تارا نے بارہ سال تک ڈرگا تپسیا کی۔ نہ پلنگ پر سوئی نہ سرمیں تیل ڈالا، نہ آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ زمین پر سوتی تھی، گیروے کپڑے پہنتے تھی اور روکھی روٹیاں کھاتی تھی۔ اس کا چہرہ مرجھائی ہوئی کلی تھی، آنکھیں بجھا ہوا چراغ، اور دل ایک بیہڑ میدان، سبزہ اور نزہت سے خالی، اسے صرف ایک آرزوتھی کہ درگا کے درشن پاؤں۔ جسم شمع کی طرح گھلتا جاتا تھا۔ لیکن یہ آرزو دل سے نہ نکلتی تھی۔ یہی اس کی روح تھی، یہی اس کا مدارِحیات۔ گھر کے لوگ سمجھتے اِسے جنون ہے۔ ماں سمجھاتی، ’’بیٹی تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کیا تو ساری زندگی یونہی رو رو کر کاٹے گی۔ اس زمانہ کے دیوتا پتھر کے ہوتے ہیں۔ پتھر کو بھی کبھی کسی نے پگھلتے دیکھا ہے۔ دیکھ تیری سہیلیاں پھول کی طرح کھل رہی ہیں، ندی کی طرح بڑھ رہی ہیں۔ کیا تجھے مجھ پر بھی رحم نہیں آتا؟‘‘
تارا کہتی، ’’اماں اب تو جو لگن لگی وہ لگی۔ یا تو دیوی کے درشن پاؤں گی، یا یہی آرزو لئے دنیا سے رخصت ہوجاؤں گی، تم سمجھ لو میں مرگئی۔‘‘
اس طرح پورے بارہ سال گذر گئے اور تب دیوی خوش ہوئیں۔ رات کا وقت تھا، چاروں طرف خموشی چھائی ہوئی تھی۔ مندر میں ایک دھندھلا سا گھی کا چراغ جل رہا تھا۔تارا درگا کے پیروں پر سر رکھے التجاءِ صادق میں غرق تھی کہ یکایک اسے دیوی کے تنِ جامد میں ایک جنبش محسوس ہوئی۔ تارا کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ دھندھلا چراغ گنبدِ نور ہوگیا، مندر میں ایک روح افزا خوشبو پھیل گئی۔ہوا میں ایک جان بخش تازگی محسوس ہوئی۔ دیوی کا سفید چہرہ ماہِ کامل کی طرح چمکنے لگا۔ بے نور آنکھیں جگمگانے لگیں، ہونٹ کھل گئے۔ آواز آئی، ’’تارا میں تجھ سے خوش ہوں، مانگ کیا مانگتی ہے۔‘‘
تاڑا کھڑی ہوگئی۔ اس کا جسم اس طرح کانپ رہا تھا جیسے صبح کے وقت کی صدا دور سے کانپتی ہوئی آتی ہے۔اسے معلوم ہورہا تھا میں ہوا میں اڑرہی ہوں۔ اسے اپنے دل میں ایک پرواز، ایک تموجِ نور، کا احساس ہورہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا، ’’دیوی، تم نےمیری بارہ سال کی تپسیا پوری کی، کس منہ سےتمہارا جشن گاؤں۔ مجھےدنیا کی وہ برکات عطا ہوں جو ہماری خواہشات کی انتہا اور ہماری تمناؤں کا معراج ہیں۔ میں وہ دولت چاہتی ہوں جو ہوس کو بھی سیر کردے۔‘‘
دیوی نے مسکرا کر کہا، ’’منظور ہے۔‘‘
تارا: ’’وہ ثروت جو قضا کو بھی شرمندہ کردے۔‘‘
دیوی نےمسکرا کر کہا، ’’منظور ہے۔‘‘
تارا: ’’وہ حسن جس کا کہیں ثانی نہ ہو۔‘‘
دیوی نے مسکرا کر کہا، ’’منظور ہے۔‘‘
تارا کنور نے باقی رات آنکھوں میں کاٹی۔ صبح کے وقت ایک لمحہ کے لئے اس کی آنکھیں جھپک گئیں، جاگی تو دیکھا کہ میں سر سے پاؤں تک ہیرے و جواہرات سے لدی ہوئی ہوں۔ اس کا مکان ایک عالی شان سر بہ فلک مینار تھا۔ بالکل سنگِ مرمر کا بنا ہوا۔ بیش قیمت سنگریزوں سے جڑا ہوا۔ دروازہ پر نوبت بج رہی تھی۔ اس کی شمع نواز صدائیں ہوا میں گونج رہی تھیں۔ دروازہ پر میلوں تک سبزہ زار تھا۔ سرو اورمولسری کی قطاریں، چمن و خیابان اور روش کی گلکاریاں بہت ہی خوشنما معلوم ہوتی تھیں، کنیزیں سونے میں لدی ہوئی۔ زرق برق کپڑے پہنے چاروں طرف دوڑتی پھرتی تھیں۔ تارا کو دیکھتے ہی وہ سونے کے لوٹے اور کٹورے لےکر دوڑیں۔ تارا نے دیکھا کہ میرا پلنگ ہاتھی دانت کا ہے۔ زمین پر نہایت نرم غالیچے بچھے ہوئے ہیں۔ اس کے سرہانےکی طرف ایک قد آدم شیشہ تھا۔ تارا نے اس میں اپنی صورت دیکھی تو دنگ رہ گئی۔ اسکا حسن چاند کو بھی شرماتا تھا۔ دیواروں پر صدہا تصویریں آویزاں تھیں۔ جادو طراز مصوروں کی بنائی ہوئی لیکن حسن کی دلاویزی میں ایک بھی تارا کو نہ پہونچتی تھی۔
تارا کو غرورِ حسن کا احساس ہوا۔ وہ گئی کنیزوں کے ساتھ باغیچہ میں گئی۔ وہاں کا سماں دیکھ کر اس کی روح پر سرور چھا گیا۔ ہوا میں عنبر اور زعفران گھلی ہوئی تھی۔ انواع و اقسام کے پھول ہوا کے مدہم جھونکوں سے متوالوں کی طرح جھوم رہے تھے۔ تارا نے ایک گلاب کا پھول توڑ لیا اور اس کے رنگ و نزاکت کا اپنے ہونٹوں سے مقابلہ کرنے لگی۔ گلاب میں وہ دلاویزی نہ تھی۔ عین وسطِ باغ میں ایک بلوریں حوض تھا۔ اس میں ہارل، ہنس اور بط خوش فعلیاں کررہے تھے۔ یکایک تارا کو خیال آیا میرے گھر کے اور لوگ کہاں ہیں۔ کنیزوں سے دریافت کیا۔ انھوں نے کہا حضوروہ لوگ پرانے مکان میں ہیں۔
تارا نے اپنے بالا خانہ پر جاکر دیکھا۔ اسے اپنا پہلا مکان ایک بوسیدہ جھونپڑی کی طرح نظر آیا۔ اس کی بہنیں اس کی ادنیٰ کنیزوں سے بھی میل نہ کھاتی تھیں۔ ماں کو دیکھا وہ آنگن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔ تارا پہلے سوچا کرتی تھی کہ جب میرے دن چمکیں گے تو ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ رکھوں گی اور ان کی خوب خدمت کروں گی۔ پر اس وقت غرور ِثروت نے اس کے لطیف جذبات کو مردہ کردیا تھا۔ اس نے گھر والوں کو ایک حقارت آمیز رحم کی نگاہ سے دیکھا اور تب ان نغموں گا لطف اٹھانے میں محو ہوگئی جس کی روح افزا صدائیں اس کے کان میں آرہی تھیں۔
دفعۃً زور سے ایک کڑاکا ہوا، بجلی کوندی اور برقی لہروں میں سے ایک شعلہ رونوجوان نکل کر تارا کے سامنےدست بستہ کھڑا ہوگیا۔ تارا نے پوچھا، ’’تم کون ہو۔‘‘ نوجوان نے کہا، ’’حضور مجھے برق خان کہتے ہیں۔ میں حضور کا فرمانبردار خادم ہوں۔‘‘
اس کے رخصت ہوتے ہی ہوا کے محرور جھونکے چلنے لگے، ایک شعلہ آسمان میں نظر آیا اور دم کے دم میں وہ اتر کر تارا کنور کے قریب ٹھہر گیا۔ اس میں سے ایک آتشیں صورت کے مسن پر تناور آدمی نے نکل کر تارا کے قدموں کا بوسہ لیا۔ تارا نے پوچھا، ’’تم کون ہو!‘‘ مسن آدمی نے جواب دیا، ’’حضور میرا نام اگن سنگھ ہے۔ میں حضور کا فرمانبردار غلام ہوں۔‘‘
وہ ابھی جانے بھی نہ پایا تھا کہ دفعتاً سارا محل روشنی سے بقعہ نور بن گیا۔ معلوم ہوتا تھا سیکڑوں بجلیاں مل کر چمک رہی ہیں۔ ضوفگن ہوائیں چلنے لگیں۔ ایک جگمگاتا ہوا تخت آسمان پر نظر آیا۔ وہ تیزی سے زمین کی طرف چلا اور تارا کنور کے پاس آکر ٹھہر گیا۔ اس میں سے ایک نورانی صورت کا کمسن لڑکا جس کے چہرہ سے متانت برس رہی تھی نکل کر تارا کے سامنے مؤدبانہ انداز سے کھڑا ہوگیا۔ تارا نے پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا، ’’حضور مجھےمسٹر ریڈیم کہتے ہیں۔ حضور کا پروردہ ہوں۔‘‘
اربابِ ثروت تارا کے خوف سے تھرانے لگے۔ اس کے عالم فریب حسن نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ بڑے بڑے تاجدار اس کے آستانےپر سجدے کرنے لگے۔جسی کی طرف اس کی آنکھیں اٹھ جاتی تھیں وہ ہمیشہ کے لئے اس کا بندۂ بے دام بن جاتا تھا۔ اسے پھر تقدیر بھی اس آستانہ سے جدا نہ کرسکتی تھی۔ عداوت و رقابت، کینہ و حسد، قتل و خون کا بازار گرم ہوا، بدگمانیوں نے زور پکڑا۔ مگر تارا اِن عشاق کو خیال میں بھی نہ لاتی تھی۔ وہ محض تفریح کے لئے، محض تماشے کے لئے ان جانبازوں کو کھلاتی رہتی تھی۔
ایک روز تارا اپنے پرفضا باغیچہ میں سیر کررہی تھی کہ ناگاہ اس کے کان میں کسی کے گانے کی آواز آئی۔ تارا بیتاب ہوگئی۔ا س کے دربار میں دنیا کے اچھے اچھے گوےّ موجود تھے۔ لیکن وہ بےخودی، وہ جذبہ، وہ تاثیر، جوان سروں میں تھی اسے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی، اس نے گوےّ کو بلا بھیجا۔
ایک لمحہ کے بعد باغیچہ میں ایک ساد ھو داخل ہوا۔ اس کے سر پر جٹائیں تھیں، جسم خاک آلودہ، ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک ٹوٹا ہوا بین تھا۔ اسی سے وہ صدا ئےدرد نکلتی تھی۔ جو ٹوٹے ہوئے دل کی صداؤں سے کہیں دردناک تھی۔سادھو آکر حوض کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے تارا کے سامنے سر ِتعظیم نہیں جھکایا۔ حیرت سے ادھر ادھر نگاہ نہیں ڈالیں۔ اسی عالمِ محویت میں اپنا سرالاپنے لگا۔ تارا پر بیخودی کا ایک وجد طاری ہوگیا۔ دل میں ایک درد کا احساس ہوا۔ بیتابانہ جوش کے ساتھ ٹہلنے لگی، سادھو کےنغمہ سے چڑیاں مگن ہوگئیں۔ پانی میں لہریں اٹھنے لگیں۔ شجر جھومنے لگے۔
تارا نے ان دلکش سروں سے ایک تصویر بنتے ہوئی دیکھی، رفتہ رفتہ تصویر واضح ہونے لگی، اس میں حرکت پیدا ہوئی، تب وہ کھڑی ہوکر ناچنے لگی۔ اس کا انداز کتنا مستانہ، ادائیں کتنی دلربا تھیں! دفعۃً تارا چونک پڑی۔ اس نے دیکھا کہ یہ میری ہی تصویر ہے۔ نہیں۔ میں ہی ہوں۔ میں ہی بین کے تالوں پر ناچ رہی ہوں۔ اسے حیرت ہوئی کہ میں برکاتِ دنیاکی ملکہ ہوں یا ایک وجودِ خیال، ایک نغمۂ مصوّر۔۔۔ وہ سردھننے لگی اور ایک عالمِ دیوانگی میں دوڑ کر سادھو کے پیروں سے چمٹ گئی۔ اس کے آلاتِ بصر میں ایک عجیب تغیر پیدا ہوا۔ سامنےکے پھلے پھولے درخت، اور لہریں مارتا ہوا حوض اور خوشنما روشیں، سب غائب ہوگئیں۔ ایک وسیع فضا تھی اور صرف وہی سادھو بیٹھا ہوا بین بجا رہا تھا اور وہ خود یا اپنا نقشِ ثانی اس کے تالوں پرتھرک رہی تھی۔ وہ اب خاک آلود فقیر نہ تھا، نہیں! وہ مردانہ جلال کا درخشاں ستارہ اور عارفانہ حسن کا شگفتہ پھول بن گیا تھا۔ جب نغمہ بند ہوا تو تارا ہوش میں آئی۔ اس کا دل ہاتھ سے جا چکا تھا۔ وہ اس باکمال درویش کے ہاتھوں بک چلی تھی۔
تارا بولی، ’’سوامی جی، یہ محل اور ثروت، شان اور شکوہ سب آ پ کے قدموں پر نثار ہے اس خانہ تاریک کو اپنے قدموں سے روشن کیجئے۔‘‘
سادھو: ’’فقیروں کو محل اور دھن دولت سے کیا کام۔ میں اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔‘‘
تارا: ’’دنیا کی ساری نعمتیں آپ کے لئے حاضر ہیں۔‘‘
سادھو: ’’مجھے نعمتوں کی ضرورت نہیں۔‘‘
تارا: ’’میں تادمِ آخر آپ کی کنیز بنی رہوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر تارا نے آرسی میں اپنے حسنِ تاباں کا جلوہ دیکھا اور غرور سے اس کی آنکھوں میں نشہ آگیا۔
سادھو: ’’نہیں تارا کنور، میں اس لائق نہیں ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر سادھو نے بین اٹھایا اور دروازہ کی طرف چلا۔ تارا کا غرور پامال ہوگیا۔ ندامت سے اس کا سر جھک گیا اور وہ بیہوش ہوکر گرپڑی۔ میں جو ثروت میں، دولت میں، حسن میں، اپنا نظیر نہیں رکھتی، ایک فقیر کی نگاہوں میں اتنی ناچیز ہوں!
تارا کو اب کسی پہلو قرار نہ تھا۔ اسے اپنے محل اور اسباب ِعیش سے وحشت ہوتی۔ سادھو کا پر جلال چہرہ آنکھوں میں بسا رہتا اور اس کے بہشتی نغمے کانوں میں گونجا کرتے۔اس نے اپنے مخبروں کو بلا کر سادھو کا سراغ لگانے کا حکم دیا۔ بہت تلاش کے بعد اس کی کٹی کا پتہ ملا۔ تارا روز اپنے ہوائی جہاز پر بیٹھ کر سادھو کے پاس جاتی اس پر لعل و جواہر لٹاتی، کبھی اپنے ثروت کے کرشمےدکھاتی۔ کبھی برق خان، کبھی اگن سنگھ، کبھی مسٹر ریڈیم اس کے جلومیں ہوتے۔ وہ نت نئے روپ بھرتی، اپنے زاہد فریب، جہانِ سوزِ حسن، کے جلوے دکھاتی۔ لیکن سادھو اس سے ذرا بھی مخاطب نہ ہوتا اس کے نالۂ بیتاب اور فغانِ درد اس پر مطلق اثر نہ کرتے۔
تب تارا کنور پھر درگا کے مندر میں گئی اور دیوی کے پیروں پر سر رکھ کر بولی، ’’ماتا! تم نے مجھے دنیا کی سب نعمتیں عطا کیں، لیکن مجھے وہ بے خلل عیش نصیب نہ ہوا جس کی میں نے امید کی تھی۔ میں نے سمجھا تھا ثروت میں دنیا کو رام کرنے کی طاقت ہے۔ حسن میں پتھر کو پگھلانے کی قدرت ہے،دولت میں تسخیر کا جادو ہے، پر مجھے اب معلوم ہوا کہ محبت پر دولت اور حسن اور ثروت کا مطلق بس نہیں ہے۔ اب ایک بار مجھ پر پھر وہی نگاہِ کرم ہو۔ کچھ ایسا کیجئے کہ جس بےرحم کے پریم میں مری جاتی ہوں وہ بھی مجھ پر دیوانہ ہوجائے، اسے بھی مجھے دیکھے بغیر چین نہ آئے، اس کی آنکھوں میں بھی نیند حرام ہوجائے۔ وہ بھی میری الفت کے نشہ سے سرشار ہو۔‘‘
دیوی کے ہونٹ کھلے، مسکرائیں، غنچہ کو شعاعِ زریں نےبوسہ دیا۔ آواز آئی، ’’تارا میں دنیا کی سب نعمتیں عطا کرسکتی ہوں، لیکن جنت کی نعمتیں میری بس کی نہیں۔ ’پریم‘جنت کی اعلیٰ ترین نعمت ہے۔‘‘
تارا: ’’دنیا کی سب نعمتیں میرے لئے وبالِ جان ہیں۔ میں اپنے پیارے کو کیسے پاؤں گی؟‘‘
دیوی: ’’اس کا ایک ہی راستہ ہے۔ مگر وہ بہت کٹھن ہے۔ تم اس پر چل سکوگی؟‘‘
تارا: ’’وہ کتنا ہی کٹھن ہو میں اس پر چلوں گی۔‘‘
دیوی: ’’وہ خدمت کا راستہ ہے۔ خدمت کرو۔ پریم، خدمت ہی سے مل سکتا ہے۔‘‘
تارا نے اپنی بیش بہا کپڑے اور مرصع زیورات اتار دیئے۔ کنیزوں سے بدا ہوئی، اسبابِ عیش اور قصر شاہی کو خیر باد کہا اور یکہ و تنہا سادھو کی کٹی میں چلی آئی۔ اسے راہ ِخدمت پر چلنےلگی ہوئی تھی۔
وہ کچھ رات رہے اٹھتی، کٹی میں جھاڑودیتی، سادھو کے لئے گنگا سے پانی لاتی۔ جنگلوں سے پھول چنتی، سادھو نیند میں ہوتے تو وہ ان کے پاس بیٹھی ہوئی آنچل سے پنکھا جھلتی۔ جنگلی پھل توڑ لاتی اور کیلے کے پتل بنا کر سادھو کے سامنےرکھتی۔ سادھو ندی میں اشنان کرنے جایا کرتے تھے۔ تارا راستہ سے کنکر چنتی۔ اس نے کٹی کے چاروں طرف پھول لگائے، گنگا سے پانی لالا کر انھیں سینچتی۔ انہیں بڑا بھرا دیکھ کر خوش ہوتی۔ اس نے مدار کی روئیاں بٹوریں اور سادھو کے لئے نرم گدّے تیار کئے۔ اسے کسی صلہ کی خواہش نہ تھی۔ خدمت آپ ہی اپنا صلہ، اپنا انعام تھی۔
تارا کو کئی کئی دن فاقے کرنا پڑتے۔ ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے، پیر کانٹوں سے چھلنی ہوگئے، دھوپ سے گلِ عارض مرجھا گئے۔ گلاب سا جسم سوکھ گیا، مگر اس دل میں اب خود پرستی اور غرور کی حکومت نہ تھی۔ وہاں اب پریم کا راج تھا۔ وہاں خدمت کی بو تھی، جس سے تلخیوں میں شیرینی آجاتی ہے اور کانٹے پھول بن جاتے ہیں۔ جہاں آنسو کی جگہ آنکھوں سے آبِ حیات کی بارش ہوتی ہے، فغانِ درد کی جگہ آنند کے راگ نکلتے ہیں۔ جہاں کے پتھر روئی سے زیادہ نرم ہیں اور لو نسیم سے زیادہ روح پرور۔ تارا بھول گئی کہ میں حسن میں یکتائے روز گار ہوں، دولت اور ثروت میں لاثانی۔ وہ اب پریم کی لونڈی تھی۔
سادھو کو جنگل کے چرند و پرند سے عشق تھا۔ وہ کٹی کے آس پاس جمع ہوجاتے۔ تارا انھیں پانی پلاتی۔ دانے چگاتی۔ گود میں لےکر پیارکرتی۔ زہریلےسانپ اور خونخوار درندے اس کی محبت کے اثر سے رام ہوگئے۔
سادھو کی دعا سے شفا پانے کے لئے اکثر مریض آتے رہتےتھے۔ تارا مریضوں کی تیمارداری کرتی۔ جنگل سے جڑی بوٹیاں ڈھونڈھ لاتی، ان کےلئے دوائیں بناتی۔ ان کے زخم دھوتی، زخموں پر مرہم رکھتی۔ رات رات بھر بیٹھی انھیں پنکھا جھلتی۔ سادھو کی دعا اور دوا اس کی خدمت سے اور بھی پرتاثیر ہوجاتی تھی۔
اس طرح کتنے ہی دن گذر گئے۔ گرمی کے دن تھے۔ آگ کے جھونکے چل رہے تھے۔ زمین توے کی طرح جلتی تھی۔ ہرے بھرے درخت سوکھے جاتے تھے سانپ بانی سے نکل نکل کر موروں کے پروں کے نیچے پناہ لیتے تھے۔ گنگا گرمی سے پھیلنے کے بجائے سمٹ گئی تھی تارا کو پانی لانے کے لئے بہت دور ریت میں چلنا پڑتا۔ اس کا نازک جسم چور چور ہوجاتا۔ جلتے ہوئے ریت میں تلوے بھن جاتے۔ اسی حالت میں ایک دن وہ بیدم ہوکر ایک درخت کے نیچے ذرام دم لینے کے لئے بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس نے دیکھا کہ دیوی اس کے سامنے کھڑی نگاہِ رحم سے اس کی طرف تاک رہی ہیں۔ تارا نے دوڑ کر ان کے قدموں کو بوسہ دیا۔
دیوی نےپوچھا، ’’تارا تیری مراد پوری ہوئی؟‘‘
تارا: ’’ہاں ماتا۔ میری مراد پوری ہوگئی۔‘‘
دیوی: ’’تجھے پریم مل گیا۔‘‘
تارا: ’’نہیں ماتا۔ مجھے اس سے بھی بری نعمت مل گئی۔ مجھے پریم کے ہیرے کے بدلے خدمت کا پارس مل گیا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ ’ریم‘ خدمت کا چاکر ہے۔ خدمت کے سامنے سر جھکا کر اب میں پریم کی آرزومند نہیں۔اب مجھے کسی دوسری نعمت کی خواہش نہیں۔ خدمت نے مجھے محبت، عزت، آرام، سب سے بے نیاز بنا دیا۔‘‘
دیوی اب کی بار انداز تمسخر سے مسکرائیں نہیں۔ انھوں نے تارا کو گلے لگا لیا اور نظروں سے غائب ہوگئیں۔
شام کا وقت تھا۔ شفق میں تارے یوں چمکتے تھے جیسے کمل پر پانی کی بوند چمکتی ہے۔ ہوا میں ایک دلکش خنکی آگئی تھی۔ تارا ایک درخت کے نیچے کھڑی چڑیوں کو دانہ چگارہی تھی کہ یکایک سادھو نے آکر اس کے قدموں پر سر جھکا دیا اور بولا، ’’تارا! تم نے مجھے جیت لیا۔ تمہاری دولت اور ثروت، تمہارا حسن اور انداز جو کچھ نہ کرسکا وہ تمہاری خدمت نے کردکھایا۔ تم نے مجھے اپنا دیوانہ بنا دیا۔ اب میں تمہارا خادم ہوں۔ تم مجھ سے کیاچاہتی ہو؟ تمہارےاشارہ پر میں اپنا یوگ اور دیماگ، ترک اور زہد سب کچھ نثار کردوں گا۔‘‘
تارا: ’’سوامی جی، مجھے اب کوئی ہوس نہیں ہے۔ میں صرف خدمت کی اجازت چاہتی ہوں۔‘‘
سادھو: ’’میں دکھا دوں گا کہ جوگ سا دھ کر بھی انسان کا دل مردہ نہیں ہوتا۔ میں بھونری کی طرح تمہارے حسن پر منڈلاؤنگا، پپیہے کی طرح تمہاری پریم کی رٹ لگاؤنگا، ہم دونوں الفت کی ناؤ پر بیٹھ کر دولت اور ثروت کے ندی کی سیر کریں گے۔ محبت کے کنجوں میں بیٹھ کر پریم کے دور چلائیں گے، آنند کے راگ گائیں گے۔‘‘
تارا نےکہا، ’’سوامی جی! راہِ خدمت پر چل کر میں منزل ِمقصود پر پہونچ گئی۔ اب دل میں کوئی آرزو کوئی ہوس نہیں ہے۔‘‘
سادھو نےپھر تارا کے قدموں پر سر جھکایا اور گنگا کی طرف چل دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.