قلم کی امامت
مرمری سے دودھیا جبہ و سیہ عمامہ میں مستور وہ نوجوان کسی عمیق فکر کے زیرِ اثر ماحول پہ تنے سکوت کا اک ساکن حصہ محسوس ہوتا تھا۔ کنپٹی پہ رگیں سوچ کی پکی گانٹھ سے بندھی رکھی تھیں، دندان تلے دبے دندان، جبڑوں کے ابھاروں کو کسی مصور کی کھنچی لکیروں کی طرح واضح کئے دیتے اور بھینچی ہوئی مٹھیاں اپنا ہی کلیجہ مسوسنے پہ مقرر تھیں۔ وہ غرناطہ کی ذیشان آفاق چوٹی ملحسن پہ کھڑا, رفیع الشان محل الحمرا کے بیچوں بیچ محوِ استراحت فوارۂ اسد کو تکے جا رہا تھا- جو اپنے مکینوں اور زمانوں کی دریا بٌرد ہو چکی تہذیب پہ خاموش نوحے گنگنا رہا تھا۔ یکایک ہما کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے چپ کی دبیز تہہ پہ جلترنگ رنگ گلال سا مل دیا، عین اسی ایک لمحے میں کمان سی تنی ابرو تلے دمکتی پٌر تفکر نگہ کا زاویہ بدلا اور نوجوان نے اپنے قدموں کے قریب ایک رقعہ دیکھا، وہ جھکا اور رقعے کی تہہ کھولکر پڑھا تو سیہ روشنائی میں ایک پیغام تحریر بند تھا-
اے ابن امیرِ حمزہ!
سلامتی ہو تیرے آباء و آل پہ، ترے اجداد وہ کہ جن کی شجاعت شاہنامہِ فردوسی کے اساطیر السلاطین سے لے کر اقبال کے بڈھے بلوچ تک اک ضرب المثل ہے
ربِ جلیل القدر تری پیشانی روشن رکھے.
مسجدِ قرطبہ میں تری آمد کا منتظر-
فقط
زندہ رود
روپہلی گرگابیوں میں شکنجہ بند اسکے محتاط قدم میدان چھوتے ہی اسپِ ترکمان آخال تکہ کی ہنہناہٹ پہ ٹھٹھک رہتے ہیں. وہ زین تھام کر اک جست میں کودتے ہوئے پائیدان میں پیر ڈالتے ہوئے اک ایڑ دیتا ہے. اسپِ زر اس ایڑ پہ مسحور و مانوس غرناطہ سے قرطبہ تلک یکے بعد دیگرے جانے کتنی ہی چوکیاں پھلانگتا چلا جاتا اور وہ نوجوان نظم مسجدِ قرطبہ کا زیرِ لب ورد کئے چلا جاتا ہے کہ
ای حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود
تاآنکہ اسپِ برق رفتار وادی الکبیر کی قدم بوسی کرتا ہے۔ وادی الکبیر جبلِ طارق کی ہمنشیں ہے اور ہاں یہ الاندلس کی دلہن عروس البلاد قرطبہ ہے۔ فضا میں کلمہٌ طیبہ کی گونج منتشر ہے وہ اپنے نتھنوں سے یہ بوئے طیب و مطہر کھینچتے، اسے کلیجے تک محسوس کرتے ہوئے بے ساختہ مسکرا اٹھا چہرے کا تناؤ بھربھری ریت کیطرح اعصاب کی مٹھی سے سرکتا گیا, کرنوں کی ایک قوس اسکی جبیں پر امیدِ نو کا اجلا سویرا بکھیر گئی۔ مسجدِ قرطبہ کے عین صدر دروازے پہ ایستادہ حکیم الامت سبز پوشاک میں ملبوس اسے دیکھ شفقت و رحمت کے کیف سے مسکرا اٹھے ایک جست میں اسپِ زر سے کود کر اس کی زین تھامے تھامے، آگے بڑھتے ہوئے وہ وفورِ عجز و تکریم سے وہ خمیدہٌ کمر ہوا اور زین وہیں زمین پر چھوڑ کے دونوں ہتھیلیوں کے پیچ حکیم الامت کا ہاتھ تھام کربوسہ کیا۔
برخوردار! آبنائے جبلِ طارق اپنے پورے آب و تاب سے آپ کے وضو کا منتظر ہے- یہ کہتے ہی حکیم الامت اندر کی جانب تشریف لی جاتے ہیں۔ اپنے پوروں کے روم روم سے وضو کے قطروں کی تاثیر جذب کرتے ہوئے وہ جوان مسجد میں داخل ہو کر منبر پہ اذان دیتا ہے تو مسجدِ قرطبہ کے درو دیوار سرود و سرور سے جگمگا اٹھتے ہیں-
حکیم الامت کی امامت میں نماز عصر کی ادائیگی اور تسبیحات سے منور ہونے کے بعد نگہ اٹھتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اپنا رخ دائیں جانب موڑتے ہوئے حکیم الامت فرما رہے ہیں
اے ابن امیرِ حمزہ!
ہم آبنائے جبلِ طارق سے آبنائے فاسفورس تک سفر کریں گے۔ ہماری منزل سات پہاڑیوں والی زمین کی وہ مبارک وادیاں ہیں جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پہ ایک مسجد ہماری جبینوں اور اذانوں کی منتظر ہے- وہیں مولانا روم ہماری راہ دیکھتے ہوں گے، کیا آپ جانتے ہیں کہ وہاں سخن سازوں کے جھرمٹ میں آپ کی رسمِ تاج پوشی ہے جہاں آپکو امامِ قلم کا قلمدان دیا جائے گا-
بحیرۂ مرمرہ و بحیرۂ اسود کا محرمِ جلوت کدہ
سلطنتِ بازنطیم کا مرکزہ
صدرِ ہفت الجبال پہ جا بجا بسا
دو فقید النظیر بروں میں بٹا
مقامِ ابعد پہ سجا
یہ ہے ملکة المُدٌن۔۔۔۔۔قسطنطنیہ
زماں و مکاں کی قید سے آزاد, قربتوں میں جاوداں اور فاصلوں میں سمٹے وہ دو سالارِ قلم جب شاخِ زریں کی بندر گاہ پہ اترتے ہیں تو فاسفورس کے جنوبی ساحلوں میں آبِ اسود اور آبِ مرمرہ کروٹیں بدلتے ایک دوجے میں ضم ہوئے جاتے ہیں۔ یہیں سے وہ پہلی چوٹی پہ نمازِ فجر ادا کرتے ہیں اور پھر چوٹی در چوٹی، مسجدِ سلطان احمد سے لے کرکوہِ مرمرہ تلک اک اک نماز ادا کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کی معیت میں ڈیڑھ روز گزارتے ہیں اور آج نمازِ عصر کے بعد مولانا روم اس فیروز مند اور بلند بخت نوجوان کو خلعتِ صوف سے نوازیں گے، قلم کی امامت اس کا ذمہ ہو گی اور خیال و فکر کی جاگیرِ احتشام اس کا نصیبہ۔۔۔۔۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.