قہر درویش
کولتار کی سیاہ سڑک تاحد نظر پھیلی چلی گئی تھی اور کلوکا تانگہ نیم ہموار راستے پر چرّخ چوں، چرّخ چوں کرتا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ ’’ہٹ ٹخ ٹخ، ہٹ چل بیٹا جلدی چل، گاڑی کا ٹیم ہو گیا ہے۔ ہٹ، ارے چل سسری، سواری چھوٹ گئی تو بھوکے مرنا ہوگا۔ ہٹ، ٹخ ٹخ ٹخ‘‘۔
کلو مسلسل باتیں کیے جا رہا تھا اور اس کا بایاں ہاتھ لگام کے ساتھ میکانکی انداز میں ہل رہا تھا۔ داہنے ہاتھ میں چابک ایک مخصوص حلقہ بناتا ہوا گھوم رہا تھا اور کبھی کبھی جب یہ دائرہ ٹوٹتا توشپاک کی آواز مریل گھوڑی کی ننگی پیٹھ پر چپک جاتی۔ ایک لمحہ کے لیے گھوڑی کے بدن میں ایک لہر سی اٹھتی مگر اس کی چال میں کوئی فرق نہ آتا جیسے اس کے جسم اور چابک میں ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہو چکا ہو۔
تانگے پر دو سواریاں بیٹھی تھیں۔ ایک مولوی صاحب تھے، جن کے ہاتھ میں چھتری تھی اور وہ زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے۔ پتہ نہیں صحیح سلامت اسٹیشن تک پہنچنے کی دعا مانگ رہے تھے یا کسی وظیفے کا وِرد کر رہے تھے۔ ان کے بغل میں ایک دیہاتی مَیلی دھوتی پہنے بیٹھا تھا۔ اس کے بالوں سے تیل کی ٹپکتی ہوئی دھار اور منہ میں دَبے پان کی سرخی کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہ تھی کہ وہ سسرال جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گُڑ کی مٹھائی کی پوٹلی اس بات کی مزید تصدیق کر رہی تھی۔ سیاہ رنگت پر آئی ہوئی چمک سے بھی عیاں تھا کہ وہ اپنی نئی نویلی بیوی کو رخصت کرانے جا رہا تھا۔ تانگے کی سست رفتاری کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔
’’بھیا جرا تیز چلو۔ گاڑی کاٹیم ہو گو اہے۔ گاڑی چھوٹ گئی تو مشکل ہوئی جائی‘‘۔
کلو کا چابک والا ہاتھ اور تیزی سے گھومنے لگا اور وہ بڑبڑایا ’’چل ہی تو رہے ہیں، ٹانگا ہے کوئی ہوائی جہاز تھوڑی ہے‘‘۔ چل رے بیٹا۔ ٹخ ٹخ ٹخ گاڑی کاہے چھوٹے گی بھیا‘‘۔ ہٹ ہٹ۔ ارے ذرا دیکھ کے بھائی سنبھال کے بیٹا۔ ہٹ ہٹ۔
کلو کی مسلسل بکواس اور تانگے کے ہچکولوں سے اُکتا کر مولوی صاحب بول اٹھے:
لاحول ولا... کیا واہیات سواری ہے۔ اچھا ہوتا کہ مینی بس سے چلے جاتے۔ آرام بھی ہوتا اور اب تک پہونچ بھی جاتے۔
مولوی صاحب کی جلی کٹی سن کر کلو کو اور تاؤ آ گیا۔ ’’ارے تو ہم کیا کریں مولوی صاحب۔ دیکھ نہیں رہے کتنا مار رہے ہیں گھوڑی کو۔ اب کیا جان سے مار دیں‘‘۔ اور یہ کہتے ہوئے کلو نے لگاتار شڑاپ شڑاپ چابک برسانے شروع کر دیے۔ گھوڑی اس پیہم بوچھار سے گھبرا کر اچھلنے لگی اور اچانک کلو کی نگاہ گھوڑی کی پیٹھ کے اسی زخم پر چلی گئی جس پر چابک کی بوچھار نے ستم ڈھایا تھا اور اس سے تازہ خون رِسنے لگا تھا۔ کلو کا ہاتھ رُک گیا اور اسے بے ساختہ اپنی گھوڑی پر رحم آ گیا۔ گھوڑی جو پچھلے پانچ برسوں سے اس کی رفیق تھی، رازق تھی، ہمدم تھی۔ اپنی بےدردی پرکلو کو بےحد دکھ ہوا اور وہ دھیرے دھیرے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ ارے نہیں بیٹا، غلطی سے مار دیا۔ چل چل، ہٹ ہٹ۔ گسّے میں سسری کو مار دیتے ہیں۔ اَرے تو ہی تو ہم غریب کا سہارا ہے۔ ذرا جلدی چل بیٹا۔ ہے شاباش... ہے شاباش ... اتنے میں پیچھے سے مینی بس کی پوں پوں سنائی دی اور کلو نے جلدی سے اپنا ٹانگہ بائیں کر لیا۔ دھول اڑاتی ہوئی منی بس ایک زناٹے سے آگے نکل گئی اور کلو بڑبڑانے لگا۔ اڑا لو دھول۔ تم نے تو ہماری تکدیر پر ہی دھول اُڑا دی ہے۔
کلو سوچنے لگا کہ جب سے سرکار نے منی بس چلوائی ہے، اس کی آمدنی آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔ لوگوں کو جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ بس میں آرام دہ گدے ہوتے ہیں۔ سواریاں پھر تانگے پر کیوں بیٹھنے لگیں۔ وہ تو دو بسوں کے درمیانی وقفے میں اتفاق سے اگر کوئی سواری مل جاتی ہے تو کچھ پیسے بن جاتے ہیں ورنہ اکثر تو صبح سے دو پہر ہو جاتی ہے اور اسے ایک بھی سواری نہیں ملتی۔ کتنی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ تانگہ بیچ دے اور کوئی دوسرا کام شروع کر دے مگر ہر بار وہ یہ سوچ کر چپ رہا کہ خاندانی پیشے کو اس عمر میں چھوڑنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔
کلو کی نگاہ دوبارہ گھوڑی کی پیٹھ کے رستے ہوئے زخم پر پڑ گئی جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور وہ سوچنے لگا کہ آج شام وہ ہسپتال سے اس کے لیے دوا لائے گا مگر کلو تو روز ہی ایسا سوچتا تھا مگر شام کو جب پیسوں کا حساب لگاتا تو آٹا چاول لینے کے بعد مشکل سے اس کے پاس گھاس اور ایک بنڈل بیٹری خریدنے کے پیسے بچتے تھے۔ بلکہ اکثر تو بیٹری اس کو ادھار ہی لینی پڑتی تھی۔ اس کا بیٹا چھوٹو دن بدن سوکھتا جا رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اس کو سوکھے کی بیماری ہو گئی ہے فوراً ڈاکٹر کو دکھا کر انجکشن لگوانا چاہیے مگر کلو ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال جاتا تھا کہ ’’اللہ چاہے گا تو سب یونہی ٹھیک ہو جائےگا۔ حالانکہ یہ کہتے وقت وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ انجکشن لگوانے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اسی لیے وہ ’’اللہ میاں‘‘ کو درمیان میں لا کر خود کو سبکدوش کر رہا ہے۔ اور چھوٹو کی ماں .....دفعتہ کلو کا ذہن دس سال پہلے کی ریحانہ کی طرف منتقل ہو گیا جسے وہ بڑے ارمان سے بیاہ کر لایا تھا۔ ریحانہ کی جوانی، اس کا گٹھا ہوا جسم، گہری بڑی بڑی کالی آنکھیں کلو کو مدہوش کر گئی تھیں اور دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ کلو نشہ کرنے لگا ہے۔ شام کو وہ اکثر جلد ہی گھر لوٹ جاتا تاکہ ریحانہ کی کھلی ہوئی بانہوں میں دن بھر کی تکان دور کر سکے۔ اس کے ساتھ ہی ریحانہ کی موجودہ صورت بھی اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھیں، ہڈیوں کا ڈھیر، خود کلو کی جوانی کو بھی غربت اور سخت محنت نے گھن لگا دیا تھا۔ اس کی کمر میں ابھی سے خم آ گیا تھا۔ ریحانہ کا تصور آتے ہی اس کے من میں ایک ٹیس سی اٹھی اور اس نے چاہا کہ آنکھیں بند کر لے۔ مگر اسٹیشن قریب آ چکا تھا اور بھیڑ بڑھ گئی تھی اس لیے وہ آنکھیں بھی بند نہیں کر سکا۔ رات کے دس بجے تھکا ہارا کلو گھر پہنچا تو چھوٹو رو دھو کر سو چکا تھا۔ کوٹھری کے دروازے پر جلتے ہوئے چراغ کی مدھم روشنی میں ریحانہ بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ نیم تاریکی میں ریحانہ کا مدقوق چہرہ اسے انتہائی ڈراؤنا دکھائی دے رہا تھا۔ گھوڑی کو باندھ کر جب وہ کوٹھری میں داخل ہوا تو ریحانہ اس کا کھانا نکال چکی تھی۔
دال چاول اور آلو کا بھرتہ کھاتے ہوئے کلو کا دماغ دس برس پہلے کی ریحانہ کے تصور میں گم تھا۔ بار بار وہ ریحانہ کی طرف دیکھتا جو بیٹھی اسے پنکھا جھل رہی تھی۔ کیا ہو گیا اسے۔ کلو سوچنے لگا۔ کہاں گئی وہ ریحانہ جس کی سڈول بانہیں اور گہری آنکھیں اسے دیوانہ بنائے رکھتی تھیں اور ہر شام وہ بھاگتا ہوا گھر پہنچتا تھا تاکہ اسے جی بھر کر پیار کر سکے اور آج۔ اب تومہینے گزر جاتے تھے۔ اکثر سواری کے انتظار میں وہ اسٹیشن پر ہی سو جاتا تھا اور اگر رات میں گھر لوٹتا بھی تھا تو اس قدر تھکا ہوا ہوتا تھا کہ اس کا جسم نیند کے لیے بے چین ہوتا اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ پلنگ پر دراز ہو جاتا۔
مگر آج کلو کو ریحانہ پر بےساختہ پیار آ رہا تھا۔ اس کا جی چاہا، وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اتنا پیار کرے، اتنا پیار کرے کہ پچھلے کئی ماہ کا سارا قرضہ ایک رات میں ہی اتر جائے۔ وہ بار بار پیار بھری نظروں سے ریحانہ کی طرف دیکھ رہا تھا جو اپنی پھٹی پرانی ساری میں سمٹی بیٹھی تھی۔ کلو کی نگاہوں میں اس کی دس سال پہلے کی شبیہ اُبھر آئی۔ بھرا ہوا جسم، گہری آنکھیں، کِھلے رخسار۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ریحانہ دوبارہ جوان ہو گئی ہو۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ جلدی جلدی کھانا ختم کر کے وہ ریحانہ کے قریب آ گیا اور اس نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ پھر اس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ریحانہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو اس کی چھاتی سے چمٹی ہوئی تھی۔ ریحانہ کی آنکھوں میں پرانی چمک واپس آ گئی تھی اور تشنگی کی سرخ لکیریں ابھر آئی تھیں۔ وہ بھی تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ کلو کو ایسا لگا جیسے وقت پیچھے کی طرف لوٹ گیا ہے اور نئی نویلی دلہن دوبارہ اس کی آغوش میں آ گئی ہے۔ ریحانہ کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور اس کی نگاہیں جھک گئی تھیں۔ کلو کی سانس تیز تر ہو گئی مگر اس کا یہ خواب بہت دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ یکایک اسے شدید تمازت کا احساس ہوا۔ ریحانہ کے جسم کی گرمی سے وہ مانوس تھا مگر یہ گرمی تو کچھ اور ہی تھی۔ یہ سمجھنے میں اسے دیر نہ لگی کہ ریحانہ بخار سے تپ رہی ہے۔ جذبات کی شدت نے ریحانہ کو بےبس کر دیا تھا۔ لیکن اچانک ہی کلو نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ اس کا سارا جسم اچانک برف کی طرح سرد پڑ گیا۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اس پر اچانک ہی یہ انکشاف ہوا کہ وہ قبل از وقت بوڑھا ہو چکا ہے اور پیار کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ ایک شدید جھلّاہٹ اس پر طاری ہوگئی اور اس نے جھٹکے سے ریحانہ کو پرے ڈھکیل دیا۔ تاریک کوٹھری میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا، اس لیے وہ کوٹھری سے باہر چلا گیا۔
کوٹھری سے باہر کلو کی گھوڑی آنگن میں کھڑی تھی۔ اس کے پڑوسی جمن تانگے والے کا گھوڑا کھڑا بڑے پیار سے گھوڑی کی گردن چاٹ رہا تھا۔ چند لمحے کلو ان دونوں کو گھورتا رہا۔ دفعتہ اس کا خون ابلنے لگا اور وہ چابک لے کر دوڑا۔ گھوڑا اس اچانک حملے کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا مگر گھوڑی تو کھونٹے سے بندھی تھی۔ کلو اپنی پوری طاقت سے گھوڑی پر چابک برسانے لگا۔ شراپ شراپ کی آواز رات کے سناٹے میں گونجتی رہی اور کھونٹے سے بندھی گھوڑی اس اچانک بوچھار سے پریشان ہو کر زور زور سے ہنہنانے لگی۔ اچانک کلو کا ہاتھ رک گیا... مگر... دوسرے ہی لمحے اس کا چابک خود اس کے جسم پر نشان بنانے لگا۔ اس پر جنون سا طاری ہو گیا تھا۔ اپنے جسم پر چابک مارتے مارتے وہ نڈھال سا ہو گیا۔ مگر ساتھ ہی اسے ایک عجیب قسم کی آسودگی کا احساس ہوا اور اس نے گھوڑی کی گردن میں بانہیں ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.