Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رات کا دکھتا دن

شمشاد احمد

رات کا دکھتا دن

شمشاد احمد

MORE BYشمشاد احمد

    دن بھر دھوپ کی آنچ میں جلنے والا نیم کا پیڑ لوٹتے پرندوں کو ہاتھوں ہاتھ سمیٹ رہا تھا۔ حوالدار جلال بان کی کھری چارپائی پر چت لیٹا اور آتی جاتی دھوپ اور آتے پرندوں کا کھیل دیکھنے میں مگن تھا۔ صحن میں ایک طرف کچی مٹی کے سلگتے چولہے پر رکھی کیتلی میں پانی کھولنے لگا۔۔۔ بھاپ کے مضطرب لپکے ڈھکنے سے الجھنے لگے۔

    حوالدار نے گلا صاف کیا۔۔۔ پھر آواز آئی۔

    ’’بیگاں۔۔۔ او بیگاں۔۔۔ باہر نکل‘‘۔

    بیگاں کمر پر ہاتھ رکھے تنکے کھاتی بھربھری،پتلی اینٹوں کی کوٹھڑی سے برآمد ہوئی اور چولہے کی طرف مڑ گئی۔ عین اسی لمحے رحمان باہر کے چوپٹ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا۔

    اس نے اپنا نیا نویلا بیگ احتیاط سے گھڑونچی پر خالی جگہ میں سجایا اور ماں کی طرف لپکا۔

    ’’بے بے۔۔۔ ایک کوپ میرے لیے بھی۔۔۔‘‘

    موتیے کی جھلیوں کے پیچھے ٹمٹماتی آنکھوں میں مامتا کی روشنی اتر آئی۔

    ’’آج میرا پت۔۔۔ اتنے سارے دنوں بعد میرے ہاتھ کی چائے پئےگا‘‘۔

    حوالدار، ماں بیٹے کو کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔

    اس کا جی اتھل پتھل ہونے لگا۔

    ’’نوکری لگ جانے کے بعد رحمان ایک دم سے بدل گیا۔۔۔ اس کی چہرے پر بھنبھناتی مایوسی غائب ہو گئی ہے اور اس کے کندھے سیدھے کھڑے ہو گئے ہیں۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ۔۔۔‘‘

    پریشانی کے ساتھ اسے کچھ اطمینان بھی ہوا۔۔۔چلو جیسا تیسا ایک بیٹا اب گھر تو رہےگا۔ بڑے بھائی کے متعلق رحمان کا رویہ یکسر بدل گیا تھا۔

    چائے پیتے ہوئے بیگاں ہمیشہ کی طرح سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی کوکھ کا ماتم کرنے نکل پڑی۔۔۔رحمن اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس لے آیا۔

    ’’چھوڑ بے بے اس قصے کو۔۔۔ بہت ہو گیا۔۔۔جو رشتہ فاصلے کا ایک جھٹکا برداشت نہ کر پایا، اس کا کیا رونا۔۔۔بھول جاؤ بھائی کو۔۔۔ اب وہ ہمارا نہیں رہا‘‘۔

    حوالدار نے رحمان کو بڑے بھائی کے ذکر پر ہمیشہ گرجتے برستے دیکھا تھا۔۔۔اس کے نئے روپ نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا۔

    ’’زہر اندر چلا جائے تو اور بھی خطرناک ہو جاتا تھا‘‘۔

    ’’ماہنے پت۔۔۔بڑی بھول ہوئی۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میں اپنا اور تمہارا۔۔۔سب کچھ اولاد کی بجائے ایک ڈاکو، لٹیرے پر لگا رہا ہوں۔۔۔پر میں نے تو سارے گھر کو اس مردار سے جوڑ رکھا تھا۔۔۔رقم گئی سوگئی، بیٹا بھی کھو دیا‘‘۔

    رحمان نے اچٹتی، اجنبی نگاہ باپ پر ڈالی اور چائے پینے لگا۔

    حوالدار کا دل گھٹنے لگا۔

    ’’ماں بیٹے نے اپنے دکھ کی سانجھ ڈال لی ہے اور مجھے اجنبی ساحل پر اکیلا چھوڑ دیا ہے‘‘۔

    رحمان نے اچانک زہر میں لتھڑا ایک بلند قہقہہ لگایا۔۔۔وہ اکثر ایسے بے وقت قہقہے لگانے لگا تھا۔

    ’’چاچا۔۔۔ بے بے، بھائی کی بیوی کی تصویر چھپ چھپ کر دیکھتی ہے‘‘۔

    بیگاں اپنی دونوں ہتھیلیاں ملنے لگی، ملتی چلی گئی۔

    ’’نہ پت نہ۔۔۔میں تو اس چڑیل میم کو دیکھتی ہوں۔۔۔اتنی گوری چٹی اور دل اتنا کالا۔۔۔ہم لوگوں کو اس طرح برباد کرتے اسے ذرا بھی خیال نہ آیا۔۔۔‘‘

    اچانک پیڑ میں زلزلہ آ گیا۔

    چڑیاں، کوے، لالیاں پھڑپھڑائے اور چیختے پیڑ کے اوپر، اردگرد چکر کاٹنے لگے۔ ایک سیاہ بلی تنے پر چڑھی، اپنی زرد آنکھیں گھما گھما کر حالات کا جائزہ لے رہی تھی۔ حوالدار نے اپنی جوتی اٹھائی اور پوری قوت سے وار کیا۔۔۔بلی ایک ہی جست میں بھاگ نکلی۔ رحمان اچانک پھٹ پڑا۔

    ’’یہ درخت مصیبت ہو کر رہ گیا ہے۔ ساری دنیا کے پرندے یہاں آ بسے ہیں۔۔۔اس گھر میں صبح آرام ہے نہ رات کو چین‘‘۔

    حقے کی نے حوالدار کے ڈھیلے دانتوں پر بجی۔۔۔درد کی لہر سے وہ تلملا اٹھا۔۔۔اس نے جلد ی سے اپنے آپ کو سمجھا لیا۔۔۔ اور بات ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی۔

    ’’ہمارا ایک انگریز افسرہوا کرتا تھا۔۔۔کہتا تھا کہ اگر نیم کا درخت ہمارے ملک میں ہوتا توہم اس کی پوجا کرتے‘‘۔

    رحمان نے جلدی سے چائے کی آخری سرکی لی۔

    ’’جس گھر میں نیم ہوتی ہے۔۔۔وہاں کوئی بیماری داخل نہیں ہو پاتی‘‘۔

    رحمان پاؤں پٹختا، سیڑھیاں روندتا اوپر جا چکا تھا۔

    حوالدار کی گٹھیلی انگلیاں حقے کی نے کے اردگرد گھومے چلی جا رہی تھیں۔

    بیگاں اس کی پائینتی آبیٹھی۔

    حوالدار پھٹ پڑا۔

    ’’دیکھ لیا۔۔۔ بڑا مان تھا بیٹوں پر۔۔۔‘‘

    بیگاں نے آنسو پونچھے۔

    ’’تم تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ کر چبانے لگتے ہو۔۔۔تھک تھکا کر آتا ہے۔۔۔اللہ جانے سارادن کہاں کہاں کھجل خراب ہوتا پھرتا ہے‘‘۔

    دونوں بھیگی آنکھوں سے ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔۔۔سچ سے دامن بچانے کے لیے جواز ڈھونڈتے رہے۔

    پھر بیگاں کے آنسو چمکنے لگے۔

    ’’جوان جہان مردنوکری سے لگ جائے۔۔۔کمائی کرنے لگے تو اسے بیوی چاہیے ہوتی ہے۔۔۔دیکھتی ہوں کوئی اچھی سی لڑکی۔۔۔سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘۔

    بیگاں نے حوالدار کے ہاتھ سے خالی کپ لے لیا اور لالٹین جلانے اٹھ کھڑی ہوئی۔

    نیم کے اندر زندگی رات اوڑھ کر سونے لگی تھی۔

    حوالدار کو حال بری طرح سے چبھنے لگا تھا۔۔۔وہ ایک زقند میں ماضی میں کود گیا۔۔۔کچھ عرصے سے وہ اکثر ایسا کرنے لگا تھا۔

    اس کا باپ باہر گلی میں دیوار کے ساتھ گڑھا کھود رہا تھا۔ اس کے برہنہ جسم پر پسینے کے قطرے ناچ رہے تھے۔

    اس نے آواز لگائی۔

    ’’جلال خاں۔۔۔اٹھا لا نیم کا پودا۔۔۔‘‘

    جلال خاں نے پودے کو پھول کی طرح اٹھایا اور باپ کے اشارے پر گڑھے میں رکھ دیا۔

    ’’جا۔۔۔ اندر سے وضو والا لوٹا بھر لا‘‘۔

    جلال خاں نے کم زور ہوا میں جھولتے لکیر جیسے تنے پر ہری شبنم پھوٹتے دیکھی۔۔۔پھر وہ شبنم کونپلوں میں ڈھلنے لگی۔۔ نیم کا پیڑ موجیں مارتا جوان ہوتا چلا گیا۔

    آدھے سے زیادہ پیڑ دیوار کے اوپر سے صحن میں چلا آیا تھا۔

    جوانی کا بیش تر حصہ حوالدار نے گھر سے دور چھاؤنیوں میں گزارا۔۔۔لیکن بڑھاپے کی گرم دوپہروں میں پیڑ اسے بہت راس آیا۔۔۔اسے سو فی صد یقین تھا کہ اس کے سینے کی کھڑکھڑاہٹ دبی رہتی ہے اور بھاری پتھر سانس آسان ہو جاتی ہے۔

    حوالدار صبح سویرے چڑیوں کی چھن چھن سے اٹھ جاتا تھا۔۔۔پھرجب کوے اور لالیاں ہنگامہ کرنے لگتے تھے تو وہ نماز کے لیے نکل جاتا تھا۔

    رحمان دھم دھم سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔وہ آج بھی لیٹ لگتا تھا۔

    اچانک قیامت آ گئی۔

    اس کے ہاتھ پر اوپر سے غلاظت کی ایک اچھی خاصی ڈھیری آن گری۔

    بیگاں دہشت زدہ اس کی طرف دوڑی۔

    ’’آ۔۔۔میں دھودوں‘‘۔

    رحمان نے ماں کا ہاتھ سختی سے جھٹک دیا۔

    وہ گھڑونچی کی طرف لپکا۔۔۔اور پیالہ بھر کر غلاظت بہا دی۔

    پھر زمین کوٹتا باہر نکل گیا۔

    حوالدار نے رحمن کی آنکھوں میں آنے والا طوفان دیکھ لیا تھا۔

    رحمان شام گئے لوٹا تو خلاف معمول پرسکون تھا۔

    حوالدار کا دل اچانک اس کے بس میں نہ رہا تھا۔

    ’’صبح وقت پر پہنچ گئے تھے؟ یہ کوا بڑا ہی خبیث جانور ہے‘‘۔

    رحمان نے مسکرانے کی کوشش کی۔

    ’’چاچا۔۔۔ تم جانتے ہو میری ڈیوٹی بڑی لمبی اور تھکا دینے والی ہے۔۔۔ اوپر سے ویگن کا روز کا سفر۔۔۔‘‘ اس کی نگاہیں نیم کی طرف اٹھ گئیں۔

    حوالدار چارپائی پر اکڑوں بیٹھ گیا۔

    ’’ٹھیک سے آنکھ لگتی نہیں کہ صبح ہو جاتی ہے‘‘۔

    رحمان منمنا رہا تھا۔۔۔ہتھوڑے پر روئی باندھ کر ضرب لگا رہا تھا۔

    ’’ایک اور لڑکا ہے۔۔۔ہم دونوں مل کر شہر میں کرائے پر کمرہ لیں گے۔۔۔میں چھٹی والے دن گھر آیا کروں گا‘‘۔

    صبح نیم کے پیڑ میں معمول کے مطابق زندگی پوری قوت سے اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔

    حوالدار کو جاگنا نہیں پڑا کہ وہ سویا ہی نہیں تھا۔

    رحمان اسے سوتا جان کر چپ چپاتے نکل گیا تھا۔

    بیگاں چائے لے آئی۔۔۔حوالدار کو آنکھیں کھولنا پڑیں۔

    بیگاں نے ایک نظر اس پر ڈالی اور تڑپ گئی۔

    ’’تم کیوں مرے جا رہے ہو؟ یہ بھی جاتا ہے تو جانے دو‘‘۔

    وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    حوالدار نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور چائے کی پیالی پکڑ لی۔

    چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اس نے دو گھونٹوں میں ختم کر دی۔

    وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ جوتی پہنی اور چل پڑا۔

    بیگاں دو چار قدم اس کے ساتھ چلی۔۔۔پھر رک گئی۔

    ’’صبح صبح کچھ کھائے بغیر کدھرچل پڑے ہو؟‘‘

    حوالدار نے کوئی جواب نہ دیا۔

    بیگاں نے دیوار کے سہارے کھڑی چھڑی لاکر اس کے ہاتھ میں دے دی۔

    ’’زیادہ تیزی نہ دکھانا۔۔۔سنبھل کر چلنا۔۔۔ابھی پچھلی چوٹوں کا درد نہیں گیا‘‘۔

    صدیق ماچھی نے حوالدار کی بات سنی تو سٹ پٹا گیا۔

    اسے مزدوری سے غرض تھی۔

    حوالدار نے اندر آکر پیڑ کے نیچے بچھی چارپائی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی۔

    اس نے آخری بار نیم کے اندر جھانکا۔

    درخت خالی تھا۔ پرندے زندگی کرنے نکل گئے تھے۔

    بیگاں کھرے کی بنی پر بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔

    کلہاڑے کی پہلی چوٹ پر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھاگی۔

    حوالدار نے اس کی کمر میں بازو ڈال کر اسے روک لیا۔

    صدیق ماچھی کا کلہاڑا اپنا کام کر رہا تھا۔

    دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سن کھڑے تھے۔

    پھر ایک کرخت بھدی آواز کے ساتھ نیم کا پیڑ چڑچڑاتا ہوا گر گیا۔

    اچانک صحن ننگا ہو گیا۔ تیز چمکتی دھوپ چھپا کے سے اندر گھس آئی۔۔۔

    حوالدار اور بیگاں نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور کان باہر دروازے پر لگا دئیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے