا کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لوگ ہمیشہ سے ایسے ہی زندگی بسر کرتے چلے آ رہے تھے۔ کبھی ان کے ساتھ کوئی ایسی انہونی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے قبیلے کے نظام میں کوئی خلل واقع ہوتا۔ انہیں یقین تھا کہ مسیحا کے ہوتے ہوئے ایسا کچھ ممکن نہیں۔ وہ ایک ایسی ہستی تھی جسے موت نہیں چھو سکتی تھی۔
ایک رات جب لوگ نیند کی وادی میں گم تھے ان میں سے ایک کی آنکھ کھل گئی۔ کچھ دیر تو یوں اچانک بیدار کی وجہ اسے سمجھ نہیں آئی لیکن ارد گرد پھیلی آوازوں سے وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ کوئی معاملہ ضرور ہو گیا ہے کہ سب لوگ جاگ رہے ہیں۔ جانی پہچانی آوازوں کو چیرتی ہوئی ایک خوفناک آوازبھی تھی جس نے اس کی روح کو لرزا دیا۔ اس کی طرح ہر شخص اس آواز کا ماخذ جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ پہلے تو لوگ سمجھے کہ یہ آواز کسی گھر سے آ رہی ہے لیکن تھوڑی دیر میں واضح ہو گیا کہ آواز سمندر کی طرف سے آ رہی ہے۔ آواز مسلسل آ رہی تھی لیکن سمندری لہروں میں کبھی ڈوب جاتی تو کبھی ابھر آتی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ڈوبتی ہوئی چیز اپنے بچاؤ کے لیے آخری کوششیں کر رہی ہو۔ تھوڑی دیر بعد آواز بہت واضح اور قریب تر محسوس ہونے لگی۔ درد میں ڈوبی ہوئی آواز نے لوگوں کے وجود میں سنسنی دوڑا دی۔ لمحہ لمحہ آواز بلند ہو رہی تھی! کبھی ایسے لگتا جیسے کوئی کسی انسان کو ذبح کر رہا ہو، کبھی غراہٹ میں تبدیل ہو جاتی، کبھی بہت ڈراؤنی ہو جاتی، کبھی محسوس ہوتا کہ ایک ہی سمت سے آ رہی ہے تو کبھی یوں لگتا جیسے یہ آواز پورے قبیلے کے گرد گردش کررہی ہے۔ بعض گھروں سے تو چیخوں کی آوازیں بھی سنائی دیں جیسے وہ آواز ان گھروں میں آ گھسی ہو۔ تمام رات لوگ سہمے ہوئے گھروں میں دبکے رہے۔
یہ وہاں آنے والی پہلی آفت تھی ،یہی وجہ ہے کہ یہ سب ناقابل برداشت معلوم ہو رہا تھا۔ وہ رات گزرنے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔جوں جوں صبح قریب آرہی تھی ان کی پریشانی میں بھی کمی آتی جا رہی تھی۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی سمندری عفریت نے کسی کمزور مخلوق کی گردن دبوچ رکھی ہو۔اس خیال نے لوگوں کو کچھ حوصلہ دیا۔ آواز اب قدرے مدھم ہو چکی تھی جیسے کوئی بہت تکلیف کے بعد ہولے ہولے کراہ رہا ہو۔ وہ شخص جس کا گمان تھا کہ سب سے پہلے اس کی آنکھ کھلی تھی وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھاکہ رات سناٹے کی وجہ سے آواز بہت زیادہ محسوس ہو رہی تھی یا ہڑبڑاہٹ اچانک اٹھ جانے کی وجہ سے بھی تھی۔اب سب کچھ معمول کے مطابق معلوم ہو رہا تھا۔
صبح کاذب کے وقت لوگ ایک دوسرے کے دروازے کھٹکھٹانے لگے وہ جلد ازجلد معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے تھے۔تمام لوگ اس مقررہ جگہ پر آن پہنچے جہاں خوشی غمی کے موقع پر اکٹھے ہوتے تھے۔ اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ کسی بڑے جانور نے چھوٹے جانور کو قابو میں کر رکھا ہے۔ کربناک غراہٹوں سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھاکہ وہ بلا اسے نگلنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ چند ایک نے غیب دان سے بات کرنے کا مشورہ دیا لیکن کچھ سیانوں نے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ یہ کون سا اتنا بڑا مسئلہ ہے جو انہیں تکلیف دی جائے۔تھوڑی دیر مشاورت کے بعد سبھی اس نتیجے پر پہنچے کہ تکلیف میں مبتلا جانور کو خونخوار درندے کے چنگل سے ضرور بچانا چاہیے۔ اس چیز کی آواز اب بھی تواتر سے آ رہی تھی لیکن کافی مدھم ہو گئی تھی جیسے مزاحمت کرنا چھوڑ رہی ہو۔ اندھیرے میں تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس سمت سے آواز آ رہی ہے لیکن اب اس کے ماخذ بارے میں کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ آواز جنوبی سمت میں موجود درختوں کے جھنڈمیں سے آ رہی تھی۔ اب تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی انسان درد ناک آواز میں کسی سے کوئی التجا کر رہا ہو۔
لوگ جب اکٹھے ہوئے تھے توچہرے صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن اب سورج کافی ابھر آیا تھا۔ کمزور جانور کی جان چھڑانے کے لیے کچھ طاقتور اور توانا نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں لمبے نوک دار ہتھیار تھے جنہیں بہت سخت قسم کے صحرائی درختوں سے تراش تراش کر بنایا گیا تھا۔ ان ہتھیاروں سے سمندری مخلوق کا شکار کیا جاتا تھا۔وہ بہت ہوشیاری سے آگے بڑھنے لگے۔ باقی تمام لوگ کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنے کے لیے تیار وہیں کھڑے رہے۔وہ بھی وہیں کھڑا جانے والوں کو جھاڑیوں کی اوٹ میں غائب ہوتے دیکھتا رہا، ان میں اس کا چھوٹا بھائی بھی تھا۔
کوس بھر فاصلہ طے کرکے وہ ایسی جگہ پہنچ چکے تھے جہاں آواز قریب سے قریب تر ہو رہی تھی۔تمام جوان آنکھوں ہی آنکھوں میں اک دوسرے کو اشارہ کر کے تھوڑا فاصلہ قائم کیے آگے بڑھنے لگے۔ ریتلی زمین میں پاؤں دھنس دھنس جاتے لیکن سبھی احتیاط سے آگے بڑھتے رہے۔ ان کے قدم جیسے دلدلی زمین نے پکڑ لیے، اب آواز انہیں اپنے سامنے محسوس ہو رہی تھی۔ یہ سمندر اور گھنے درختوں کے درمیان تھوڑی سی ہموار جگہ تھی جہاں پانی کی لہریں باآسانی آ جا سکتی تھیں۔ خوفناک بات یہ تھی کہ آوازا سی جگہ سے آ رہی تھی لیکن کسی جانور یا شے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے شکار کا صرف منہ تھوڑا سا باہر رہ گیا تھا باقی سارا جسم کسی عفریت نے زمین کے اندر کھینچ لیا ہو۔ تمام جوان اپنے اپنے ہتھیاروں کی نوک پر نظریں جمائے دائرہ بنائے ،جھکے جھکے سے آگے کو سرک رہے تھے۔ ان کی قوت سماعت اور بصارت ایک ہی نقطے پر مرتکز ہو چکی تھی۔ دلدلی زمین میں سے انہوں نے ریت اور پانی کے ننھے ننھے بلبلے نکلتے ہوئے دیکھے، بالکل ویسے ہی جیسے ڈوبتے ہوئے انسان کے منہ سے نکلتے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کہ اس کے نیچے دھنسنے کی وجہ سے پیدا ہو رہے تھے یا اس کے کراہنے کی آواز سے۔ کوئی شک نہیں تھا کہ وہ چیز سب کے سامنے تھی جس کی وجہ سے سب کی رات عذاب میں گزری۔ پاؤں جما جما کر وہ اس کے قریب تر ہو گئے ان سب کی نظریں ایک لمحے کو ملیں ۔دوسرے ہی لمحے ایک نوجوان نے اپنا نوک دار ہتھیار پوری طاقت سے اس دلدلی زمین میں گھسیڑا اور اس سے بھی زیادہ قوت سے اوپر کو اچھال دیا اور خود پشت کے بل گرپڑا۔وہ شے ایک بھیانک چیخ کے ساتھ فضا میں دور تک اچھلی اور کچھ قدم کے فاصلے پر شدت سے چنگھاڑتی ہوئی جا گری۔ انہوں نے بھاگ کر اس کے گرنے سے پہلے اس جگہ پر پہنچے کی کوشش کی جہاں ان کے گمان میں وہ گرنے والی تھی۔ ایک کر بناک انسانی چہرہ زمین پر پڑا ان کی طرف گھور رہا تھا۔ خون اس کے سر کے پچھلے حصے سے ابھی تک رس رہا تھا جیسے کسی چیز نے پوری قوت سے اس کاسر کاٹ کھایا ہو۔اس کے جبڑے کھلے ہوئے تھے جن کے درمیان سے ریتلی زمین صاف نظر آرہی تھی ۔انہیں یوں لگا جیسے وہ کوئی ڈراؤناخواب دیکھ رہے ہوں ۔ایک لمحے میں اس چہرے پر ہزاروں رنگ آئے اور گزر گئے۔ اس نے آنکھیں گھما گھما کر سب کی طرف یوں دیکھا جیسے مددکی التجا کر رہا ہو۔ وہ بے یقینی سے بت بنے اس خون میں لتھڑے ہوئے چہرے کو گھور رہے تھے جو نہ صرف زندہ تھا بلکہ خون میں ڈوبی اس کی آنکھیں ان سب پر جمی ہوئی تھیں ۔اس کے حلق سے ویسی ہی چیخ نکلی جس نے رات کے سناٹے میں سب کو ہڑبڑا دیا تھا۔ ڈراؤنے خوب سے جاگنے والوں کی طرح، دوسرے ہی لمحے وہ حواس باختہ، چیخیں مارتے، گرتے پڑتے قبیلے کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔
زوردار چیخ نے پیچھے رہ جانے والوں کو لرزا دیا۔ لوگوں ابھی پہلی چیخ سے سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ چیخ وپکار کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ چندہی لمحوں کے بعد انہوں نے جانے والے جوانوں کو واپس قبیلے کی طرف سر پٹ یوں بھاگتے دیکھا کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں بھی ہتھیار نہیں تھا۔ یا تو وہ سب خوف کی وجہ سے ہتھیار وہاں چھوڑ کر جان بچا کر بھاگے آ رہے تھے یا کسی نے ان کے ہتھیار چھین کر انہیں نہتا کر کے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہیں اپنی طرف یوں آتے دیکھ سب میں کہرام مچ گیا۔ لوگ بے چینی سے آگے پیچھے ہو رہے تھے،جگہ بدل رہے تھے، ہاتھ مل رہے تھے۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے؟وہ اسی گومگو کا شکار تھے کہ اتنے میں کچھ تیز بھاگنے والے، ڈگمگاتے لڑکھڑاتے ان کے پاس آن گرے۔ جو پیچھے رہ گئے تھے انہیں بھاگ کر باقی لوگ اٹھا لائے۔ بےچینی لوگوں کے چہروں پر کھیل رہی تھی، ہر کوئی جلد ازجلد ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہاں ان کے ساتھ کیا پیش آیا۔ دہشت سے ان جوانوں کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ بھاگ کر آنے والے اور پیچھے رہ جانے والے کافی دیر تک سکتے کے عالم میں رہے۔ لوگوں کے گمان کے مطابق جب ان کے ہوش بحال ہوئے تو ایک بزرگ نے ان میں سے ایک نوجوان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ وہاں ان کے ساتھ کیا ماجرا پیش آیا؟ کوئی جواب دینے کی بجائے وہ نوجوان اسے خالی خالی نظروں سے گھورتا رہا۔ ہر کوئی بے تاب تھا کہ پتہ تو چلے آخر وہاں ایسی وہ کون سی چیز دیکھ آئے تھے، جس نے انہیں سر پٹ بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا بلکہ شدید صدمے سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ ان کی خاموشی سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کی قوت گویائی چھن گئی ہو۔ ہر کوئی سہما ہوا تھا۔ انہوں نے مشاورت سے طے کیا کہ ان نوجوانوں کو آرام کرنے دیا جائے۔ جب یہ خوف کی اس کیفیت سے باہر آئیں گے توسب کچھ خود ہی بتا دیں گے۔وہ بھی اپنے لڑکھڑاتے بھائی کو بمشکل سنبھالتا ہوا اپنے گھر لے گیا۔
شام تک اس نے زبان نہیں کھولی۔ اس کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑنے لگی۔ جسم اندرونی حدت سے دہکنے لگا۔ غمزدہ والدین اس کے سرہانے بیٹھے تھے لیکن وہ سب سے بےنیاز اوپر کہیں گھور رہا تھا۔ انہوں نے اس کی نظر کا بار بار تعاقب کیا لیکن سامنے دیوار کے سواوہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھے۔ وہ اس سے پوچھنے کی کوشش کرتا کہ ''وہاں کون سی چیز تھی جس نے تم سب کو یوں بھاگنے پر مجبور کر دیا''؟ وہ کچھ جواب دینے کی بجائے ہربار پوچھنے پر کراہنے لگتا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے یہ سوال اسے اور زیادہ تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہو۔ حیران کن بات یہ تھی کہ جسمانی طور پر ان میں سے کسی کو کوئی خراش تک نہیں پہنچی تھی، نہ ہی کوئی شے ان کے تعاقب میں آتی دکھائی دی، تو پھر ان سب نے وہاں کیا دیکھ لیا تھا جو ابھی تک بیان کرنے سے قاصر ہیں؟ اندر سے وہ بھی خوفزدہ تھا کیونکہ وہ جانتا تھا جب تک پتہ نہیں چلےگا کہ ان نوجوانوں نے وہاں کیا دیکھا کسی کو سکون نہیں آئےگا۔ اس کے بوڑھے باپ نے اسے مشورہ دیا کہ کیوں نہ اسے پیش گو کے پاس لے چلیں۔ ابھی اس کے باپ نے بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ وہ بھاگ کر اس کا پتہ کرنے جا چکا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہاں کچھ لوگ پہنچے ہوئے تھے۔ وہ بہت پریشانی کے عالم میں اپنے گھر کے احاطے میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر چکر لگائے جا رہا تھا۔ سب لوگ کے چہروں پر حیرانی اور پشیمانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ آج پہلی بار وہ اسے پریشانی کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔
ان کے پیارے گھروں میں سسک رہے تھے۔ وہ اس وقت تک وہاں سے اٹھ کر نہیں جا سکتے تھے جب تک وہ انہیں کوئی حل نہ بتاتا۔ رات گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر پریشانی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ دیے کی مدھم لو میں اس کا سایہ اس کی رفتار کا ساتھ دینے کے لیے عجیب عجیب ہےئتیں بدل رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بہت تھک گیا ہو لیکن اس کے چہرے کی گھمبیرتا کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ ابھی اس کا بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وقت جیسے تھم گیا تھا جتنے نوجوان بدحواس پڑے تھے سب کے قریبی عزیز وہاں جمع ہو چکے تھے۔
''ان میں سے کسی کو میرے پاس لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ آواز میں نے بھی سنی تھی، میں رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ تم لوگوں نے مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا، لیکن تمہارا بھی کیا قصور ہے، ایسا ہی ہونا تھا۔ یہ سارے کے سارے نوجوان کبھی بول نہیں سکیں گے۔ جب یہ بول نہیں سکیں گے تو ہمیں کیسے بتائیں گے کہ انہوں نے وہاں کیا دیکھا؟ اور کل کیا ہونے والا ہے کون جانتا ہے، تم سب لوگ ایک بڑی آزمائش کے لیے خود کو تیار کر لو۔ ہونی اپنی چال چل چکی ہے اور ہم سب مجبور ہیں۔اب تم اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔ تمہارے پیارے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ جلدی چلے جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔ بے =بسی مسیحا کے چہرے پر عیاں تھی۔''
رات کے پچھلے پہر سب اپنے گھروں کو پہنچے، وہاں صورت حال ناقابل بیان تھی۔ سب مریض رات بھر انگاروں کی طرح دہکتے اور تڑپتے رہے۔ ان کے لواحیقین کی حالت بھی ویسی ہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ مسیحا کے گھر سے مایوس لوٹے تھے۔ صبح تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ یہ گھروں میں ہونے والی پہلی اموات تھیں۔ ان کی موت سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ ''جومٹی پر مرتا ہے اسے مٹی ہی کے سپردکیا جانا چاہیے''۔ مسیحا نے یہ کہہ کر ان کا مسئلہ حل کیا۔ اس شام ان سب کو دھرتی کے حوالے کر کے سب قبیلے والے۔۔۔ پیش گو کے کہنے کے بہ موجب۔۔۔ کافی دیر سے ایک کھلی جگہ پر بیٹھے اس کے لب کھولنے کا انتظار کر رہے تھے۔
''یہ علاقہ چھوڑ جانے کے سوا اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر ہم یہاں رکے رہے تو چند دنوں تک ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچےگا۔ تم سب جانتے ہو کہ ہمارے یہاں کبھی کوئی بیماری سے نہیں مرا لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔ اب مجھ سے میرا اختیار چھین لیا گیا ہے ہماری نجات صرف یہاں سے نکلنے میں ہے۔ جو کچھ کل سے ہوا، یہ ایک عرصہ پہلے طے ہو چکا تھا اور میں سب جانتا تھا۔ لیکن مجھے اجازت نہیں تھی کہ میں لب کشائی کرتا۔ اگر تم لوگ میری بات نہیں مانوگے تو اس کا خمیازہ موت کی صورت میں تم سب کو بھگتنا پڑےگا۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ تمہارے پیارے سمندر کی لہروں کی نذر ہو جاتے تھے۔ تم ان کے مرے ہوئے چہرے نہیں دیکھ پاتے تھے لیکن اب تم سب ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے سسک سسک کر مروگے۔ کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کر پائے گا۔ہمارے پاس وقت بہت کم ہے جو بھی فیصلہ کرنا ہے مجھے مشورہ کرکے اس سے آگاہ کرو۔''یہاں تک کہہ کر وہ خاموشی سے سب کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔
رات کی سیاہی ابھی انگڑائی لے کر صبح کی دودھیا روشنی میں تبدیل ہونے کے لیے تگ و دو کر رہی تھی ۔ان لوگوں کے پاس سفر کے لیے صرف کشتیاں تھیں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی یوں صحرا کا سفر بھی کرنا ہوگا۔ چھوٹے بچے حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ جو شیر خوار تھے وہ ارد گرد سے بےنیاز اپنی اپنی ماؤں کے سینوں کے سے چمٹے ہوئے تھے۔ وہ پیدل چل رہے تھے۔ زمین پر یوں چلنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ تھا۔ کچھ لوگوں نے تھوڑا بہت سامان بھی اٹھا رکھا تھا جس میں اوڑھنے اور پہننے کو لباس، کھانے کی کچھ اشیاء وغیرہ شامل تھیں۔ قبیلہ پیش گو کی رہنمائی میں اس جگہ کے قریب سے گزر رہا تھا جہاں پچھلے دن انہوں نے مرنے والوں کو دبایا تھا۔ وہ جگہ تاریکی میں کسی کو دکھائی نہیں دی، ہر کسی کا ذہن پچھلے دن کے واقعے کی طرف تھا۔ یہ کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ؟ اس آخری چیخ کے بعد وہاں سے دوبارہ کوئی آواز نہیں ابھری کیا نوجوانوں نے اس پر حملہ کیا تھا؟ کیا وہ ماری گئی؟ اگر انہوں نے اسے مار دیا تھا تو یہ سب وہاں سے دہشت زدہ ہو کر بھاگے کیوں؟ کیا طاقتور شے ان کے جاتے ہی کمزور کو نگل کر ان پر حملہ آور ہو گئی تھی؟ اس کی آخری درد میں ڈوبی ہوئی چیخ سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا۔ لیکن اب اس واقعے اور ان سب کی موت سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ اپنی زمین کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دینے کا تھا۔ چند قدم صحرا میں نکل کر انہوں نے پلٹ کر آخری بار اپنے گھروں کی طرف دیکھا۔ اندھیرے میں کچھ زیادہ دکھائی نہیں دیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں ۔بہت غور کرنے سے سر جھکائے کھڑے مکانوں کے ہیولے سے دکھائی دیے جیسے وہ مسافروں کے چلے جانے پر بہت دکھ کے عالم میں ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر سب کے کلیجے منہ کو آ گئے۔ سسکیوں کی آواز یں ہر طرف سے آ رہی تھیں۔ تقدیر نے ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ صحرا میں سفر کریں گے یا صحرائی جانور کھائیں گے اور بلاآخر زمین پر مارے جائیں گے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ قافلہ خاموشی سے چلتا رہا۔ کسی بچے کے رونے کی آواز گونج اٹھتی تو کبھی کوئی کھانس کر گلا صاف کرتا یا کبھی کبھار کوئی سر گوشی اڑتی ہوئی محسوس ہوتی۔ قدموں کی دھپ دھپ کی آواز تھی جو بہت ردھم کے ساتھ اندھیرے میں سرسرا رہی تھی۔ جوں جوں صبح کے آثار واضح ہو رہے تھے، ان کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ کتنا سفر طے کر چکے تھے یہ تو وہ نہیں جانتے تھے لیکن اب وہ صحرا میں نہیں تھے۔ خوب دن چڑھے انہوں نے پلٹ کر ایک بار پھر اپنے مستقر کو محسوس کرنے کی کوشش کی لیکن اب وہ بہت دور نکل آئے تھے۔
بس پھر کیا تھا قافلہ چلتا رہا۔ جنہوں نے کبھی زمین پر قدم رکھ کر نہیں دیکھا تھا، جب ان کے پاؤں زمین سے آشنا ہوئے تو پھر رکے نہیں۔ جہاں بھی وہ پڑاؤ کرتے پیش گو انہیں مستقبل کی خبریں سناتا۔ وہ کئی کئی روز ایک جگہ پڑاؤ کرتے، عارضی سا قبیلہ آباد کرتے لیکن ان دیکھی منزل جلد ہی انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی اور ایک بار پھر وہ چلنے کر کمر کس لیتے۔حیرت انگیز بات یہ تھی راستے میں کوئی اور قبیلہ نہیں آیا۔جہاں وہ رکتے ان کے بچے وہیں پیدا ہوتے اور چند ان میں سے مر بھی جاتے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا کہ وہ کسی کی پیدائش کے لیے یا کسی کی موت کے انتظار میں پڑاؤ کرتے۔ جو جہاں مرتا اسے وہیں دفن کر دیتے۔ مرنے والے کا ماتم کرتے ہوئے اور پیدا ہونے والے کا جشن مناتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔کئی سال قافلہ چلتا رہا۔ پیش گو کے ساتھ ہوتے ہوئے انہیں کسی بات کا خوف نہیں تھا۔
سخت جاڑے کا زمانہ تھا۔ قافلے نے ایک جگہ پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ کچھ اپنے بستروں میں کروٹیں بدل رہے تھے تو کچھ خیموں کے درمیان دہکتے الاؤ کے گرد اپنی اپنی سوچوں میں گم بیٹھے تھے۔ پچھلے روز خوب بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے سردی کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ شام انہوں نے کئی جانور بھون کر کھائے تھے۔ جب سے وہ سفر پر نکلے تھے کھانے کو ایک سے بڑھ کر ایک لذیذچیز انہیں ملتی۔ طرح طرح کے جانوروں اور پھلوں سے وہ اپنے شکم سیر کرتے۔ آج جس جانور کا گوشت انہوں نے کھایا تھا وہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی لذت ہر کوئی ابھی تک اپنے حلق میں محسوس کر رہا تھا۔ شدید سردی کی وجہ سے پڑاؤ کچھ طویل ہو گیا تھا۔ وہ آگے بڑھنے کے لیے پیش گو کے حکم کے انتظار میں تھے کیونکہ ہر نئی جگہ پر کھانے کو پہلے سے بھی بہتر اشیا ملتیں۔ وہ ہچکیاں لیتی آگ کے گرد بیٹھے ان سوچوں میں گم تھے۔ اچانک اٹھنے والی سسکیوں کی آواز نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی جو بڑھتے بڑھتے دھاڑیں مار مار کر رونے میں بدل گیئں۔ آواز پیش گو کے خیمے کی طرف سے آرہی تھی۔ لمحہ بھر میں سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے لوگ اس خیمے کے باہر کھڑے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ انہوں نے کبھی پیش گو کو روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اندر جاکر رونے کی وجہ پوچھتا۔ تھوڑی دیر بعد کچھ اپنے خیموں میں چلے گئے اور کچھ وہیں کھڑے اس کے معمول پر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب کافی دیر وہ روتا رہا تو سبھی لوگ چلے گئے۔پیش گو کا اس طرح رونا کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ سارے بڑوں نے تمام رات خوف کے عالم میں گزاری۔
رات گزری یا نہیں کسی کو پتہ نہیں چلا۔ کہرا اتنا شدید ہو گیا تھا کہ چاروں طرف رات ہی رات تھی۔ الاؤ جلائے سبھی ایک بار پھر دائرہ بنائے اکٹھے ہو گئے۔ ہر سو خاموشی تھی ان میں سے چند ایک پیش گوکے خیمے کا چکر لگا آئے لیکن اب اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ نڈھال ہو کر سو گیا ہو۔ وہ کافی دیر بیٹھے اس کا انتطار کرتے رہے۔ جب وہ خیمے سے باہر نہیں نکلا تو انہیں تشویش لاحق ہو گئی۔ اتفاق رائے سے انہوں نے خیمے کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک نے آرام سے خیمے کا پردہ کھسکایا اندھیرے میں دیکھنے کے لیے اسے تھوڑی سی مشقت کرنی پڑی۔ ''یہ کیا خیمے میں تو کوئی بھی نہیں ہے، خیمہ خالی ہے''۔ اس نے تقریبا چیختے ہوئے پلٹ کر سب کو دیکھا۔ ان کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔مسیحا کہاں چلا گیا؟یہ کیا ہو گیا؟ہر کوئی ہکا بکا اور پریشان کھڑا تھا۔شدید سردی میں انہیں ٹھنڈے پسینے آرہے تھے ۔وہ اس کے بغیر سفر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔اس کی حیثیت قبیلے کے دماغ کی سی تھی ۔وہ بجھی ہوئی راکھ کے گرد بیٹھے تھے، کسی نے دوبارہ آگ جلانے کی کوشش نہیں کی۔ جب سے انہوں نے سفر شروع کیا تھا، وہ انہیں درست سمت میں لے کر چل رہا تھا۔ جب بھی ان میں سے کوئی اپنی مرضی سے کسی اور سمت میں جانے کی خواہش کرتا تو وہ اسے محبت سے سمجھاتا'' میں جانتا ہوں کس سمت میں سفر کرنا ہے''۔ اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے کسی کو کچھ سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اب جب کہ وہ کہیں غائب ہو چکا تھا، کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جو بات تکلیف دہ اور حیران کن تھی کہ وہ چوری چھپے کہاں چلا گیا؟ کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ ہم سب اس کے رحم و کرم پر ہیں؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے خدشات ان کے دماغوں میں پھنکار رہے تھے۔ سیاہی مائل دھند ہر طرف سے یوں آگے سرک رہی تھی جیسے سب کو نگل لینا چاہتی ہو۔ اب ہوا بھی چلنا شروع ہو گئی تھی۔ بیٹھے ہوؤں کے چہرے چھپ جاتے تو کبھی ظاہر ہو جاتے۔ تمام راستوں پر کہرے کا پہرہ تھا۔ ایسے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کہاں جانا ہے؟وہ کئی کٹھن راستوں سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔پیش گو کی حیثیت ان کی آنکھوں کی سی تھی جس کے بغیر وہ اندھے تھے۔ سب صدمے کی کیفیت میں تھے، موسم کی شدت سے بےنیاز، کسی ماہر سنگ تراش کے ہاتھوں تراشی ہوئی مورتیوں کی طرح، وہ زمین پر جمے بیٹھے تھے۔ ان کی عورتیں خیموں میں باہر کی سن گن لینے کے لیے بچوں کو تھپتھپاکر خاموش کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں ۔کتنا وقت اسی عالم میں گزر گیا کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان مورتیوں میں حرکت اس وقت پیدا ہوا جب انہیں ایک ہیولا سا اپنی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔ سب بیساختہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ کوئی اور نہیں غیب دان تھا۔ اس کے سر کے بالوں اور پورے جسم پر برف جمی ہوئی تھی۔ وہ کسی برفیلے علاقے کا باشندہ دکھائی دے رہا تھا۔ جو ان کے گمان میں لافانی تھا، کسی انجانے صدمے نے اسے لمحوں میں وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا۔ وہ کافی کمزور اور دبلا پتلا سا ہو چکا تھا، جیسے ایک عرصے سے بھوکا پیاسا ہو۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ پیش گو نہ ہو کوئی اور ہو۔ اس کی واپسی کی خوشی ابھی ان کے دلوں میں انگڑائی بھی نہیں لے پائی تھی کہ اس کی حالت نے انہیں اور زیادہ قابل رحم بنا دیا۔
اس نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا''میرا اور آپ کا ساتھ یہیں تک تھا۔ آگے کا سفر تم سب کو خود ہی طے کرنا ہے۔ تم لوگ کہاں جاؤگے یہ میں نہیں جانتا اور یہ کوئی نہیں جانتا لیکن تمہارے یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے میں تمہیں اس راز میں شامل کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے آج ہم سب اس کہرے میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ یہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر آج سے صدیوں بعد ایک قبیلہ آباد ہوگا۔ اس قبیلے کے کچھ لوگ ایک ہی رات میں ایک ہی خواب دیکھیں گے۔ وہ خواب جو صدیوں بعد دیکھا جائےگا۔ اس کی وجہ سے آج ہم سب دربدر ہیں اور یہ دربدری کا عذاب تم پر ہمیشہ کے لیے مسلط کر دیا گیا ہے۔ تم لوگ یونہی چلتے رہو گے کبھی کسی جگہ مستقل ٹھکانہ نہ بنا پاؤگے۔ وہ سار ے نوجوان اس بھیانک خواب کی وجہ سے مارے گئے جو کئی سو سال بعد دیکھا جائےگا۔ خواب وقت کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ کہیں وہ انسانی دماغ کے اندر ہے تو کہیں انسان خواب میں جا گھستا ہے۔ ہمارے سارے نوجوان خواب کی وادی میں جا گھسے تھے۔ ہماری کل کائنات ہمارا قبیلہ اور پانی تھا۔ انہیں کسی بھی صورت ان دیکھی جگہ نہیں جانا چاہیے تھا۔ ان دیکھی جگہیں سربستہ رازوں کی طرح ہوتی ہیں اور جو بھیدوں کی کھوج میں نکلتے ہیں کبھی اپنے آپ میں نہیں رہتے ۔جب وہ گئے تو ہمارے تھے لیکن جب واپس آئے تو خواب کے ہو چکے تھے۔ اگر ان کی گویائی نہ چھن جاتی تو ایسا کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس خواب نے ہمارے قبیلے کے صدیوں پرانے دستور کو ملیا میٹ کر دیا۔ تم لوگ یونہی چلتے رہوگے ۔تم میں سے جو مر جایا کریں گے صرف وہی سفر کے عذاب سے بچ سکیں گے۔''
جوں جوں وہ بات کرتا جا رہا تھا لوگوں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ سب اس کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے رات کوئی بہت ہی بھیانک خواب دیکھا ہے جس کی وجہ سے وہ لا یعنی باتیں کر رہا ہے۔ وہ خواب جو صدیوں بعد دیکھا جائےگا، وہ ہمارے آج پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ نہ ہی پیش گو ہمیں بتا رہا ہے کہ نوجوانوں نے وہاں کیا دیکھا؟ وہ چیخیں کس چیز کی تھیں اور ان کی واپسی کے بعد ختم کیوں ہو گئی تھیں؟ اگر اس کے پاس ان کا علاج نہیں تھا تو اس کا مطلب یہ تھاکہ وہ اب ہمارے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ قبیلے سے نکلنے کے بعد بھی تو تسلسل سے اموات واقع ہو رہی تھیں، تو پھر اس کی بات مان کر انہیں سفر پر نکلنے کا فائدہ کیا ہوا؟ سبھی کو یہ پچھتاوا لاحق ہونا شروع ہو گیا کہ انہو ں نے اپنا علاقہ چھوڑا ہی کیوں؟ آج پہلی بار انہیں یوں محسوس ہو اجیسے وہ آنکھیں بندکرکے اس کی بات ماننے کی سنگین غلطی کر بیٹھے ہوں ۔دھند اوریخت بستہ ہوائیں انہیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔ان کے ہونٹ ٹھنڈ کی وجہ سے نیلے پڑرہے تھے۔ اس رات سردی کی وجہ سے مسیحا سمیت کئی لوگوں کی موت واقع ہو گئی۔ باقی بچ جانے والوں نے انہیں وہیں دبایا جیسے وہ پہلے مرنے والوں کو دباتے ہوئے آ رہے تھے۔ رات اور کہرے کا تمام راستوں پر پہرہ تھا۔ سمت کا اندازہ کسی کو نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کوئی جانتا تھا کہ پیش گوکا ارادہ کیا تھا۔ مشاورت کے بعد وہ ایک ایسے راستے پر چل نکلے جو ان کے گمان میں ان کے علاقے کی طرف جاتا تھا۔
اسی رات تعبیر کنندہ کی موت واقع ہو گئی ۔خواب دیکھنے والوں پر اس کی موت کا بہت گہرا اثر ہوا۔ ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ ہو نہ ہو ان کے خواب کا اس کی موت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس کی موت نے انہیں جھجھوڑکر رکھ دیا۔ لوگ تعبیر سننے کے کافی دیر بعد تک وہاں بیٹھے رہے تھے۔ جب معبر وہاں سے اٹھ کر گیا تو باقی لوگ بھی اپنے گھروں کو چل دیے۔ وہ رات سب نے جاگ کر گزاری۔ ہر کسی کو اپنا بھیانک چہرہ ویسے ہی نظر آ رہا تھا جیسا انہوں نے خواب میں دیکھا تھا۔ تمام رات جاگتے رہنے کی وجہ سے ان کی طبیعت بہت خراب ہو چکی تھی۔ اگلے دن ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں تھا۔ کسی نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا خواب دیکھا یا تعبیر کنندہ نے انہیں کیا بتایا۔ جب وہ تمام رات نہیں سوئے تو ان کے عزیز و اقارب کو فکر لاحق ہوگئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟۔ اس کے بہن بھائیوں نے کرید کرید کر اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا معاملہ ہے جو آپ کو رات بھر نیند نہیں آئی؟ لیکن اس کے پاس ان کی ہمدردیوں کے جواب میں سوائے لمبی چپ کے کچھ نہیں تھا۔ ہر گھر میں یہی صورت حال تھی۔ شام تک ان کے جسم تھکاوٹ سے شل ہو چکے تھے۔ آج رات وہ بے خوف ہو کر سونا چاہتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اس رات تو اکڑاؤ کی وجہ سے ان کے پپوٹے بھی کم کم ہی مل رہے تھے۔
جوں جوں دن گزر رہے تھے ان کی حالت بگڑتی ہی چلی جا رہی تھی۔ان کی آنکھیں ہر دم کھلی رہتیں وہ رات بھر بےحس وحرکت پڑے رہتے۔ وہ جس کروٹ لیٹے یا جس زاویے سے بیٹھے ہوتے اسی سمت میں گھورتے رہتے۔ بعض اوقات ان کے عزیز انہیں ہلا جلا کر دیکھتے لیکن وہ ساکت پڑے رہتے جیسے سو رہے ہوں۔ لیکن ان کی آنکھیں ہر دم کھلی رہتیں۔ رات کے کسی پہر ایک زور دار آواز پوری آبادی میں گونج اٹھتی ''بھاگو قافلہ آ گیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو ہم سوئے رہ جائیں اور قافلہ گزر جائے ،قافلہ آ گیا، قافلہ آ گیا''۔ جو شخص بھی اس قسم کی آوازیں نکالتا اس کے پاس سوئے ہوئے اٹھ کر اسے دیکھتے تو وہ ویسے ہی گھور رہا ہوتا جیسے آواز اس کے منہ سے نہ نکلی ہو بلکہ کہیں اور سے آئی ہو۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کوئی شخص دن کے وقت چلتے پھرتے بھی اس قسم کی آوازیں نکالنا شروع کر دیتا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے دوسرے لوگ بھی قافلے کے آنے کی نوید سنا دیتے۔
سارا دن وہ آبادی میں گھومتے رہتے۔ آنکھیں مستقل کھلی رہنے کی وجہ سے سوزش کا شکار ہو گئی تھیں بلکہ۔ کسی کو کھانے پینے کا ہوش نہیں تھا۔ وہ دن رات پھرتے رہتے۔ آہستہ آہستہ ان کے لیے موسموں کے بدلنے کا تصور بھی ختم ہو گیا تھا۔ وہ کڑکڑاتی سردی اور آگ برساتے سورج کی حدت سے بےنیاز پھرتے رہتے ۔باقی رہ جانے والوں کے لیے انہیں سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ لوگوں کو ان سے وحشت ہونے لگی تھی۔ ان کے چہرے اتنے بھیانک ہوتے جا رہے تھے کہ لوگ ان سے ڈرنے لگے تھے۔بڑھے ہوئے بال، پھٹے ہوئے ہونٹ، پھیلی آنکھوں سے رستا ہوا خون، یہ سب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ اکثر وہ اکیلے ہی پھرتے رہتے لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ تما م اکٹھے ہو جاتے اور ایک قافلے کی صورت آبادی کے گرد کسی نہ آنے والے قافلے کی تلاش کرتے رہتے۔ انہیں اس طرح شب وروز گھسٹتا دیکھ کر باقی لوگوں کی حالت بھی بگڑنا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کوشش کرتے کہ بچے انہیں دیکھنے نہ پائیں۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روز یہ سب تعبیر کنندہ کے گھر جمع کیوں ہوئے؟ آخر اس نے ان سے ایسی کون سی بات کہہ دی جو ان کی یہ حالت ہو گئی ہے؟یہ لوگ ایسا کون سا بھیانک خواب دیکھ بیٹھے ہیں جس نے نیند کو ان سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے اور یہ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟ وہ جلد از جلد اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دوسروں کو اپنی اس سوچ میں شریک کرتے۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ قافلہ، قافلہ پکارنے والے عذاب میں مبتلا ہیں یا ہم سب ان کی وجہ سے کوئی ان دیکھی آزمائش جھیل رہے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے تشویشناک خیا لات ہردم ان کے ذہنوں میں گھومتے رہتے۔ بعض لوگ تو ان نیم پاگل لوگوں پر رشک کرتے جو اردگرد سے بے نیاز جہاں دل کرے آ جا سکتے تھے۔
باقی لوگوں کی نیندیں بھی اڑ گئی تھیں۔ را ت بھر قافلہ قافلہ پکارنے والوں کے بھیانک چہرے آنکھوں میں گردش کرتے رہتے۔ کسی انجانے خوف سے کوئی ان کے بارے میں برا نہ سوچتا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ خود بھی اسی عذاب میں مبتلا ہو جائے۔ لوگ اپنے کام کاج بےدلی سے کرتے ۔زندگی میں ان کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اب تو انہیں بھی یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی قافلہ سچ مچ آنے والا ہے جو ان کی نجات کا سبب بنےگا۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کوئی قافلہ کہیں سے نہیں آنے والا۔ اس عذاب کو جھیلتے کئی موسم گزر گئے۔ وہ لوگ جنہیں اپنے پیاروں پر پہلے پہل ترس آتا تھا اب ان سے بےنیاز ہو گئے تھے۔
ایک بار پھر سردی کا موسم آن پہنچا تھا۔ یخ بستہ ہواؤں اور بوندیں ٹپکاتی دھندنے شب وروز کی تفریق مٹا دی تھی۔ لوگ سردی آنے سے پہلے زیادہ تر اور کبھی عین موسم کے دوران میں بھی حسب ضرورت، لکڑیوں کا انتطام کر چھوڑتے اور سارا جاڑا دہکتی آتش کی سنگت میں گزارتے ۔آبادی جس جگہ واقع تھی وہاں پھلوں کی بہتات تھی۔ دو تین کوس کے فاصلے پر بلند و بالا پہاڑ تھے جہاں ہزاروں کی تعداد میں پھل دار درخت تھے۔ پھلوں سے لدے درختوں دیکھ کر لگتا جیسے پہاڑ پھل اگلتے ہوں۔ پہاڑوں پر کھڑے ہوکر دور زندگی کے آثار دیکھے جا سکتے تھے لیکن یہ لوگ باقی دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں کبھی دوسری دنیا سے ربط بڑھانے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔
ایک سیاہی مائل دھندلی صبح جب لوگ ابھی بستروں پر کروٹیں بل کرباقی ماندہ نیند پوری کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ایک دم اٹھنے والے شور اور چیخ وپکار نے ان کی تمام محنت پر پانی پھیر دیا۔ یہ تمام وہ لوگ تھے جن کے گھروں میں خواب دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی انہیں دکھ صرف اس بات کا تھاکہ وہ نیند کے ٹوٹتے ہوئے نشے سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہو سکے۔
ہوا دراصل یہ تھا کہ تمام نیم پاگل گھروں سے نکل بھاگے تھے ۔آج جو کچھ ہوا وہ معمول سے ہٹ کر تھا پہلے وہ تمام مایوسی کے عالم میں پھرتے رہتے۔ آج جیسے انہیں کوئی کشف ہوا ہویا سب نے کوئی ایک جیسا خواب دیکھا ہو۔ وہ سب قافلہ آگ یا، قافلہ آ گیا، بھاگو بھاگو ،جلدی بھاگو، اس عذاب سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کے لیے جلدی بھاگو ''کہتے ہوئے درختوں کے جھنڈ کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ ان کی آواز میں اعتماد اور یقین تھا جیسے سچ میں آج کوئی قافلہ آ گیا ہو۔
افراتفری کا عالم تھا کسی کو کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ بھی ان بھاگنے والوں میں شامل تھا جن کے اپنے کسی قافلے کی تلاش میں دوڑے جا رہے تھے۔ آگے جانے والوں میں اس کا باپ بھی تھا۔ کوئی بیٹے کے لیے، کوئی باپ کی وجہ سے تو کوئی بھائی کی خاطر بھاگ رہا تھا۔ اندھیرا اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن پیچھے والوں کے لیے آگے والوں کو دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ وہ آوازوں کے تعاقب میں اندھا دھند بھاگے جارہے تھے۔ اچانک اگلوں کی آواز آنا بند ہو گئی جیسے وہ رک گئے ہوں۔ پیچھے جانے والوں نے بھی اپنی رفتار دانستہ کم کر لی۔ اب ان کے سائے آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو گئے۔ سار امنظر آنکھوں کے بالکل سامنے تھا اور ان تمام لوگوں کے ہوش اڑانے کو کافی تھا جو ان کے پیچھا کرتے، اس ویرانے میں آن پہنچے تھے۔جہاں وہ سب پتھر بنے کھڑے تھے وہاں مٹی کی ڈھیریاں تھیں جنہیں دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ مرے ہوؤں کو یہاں دفن کیا گیا تھا۔ ایک بجھا ہوا لاؤ بھی تھا جس پر کہرا جم چکا تھا۔ ارد گرد ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان ہڈیوں پر بھی کہرے کہ دبیز تہیں جمی ہوئی تھیں۔ خواب دیکھنے والے ان قبروں پر سکتے کے عالم میں کھڑے تھے اور آبادی کے جونوجوان وہاں تک آن پہنچے تھے ،،کبھی قبروں کو، تو کبھی ا ن کو جو ایک عرصہ سے قافلہ، قافلہ کر رہے تھے ،،بت بنے دیکھ رہے تھے۔اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہاں خیموں کی ایک بستی عرصہ سے آباد رہی تھی۔ ان میں سے کچھ لوگ کسی وجہ سے مارے گئے اور باقی وہاں سے کوچ کر چکے تھے۔ پچھلوں کو ہوش تب آیا جب خواب دیکھنے والوں نے بین شروع کر دیا اور ایک سمت کوبھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کی آہیں اور سسکیاں مدھم ہوتے ہوتے معدوم ہو گئیں لیکن کھڑے ہوؤں کووہ اپنے وجود کی گہرائی میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
باجود کوشش کے اس کے پپوٹے آپس میں نہیں مل رہے تھے۔ حیرت سے اس کی آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں بالکل ویسے ہی جیسے اس کے باپ کی تھیں۔ جس کے قدموں کی دھمک وہ اب بھی اپنے دما غ میں محسوس کر رہا تھا۔ وہ کوچ کر جانے والے قافلے کی باقیات میں کھو گیا۔ قبروں کی حالت بہت خستہ تھی ۔جیسے صدیوں پہلے مرے ہوئے یہاں دفن ہوں۔ کچھ قبروں پر گھاس اگی ہوئی تھی، کچھ کی مٹی زمین کے برابر تھی اور کچھ چھوٹے چھوٹے گھڑوں میں تبدیل ہو چکی تھیں جن میں بارش کا پانی جمع تھا۔ مٹی تلے دبے ہوؤں کے احساس نے اس کی ہڈیوں کو یخ کر دیا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی زندوں کو یہاں دفن کر گیا ہو۔ قافلے نے ایک لمبا عرصہ یہاں پڑاؤ کیا تھا۔ اس بات پریقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ کل شام تک یہاں کچھ بھی موجودنہیں تھا۔ پچھلے روز سارا دن بارش ہوتی رہی تھی۔ ہلکی بارش نے چاروں طرف ایک چادر ضرور تان رکھی تھی لیکن وہ اتنی دبیز نہیں تھی کہ اس کے پار نہ دیکھا جا سکتا ہو۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک قافلہ آبادی کے اتنا قریب پڑاؤ کرے اور کوچ بھی کر جائے لیکن کسی کو خبر تک نہ ہو؟ انہوں نے رات کے کس پہر یہاں ڈیرے ڈالے؟ بھاگنے والے نیم پاگلوں کو کس نے اطلاع دی؟ جاگنے والوں کا اس قافلے سے کیا تعلق تھا؟ اگر یہ قافلہ ایک عرصے سے یہاں آباد تھا تو جاگنے والے آج رات ہی بھاگ کر یہاں کیوں آئے؟ لیکن کل شام تک تو یہاں کچھ بھی نہیں تھا؟ ایک لمحے میں سینکڑوں خیالات اس کی طرف لپکے اور اسے بے یار ومددگار چھوڑ گئے۔ ایک لمحے کو کلیجہ اچھل کے اس کے حلق میں آ گیا۔ وہ تو وہاں اکیلا کھڑا ہے، اس کے آس پاس کوئی نہیں ہے۔ یہ سوچ کر اس کی روح لرز اٹھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے نظریں گھما کر دیکھا تو اسے کچھ تسلی ہوئی۔ وہ سارے بھی وہیں کھڑے تھے۔ ان سب کی حالت بھی ویسی ہی تھی جیسی اس کی تھی۔ کسی کو پاس کھڑے ہوؤں کا احساس نہیں تھا۔ وہ پھٹی آنکھوں سے ان قبروں کو دیکھ رہے تھے۔ خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ وہ واقعی ان کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ پورے ہوش وحواس میں ہیں۔ ایک رات میں کتنے دن اور راتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن انہیں خبر تک نہ ہوئی؟ پچھتاوا زن سے انہیں چھو کر گزر گیا۔ وہ بھاگنے والوں کے پیچھے بھاگے ہی کیوں تھے؟ گھروں سے وہ ہڑبڑاہٹ کے عالم میں نکل دوڑے تھے۔ انہی کپڑوں میں جن میں وہ لحافوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ان کے پسینے سے بھیگے ہوئے بدن اب ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ ننگے تلوؤں کے راستے زمین کی یخ بستگی ان کے دماغوں میں اپنے دانت پیوست کر چکی تھی۔تھوڑی دیر پہلے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے موسم صاف ہو جائےگا اور آج سورج نکل آئےگا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ہوا کے مرغولے دھند کی بدلیوں کو ان دیکھی وادیوں سے کھینچ لائے تھے۔ لمحہ لمحہ گہری ہوتی دھند انہیں اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے یا پیچھے نہیں ہل سکا۔ وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ ہمیشہ ادھر ہی کھڑے رہیں، قافلہ، قافلہ پکارنے والوں کے پیچھے جائیں یا کہ واپس لوٹ جائیں؟
وہ اپنے آپ کو اطراف میں بکھرتا ہوا محسوس کررہے تھے۔ ہر کسی کو دوسرا کھڑا ہو اشخص ہیولا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ان کے پپوٹوں پر برف کی تہیں جمتی جا رہی تھیں۔ جن کی آنکھیں کچھ دیر پہلے حیرت سے پھٹ پڑی تھیں ان کے لیے اب پلکیں اٹھانا دوبھر ہو رہا تھا۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دھیرے دھیرے بینائی کھو رہے ہوں۔ اس نے ہمت کر کے دوسروں کی آنکھوں میں دیکھنے کی آخری کوشش کی۔ قبروں کی تعداد ان کی تعداد کے برابر تھی اور بھاگنے والے بھی اتنے ہی تھے، جتنے وہ کھڑے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.