Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ

نورین علی حق

قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ

نورین علی حق

MORE BYنورین علی حق

    اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے کے چھ بائی تین کے بستر پر لیٹا میں سیلنگ فین کو دیر سے تکے جا رہا ہوں۔

    سیلنگ اور فین دونوں مجھے بہت پر کشش لگ رہے ہیں، نہ جانے کب سے میں دونوں کو بے خودی کے عالم میں دیکھے جارہاہوں، معمول کے حالات میں پنکھے اور چھت کو کوئی نہیں دیکھتا، نہ ہی چھت اور پنکھے اپنی طلسماتی کشش سے ہر کسی کو آشناکرتے ہیں، گھروں کی چھتیں اور پنکھے بہت غیرت مند ہوتے ہیں، ہر کسی پر اپنے راز ہائے سربستہ کے خفتہ در وا نہیں کرتے، جیسے ایک نغمہ، ہر ساز پہ گایانہیں جاتا۔ چھتیں اور پنکھے بھی محبت کے اظہار کے لیے کچھ خاص دل مخصوص کرتے ہیں، پھران پر اپنے اسرار کا انکشاف کرتے ہیں، مخصوص دل وہ ہوتے ہیں، جن میں درد، الم، دکھ، افسردگی، بیماری، حیرانی، پریشانی ہو اور وہ کوما میں چلا گیا ہو۔

    مہینوں سے میں اس چھت اور پنکھے کو عبادت کی طرح شاید ثواب کی نیت سے دیکھے جا رہاہوں، کیا پتاان میں کون سی کشش ہے، جومیری دلچسپی ختم نہیں ہونے دیتی۔ میری آنکھوں کے عین اوپر لٹکتا ہوا یہ پنکھا، جب گھومتا ہے اور اپنے مخصوص دائرے میں طواف کرتا ہے تو مجھے پوری دنیا گھومتی نظر آتی ہے، میری دنیا کے ساز وساماں تہہ و بالاہوجاتے ہیں۔یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ میرے بستر مرگ کے پائے جنات کی ٹانگوں کی طرح طویل سے طویل تر ہوتے چلے گئے اور میرا سکڑا ہوا، کیموتھریپی کی وجہ سے بے بال وپر چہرہ پنکھے کے درمیان کے گول دائرے سے جاٹکرایا اور میں بائس کوپ کی طرح اس میں ماضی، حال اور مستقبل نہ جانے کیا کیا دیکھتا رہا۔

    میرے کمرے کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ ہوئی ہے، میں اس طرف متوجہ ہوگیا ہوں، میری نظریں دروازے پر جم گئی ہیں، کسی نے میرے دروازے پر دستک نہیں دی، نہ ہی اسے کھولنے کی کوشش کی، ایک آدھ منٹ کے وقفے اور انتظار کے بعد میں اپنے بستر مرگ اور اس سے متصل اسٹول نما دراز یا درازنما اسٹول کی طرف دیکھنے لگا، میری یکسوئی میں مداخلت کرنے والے قدموں کی آہٹ مجھے یقینا بری لگی ہے، لیکن اتنی بھی نہیں کہ میں فوراً سے پیشتر پنکھے اور چھت کی طرف متوجہ ہوجاؤں، میرے بستر مرگ کا سرہانہ اوپر کی جانب تھوڑااٹھاہوا ہے، میں اپنے آپے سراپے کو دیکھ رہا ہوں، میںدیکھ رہاہوں کہ میری توند انتہائی بھدے انداز میں نکلی ہوئی ہے، میں جب چار زانو بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اکثر غیر شریفانہ اور غیر مہذبانہ انداز میںبیٹھ جاتاہوں، جیسے اونٹ اپنے کوہان غیرجمالیاتی انداز میں باہر نکال کر بیٹھ جاتے ہیں، میراجسم تھل تھل ہوگیا ہے، میں انسان کم اشیائے خوردنی کا بھاری بھرکم بورا نظر آتا ہوں۔

    پیدائش سے اب تک اپنی سفاک، خوں خوار اور تڑپا تڑپا کر کتے کی موت ماردینے والی اپنی بالکل اپنی، ذاتی اور نجی اجل موعود کا میں سراپا منتظر اور چشم براہ ہوں، میرے پاس جینے کی امیدیں بہت ہیں، مگر میں مرنا چاہتا ہوں، بس ایک بار پورے شوق کے ساتھ خود کو مرتا ہوا دیکھنا چاہتاہوں، موت کو گلے لگانا چاہتاہوں، تیز بہت تیز اسے بھینچنا چاہتا ہوں، اس سے مصافحہ اور معانقہ کرنا چاہتا ہوں اور مصافحہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کو روٹھے محبوب کے ہاتھ کی طرح تیز دبا دینا چاہتا ہوں، تاکہ میرے ہاتھ کی تپش محبت اور حرارت انتظار کی رسائی اس کے وجود تک ہوسکے اور وہ محسوس کرے کہ میں برسوں اور دہائیوں سے اس کے قدموںکی آہٹ کے انتظار میں بے قرار و مضطرب ہوں۔اس شوق کی تکمیل کے ساتھ میری حیات کی تکمیل ہوگی۔ اپنے عہد طفلی سے میں اسے، روٹھے محبوب کے ہجر میں جنون کی سرحدوں کو پارکر جانے والوں کی طرح منارہاہوں، آواز دے رہاہوں، صدائیں لگا رہاہوں، نہ جانے کیا کیا دہائیاں دے رہا ہوںاورقدرتی وسائل کا استعمال کرکے زمین پرگندگی پھیلارہاہوں اور پھولتا جارہا ہوں۔

    ٹھہریے۔۔۔، ذرارکیے۔۔۔ جسے آپ خدا کہتے ہیں، اسے میں منتقم و ضار کہتا ہوں، جو صاف چھپتابھی نہیںاور سامنے آتا بھی نہیں، جس کی سکونت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہر کوئی آسمانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، یقین کیجئے وہ ہم سب کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، ہمیں قسطوں میں مرتا ہوا دیکھ کر کھلکھلا کر ہنستا ہے، قہقہے لگاتا ہے، ہمیں پریشان دیکھ کر وہ مست ہوجاتاہے اور یہ سلسلہ ہماری پیدائش سے ہی شروع ہوجاتاہے، ہمیں ماں کی کوکھ سے باہر نکالتے ہی ہمیں موت کی طرف ہانک دیتا ہے اور ہم اَن دیکھے محبوب کے حصول کی خواہش میں اس کی طرف ہاپنتے کانپتے بھاگتے چلے جاتے ہیں، دوڑتے چلے جاتے ہیں، وہ ہمیں دیکھ کر مسکراتا رہتا ہے، چین کی بانسری بجاتا ہے اور ہم قسطوں میں مرتے رہتے ہیں، ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ساٹھ ستر ہزار بار مرتے ہیں، ایک ایک دن میں کئی کئی بار مرتے ہیں۔

    میں لڑکھڑاتاہوا اپنے بستر مرگ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا ہوں، خود کو گرنے سے بچانے کی کوشش میں سیلا ئن کے اسٹینڈ سے ٹکرا گیا ہوں، خود کو اور سیلائن کے اسٹینڈ کو سنبھالا دینے کے بعد آہستہ قدموں سے میں کھڑکی کی طرف بڑھ رہاہوں، کھڑکی تک پہنچنے سے پہلے ہی مجھے باہر کے موسم کا اندازہ ہوگیا ہے۔

    اس اسپتال کا لوکیشن بہت شاندارہے۔ اس کے آگے شہر کے مشہور بازار کی پرشکوہ عمارتیں اور عوام کی آمد و رفت ہے تو اس کے عقب میں جمنا بہتی ہے۔یوں تو اکثر جمنا سے تعفن کے بھبھکے اٹھتے ہیں، ان دنوں بے تحاشہ بارش اور برسات کی وجہ سے گندگی کچھ کم ہوئی ہے لیکن جمنا کا پانی خطرے کے نشان کو پار کر چکا ہے۔ شہر میں افراتفری کا ماحول ہے، حکومت بھی متحرک ہوگئی ہے، جمنا کے کنارے آباد بے مصرف برساتی پودوں کی طرح سطح زمین پر اگ آنے والی انسانی آباد ی کو خداکی بچھائی گئی، کسی دوسری زمین پر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، یہ آبادی آدھی سڑک گھیر کر خیمہ زن ہوگئی ہے۔

    میں اپنے بے کار و ناکارہ جسم کو گھسیٹتا ہوا کھڑکی تک پہنچ چکا ہوں، کھڑکی سے ٹیک لگائے اپنے بے ڈھب جسم کا سارا بار کھڑکی کے چوکھٹے کے حوالے کر چکا ہوں، جمنا کو پوری یکسوئی کے ساتھ دیکھے جارہاہوں، جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہاہوں، حالانکہ اسے میں دہائیوں اور برسوں کے طویل عرصے سے دیکھ رہا ہوں، اس میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ سطح آب میں اضافہ اور ساحلوں کے کناروں کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے، پانی کا ریلاتیز رو بڑھتا چلا جا رہاہے۔

    میں پانی کے اتھاہ سلسلے کو دیکھے جا رہاہوں، پانی کے بہاؤ اور اس کی تیز رو سے ایک خطرناک آواز پیدا ہو رہی ہے، جیسے اسرافیل صور پھونک رہے ہوں۔ میں اداسی کے عالم میں پوری محویت لیکن ایک لاتعلقی کے ساتھ بہتے ہوئے پانی اور پیدا ہونے والی آواز کو شاید نظرانداز کر کے کہیں اور یا شاید کسی اور مقام پر خود کو کھڑا محسوس کررہا ہوں۔ جمنا کی خس وخاشاک اور شہر کے کچرے تیزی کے ساتھ سطح آب پر بہتے ہوئے نگاہوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے تعاقب میں مزیدخس وخاشاک اور کچرے نگاہوںکے سامنے آتے جارہے ہیں، ان کے ساتھ گرداب بھی ہیں، وہ بھی آگے بڑھتے جارہے ہیں۔

    میں دیکھ رہا ہوں گرداب، خس و خاشاک اورجمنا میں بہادی جانے والی بے مصرف اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اتنی تیزی کے ساتھ اپنے دائرے میں گھماتے ہیں، جیسے مشین گیہوں کو اپنے بطن میں سماکر آٹا بنا دیتی ہے، خس وخاشاک اوربے مصرف اشیا، گرداب کے دائرے میں چکر کھاکر اپنے بےمصرف وجود سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، شاید اشیا بھی پہلے بامصرف پھر بے مصرف بنائی جاتی ہیں اورگرداب کے دائرے میں انھیں ڈال کر ان کے وجود کو عدم میں تبدیل کر دیا جاتاہے، وہ ھباء اًمنثوراً ہوجاتی ہیں، یہ سلسلہ صدیوں سے یوں ہی چلتاآرہا ہے۔ انسان اورانسانی مصرف کی اشیا قسطوں کی موت کا شکار ہیں۔

    میں کوؤں کے چیخنے چلانے کی آواز سے چونک گیا ہوں، انھیں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ کہاں لڑرہے ہیں، مجھے وہ لڑتے، چیختے اور چلاتے نظر نہیں آتے، ایسا لگ رہا ہے کہ شاید وہ میرے کمرے کی کھڑکی کے شیڈکے اوپر لڑرہے ہیں اور جمنا کے پھیلے ہوئے وجود کے مختلف حصے سے اڑاڑ کر میری کھڑکی کے شیڈکے اوپر بیٹھ رہے ہیں، ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کے کاؤں کاؤں کی کریہہ، ناپسندیدہ اور کانوں میں سیسہ ڈال دینے والی آوازوں میں اضافے کے ساتھ ان میں تنوع بھی پیدا ہورہا ہے۔

    زندگی میں پہلی بار میں ان کالے، غیر جاذب نظر، ناقبول صورت کوؤں کی کریہہ، سمع خراشی کا سبب بننے والی اور طبیعت مکدر کر دینے والی، ناپسند مگر رنگارنگ آوازوں سے حظ اٹھارہاہوں، میراجی چاہتاہے کہ خوشی کے شادیانے بجاؤں، ناچوں، گاؤں اور جھوم جھوم جاؤں۔

    کوؤں کے لڑنے، چیخنے اورچلانے کی آوازیں میرے وجود پر مژدۂ جاںفزا بن کر اتررہی ہیں، میرے وجود کا پور پور شاداب ہوتا جارہا ہے۔ میرے وجود کا ہر بن مو، کوؤں کا احسان مند ہے، وہ چیخ چلا کر مجھے یہ مژدۂ جاں فزا سنا رہے ہیںکہ میری محبوب، میری معشوق، میری موت، ابدی موت، جس کے فراق و مہجوری میں میں دہائیوں سے خود کو ہمیشہ یک و تنہا محسوس کرتا رہاہوں، بالآخر وہ میرے دروازے پر دستک دے چکی ہے۔ آمد زدرم دوش بتے زمزمہ سازے۔

    جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر اور قسطوں کی موت سے آزادی کا پروانہ حاصل کرکے، میں جھومتا ہوا اپنے بستر مرگ کی سائڈ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا ہوں۔ اس کی درازکھول کر احتیاطاً ایک نظر کمرے پر ڈالی، خود کو یقین دلایا کہ کمرے کا دروازہ بند ہے اور دراز کے کسی کونے سے سگریٹ کاپیکٹ نکال لیا، دراز کے دوسرے کنارے سے انتہائی خفیہ انداز میں چھپائے گئے لائٹر کو نکالا، پھر ایک چور نظر اپنے آس پاس ڈالی۔ سگریٹ اپنے لبوں سے چسپاں کیا، اپنا بایاں ہاتھ اپنے نرخرے میںسوراخ کرکے اندر کی جانب پیوست کی گئی پائپ کے دہانے پر رکھا اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے سے لائٹر کا کھٹکا دبا دیا، لائٹر سے پتلی، نکیلی، دھاردار، من موہنی آگ نکلی، اس سے سگریٹ سلگایا اور آہستہ آہستہ سنبھل کر ایک لمبا کش لیا، لائٹراور سگریٹ کے پیکٹ کوالگ الگ جگہ پر چھپایااور اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔

    سترہ اور ستائیس میری زندگی کے بہت اہم نمبر ہیں، لیکن جب ستائیس کے ساتھ چار اور سترہ کے ساتھ پانچ مل جاتے ہیںتوان نمبروں کی قسمت کا ستارہ ثریا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ دس کاسگریٹ سترہ، ستائیس، چاراور پانچ کے غم کو بھلانے کالاجواب آلہ ہے، جس کا دھواں سینے کے اندر پہنچتا ہے تو سینے میں پوشیدہ یادوں کا کباڑخانہ خاکستر ہونے لگتا ہے اور ہلکی سی بارش کی پھوارسے دوبارہ بے سبب اگ آنے والی گھاس کی طرح یادیں لہلہانے لگتی ہیں۔

    نرخرے میںپیوست کی گئی پائپ کے دہانے پر اپنا بایاں ہاتھ رکھ کر، دائیں ہاتھ کی شہادت اور اس سے متصل سب سے بڑی انگلی میں دبے سگریٹ کے لمبے لمبے کش میں لے رہا ہوں، کش لیتے ہوئے میرا چہرہ آسمان کی طرف اٹھ رہا ہے، میں بہت پرسکون انداز میں سگریٹ کا دھواں کچھ خلا میں اور کچھ اپنے وجود کے اندرتحلیل کررہا ہوں۔ بظاہر دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر میں اپنے وجود کے اندر پوشیدہ یادوں کے کچروں کو دھویں کی شکل میں باہر نکال رہا ہوں، اس کی یہ فہم کسی حد تک درست بھی ہوسکتی ہے، لیکن اندر سے میری حالت غیر ہورہی ہے۔ میرے بے مصرف وجود کے اندر سگریٹ کے دھویں کے پہنچتے ہی میری ناک، حلق، گلے اور سینے میںجلن ہورہی ہے، بائپسی کے لیے نکالے گئے گوشت کے ٹکڑے کی جگہ پر مجھے شدید ترین اور تڑپا دینے کی حد تک تکلیف ہورہی ہے۔ میں اپنی توجہ ان تکالیف سے دور کرکے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگائے جارہا ہوں۔ بنیادی طور پر برسوں کے طویل عرصے پر مشتمل قسطوں کی موت کے خلاف جابر و قاہر خدا کے سامنے میرا یہ علیٰ الاعلان احتجاج ہے، جیسے مہاراشٹر، ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے حکومت کے کسان مخالف بل کے خلاف اپنے کھیتوں میں آگ لگا دی تھی، میںبھی قسطوں کی موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے وجود کے ہر خوشۂ گندم کو جلاکر راکھ کر دینا چاہتا ہوں۔

    میں سگریٹ کے کش لیتا جارہاہوں، سگریٹ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے، مجھ میں میرے خاتمے کا یقین بھی بڑھتا جارہا ہے، میری طبیعت بگڑتی جارہی ہے۔ میرے وجود کے اندر دھویں کا دباؤبڑھتا جارہاہے، میری ناک اور نرخرے میںپیوست کی گئی پائپ سے غلیظ رطوبت باہر آرہی ہے۔ میرے سر میں چکر آرہے ہیں، سر کا درد، ناک، حلق، گلے اور سینے کی ناگفتہ بہ تکلیف اپنی انتہاکو پہنچ رہی ہے، ان تکلیفوں سے عارضی طور پر ہی سہی اپنا ذہن ہٹانے کے لیے میں نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھالیا ہے، اسٹارٹ کا بٹن دباتے ہی نیوز چینل کی اینکر کے چیخنے کی آوازوں سے کمرے کا سکوت ٹوٹ گیا ہے، وہ اپنی رو میں چیخے جارہی ہے، وہ اس طرح چیخ رہی ہے، جیسے کھیل کے میدان میں موجود شائقین کسی کی فتح وشکست پر چیختے ہیں، ٹی وی اسکرین پر مسجداقصیٰ کے ساتھ کچھ بچوں کے پتھر پھینکنے اور کسی بچے کے اسرائیلی جھنڈے کو نوچنے کے شاٹس چل رہے ہیں، بیک گراؤنڈ سے اینکر کی آوازمسلسل آرہی ہے۔

    ’یہ دیکھئے، عزرائیلی جھنڈے اور فورس پر دہشت گردانہ حملہ۔‘

    ٹی وی اسکرین پر بار بار یہی شاٹس چلائے جا رہے ہیں، درمیان میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر ایکس کلوزیو بڑا سا لکھا ہوا چمک رہا ہے، بیک گراؤنڈ سے اینکر تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیل کی دنیاوی، ایٹمی اور اقتصادی ترقیات کی داستان سنانے لگی ہے، وہ فلسطینیوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ بھی عزرائیل کی طرح دنیاوی، ایٹمی اور اقتصادی ترقیات حاصل کریں۔

    میں نے چینل بدل دیا ہے، دوسرے چینل پر بلقیس کے زانیوں کی رہائی اور پھول مالاؤں سے ان کے استقبال کے معاملے پر ڈبیٹ چل رہا ہے، اینکر کافی پرسکون اور شانت لگ رہی ہے، چہرے سے طمانیت صاف جھلک رہی ہے، اس نے ڈبیٹ میں موجود ایک مخصوص سیاسی جماعت کے رکن سے سوال کیا۔ ’جی صاحب !آپ بتائیں، زانیوں کا استقبال کیوں کیا آپ لوگوں نے؟‘

    اس نے بہت اطمینان کے ساتھ گھبراہٹ کے بغیر جواب دینا شروع کیا۔

    ’انھیں ہم نے رہانہیںکیا، قانون کی بالادستی اور عدلیہ کا احترام سب کوکرنا چاہئے، اگر کورٹ نے کسی کو باعزت بری کیاہے اور کسی نے پھول مالاؤں سے ان کا استقبال کیا ہے توپریشانی نہیں ہونی چاہئے۔‘

    یہ سن کر اینکرخاموش ہے۔ معنیٰ خیز انداز میں زہر خند تبسم کی کلیاں بکھیرتے ہوئے اس نے کسی اور پینلسٹ کی طرف سوال اچھال دیا۔ میں نے پھر چینل بدل دیا، میرے وجود کے اندر عجیب سی بے چینی ہورہی ہے، کبھی میں اپنا سر کھجا رہا ہوں، کبھی کان میں انگلی ڈال رہا ہوں، کبھی دائیں بائیں سر کو جھٹک رہا ہوں۔ میں نے باقی ماندہ ناقابل استعمال ٹکڑے کو جمنا کی طرف اچھال کر دوسرا سگریٹ جلالیا ہے۔ بہت عجلت میں ایک لمبا کش کھینچ کر دھواں اگل دیا ہے، جیسے غصے میں کوئی کسی کے منھ پر تھوکنے کے بجائے دھواں اگل دے۔

    سگریٹ کے کش لگانے کے بعد میری انگلیاں ٹی وی ریموٹ پر پھر سے گھومنے لگی ہیں، منھ بناتے ہوئے بہت سے چینل کو میں نے چلتا کردیا ہے، شاید میں کچھ خاص دیکھنا چاہتاہوں، مگر کیا؟مجھے معلوم نہیں۔ چینل بدلتے بدلتے پھر ایک جگہ میں ٹھہرگیا ہوں، یہاں انکیتا کی موت اور شاہ رخ کی درندگی اور حیوانیت بہت تیز آواز میں بیان کی جارہی ہے۔ ایک فرد کے جرم کو پوری ایک قوم کے سر منڈھاجارہاہے، اسے لوجہاد قرار دیا جارہا ہے، اینکراس طرح چیخ رہی ہے اور ایک خاص قوم کے بزعم خود نمائندہ بنے بیٹھے شخص کو اس طرح للکار رہی ہے، جیسے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا۔ مفروضہ نمائندہ پسینے پونچھ رہا ہے، گھبرارہا ہے، پورا پینل مل کر اسے اس طرح ڈانٹ پھٹکار رہاہے، جیسے کالی سیاہ رات میں شہر کی کسی تنگ وتاریک گلی میں دو چار کالے کتے کسی پر حملہ آور ہوجائیں اور وہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی عملی تصویر بن جائے۔

    جس قوم کے نمائندے کو سب مل کر تھرڈ ڈگری پر ٹارچر کررہے ہیں، اس قوم کا سوال ہے کہ جب دوبرس پہلے انکیتا کی طرح گلناز جلاکر ماری گئی، تب میڈیا کہاں تھا۔۔۔ تب اس عمل کو پریم یدھ کیوں نہیں قرار دیا گیا۔۔۔ تب ڈبیٹ کا بازار کیوں نہیں گرم کیا گیا۔۔۔تب اقلیتوں نے اکثریت کے خلاف محاذآرائی کیوں نہیں کی۔۔۔ تب گلناز کا معاملہ فرد کا معاملہ کیوں ٹھہرا۔۔۔اکثریت کیوں معصوم قرار دی گئی؟

    میں پھر سے سگریٹ کے کش تیزتیز اور جلدی جلدی کھینچتا جا رہا ہوں اور بڑبڑاتا جارہا ہوں۔ ایک معصوم کا قتل دوسرے معصوم کے قتل کا جواز کیوں کر بن سکتا ہے، جواز ہو کہ نہ ہو۔ میں تو ہر بار قسطوں میں مرجاتا ہوں، من چہ دانم کعبہ وبت خانہ را۔ اتنی بار مرا ہوں کہ اب قسطوں کی موت سے نفرت ہو چکی ہے، پوری سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ ابدی موت کی آغوش میں جانا چاہتا ہوں۔ ٹی وی بند کر کے میں جمنا کو دیکھنے لگا ہوں۔ جمنا کی سطح آب انتہائی گندی اور غلیظ نظر آرہی ہے، کوڑے کرکٹ کا ایک انبار بہتا چلا جارہا ہے، گرداب کی تعداد بھی کافی بڑھ گئی ہے، میں گرداب کی زدمیں آگیا ہوں پانی کے تھپیڑے مجھ پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ میرا وجود غرقاب ہورہاہے، انسان لفی خسر کی زد پر ہے اور رحیم و رام اس کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

    سگریٹ کا آخری کش میں سینے کے اندر اتار ہی رہا تھا کہ میرے کمرے کا دروازہ ایک دھکے کے ساتھ کھل گیا، سامنے میری بیوی کھڑی ہے، اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار صاف نظر آرہے ہیں، میں نے بلاتاخیر سگریٹ کا بچا ہوا حصہ کھڑکی سے جمنا کی طرف گرا دیا ہے، لیکن میرے منھ اور ناک سے نکلتے ہوئے دھویں اور سگریٹ کی بدبو سے وہ مزید پریشان ہوگئی ہے۔غصے سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں باہر کو نکل آئی ہیں، وہ بے خودی کے عالم میں مجھ پر برس پڑی ہے، میں اس کی نظروں کی تپش سے جھلس رہا ہوں، اس کے ڈر، خوف یا شاید احساس ندامت نے میرے جسم کے روئیں روئیں کو اشک بار کردیا ہے۔ میرا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا ہے، میں بالکل خاموش ہوں، بستر مرگ پر آکر بیٹھ گیا ہوں، میری نظریں میرے پیروں کی انگلیوں کو گھوررہی ہیں، انگوٹھے سلیپر کو کرید رہے ہیں، میری بیوی مجھے ڈانٹے جارہی ہے، کبھی اپنی قسمت کو کوس رہی ہے، اپنے قدموں کو تیز تیز بڑھاتے ہوئے وہ مجھ تک پہنچ گئی ہے، اپنے دونوں ہاتھوں کو پھینک پھینک کر چیختی چلاتی جارہی ہے۔ مجھ سے نظریں اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میری نظریں مسلسل جھکی ہوئی ہیں، اس کے غصے کی آگ شاید مجھے جلا کر خاکسترکر دینا چاہتی ہے۔شایدوہ خوں خوارشیرنی بن گئی ہے اور میں گیدڑ کی طرح دم دبا کر بھاگنے میں عافیت محسوس کر رہا ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس کے وجود کی حکمرانی کی سرحدوں سے میں باہر نہیں نکل سکتا۔

    ’مجھ سے نظریں ملاؤ۔‘

    یہ کہتے ہوئے اس نے میری ٹھوڑی پکڑ کر میرے چہرے کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اپنا چہرہ جھکا لیا ہے۔ میں زمین میں گڑجانا چاہتا ہوں، اندر سے میرے دل کی شدید خواہش ہورہی ہے کہ زمین پھٹے اور میںاپنے پورے بے مصرف وجود کے ساتھ اس میں سما جاؤں اور میرے جسم کے بارسے میری بیوی کے ناتواں کا ندھے ہلکے ہوجائیں۔چیخ، چلا کر تھک کر وہ رونے لگی ہے۔ میرے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی ہے، اس کے آنسو اس کے لب و رخسار سے ہوتے ہوئے زمین پرگر رہے ہیں، میں ان آنسوؤں کو غور سے دیکھ رہا ہوں۔

    ’اب کتنا مارو گے خود کو، تم میں بچا ہی کیا ہے، خود پر رحم کرو۔‘

    ’اب تک مرا نہیں ہوں۔‘

    اس کی نظروں سے اپنی نظریں بچاتے ہوئے، یہ کہتے کہتے میں اپنے بسترمرگ پر چت لیٹ گیا۔

    ’اب کیسے مرو گے، موت کی دعا سن سن کر بوڑھی ہوگئی۔پوری زندگی کفربکتے رہے۔‘

    ’رومی سخن کفر نگفتہ است ونگوید، منکر نشویدش۔‘

    میری آواز ڈوبتی جارہی ہے۔ شاید میں بہت تھک چکا ہوں، مجھے غنودگی آرہی ہے۔ لیکن بپھری ہوئی شیرنی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ وہ بڑ بڑاتے، جھلاتے سائڈ ٹیبل کی تلاشی لے رہی ہے اور پوچھتی جارہی ہے۔

    ’بتاؤ سگریٹ کہاں چھپایا۔‘

    میں بالکل خاموش ہوں، جیسے مجھے سانپ سونگھ گیا۔پانچ دس منٹ کی تلاشی کے بعد سگریٹ کاپیکٹ اور لائٹر دونوں اس کے ہاتھ لگ گئے، دونوں کو ہاتھ میں لے کر آگے بڑھتے ہوئے اس نے میری طرف دیکھ کر نفرت بھری ’ہوں‘کے ساتھ سگریٹ کو دریا برد کرکے وہ اتنی پرسکون نظر آرہی ہے، جیسے اپنی سوکن دریا برد کردی ہو۔

    ’اب لیٹو مت، وہ آنے والے ہیں، کیموکے لیے لے کر جائیں گے۔‘

    یہ کہتے کہتے وہ کمرے میں گھوم گھوم کر روم فریشنرسے بدبودورکررہی ہے۔

    ’سگریٹ کی بدبو پھیلی ہوئی ہے، وہ آئیں گے تو کیا کہیں گے، ابھی ڈاکٹر پہنچ جائے تو کہے گاکہ پہلے اسے پاگل خانے لے جاؤ، اٹھو بھی۔۔۔ منھ سے بدبو آرہی ہوگی۔۔۔، کلی کرو۔۔۔، منھ پر پانی مارو اور کپڑے بدلو۔‘

    میں آہستہ آہستہ بستر مرگ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا ہوں، بیوی نے مجھے سہارا دیااور واش بیسن تک مجھے پہنچاکر میرے پاس ہی کھڑی ہوگئی، کلی کرتے ہوئے مجھے ابکائی آگئی ہے۔ بے تحاشا سگریٹ نوشی سے گیس بن گئی ہے۔ میں کھانس بھی رہا ہوں، وہ میری پیٹھ سہلارہی ہے، پیٹ میں موجود پانی، مشروب، بلغم اور غلاظت سب الٹ آئے ہیں، قے کرتے کرتے میری آنکھوں کی پتلیاں پھیل رہی ہیں، حالت غیر ہورہی ہے۔ منھ سے عجیب وغریب آوازیںنکل رہی ہیں۔ میرے پیٹ، ناک اور منھ سے نکلنے والی بدبودار غلاظت اور بلغم سے واش بیسن بھر گیا ہے، اسے بھی ابکائی آرہی ہے۔ اس نے اپنی ناک اور منھ پرڈوپٹے کاپلورکھ لیاہے۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں واش بیسن صاف کرسکوں، نرخرے کے سوراخ سے نکلنے والی غلاظت سے میرے کپڑے بھی گندے ہوگئے ہیں، اس نے میرا کرتا واش بیسن کے پاس ہی اتار دیاہے۔ نرخرے میں پیوست پائپ کو صاف کرکے مجھے پکڑکر میرے بستر مرگ تک لے آئی ہے، مجھے لیٹنے میں سہارا دے رہی ہے۔ لیٹنے کے بعد میری تکلیف میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حلق، گلے اور سینے کی جلن میں شدت آتی جارہی ہے۔ مجھے چھت اور پنکھے کی جگہ تارے نظر آرہے ہیں۔ میرا جسم ٹھنڈا ہوتا جارہا ہے، دھڑکنیں تیز ہورہی ہیں، سانس لینے میں مجھے بہت زیادہ تکلیف ہورہی ہے، ایسی حالت میں، میں اپنی حالت کی وضاحت اس سے زیادہ بہتر انداز میں نہیں کر سکتا۔ میری ذہنی حالت اچھی نہیں ہے، میری زبان سے درست الفاظ بھی ادا نہیں ہو پارہے ہیں، مجھے قسطوں میں مارنے والے کی ایک تشبیہ یاد آرہی ہے، میری حالت سو فیصد کعصف ماکول جیسی ہوگئی ہے۔

    اسپتال کے عملے کے افراد کے ساتھ میں سی ٹی اسکین کے لیے پہنچ چکاہوں، تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میری بیوی میرے ساتھ ہے، مجھے کاؤچ پر دراز کردیا گیا ہے، میرے سینے سے سر تک کے حصے پرسانچہ نماماسک رکھ دیا گیا ہے۔ میرے کاؤچ کی جناتی ٹانگیں لمبی ہوکر اوپر کو اٹھ گئی ہیں، میں زمین سے کم از کم آٹھ فٹ اوپر کاؤچ پر مردے کی طرح پڑا ہوں، مجھے ایک فیصد بھی حرکت نہیں کرنی ہے۔ سی ٹی اسکین کی دیوہیکل مشین اسٹارٹ ہوچکی ہے، میرا سی ٹی اسکین ہورہا ہے۔

    سی ٹی اسکین کی دیوہیکل مشین کے باہر دو اسکرین نکلی ہوئی ہے، یہ اپ ڈیٹ مشین ہے۔ اس مشین کے باہر نکلی ہوئی اسکرینوں میں ایک ا سکینرہے، جو چوکور ہے، ایک گول اسکرین ہے، یہ ریڈی ایشن کے لیے ہے، ایک اور اسکرین ہے، میں اس کے بارے میں بتا نہیں سکتا۔ شاید مجھ میںبتانے کی ہمت نہیں ہے، میرے اعصاب جواب دے رہے ہیںیا شاید اس اسکرین کے بارے میں میں نہیں جانتا۔ سی ٹی اسکین اورکیموتھریپی کے کمرے میں خنکی بہت زیادہ ہے۔ مجھے ٹھنڈلگ رہی ہے، میں برداشت کر رہا ہوں۔ مشین کی آواز شاید کچھ زیادہ ہورہی ہے یا میرے دماغ میں باد صرصرچل رہی ہے۔ میں مشینوں اور اپنے دل و دماغ کی گھڑگھڑاہٹ سے اکتا رہا ہوں۔

    مشین سے باہر نکلے ہوئے اسکینر اور ریڈی ایشن ٹول میرے سر سے سینے کے درمیان ایک دائرے میں ذرا فاصلے کے ساتھ چکر لگارہے ہیں۔ میرا ناتواں، کعصف ماکول اور گھن کھایا ہوا وجود ان کے درمیان ایسے پڑا ہے، جیسے قطب یدور حولی رحی الحوادث۔میں انتہائی بے کارو مکارانسان ہوں اور بے عمل بھی مگر اس وقت مجھے جتنی دعائیں اور سورتیں یاد ہیں، میں نے سب پڑھ ڈالی ہیں۔ میری ساری بے دینی یک لخت رفوچکر ہوگئی ہے۔ البتہ میری اکڑ اور موت کی طرف لپک ہنوز باقی ہے۔ ڈراور خوف سے میری حالت خراب ہے، خافض ومتکبرخدا میرے پاس کھڑا مسکرارہا ہے۔ میرادل اس کی طرف مائل ہے مگر میں شعوری طور پر اسے نظراندازکررہا ہوں، ڈر اور خوف کی تہہ میں اس کے خلاف ناراضی سہمی ہوئی بیٹھی ہے۔ جیسے درک الاسفل من النار یہیں موجود ہو۔ چاہتا تو ہوں کہ اس سے فریاد کروں کہ وہ میرا ہاتھ تھام لے مگر میں فریاد کر نہیں رہا ہوں۔ میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں، حلق خشک ہورہا ہے۔ دل کررہا ہے کہ داہنے ہاتھ میں دبے ہوئے آلے کی سوئچ دبا دوں، تاکہ مشین روک دی جائے اور راحت کے آخری گنے چنے سانس لے لوں، پھر ڈر رہا ہوں کہ کہیں بٹن کا پریس کرنا میری زندگی پر بھاری نہ پڑجائے اور میری ابدی موت جو دروازے کے اندر داخل ہو چکی ہے، واپس لوٹ نہ جائے اور قسطوں کی موت کا سلسلہ دراز نہ ہوجائے۔ میں نے بٹن پریس کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔

    مشین کے باہر نکلے ہوئے ا سکینروں کے چکر روک دیے گئے ہیں۔ گول سی ریڈی ایشن مشین میرے سر اور سینے کے درمیان ٹھہری ہوئی ہے۔ اس کا نشانہ میرا گلا ہے، جس میں پوشیدہ زخم میری ابدی موت، اجل موعوداور نادیدہ محبوب و معشوق کی آمد کا مژدۂ جاں فزا لے کر آیا ہے۔ گلے میں پوشیدہ زخم کا میں، میرے وجود کے رگ و ریشے، تمام اعضا اور ان کے بال بال احسان مند ہیں۔

    ریڈی ایشن مشین سے برقی شعاعیں نکل کر میرے وجود میں پیوست ہو رہی ہیں۔ حلق چھلنی ہو رہا ہے، حلق کی تکلیف یک لخت بڑھ گئی ہے، ناقابل برداشت حد تک تکلیف میں اضافہ ہوگیا ہے، حلق اور گلا جل رہے ہیں۔ مجھ میں کراہنے کی سکت بھی نہیں۔تکلیف کی شدت سے میرا سر دائیں بائیں ہلنا چاہتا ہے، زبان شدت تکلیف میں ادا کیے جانے والے صوتی اشارے کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن میرا سر کسی چیز میں پھنسا ہوا ہے، کراہنے کی آوازیں میرے وجود کے اندر ہی گھٹ کر مرتی جا رہی ہیں۔ آنکھوں کی پتلیوں کی گردش بڑھ گئی ہے۔

    میری آنکھیں ریڈی ایشن سے نکلنے والے گول دائرے کو دیکھنے لگی ہیں، ریڈی ایشن مشین کے بڑے سے گول دائرے کے بالکل درمیان کے ایک معمولی سوراخ سے برقی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ میرے جسم تک پہنچتے پہنچتے برقی شعاعوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ برقی شعاعوں کے حجم کو دیکھنے سے ایسا لگ رہا ہے، جیسے قوس قزح الٹا ہوگیا ہے، ا س کا اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہے اس میں قوس قزح والی رنگارنگی نہیں ہے۔ برقی شعاعوں کا رنگ زرد ہے، میں نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر گھمائی ہیں، پورا ماحول مجھے زرد زرد نظر آرہا ہے۔

    میں نے اپنی آنکھوں کی پتلیوں کو دوبارہ برقی شعاعوں پر مرکوز کر دیا۔ بائس کوپ چل پڑا ہے، میں اسے دیکھنا نہیں چاہتا مگر دیکھ رہاہوں، وہ مسلسل چل رہا ہے، بائس کوپ چلانے والا کوئی اور نہیں وہی ہے، جسے خداکہاجاتاہے، بائس کوپ کی ریل کو وہ آہستہ آہستہ چلاتا جا رہا ہے، میں کوشش کر رہا ہوں کہ اس کی چلائی ہوئی ریل نہ دیکھوں۔ انسان دنیامیں اکثر وہی کرتا رہتا ہے، جو وہ بالکل نہیں کرنا چاہتا۔ میں ریل بالکل نہیں دیکھنا چاہتا مگر سراپا احتجاج ہونے کے باوجود دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ریل میں صرف میرے سگریٹ پینے کے شاٹس موجود ہیں۔ پہلے ایک شاٹ، ایک سین چل رہے ہیں۔ کہیں میں سگریٹ منھ سے لگائے آسمان کو تاک رہا ہوں۔ میری آنکھیں اشک بار ہیںاور ایک لمباکش لے کر میںدھواں اس طرح آسمان کی طرف اگل رہا ہوں، جیسے اپنے وجود کے باطن میں موجود غموم و آلام اور افسردگی کو دھویں کے ذریعہ آسمانوں کی طرف پھینک رہا ہوں، گویا آسمانوں کو دھویں سے بھردوں گا۔

    اس شاٹ کے ہٹتے ہی دوسرا شاٹ سامنے آگیا ہے، میں چار پانچ افراد میں گھرا ہوا ہوں، میری انگلیوں میں سگریٹ پھنساہواہے۔ میرے منھ اور ناک سے دھواں نکل رہا ہے۔ وہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ میں کچھ سن رہا ہوں کچھ اَن سنا کر رہا ہوں۔ شاٹ میں میرا چہرہ اور میرے ہونٹ انتہائی کالے نظر آرہے ہیں، کہ سگریٹ کے دھویں نے ظاہر وباطن سب کو خاکستر کر دیا ہے۔ دوچار لمبے لمبے کش لینے کے بعد ایک ہاتھ میری انگلیوں کی طرف بڑھتا ہے اور میری انگلیوں سے سگریٹ گرادیتا ہے۔ مجھے غصہ آرہاہے، میںاپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون ہے۔ یہ وہی لڑکا ہے، جس سے مجھے سخت نفرت اور چڑھ ہے، میں اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس سے دور رہنا چاہتاہوں۔ یہ بھولا اور معصوم بنا رہتا ہے، اس لیے میں دھوکا کھا جاتا ہوں، ایسا بالکل نہیں ہے، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، اس کی سیاست اور مصلحت پسندی سے خوب واقف ہوں۔

    میں اسے بغور دیکھ رہا ہوں، اس کے سراپے کو نہار رہاہوں، شاٹ میں اس کے بال اور اس کی ڈاڑھی بڑھی ہوئی ہے، اس کا حلیہ عجیب وغریب دکھ رہا ہے۔ چہرے پر اداسی چھائی ہوئی ہے، شیشے کے پیچھے اس کی آنکھیں نم ہیں، لیکن وہ میرے لیے نم نہیں ہیں۔ میں جانتا ہوں، وہ کیوں اور کس کے لیے رنجیدہ ہے، مگر میں بتاؤں گا نہیں۔ راز کی بات یہ ہے کہ اس کی مظلومیت مجھے اس پر مزید ظلم کرنے سے روکتی ہے۔ میں ظالم نہیں مظلوم ہوں، اس لیے مظلوموں کا مقدمہ لڑنے آیا ہوں اوران کے حصے کی تسلی اور دلاسالیے پھرتا ہوں۔ یہ بھی قسطوں میں مرتا ہے اور میں بھی۔ یکسانیت بس اتنی ہے۔

    اس شاٹ کو میں مزید دیکھنا چاہتا تھا، مگر وہ بدل چکا ہے۔ اب بہت سی میری تصویریں اور شاٹس ایک ساتھ مجھے نظر آرہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، ان تصویروں اور شاٹس پر کچھ اعداد لکھے ہوئے ہیں۔ میں ان اعداد کو شمارکرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مگر ناکام ہوں۔ اپنی تصویروں اور شاٹس کے کولاژ کو میں بہت دلچسپی کے ساتھ غور سے دیکھ رہا ہوں۔ برقی شعاعوں سے ہونے والی تکلیف میںبھول چکا ہوں۔ اس کو لاژ سے ایک جھماکے کے ساتھ ایک تصویر بڑی ہوجاتی ہے، پھر دوسری، تیسری، چوتھی اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، کہیں شاٹ کہیں تصویر میں دیکھ رہا ہوں، میری توجہ شاٹس اور تصاویر سے زیادہ اعداد پر ہے، کسی تصویر پر ۱۷، کسی پر ۲۷، کسی پر ۴، کسی پر ۵لکھا ہوا ہے، جب شاٹ پلے ہوتا ہے تو شاٹ کے چلنے کے دوران کبھی کبھی بڑے فونٹ میں۱۷ کبھی ۲۷ لکھا ہوا سامنے آجاتا ہے، جہاں جہاں میں سگریٹ پیتا ہوا نظر آرہا ہوں، وہاں ۱۰ لکھا ہوا چمک رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی کسی شاٹ پر دو حصوں میں ۱۷ اور ۲۷لکھا گیا ہے۔ کہیں پہلے ۹ لکھا ہوا سامنے آرہاہے، پھر ۸جسے جوڑ لیا جائے تو ۱۷ بنتا ہے، کہیں ۲۰پہلے اسکرین پر چمک رہاہے، اس کے بعد ۷ دونوں کو ملانے پر ۲۷ ہو رہا ہے۔ میں اچنبھے میں ہوں۔ یہ ۱۷، ۲۷، ۱۰، ۴، ۵ کے کھیل سے میں عاجز ہو رہا ہوں، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے۔

    میں نے شاٹس پر خود کو مرکوز کردیا ہے۔میں دیکھ رہا ہوں ان شاٹس میں، میں کہیں بنچ پر اپنا سر رکھے سورہاہوں، کہیں کسی شاٹ میں میری آنکھوں سے عجیب سی نارسائی ٹپک رہی ہے۔ کہیں میں دوچار لوگوں کے ساتھ گول میز کے سامنے کھڑا کچھ کررہا ہوں، کہیںکچھ لوگوں کے ہنسنے اور کھلکھلانے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

    میری تصویروں اور شاٹس کا کولاژ آہستہ آہستہ دور ہوتا جا رہا ہے اور اسی کولاژ سے ایک شاٹ اسکرین پر پھیلتا جارہا ہے۔ اس شاٹ میں وہی لڑکا ہے، جس سے مجھے نفرت ہے، مگر اس سے ہمدردی بھی ہے، وہ جمنا کے کنارے کی آبادیوں اور گلیوں میں شامۃ النمل اور عیون الغراب کے ساتھ بھٹک رہا ہے۔ چہرے پر معصومیت پھیلی ہوئی ہے۔ آنکھیں نم ہیں، کیا پتا وہ کسے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

    شاٹ بدل جاتاہے، اب وہ میرے ساتھ ہے۔ میری انگلیوں میں سگریٹ دبا ہوا ہے، میں کش پر کش لگائے جا رہا ہوں۔ وہ مجھے سگریٹ پینے سے روک رہا ہے۔ ہم دونوں جمنا کے کنارے کھڑے ہیں، وہ یک بہ یک میرا بازو پکڑ کر مجھے جھنجھوڑرہا ہے، میں پوری محویت کے ساتھ جمناکے متضادساحل پر وین گوف، اس کے کینوس، برش اورپینٹنگز کے نمونے دیکھے جا رہا ہوں۔کوؤں کی کائیں کائیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔وہ وین گوف کے اردگردمنڈلارہے ہیں۔انھیں وہ دورکرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ پوراعلاقہ کوؤں سے بھرگیاہے۔وہ جتنازیادہ کوؤں کوہانک رہاہے۔ان کی تعداد میں اتناہی اضافہ ہورہا ہے۔ کوؤںکی زدمیںمیںبھی آگیاہوں۔کوؤںسے بچنے کے لیے میںہاتھ پیر مار رہا ہوں۔ پلک جھپکتے ہی وین گوف کاکوامیری آنکھوں پر آکر بیٹھ گیاہے۔

    وہ میری طرف حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔

    ’کیا ہو گیا ہے آپ کو، دیکھتے کیوں نہیں، سفینہ ڈوب رہا ہے؟‘

    ’کوئی بات نہیں، جمنا میں تلاطم ہے، سفینہ ڈوبے گا نہیں تو کیا ابھرے گا؟‘

    دیکھتے ہی دیکھتے پوری فضاتاریکی میں ڈوب گئی ہے، جیسے کسی نے تاریکی کی چادر ڈال دی ہو، میں دیکھ رہاہوں۔سخت اندھیری رات میں کوئی سایہ ایک دروازے پر دستک دے رہاہے۔کافی دیر بعددروازہ کھلتاہے۔ اندر کی روشنی باہرتک پہنچ رہی ہے۔ غورسے دیکھنے کے بعدمیں سایے کوپہچان گیاہوں۔ وہ وین گوف ہے۔مجھے یادآیا، انہی گلیوں میںکہیں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ گھر کے اندرسے ایک خاتون دروازے پر آکر کھڑی ہوگئی ہے۔ وہ وین گوف کوحیرت زدہ دیکھ رہی ہے۔خیریت معلوم کررہی ہے۔ وین گوف کہتاہے۔’تمھیں میرے کان پسند ہیں نا؟ دینے آیاہوں۔‘ یہ کہتے ہی اس نے اپنی جیب سے دھار دار چھری نکالی اورکچھ کہے سنے بغیراپنے کان کاٹ دیے، شدت تکلیف سے اس کے چہرے کارنگ فق ہوگیا ہے۔ میں حیران وپریشان دیکھ رہا ہوں۔ اس کاچہرہ بدل گیاہے، وہ چہرہ وین گوف کانہیںمیراہے۔ میرے کٹے ہوئے کان سے خون کی تیزدھاردار لکیریںنیچے تک بہتی چلی جارہی ہیں۔ میں دہاڑیں مار رہا ہوں۔ میراچہرہ، میرے کپڑے، میرے اعضائے جسمانی خون سے لت پت ہوچکے ہیں۔ میں ایک بار پھر خود کوقسطوں میں مرتاہوادیکھ رہاہوں۔

    وہ لڑکامجھے اپنی طرف متوجہ کرتے کرتے تھک گیاہے، مجھ پر جھلا رہاہے۔ کیا پتا وہ کیا کیا بک رہا ہے، ناراض ہو رہا ہے۔ شاید مجھے انسانیت سکھا رہا ہے اور میں اپنی دھن میں کچھ بڑبڑاتا جا رہا ہوں۔

    نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی۔ اپنے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے میںدور جمنا میں اشارہ کررہا ہوں، جہاں حباب اٹھ رہے ہیں اور خس وخاشاک بہتے چلے جارہے ہیں۔ ’حباب اور خس وخاشاک کو دیکھ رہے ہو۔‘ وہ غصے سے تمتمائے ہوئے چہرے کے ساتھ کہتا ہے۔ ’دیکھ ہی رہا ہوں۔‘

    ’وہ ہلکے ہیںاس لیے سطح آب پر تیر رہے ہیں، جس دن بھاری اور وزنی ہوجائیں گے، ڈوب جائیں گے اور جو ڈوبا سو پار۔‘

    مشین کے گول دائرے کے چھوٹے سوراخ سے برقی شعاعوں کی نکاسی بند ہوگئی ہے، میرے منھ کا مزاانتہائی خراب اور ناقابل بیان ہوچکا ہے۔ میرا جسم بے سدھ اور ادھ مرا کا ؤچ پر بے حس و حرکت پڑا ہے۔ کاؤچ کی جناتی ٹانگیں چھوٹی ہو چکی ہیں۔ مجھے میرے کمرے میںیا شاید میرے گھر منتقل کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ میری بیوی میرے جسم کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کا چہرہ نہ خوش ہے نہ اداس، بیوی کا چہرہ بے تاثر ہے۔سمجھ میںنہیں آرہا ہے، اب کیا ہوگا۔ جس کامجھے شدید انتظار تھا وہ شاید الٹے پاؤں لوٹ چکی ہے، میری ابدی موت، میری نادیدہ محبوب اوروہ قھاروجبار خدادور کھڑا مسکرارہا ہے۔

    شاید میں خود کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکوں گا یا کب دیکھ سکوں گا مجھے نہیں معلوم، میرے جسم کا رواںرواں اداس ہوتا جارہا ہے، میرا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوتے ادھورا رہ گیا ہے، نہ جانے کب سے میں امید لگائے بیٹھا تھا کہ میری موت آئے گی، میرے دماغ کی رگیںفشارخون سے پھٹ جائیں گی، میری روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے سے ایک لمحے پہلے میں دیکھوں گاکہ میری ناک، کان اور آنکھیں خون اگل رہی ہیں اور میرا منھ میرے جگر کے خون سے میرا بستر اور تکیے رنگین کر دے گا۔ یہ دیکھ کر میری بے چین و بے قرار روح کی تسکین ہو جائے گی اور میں خدا کے بازو میں کھڑا بالکل اسی کی طرح مسکراؤں گا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ میں نے خداکی طرف سے اپنا چہرہ پھیر لیاہے۔ مجھے اس سے بات نہیں کرنی۔ اس نے میری نادیدہ ابدی موت کو بیرنگ واپس کر دیا ہے۔

    قسطوں کی موت کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے