دھائیں۔۔۔ گولی چلنے کی آواز۔۔۔ بند کمرے سے بلند ہوتی ہوئی چیخ۔۔۔ کال بیل بج رہی ہے۔۔۔ مسز شیخ؟ سامنے پولیس آفیسر اپنی ٹوپے اتارکر سر جھکا کر کہہ رہا ہے۔۔۔ I have a bad news for you۔۔۔ یہ خط ہے آپ کے نام۔۔۔ پھر کہیں گولی چلی۔۔۔ ثروت گھبراکر اٹھ بیٹھی، سارا جسم پسینے سے تر ہو رہا تھا گھڑی میں صبح کے چار بجے تھے، ندا اور ارشد اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔۔۔ اف یہ خواب کب میرا پیچھا چھوڑےگا۔۔۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے بڑے سے آئینہ میں پھر اسی گھبرائی ہوئی خوفزدہ عورت کا چہرہ دکھائی دیا جسے ثروت کب کا دفن کرچکی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ اس نے غور سے وہ چہرہ دیکھا۔۔۔ نہیں یہ تو محض خواب تھا اور یہ خواب اب مجھے کبھی نہیں ڈرائےگا۔۔۔ سن لو انصار شیخ۔
‘’یہ ہیں میرے چھوٹے بھائی انصار شیخ، کناڈا سے آئے ہوئے ہیں’‘ تمہارے بھائی نے تمہارا تعارف کرایا تھا۔
کراچی کی وہ سہ پہر مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں تمہارے بھائی کے پاس گئی تھی کہ ان کے پرائیویٹ اسکول میں شاید مجھے پڑھانے کی ملازمت مل جائے، میں نے بی۔ اے۔ اور بی ایڈ کر لیا تھا اور پھر کچھ ایسا ہوا ہفتے بھر بعد تمہارے نام کی انگوٹھی مجھے پہنائی گئی۔ دوسرے ہی ہفتے شادی کا ہنگامہ اٹھا، امی بڑی پھوپھی سے کہہ رہی تھیں۔
‘’لڑکا وہاں اک فیکٹری کا منیجر ہے مہینے بھر کی چھٹی پر آیا ہوا ہے، ثروت کو دیکھا تو ضد پکڑ لی کہ شادی کرکے ہی جاؤں گا اسی لئے اتنی جلدی کرنی پڑی’‘۔
شادی کے بعد مجھے تمہارے ساتھ ہفتہ بھر ہی رہنے کا موقع ملا، شادی کے ہنگاموں، زیوروں، کپڑوں اور رشتہ داروں سے بچ کر جو وقت تمہارے ساتھ گذارا وہ بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔ نئے نئے جذباتی اور جسمانی تجربات نے اتنا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔ تم نہ ہوتے تو کوئی اور شخص ہوتا۔۔۔ انصار شیخ کو تو میں جان بھی نہیں پائی تھی۔ تب میں خوش ہی تھی شاید۔۔۔اتنی توجہ، اتنی محبت نچھاور کی تم نے کہ میں تمہارے وجود سے ڈھک سی گئی۔ تم نے مجھ سے کہا تھا۔
‘’ثروت ایسے ہی خوش رکھنا مجھے کبھی غصہ نہ دلانا’‘۔
اور میں نے بھی تمہارے سینے سے سر لگاکر، آنکھیں بند کرکے تمہیں ہمیشہ خوش رکھنے کا یقین دلا دیا تھا، ایسا ہی تو ہوتا ہے ناافسانوں میں۔
تقریباً سال بھر بعد میرا کناڈا کا ویزا آیا، سال بھر میں نے اپنی نئی زندگی کے خوش کن تصورات میں گذار دیا، تمہارے خط تو آتے رہتے تھے۔۔۔ میں خوشیوں کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی کہ اپنا گھر بناؤں گی، سجاؤں گی، جیسے چاہوں گی رہوں گی، ساس نند کا بھی جھمیلہ نہیں ہوگا۔۔۔ خوبصورت سلیقے مند اور پڑھی لکھی تو میں تھی ہی اور تم تو تھے ہی میرے۔
وہ ستمبر کا مہینہ تھا جب میں ٹورنٹو پہنچی تھی۔ ائیرپورٹ سے نکل کر کار چوڑی شفاف سڑک پر دوڑ رہی تھی، دونوں طرف سرخ نارنجی اور پیلے پتوں سے ڈھکے درخت تھے، ڈھلوان چھتوں والے صاف ستھرے مکان تھے جن کے سامنے گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں کسی ایسے ہی گھر کا تصور لئے کار میں بیٹھی اپنے خیالوں میں گم تھی۔ اب کار شہر کی گنجان آبادی میں داخل ہو گئی تھی، سڑک پر بہت چہل پہل تھی، پر رونق بازار تھے۔اونچی اونچی عمارتیں تھیں۔ تمہارے دوست ریاض بھائی جو گاڑی چلا رہے تھے ان کی آواز نے چونکا دیا۔
‘’لیجئے بھا بھی! آ گیا آپ کا گھر’‘۔
ایک دس منزلہ بلڈنگ کے سامنے کار کھڑی تھی آس پاس بھی ایسی ہی عمارات تھیں۔ بلڈنگ میں داخل ہوئی تو باسی کھانے، مچھلی اور مسالوں کی بو نے استقبال کیا ریاض بھائی کہہ رہے تھے۔
’’اس بلڈنگ میں بہت سے دیسی لوگ رہتے ہیں’‘۔
چھٹی منزل پر میرا گھر دو کمروں کا فلیٹ تھا، ایک کمرہ سونے کا اور دوسرا سٹنگ روم تھا اور سٹنگ روم کے ایک کونے میں کاونٹر کے پیچھے کچن تھا، دونوں کمرے سامان سے بھرے ہوئے تھے۔ مگر گھر بہت صاف ستھرا تھا ،ریاض بھائی کہہ رہے تھے۔
‘’بھابھی! ہمارے انصار بھائی کو صفائی کا جنون ہے‘‘۔
تم نے مجھے شہر گھمایا، شاپنگ سینٹر دکھائے اور پھر دھیرے دھیرے یہ نیا ملک یہ ماحول اور تم مجھ پر منکشف ہوتے چلے گئے۔ تمہارے دوست مجید صدیقی کی بیوی نے مجھے تسلی دینے کے لئے بتایا تھا۔
’’انصار بھأئی کا اب اپنی کینیڈین بیوی سے کچھ تعلق نہیں ہے وہ تو بّچی کو لے کر نہ جانے کہاں چلی گئی اس نے تو خر چے کے پیسے بھی کلیم (claim) نہیں کئے انصار سے’‘۔
مسز صدیقی بےچاری سمجھیں تھیں کہ تم نے اپنی پہلی شادی کے متعلق مجھے بتا دیا ہوگا۔۔۔ میں بہت روئی تھی اس رات تنہائی میں۔۔۔ مگر کیا پوچھتی تم سے، اب ہو بھی کیا سکتا تھا۔
مسز خاں نے مجھے امید دلائی تھی۔
’’اب انشاء اللہ انصار صاحب لگ کر مستقل مزاجی سے جاب کریں گے، آپ جو آ گئی ہیں’‘۔
اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ تم مستقل مزاجی سے نوکری بھی نہیں کرتے ہو۔۔۔ میں نے تو تم سے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ فیکٹری کے منیجر اور فورمین میں کتنا فرق ہے۔۔۔ چلو ایسے ہی سہی۔۔۔ تم نے میرے گھر والوں کو بتایا تھا کہ تم ایک فیکٹری میں منیجر ہوا۔
میں نے تمہارے پل پل بدلتے موڈ اور بات بات پر مشتعل ہونے کی عادت سے بھی واقفیت کر لی۔ دوسروں کے سامنے تم بہت مہذب اور پیار کرنے والے شوہر تھے نا۔۔۔ سب جانتے تھے کہ تم مجھے اتنا چاہتے ہو کہ کپڑے بھی اپنی پسند کے پہناتے ہو۔۔۔ سجا بناکر گڑیا کی طرح اپنی خوبصورت بیوی کو لوگوں سے ملایا تھا نا تم نے۔۔۔ جب کہیں ہم ملنے جاتے یا ہمارے گھر کوئی مہمان آتا تو نہ جانے اس کے بعد تم کہاں سے کو ئی ایسی بات ڈھونڈ نکالتے جس پر تم چیخ سکو، برتن توڑو۔ گالیاں دو مجھے۔۔۔ شروع شروع میں جب کبھی تمہارے غصے کا دورہ دھیما ہوتا تو تم کہتے۔
’’ثروت تم مجھے غصہ دلا دیتی ہو’‘۔
میں کوشش کرتی کی کوئی با ت تمہارے مرضی کے خلاف نہ ہو جائے، میں خود کو یقین دلا دیتی تھی کہ غلطی میری ہی ہے شاید۔ معافی کا لفظ تو تمہاری زبان سے ہی نہیں نکل سکتا تھا۔ صرف شوہرانہ حقوق کی ادئیگی کو تم اپنی بدتمیزی کا ازالہ سمجھتے تھے اور میں بھی خاموشی سے خود کو تمہارے سپرد کر دیتی۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ تھا میرے پاس؟ میر ے اندر کی عورت کرچیں کر چیں ہوتی جا رہی تھی اس کا پورا احساس تو خود مجھ کو بھی نہیں ہوا تھا۔
کناڈا پہنچنے کے دوتین مہینے بعد تم نے مجھے بھی اک فیکٹری میں کام دلا دیا تھا کیونکہ پاکستان کے ٹرپ اور شادی کے لئے تم نے ماسٹر کارڈ پر ادھار لیا تھا جو ہر مہینے ادا کرنا تھا۔ میں دن بھر فیکٹری میں ایک بڑے سے ہال میں تیز روشنیوں میں مشین پرجھکی سلائی کرتی رہتی تھی۔ میری طرح اور بھی عورتیں وہاں کام کرتی تھیں ایک گھنٹہ لنچ اور آدھے گھنٹے کے کافی کے وقفے میں دوسری انڈین پاکستانی عورتوں سے دو چار باتیں کر کے تھوڑا دل بہل جاتا، شام کو آکر میں کھانا بناتی، تازی روٹی پکا تی، برتن دھوکر، صفائی کرکے تھک کراگر سونے لگتی تو تمہارا پارہ چڑھ جاتا۔ تم کا م سے آکر T۔V۔ کے سامنے صوفے پر دراز ہوجاتے تھے نا۔۔۔ ہاں شاید یہ میری ہی غلطی تھی کہ تمہارے ساتھ گرم جوشی کامظاہرہ نہیں کرتی۔ بیٹھ کر بلو فلمیں نہیں دیکھتی۔۔۔ ہاں ہاں! تم تو حق بجانب تھے کہ مجھے دھکے دو، میرے بال کھینچو کیونکہ غصہ کرنا تو تمہارا پیدائشی حق ہے۔ کسی ذرا سی بات پر بےقابو ہوکر تمہاری آنکھیں سرخ ہو جائیں اور تم مجھے تھپڑ مارو۔۔ اس میں بھی میرا ہی قصور تھا نا؟ تم تو اپنے مزاج سے مجبور تھے۔ صبح کا م پر جانے سے پہلے میں پھرکی کی طرح کام کرتی رہتی، تم دیر سے سوکر اٹھتے تو مجھ پر جھلاتے کبھی چائے زیادہ گرم ہے، تو کبھی کار کی چابی نہیں مل رہی اور ظاہر ہے سب قصور میرا ہی ہوتا۔
شادی کے تین سال بعد جب ندا پیدا ہوئی تو مجھے امید ہوئی کہ بچی شاید تمہیں کچھ سدھار دےگی، ندا کو دیکھ کر مسز مجید نے کہہ دیا تھا۔
’’بچی کی صورت تو بالکل انصار بھائی کی ہے بس خدا کرے مزاج ثروت کا مل جائے تو اچھا ہے’‘۔
ان کے سامنے تو تم مسکراتے رہے مگر ان کے جانے کے بعد قیامت آ گئی۔ میں تمہارے لئے چائے کی پیالی لے کر گئی تو تم نے ہاتھ ماکر گرا دی میرا ہاتھ بھی جل گیا تھا۔ کیا وجہ تھی اس غصے کی میں سمجھ نہیں پائی تھی۔
تم چیخنے لگے۔
‘’ہاں ہاں! میں بدمزاج ہوں، براہوں، تم ہی اچھی ہو، جاؤ! کسی اچھے کے پاس چلی جاؤ۔ ہر ایک سے اپنی مصیبت کا دکھڑا روتی ہوگی جو آج انھوں نے یہ جملہ کہا۔‘‘
تم نے مجھے دھکا دے دیا، میرے پاؤں میں موچ آ گئی مگر میں تم سے یہ بھی نہیں کہہ پائی کہ میں نے کبھی کسی سے تمہارے برتاؤ کا ذکر تک نہیں کیا۔۔۔ کرتی بھی کیسے۔ میری بھی تو بدنامی تھی، سب مجھ پر ترس کھاتے۔۔۔ میں لوگوں سے کیسے کہتی کہ میرا میاں مجھے مارتا ہے۔ کراچی میں مائی نصیباں کی لڑکی جیسے روتی ہوئی سسرال سے آتی تھی، سب کے سامنے رو رو کر اپنے میاں کے مظالم بیان کرتی تھی۔۔۔ میں ثروت جہاں، بی ایڈ پاس، کس طرح اپنے دکھوں کا بکھان دنیا کے سامنے کر سکتی تھی۔
میں میٹرنٹی کی چھٹی کے بعد پھر کام پر چلی گئی۔ تین مہینے کی بچی کو اپنی بلڈنگ میں رہنے والی ایک ہندوستانی خاتون مسز پٹیل کے پاس چھوڑ کر جاتی تھی تم بچی کو پیار تو کرتے تھے مگر صرف اس وقت جب وہ کھیل رہی ہوتی تھی، رات کو جب ندا روتی تو تم مجھ پر چیخ پڑتے۔ میں تھک جاتی تھی، میری راتوں کی نیند یں پوری نہیں ہوتی تھی، مجھے اپنے حلئیے کو درست کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔۔۔ ہاں! ہاں۔۔۔ یہ سب میرا ہی قصور تھا اسی لئے تمہاری بد مزاجی اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔۔۔ کبھی کوئی میرا سوجا ہو امنھ، کوئی نیل یا خراشیں دیکھ کر پوچھتا بھی تو میں کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔ مجھے تمہاری شکل سے نفرت ہو گئی تھی لیکن پھر بھی میاں بیوی کا ڈرامہ تو کھیلنا ہی تھا نا۔۔۔ جب تم مجھے چھوتے تو میں یہ تصور کر لیتی کہ یہ ثروت نہیں کوئی اور عورت ہے جو تمہارے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ روز صبح میں اپنی اناکی دھجیاں بھی کوڑے کرکٹ کے ساتھ کوڑے دان میں پھینک آتی۔۔۔ تم بہت صفائی پسند ہونا، بےترتیبی تمھیں گوارا نہیں۔
ندا ابھی سال بھر کی تھی کہ تم نے نوکری چھوڑ دی۔ بقول تمہارے کہ تم کوئی بہتر نوکری ڈھونڈنا چاہتے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ سال بھر تو تمہیں unemployment Insurance کے پیسے تو ملنے ہی ہیں۔ اب تم صبح دس بجے سوکر اٹھتے تھے، میں صبح کا م پر جانے سے پہلے تمہارا ناشتہ میز پر رکھ کر جاتی تھی، جب واپس آتی تو وہ چھوٹے برتن وہیں میز پر رکھے ملتے۔۔۔ بقول تمہارے تم روز ملازمت کی تلاش میں جاتے تھے۔ تم رات گئے تک بیٹھے V۔C۔R پر فلمیں دیکھتے تھے۔ ایک بار میں نے غلطی سے کہہ دبا کہ ذرا T۔V۔ کی آواز ہلکی کر دو میری نیند خراب ہوتی ہے، صبح ۵ بجے مجھے اٹھنا ہوتا ہے تو تم آپے سے باہر ہو گئے تھے۔
’’بہت دماغ خراب ہو گیا ہے چار پیسے کیا کماتی ہو کہ دھونس جمانے لگی ہو۔۔۔‘‘ اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے پھر تم نے غصے سے کرسی الٹ دی، ایش ٹرے دیوار پر دے ماری۔۔۔ ہاں سب قصو رمیرا ہی تھا نا۔۔۔ مجھے ہی سمجھنا چاہئے کہ تم بہت Tense تھے پریشان تھے نوکری ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔ میری ہی غلطی ہوتی تھی ہمیشہ۔۔۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ تم دن بھر محلے کی پاکستانی گروسری اور ویڈیو کی دکان پر بیٹھے رہتے ہو۔ وہ دکان تو بےکار لوگوں کا اچھا خاصہ اڈا تھی۔ اسی سال نہ چاہتے ہوئے بھی ارشد میرے پیٹ میں آ گیا۔ ارشد کی پیدائش کے لئے میں نے میٹرنٹی کی چھٹی لے لی تھی۔ تم خلاف معمول بہت محبت سے آئے اور کہنے لگے۔
’’ثروت اب تم بچے کی پیدائش کے بعد کام پر نہ جانا۔ بلاوجہ بچہ بھی بےبی سٹر کے پاس جائےگا، ندا تو اب نرسری جانے لگےگی اور سال بھر تک تو تم کو Unemployment کا الاؤنس گھر بیٹھے مل جایا کرےگا۔
مجھے اپنے کانوں پر کچھ یقین سا نہیں آیا، میں نے پوچھا۔
’’لیکن اب آپ کو نوکری چھوڑے ہوئے ایک سال ہو گیا اب تو آپ کا بھی Unemployment کا الاؤنس بند ہونے والا ہے پھر گھر کے خرچے کا کیا ہوگا؟‘‘
تم نے بہت سہولیت سے رائے دی تھی۔
‘’اس سے اچھا ہے کہ تم گھر پر دو چار بچوں کے بے بی سٹنگ کر لو اچھا خاصہ تمہاری تنخواہ کی برابر پیسہ مل جائےگا‘‘۔
مگر میں اتنی بھولی نہیں تھی انصار شیخ۔ فیکٹری میں کام کرتے کرتے کناڈا کے سب قاعدے قوانین جان گئی تھی، میں سمجھ گئی تھی کہ اب تم ویلفئیر کے لئے اپلائی کرنا چاہتے ہو۔ ویلفئر وہ جو گورنمنٹ بے حد غریب لوگوں کو دیتی ہے یا ان کو جو کسی طرح کام کرنے سے معذور ہیں۔ تم کو معلوم تھا کہ گھر پر بےبی سٹنگ کروں گی تو تم سرکاری دفتر میں بتا سکو گے کہ میری بیوی کے پاس بھی نوکری نہیں ہے۔ تم کو ویلفئیر بھی مل جائےگا اور مجھے بھی پیسے ملتے رہیں گے۔ نہ جانے اس دن مجھے کہاں سے اتنی ہمت آ گئی تھی۔
’’ہاں میں سمجھ گئی آپ ویلفیئر کے لئے اپلائی کرنا چاہتے ہیں’‘۔
سچی بات تھی مگر تمھیں مجھ سے اس جواب کی امید نہیں تھی۔ تم غصے سے بے قابو ہو گئے، مجھے دھکا دیا، چانٹے مارے، ندا جوڈرکر رونے لگی تھی اسے دھکا دیا، بےچاری بچی کے منھ سے خون نکلنے لگا۔ ارشد چلا چلا کر رونے لگا تھا۔ پڑوسی جو تمہاری چیخ پکار سننے کے عادی تھے مگر وہ بھی اس دن کے ہنگامے سے چو کنا ہو گئے۔ شاید پڑوس کی عورت کیرن نے پولیس کو فون کر دیا تھا۔ پولیس نے آکر جب پوچھ تاچھ کی تو تم مکمل شرافت اور خوش مزاجی کا نمونہ بن گئے تھے۔
’’جی نہیں کچھ غلط فہمی تھی دراصل بچے رو رہے تھے’‘۔
پھر بھی پولیس نے میر ی حالت دیکھ کر تمہیں تنبیہ کی تھی۔
پولیس کے جانے کے بعد تم بالکل پاگل ہو گئے تھے۔ وہ رات تو میں اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتی اب۔۔۔ صرف اتنا یاد ہے کہ جب تم غیض وغضب میں دروازہ کو ٹھوکر مار کر باہر گئے تھے، تو میرے سر سے خون نکل رہا تھا، ہاتھ میں موچ آ گئی تھی ،دونوں بچے رورہے تھے۔۔۔ اور اس بار میں نے پولیس کو فون کیا تھا۔۔۔ اور اس بار میں مکمل طور پر پر سکون تھی۔
اس رات میں نے نہ صرف تمہارا گھر چھوڑا تھا بلکہ نئی زندگی میں قدم رکھا تھا۔ مصیبت زدہ عورتوں کے لئے بنائے گئے Shelter نے مجھے پناہ دی تھی۔ تم نے کسی نہ کسی طرح میرا پتہ لگا لیا اور بہت سے پیغام بھجوائے میرے پاس۔ کبھی دھمکایا، کبھی بچوں کو چھیننے کی دھمکی دی۔۔۔ مگر انصار شیخ میں سمجھ گئی ہوں کہ تم ایک بزدل انسان ہو۔۔۔ مجھے کیا دھمکاتے ہو۔۔۔ یہ تمہاری بزدلی ہی تو تھی جو تمہیں میرے اوپر ہاتھ اٹھا نے کے لئے مجبور کرتی تھی تم میں ہمت نہیں تھی جو سچائیوں کا اور اپنی کمزوریوں کا سامنا کرتے۔
پھر تم نے ایک اور بزدلی کا مظاہر ہ کیا۔ خود کوشوٹ کر لیا۔ میرے نام ایک خط چھوڑ گئے کہ میں تمہاری موت کی ذمہ دار ہوں۔۔۔ میں زندگی کو دوبارہ سے گرفت میں لینے کی کوشش کر رہی تھی کہ تم نے پھر مجھے ہلاکر رکھ دیا۔ میں راتوں کو سوتے سوتے چیخ پڑتی تھی، دیوانی سی ہو گئی تھی۔ تب سو شل ورکر نے میری مدد کی تھی۔ مجھے سمجھایا تھا، جینے کو حوصلہ دیا تھا۔
آج یہ خواب مجھے پھر دہلا گیا۔۔۔ نہیں انصار شیخ! اب تم مجھے ڈرا نہیں سکتے۔۔۔ زندگی سے اس طرح لڑی ہوں کہ میں جان گئی ہوں کہ میرا قصور تھا ہی نہیں۔ ہاں! تم ذہنی مریض تھے۔۔۔ کورٹ نے اگر بچوں کی کسٹوڈیتمھیں نہیں دی اس میں میرا کیا قصور؟ تم نوکری نہیں کر سکتے تھے، اس میں میرا کیا قصور۔۔۔ اپنی پہلی بیوی اور اپنی بچی کو تم کیسے بھول گئے، کبھی جاکر ڈھونڈتے انھیں بھی۔۔۔ تمہارا احساسِ جرم تھا جو تمھیں دیوانہ بنا ئے ر کھتا تھا۔ تم نے خود کو ختم کر لیا کیونکہ تم ذہنی بیمار تھے۔۔۔ ناکارہ تھے۔
میں نے اپنے دونوں بچوں کو پال پوس کر جوان کر دیا ہے۔۔۔ ہاں میں ان پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ انہیں ایک ذہنی مریض اور بزدل باپ سے اور اک روز ذلیل ہوتی ہوئی ماں سے نجات دلا دی۔ میں نے اپنے بچوں کو سب کچھ بتا دیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.