میں تب کوئی نو دس سال کا رہا ہوں گا۔ جس کوٹھی میں ہم رہتے تھے۔ اس میں تین پریواروں کے رہنے کے لیے کھلی جگہ تھی۔ ایک حصے میں ہم رہتے تھے اور دوسرے میں امرتسر کے مشہور ٹھیکیدار سردار، تیسرا بھی ایک ہندو بیوپاری تھا اور اس کی عمر میرے اب کے اندازے کے مطابق کوئی ساٹھ پینسٹھ سال کی تھی۔ وہ میرے جنم سے پہلے سے ہی اس حصے میں رہتا تھا اور مجھ سے بڑا پیار کرتا تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی اپنا نہیں تھا۔ یہ شاید اس لیے کہ اس نے اپنی شادی وہاں کے کسی غریب گھر کو پیسہ دے کر کی تھی۔ تین چار مہینے سے میں اس بوڑھے کا دروازہ ہمیشہ بند ہی دیکھتا تھا۔ حالانکہ باہر سے بھی کوئی کنڈا یا تالہ نہیں لگا ہوتا تھا۔
ایک دن میں اسکول سے لوٹا تو وہ دروازہ مجھے کھلا ملا اور میں بوڑھے کو اندر دیکھ کر لاڈ سے ’’بابا، بابا‘‘ کہتا ہوا جیسے ہی اندر گیا۔ ویسے ہی اس نے تیوری چڑھاکر مجھے تھپڑ دکھایا اور منہ کے آگے انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا۔ میں حیران تھا اور میری حیرانی کے تاثرات اس بوڑھے نے بھی میرے چہرے پر یقیناً پڑھے ہوں گے۔ میں پچھلے قدموں سے واپس لوٹا ہی تھا کہ بوڑھے نے مجھے میرے بستے کے ساتھ ہی گود میں اٹھا لیا اور باہر لاکر ایک اکنی میری ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا، ’’کرشن! اب مجھے چاچا کہا کر۔ کہوگے نا؟‘‘ اپنے سوال پر میرے ’’ہاں‘‘ میں سر ہلانے سے اس نے مجھے پیار سے اتار دیا۔
گھر پہنچتے ہی بھابی جی نے دودھ کا گلاس دیا اور کہا کہ چھوٹی سی پراٹھی ابھی پکا دیتی ہوں۔ اتنے میں بوڑھے کی نوکرانی مجھے بلانے کے لیے آ گئی۔ بھابی نے کہا، ’’جا بیٹا تمہارے تاؤ نے بلایا ہوگا۔‘‘
میں نے حیران ہوکر پوچھا، ’’کون سا تاؤ ٹھیکیدار تاؤ؟‘‘
بھابی نے جواب دیا، ’’کپڑے والا تاؤ۔‘‘
میں نے کہا، ’’بابا تو کہتا تھا۔ میں تمہارا چاچا ہوں۔‘‘
بھابی ہنس پڑی اور کہا، ’’ہاں اسی نے بلایا ہے۔ یہ اس کی نئی نوکرانی ہے بیٹا۔ تمہاری تائی نے بلایا ہوگا۔۔۔‘‘
’’میں اس قسم کی باتیں سن کر چکر میں پڑ گیا اور پراٹھی ملتوی کرکے، میں نوکرانی سے ساتھ چلا گیا۔‘‘
میں جب چاچا کے گھر کے اندر گیا تو اس نے مجھے پہلے کی طرح گود میں اٹھا لیا اور اسی طرح مجھے بغل والے کمرے میں لے گیا۔ لوہے کے پلنگ کے نزدیک لگے ایک لمبی الماری کے قدآدم شیشے میں ایک گیہواں رنگ کی پتلی، نازک سی عورت، اپنے گھٹنوں تک لمبے کالے بھار بالوں کو سنوار رہی تھی۔ شیشے میں ہمیں آتا ہوا دیکھ کر منہ ہماری طرف کرنے سے پہلے پنجابی رواج کے مطابق اس نے ساڑھی کا پلو سر پر اوڑھ لیا۔ چاچا جی نے کہا، ’’کرشن، تیری چاچی۔۔۔‘‘
گھر سے سیکھے چلن کے مطابق میں چاچی جی کے پاؤں میں ماتھا ٹیکنے کے لیے اترا تو چاچی نے پاؤں پیچھے کھینچ لیے اور مجھے پکڑ کر اپنے سینے سے بھینچ لیا۔ میرے بازو جو مشکل سے اس اس کی کمر تک پہنچتے تھے۔ پیار سے اس کے گرد کس گئے۔ اس نے میرے سر کے بالوں میں لمبے لمبے نرم سے پپوٹے پھیرتے ہوئے کہا، ’’کتنا پیارا ہے یہ بچہ۔‘‘
’’رام پیاری۔‘‘ چاچا نے کہا، ’’یہ مجھے بھی بڑا عزیز ہے۔ میں نے اسے اپنی انگلیوں کی پوروں سے ناپ ناپ کر پالا ہے۔‘‘ مجھے یاد ہے، جب چاچی کے گرد لپٹے ہوئے اپنے بازوؤں کے بندھن کو کھولا، تو اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری تھی۔ چاچا نے پوچھا، ’’کیوں کیا بات ہے، پیاری؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے پھر اسی طرح سانس لیتے ہوئے کہا اور کچھ دیر ٹھہر کر مجھے بڑے پیار سے پوچھا، ’’تیرا نام کیا ہے، بچے؟‘‘
میرے بتانے پر اس نے غیرپنجابی لہجے میں دہرایا، ’’کرشن چندر۔‘‘
بالوں کو سمیٹے بغیر صابن سے ہاتھ دھوکر ایک پیالے میں ملائی اور چاول ڈال کر اس نے مجھے کھانے کو دیے۔ بڑے مزے لے لے کر کھاکر اور پراٹھی کھانے کی بات بھلاکر میں باہر کھیلنے کے لیے چلا گیا۔
کوئی تیسرے دن کی بات ہے کہ جب میں اسکول سے لوٹ رہا تھا تو چاچا کے تھوڑے سے کھلے دروازے سے کسی جانی پہچانی آواز نے مجھے بلایا۔ میں بستہ لیے لیے دروازہ کھول کر اس کے اندر چلا گیا۔ اندر کوئی نہیں تھا۔ پتہ نہیں کیوں میں نے باہر کا دروازہ بند کر دیا اور اس دن والے کمرے کی طرف گیا۔ چاچی پھر اسی طرح بال سنوار رہی تھی۔ شیشے میں سے مجھے اندر آتا دیکھ کر اس نے اپنا منہ میری طرف گھمایا لیکن پہلے کی طرح اس نے ساڑھی کا پلو سر پر نہ اوڑھا۔ تھوڑی دیر جھجک کر، اس نے اس دن کی طرح بازو پھیلا دیے۔ میں وہیں کھڑا اس کے گول خوبصورت سے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو لرز آئے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ روتی کیوں ہے میرے دونوں بازو اس کی کمر کے گرد لپٹ گئے اور اس نے مجھ کو اپنی چھاتی سے لگاکر دبوچ لیا۔ اس دن پہلی بار مجھے جسم کی ملائمت کا احساس ہوا۔ میرے جسم میں، سچ کہتا ہوں کپکپی چھڑ گئی۔
چاچی نے دایاں ہاتھ ڈھیلا کرکے میرے گال کے ساتھ اپنا دایاں گال جوڑ دیا اور کتنی دیر تک ہم اسی کیفیت میں رہے۔ آخر اس کے آنسو میرے گال پر بہہ نکلے۔ یہ آنسو گیلے بھی تھے اور گرم بھی۔ میں ہوش میں آ گیا تھا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف جب نزدیک سے دیکھا تو اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ آخر اس کے دوسرے بازو کی گرفت بھی ڈھیلی پڑی اور اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ آج کل کی سوجھ بوجھ کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ سوکر اٹھنے والے کی آنکھوں کی طرح بھاری اور السائی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھنا چاہا، ’’چاچی۔۔۔‘‘
اس نے میری بات کو بیچ میں ہی کاٹ کر ملی جلی بنگالی اور ہندی میں کہا، ’’کرشن چندر، میرا نام رادھا ہے۔ تو مجھے رادھا کہہ کر آواز دیا کر۔‘‘ میں نے سر ہلاکر ہاں کہتے ہوئے اور اپنے پہلے سوال کو بھولتے ہوئے کہا، ’’چاچا کہاں ہے؟‘‘ رادھا نے کہا،‘‘ وہ منگل بازار میں دکان لے کر گیا ہے۔ اماوس کے علاوہ، اسے کبھی اس وقت فرصت نہیں ہوتی۔‘‘
’’نوکرانی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اسے نکال دیا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’وہ اچھی نہیں تھی۔ اب میں سب کام خود کرسکوں گی۔‘‘
اچانک اسے پتہ نہیں کیا ہوا۔ اس نے میرے بستے کو جو ابھی تک میرے بائیں کندھے سے لٹک رہا تھا، اتار دیا۔ میرا کوٹ اتار کر پلنگ پر پھینک دیا۔ تسمے کھول کر میرے بوٹ اتار دیے۔ اس نے میری دائیں ٹانگ کو آگے بڑھا کر گھٹنے کو جھٹکا دیا اور ٹانگ کو پنجے کے بل کھڑا رہنے دیا۔ بائیں ٹانگ ویسی کی ویسی سیدھی رہنے دی۔ پھر وہ آنکھوں سے چاروں طرف کچھ ڈھونڈنے سی لگی۔ پھرتی سے وہ کھونٹی سے لکڑی کی سوئی اتار لائی اور پھر اسے میرے دونوں ہاتھوں میں لمبے رخ سے تھماکے اس کا ایک سرا میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ پھر وہ پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ آئی اور اس نے لمبی سی ’’ہوں‘‘ کی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے شنگار میز کے دراز سے ایک گلابی رنگ کا ریشمی فیتہ نکال لائی اور میرے سنہری بال پیچھے ہٹاتے ہوئے میرے سر کے گرد باندھ کر میرے بائیں کان کے پاس ایک پھول بنا دیا۔ شیشے والی لمبی الماری کھول کر اس نے ایک پیلی بنارسی ساڑھی نکالی۔ اسے کھولتے کھولتے وہ دوسری دیوار پر لٹکی ایک بڑی سی تصویر کی طرف بڑھی، جس پر اس نے مالا پہنائی ہوئی تھی۔ بڑے دھیان سے اس کی طرف دیکھ کر وہ میری طرف مڑی اور اس تصویر کو دیکھ دیکھ کر میری کمر کے گرد دھوتی باندھنے لگی۔ دھوتی سجا سنوار کر باندھنے کے بعد چھلکتی ہوئی خوشی کے مارے وہ آپے سے باہر ہوئ دکھائی دیتی تھی۔ ٹھیکیدار سرداروں کی چھوٹی لڑکی اپنے بڑے بھائی سے نئے کھلونے لے کر اسی طرح خوش ہوتی تھی۔ مجھے بھی رادھا اسی طرح لگی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے پھرتی سے سوٹی چھین کر بستے کے نزدیک پھینک دی۔ مجھے کمر کے پاس سے اپنی بانہوں میں جکڑ کر پانچ سات دس بار اپنے پاؤں پر تیزی سے گھومتے ہوئے چکر کاٹے اور پھر مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ میں گرتا گرتا بچا۔ اس نے میرے گرم گرم سے گالوں کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں دباکر میرا ماتھا اور بال چوم لیے۔
آہستہ آہستہ اس نے وہ کپڑے اتار کر اور میرے کپڑے پہناکر مجھے پہلا جیسا بنا دیا۔ باورچی خانے میں سے دودھ کا چھوٹا چاندی کا گلاس اور ایک چھوٹی چاندی کی رکابی میں انگور ڈال کر اس نے میرے سامنے لا رکھے۔ میں پہلے دن کی طرح ماں باپ کی ہدایتوں کے خلاف سب کچھ کھاپی گیا۔ اس نے غسل خانے میں میرے ہاتھوں کے علاوہ منہ بھی دھلوایا۔ برف کی طرح سفید تولیے کے ساتھ منہ صاف کرکے میں باہر نکلا۔ رادھا میرے پیچھے پیچھے تھی۔ سرداروں کی لڑکی کی طرح وہ مجھے یہ کہتی ہوئی لگی کہ کل پھر کھیلے کے لیے آنا۔ میں تمہیں برا خوبصورت ناچ، ناچ کر دکھاؤں گی۔
دروازے کے باہر بارش ہو رہی تھی۔ تیز ہواناریل کے درختوں کو دوہرا، تہرا کیے دے رہی تھی۔ میں بھیگتا بھیگتا اپنا موڑ مڑکر گھر میں داخل ہوا۔ بھابی گھبرائی ہوئی انتظار کر رہی تھی۔ مجھے اپنے سینے سے لگاکر اس نے مصنوعی غصے سے پوچھا، ’’کہاں رہے وے اتنی دیر؟‘‘ میں نے ماں باپ اور کتابوں سے جو کچھ سیکھا تھا، اس کے خلاف پہلی بار جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیا، ’’اونیندر کے گھر۔۔۔ جھائی جی وہ نیا مشین سے چلنے والا لٹو لایا ہے۔‘‘
جھائی کو اطمینان ہو گیا۔
(۲)
دوسرے دن میرا اسکول میں بالکل دل نہ لگا۔ بڑی مشکل سے چھٹی کی گھنٹی بجی۔ بیسن خودبخود چلنے والی موٹر بستے میں رکھ کر لایا ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ سڑک کے فٹ پاتھ پر ہم اسے چلا چلاکر کھیلیں گے لیکن میں نے اسے روکھا سا جواب دے دیا۔ میں رادھا سے کھیلنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا اس کا ہونے والا ناچ۔
میں نے گھر جاکر دودھ نہ پینے کے لیے کوئی بہانہ گڑھ کر سنا دیا۔ اونیندر کے گھر کھیلنے کا جھوٹ بول کر میں رادھا کے گھر میں آ گیا۔ رادھا پہلے سے کھڑی انتظار کر رہی تھی۔ اس کی پوشاک آج حد سے زیادہ خوبصورت تھی۔ میں نے کبھی کسی عورت کو ایسی خوبصورت ساڑھی اور شنگار میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھے اپنی انگلی سے تھامے باورچی خانے کی طرف لے گئی۔ ایک گدی پر مجھے بٹھاکر وہ خود زمین پر ہی بیٹھ گئی۔ سامنے رکھے چاندی کے برتنوں میں دودھ ملائی، چاول، یہاں تک کہ روٹی سبزی اور مکھن بھی پر سے ہوئے تھے۔ ایک سنہری رنگ والی رکابی میں اس موسم کے پھل بھی رکھے ہوئے تھے۔ میرے منع کرنے اور انکار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے چمچوں اور لقموں سے مجھے کھلانا شروع کر دیا۔ فوراً ہی میرا پیٹ بھر گیا۔ رادھا نے غسل خانے میں میرا منہ ہاتھ صاف کرایا۔
ہم بغل والے کمرے میں آ گئے، اگربتی کی خوشبو سے کمرا مہک رہا تھا۔ شنگار میز پر ایک چاندی کی تھالی میں پھولوں کی لڑیاں اور گھی کے دیے جلانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ میرے دیکھتے دیکھتے ساڑھی کے پلو سے بندھے چابیوں کے گچھے میں سے ایک چابی چن کر وارڈروب کھولی گئی۔ اس میں سے ایک نئی پیلی ریشمی ساڑھی نکال کر رادھا نے پلنگ پر رکھی۔ ایک کھونٹی سے مور کے پنکھوں کا ایک مکٹ اتارتے ہوئے رادھا نے کہا، ’’کرشن چندر! یہ میں نے اپنے ہاتھ سے تمہارے لیے بنایا ہے۔‘‘
میں اب بھی حیران کھڑا تھا۔ رادھا نے شنگار میز کی دراز سے ایک بانسری نکال لی۔ دس منٹوں کے اندر، دھوتی، مکٹ، پھولوں کے سہرے اور بانسری سے سجاکر مجھے کل کی طرح کھڑا کر دیا گیا۔ ایک سہرا دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر کے گرد بھی پہنایا گیا۔ میں نے جب اپنا منہ سامنے شیشے میں دیکھا تو وہ ہو بہو سامنے والی تصویر جیسا ہی تھا۔
میں نے پوچھا، ’’رادھا وہ کس کی تصویر ہے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’تمہیں پتہ ہی نہیں؟ کرشن چندر کی۔‘‘
’’میری؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں۔ ہاں۔ کرشن چندر کی۔‘‘
ماچس جلاکر تھالی میں رکھے پانچوں دیے جلائے گئے اور رادھا دونوں ہاتھوں میں وہ دیے والی تھالی لے کر حاضر ہوئی۔ میرے سامنے کھڑے ہوکر اس نے دونوں آنکھیں بند کر لیں پھر آنکھیں کھول کر تھالی کے ایک کنارے پر گھلے ہوئے کیسر اور چاولوں کا، اس نے اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی سے مجھے ٹیکا لگا دیا۔ پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی۔ میں نے بھی اسی انگلی کو کیسر لگاکر ہاتھ اس کے ماتھے کی طرف بڑھایا۔ اس نے ماتھا جھکا دیا۔ میری انگلی ماتھے سے لگتے ہی وہ کانپ اٹھی، اس کی آرتی والی تھالی اس کے ہاتھوں میں لرزی۔ جلتے ہوئے دیوں لی لویں کانپ اٹھیں، دھوف کا دھواں کپکپایا اور گھنگھروں کی چھنچھناتی آواز پتہ نہیں کیسے اس کے پاؤں میں کانپی۔ یکدم وہ اپنی جگہ سے ہلی اور یوں آگے بڑھی جیسے پھسل کر گرنے لگی ہو لیکن وہ فوراً ہی سنبھل گئی۔ آہستہ آہستہ اس کے پھسلنے اور سنبھلنے کی رفتار برھتی رہی۔ میں سمجھ گیا کہ ناچ شروع ہو گیا ہے۔
اس کے کمر جھکاتے ہی اس کے کھلے ہوے بال دھرتی کو چھو جاتے تھے۔ وہ ہوا کی پتلی، لہروں کی طرح دہری ہو جاتی تھی۔ اس کی رفتار تیز ہونا شروع ہوئی۔ گھنگھرؤں کی جھنکار سے کمرے میں یکسوئی سی چھاگئی۔ رفتار اور تیز ہوئی۔ جلتی ہوئی جوتوں کا ایک چکر، ایک دائرہ سا میرے گرد بن گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے تارے سے جھلملانے لگے۔ مجھے اپنے گرد ایک کے بجائے کئی رادھائیں دکھائی دینے لگیں۔ میری اپنی شکل کے کئی لڑکے، اسی پوشاک میں ان رادھاؤں کے ساتھ تھے۔ میرا اپنے آپ پر کم قابو معلوم ہوتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کسی نے زبردستی میری انگلیاں بانسری کے چھیدوں پر رکھ دی ہوں۔ میں نے بڑے سوراخ پر نچلا ہونٹ رکھ کر پھونک ماری۔ میری چھوٹی چھوٹی انگلیاں پتہ نہیں کیسے ان سوراخوں پر تھرکنے لگیں۔ میں نے کبھی بانسری نہیں بجائی تھی اور نہ ہی اب کوئی ساز بجا سکتا ہوں۔ لیکن اس وقت جیسی بانسری میں نے بجائی اب تک کسی استاد سے نہیں سن سکا۔
آہستہ آہستہ میری انگلیاں ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئیں۔ ناچ کی رفتار گھٹتے گھٹتے کم ہو گئی۔ رادھا ایک رہ گئی۔ میں بھی ایک رہ گیا۔ کمرے میں قبر جیسی چپ چھا گئی۔ رادھا شرابیوں کی طرح جھول رہی تھی۔ لیکن دیوں والی تھالی کو ہاتھ سے گرنے نہیں دے رہی تھی۔ میں اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھا۔ تھالی اس کے ہاتھ سے شنگار میز پر رکھنے کی دیر تھی کہ وہ دھڑم سے نیچے گر گئی۔ بانسری چارپائی پر پھینک کر میں نے اسے سنبھالا۔ پتہ نہیں اس وقت میرے اندر اتنی طاقت کہاں سے آ گئی تھی۔۔۔ میں ہر حالت میں اپنے آپ کو پورا آدمی سمجھتا تھا۔ اپنی دھوتی سے پنکھا کرکے میں اسے پوری طرح ہوش میں لے آیا۔ اس نے اٹھ کر میرا گال چوم لیا۔ کپکپی کی باڑ میری نس نس میں دوڑ گئی۔ میں نے نیم بیہوشی کے عالم میں اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ اسے ایک بار پھر جھرجھری آئی اور ایک بار اپنی بانہوں میں مجھے بھرکر، میری بانہوں میں خود کو نڈھال چھوڑ دیا۔ میں نے اس کے گال چومے، ہونٹ چومے، آنکھیں چومیں، بال چومے، لیکن وہ نڈھال پڑی رہی۔ میں اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے نیم بیہوش سی آنکھیں کھولیں اور فوراً ہی بند کر لیں۔
اچانک دروازہ کھٹکا۔ ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوئی آواز نہ آئی۔ مجھے پھر پہلے والا کرشن بنایا گیا۔ کافی دیر ہوگئی تھی، جب میں گھر لوٹا۔
(۳)
ڈاکٹر کو دکھایا گیا۔ اس نے بتایا کہ میری صحت بالکل ٹھیک ہے۔
’’بھوک کیوں نہیں لگتی اس کو؟‘‘ میرے پتاجی نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’ہاضمہ تو درست ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
اسکول کے امتحان کی رپورٹ اچھی تھی لیکن پھر بھی میری نگرانی رکھی جانے لگی۔
میں روز رادھا کے گھر جاتا تھا۔ اس کا کسی کو شک بھی نہیں تھا لیکن میری جھائی جی جن کو میرے روز ہی رات کو روٹی نہ کھانے کی وجہ سے فکر لگی رہتی تھی، خفیہ پولیس کی طرح میرے پیچھے لگ گئی۔ ایک دن جب میں رادھا کے ہاں گیا تو وہ دبے پاؤں چھپ چھپ کر میرے پیچھے گئی۔ دروازہ اندر سے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ اندر نہ آ سکی۔ ناچ ختم ہو جانے کے بعد ہمیں ان کی تیز آوازیں سنائی دیں۔ وہ تیز آواز میں پکار رہی تھی، ’’رام پیاری رام پیاری۔‘‘
میں تو ڈر گیا لیکن رادھا نے وہ کپڑے جلدی سے اتار دیے اور میرے پہنا دیے۔ آوازوں کی بوچھار میں ہی منہ ہاتھ دھلا دیا گیا۔ مجھے پھر اسی کمرے میں چھپاکر وہ باہر نکلی اور دروازہ کھول کر میری جھائی جی سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟
جھائی جی نے غصے بھری نظروں سے پوچھا، ’’کرشن کہاں ہے؟‘‘
رادھا نے کہا، ’’یہیں کہیں ہوگا۔‘‘
’’میں نے خود اسے اندر آتے دیکھا ہے۔‘‘ جھائی جی نے کڑک کر کہا۔
’’میں اندر دیکھتی ہوں۔‘‘ رادھا نے بڑے اطمینان سے کہا، ’’میرے سوئے ہونے پر بھی کئی بار اندر سے دروازہ بند کرکے اکیلے کھیلتا رہتا ہے۔‘‘ اندر آکر اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا۔ میں ڈر کے مارے بزدلوں سا کانپ رہا تھا۔ رادھا نے آہستہ سے کہا، ’’ڈرو نہ میرے کرشن۔ ہم نے چوری نہیں کی۔ پاپ نہیں کیا۔‘‘ میں نے کچھ حوصلہ کیا۔ مجھے گھسیٹتے ہوئے باہر لایا گیا۔ میرا بازو جھائی جی کو پکڑاتے ہوئے اس نے کہا، ’’یہ لو پکڑو۔ اپنا ماکھن چور۔ اندر کے کمرے میں چھپا ہوا تھا۔‘‘
میری جھائی مجھے چھوڑ کر اندر چلی گئی۔
بغل والے کمرے میں بکھری ہوئی چیزیں اور جلتی ہوئی جوتی کو دیکھ کر اس نے اونچی آواز میں ہوں، اوں، اوں، کیا اور شک بھری نظر رادھا پر پھینک کر جلدی سے واپس آ گئی۔ آتے ہی اس نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ رادھا چھڑانے کے لیے باہر آئی لیکن پھر واپس چلی گئی۔ پھر آئی۔ پھر واپس مڑ گئی۔ میرے گال پر تھپڑ پڑتے ہی وہ سہم کر سکڑ جاتی تھی۔
کمرے میں مجھے بند کرکے جھائی جی، پتاجی کا انتظار کرتی رہیں۔ میں جان بوجھ کر خراٹے مارنے لگا۔ بڑے پیار سے جھائی جی نے پتاجی کو روٹی کھلائی۔ روٹی کھاکر کچھ دیر برانڈے میں ٹہلنے کے بعد پتاجی اپنے پلنگ پر لیٹ گئے۔ جھائی جی نے بھی باقی کا کام ختم کرکے اپنی چارپائی سنبھالی۔ کچھ دیر بعد جھائی جی نے بڑے آہستہ سے کہا، ’’اے جی۔ جاگتے ہو؟‘‘
پتاجی نے کروٹ لے کر کہا، ’’ہاں۔‘‘
’’مجھے ایک بات کرنی تھی۔‘‘ جھائی نے اس لہجے میں کہا جیسے بات بہت ضروری ہو۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
جھائی جی نے آج جو کچھ دیکھا تھا کہہ سنایا اور آخر میں کہا، ’’پتہ نہیں کیا کرتی رہتی ہے بنگالن جادوگرنی، میرے لعل کو اندر لے جاکر۔‘‘ پتاجی نے جواب دیا، ’’سودائیوں کی سی بات نہ کیا کر۔‘‘ جھائی جی کے بہت زور دینے پر پتاجی نے کہا، ’’اچھا ملیں گے بوڑھے کو سویرے۔‘‘
(۵)
تیسرے دن جب میں اسکول سے لوٹا، میں اپنے گھر جانے کے بجائے رادھا کے گھر کی طرف مڑا۔ دروازہ پوری طرح کھلا ہوا تھا اور اندر کوئی سامان نہیں تھا میں نے آنکھیں مل کر دھیان سے ایک بار دیکھا۔ پھر بھی وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں بغل والے کمرے میں گیا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میرے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا گیا ہو۔ مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے میں نیچے پاتال کی طرف دھنستا چلا جا رہا ہوں۔ اچانک کسی نے میرا بازو پکڑ لیا۔ پہلے میں سمجھا رادھا ہوگی لیکن بازو بڑے زور سے پکڑا گیا تھا۔ میں نے نظر اٹھاکر دیکھا۔ جھائی جی تھیں۔ میں رو رہا تھا اور جھائی جی مجھے گھسیٹتے ہوئے اپنی طرف لے جا رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.