موسم باراں میں جب روپین ندی پھیل کر اور دونوں کناروں کو چھو کر بہتی ہے تو بے حد خطرناک بن جاتی ہے۔ جو بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا اسے پانی کھینچ کر منجدھار میں ٹھیک اُس جگہ لے جاتا ہے جہاں بھنور پڑتا ہے اور وہاں پہنچ کر وہ بدنصیب ایک دو منٹ میں ہی ہمیشہ کے لیے تہ آب ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ برسات کے موسم میں روپین ندی دونوں کناروں کو چھو کر تیز روی سے بہہ رہی تھی، کھیتوں میں کمر کمر پانی کھڑا تھا۔ ندی نالے چھلکے ہوئے تھے اور موسلادھار بارش یوں ہو رہی تھی جیسے آسمان چھلنی ہوگیا ہو، جیسے بارش نے قسم کھائی ہوکہ آج برس کر پھر کبھی نہ برسے گی، ایسے وقت میں ایک گراسیہ 1 اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر اس طرف سے گزرا۔
اس نے اپنی گھوڑی روپین ندی میں ڈال دی۔ گھوڑی بڑی تیز اور اچھی نسل کی تھی لیکن پانی کا بہاؤ اس سے زیادہ زور دار اور تیز تھا۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد گھوڑی اور سوار دونوں ہی غوطے کھاتے، چک پھیریاں لیتے، کھنچتے ہوئے منجدھار کے بھنور میں جا پڑے۔
گراسیے کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جانباز راجپوت غرق ہوگیا۔
روپین ندی سے گزرتا ہوا یہ راستہ عام دنوں میں بے حد خوبصورت اور ہرا بھرا ہوتا تھا۔ ندی کے کنارے برگد کا ایک گھنا پیڑ ہے جس کی چھاؤں میں لوگ اپنی بیل گاڑیاں کھول کر سستاتے اور سفر کی تکان دور کرتے ہیں۔ برگد کے اس گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کتنے ہی مسافروں نے قیام کیا ہوگا اور کتنے ہی جانوروں کو سکون ملا ہوگا۔ روپین ندی کے کنارے اور خوبصورت برگد، صاف ستھری اور ہموار زمین چھوٹا لیکن ہرا بھرا، سہانا اور خوبصورت جنگل جو کبھی اور کسی وقت بھی خوفناک معلوم نہ ہو۔ ان سب باتوں نے مل جل کر اس مقام کو اتنا خوبصورت بنا دیا تھا کہ ڈرپوک سے ڈرپوک بنیے کا دل بھی یہاں گھڑی بھر سستانے کے لیے للچا جائے۔
لیکن اس گراسیے کی غرقابی کے بعد یہ خوبصورت راستہ ویران ہوتاچلاگیا۔ دشوار گزار اور طویل ہونے کے باوجود لوگ دوسرے راستے سے جانے لگے۔ انھوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے یہ راہ سنسان اور ویران ہوتی چلی گئی۔
چاروں طرف کے دیہاتوں اور بستیوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ اس راستے سے جانے والا مسافر واپس نہیں آتا۔ چنانچہ دہشت زدہ لوگوں نے اس ہرے بھرے راستے کو چھوڑ کر دوسرے ویران اور طویل راستے سے آمدورفت کرلی اور یہ راستہ رفتہ رفتہ بھیانک سے بھیانک بنتا گیا۔
ایک دن گرمیوں کی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں ایک چارن قریب کے گاؤں سے نکل کر اس راستے پر چلا۔ گاؤں کے قریب سے گزرتے وقت اس نے راستہ پوچھا تو کئی ایک عقلمند وں نے بلا اجرت اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
’’بھائی! اس راستے جانا مناسب نہیں کیوں کہ اس طرف سے جانے والے کا سردھڑ پر نہیں رہتا۔‘‘
’’کیوں؟ ایسی کیا بات ہے؟‘‘
’’پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک گراسیہ ڈوب کر بھوت بن گیا اور تب سے یہ راستہ اجڑگیا ہے۔ گراسیہ دوسری طرف کے گاؤں سے دریا عبور کرکے اپنی ٹھکرائن کو لاتا تھا۔ لیکن وہ اُس پار پہنچ ہی نہ سکا منجدھار میں ہی رہ گیا اور تب سے اس راستے پرجانے والا کوئی مسافر زندہ نہیں بچا۔‘‘
’’دیکھا جائے گا۔‘‘ چارن 2 نے کہا اور گھوڑی اسی راستے پر دوڑا دی۔
گاؤں کے لوگ موت کے منہ میں جاتے ہوئے اس چارن کی حماقت پر سرہلاتے اور ہنستے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ چارن کی گھوڑی اسی خطرناک راستے پر بھاگی جارہی تھی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی چرند و پرند گرمی سے پناہ لینے کے لیے سایوں میں دبکے ہوئے تھے اور چاروں طرف ویرانی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسے وقت میں چاندی کی طرح بہتا ہوا روپین ندی کا پانی عجیب بہار دے رہاتھا ندی کا سفید سفید پاٹ دیکھ کر چارن جھوم جھوم گیا، دوسری طرف گھنا برگد اپنا سایہ پھیلائے ہوئے تھا جس کے بالکل سامنے کھاکھرے کا جنگل تھا۔ ٹھنڈے اور گھٹاٹوپ سائے میں کبوتر تیتر اور مور پروں میں چونچیں دبائے اونگھ رہے تھے۔ یہ خوبصورت منظر دیکھ کر چارن کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’واہ روپین! واہ روپین‘‘
یوں ’’واہ واہ‘‘ پکارتا وہ برگد کے قریب پہنچا تو وہاں اس نے جو منظر دیکھا اُس نے اسے دم بخود کردیا۔
برگد کے سائے میں پچیس تیس دیوانش 3 راجپوتوں کی مجلس جمی ہوئی تھی۔ عمدہ جاجم پر ایک ایک ہاتھ موٹے گدے بچھے ہوئے تھے۔ ان پر دودھ جیسی سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں اور عین بیچ میں ایک نرم ریشی غالیچے پر ایک جوان راجپوت بیٹھا آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہا تھا۔ برگد کے قریب ہی کچھی اور کاٹھیا واڑی گھوڑے خاموش کھڑے ہوئے تھے اور چاندی کا جگر جگر کرتا ہوا خوبصورت حقہ دائرے میں گھوم رہا تھا۔ ایک طرف افیون گھولی جارہی تھی، دوسری طرف مٹھایوں کے تھال رکھے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے بارہ گاؤں کا مالک گراسیہ اپنے سفر کے دوران یہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہو۔ یہ مرعوب کن منظر دیکھ کر چارن بھی اپنی گھوڑی سے اتر ان لوگوں کی طرف چلا۔
اسے آتا دیکھ کر جوان راجپوت مسکرایا اور پھر معنی خیز نظروں سے دوسروں کی طرف دیکھا جس پر موجود سب ہی لوگوں نے ایک ساتھ چارن کو خوش آمدید کہا۔
’’آؤ! آؤ! بڑے وقت پرآئے ہو۔ کہاں سے آرہے ہو۔‘‘
چارن کو پوری مجلس میں کسی کے بھی چہرے پر انسانیت اور زندگی کی دمک نظر نہ آئی۔ وہ جواب دیتے ہچکچارہاتھا لیکن برگد کے قریب کھڑے ہوئے گھوڑوں کی ہنہناہٹ نے اُس کی ہمت بندھائی اور وہ بیٹھ گیا۔ دائرے میں گھومتا ہوا چاندی کا حقہ اسکے پاس پہنچایا گیا تو چارن نے دوچار کش کھینچے اور کٹوری پر ہتھیلی کی اوٹ رکھ کر افیون کی بھی چسکی لی اور پھر موج میں آکر دنیا جہان کی باتیں کرنے لگا۔
’’دیوی 4 پتر ہو؟‘‘ اس راجپوت نے اچانک کہا، ’’ایک سوال کا جواب دوگے؟‘‘ چارن اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’بات یوں ہے دیوی پتر کہ ایشور نے اتنے بہت سے موسم بنائے ہیں۔ لیکن ایک موسم کی دلکشی اور مٹھاس دوسرے موسم سے نہیں ملتی۔ بتاو ٔسب سے زیادہ دلکشی اور بہترین موسم کون سا ہے؟‘‘
چارن سوال کا مطلب پوری طرح سمجھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔
’’دربار! موسم تو سبھی اچھے ہیں لیکن دینا ناتھ نے جوانی سے بھرپور نرناری کے لیے موسم سرما بنا کر انتہا کردی ہے۔ موسم سرما! کیا موسم ہے واہ! واہ! طرح طرح کے لذیذ کھانے تیار ہوتے ہیں آگ اور اس کی تپش بھلی معلوم ہوتی ہے۔ گرم گرم جوان جسموں کی دہک لطف دیتی ہے۔ ہرے چنے اوردھان کے پونک آئیں، پونک کے میٹھے پکوان تیار ہوں اور دودھ گھی ہو، مکھن ہو اور مکھن جیسی گوری گوری عورت ہو بھائی واہ واہ! موسم سرما تو بس موسم سرما ہی ہے۔ کیا موسم ہے کہ بس نہ پوچھو۔ شنکر پاربتی کی عبادت بھنگ کرنے کے لیے دینا ناتھ نے موسم سرما بنایا ہے جناب!‘‘
راجپوت نے چمکتی آنکھوں سے چارن کی طرف دیکھا۔
’’لیکن کیا حیات بخش برکھا رت اچھی نہیں ہوتی؟ راجپوت نے پوچھا۔
’’چارن نے سرہلایا۔‘‘
’’نہیں جناب، نہیں۔ چاروں طرف بس پانی ہی اور کیچڑ ہی کیچڑ۔ بجلی چمکے اور بادل گرجیں اور ڈھور ڈنگر پانی میں کھنچ جائیں اور آدمی بہہ جائے۔‘‘
راجپوت اور بھی تن کر بیٹھ گیا اس کی آنکھوں کی چمک سے اب اداسی اور کرب جھانکنے لگاتھا۔ چارن اس طرف سے بے پرواہ کہتا چلا گیا۔
’’ایسی چوماسے کی رت تو بھائی کبنی 5 تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس موسم میں بھلا محب و محبوب لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ مائی باپ، موسم میں موسم جاڑے کا اس کے بعدآتا ہے موسم گرما۔ رہا چوماسہ تو اسے موسم کہنا ہی نہیں چاہیے۔ وہ تو ہے ’’ک 6 رُت ک۔ رُت‘‘ ۔
’’شاباش چارن! شاباش! تو سچ مچ دیوی پتر ہے۔‘‘ یوں کہہ کر راجپوت اٹھا چارن کے قریب آیا اور ہاتھ پکڑ کر اسے بھی کھڑا دیا۔
دیوی پتر! میں گراسیہ ہوں۔ راجپوت کہنے لگا۔
چارن نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ دائرہ غائب تھا۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ خاموش تھی۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ برگد کے نیچے صرف وہ اور جوان راجپوت کھڑے تھے ’’دیکھ چارن ڈرنا نہیں۔‘‘
چارن ہنسا۔ ’’میں اور ڈر جاؤں؟‘‘ بول راجپوت بول۔ تجھے جو کچھ کہنا ہے کہہ دے۔‘‘
جوان راجپوت کے چہرے سے امیدوں کی کرنیں سی پھوٹتی معلوم ہوئیں۔ اس نے بڑے پیار سے چارن کا ہاتھ دبایا۔
’’پانچ سال پہلے برسات کے موسم میں، میں راجپوتانی سے ملنے کے لیے اپنے گھر سے نکلا۔ اس وقت روپین میں سیلاب آیا ہوا تھا اور وہ بھنور۔۔۔‘‘
اس نے منجدھار کے بھنور کی طرف اشارہ کیا۔ راجپوت کی آنکھوں میں شدید کرب تھا۔
’’ہاں چارن! اسی بھنور میں، میں غرق ہوگیا اور راجپوتانی سے ملنے کی آرزو دل میں ہی رہ گئی۔‘‘
راجپوت چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ وہ غم کے پہاڑ کو سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’اور دیوی پتر! دومحبت بھرے دلوں کی جدائی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی غم ہوسکتا ہے؟‘‘
’’مائی باپ۔ تو اپنی بات کہہ دے۔‘‘
’’سات سات جنم کے چکر سامنے ہیں اگر تو میرا ایک کام کردے تو میرا یہ بھوت بنا ہوا جسم ٹھکانے لگ جائے۔ توجانتا ہے چارن کہ بغیر جسم کے صرف آرزو روح کو بھی جلادیتی ہے۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘
’’بس تو پھر تو روپین عبور کرکے مغرب کی طرف چلاجا۔ اس طرف پانچ کوس دور دانتا کر نام کا گاؤں ہے وہاں میری راجپوتانی رہتی ہے۔ وہ ایسی ہے جیسے بھگوان نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہو۔ اگر میری راجپوتانی یہاں آکر ایک دفعہ مجھے اپنے دیدار کرا دے تو میری آرزو پوری ہوجائے۔ تیرے سوا میرا یہ کام اور کوئی نہیں کرسکتا بھائی!‘‘
راجپوت کی گڑگڑاتی ہویئ آواز خاموش ہوئی ہی تھی کہ چارن نے جواب دیا۔
’’راجپوت! میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں سچا دیوی پتر ہوں تو راجپوتانی کو یہاں لے آؤں گا۔ لیکن اگر تو خاندانی گراسیہ ہے تو تو بھی وعدہ کر اس کے بعد پھر کبھی اس راستے پر نظر نہ آئے گا اور نہ ہی مسافروں کو پریشان کرے گا۔‘‘
’’وعدہ کرتا ہوں، وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی یہاں نہ آؤں گا۔ یہ راستہ چھوڑ دوں گا۔ میں چوماسے میں مرا ہوں اس لیے یہ موسم مجھے بہت برا لگتا ہے۔ ہر آتے جاتے مسافر سے میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ اسے کون سا موسم پسند ہے اس کے بعد خوف یا دہشت سے وہ آدمی دوسرے دن مرجاتا ہے۔ یوں مرتے ہیں اس راستے کے مسافر! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے چارن۔‘‘
’’بہت اچھا مائی باپ۔ تو یاد رکھ کہ آج کے آٹھویں دن راجپوتانی یہاں آجائے گی۔‘‘
چارن نے اپنی گھوڑی کی لگام پکڑنے کے لیے گردن گھمائی اور لگام پکڑ کر پھر اسی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ صرف برگد کھڑا تھا اور اس کے پتے ایسی آواز پیدا کررہے تھے جیسے یہ پیڑ سینہ کوبی کررہا ہو۔
راجپوت کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہوا چارن دانتاکر پہنچا۔ چارن تو جنگجو راجپوتوں کے لیے مجسم خوشی ہوتا ہے اور راج دربار میں جب راجہ کا غصہ کسی کو نہیں بخشتا تب دربار کا یہ شاعر ہی بے گناہ تسلیم کیا جاتا ہے اور راجہ کے غصے سے محفوظ رہتا ہے۔ چارن نے راجپوت کے خسر کے گھر قیام کیا اور پھر موقع پاکر راجپوتانی سے تنہائی میں ملاقات کی۔
’’گراسنی! مائی باپ! پیچھے قدم نہ ہٹانا۔ ایک کام آپڑا ہے تجھ سے۔‘‘
کٹھیاری 7 جب بولتی ہے تو اس کی زبان موٹی اور بولی کھردری معلوم ہوتی ہے۔ لیکن گراسنی کی بولی تو جسم کی طرح نازک ہوتی ہے۔ سرخ سرخ ہونٹوں سے موتی جیسے دانت جھانک رہے ہوں تب اس کی آواز اور بولی دل کو لبھا لیتی ہے۔
راجپوتانی نے جواب دیا۔ ’’بولو! کیا کام ہے میرے لائق؟‘‘
’’زندگی میں تو محبت سبھی کرتے ہیں اور نبھاتے ہیں، لیکن یہ تو مرنے کے بعد کی محبت کی بات ہے۔‘‘
گراسنی چونکی اور چارن کی بات سننے کے لیے اشتیاق سے فوراً آگے کی طرف جھک گئی۔
’’دربار کو گاؤں چھوڑے کتنے برس ہوگئے۔‘‘
’’پانچ‘‘
’’سچ بولیو گراسنی۔ اس کے بعد دربار کبھی تیرے خواب میں بھی آئے تھے؟‘‘
’’نہیں۔ کبھی نہیں۔ وہ تو جیسے مجھے بھول ہی گئے۔‘‘
’’نہیں، مائی باپ، نہیں۔ پشتہا پشت کا سچا گراسیہ ستی کو کبھی بھول سکتا ہے بھلا۔ شنکر پاربتی کے پیار میں کہیں کھوٹ ہوسکتا ہے۔ وہ بھولا نہیں ہے۔ ہاں! گراسیہ ابھی تجھے بھولا نہیں ہے اور سن۔ گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں، اصلی گراسنی ہے نا؟‘‘
راجپوتانی نے سینہ تان لیا اور چارن جیسے لرز اٹھا۔ بھرائے گلے سے وہ بولی۔
’’بس یہی امتحان لینا تھا؟ کیا گراسیہ نے بھوت بن کر میری خیریت پچھوائی ہے۔‘‘
چارن حیرت زدہ رہ گیا۔
کمال ہے راجپوتانی، کمال ہے، تجھے کیسے پتہ چلا؟‘‘
’’پتہ کیسے چلا؟ جو میدان جنگ میں نہ مرے وہ راجپوت بھوت ہی تو بنے گا۔
اور سن ایسے بھوت کو اس کی آرزوؤں سمیت نیست و نابود کردینے کے لیے ہی میں راجپوتانی ہوتے ہوئے بھی ستی نہ ہوئی۔ بول اور بھی کچھ کہنا ہے چارن؟‘‘
’’گراسیہ تیرے پاس آرہا تھا کہ روپین میں ڈوب گیا۔ اس سے بڑھ کر ہوسکتی ہے محبت؟‘‘
’’نہیں، نہیں۔ اس سے بڑھ کر محبت کیا ہوگی۔‘‘ گراسنی نے تلخی سے کہا اور شاید اسی لیے وہ اتنا خوبصورت اور سونے جیسا راستہ ویران کررہا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’سچ کہتی ہو مائی باپ، سچ کہتی ہو۔ لیکن مردے کے ساتھ دشمنی رکھی جاسکتی ہے۔ بھوت کے ساتھ کہیں بھڈ 8 بنا جاسکتا ہے۔ مائی باپ! گراسیہ کی آرزو ہے تجھے دیکھنے کی۔ دو دن پہلے وہ مجھ سے برگد تلے ملا تھا۔ بھری دوپہر میں وہ شیر کی طرح دربار لگائے ہوئے بیٹھا تھا۔ دیکھا تو اوہو ہو۔ دیوانشی راجپوتوں کا دربار جما ہوا تھا جیسے اس دنیا میں دوبارہ آگئے ہوں۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ گراسنی کو ایک دفعہ دکھا دے، میں نے وعدہ کرلیا ہے اور اب تجھے یہ وعدہ پورا کرنا ہے اور پھر گراسیہ اس راستہ پر کبھی دکھائی نہ دے گا اس کا اس نے بھی وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’میں وعدہ نبھاؤں گی۔ ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ نبھاؤں گی۔ لیکن میں گراسنی ہوں۔ اس نے مسافروں کی جانیں لی ہیں اور خوف و ہراس پھیلایا ہے۔ روپین کا گھنا برگد اجاڑ دیا ہے اور سونے کی مانگ جیسے راستے کو کالا بھوت بنادیا ہے۔ ایسا گراسیہ میرا دھنی (شوہر) ہو تو اسکے بھی ہوش ٹھکانے لگادوں۔ آؤں گی، میں اس سے ملنے آؤں گی۔ لیکن چارن! اسے خبردار کردینا کہ راجپوتانی آرہی ہے اور کھانڈے کی دھار کے ذریعے ایک بار پھر تجھ سے شادی کرنے کی آرزو لے کرآرہی ہے۔‘‘
’’راجپوتانی! مائی باپ! وہ تو ٹھہرا بھوت اس سے کہیں جنگ کی جاسکتی ہے۔ وہ کہیں خاکی ہے کہ تو اس کا مقابلہ کرکے اسے شکست دے گی ارے وہ تو پھر سے اڑ جائے گا آندھی کی طرح چلا جائے گا اور تیرے قبضے میں نہ آئے گا۔‘‘
راجپوتانی کیوڑے کی شاخ کی طرح تن کر کھڑی ہوگئی اور اس نے ایسی غضبناک نظروں سے چارن کی طرف دیکھا کہ اچھے اچھے رستموں تک کے پتے پانی ہوجائیں۔
’’دیوی پتر ہو؟ تم کسی راجپوتانی کے ساتھ بات کررہے ہو یا کسی عام عورت کے ساتھ۔‘‘
اور اس نے لپک کر کھونٹی سے ٹنگی ہوئی کالی ناگن جیسی تلوار گھسیٹ لی۔ تلوار کھینچ کر نیام ایک طرف پھینک دیا اور کہا۔
’’چلو دیوی پتر! آگے چلو۔ آج ہی وہ راستہ کھول دیں گے۔‘‘
چارن خاموشی سے آگے ہو لیا اور اس کے پیچھے راجپوتانی ننگی تلوار لیے یوں چلی جیسے دیوی چنڈی 9 دنیا کو نگل لینے والے راکھشس کو شکست دینے جارہی ہو۔
دوپہر کو ٹھیک بارہ بجے راجپوتانی اور چارن برگد تلے پہنچ گئے۔ برگد کے پتے ہوا سے ہل ہل کر ایسی بھیانک آواز پیدا کررہے تھے کہ کمزور دل کا آدمی تو وہیں ڈھیر ہوجائے۔ چاروں طرف ویرانی اور خاموشی تھی دور دور تک کوئی نظر نہ آرہا تھا۔ نہ آدم نہ آدم زاد، نہ چرند اور نہ پرند، ویرانی خاموشی اور تنہائی۔ ایسے بھیانک ماحول میں صرف راجپوتانی اور چارن کھڑے ہوئے تھے۔
’’کہاں ہے راجپوت؟‘‘ راجپوتانی نے کہا اور برگد کے پتے یوں کھڑکھڑائے جیسے راجپوتانی کی آواز سے برگد لرز گیا ہو۔ ’’یہاں تو کوئی نہیں۔‘‘
’’بس کوئی دم میں آیا چاہتے ہیں۔‘‘
دونوں خاموش ہوگئے اور ان کی خاموشی نے اس جگہ کو اور بھی بھیانک بنا دیا۔
یکایک ایک گھوڑا سوار نظر آیا۔ راجپوت اپنی صبا رفتار گھوڑی پر سوار چلا آرہا تھا۔ اس کی نظریں دریائے روپین پر مرکوز تھیں۔
چارن نے کنکھیوں سے راجپوتانی کی طرف دیکھا۔ راجپوتانی کے بشرے پر خوف و ہراس کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس نے تلوار پر اپنی گرفت مضبوط کردی اور چارن کو للکارتے ہوئے کہا۔
’’ہوشیار چارن! مردانگی کا ثبوت دیجیو۔‘‘
گھوڑ سوار قریب آگیا۔ اٹھائیس انتیس کی عمر کا بھرپور جوان راجپوت تھا۔
’’ہاں۔ یہی ہے۔ آنے دو اسے۔‘‘
’’دیکھنا جوگ مایا وار نہ کرنا۔‘‘
راجپوت بہت قریب آگیا۔ اب اس کا خوبصورت چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔ اس نے راجپوتانی کی طرف دیکھا۔ راجپوتانی پہلے ہی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔
’’پہچانتی ہو؟‘‘
’’ہاں ہاں۔ راجپوتانی نے جواب دیا۔ کیوں نہ پہنچانوں؟ جس نے اپنی بیوی سے ملنے کی خاطر بے گناہ مسافروں کی جانیں لیں اور جو بھکاری کی طرح چارن کے سامنے گڑگڑایا اور۔۔۔‘‘
’’ارے ارے مائی باپ!‘‘ چارن نے راجپوتانی کو خاموش کردیا۔
راجپوت کھسیانہ ہوگیا تھا۔ گھوڑی کی لگام اس کے ہاتھ سے چھوٹنے لگی۔ اس نے غمناک نظر سے راجپوتانی کی طرف دیکھا۔
’’راجپوتانی!‘‘
’’میرے گاؤں کے اور میری پناہ میں رہتے ہوئے انسانوں کی تم نے جانیں لی ہیں! کیا کہتے ہو اسکے متعلق؟‘‘
’’میں نے؟ میں نے کسی کی جان نہیں لی راجپوتانی۔‘‘
’’اگر تو سچا گراسیہ ہے اور اپنے باپ کا پوت ہے تو تیار ہوجا۔‘‘
گراسیہ کی شکل ایک دم سے بدل گئی۔ چارن کانپنے لگا لیکن گراسنی کی تلوار خوفناک بجلی کی طرح چمک گئی اور اس نے بڑے جوش و خروش سے گراسیہ پر وار کر دیا۔
ارے مائی باپ یہ کیا کردیا۔ چارن لپک گراسنی اور گراسیہ کے درمیان آگیا۔
لیکن گراسیہ وہاں تھا ہی نہیں۔ گراسنی کا وار ہوا میں ہی پڑا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ہی جوش میں آگے کی طرف آرہی، سنبھل نہ سکی، گھٹنوں کے بل گری۔ تلوار کا وار زمین پر پڑا تو مٹھی بھر خاک اڑ کر فضا میں بکھرگئی۔
’’غضب ہوگیا ماں! غضب ہوگیا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں دیوی پتر۔ تو نے اپنا وعدہ وفا کیا۔ فضا میں آواز سنائی دی۔
راجپوتانی نے ایک دم سے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ گراسیہ اپنی گھوڑی پر سوار دریا کی طرف جاتا نظر آیا۔ وہ ننگی تلوار کرکے اس کے پیچھے بھاگی اور اسے روکتا ہوا چارن راجپوتانی کے پیچھے پیچھے دوڑا۔
روپین ندی میں شفاف پانی بہہ رہا تھا۔ گراسیہ اپنی گھوڑی سمیت دریا کے کنارے پر پہنچا۔ راجپوتانی اسکے پیچھے تھی۔
’’اگر سچا گراسیہ ہے تو رک جا۔‘‘ راجپوتانی نے للکارا۔ گراسیہ نے اپنی گھوڑی کی باگیں کھینچ لیں۔ وہ ٹھہر گیا۔
راجپوتانی اس کے قریب پہنچ گئی۔ لیکن ایک بار پھر وہاں کوئی نہ تھا لیکن راجپوتانی کو ایسا لگاجیسے اس کا لباس پانی میں کھنچ رہا ہو۔ اس کا گھاگھرا بھیگ گیا تھا اور اس میں سے پانی ٹپک رہا تھا، ٹپک کیا رہاتھا باقاعدہ دھار سی نکل رہی تھی۔ راجپوتانی نے نیچے دیکھا اور اسے راجپوت کا بے حد دکھ بھرا چہرہ نظر آیا جو دونوں ہاتھوں سے چلو بنائے راجپوتانی کے گھاگرے سے ٹپکتے ہوئے پانی کو چلو میں بھر کر برسوں کے پیاسے کی طرح پی رہا تھا۔‘‘
راجپوتانی دیکھتی رہ گئی۔
راجپوت نے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن آہ! کس قدر کرب سے کس قدر مایوسی سے، کتنے دکھ سے، کتنے غم سے، اور کتنے مشکل سے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
راجپوتانی پیار کے لہجے میں پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’راجپوت! یہ کیا؟‘‘
’’بس۔ اب میری نجات ہوگئی۔ اب چلاؤ تلوار راجپوتانی۔ اس دوسری موت کی لذت کچھ اور ہی ہوگی۔‘‘
راجپوتانی کی گرفت تلوار پر ڈھیلی پڑگئی۔ اس نے جھک کر راجپوت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ راجپوت نے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔ لیکن راجپوتانی نے دوبارہ پکڑ لیا۔
’’کہاں غرق ہوا ہے تو اور اب کہاں جارہا ہے۔‘‘
راجپوت نے روپین کے بہتے ہوئے پانی کی طرف دیکھا۔ اس کی نظر ایک جگہ جاکر جم گئی۔ وہاں پانی گہرا تھا۔
’’اب تو تجھے جانے نہ دوں گی۔‘‘ راجپوتانی نے ہاتھ گھما کر اپنی تلوار دریا کے بہتے پانی میں دور پھینک دی اورراجپوت کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔
لیکن اس کے ہاتھ میں پانی کے صرف بلبلے ہی رہ گئے۔ راجپوت کا چہرہ پانی کے بہاؤ میں کچھ دور نظر آیا۔ راجپوتانی آگے بڑھی۔ قریب آنے کا اشارہ کرتا ہوا راجپوت اور بھی دور پہنچ گیا۔ راجپوتانی اور آگے بڑھی لیکن راجپوت اور بھی دور نظر آیا۔
چارن نے کنارے پر سے آواز دی۔
’’گراسنی واپس آجاؤ۔ آگے پانی گہرا ہے۔ وہ تو گیا مائی باپ! اب تم واپس آؤ۔‘‘
راجپوتانی نے مسکراکر بے حد شیریں آواز میں جواب دیا۔
’’دیوی پتر! اب تم ہنسی خوشی اپنے گھر جاؤ۔ میں تو اس دکھی گراسیہ کا گھر اب دوبارہ بسانے جارہی ہوں۔‘‘
حاشیہ
(۱) ’’گراس‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’لقمہ‘‘ بھیل اور راجپوت جیسی جنگجو قوم کو خاموش رکھنے کے لیے زمین یا گاؤں کا ایک حصہ گزربسر کے لیے انعام میں دے دیا جاتا تھا۔ اسی جائداد گو ’’گراسی‘‘ اور اس کے مالک یا زمیندار کو گراسیہ کہتے ہیں۔ اسی کے عوض یہ گراسیے گاؤں کی حفاظت یا رکھوالی کیا کرتے تھے۔ (مترجم)
(۲) راجا کے دربار میں رہ کر اس کے قصیدے کہنے والا بھاٹ (مترجم)
(۳) دیوتاؤں جیسے
(۴) چارن (بھاٹ) کو ’’دیوی پتر‘‘ (دیوی کا بیٹا) بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ فی البدیہہ قصیدے نظم کرتا ہے اور میدان جنگ میں فی البدیہہ جوشیلے ترانے کہتا ہے۔ چنانچہ کاٹھیاواڑ میں یہ عام اعتقاد ہے کہ چارن کی زبان پر سرسوتی دیوی (علم کی دیوی) بیٹھی ہے۔ اسی لیے وہ دیوی پتر ہے۔ (مترجم)
(۵) ایک قوم جس کے لوگ کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے ہیں۔
(۶) ’’ک‘‘ نہیں کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ’’ک۔ رت‘‘ کا مطلب ہے و ہ جو موسم ہے ہی نہیں۔ (مترجم)
(۷) کاٹھیا واڑی عورت
(۸) بھڈ کے لغوی معنی تو سپاہی کے ہیں مطلب یہ کہ بھوت کے ساتھ جنگ نہیں کی جاسکتی۔
(۹) قہر کی دیوی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.