دسہرہ کے دن تھے۔ اچل گڑھ میں جشن کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ دربارِعام میں مشیرانِ سلطنت کے بجائے اپسرائیں جلوہ افروزتھیں۔ دھرم شالوں اورسراؤں میں گھوڑے ہنہناررہےتھے۔ ریاست کے ملازم کیاچھوٹے کیابڑے، رسدپہنچانے کے حیلہ سے دربارِعام میں جمے رہتے کسی طرح ہٹائےنہ ہٹتے تھے۔ دربارِ خاص میں پنڈت اورپجاری اورمہنت لوگ آسن جمائے پاٹھ کرتے ہوئے نظرآتےتھے۔ وہاں کسی ملازم سرکارکی صورت نہ دکھائی دیتی تھی۔ گھی اور پوجا کی سامگری نہ ہونے کے باعث صبح کی پوجا شام کوہوتی تھی۔ رسد نہ ملنے کے باعث پنڈت لوگ ہون کے گھی اور میوہ جات کوبھوگ کے اگن کنڈ میں ڈالتے۔ دربارِ عام میں انگریزی انتظام تھا اوردربارِخاص میں ریاست کا۔
راجہ دیومل بڑے صاحبِ حوصلہ رئیس تھے۔ اس سالانہ جشن میں وہ بے دریغ روپیہ خرچ کرتے جن دنوں قحط پڑا ریاست کے آدھے آدمی بھوکوں تڑپ کرمرگئے۔ بخار اورہیضہ پلیگ میں ہزاروں آدمی ہرسال لقمہ مرگ بن جاتے تھے۔ ریاست مفلس تھی۔ اس لئے نہ وہاں مدرسے تھے۔ نہ شفاخانے۔ نہ سڑکیں۔ برسات میں رنواس دلدل ہوجاتا۔ اوراندھیری راتوں میں سرشام سے گھروں کے دروازے بندہوجاتے۔ اندھیری سڑکوں پرچلنا جان جوکھم تھا۔ یہ سب اور ان سے بھی زیادہ تکلیف دہ باتیں گوارا تھیں۔ مگریہ غیرممکن، دشوار، محال تھا کہ درگادیوی کاسالانہ جشن نہ ہو۔ اس سے شان ریاست میں بٹہ لگنے کا خوف تھا۔ ریاست مٹ جائے محلوں کی اینٹیں بک جائیں۔ مگریہ جشن ضرورہو۔ قرب وجوار کے راجہ رئیس مدعوکئے جاتے ان کے شامیانوں سے میلوں تک سنگ مرمر کا ایک شہر بس جاتاتھا۔ ہفتوں تک خوب چہل پہل۔ دھوم دھام رہتی۔ اسی کی بدولت اچل گڑھ کانام اٹل ہوگیاتھا۔
مگرکنوراندرمل کوراجہ صاحب کی ان رندانہ سرگرمیوں سے بالکل عقیدت نہ تھی۔ وہ خلقتاً ایک بہت متین اورسادہ منش نوجوان تھا۔ یوں غضب کادلیرموت کے سامنے بھی خم ٹھوٹک کراترپڑے۔ مگراس کی شجاعت خون کی پیاس سے پاک تھی۔ اس کے واربے پر طائروں، یا بے زبان جانوروں پرنہیں ہوتے تھے۔ اس کی تلوارکمزوروں پرنہیں اٹھتی تھی۔ درماندوں کی حمایت، بیکسوں کی شفاعت، غربا کی دستگیری اورفلک زدوں کی زخم شوئی۔ ان کاموں سے اسے روحانی مناسبت تھی۔
دوسال ہوئے وہ اندورکالج سے اعلیٰ درجے کی تعلیم پاکرلوٹاتھا اورتب سے اس کایہ جوش راہ اعتدال اورمصلحت کی حدود سے متجاوز ہوگیاتھا۔ چوبیس سال کا قومی ہیکل جوان نازونعمت میں پلاہوا۔ جسے فکرکی کبھی ہوا ہی نہ لگی۔ اگرکبھی رلایاتوہنسی نے۔ وہ ایسا نیک شعارہو۔ اس کے مردانہ چہرہ پرغوروخوض کی زردی اور تصورکی جھریاں نظرآئیں۔ یہ غیرمعمولی بات تھی۔ جشن کامبارک دن قریب آپہنچاتھا۔ صرف چاردن باقی تھے جشن کاانتظام مکمل ہوچکاتھا۔ صرف اگرکسر تھی توکہیں کہیں نظرثانی کی۔
سہ پہرکاوقت تھا۔ راجہ صاحب رنواس میں بیٹھے ہوئے چندمنتخب اپسراؤں کاگاناسن رہے تھے۔ ان کی سریلی تانوں سے جوخوشی ہورہی تھی اس سے بدرجہا حظ اس خیال سے ہوتاتھا کہ یہ ترانہ ریزیاں پولیٹکل ایجنٹ کوٹھپرکادیں گی۔ وہ آنکھیں بندکرکے سنے گا اورفرطِ مسرت سے اچھل اچھل پڑے گا۔
اس خیال میں جولطف اورنشہ تھا وہ تان سین کے تانوں میں بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ آہ! اس کی زبان سے بے ساختہ دادنکل پڑے گی۔ عجب نہیں اٹھ کر مجھ سے ہاتھ ملائے۔ اورمیرے انتخاب کی داد دے۔ اتنے میں کنوراندرمل بہت سادہ کپڑے پہنے خدمت میں باریاب ہوئے اورسرِنیازخم کیا۔ راجہ صاحب کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ مگرکنورصاحب کی یہ بے موقع مداخلت ناگوارِ خاطرہوئی۔ اربابِ نشاط کو وہاں سے اٹھ جانے کااشارہ کیا۔
کنوراندرمل بولے، ’’مہاراج !کیا میری منت وسماجت پربالکل دھیان نہ دیاجائے گا۔‘‘
راجہ صاحب: ولی عہد کی عزت کرتے تھے۔ اورمحبت توقدرتی بات تھی۔ تاہم انہیں یہ بے موقع ہٹ ناگوارتھی۔ وہ اتنے کم نظرنہ تھے کہ کنورصاحب کے نیک مشوروں کی قدرنہ کریں۔ ضرورریاست زیربارہوتی جاتی تھی، اوررعایاپر بہت ظلم کرنا پڑتاتھا۔ ’’میں ایسا اندھا نہیں ہوں کہ ایسی موٹی موٹی باتیں نہ سمجھ سکوں مگراچھی باتیں بھی موقع اورمحل دیکھ کر کی جاتی ہیں۔ آخرنام ونمود، عزت وآبرو بھی توہے کوئی چیز۔ ریاست میں سنگ مرمر کی سڑکیں بنوادوں۔ گلی گلی مدرسے کھول دوں۔ گھرگھرکنویں کھودادوں۔ دواؤں کی نہریں جاری کردوں۔ مگردسہرے کی دھوم دھام سے ایک ریاست کی جوعزت اورشہرت وہ ان باتوں سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ بتدریج یہ خر چ گھٹاؤں مگریکبارگی ایسا کرنا نامناسب ہےناممکن۔‘‘ جواب دیا، ’’آخرتم کیاچاہتے ہو؟ کیا دسہرہ بالکل بندکردوں؟‘‘
اندرمل نے راجہ صاحب کے تیوربدلے ہوئے دیکھے۔ مودبانہ انداز سے بولے، ’’میں نے کبھی دسہرہ کے جشن کے خلاف زبان سے ایک لفظ نہیں نکالا۔ یہ ہمارا قومی نشان ہے۔ یہ فتح ونصرت کا مبارک دن ہے۔ آج کے دن خوشیاں منانا ہمارا قومی فرض ہے۔ مجھے صرف ان اپسراؤں سے اعتراض ہے۔ رقص وسرود سے، اس دن کی متانت اورعظمت ڈوب جاتی ہے۔‘‘
راجہ صاحب نے طنزہ لہجہ میں فرمایا، ’’تمہارا مطلب ہے کہ روروکرجشن منائیں، ماتم کریں؟‘‘
اندرمل نے تیکھے ہوکرکہا، ’’یہ آئینِ انصاف کے خلاف ہے کہ ہم توجشن منائیں اورہزاروں آدمی اس کی بدولت ماتم کریں۔ بیس ہزار مزدورایک مہینہ سے مفت میں کام کررہے ہیں۔ کیا ان کے گھروں جشن ہورہاہے۔ جوپسینہ بہائیں وہ روٹیوں کوترسیں۔ اورجنہوں نے حرام کاری کواپنا پیشہ بنالیا ہے وہ ہماری محفلوں کی زینت بنیں!میں اپنی آنکھوں سے یہ جوروستم نہیں دیکھ سکتا۔ میں اس عذاب میں شریک نہیں ہوسکتا۔ اس سے تویہی بہترہے کہ اپنا منہ لے کرکہیں نکل جاؤں۔ ایسے راج میں رہنا میں اپنے اصول کے خلاف اورشرمناک سمجھتا ہوں۔‘‘
اندرمل نے طیش میں یہ گستاخانہ باتیں کیں۔ مگر الفتِ پدری کوجگانے کی کوشش نے راج ہٹ کے سوئے ہوئے دیوِسیاہ کوجگادیا۔ راجہ صاحب پرغضب نگاہوں سے دیکھ کربولے، ’’ہاں میں بھی یہی بہترسمجھتاہوں۔ تم اپنے اصول کے پکے ہو تومیں بھی اپنے دھن کا پورا ہوں۔‘‘
اندرمل نے مسکراکر راجہ صاحب کوسلام کیا۔ اس کامسکرانازخم پرنمک ہوگیا۔ راج کمار کے آنکھوں میں چند بوندیں شایدمرہم کا کام دیتیں۔
راج کمار نے ادھرپیٹھ پھیری۔ ادھرراجہ صاحب نے پھراپسراؤں کوبلایا اور پھرنغمہ جانواز کی صدائیں بلندہوگئیں۔ ان کی دریائے نغمہ سنجی کبھی اتنے زوروشور سے نہیں امڈی تھی۔ واہ واہ کی روآئی ہوئی تھی۔ تالیوں کاتلاطم ہورہاتھا۔ اورکشتی سراس دریائے پرشور میں ہنڈولے کی طرح جھول رہی تھی۔
یہاں توعیش وطرب کا ہنگامہ گرم تھا۔ اوررنواس میں نالہ دلگیرتھا۔ رانی بھان کنوردرگا کی پوجا کرکے لوٹ رہی تھیں کہ ایک لونڈی نے آکر اس سانحہ دلخراش کی اطلاع دی۔ رانی نے آرتی کاتھال زمین پر پٹک دیا۔ وہ ایک ہفتہ سے درگا کابرت رکھتی تھیں۔ مرگ چھالے پرسوتی اوردودھ کا آہار کرتی تھیں۔ پیرتھرائے۔ زمین پرگرپڑیں۔ مرجھایاہوا پھول ہوا کے جھونکے کونہ سہہ سکا۔ لونڈیاں اورچیریاں سنبھل گئیں اوررانی کے چاروں طرف حلقہ باندھ کر چھاتی اورسرپیٹنے لگیں۔ بین وبکا کی پرجوش صدائیں بلندہوئیں۔ آنکھوں میں آنسو نہ سہی۔ آنچلوں سے ان کا پردہ چھپا ہواتھا۔ مگرگلے میں آوازتوتھی۔ اس وقت اسی کی ضرورت تھی۔ اسی کی بلندی اور گرج میں اس وقت بخت رساکی جھلک نمودارتھی۔
لونڈیاں تویوں محوِوفاتھیں۔ اوربھان کنوراپنے خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کنور سے ایسی بے ادبی کیوں کرہوئی؟یہ خیال میں نہیں آتا۔ اس نے کبھی میری باتوں کا جواب نہیں دیا۔ ضرورراجہ کی زیادتی ہے۔ اس نے اس ناچ رنگ کی مخالفت کی ہوگی۔ کیا یہی چاہئے۔ انہیں کیا جوکچھ بنے بگڑے گی وہ تواس کی سرجائے گی یہ غصہ ورہیں ہی، جھلاگئے ہوں گے۔ اسے سخت سست کہاہوگا۔ بات کی اسے کہاں برداشت۔ یہی تو اس میں بڑا عیب ہے۔ روٹھ کرکہیں چلا گیاہوگا۔ مگرگیاکہاں؟ درگا! تم میرے لال کی رکشاکرنا۔ میں اسے تمہارے سپردکرتی ہوں۔ افسوس! یہ غضب ہوگیا۔ میراراج سوناہوگیا اورانہیں اپنے راگ رنگ کی سوجھی ہوئی ہے۔ یہ سوچتے سوچتے رانی کے بدن میں رعشہ آگیا۔ اٹھ کرغصے سے کانپتی ہوئی وہ بے محاباعیش محل کی طرف چلی۔ قریب پہنچی توسریلی تانیں سنائی دیں۔ ایک برچھی سی جگرمیں چبھ گئی۔ آگ میں تیل پڑگیا۔
رانی کودیکھتے ہی مطربوں میں ایک ہلچل سی مچ گئ۔ کوئی کسی گوشے میں جاچھپی۔ کوئی گرتی پڑتی دروازہ کی طرف بھاگی۔ راجہ صاحب نے رانی کی طرف گھورکردیکھا۔ غیظ وغضب کاشعلہ سامنے دہک رہا تھاانکے تیوروں پربھی بل پڑگئے۔ خونبارنگاہیں باہم ملیں۔ موم نے لوہے کاسامنا کیا۔
رانی تھرائی آوازمیں بولی، ’’میرااندرمل کہاں گیا؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی آواز رک گئی۔ اورہونٹ کانپ کررہ گئے۔
راجہ نے بے رخی سے جواب دیا، ’’میں نہیں جانتا۔‘‘
رانی سسکیاں بھرکربولیں، ’’آپ نہیں جانتے کہ وہ کل سہ پہر سے غائب اوراس کا کہیں پتہ نہیں۔ آپ کی ان زہریلی ناگنوں نے یہ بِس بویاہے۔ اگر اس کا بال بھی بیکاہواتوآپ اس کے ذمہ دارہوں گے۔‘‘
راجہ نے ترشی سے کہا، ’’وہ سرکش، خود سراورمغرور ہوگیاہے۔ میں اس کا منہ نہیں دیکھناچاہتا۔‘‘
رانی کچلے ہوئے سانپ کی طرح اینٹھ کربولی، ’’راجہ!تمہاری زبان سے یہ باتیں نکل رہی ہیں!ہاں!میرالال۔ میری آنکھوں کی پتلی۔ میرے جگرکاٹکڑا۔ میرا سب کچھ۔ یوں لوپ ہوجائے۔ اوراس بے رحم کادل ذرابھی نہ پسیجے۔ میرے گھرمیں آگ لگ جائے اوریہاں اندرکااکھاڑاسجارہے۔ میں خون کے آنسوں رؤں اوریہاں خوشی کے راگ الاپے جائیں۔ راجہ کے نتھنے بھڑکنے لگے۔ کڑک کربولے، ’’رانی بھان کنوراب زبان بندکرو۔ میں اس سے زیادہ نہیں سن سکتا بہتر ہوگاکہ تم محل میں چلی جاؤ۔‘‘
رانی نے بھپری شیرنی کی طرح گردن اٹھاکر کہا، ’’ہاں میں خودجاتی ہوں۔ میں حضور کے عیش میں مخل نہیں ہوناچاہتی۔ مگرآپ کو اس کاخمیازہ اٹھاناپڑےگا۔ اچل گڑھ میں یاتو بھان کنوررہے گی یا آپ کی زہریلی بسیلی پریاں۔‘‘
راجہ پر اس دھمکی کامطلق اثرنہ ہوا۔ گینڈے کی ڈھال پرکچ لوہے کااثرکیا ہوسکتاہے۔ جی میں توآیاکہ صاف صاف کہہ دیں بھان کنور چاہے رہے یا نہ رہے یہ پریاں ضرور رہیں گی۔ لیکن ضبط کرلے بولے، ’’تم کو اختیارہے جومناسب سمجھووہ کرو۔‘‘
رانی چندقدم چل کرپھرلوٹی اوربولی، ’’تریاہٹ رہے گی یا راج ہٹ؟‘‘
راجہ نے مستقل لہجہ میں جواب دیا، ’’اس وقت توراج ہٹ ہی رہے گی۔‘‘
رانی بھان کنورکے چلے جانے کے بعد راجہ دیومل پھراپنے کمرے میں آبیٹھے۔ مگرپژمردہ اوردل گرفتہ رانی کی سخت باتوں سے دل کے نازک ترین حصوں میں خلش ہورہی تھی۔ پہلے تو وہ اپنے اوپر جھنجھلائے کہ میں نے اس کی باتوں کو کیوں اس قدر تحمل سے سنا۔ مگر جب ذراغصے کی آگ دھیمی ہوئی اور دماغی توازن پھر اصلی حالت پرآیاتو ان واقعات پراپنے دل میں غورکرنے لگے۔ انصاف پسند طبیعتوں کے لئے غصہ ایک چتاؤنی ہوتی ہے۔ جس سےانہیں اپنے قول وفعل کے حسن وقبح کوجانچنے اور آئندہ کے لئے مزیداحتیاط کرنے کا موقع ملتاہے۔ اس داروئےتلخ سے اکثرتجربہ کوتقویت، نگاہ کووسعت اورفکر کو بیداری حاصل ہوتی ہے۔ راجہ سوچنے لگے بیشک ریاست کے اندرونی حالات کے لحاظ سے یہ بزم آرائیاں بے موقع ہیں۔ بیشک وہ رعایا کے ساتھ اپنا فرض نہیں اداکررہے تھے۔ وہ ان مصارف اور اس اخلاقی دھبے کو مٹانے پرآمادہ تھے۔ مگر اس طرح کہ نکتہ چیں نگاہیں اس میں کچھ اور معنی نہ نکال سکیں۔ شانِ ریاست قائم رہے۔ اتنااندرمل سے انہوں نے صاف کہہ دیاتھا اگر اتنے پربھی وہ اپنی سخت گیریوں سے بازنہیں آتا تو یہ اس کی خودسر ی ہے۔ ہرایک ممکن پہلوسے غور کرنے پرراجہ صاحب کے اس فیصلہ میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔ کنورکایوں غائب ہوجانا ضرورتشویش ناک تھا۔ اور ریاست کے لئے خطرناک نتائج سے مملو۔ مگروہ اپنےتئیں ان نتائج کی ذمہ داریوں سے بالکل بری سمجھتے تھے۔ وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ اندرمل کے چلے جانے کے بعد ان کا بزم ِنشاط آراستہ کرنابے موقع اورشعلہ انگیزتھا۔ مگراس کا کنورکے آخری فیصلہ پرکیااثرپڑسکتا۔ کنورایسا ناداں، خام کار اوربزدل تونہیں ہے کہ خودکشی پر آمادہ ہوجائے۔ ہاں دوچاردن ادھرادھر آوارہ گھومے گا۔ اوراگرایشور نے کچھ بھی انصاف عطا کیاہے تووہ پشیماں اورمتاسف ہوکر ضرورچلاآئےگا۔ میں خود اسے دھونڈنکالوں گا۔ وہ ایسا ناسعادت مند نہیں ہے کہ اپنے بوڑھے باپ کی معذرت پردھیان نہ دے۔
اندرل سے فارغ ہوکر راجہ صاحب کا دھیان رانی کی طرف پہنچا۔ اورجب اس کے کلماتِ آتشیں یادآئے تو غصہ سے بدن میں پسینہ آگیا اوروہ ایک عالمِ بے تابی میں اٹھ کر ٹہلنے لگے۔ بے شک میں اس کے ساتھ بے رحمی سے پیش آیا۔ ماں کو اپنی اولاد ایمان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اوراس کی خفگی بجاتھی۔ مگران دھمکیوں کے کیا معنی!بجز اس کے کہ وہ روٹھ کر میلے چلی جائے اورمجھے بدنام کرے۔ وہ میرا اورکیاکرسکتی ہے۔ عقلمندوں نے ٹھیک کہا ہے کہ عورت کی ذات بے وفا ہوتی ہے۔ وہ میٹھے پانی کی چنچل، چلبلی، چکمیلی دھارا ہے جس کے آغوشِ نازمیں چہکتی اور چمٹتی ہے۔ اسے تودہ ریگ بناکر چھوڑتی ہے۔ یہی بھان کنور ہے جس کی نازبرداریاں عشق کا درجہ رکھتی ہیں۔ آہ کیا وہ پچھلی باتیں فراموش کرجاؤں!کیا انہیں قصہ سمجھ کر دل کوتسکین دوں!اسی اثنامیں ایک لونڈی نے آکرکہاکہ مہارانی نے ہاتھی منگوایاہے۔ اورنہ جانے کہاں جارہی ہیں۔ کچھ بتلاتی نہیں۔ راجہ نےسنا اور منہ پھیرلیا۔
شہراندورسے تین میل شمال کی طرف گھنے درختوں کے بیچ میں ایک تالاب ہے جس کے رخ ِسیمیں سے کائی کا سبزمخملی گھونگھٹ کبھی نہیں اٹھتا۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں اس کے چاروں طرف پختہ گھاٹ بنے ہوئے تھے۔ مگراس وقت توصرف روایت باقی تھی۔ اورعالم اسباب میں یہ اکثرسنگ وخشت کی یادگاروں سے زیادہ دیرپاہواکرتی ہے۔
تالاب کے پورب ایک پرانا مندرتھا۔ اس میں شیوجی راکھ کی دھونی رمائے خاموش بیٹھے ہوئےتھے۔ ابابیلیں اورجنگلی کبوتر انہیں اپنی میٹھی بولیاں سنایاکرتے۔ مگراس ویرانے میں بھی ان کے بھگتوں کی کمی نہ تھی۔ مندر کےاندربھرا ہواپانی اورباہر عفونت انگیز کیچڑ۔ اس عقیدت مندی کی شاہدتھے۔ ہرایک مسافر جو اس تالاب میں نہاتا وہ اس کے ایک لوٹے پانی سے اپنے معبود کی پیاس بجھاتا تھا۔ شیوجی کھاتے کچھ نہ تھے مگر پانی بہت پیتے تھے ان کی نہ بجھنے والی پیاس کبھی نہ بجھتی تھی۔
سہ پہرکاوقت تھا کنوارکی دھوپ تیزتھی۔ کنوراندرمل اپنے بادرفتار گھوڑے پرسواراندور کی طرف سے آئے اورایک درخت کے سائے میں ٹھہرگئے۔ وہ بہت اداس تھے۔ انہوں نے گھوڑے کودرخت سے باندھ دیا۔ اورخودزین پوش بچھاکر لیٹ رہے۔ انہیں اچل گڑھ سے نکلے آج تیسرادن ہے۔ مگرتفکرات نے پلک تک نہیں جھپکنے دی۔ رانی بھان کنور اس کے دل سے ایک لمحہ کے لئے بھی دورنہ ہوتی تھی۔ اس وقت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوالگی تو نیندآگئی۔ خواب دیکھنے لگا۔ گویا رانی آئی ہیں اوراسے گلے لگاکر رورہی ہیں۔ چونک کر آنکھیں کھولیں تورانی سچ مچ سامنے کھڑی اس کی طرف آبگوں آنکھوں سے تاک رہی تھیں۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ اورماں کے قدموں کوبوسہ دیا۔ مگربجائے اس کے کہ رانی فرطِ شفقت سے اٹھاکر گلے لگالے اس نے پیرہٹالئے اورمنہ سے کچھ نہ بولی۔
اندرمل نے کہا، ‘‘ماں جی! آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘
رانی نے رکھائی سے جواب دیا، ’’میں تمہاری کون ہوتی ہوں؟‘‘
کنور: ’’آپ کویقین آئے یانہ آئے میں جب سے اچل گڑھ سے چلاہوں ایک لمحہ بھی آپ کا خیال دل سے دورنہیں ہوا۔ ابھی آپ ہی کوخواب میں دیکھ رہا تھا۔‘‘
ان الفاظ نے رانی کا غصہ ٹھنڈاکیا۔ کنورکی طرف سے بے فکر ہوکراب وہ راجہ کا دھیان کررہی تھی۔ اس نے کنور سے پوچھا، ’’تم تین دن کہاں رہے؟‘‘
کنور نے جواب دیا، ’’کیابتاؤں کہاں رہا۔ اندورچلاگیاتھا۔ وہاں پولیٹکل ایجنٹ سے ساری داستان بیان کی۔‘‘
رانی نے یہ کیفیت سنی توماتھا پیٹ کر بولی، ’’تم نے غضب کردیا۔ آگ لگادی۔‘‘
اندرمل: ’’کیاکروں۔ خودپچھتاتا ہوں۔ اس وقت یہی دھن سوارتھی۔‘‘
رانی: ’’مجھے جن باتوں کاڈرتھا۔ وہ سب ہوگئیں۔ اب کون منہ لے کراچل گڑھ جائیں گے۔‘‘
اندرمل: ’’میراجی چاہتا ہے کہ اپنا گلاگھونٹ لوں۔‘‘
رانی: ’’غصہ بڑی بلاہے۔ تمہارے آنے کے بعد میں نے بھی رارمچائی۔ اورکچھ یہی ارادہ کرکے اندورجارہی تھی۔ راستہ میں تم مل گئے۔‘‘
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ سامنے سے بیلیوں اورسانڈنیوں کی ایک لمبی قطار آتی ہوئی دکھائی دی۔ سانڈنیوں پرمردسوارتھے۔ سرمگیں آنکھوں والے پیچ دار زلفوں والے بہلیوں میں حسن کے جلوے تھے۔ شوخ نگاہیں، بے باک چتونیں یہ اربابِ نشاط کا قافلہ تھا۔ جواچل گڑھ سے ناشادونامراد چلاآتاتھا۔ انہوں نے رانی کی سواری دیکھی اورکنورکاگھوڑا پہچان گئے۔ متکبرانہ انداز سے سلام کئے مگربولے نہیں۔ جب وہ دورنکل گئے تو کنورنے زور سے قہقہہ مارا۔ یہ فتح کانعرہ تھا۔
رانی نے استصواب کیا، ’’یہ کیاکایاپلٹ ہوگئی۔ یہ سب اچل گڑھ سے لوٹے آتے ہیں۔ اورعین دسہرہ کے دن؟‘‘
اندرمل پرغروراندازسے بولے، ’’یہ پولیٹکل ایجنٹ کے انکاری چال کے کرشمے ہیں۔ میری چال بالکل ٹھیک پڑی۔‘‘
رانی کا شبہ دورہوگیا۔ ضروریہی بات ہے۔ یہ انکاری تار کی کرامات ہے۔ وہ بہت دیرتک ایک محویت کے عالم میں زمین کی طرف تاکتی رہی۔ اوراس کے دل میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا تھا، ‘‘کیا اسی کا نام راج ہٹ ہے؟‘‘
آخراندرمل نے مہرسکوت توڑی، ’’کیا آج چلنے کاارادہ ہےکہ کل؟‘‘
رانی: ’’کل شام تک ہم کواچل گڑھ پہنچناچاہئے۔ مہراج گھبراتے ہوں گے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.