Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رام محمد دہریہ

بلند اقبال

رام محمد دہریہ

بلند اقبال

MORE BYبلند اقبال

    کچھ دیر تک تو سجدہ ریز رہ کر دین محمد اپنے رب کو یونہی یاد کرتا رہا مگر پھر دو زانوں ہوکر جائے نماز پر بیٹھ گیا اور ایک گہرے کرب کے سا تھ اپنی بند آنکھوں میں اس کے کھوئے ہوئے عکس کو پھر سے ڈھونڈنے لگا مگر جب اسے کچھ بھی نظر نہیں آیا تو بے چین ہو کر آنکھیں کھول دی۔ ایک لمحے میں اسے یوں لگا جیسے سندر کماری سیتا کا حسین چہرہ اس کی پلکوں سے اترکر پتلیوں پر آکر ٹھیر گیا۔ دین محمد نے کئی بار پلکیں جھپکائیں مگر سیتا کی دل نشین مسکراہٹ یونہی اس کی نظروں کے سامنے منظر بنی رہی۔ دین محمد نے پلٹ کر دیکھا تو کمرے کے دوسرے کونے میں ا س کی پیاری سیتا اپنے سامنے دھری بھگوان کی مورتی کو بھول کر سارے جہاں کا پیار سمیٹے یک ٹک نظروں سے اسے تک رہی تھی۔ پل بھر میں اسے لگا جیسے سیتا بھی اس کی طرح اپنی پلکوں میں دین محمد کی شبیہ سجائے بیٹھی ہے۔ یہ دیکھ کر دین محمد دھیمے سے جائے نماز سے اٹھا اور پیار سے سیتا کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر اس کو اپنے گلے سے لگا لیا۔ کچھ دیر میں اسے لگا جیسے سیتا نے اس کا ہاتھ اپنے شانے سے ہٹاکر اپنے پھولے ہوئے پیٹ پر لگایا اور اس کے کان میں مسکراکر سرگوشی کی۔۔۔ سنوجی تم ٹھیرے دین محمد اور میں تمھاری سندر کماری سیتا تو پھر یہ تمھار ی اور میرے پیار کی نشانی کیا ہو ئی بھلا۔۔۔؟ دین محمد نے یہ سن کر سیتا کو پیار سے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور پھر اس کے نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اپنی آنکھیں دھیمے سے بند کر لیں اور کچھ دیر کے لیے اپنے ماضی میں کھو گیا۔۔۔

    وہ دن بھی تو غازی پور کے اور دنوں جیسا ہی تو تھا جس دن سُندر کماری سیتا کو دین محمد نے پہلی پہلی بار دیکھا تھا۔ اسے یاد آیا اس دن بھی تو وہی سورج اتم سے نکلا اور پچھم میں غروب ہوا تھا۔ اس دن بھی تو آوارہ ہوائیں ہمیشہ کی طرح بگولے بن کر اٹھیں تھیں اور سارے غازی پور میں دھول اڑا کر زمین پر رینگ رہیں تھیں۔ اس دن بھی تو آسمان ہمیشہ کی طرح بادلوں میں چاند کو چھپاکر انجان نظروں سے زمین کو تک رہا تھا۔ جس دن سندر کماری سیتا اپنے باپ پنڈت رام کمار کے ساتھ پہلی بار اسے بازار میں نظر آئی تھی ا ور پھر دین محمد کو پلکیں جھپکاتا سندر کماری سیتا کا سراپا اپنے حسین قد و خال کے ساتھ اس کی آنکھوں میں اتر آتا اور اس کی آنکھیں محبت سے بھر جاتی۔ ایسے میں دین محمد کا دل سیتا کی محبت میں یوں ڈوب جاتا کہ پھر اس کے بعد اس کی کوئی نماز ہوتی اور نہ ہی قضاء۔۔۔ وہ جو نیت باندھتا تو سیتا کا سراپا سر سراتا ہوا پلکوں کی چلمن کو سرکا کر اس کی نظروں کے پردوں پر اتر آتا۔ وہ جو رکوع میں جاتا تو سیتا کا سراپا آنکھوں سے اتر کر سینے میں دھڑکتا ہوا ملتا اور وہ جو سجدہ بجا لاتا تو سندر کماری سیتا کے سراپا مجسم کو اپنے دل کے نہال خانوں میں بسا ہوا پاتا۔ آہستہ آہستہ دین محمد کو یقین ہوتا جا رہا تھا کہ جیسے اس کی ساری عبادتیں محض سندر کماری سیتا کے حصول کے لیے ہی رہ گئی ہیں۔ بس ایسے میں ایک ہی خیال تھا جو اسے پسینہ پسینہ کر دیتا تھا کہ۔۔۔ سیتا ایک ہندو ناری ہے!

    ہوا جو تیز چلی تو پل بھر میں چنگاری بھڑکتی چلی گئی اور پھر محبت کی آگ میں سُندر کماری سیتا کے دن رات بھی جلنے لگے۔ پہلی بار تو وہ دونوں غازی پور کے سارے باسیوں سے چھپ چھپاکر مسجد کے پچھواڑے میں ملے اور دوسری بار مندر کی سیڑھیوں پر۔ پھر جوں جوں ان کی ملاقاتیں بڑھیں ان کے ملن کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے غازی پور میں پھیل گئی۔ غازی پور بھی کون سا غیر روائتی گاؤں تھا۔ وہی رنگ، نسل اور مذہب کی دھول میں اٹے ہوئے لوگ تھے۔ وہی نفرتوں سے بٹے ہوئے لوگ تھے۔ تو پھر وہی ہوا جو ہر محبت کی کہانی میں ہوتا ہے۔ وہ اور سُندر کماری سیتا راتوں رات غازی پور سے بھاگے اور تین سو کوس دور رانی پور میں آبسے۔ رانی پور کے مندر میں دین محمد نے سیتا کے گلے میں لگن کے ہار ڈال دیے۔ شادی کے بعد اس نے اپنا نام دین محمد ہی رہنے دیا اور سیتا نے سندر کماری سیتا ہی۔ نہ تو سیتا نے اسے ایمان چھوڑنے کو کہا اور نہ ہی اس نے سیتا سے دھرم بدلنے کو۔۔۔ دونوں ہی پیار کے خاطر ایمان بدلنے کو دھرم اور پیار دونوں سے بے ایمانی سمجھتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سال بیت گئے اور پھر ایک دن سندر کماری سیتا نے اس کے کان میں مسکراکر سرگوشی کی کہ وہ باپ بننے والا ہے اور پھر اٹھلا کر شکایت کی کہ جب سے میں اور تم ملے ہیں، میں نے مندر اور تم نے نماز چھوڑ دی ہے۔

    اچانک سندر کماری سیتا نے کسمسا کر دین محمد کے ہونٹوں سے اپنے نرم ہونٹ ہٹائے اور ہنس کر کہا۔۔۔ ’’اتنا بھی پیار نہ کرو میرا سانس رکتا ہے جی‘‘ تو دین محمد کی آنکھیں کھل گئی۔۔۔ دین محمد نے آہستہ سے سندر کماری سیتا کے پھولے پیٹ پر ہاتھ پھرتےہوئے کہا ’’تم کو پتہ ہے سیتا تمھارے ملنے سے پہلے جب میں نماز پڑھتے سمے آنکھیں بند کرتا تھا تو میری آنکھوں میں خداوند کریم اتر آ تے تھے اور جب آنکھیں کھولتا تھا تو وہ چلے جاتے تھے۔ جب سے تم مجھے ملی ہو میں نماز میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا اور جب آنکھیں کھولتا ہوں تو صرف تم ہی تم نظر آتی ہو‘‘۔ سندر کماری سیتا نے یہ سُن کر کہا ’’دین محمد تمھیں پتہ ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے شائد ہم دونوں ہی دہریے ہو گئے ہیں‘‘۔ دین محمد نے یہ سن کر مسکراکر سیتا کو دیکھا اور پھر اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پھولے ہوئے پیٹ کو چوم کر شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ’’تم ابھی مجھ سے پوچھ رہی تھی نہ کہ تم ٹھیرے دین محمد اور میں تمھاری سندر کماری سیتا تو پھر یہ تمھارے اور میرے پیار کی نشانی کیا ہوئی بھلا۔۔۔؟

    تو پیاری سیتا یہ ہے میرا اور تمھارا بیٹا اور اِس کا نام ہوگا۔۔۔‘‘ رام محمد دہریہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے