اندھیری رات کے سناٹے میں دہسان ندی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی سہانی آواز پیدا کرتی تھی، گویا چکّیاں گھمر گھمر کرتی ہوں۔ ندی کے داہنے کنارے پر ایک ٹیلا ہے اس پر ایک پرمانا قلعہ بنا ہوا ہے، جس کی فصیلوں کو گھاس اور کائی نے گھیر لیا ہے۔ ٹیلے کے پورب میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ قلعہ اور گاؤں دونوں ایک بندیل سردار کی یادگار ہیں۔۔۔ صدیاں گزر گئیں، بندیل کھنڈ میں سلطنتیں بنیں اور بگڑیں، مسلمان آئے اور گئے، بندیل راجے اٹھے اور گرے۔ کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جس پر ان تبدیلیوں کے داغ نہ لگے ہوں۔ مگر قلعہ پر کسی دشمن کا پھریرا نہ لہرایا اور اس گاؤں میں کسی دشمن کے قدم نہ آئے۔ یہ اس کی خوش نصیبی تھی۔
انردھ سنگھ دلیر راجپوت تھے۔۔۔ وہ زمانہ ہی ایسا تھا جب ہر شخص کو ضرورتاً دلیر اور جانباز بننا پڑتا تھا۔۔۔ ایک طرف مسلمان فوجیں پر ا جمائے کھڑی رہتی تھیں تو دوسری طرف زبردست بندیل راجے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ہوسناک نگاہوں سے دیکھتے رہتے تھے۔ انردھ سنگھ کے پاس سواروں اور پیادوں کی مختصر مگر آزمودہ کار جماعت تھی، اس سے وہ اپنے خاندان کا وقار اپنے بزرگوں کی عزت قائم رکھتا تھا۔ اسے کبھی چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوتا۔
تین سال ہوئے اس کی شادی شتیلا دیوی سے ہوئی تھی، مگر انردھ سنگھ آرزوؤں کے دن اور امیدوں کی راتیں جنگل بیاباں میں کاٹتا تھا، اور غریب شتیلا دیوی اس کی جان کی خیر منانے میں رہتی تھی۔ وہ کتنی دفعہ شوہر سے کہہ چکی تھی، وہ کتنی بار اس کے قدموں پر گر کر روئی کہ تم میری آنکھوں کے سامنے سے کہیں نہ جاؤ، مجھے ہردوار لے چلو، مجھے تمہارے ساتھ جنگل میں رہنا منظور ہے، مگر یہ جدائی اب نہیں سہی جاتی۔ اس نے پیار سے کہا، ضد سے کہا، منت کی، مگر انردھ سنگھ بندیل تھا۔۔۔ شتیلا اپنے کسی ہتھیار سے فتح نہ پاسکی۔
اندھیری رات تھی، ساری دنیا سوتی تھی مگر تارے آسمان پر جاگتے تھے۔ شتیلا دیوی پلنگ پر پڑی ہوئی کروٹیں بدل رہی تھی اور اس کی نند سارندھا فرش پر بیٹھی ہوئی دل کش لہجے میں گاتی تھی، ’’بن رگھوبیر کٹت نا ہیں رین۔‘‘
شتیلا نے کہا۔۔۔ ’’جی نہ جلا، کیا تمہیں بھی نیند نہیں آتی؟‘‘
سارندھا: ’’تمہیں سنا رہی ہوں۔‘‘
شتیلا: ’’میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی۔‘‘
سارندھا: ’’کسی کو ڈھونڈنے گئی ہوگی۔‘‘
اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک گٹھے بدن کا خوبصورت جوان اندر آیا۔ یہ انردھ تھا۔ اس کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے اور بدن پر کوئی ہتھیار نہ تھا۔ شتیلا چارپائی سے اترکر زمین پر بیٹھ گئی۔
سارندھا نے پوچھا، ‘‘بھیا یہ کپڑے بھیگے کیوں ہیں؟‘‘
انردھ: ’’ندی تیر کر آیا ہوں۔‘‘
سارندھا: ’’ہتھیار کیا ہوئے؟‘‘
انردھ: ’’چھن گئے۔‘‘
سارندھا: ’’اور ساتھ کے آدمی؟‘‘
انردھ: ’’سب کے سب میدان میں کام آئے۔‘‘
شتیلا نے دبی زبان سے کہا۔۔۔ ’’ایشور نے بڑی خیر کی۔‘‘
مگر سارندھا کے تیوری پر بل پڑ گئے اور غرور کی سرخی سے چہرہ سرخ ہوگیا۔ بولی، ’’بھیّا!تم نے خاندان کی مریادہ کھودی، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
سارندھا بھائی پر جان دیتی تھی۔۔۔ اس کے منہ سے یہ جلا ہوا فقرہ سن کر انردھ سنگھ شرم سے پانی پانی ہوگیا اور وہ مردانہ جوش جسے محبت نے ذرا دیر کے لئے دبا رکھا تھا، آگ کی طرح بھڑک اٹھا۔ وہ الٹے قدم لوٹا اور یہ کہہ کر باہر چلا گیا، ’’سارندھا تم نے مجھے ہمیشہ کے لئے خبردار کردیا، یہ بات مجھے کبھی نہ بھولے گی۔‘‘
اندھیری رات تھی۔ آسمان پر تاروں کی روشنی بہت دھندلی تھی۔ انردھ سنگھ قلعے سے باہر نکلا اور ذرا دیر میں ندی کے اس پار جا پہنچا اور پھر تاریکی کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوگیا۔ شتیلا اس کے پیچھے فصیل تک آئی مگر جب انردھ جست مارکر باہر کود پڑا تو وہ برہن ایک چٹان پر بیٹھ کر رونے لگی۔
اتنے میں سارندھا بھی وہیں آپہنچی۔۔۔ شتیلا نے ناگن کی طرح بل کھاکر کہا، ’’مر یادہ اتنی پیاری ہے؟‘‘
سارندھا: ’’ہاں ‘‘
شتیلا: ’’اپنا پتی ہوتا تو دل میں چھپا لیتی۔‘‘
سارندھا: ’’نہیں، چھاتی میں چھُرا گھونپ دیتی۔‘‘
شتیلا نے طیش کھاکر کہا، ’’چولی میں چھپاتی پھروگی، میری بات گرہ میں باندھ لو۔‘‘
سارندھا: ’’جس روز یہ نوبت آئے گی میں اپنا قول پورا کر دکھاؤں گی۔‘‘
اس واقعہ کے تین ماہ انردھ سنگھ مہرونی کا قلعہ فتح کر کے لوٹا اور سال بھر کے بعد سارندھا کی شادی اور چھا کے راجا چمپت رائے سے ہوگئی مگر اس دن کی باتیں دونوں عورتوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہیں۔
راجا چمپت رائے بڑا باحوصلہ انسان تھا۔ ساری بندیل قوم اسے مایہ ناز سمجھتی تھی۔ گدّی پر بیٹھتے ہی انہو ں نے مغل بادشاہوں کو خراج دینا بند کردیا اور اپنے زورِ بازو پر اپنی حکومت وسیع کرنے لگے۔ مسلمانوں کی فوجیں بار بار حملہ آور ہوتیں اور پسپا ہوجاتیں۔ یہی زمانہ تھا جب انردھ سنگھ نے اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کردی۔ سارندھا نے منہ مانگی مراد پائی۔ اس کی یہ آرزو کہ میرا شوہر سب بندیلیوں کا سرتاج ہو، پوری ہوگئی۔ اگرچہ چمپت رائے کے رنواس میں پانچ رانیاں تھیں مگر انہیں جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ وہ عورت جو دل میں میری پرستش کرتی ہے، سارندھا ہے۔
لیکن کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ چمپت رائے کو مغل بادشاہ کا حلقہ بگوش ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنی حکومت اپنے بھائی پہاڑ سنگھ کو سونپی اور خود دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ یہ شاہجہاں کی حکومت کا آخری دور تھا۔ شہزادہ دارا شکوہ حکومت کی ذمے داری سنبھالتے تھے۔ ولی عہد کی آنکھوں میں مروت اور دل میں فیاضی تھی۔ انہوں نے چمپت رائے کی بہادری کی داستانیں سنی تھیں۔ بڑے اخلاق سے پیش آئے اور کالپی کی بیش بہا جاگیر اسے عنایت کی جس کی آمدنی نو لاکھ تھی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ چمپت رائے کو آئے دن کی برائیوں سے نجات ملی اور اس کے ساتھ عیش و عشرت کا دور شروع ہوگیا۔ رات دن عیش و عشرت کی محفلیں سجنےلگیں۔ راجا عیش میں ڈوبے، رانیاں جڑاؤ زیورات پر ریچھ گئیں، مگر سارندھا ان دنوں بہت اداس رہتی تھی۔ وہ محفلوں سے دور دور رہتی۔ یہ ناچ گانے کی سبھائیں اسے سونی لگتیں۔
ایک روز چمپت رائے نے سارندھا سے کہا، ’’سارن! تم اداس کیوں رہتی ہو، میں تمھیں کبھی ہنستے نہیں دیکھتا، کیا مجھ سے ناراض ہو؟‘‘
سارندھا آبدیدہ ہوکر بولی، ’’سوامی! آپ کیوں ایسا خیال کرتے ہیں۔ آپ کی خوشی میری خوشی ہے۔ جب آپ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں! ‘‘
چمپت رائے: ’’میں جب سے یہاں آیا ہوں میں نے تمہارے چہرے پر وہ مسکراہٹ نہیں دیکھی جو میرا من ہرلیا کرتی تھی۔ تم نے کبھی اپنے ہاتھوں سے مجھے بیڑا بناکر نہیں کھلایا، کبھی میری پاگ نہیں سنواری، کبھی میرے بدن پر ہتھیار نہیں سجائے۔ کہیں پریم لتا مرجھانے تو نہیں لگی؟‘‘
سارندھا: ’’پران ناتھ آپ مجھ سے ایسی بات پوچھتے ہیں جس کا جواب میں نہیں دے سکتی۔ بے شک ان دنوں میری طبیعت کچھ اداس رہتی ہے۔ میں بہت چاہتی ہوں کہ خوش رہوں مگر ایک بوجھ سا دل کو دبائے رہتا ہے۔‘‘
چمپت ر ائے: (تیو رچڑھاکر) ’’مجھے اس اداسی کا کوئی خاص سبب نظر نہیں آتا، ایشور نے تمہیں کیا نہیں دیا۔ آخر اورچھا، میں کیا سکھ تھا؟‘‘
سارندھا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ بولی، ’’میں کچھ کہوں تو آپ ناراض تو نہ ہوں گے؟‘‘
چمپت رائے: ’’نہیں شوق سے کہو۔‘‘
سارندھا: ’’اورچھا میں، میں ایک راجا کی رانی تھی، یہاں میں ایک جاگیردار کی لونڈی ہوں۔ اورچھا میں میں وہ تھی جو اودھ میں کوشلیا تھیں، مگر یہاں میں بادشاہ کے ایک خادم کی عورت ہوں۔ جس بادشاہ کے روبرو آج آپ گردن جھکاتے ہیں وہ کل آپ کا نام سن کر کانپتا تھا۔ رانی سے باندی ہوکر خوش رہنا میرے بس میں نہیں۔ آپ نے یہ عہدہ اور یہ محفلیں بڑی مہنگی قیمت دے کر خریدی ہیں۔‘‘
چمپت رائے کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ سا ہٹ گیا۔ وہ اب تک سارندھا کی روحانی عظمت سے بے خبر تھے۔ جیسے یتیم بچہ ماں کا تذکرہ سن کر رونے لگتا ہے اسی طرح اورچھا کی یاد سے چمپت رائے کی آنکھوں میں آنسو جھلک آئے۔ عقیدت کے ساتھ سارندھا کو گلے سے لگا لیا۔ آج سے انہیں پھر اسی اجڑے دیار میں بسنے کی فکر ہوگئی جہاں سے دھن دولت کی تمنا کھینچ لائی تھی۔
جس طرح ماں اپنے کھوئے ہوئے نادان بچے کو پاکر نہال ہوجاتی ہے۔ اسی طرح چمپت رائے کے آنے سے بندیل کھنڈ نہال ہوگیا۔ اورچھے کے نصیب جاگے، نوبتیں چھڑنے لگیں اور ایک بار پھر سارندھا کی نرگسی آنکھوں میں تبسم کی جھلک نظر آنے لگیں۔
یہاں رہتے کئی ماہ گزر گئے۔ اسی اثنا میں شاہجہاں بیمار پڑا۔ شہزادوں میں پہلے سے ہی چشمک تھی۔ اس خبر کے پھیلتے ہی فساد کا شعلہ بھڑک اٹھا۔ جنگ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مراد اورمحی الدین اپنے دَل سجاکر دکن سے چلے۔
برسات کے دن تھے۔ ندی نالے امنڈے ہوئے تھے، جنگل و بیاباں ہری ہری گھاس سے لہرا رہے تھے۔ ہریالی رنگ برنگ روپ بھر کر اپنا حسن دکھا رہی تھی، مراد اور محی الدین امنگوں سے بھرے ہوئے قدم بڑھاتے چلے آتےتھے۔ یہاں تک کہ وہ دھول پور کے قریب دریائے چمبل کے کنارے آپہنچے، مگر یہاں انہوں نے بادشاہی فوج کو اپنے مقابلے کے لئے تیار پایا۔
شہزادے اب بڑی تشویش میں مبتلا ہوئے۔ سامنے وسیع دریا موجیں مار رہا تھا۔ مجبور ہوکر چمپت رائے کے پاس پیغام بھیجا کہ خدا کے لئے آکر ہماری ڈوبتی ناؤ کو پار لگائیے۔ راجا نے محل میں جاکر سارندھا سے پوچھا، ’’اس پیغام کا کیا جواب دوں؟‘‘
سارندھا: ’’آپ کو مدد کرنی ہوگی۔‘‘
چمپت رائے: ’’ان کی مدد کرنا دارا شکوہ سے بیر مول لینا ہے۔‘‘
سارندھا: ’’بے شک، مگر ہاتھ پھیلانے والے کی لاج رکھنابھی تو ضروری ہے۔‘‘
چمپت رائے: (سوچ کر) ’’پیاری تم نے غور کر کے جواب نہیں دیا۔‘‘
سارندھا: ’’پران ناتھ! میں خوب جانتی ہوں کہ یہ راستہ دشوارہےاور ہمیں اپنے سپاہیوں کا خون پانی کی طرح بہانا پڑے گا مگر ہم اپنا خون بہائیں گے اپنے جانبازوں کے سر کٹوائیں گے اور چمبل پر لاشوں کا گھاٹ تیار کردیں گے۔۔۔ یقین مانیے جب تک چمبل کی دھار بہتی رہے گی ہمارے سورماؤں کی جانبازی کی داستان سناتی رہے گی۔ جب تک بندیلوں کا ایک نام لیوا بھی رہے گا، یہ خون اس کے ماتھے پر کیسر کا تلک بن کر چمکے گا۔۔۔
آسمان پر بادلوں کے سمندر موجیں مار رہے تھے۔ اورچھے کے قلعے میں بندیلوں کی ایک کالی گھٹا اٹھی اور جوش کے ساتھ دریائے چمبل کی طرف چلی۔ ہر سپاہی بہادری سے جھوم رہا تھا۔ رانی سارندھا نے دونوں راج کماروں کو گلے سے لگا اور چمپت رائے کو پان کا بیڑا دے کر بولی، ’’بندیلوں کی لاج تمہارے ہاتھ ہے۔‘‘
آج خوشی سے اس کا ایک ایک عضو مسکرارہا تھا اور دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔
بندیلیوں کی یہ پرجوش فوج دیکھ کر شہزادے پھولے نہ سمائے۔ راجا وہاں کی چپہ چپہ زمین سے واقف تھا۔ اس نے بندیلوں کو ایک آڑ میں چھپا لیا اور شہزادوں کو منتشر فوج کو آراستہ کر کے دریا کے کنارے کنارے مغرب کی طرف چلا۔ دارا شکوہ کو گمان ہوا کہ حریف کسی دوسرے گھاٹ اترجانا چاہتاہے۔ فوراً مغرب سےمورچےہٹالے، آڑمیں بیٹھے ہوئے بندیل اسی موقع کےمنتظرتھے، باہرنکل پڑے اور دیا میں گھوڑے ڈالدئے۔ چمپت رائے نے شہزادہ داراشکوہ کو بھلاوا دے کر اپنی فوج گھمادی اوربندیلوں کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا اسے اتار لایا۔۔۔ اس نقل و حرکت میں اسے صرف سات گھنٹوں کا وقفہ ہوا مگر جاکر دیکھا تو سات سو بندیل جانبازوں کی لاشیں پھڑک رہی تھیں۔
راجاکو دیکھتے ہی بندیلوں کی ہمتیں بندھ گئیں۔ شہزادوں کی فوج نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور دھاوا بول دیا۔ دیکھتے دیکھتے دست بدست جنگ کی نوبت پہنچی۔ خنجر میانوں سے نکل پڑے اور خون کے فوارے چلنے لگے۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ آسمان شفق سے سرخ ہوا اور زمین خون سے۔
اندھیرا ہوگیا، تلواریں دم لینے کے لئے بے قرار ہورہی تھیں۔ دفعتاً مغرب سے سپاہیوں کا دَل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے شاہی فوج کی پشت پر آپہنچا اور کچھ اس جوش و خروش اور سرگرمی سے حملہ آور ہوا کہ فوج کے قدم اکھڑ گئے۔ سارا شیرازہ بکھر گیا۔ لوگ متحیر تھے کہ یہ غیبی امداد کہاں سے آئی، اکثر عقیدت مندوں کو خیال گزرا کہ شاید فتح کے فرشتے شہزادوں کی حمایت کو آئے ہیں۔ جب راجا دریافتِ حال کے لئے نزدیک گیا تو سارندھا نےگھوڑے سے اترکر ان کے روبرو سرجھکا دیا۔ راجا غرور کےنشے سے متوالا ہوگیا۔
میدانِ جنگ اس وقت عبرت گاہ بنا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے جہاں سپاہیوں کا ایک پہاڑ تھا وہاں بے جان لاشیں پڑی تھیں۔ حضرت انسان نے ازل سے کتنی جانیں قربان کردی ہیں اور کس بے دردی سے۔
اب فتح مند فوج کے سپاہی مالِ غنیمت پر ٹوٹے۔ پہلے زندوں کی زندوں سے جنگ تھی۔ اب مردوں کی زندوں سے جنگ شروع ہوئی۔ وہ شجاعت و مردانگی کانظارہ تھا، یہ لالچ او رکمینے پن کی تصویر۔ اس وقت انسان جانور بنا ہوا تھا، اب وہ جانور سے بھی بڑھ گیا تھا۔
اس نوچ کھسوٹ میں لوگوں کو شاہی فوج کے سپہ سالار ولی بہادر خاں بھی زخمی حالت میں نیم جاں پڑا تھا۔ اس کے قریب اس کا گھوڑا دُم سے اس کی مکھیاں اڑا رہا تھا۔۔۔
راجا کو گھوڑو ں کا شوق تھا، اسے دیکھ کر فریفتہ ہوگیا۔ یہ ایک عراقی اصیل جانور تھا۔ ایک ایک عضو سانچےمیں ڈھلا ہوا، شیر کا سینہ، چیتےکی سی کمر، دو آنکھیں زندگی کی دو تصویریں۔ اس کی محبت اور وفاداری دیکھ کر لوگ عش عش کرنے لگے۔ راجا نےحکم دیا کہ ’’خبرداراس پر کوئی ہتھیار نہ چلائے، اسے زندہ پکڑلو، یہ میرے اصطبل کی زینت ہوگا۔ جو شخص اسے میرے روبرو لائے اسے نہال کردوں گا۔‘‘
تجربہ کار سوار چاروں طرف سے گھوڑے پر پل پڑے مگر کسی کی ہمت نہ پڑی کہ اس کے قریب جاسکے۔ کوئی پچکارتا، کوئی پھندے میں پھانسنے کی فکر کرتا مگر کوئی تدبیر راس نہ آئی۔ ذرا دیر میں وہاں سپاہیوں کا میلہ سا لگ گیا۔ تب سارندھا اپنے خیمے سے نکلی۔ وہ بے خوف گھوڑے کے قریب چلی گئی۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی روشنی تھی، گھوڑے نے سر جھکا دیا۔ رانی نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھا اور اس کی پیٹھ سہلانے لگی۔ گھوڑے نے اس کے آنچل میں منہ چھپا لیا۔ رانی ا سکی راس پکڑ کر خیمے کی طرف چلی۔ خاموش پیچھے پیچھے چلا، گویا ہمیشہ سے اس کا غلام ہو۔
مگر اچھا ہوتا اگر گھوڑےنےسارندھا سے بھی بےالتفاتی برتی ہوتی، یہ خوبصورت گھوڑا آگے چل کر اس راج گھرانےکے حق میں منحوس ثابت ہوا۔
دنیا ایک میدانِ کارزار ہے۔ اس میدان میں اسی سپہ سالار کو فتح حاصل ہوتی ہے جس کی آنکھیں موقع شناس ہوتی ہیں، جو موقع دیکھ کر جتنی سرگرمی اور جوش سے آگے بڑھتا ہے اتنے ہی جوش اور سرگرمی سے خطرے کے مقام سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ مرد ِمیدان سلطنتیں قائم کرتا اور قومیں بناتا ہے اور تاریخ اس کے نام پر عظمت کے پھول نثار کرتی ہے۔
مگر میدان میں کبھی کبھی ایسے سپاہی بھی آجاتے ہیں جو موقع پر قدم بڑھانا تو جانتے ہیں مگر خطرے پرپیچھے ہٹنا نہیں جانتے ہیں۔ یہ فتح کو اصولوں پر قربان کردینا ہے۔ وہ اپنی فوج کا نام و نشان مٹا دے گا، مگر جہاں ایک بار پہنچ گیا وہاں سے پیچھے قدم نہ ہٹائے گا۔ اس موقع شناس شخص کو دنیاوی فتح اتفاقاً حاصل ہوتی ہے مگر اکثر اس کی ہار فتح سے زیادہ اہم اور زیادہ شاندار ہوتی ہے۔ اگر موقع شناس سپہ سالار سلطنتیں قائم کرتا اور قومیں بناتا ہے تو یہ آن پر جان دینے والا، یہ قدم پیچھے نہ ہٹانے والا سپاہی قوموں کے اخلاق کو سدھارتا اور ان کے دلوں پر اخلاقی عظمت کا نقش جماتا ہے اسے اس میدانِ عمل میں چاہے کامیابی نہ ہو لیکن جب کسی مجلس یا تقریر میں اس کا نام زبان پر آجاتا ہے تو حاضرین ایک آواز ہوکر اس کےلئے احترام کے نعرے بلند کرتے ہیں اور سارندھا انہی آن پر جان دینے والوں میں تھی۔۔۔
شہزادہ محی الدین چمبل کےکنارے سےآگرےکی طرف چلا تو کامیابی اس کے سر پر مورچھل ہلاتی تھی۔ جب وہ آگرے پہنچا تو شان و شوکت نے اس کے لئے تخت شاہی سجایا۔
اورنگ زیب میں قدر شناسی تھی۔ اس نے باغی سرداروں کی خطائیں معاف کردیں اور ان کے منصب بحال کیے۔ راجا چمپت رائے کو اس کی خدمات کے صلے میں منصب بارہ ہزاری پر سرفراز کیا۔ اور چھاسےبنارس اور بنارس سے جمنا تک جاگیر عطا کی۔ بندیل راجا نے پھر شاہی اطاعت کاطوق پہنا۔ عشرت کی محفلیں آراستہ ہوگئیں اور رانی سارندھا پھر فکر و ملال سے گھلنے لگی۔
ولی بہادر بڑا چرب زبان شخص تھا، اس کی خوش بیانی نے بہت جلد بادشاہ عالمگیر کا اعتماد حاصل کرلیا۔ اس پر شاہی اعزاز کی نگاہیں پڑنے لگیں۔ خان صاحب کے دل میں اپنے گھوڑے کے ہاتھ سے نکل جانے کا بڑا غم تھا۔ ایک روز کنور چھتر سال اسی گھوڑے پر سوال ہوکر سیر کو گیا تھا۔ وہ خان صاحب کے محل کی طرف جانکلا۔
ولی بہادر خاں ایسے ہی موقع کا منتظر تھا۔۔۔ فوراً اپنے آدمیوں کو اشارہ کردیا۔ راجکمار تنہا کیا کرسکتا تھا، پیادہ پا اپنے مکان پر واپس آیا اور سارندھا سے ساری کیفیت بیان کی۔ رانی کا چہرہ تمتما گیا۔ بولی، ’’مجھے اس بات کا غم نہیں کہ گھوڑا ہاتھ سے گیا بلکہ غم اس بات کا ہے تو اسے کھوکر زندہ کیوں لوٹا۔ کیا تیری رگوں میں بندیلوں کا خون نہیں ہے؟ پراہ نہ تھی اگر تجھے گھوڑا نہ ملتا مگر تجھے ثابت کردینا چاہئے تھا کہ ایک بندیل لڑکے سے اس کاگھوڑا چھین لینا ہنسی نہیں ہے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کراس نے اپنے پچیس جانبازوں کو تیار ہونے کا حکم دیا، خود سپاہیانہ لباس میں اپنے سپاہیوں کو لے کر ولی بہادر خاں کے مکان پر پہنچی۔ خانصاحب اسی گھوڑے پر سوار ہوکر دربار چلے گئے تھے۔ سارندھا نے فوراً دربار کا رخ کیا اور ہوا کی طرح سنسناتی ہوئی دربار شاہی کے سامنے جاپہنچی۔ یہ کیفیت دیکھتے ہی ارکانِ دربار میں ہل چل مچ گئی۔ افسران ادھر ادھر سے آکر جمع ہوگئے۔ عالمگیر بھی صحن میں نکل آئے۔ لوگ اپنی اپنی تلواریں سنبھال کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چاروں طرف شور مچ گیا۔ کتنی آنکھوں نے اسی دربار میں امر سنگھ کے آب دار تیغ کی جھلک دیکھی تھی ان کی آنکھوں میں سانحہ کھنچ گیا۔
سارندھا نے بلند آواز میں کہا۔۔۔ ’’خان صاحب! بڑے شرم کی بات ہے، آپ کو جو بہادری دریائے چمبل کے کنارے دکھانی تھی آج وہ ایک بچے کے مقابلے میں دکھائی ہے۔ کیوں یہ مناسب تھا کہ آپ لڑکے سے گھوڑا چھین لیتے؟‘‘
ولی بہادر کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں، تند لہجے میں بولے، ’’کسی غیر کو کیا اختیار ہے کہ میری چیز اپنے تصرف میں لائے۔‘‘
رانی: ’’وہ آپ کی چیز نہیں ہے وہ میری چیز ہے۔ اسے میں نے رن بھومی میں پایا تھا اس پر میرا حق ہے۔ تم کیا میدان جنگ کا اتنا واضح اصول بھی ابھی نہیں جانتے۔‘‘
خان صاحب: ’’وہ گھوڑا میں نہیں دے سکتا، اس کے عوض میں سارا اسطبل آپ کی نذر ہے۔‘‘
رانی: ’’میں اپنا گھوڑا لوں گی۔‘‘
خان صاحب: ’’میں اس کے برابر جواہر ات دے سکتا ہوں مگر گھوڑا نہیں دے سکتا۔‘‘
’’اس کا فیصلہ تلوار سے ہوگا۔‘‘
بندیل جانبازوں نے تلواریں کھینچ لیں اور قریب تھا کہ مار کاٹ کا بازار گرم ہو! بادشاہ عالمگیر نے بیچ میں آکر فرمایا، ’’رانی صاحبہ آپ اپنے سپاہیوں کو روکیں، گھوڑا آپ کو مل جائے گا مگر اس کی قیمت بہت دینی پڑے گی۔‘‘
رانی: ’’میں اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
بادشاہ: ’’جاگیر اور منصب بھی؟‘‘
رانی: ’’جاگیر اور منصب کوئی چیز نہیں۔‘‘
بادشاہ: ’’اپنا راج بھی؟‘‘
رانی: ’’ہاں اپنا راج بھی۔‘‘
بادشاہ: ’’ایک گھوڑے کے لئے؟‘‘
رانی: ’’جی نہیں! اس چیزکے لئے جو دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘
بادشاہ: ’’وہ کیا؟‘‘
رانی: ’’اپنی آن‘‘
اسی طرح رانی سارندھا نے ایک گھوڑے کے لئے اپنی وسیع جاگیر، اونچا منصب اور شاہی اعزاز سب ہاتھ سے کھودیا اور صرف اتنا ہی نہیں آئندہ کے لئے شاہی عتاب کا نیوتا بھی دیا۔ اسی گھڑی سے دم آخر تک چمپت رائے کو اطمینان نصیب نہ ہوا۔۔۔
راجا چمپت رائے نے پھر قلعہ اور چھا میں رہنا شروع کردیا۔ ان کو منصب اور جاگیر کے ہاتھ سے نکل جانے کا افسوس ضرورا ہوا مگر شکایت لبوں پر نہیں لائے۔ وہ سارندھا کے مزاج سے خوب واقف تھے۔ کچھ دنوں تک آرام سے گزری مگر عالم گیر سارندھا کے سخت الفاظ بھولا نہ تھا۔۔۔ جوں ہی بھائیوں کی طرف سے اطمینان ہوا، اس نے ایک بڑی فوج چمپت رائے کی سرزنش کے لئے روانہ کی اور بائیس سپہ سالار اس مہم پر مامور ہوئے۔
شبھ کرن بندیل بادشاہ کا صوبہ دار تھا۔ چمپت رائے کے بچپنے کا ساتھی اور ہم مکتب۔ اس نے چمپت رائے کو خاک میں ملانے کا بیڑا اٹھایا اور بھی کتنے بندیل سردار راجا سے بد دل ہوکر شاہی صوبہ دار سے آملے اور ایک خونریز جنگ ہوئی۔ بھائیوں کی تلواریں بھائیوں کے خون سے لال ہوگئیں۔ اگرچہ اس مہم میں راجا کو فتح نصیب ہوئی مگر اس کی طاقت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئی۔ آس پاس کے بندیل راجا جو چمپت رائے کے مددگار تھے بادشاہ کے دامِ التفات میں پھنس گئے۔ ساتھیوں میں کچھ تو کام آئے اور کچھ دغا کر گئے۔ یہاں تک کہ قریبی رشتہ داروں نے بھی آنکھیں چُرالیں مگر ان مشکلات کے باوجود چمپت رائے کے حوصلے پست نہ ہوئے اس نے اورچھا کو چھوڑ دیا اور تین سال تک بندیل کھنڈ کے جنگلوں میں گھومتا رہا۔
شاہی فوج شکاری جانوروں کی طرح سارے ملک میں منڈلا رہی تھی۔ راجا کو آئے دن کسی نہ کسے سے سابق پڑجاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کی بہادری ہی معجزے دکھاتی تھی۔ سارندھا ہمیشہ اس کے پہلو میں رہتی اور اس کا حوصلہ بڑھایا کرتی۔ بڑی بڑی جنگوں میں جب ہمت ٹوٹ جاتی اور امید ساتھ چھوڑ دیتی تو خود حفاظتی کا فرض اس کے سامنے رہتا۔ تین سال تک یہی کیفیت رہی۔ آخر بادشاہ کے صوبہ داروں نے تنگ آکر عالم گیر کو اطلاع دی کہ اس شیرکا شکار آپ کے سوا اور کسی سے نہ ہوگا۔۔۔ راجا کا جواب آیا، ’’فوجیں ہٹالو اور محاصرے اٹھالو۔۔۔‘‘ راجا نے سمجھا کہ مصیبت ٹل گئی۔ مگر یہ بات جلد ہی دھوکا ثابت ہوئی۔
تین ہفتوں سے شاہی فوج نے اورچھا محاصرہ کر رکھا ہے جس طرح سخت کلمات دل کو چھید دیتے ہیں اسی طرح توپ کے گولوں نے دیواروں کو چھید ڈالا ہے۔ قلعہ میں بیس ہزار آدمی گھرے ہوئے ہیں مگر ان میں آدھے سے زیادہ عورتیں اور ان سے کچھ ہی کم بچے ہیں۔ مردوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی ہے۔ آمدو رفت کے راستے چاروں طرف سے بند ہیں۔ ہوا کا گزر نہیں۔ کھانے کا ذخیرہ بہت کم رہ گیا ہے۔ عورتیں اپنے مردوں اور بچوں کو زندہ رکھنے کے لئے خود فاقہ کرتی ہیں۔ اس خوف نے کہ چند دنوں میں ہم آب و دانہ کے بغیر تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے لوگوں کو نیم جاں کر رکھا ہے۔ عورتیں سورج دیوتا کی طرف ہاتھ اٹھاکر دشمن کو کوستی ہیں۔ بچے جھنجھلا جھنجھلا کر دیواروں کی آڑ سے دشمن پر پتھر پھینکتے ہیں۔ مرد مشکل سے دیوار کے اس پار جاتے ہیں۔ اتفاق سے راجا چمپت رائے بھی کئی دن سے بخار میں مبتلا ہیں، کمزوری نے انہیں چارپائی سے اٹھنے نہیں دیا۔ انھیں دیکھ کر مایوس لوگوں کو تسکین ہوتی تھی مگر ان کی بیماری نے سارے قلعے میں قیامت برپا کر رکھی ہے۔
راجا نے سارندھا سے کہا، ’’آج دشمن ضرور قلعے کے اندر گھُس آئیں گے۔۔۔‘‘
سارندھا: ’’ایشور نہ کرے کہ ان آنکھوں سے وہ دن دیکھنا پڑے۔‘‘
راجا: ’’مجھے بڑی فکر ا ن عورتوں اور بچوں کی ہے۔ گیہوں کے ساتھ یہ گھن بھی پس جائیں گے۔‘‘
سارندھا: ’’ہم لوگ یہاں سے نکل جائیں تو کیسا رہے۔‘‘
راجا: ’’ان بے کسوں کو چھوڑکر؟‘‘
سارندھا: ’’اس وقت انھیں چھوڑ دینے میں ہی خیریت ہے۔ ہم نہ ہوں گے تو دشمن ان پر رحم کریں گے۔‘‘
راجا: ’’نہیں! یہ لوگ مجھ سے نہ چھوڑے جائیں گے۔ جن مردوں نے ہمارے اوپر اپنی جانیں نثار کردی ہیں، ان کی عورتوں او ربچوں کو میں اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔‘‘
سارندھا: ’’مگر یہاں رہ کر ہم ان کی کچھ مدد بھی تو نہیں کرسکتے۔‘‘
راجا: ’’ان کے ساتھ مر تو سکتے ہیں۔ ان کی حفاظت میں، میں اپنی جان لڑا دوں گا۔ میں ان کے لئے شاہی فوج سے خوشامد کروں گا، قید کی مصیبتیں جھیلوں گا مگر اس آفت میں انھیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔‘‘
سارندھا نے ندامت سے گردن جھکا لی اور سوچنے لگی، بے شک!اپنے ساتھیوں کو آگ کی آنچ میں چھوڑ کر اپنی جان بچانا انتہائی کمینہ پن ہے۔ میں ایسی خود غرض کیوں ہوگئی ہوں، مگر اپنے شوہر کو اطاعت کی ذلت سے بچانے کی فکر، جذبہ انسانیت پر غالب آئی، پھر بولی، ’’اگر آپ کو یقین ہوجائے کہ ان آدمیوں کے ساتھ ظلم نہ کیا جائے گا تب تو آپ کو چلنے میں کوئی عذر نہ ہوگا؟‘‘
راجا: (سوچ کر) ‘’کون یقین دلائے گا؟‘‘
سارندھا: ’’شاہی سپہ سالار کی تحریر۔‘‘
راجا: ’’ہاں، تب میں چلوں گا۔‘‘
سارندھا خیال میں ڈوب گئی۔ شاہی سپہ سالا رسے یہ وعدہ کس طرح لوں، کون پیغام لے کر جائے گا اور وہ ظالم ایسا معاہدہ کرنے ہی کیوں لگے۔ انھیں تو پورا یقین ہے کہ دو چار روز میں انھیں فتح ہوجائے گی۔ وہ ہماری طرف سے اطاعت کا پیغام کیوں قبول کریں گے اور جب انھیں معلوم ہوجائے گی کہ ہمارے ساتھ دغا کی گئی ہے تب تو ان غریبوں کے سر پر آفت آجائے گی۔ میرے یہاں ایسا چرب زبان معاملہ فہم کون ہے جو یہ مشکل آسان کردے۔ چھتر سال تو کرسکتا ہے۔
یہ خیال کر کے رانی نے چھرم سال کو بلایا۔ یہ اس کے چاروں بیٹوں میں سب سے زیادہ دلیر، ہوشیار اورباہمت تھا۔ رانی اسے سب لڑکوں سے زیادہ پیا رکرتی تھی۔ جس وقت چتھر سال نے آکر اسے پرنام کیا، تو رانی کی آنکھیں بھر آئیں اور دل سے ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی۔
چھتر سال: ’’ماتا جی! میرے لیے کیا حکم ہوتا ہے۔‘‘
رانی: ’’آج لڑائی کی کیا کیفیت ہے؟‘‘
چھتر سال: ’’ہمارے پچاس آدمی اب تک مرچکے ہیں۔‘‘
رانی: ’’بندیلوں کی لاج اب ایشور کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
چھتر سال: ’’آج ہم لوگ رات کو شب خون ماریں گے۔‘‘
رانی نے چند لفظوں میں اپنی تجویز اس سے بیان کی اور پوچھنے لگی، ’’یہ کام کس کے سپر د کیا جائے؟‘‘
چتھر سال: ’’میرے۔‘‘
رانی: ’’تم! اسے پورا کر آؤگے۔‘‘
چھتر سال: ’’ہاں مجھے یقین ہے۔‘‘
چھتر سال جب یہاں سے چلا تو رانی نے اسے سینے سے لگا یا۔ پھر آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاکر کہا، ’’میں نے اپنا سب سے دلیر اور ہونہار بیٹا بندیلوں کی آن کی بھینٹ کردیا، اب اس آن کو نباہنا تیرا کام ہے۔۔۔ میں نے بڑی قیمتی بھینٹ کی ہے اور اسے قبول کر۔‘‘
دوسرے روز صبح کے وقت سارندھا اشنان کر کے تھال میں پوجا کا سامان لیے مندر کو چلی۔ اس وقت اس کا چہرہ زرد تھا اور آنکھوں میں اندھیرا چھایا جاتا تھا۔ نیند کا سکون بخش جادو فکر مند دلوں پر نہیں چلتا۔ وہ مندر کے دروازے پر پہنچی تھی کہ اس کے تھال میں ایک تیر آکر گرا۔ اس کی نوک پر ایک کاغذ کا پرزہ لپٹا ہوا تھا۔۔۔ سارندھا نے تھال مندر کے چبوترے پر رکھ دیا اور کاغذ کے ایک پرزے کو دیکھا تو چہرہ خوشی سے کھل گیا، مگر یہ خوشی ذرا دیر کی مہمان تھی۔
آہ! اس کاغذ کے ٹکڑے کے لئے میں نے ایک جوان بیٹا ہاتھ سے کھودیا ہے۔ کاغذ کے ٹکڑے کو اتنا گراں کس نے خریدا ہوگا۔
سارندھا مندر سے لوٹ کر راجا چمپت رائے کے پاس گئی اور بولی، ’’پران ناتھ! آپ نے رات جو وچن دیا تھا، اسے اب پورا کیجئے۔‘‘
راجا نے چونک کر پوچھا، ’’تم نے اپنا وعدہ پورا کرلیا؟‘‘
رانی نے وہ تحریری معاہدہ راجا کو دے دیا۔ چمپت رائے نے اسے بغور دیکھا، اس کے بعد بولے، ’’میں چلوں گا اور ایشور نے چاہا تو ایک بار پھر دشمنوں کی خبر لوں گا لیکن سارن! سچ بتاؤ اس خط کے لئے کیا دینا پڑا ہے؟‘‘
رانی نے بھرائے ہوئے گلے سے کہا، ’’بہت کچھ!‘‘
راجا: ’’سنوں؟‘‘
رانی: ’’ایک جوان بیٹا۔‘‘
راجا کو سکتہ ہوگیا۔ چیخ کر پوچھا، ’’کون، انگد رائے؟‘‘
رانی: ’’نہیں ‘‘
راجا: ’’رتن ساہ؟‘‘
رانا: ’’نہیں ‘‘
راجا: ‘’چھتر سال؟‘‘
رانی: ’’ہاں ‘‘
جس طرح زخمی پرندہ اوپر اچھلتا ہے اوربے جان ہوکر گرپڑتا ہے اسی طرح چمپت رائے پلنگ سے اچھلے اوربے ہوش ہوکر گرپڑے۔ چھتر سال انھیں بہت پیارا تھا اور ان کی زندگی کی ساری امیدیں اسی سے وابستہ تھیں۔ جب راجا سنبھلے تو بولے، ’’سارن تم نے برا کیا۔‘‘
اندھیری رات تھی۔ رانی سارندھا خود گھوڑے پر سوار، چمپت رائے کو پالکی میں بٹھائے قلعے کے خفیہ راستے سے نکلی جاتی تھی۔۔۔ آج سے برسوں پہلے ایک ایسی ہی اندھیری رات تھی جب سارندھا نے شتیلا دیوی سے کچھ سخت الفاظ کہے تھے۔ شتیلا دیوی نے اس وقت کچھ پیش گوئی کی تھی، وہ آج پوری ہوئی۔ سارندھا نے اس کا جو جواب دیا تھا کیا وہ بھی پورا ہوکر رہے گا؟
دوپہر کا وقت تھا۔ سورج بیچ آسمان پر آکر آگ برسا رہا تھا۔ بدن کو جھلسانے والی ہوا جنگل اور پہاڑوں میں آگ لگاتی پھر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اگنی دیوی کی ساری فوج گرجتی ہوئی چلی آتی ہے۔ کائنات اس خوف سے کانپ رہی تھی۔
رانی سارندھا گھوڑے پر سوار چمپت رائے کو لیے مغرب کی طرف چلی جارہی تھی۔ اورچھا دس کوس پیچھے چھوٹ چکا تھا اور یہ خیال کہ ہم خطرے سے باہر نکل آئے، غالب آتا جاتا تھا،۔ راجا پالکی میں بے سدھ پڑے ہوئے تھے اورکہار پسینے میں شرابور تھے۔ پالکی کے پیچھے پانچ سوار گھوڑے بڑھاتے چلے آتے تھے۔ پیاس کے مارے سارے قافلے کا برا حال تھا، تالو سوکھا جاتا تھا۔ سائے دار درخت او رکنویں کی تلاش میں نگاہیں دوڑ رہی تھیں۔
اچانک سارندھا نے پیچھے کی طرف پھر کر دیکھا تو اسے سواروں کی ایک ٹولی نظر آئی، اس کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ یہ لوگ ضرور ہمارے دشمن ہیں۔ پھر خیال گزرا کہ شاید میرے راجکمار آدمیوں کو لے کر میری مدد کو آرہے ہیں۔ مایوسی میں بھی امید کا رشتہ نہیں ٹوٹتا، ذرا دیر وہ اسی امیدو بیم کی حالت میں رہی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ ٹولی قریب آگئی اور سپاہیوں کا لباس صاف نظر آنے لگا۔ رانی نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ اس کا جسم کانپنے لگا۔ یہ لوگ شاہی فوج کے سپاہی تھے۔
سارندھا نے کہاروں سے کہا کہ ڈولی روک لو۔ بندیل سپالیوں نے بھی تلواریں کھینچ لیں۔ راجا کمزوری کے مارے نیم جاں ہورہے تھے مگر جس طرح دبی ہوئی آگ ہوا لگتے ہی بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح یہ کیفیت دیکھتے ہی ان کے تن میں جان آگئی۔ پالکی کا پردہ اٹھاکر باہر نکلے اور کمان ہاتھ میں لے لی۔ مگر وہ کمان جوان کے ہاتھ میں اندر کا دھنش بن جاتی تھی، اس وقت ذرا بھی نہ جھکی۔۔۔ سر میں چکر آیا، پاؤں تھرائے اور وہ زمین پر گرپڑے۔ یقین ہوگیا کہ ہمارے اوج کا ستارہ ڈوب گیا۔ اس بے بال و پر پرندے کی طرح جو سانپ کو اپنی طر ف آتے دیکھ کر اوپر کو اچکتا اور پھر زمین پر گرپڑتا ہے۔ راجا چمپت رائے پھر اٹھے اور پھر گرے۔۔۔ سارندھا نے انھیں سنبھال کر بٹھایا اور آبدیدہ ہوکر بولی، ’’پران ناتھ!‘‘ اس نے آگے اس کی زبان سے کچھ نہ نکلا۔ ایسے موقع پر خموشی خود ایک زبان ہوتی ہے۔ غریب سارندھا اس وقت عام عورتوں کی طرح کمزور نظر آرہی تھی۔ لیکن ایک خاص حد تک کمزوری عورتوں کا سنگار ہوتی ہے۔۔۔
چمپت رائے نے کہا، ’’سارن! دیکھو ہمارا یک سپاہی اور موت کا شکار ہوا۔۔۔ افسوس! جس ذلت سے زندگی بھر بچتا رہا، وہ آج مرتے دم نصیب ہوئی۔ میری آنکھوں کے سامنے دشمن تمہارے پاک جسم کو ہاتھ لگائیں گے اور میں اپنی جگہ سے نہ ہل سکوں گا، ہائے موت کب آئے گی!‘‘
یہ کہتے کہتے انھیں ایک خیال آگیا۔ تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر ہاتھ بے جان ہورہے تھے۔ تب سارندھا سے کہا، ’’پیاری! تم نے بہت موقعوں پر میری جان بچائی ہے۔‘‘
اتنے سنتے ہی سارندھا کی کمزوری ختم ہوگئی، آنسو خشک ہوگئے اور مرجھائے ہوئے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ یہ امید کہ ابھی میں اپنے پتی کے کچھ کام آسکتی ہوں، اسے جوش میں لے آئی۔ راجا کی طرف دیکھ کر بولی، ’’ایشور نے چاہا تو مرتے دم تک نباہوں گی۔‘‘
رانی نے سمجھا راجا مجھے جان دینے کا اشارہ کر رہے ہیں۔
چمپت رائے: ’’میں نے جو کچھ کہا ہے اسے تم نے ہمیشہ مانا ہے۔‘‘
سارندھا: ’’مرتے دم تک مانوں گی۔‘‘
چمپت رائے: ’’شاید میری آخری درخواست ہو، اسے رد نہ کرنا۔‘‘
سارندھا نے کٹار نکال کر اپنے سینے پر رکھ لی اور بولی، ’’یہ آپ کی درخواست نہیں یہ میری آرزو ہے کہ مروں تو سر آپ کے قدموں پر ہو۔‘‘
چمپت رائے: ’’تم نے میرا مطلب نہیں سمجھا۔ کیا تم مجھے اس لئے دشمنوں کے ہاتھ چھوڑ جاؤگی کہ بیڑیاں پہنے ہوئے دلّی کی گلیوں میں ہنسی کا نشانہ بنوں؟‘‘
رانی نے حیران ہوکر راجا کی طرف دیکھا، وہ ان کا مطلب نہ سمجھی تھی۔
راجا: ’’میں تم سے ایک وردان مانگتا ہوں۔‘‘
رانی: ’’شوق سے مانگیے۔‘‘
راجا: ’’یہ میری آخری التجا ہے۔ جو کچھ کہوں گا کروں گی۔‘‘
رانی: ’’سر کے بل کروں گی۔‘‘
راجا: ’’دیکھو تم نے زبان دی ہے انکار نہ کرنا۔‘‘
رانی: (کانپ کر) ’’آپ کے کہنے کی دیر ہے۔‘‘
راجا: ’’اپنی تلوار میرے سینے میں اتادو۔‘‘
رانی کے دل پر بجلی سی گرپڑی، بولی، ’’جیون ناتھ ایسا کبھی ہوا ہے؟‘‘
راجا: ’’میں بیڑیاں پہننے کے لئے زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
رانی: ’’مجھ سے کیسے ہوگا؟‘‘
پانچواں اور آخری سپاہی زخم کھاکر گرا۔ راجا نے جھنجھلا کر کہا، ’’اسی برتے پر آن نباہنے کا دعویٰ تھا۔‘‘
شاہی سپاہی راجا کی طرف لپکے۔ راجا نے مایوسانہ نظروں سے رانی کی طرف دیکھا رانی لمحہ بھر تذبذب میں کھڑی رہی۔ لیکن مصیبت میں ہماری قوتِ فیصلہ بڑھ جاتی ہے۔ قریب تھا کہ سپاہی لوگ راجا کو پکڑ لیں، سارندھا نے شیرنی کی طرح لپک کر اپنی تلوار راجا کے سینے میں گھونپ دی۔
پریم کی ناؤ پریم کے ساگر میں غوطہ لگا گئی۔ راجا کے دل سے خون نکل رہا تھا اور چہرے پر سکون چھایا ہوا تھا۔
کیسا دل سوز نظارہ ہے! وہ عورت جو اپنے شوہر پر قربان ہوتی تھی، آج اس کی قاتلہ ہے جس کے سینے سے لپٹ کر اس نے شباب کی بہاریں لوٹیں، جودل اس کی امیدوں کا کاشانہ اور اس کی آرزوؤں کا آشیانہ تھا، جو دل اس کی عزت کا پاسبان اور اس کی محبت کا خزانہ تھا، اسی دل کو آج سارندھا کی تلوار چھید رہی ہے! کس عورت کی تلوار سے ایسا کام ہوا ہے۔
آہ! خود داری کا کیسا حسرتناک انجام ہے اودے پور اور مارواڑ کے کارناموں میں بھی خود داری اور بلند ہمتی کی ایسی مثال نہیں ملتی۔
شاہی سپاہی سارندھا کی یہ جرأت اور اوسان دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ عداوت نے احترام کو جگہ دی۔ سردار نے آگے بڑھ کر کہا، ’’رانی صاحبہ! خدا گواہ ہے۔ ہم سب آپ کے غلام ہیں، آپ کا جو حکم ہو باسرو چشم بجا لائیں۔‘‘
سارندھا نے ہنس کر کہا، ‘‘اگر ہمارے بیٹوں میں سے کوئی زندہ ہو تو دونوں لاشیں سونپ دینا۔ ‘’یہ کہہ کر وہی خون آلود تلوار اپنے سینے میں گھونپ لی۔ جب وہ زمین پر گری تو اس کا سر راجا چمپت رائے کے سینے پر تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.